Pages

12/31/2005

آخری رابطہ

ہائے!! یہ میرا تم سے آخری رابطہ ہے، تمھارا میرا ساتھ خوب رہا! اس ساتھ میں کئی خوشی کے لمحے بھی آئے اور دکھوں کے پل بھی، مگر ہمارا آپس کا تعلق قائم رہا، اب تم سے دوری کا وقت آ گیا ہے،ہاں!میں تم سے دور جا رہا ہوں! مجھے نہیں معلوم تم خوش ہو یا غمگین، میں اپنی آخری سانسیں لے رہا ہوں! اگلے چند لمحوں میں مر جاؤ گا!میرے مرتے ہی ہمارے درمیان موجود رشتہ ٹوٹ جائے گا، تمہاری کوئی کوشش مجھے مزید زندگی نہیں دے سکتی، لمبے ساتھ کے بعد ایک پل کی مہلت کیا معنٰی رکھتی ہے؟ میری عمر ہی اتنی تھی ! یہ میں جانتا تھا، مجھے معلوم ہے کہ میرے جاتے ہی تم مجھے بھول جاؤ گے!!!! اس لئے میں تم سے یہ نہیں کہوں گا کہ تم مجھے یاد رکھنا! میرا جانا تمہیں یہ سمجھانے کہ لئے کافی ہے کہ ہر شے فانی ہے!!! میں بھی اور تم بھی!! فقط تمہارا سال دو ہزار پانچ ×××××××××××××× آج میں نے دوست سے کہا “بھائی نئے سال کی پیشگی مبارک“ جواب آیا “خیر مبارک!! ویسے میں مسلمان ہوں، میرے نئے سال کا آغاز ابھی نہیں ہوا“ لہذا اگر آپ ایسا نہیں سوچتے (یا سمجھتے) تو “نیا سال مبارک ہو آپ کو“

12/28/2005

گڑیا


جی!!! گڑیا ۔۔۔۔ ویسے تو یہ نک نیم (کہنے کو پیار کا لیکن اصل میں بگڑا ہوا) اکثر گھروں میں کسی نا کسی بچی کا ہوتا ہے ۔۔۔ مگر یہاں اس سے مراد وہ گڑیا ہے جو بچیوں کا کھلونا ہے۔۔۔۔ پہلے پہل ہمارے یہاں مائیں خود سے اپنی بچیوں کو گڑیا بنا کر دیا کرتی تھیں۔۔۔ چونکہ وہ ہی اس گڑیا کی خالق تھی لہذا وہ ہی اس کے متعلق کہانیاں بتاتی۔۔۔ “اس گڑیا کو وہ بچیاں اچھی نہیں لگتی جو بڑوں کا کہنا نہیں مانتی“ ، “ارے! بڑی بہن سے بدتمیزی کرنے والوں سے یہ گڑیا ناراض ہو جاتی ہے“ ، “دیکھو! رات ہو گئی ہے گڑیا کو نیند آ گئی ہو گی تم دونوں اب سو جاؤ تمہاری وجہ سے گڑیا بھی نہیں سوئے گی اور وہ بھی بیمار ہو جائے گی“۔۔۔۔ یوں جو گڑیا بچی کے لئے ایک کھلونا ہے تو ماں کے لئے بچی کی تربیت کا ذریعہ۔۔۔۔ خواہاں کوئی بات ہو گڑیا کو ایک ٹول کے طور پر استعمال کر کے تربیت کا ذریعہ تھی۔۔۔ بیمار گڑیا کی تیمارداری، اچھی گڑیا کی نشانیاں،اس کے لئے کپڑے تیار کرنے اور آخر میں اس کی شادی اور رخصتی ۔۔۔۔ بات سمجھانے کے طریقے۔۔۔۔
پھر گڑیا گھر میں تیار ہونے کے بجائے بازار سے آنے لگی۔۔۔ نئی نسل کے لئے نئی طرح کی گڑیا! ۔۔۔ جو باتیں کرنے لگی ،لیٹتے ہی آنکھ بند کر لیتی، بغیر سہارے کے کھڑی ہوتی ،بیٹھ جاتی، گانے سناتی، ہنستی، روتی غرض ہر طرح کے کام کرنے لگی۔۔۔۔ پھر ایک گڑیا آئی باربی ڈول! ۔۔۔ آئی اور چھا گئی۔۔۔ اب کوئی عام گڑیا نہیں چاہیے اب باربی چاہئے۔۔۔ اس کا گھر،لباس،اس کی ضرورت کی اشیاء خود سے بنانے کی ضرورت نہیں بلکہ دکان سے خرید لیں۔۔ اس کی دوست بھی ہیں اور اس کا دوست بھی(کین)۔۔۔
چونکہ یہ یورپین گڑیا تھی لہذا اسے علاقائی کہانیاں منسوب نہیں ہو سکتی تھی۔۔۔ اس کا حلیہ مغربی تھا! لازما غیر اسلامی بھی۔۔۔ لہذا اسلامی گڑیا تخلیق کی جانے کی کوشش کی جانے لگی! کبھی سارہ کے نام سے، کبھی لیٰلی کے نام سے اور کبھی کسی اور نام سے۔۔۔
فلا وہ گڑیا ہے جس نے باربی کو مشرقی وسطیٰ نکال باہر کیا ہے۔۔۔ ساڑھے گیارہ انچ کی اس گڑیا کی جو خوبی سب کو اچھی لگی ہے وہ یہ کہ یہ گھر سے باہر سر پر اسکاف باندھے ہوئے ہے، ایک لمبا لبادہ لے کر باہر جاتی ہے، اپنے والدین کی عزت کرتی ہے، استاد کا حکم مانتی ہے اس کے دوستوں کی فہرست میں یاسمین اور نادہ شامل ہیں اس کا کوئی بوائے فرنڈ نہیں ہے! یہ تخلیق ہے شام کی کمپنی “نیو بوائے“ کی۔۔۔۔۔
مزے کی بات ہے ہانگ کانگ کی جو کمپنی باربی بناتی ہے اسے ہی “نیو بوائے“ نے فلا بنانے کے لئے منتخب کیا ہوا ہے۔۔۔ یعنی جائے پیدائش ایک ہی۔۔۔۔








12/25/2005

قائد

فرینک مورس نے جو ایک ممتاز وکیل اور مصنف تھے عدالت کے کمرے میں قائد کے مقدمہ لڑنے کے بارے میں لکھا ہے کہ جب قائد مقدمے میں دلائل دے رہے ہوتے ہیں تو اس وقت انہیں دیکھنے میں لطف آتا ہے۔ بہت کم وکلاء کو مقدمہ لڑنے میں وہ مہارت حاصل ہو گی جیسی قائد کو حاصل تھی۔ ان کا مقدمہ لڑنے کا انداز ایک آرٹ ک حیثیت رکھتا تھا۔ قائد مقدمے کا گوشت چھوڑ کر اس کی جڑ اس کے گودے تک پہنچتے تھے۔ انہیں مقدمہ پیش کرنے میں کوئی خاص محنت نہیں کرنی پڑتی تھی۔ وہ مقدمہ پیش کرنے اور لڑنے میں استادانہ مہارت رکھتے تھے۔ جب وہ کسی مقدمے میں پیش ہوتے تو ان کی ممتاز شخصیت اور پر کشش انداز کو دیکھنے کیلئے عدالت کا کمرہ چھوٹے بڑے وکلاء سے بھر جاتا تھا۔ سننے والوں پر، چاہے وہ جج ہوں یا وکیل ہوں عجیب سحر طاری ہو جاتا تھا۔ وہ نڈر ترین وکیل تھے اور کوئی بھی انہیں مرعوب نہیں سکتا تھا
بشکریہ۔۔۔ نوائے وقت








ہم بھی خواب رکھتے ہیں

ہم بھی خواب رکھتے ہیں
نیم وار دریچوں میں
ہم بھی خواب رکھتے ہیں
جاگتی نگاہوں میں
ہم بھی چاہتے ہیں کہ
ہم بھی ایک دن آئیں
بس تیری پناہوں میں
دلنشین بانہوں میں
ہم بھی پیار کرتے ہیں
سے بے پناہ جاناں
اور اس محبت کا
اعتراف کرتے ہیں
روز تیرے کوچے کا
ہم طواف کرتے ہیں
ہم تو اس محبت میں
ایسا حال رکھتے ہیں
روز رنج لمحوں کو تم سے دور رکھتے ہیں
اور اپنے سر پر ہم
دکھ کی شال رکھتے ہیں
ہم تو یوں محبت کا
اہتمام کرتے ہیں
کرب زندگانی کو اپنے نام کرتے ہیں
تجھ کو خوش رکھیں گے کیسے
یہ خیال رکھتے ہیں
بس تیری محبت کے
ماہ سال رکھتے ہیں
ہم بھی خواب رکھتے ہیں
ہم بھی خواب رکھتے ہیں








12/20/2005

دو باتیں

میں نے کمرے میں پڑی چیزوں کو ایک نظر دیکھا اور اندازہ لگانے لگا کہ جب میں سیٹھ کو سچ بتاؤں گا تو وہ میرے سر پر گلدان مارے گا یا گلاس۔۔۔۔!!! اگر گلدان مارا پھر تو ٹھیک ہے ، لیکن اگر گلاس مارہ تو دو باتیں ہوں گی، یا تو میرا سر پھٹ جائے گا ،یا گلاس ٹوٹ جائے گا۔۔۔۔ اگر گلاس ٹوٹ گیا ، پھر تو ٹھیک ہے لیکن اگر میرا سر پھٹ گیا تو دو باتیں ہوگی۔۔۔۔ یا تو میں مر جاؤں گا ،یا مزید زخمی ہو جاؤں گا اور بے ہوش ہو جاؤں گا- اگر بے ہوش ہو گیا پھر تو ٹھیک ہے لیکن اگر مر گیا تو دو باتیں ہوں گی۔۔۔۔ یا تو سیٹھ میری لاش گھر والوں کے حوالے کر دے گا، یا جنگل میں پھینکوا دے گا۔۔۔۔۔۔۔اگر گھر والوں کے حوالے کردی تو ٹھیک ہے لیکن اگر جنگل میں پھننکوا دی تو دو باتیں ہوں گی۔۔۔ یا تو مجھے گدھ چاٹ جائیں گے یا کمیٹی والے اٹھا کر لے جائیں گے۔۔۔۔۔۔ گدھ چاٹ گئے ، پھر تو ٹھیک ہے لیکن اگر کمیٹی والے لے گئے تو دو باتیں ہوں گی۔۔۔۔۔ یا وہ مجھے دفنا دیں گے، یا میرا کیمیکل بنا دیں گے۔۔۔ دفنا دیا تو ٹھیک ہے لیکن اگر کیمیکل بنا دیا تو دو باتیں ہوں گی۔۔۔ یا تو مجھے کسی تیزاب میں استعمال کیا جائے گا۔۔۔۔یا صابن میں۔۔۔ تیزاب میں استعمال کیا پھر تو ٹھیک ہے۔۔۔ لیکن اگر صابن میں استعمال کیا تو دو باتیں ہوں گی یا یہ صابن مرد استعمال کریں گے ۔۔۔۔۔ یا عورتیں۔۔۔۔ اگر مردوں نے استعمال کیا پھر تو ٹھیک ہے۔۔۔۔ لیکن اگر۔۔۔۔۔۔ اوئی اللہ ۔۔۔۔ میں شرم سے سرخ ہو گیا۔۔۔۔۔ “ہرگز نہیں۔۔۔۔ہرگز نہیں۔۔۔“ میں نے جلدی سے آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے۔
اقتباس؛ “ٹائیں ٹائیں فش“_______________تحریر؛“گل نو خیز اختر

12/19/2005

جھولی بھر کے ذلت

پچھلے کچھ دنوں سے اخبار کا مطالعہ والے احباب کو علم ہو گا کہ کراچی بار میں الیکشن تھے۔۔۔ جن میں کچھ حد تک وہ ہی سیاسی رنگ نظر آیا جو ہماری سیاست کا روپ ہے ، لڑائی ۔۔جھگڑا۔۔۔ الزام۔۔۔ اور اور۔۔۔ قانونی بندے غیر قانونی حرکتیں۔۔۔ الیکشن والے دن جھگڑا بلکہ جھگڑے ٹھیک ٹھاک ہوئے۔۔۔ کئی بار (چار سے چھ بار) الیکشن روکنا پڑا۔۔۔۔ الیکشن میں ایک امیدوار کے ساتھ ہم بھی تھے (مگر مجال ہے جو کوئی غلط کام کیا ہو)۔۔۔ وہ تھے میرے سینئر(جنرل سیکریٹری کے لئے)۔۔۔ مگر جو آج ہوا وہ تو آخیر تھا۔۔۔۔ کراچی میں وکلاء کی تعداد ہے تیرہ ہزار۔۔۔ ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں چھ ہزار۔۔۔۔ الیکشن میں ووٹ ڈالے گئے اٹھائیس سو۔۔۔۔ ان میں میرا ووٹ نہیں تھا کیوں؟؟؟؟؟۔۔۔ جناب ابھی انرولمنٹ نہیں ہوئی نا!!!!! ۔۔۔۔۔ ہاں تو بات ہو رہی تھی آج کیا ہوا۔۔۔ آج یہ ہوا کہ کل دس یا بارہ وہ امیدوار جنہیں اپنے ہارے جانے کی پوری امید تھی وار (جھگڑے) پر اتر آئے۔۔۔۔ اور انہوں نے تمام بیلٹ پیپر کو پھاڑ دیا جس کمرے میں پیپر تھا اسے توڑ دیا۔۔۔ دس افراد نے کیا کیا۔۔۔ اٹھائس سو ووٹ کو ۔۔ افراد کی رائے کو۔۔۔ کچھ نہ جانا۔۔۔۔ مگر بدنامی ہوئی تمام وکلاء کی۔۔۔۔۔۔ اخباری رپوٹرز آئے۔۔۔ تصاویر لیں ۔۔۔ خبر حاصل کی اور چلے گئے۔۔۔ جنگ اخبار کے رپوٹر ( وہ میرے ہم نام ہی تھے) نے خبر حاصل کی ۔۔ جانے جانے کہنے لگا “ ایک بات کہتا ہو بری تو لگے گی، آپ لوگ کریم آف دی سوسائٹی ہیں مگر ساتھ آپ سے اچھے الیکشن تو مراثیوں کے ہوئے ہیں“ (آرٹ کونسل کے الیکشن کی طرف اشارہ)۔۔۔۔ اپنا حصہ جھولی بھر کے ذلت۔۔۔۔

12/18/2005

الفاظ

جی چند الفاظ ہمارے اخبارات والے استعمال کرتے ہیں ان سے مجھے اختلاف ہے۔۔۔۔ جیسے “قوم پرست“ جماعت۔۔۔۔۔ اب یہ لفظ ان سیاسی جماعتوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جو ملک میں عصبیت کو فروغ دیتی ہیں۔۔۔۔ جو ایک قوم کو تقسیم کر کے کئی قوموں میں منقسم کرنے کی کاوش میں لگی ہوئی ہیں۔۔۔ “کلعدم جہادی تنظیم“۔۔۔۔ کیا وہ جہادی تنظیم ہے ؟؟؟ اگر ہاں تو اسے کلعدم نہ کہا جائے اگر وہ جہادی نہیں تو اسے کلعدم تنظیم کہا جائے یا یہ بھی نہیں تو کم از کم اسے نام نہاد جہادی تنظیم لکھا جائے یعنی صرف نام کی جہادی ورنہ دہشت گرد۔۔۔ آپ کی نظر میں کوئی لفظ؟؟؟؟؟؟

12/08/2005

خواب

میرا خواب ہے کہ میرا ملک دنیا کا سب سے اچھا ملک بن جائے۔۔۔۔ اس کی سب برائیاں ختم ہو جائے۔۔۔۔۔۔ اس میں انصاف کا بول بالا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اور۔۔۔۔۔ آواز“روکو تم سوئی ہوئی قوم کے فرد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خواب سوئے ہوئے لوگ دیکھتے ہیں۔۔۔۔ پچاس سال سے خواب پر ہی گزارا کر رہے ہو۔۔۔۔عملا بھی کچھ کرو“

12/02/2005

مت تھوکیں

ہائی کورٹ میں ایک جگہ یہ جملہ لکھا ہے "برائے مہربانی یہاں پر مت تھوکیں" دوست کہنے (مذاق) لگا جس کے پاس مت(عقل) نہ ہو وہ کیا تھوکے۔۔۔۔ ویسے کیا ہم میں اتنی بھی سمجھ بوجھ نہیں کہ ہم خود سے جانیں کہ کیا غلط ہے کیا درست۔۔۔ جو ایسی سادہ باتیں بھی اب لکھ کر حکم کی شکل میں لگائی جائیں۔۔۔۔۔ مزید افسوس یہ کہ اس پر بھی عمل نہیں ہوتا۔۔۔کیوں؟؟؟ کوئی جواب ہے آپ کے پاس

11/25/2005

ہائے نی اڑیوں

گانا بدھا سہرا بدھا لھدا اینج وچھیرابدھا لڑیاں چُک چُک ویکھن کڑیاں ہائے نی اڑیوں کہڑا بدھا سارے گھر وچ مرچاں لائیاں گلیاں باروں تک سجائیاں چار چوفیرے چانن کرکے میرے آگے نیرا بدھا شادی پھار دا دوجا نانواں دیندا ہر کوئی اے سرناواں جنہوں پچھاں اوہو آکھے کھوتے پیچھے ریڑا بدھا کرماں والا جوڑا ویکھو ماواں دا اج ٹورا ویکھو لکھ سلاماں نائیاں تینوں جھنے سارا ویڑا بدھا خلقت ساری لنگ گئی آگے ہون تے سانوں مہندی لگے کدی نہ کھلیا ساتھو اوہ کر تاگا اساں جیڑا بدھا لکھا جوڑ میں جوڑے آپی ،تیلی نال میں دنیا ناپی آخر اوتھے ہوندا اکبر جتھے لیکھ لکھیڑا بدھا بڑی آزادی بڑیاں لہراں کیتیاں تو رج رج سیراں پنجرہ ویکھ دوالے اپنے آخر توں وی شیرا بدھا نیھری جھکڑ تیز ہواواں تلکن ہو گیاں ساری راواں دھکا مار ڈگانہ مینوں ڈاھڈا پیر وے پیرا بدھا کچا کلا مٹی لاواں تھک گئیاں نے دوویں بانواں بارش مٹی دھو جاندی اے کنی وار بنیرا بدھا ککڑ سارے بانگاں دیندے بانگاں کئیاں رنگاں دیندے اکو گل ای کیندے جاندے ہائے جوائیاں پھیرا بدھا شادی دے دن چھاپہ وجیا ہر کوئی جتیاں چھد کے پجیا کنداں اوہلے لُک لُک چھپن ویکھو کہڑا کہڑا بدھا کنداں نال نے کنداں جڑیاں فیر وی رہندیاں ہر ٹائم لڑیاں بھل گئے سارے اپنی اڑیاں ویکھو رب نے بیڑا بدھا خوشیاں دے دیہاڑے ئے نوے پرانت لاڑے آئے کئی تے سک کے ٹینگر ہو گئے کئیاں نے ماس ودھیڑا بدھا ربا سب وڈھیائیاں تینوں صفتاں نال بَڑائیاں تینوں کدے نہ ٹٹے بندھن اوہ کر رحمت تیری جھیڑا بدھا اکو گل نے گل مکائیے سہرا بہتا نی لٹکائے رانجھےتخت ہزارہ چھڈیا پچھوں لوکاں کہڑا بدھا
یہ مزاحیہ پنجابی کی نظم میرے ماموں نے اپنے بھتیجے اور بھانجی (میری بہن) کی شادی پر لکھی۔۔۔ میری مصروفیت کی وجہ بھی یہ شادی تھی ۔۔۔۔ لاہور سے بارات کراچی آئی تھی۔۔۔ پھر ہم لاہور گئے۔۔۔اللہ اسے اپنے گھر میں خوش رکھے۔۔۔۔

11/15/2005

راستوں کی مرضی ہے

بے زمین لوگوں کو بے قرار آنکھوں کو بد نصیب قدموں کو جس طرف بھی لے جائیں راستوں کی مرضی ہے بے نشان جزیروں پر بدگمان شہروں میں بے زباں مسافر کو جس طرف بھٹکادیں راستوں کی مرضی ہے روک لیں یا بڑھنے دیں تھام لیں یاگرنے دیں وصل کی لکیروں کو توڑ دیں یا ملنے دیں راستوں کی مرضی ہے اجنبی کوئی لا کر ہمسفر بنا ڈالیں ساتھ چلنے والوں کی راکھ بھی اُڑا ڈالیں یا مسافتیں ساری خاک میں ملا ڈالیں راستوں کی مرضی ہے بے زمین لوگوں کو بے قرار آنکھوں کو بد نصیب قدموں کو جس طرف بھی لے جائیں راستوں کی مرضی ہے (مصروفیت تا حال جاری ہے)۔

11/06/2005

غیر حاضری۔۔

اچھا جناب چند دنوں کے لئے اجازت دیں اب ہم نہ تو محفل میں جائیں گے نہ بلاگ پڑھے گے نہ لکھے گے۔۔۔۔ صرف چند دن۔۔۔۔

11/03/2005

عید مبارک ۔۔۔

سب کو عید مبارک ہو

کرتا تے ڈیڈھ

یہ اس وقت کی بات ہے جب میں گریجوایشن میں تھا۔ہمارے ایک کلاس فیلو نے نیٹ کیفے کا آغاز کیا۔ہم اس کے کیفے گئے کہ دیکھے کہ کیسا ہے۔وہ دوست ہمارے نیٹ پر تحریری گفتگو کی لت میں مبتلا نظر آئے۔۔۔۔ ہم دوستوں سے بات کرنے کے علاوہ وہ ایک غیر ملکی خاتون کو بھی بہلا رہے تھے اس سلسلے میں وہ وہاں موجود دوست احباب سے بھی مشورہ کر لیتے کہ اس نے یہ لکھا ہے میں کیا کہوں؟؟؟ اس ہی دوران اس صاحبہ نے کچھ دیر کی مہلت طلب کی کہ ان کا بچہ اٹھ گیا ہے لہذا کچھ دیر کے لئے معذرت۔۔۔۔ پھر وہ کوئی 15سے 20 منٹ بعد دوبارہ نمودار ہوئی ۔۔۔۔ ہمارے دوست پھر ان سے تحریری گفتگو میں لگ گئے۔۔۔۔ اب جو انہوں نے ان کے خاوند کی خیریت معلوم کی تو موصوفہ نے انکشاف کیا کہ کیسا خاوند میں تو اپنے بوائے فرینڈ کے ہمراہ رہ رہی ہو۔۔۔ بچہ ہم دونوں کو تھا۔۔۔ اس راز سے پردہ اٹھنے پر ہمیں اتنی حیرت نہ ہوئی کیونکہ ہم جانتے تھے کہ یورپی ممالک میں ایسا ہوتا ہے۔۔۔ وہ ہماری نظر میں پہلے ہی ایسے معاملات میں بدنام تھے۔۔۔ “بد سے بدنام برا“ یہ تو لازمی طور پر وہ کیس ہو گا جس میں زنا دونوں ہی کی مرضی سے ہو ہو گا (ممکن ہے میرا قیاس غلط ہو)۔۔۔۔۔ اہل مغرب زناباالجبر کو ہی قابل سزا تصور کیا جاتا ہے۔۔۔ جو باہمی رضامندی سے ہوا وہ تو پیار ہے۔۔۔۔۔ اس وقت امریکہ میں ہر دو منٹ پر ایک عورت جنسی تشدد کا شکار ہو رہی ہے (امریکی محکمہ انصاف)۔یو ایک گھنٹہ میں 30،ایک دن میں(چوبیس گھنٹوں میں) 720 ،ایک ماہ میں21600، اور سال میں یہ تعداد259200 ہے(عام را$ے یہ ہے کہ اصل توداد جچھ ذیادہ ہی ہے کم نہیں)۔۔ دنیا میں سب سے ذیادہ جنسی تشدد اور ریپ سے متعلق جرم امریکہ میں ہوتے ہیں ۔ان میں سے صرف 16 فیصد اس ملک میں پولیس کے علم میں آتے ہیں۔ہر چار میں سے ایک ریپ پبلک پلیس یا پارک میں ہوتا ہے۔۔۔۔ اس میدان میں بھی بھی وہ سپر پاور ہے ۔۔۔ امریکہ میں ریپ کی شرح جرمنی سے چار گنا، انگلینڈ سے 13گنا، اور جاپان سے 20 گنا ذیادہ ہے۔۔۔برطانوی پولیس کے مطابق 1994ء میں جنسی جرائم کی تعداد 32000 تھی جو رپورٹ ہوئیں۔۔۔ پاکستان میں ہر سال 600ء زنا باالجبر کے واقعات پولیس اسٹیشن میں رپورٹ ہوتے ہیں ۔۔۔۔ ایک آزاد سروے کے مطابق قریب ہر گھنٹہ میں دو زنا باالجبر کے واقعات ہوتے ہیں (ممکن ہے یہ تعداد ٹھیک نہ ہو مگر یہ ایک اندازہ ضرور دیتی ہے کہ شرح کیا ہے) مگر اس کے باوجود آج بدنامی ہمارے سر ذیادہ ہے۔۔۔۔ ہم بد نہیں بدنام ضرور ہیں۔ اس وقت مختاراں مائی امریکہ کے دورے پر ہے۔۔۔۔ گلیمر ایواڈ وصول ہو چکا ہو گا۔یہ ایواڈ ایک ایسے رسالہ کی طرف سے دیا گیا جو فیشن سے متعلق خبریں دیتا ہے۔۔ میں یہ ہر گز نہیں کہتا نہ سمجھتا ہوں کہ مائی مختاراں غلط ہے۔۔۔ میں اس بات سے سو فیصد متفق ہو کہ اسے انصاف کے لئے جدوجہد کرنی چاہئے۔۔۔ وہ جرگہ کے غلط فیصلہ کی نظر ہوئی۔۔۔ اس کے لئے پاکستانی قوم کو آواز بلند کرنی چاہئے۔۔۔ ہمیں اس کا ساتھ دینا چاہئے۔۔۔ مگر ۔۔۔ اسے ملک کی بدنامی کا سبب نہیں بنانا چاہئے۔۔۔ وہ باہر گئیں اس سے متعلق بیرونی میڈیا نے فیچر لکھے اس واقعہ پر فیچر مووی تیار کی گئیں لوگوں میں ملک کا روشن ہوا ہو گا؟؟؟؟؟ اچھا تاثر ابھرا ہو گا؟؟؟ کیا لوگ ہمیں جنگلی نہیں کہے گے؟؟؟ وہ جو خود ہم سے ذیادہ اس گناہ میں مبتلا ہیں وہ ہم پر آواز کسے۔۔۔ کیا یہ اچھا ہے؟؟؟ اب معلوم ہوا ہے کہ مختاراں مائی نے کرسٹینا روکا سے مل کر حدود آرڈینس ختم کرانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ جی مختارہ مائی خود مختار ہے۔۔۔۔جو چاہے کرے۔۔۔۔۔شائد کسی “مائی“ نے مختاراں مائی کو پنجابی کا کرتے اور ڈیڈھ (پیٹ) والا محاورہ نہیں بتایا نہ سمجھایا ہے۔۔۔۔ باقی آج کل وہ خود جن کے ساتھ ہوتی ہے ان کا تو کرتے(قمیض) میں دامن ہی نہیں ہوتا۔۔۔۔ خود کرتا(قمیض) اتنی انچی ہوتی ہے کہ اگر سر پر بھی کھجلی کرو تو پیٹ برہنہ ہو جاتا ہے لہذا ان کو اس کا مطلب سمجھانا فضول ہے۔۔۔۔ یہ لو ایک اور زہر افشانی۔۔۔

10/28/2005

اصل امدادی۔۔۔؟؟؟؟؟

جنیوا میں ڈونرز ممالک نے 58 کروڑ ڈالر امداد دینے کا وعدہ کیا ہے اور عالمی بینک نے بھی 20 کروڑ کا عارضی قرضی دینے کا وعدہ کیا ہے زلزلہ زدگان کی امداد کے لئے۔۔۔ یہ بات میں نے بڑی خوشی سے اپنے دوست کو بتائی تو وہ کہنے لگا بس “لارا“ ہے اور کیا ہے اور اگر دے بھی دیں تو احسان کی جتائے گے۔۔۔۔۔ میں کہا “وہ تمہاری امداد کر رہے ہیں اس مشکل وقت میں اور تم نکھرے کر رہے ہو ہمیں ان کی امداد کی ضرورت بھی ہے ہمارا ملک تیسری دنیا کا ایک غریب ملک ہے، ایک ترقی پزیر ملک، جس کی سلانہ آمدن تقریبا 13.45 بلین ڈالر ہے جس کے سلانہ مصارف 16.51 بلین ڈالر ہو یوں جس ملک کے بجٹ کا خسارہ 3 بلین ڈالر ہو اسے اچانک 5 بلین ڈالر کا نقصان ہو جائے جس ملک میں کئی لوگ یا تو ناگہانی آفت سے ہلاک ہو جائے یا زخمی یا معذور اس کے لئے ایسی امداد کافی ہے بلکہ ہمیں ان کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ انہوں نے ہماری مدد کی“۔۔۔۔۔مسکرا کر کہنے لگا“ شکر گزار۔۔۔ہوں!۔۔۔۔تم نے ان کے آگے انسانیت کے نام پر کشکول کیا۔۔۔ دامن پھیلایا اور ان لوگوں نے دیئے 1 بلین ڈالر اب تک ۔۔۔جن میں نصف تو دی بھی نہیں بس وعدہ ہے۔۔۔ “ مجھے اس پر بہت غصہ آیا میں نے کہا “ تم ہر بات کا غلط رخ دیکھتے ہو“ وہ صاحب کہنے لگے“ تم ہی ٹھیک راستہ دیکھ لو۔۔ایک رپورٹ کے مظابق 1998ء یہ تمہارا امریکہ جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تمہیں اپنا پاٹنر کہتا ہے اس کے شہریوں نے سالانہ 8 بلین ڈالر تو میک اپ پر خرچ کر ڈالے ،یہ اہل یورپ 11 بلین ڈالر کی تو صرف آئس کریم کھا گئے، اہل امریکہ اور یورپ نے 17 بلین ڈالر کی پرفیوم خرچ کی، جاپان نے 35 بلین ڈالر انٹر ٹینمنٹ پر لگائے، 50 بلین ڈالر کے اہل یورپ نے صرف سگریٹ پھونک ڈالے، یورپ والے 105 بلین ڈالر کی شراب پی کر مست ہوئے، اس دنیا نے 400 بلین ڈالر کی منشیات استعمال کی اور 780 بلین ڈالر اسلحہ پر لگا دیئے اب 2005ء میں اس میں کافی اضافہ ہو گیا ہو گا مثلا اگر 1994ء میں امریکیوں نے اپنے پالتو جانوروں پر 17بلین ڈالر خرچ کئے تو 96ء میں یہ رقم 21بلین ڈالر ہو گئی 99ء میں 23 بلین تک جا پہنچی،2001ء میں 28.5 بلین ڈالر اور 2003ء میں 32.4بلین ڈالر ان امریکیوں نے اپنے جم اور ٹم پر خرچ کئے“۔۔۔۔۔میں نے اس کی طرف گھور کر دیکھا اور کہا“ تو! تم اب کیا چاہتے ہوں کہ وہ اب کیا کرے جتنے انہوں نے تمہیں دے دیئے ہیں اس کے علاوہ کیا اب وہ اپنا پیٹ کاٹ کر دیں کیا۔۔۔۔ویسے بھی ہم خود اپنا خرچہ کم کر رے ہیں اپنے ان بھائیوں کی مدد کے لئے“ اس نے سینے پر ہوتھ باندھے اور اپنے سیدھے ہاتھ سے اپنی ٹھوڈی کو پر کر بولا“ میں تو یہ کہہ رہا ہو کہ اگر وہ دینا چاہے تو ان اخراجات میں سے رقم نکال کر دے سکتے ہیں میں نے ان کے ان خرچوں کی بات نہیں کی جو لازمی ہیں اور دوسرا تم نے کون سے خرچے کم کر دیئے ہیں؟؟“ میں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا“بھائی! میری مراد اپنے حکمرانوں اور لیڈروں سے ہے۔۔۔۔ اب دیکھوں نا انہوں نے اپنی ایک ایک ماہ کی تنخواہ پوری کی پوری (ذرا زور دے کر) ریلیف فنڈ میں جمع کروادی۔۔۔ اس کے علاوہ بھی وہ متاثرین کی خیریت معلوم کرنے ۔۔۔ان کی حوصلہ افزائی۔۔۔ان کا دکھ بانٹنے۔۔۔۔ان کے آنسو پونچنے۔۔۔کے لئے ان کے درمیاں ہوتے ہیں“ وہ مسکرایا(مجھے یوں لگا جیسے وہ میرا مذاق اڑا رہا ہو)۔۔“ کہنے لگا یہ تمہارے لیڈر جو ان متاثرین کے پاس جاتے ہیں ان کا مقصد مدد کرنا نہیں مدد لینا ہوتا ہے۔۔۔یہ میڈیا سے اس موقعہ پر مدد لیتے ہیں اپنی تشہیر کی ۔۔۔ یہ دکھ نہیں بانٹتے یہ آنسو نہیں صاف کرتے یہ تو اپنی فلم بناتے ہیں یہ اگر امداد کرے تو خبر لگاتے ہیں اتنی امداد دی کسی اور نے دی کیا۔۔۔ان کی امداد اخباری بیانات اور تصاویر پر مشتمل ہو تی ہے۔۔۔یہ تو امداد میں دیئے گئے کفن پر بھی اپنے نام کے ٹھپے لگاتے ہیں۔۔“ میں نے آہستگی سے کہا “اور وہ پوری تنخواہ“۔۔۔ کہنے لگا“ اس کی بھی خوب کہی ۔۔۔ اگر مجھ سے پوچھوں تو میں تو کہتا ہو کہ یہ تنخواہ خود لے لیتے مگر یہ جو انہیں مختلف مراعات کی مد میں جو رقم ملتی ہے وہ ریلیف فنڈ میں جمع کروا دیتے۔۔۔تنخواہ کتنی ہے ان کی یہ ہی کوئی 35 سے 50 ہزار نا بس! مگر ان کو مہینے کے آخر میں رقم ملتی ہے کو 7سے8 لاکھ یا اس سے کچھ ذیادہ ۔۔۔یہ کیا ہے جی یہ گھر کی سجاوٹ کی مد میں ہے کوئی ڈیڑھ لاکھ تک یہ کیا ہے جی یہ ٹریول الاؤنس ہے یہ کیا ہے جی یہ فلاں الاونس اور یہ فلاں۔۔۔اگر یہ دیتے تو بات تھی مگر یہ اس ملک کے 50 ارب روپے حکومت چلانے کے نام پر خود پر تو خرچ کرسکتے ہیں مگر امداد میں بس اپنی تنخواہ دہتے ہیں نہ مراعات کی مد میں ملنے والی رقم نہ کمیشن “۔۔۔۔میں نے اس سے پوچھا تو کیا اس ملک کے عوام نے بھی کیا مدد نہیں کی اپنے ان متاثرین بھائیوں کی۔۔۔۔“ اس نے ایک لمبی سانس لی اور کہا “ہاں! کی ہے ۔۔۔ اس ملک کی غریب عوام نے ہی تو مدد کی ہے۔۔۔ان ہی کی تو امداد پہنچی ہے۔۔۔۔اس ملک کے ان ڈھائی فیصد نے نہیں کی جو ملک کے 98 فیصد پر قابض ہیں۔۔۔جو ملک کے 160 ارب روپے کھا گئے جو 10ارب روپے کی غیر ملکی شراب پینے ہیں سالانہ، جو27ارب روپے جوئے میں ہار جاتے ہیں،ہر سال 5ارب سے کچھ ذیادہ مجروں،ریچھ کی لڑائیوں،کتا ریسوں، اور بٹیربازیوں جیسی خرافات میں خرچ کرتے ہیں، جو ہر سال 40 کروڑ کی نئی گاڑیاں لیتے ہیں،2 کروڑ کا تمباکو پیتے ہیں،انہیں نے نہیں دی امداد۔۔۔۔اگر دی بھی تو صرف اتنی جو ان کے ایک یا دو دن کے خرچے جتنی ہو ۔۔۔وہ بھی خبر لگوا کر“۔۔۔۔ میں نے اس کی طرف دیکھا اور کہا“ تمہیں تنقید کی بیماری ہو گئی ہے بھائی! اپنا علاج کرواں“۔۔۔۔یہ سنتے ہی وہ بھڑک اٹھا“ تم اسے تنقید کہتے ہو،تم اسے بیماری کہتے ہو،تمہیں اس میں میرا دکھ نظر نہیں آتا“ میں ے کہا “ہاں یہ تنقید ہے ۔۔۔۔ تنقید۔۔۔۔اور بس۔۔۔خومخواہ کی نقطہ چینی“ اور یہ کہتے ہوئے اٹھا اس سے ہاتھ ملایا اور گھر کی طرف چل پڑا۔۔۔وہ پیچھے سے کہنے لگا یہ تنقید نہیں یہ دکھ ہے۔۔۔۔یہ واویلا ہے۔۔۔۔یہ حق کی آواز ہے۔۔۔۔۔ مجھے منہاجین کا جملہ یاد آ گیا جو اس نے محفل میں کئی جگہ پر لکھا ہے “لکھ دیا ہے تا کہ سند رہے“ (کچھ حوالوں کی تصدیق یہاں(1,2,3) سے ہو جائے گی باقی اخباری رپوٹوں اور مختلف کالموں سے مستعار لیئے ہیں ان کے لنک فراہم کرنا ممکن نہیں کیونکہ وہ نیٹ پر نہیں ملے)

10/21/2005

بونوں کا دیس

رفیع الدین احمد 1970ء میں اقوام متحدہ میں ملازم ہوئے اور 29 سال کی خدمات کے بعد 1999ء میں ریٹائر ہو گئے۔زندگی کے ان قیمتی برسوں میں وہ متعدد کلیدی عہدوں پر فائر رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے حکومت سے درخواست کی کہ اگر انہیں نیویارک کے پاکستانی مشن میں ایک میز اور ایک کرسی دے دی جائے تو وہ پاکستان کے لئے بلا معاوضہ کام کرنے کو تیار ہیں۔ یہ درخواست اقوام متحدہ میں پاکستانی سفیر احمد کمال کے ذریعے اس دور کے کے سیکرٹری خارجہ شمشاداحمد کے حضور پہنچی ، سیکرٹری خارجہ نے شکریہ کے ساتھ یہ درخواست مسترد کردی۔ چند ہی روز بعد اقوام متحدہ کے انتہائی اہم ادارے “یواین آئی ایف ای ایم“ کے اہڈوائزر اور ولڈٹورازم آرگنائزیشن کے نمائندے بھی منتخب ہو گئے، 2003ء کا اپریل آیا تو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے انہیں رفیع الدین احمد کو عراق کے لئے خصوصی مشیر چن لیا، یہ عہدہ لمحہ موجود میں اقوام متحدہ کی سب سے اہم پوزیشن ہے۔ جناب رفیع الدین احمد کی مثال نے ایک بار پھر ثابت کردیا،ارض پاک کو حقیقا اچھے، قابل اور مخلض لوگوں کی ضرورت نہیں۔ ہماری 55 سالہ تاریخ ایسے لوگوں کی حوصلہ شکنی کی گوہ ہے۔1961ء میں ایوب خان نے ملکی قوانین کو شریعت کے قالب میں ڈھالنے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت پوری دنیا میں دع بڑے مسلم دانشور تھے، ایک جناب پرفیسر حمیداللہ اور دوسرے ڈاکٹر فضل الرحمن۔ پروفیسر صاحب پیرس میں مقیم تھےاور ڈاکٹر صاحب کینڈا کی میکگل یونیورسٹی سے وابستہ تھے۔ ایوب خان نے دونوں سکالروں کو پاکستان بلانے کا فیصلہ کیا۔ یہ فریضہ فرزند اقبال ڈاکٹر جاوید اقبال کو سونپا گیا۔ جاوید اقبال دسمبر 1961ء میں کینیڈا اور پیرس گئے، پروفیسر حمیداللہ نے فورا انکار کردیا، پروفیسر صاحب کا کہبا تھا “میں حیدرآباد سے نکلا تو سیدھا پاکستان گیا لیکن پاکستان کی یونیورسٹیوں کے باسیوں نے مجھے وہاں آباد نہیں ہونے دیا جبکہ ڈکٹر فضل الرحمن نے یہ درخواست قبول کرلی۔ ایوب خان نے انہیں اسلامی نظریاتی کونسل کا سربراہ دیا لیکن مقامی علماء نے ان کے خلاف فتوٰی جاری کرنا شروع کردیئے، وہ دلبرداشتہ ہو کر واپس چلے گئے جہاں انہیں شکاگو یونیورسٹی نے قبول کر لیا اور وہیں انتقال فرما گئے آپ ڈاکٹر عبدالسلام کو لیجئے، ڈاکٹر صاحب نے 1951ء میں گورنمنٹ کالج جوائن کیا، وہ کوئی سنجیدہ کام کرنا چاہتے تھے، انہوں نے انتظامیہ سے درخواست کی“میں سنجیدہ کام کرنا چاہتا ہوں“۔ کالج انتظامیہ نے انہیں فٹبال ٹیم کا کوچ بنادیا۔ انہوں نے کچھ عرصہ بعد دوبارہ درخواست دی تو انہیں ہاسٹل کے وارڈن کی ذمہ داریاں سونپ دی گئیں ، وہ 1954ء میں ملک چھوڑ کر چکے گئے۔ انہیں امپریل کالج لندن نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور تھیورٹیکل فزکس کا سربراہ بنا دیا۔ وہاں سے وہ اٹلی گئے اٹلی کی حکومت نے ٹریسٹ میں ان کے نام سے ایک لیبارٹری بنائی، انہیں 1979ء میں بوبل پرائز ملا، معروف مصور گل جی ان سے ملنے گئے، پاکستان کا ذکر آیا تو ڈاکٹر صاحب کھڑے ہو گئے اور گل جی کو سینے سے لگا کر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے۔ انہیں عمر بھر یہ شکوہ رہا پوری دنیا انہیں ہیرو مانتی ہے لیکن اہل وطن کی نظر میں وہ کافر ہیں۔ بھارت کے موجودہ صدر ڈاکٹر عبدلکلام 1972,73ء میں ہالینڈ سے پاکستان آئے، وہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن میں نوکری کے خوہاں تھے، کمیشن نے انہیں “نالائق“ قرار دے کر مسترد کر دیا۔ چھ ماہ پاکستان رہنے کے بعد وہ واپس لوٹ گئے۔ وہ ہالینڈ سے بھارت گئے، بھارت نے انہیں میزائل پروگرام میں نوکری دے دی، انہوں نے بھارت کو نہ صرف ایٹمی طاقت بنادیا بلکہ اسے میزائل ٹیکنالوجی میں بھی عالمی طاقتوں کے برابر کھڑا کیا۔ خود ڈاکٹر عبدالقدیر جب پہلی بار پاکستان آئے تو سوٹ، ٹائی اور بوٹ والے بابوؤں نے انہیں مسترد کردیا تھا۔ یہ تو اچھا ہوا ذوالفقار علی بھٹو انہیں واپس کھینچ لائے، ورنہ آج ہم بھارت کا اک پسماندہ صوبہ بن کر زندگی گزار رہے ہوتے۔ یہ کیا ہے؟ ایسا کیوں ہے پوری دینا اپنے ٹیلنٹ کی قدر کرتی ہے، وہاں تو یورپ کے تین سرمایہ دار ملک کارل مارکس کو اپنا شہری قرار دے کر فرضی قبریں بنا لیتے ہیں چارچار سو سال بعد ناسڑاڈیمس کی ہڈیاں نکال واپس فرانس لائی جاتی ہیں، روسوکوڈیگال فرانس قرار دے دیتا ہے لیکن ہمیں دیکھئے ڈاکٹرعبدالسلام، ڈاکٹرفضل الرحٰمن، پروفیسر حمیداللہ، ڈاکٹر عبدلکلام یا پھر رفیع الدین احمد ہمارے پاس ایسے لوگوں کی گنجائش نہیں، ہم لوگ کیا بنتے جا رہے ہیں۔ مجھے طفیل نیازی مرحوم کی بات رہ رہ کر یاد آتی ہے، مرحوم کہا کرتے تھے ہم واہگہ عبور کرتے ہیں تو بھگوان ہوتے ہیں واپس آتے ہیں تو لوگ مہیں کنجر کہتے ہیں۔ آخر ہم ہیں کیا! طفیل نیازی مرحوم کو یہ بات پوری زندگی سمجھ نہ آئی۔ فنکار تھا سمجھ نھی کیسے سکتا تھا ایسی باتیں سمجھنے کے لئے انسان کو بیوپاری ہونا چاہئے اور بیوپار یہ کہتا ہے بونوں کے دیس میں بونے خود کو بلند قامت ثابت کرنے کے لئے ہر لمبے شخض کے پاؤں کاٹ دیتے ہیں۔ ہم اس ملک کو بونوں کا دیس بناتے چلے جا رہے ہیں، اگر ہم نے پاؤں کاٹنے کا یہ سلسلہ بند نہ کیا تو یقین کیجئے عالم چناؤں کا یہ ملک کوڈوؤں کی چھوٹی سی بستی بن کر رہ جائے گا ایسی جس کا آسمان بھی دس فٹ اونچا ہو گا۔
تحریر؛ جاوید چوہدری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اقتباس؛ زیرو پوئنٹ2

10/17/2005

آسمانی آفت آئی تھی یا جاری ہے؟؟؟؟

سائینس دان یہ تو بتا سکتے ہیں کہ زلزلہ آیااس کی وجہ کیا تھی؟ اس کی طاقت کتنی ہے؟ قیاس لگا سکتے ہیں کہ پہلے آنے والے زلزلہ کے بعد مزید آئیں گے یا نہیں مگر سائینس نہ تو پیشگی ان کے بارے میں آگاہ کرسکتی ہے نہ نہ آنے سے روک سکتی ہے۔۔۔بس اتنی ہی طاقت ہے سائینس میں؟ جہاں قدرت چاہتی ہے اسے شکست دے دیتی ہے۔
مگر! قدرت ایسا کرتی کیوں ہے؟؟ کوئی کہتا ہے آزمائش ہے،کسی نے کہا آزمائش نیکوں کی ہوتی ہے ہم کون سے نیک ہیں بھٹکے ہوئے ہیں لہذا تنبہہ ہے کہ سدھر جاؤ ، بعض کی رائے ہے کہ تنبہہ اس قدر تباہ کن نہیں ہوتی یہ تو عذاب ہے عذاب کا سلسلہ شروع۔۔۔یہ تو اللہ ہی جانتا ہے کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ جو اس کی رضا۔۔۔یہ امتحان ہے یا کسی کردہ یا نا کردہ گناہ کی سزا۔۔۔۔۔ یا محض حادثہ؟؟؟ سائینس کہتی ہے کہ یہ میگا تھرسٹ زلزلہ تھا زمین کی ایک پرت نے دوسری پرت کے نیچے آ کر شدید رگڑ پیدا کی۔۔۔۔ بیس ہزار مربع کلومیٹر پر آنے والی اس قیامت نے سرکاری اعداد شمار کے مطابق چالیس ہزار افراد نگل لیئے غیر سرکاری گنتی و اندازے کے مطابق یہ تعداد لاکھ سے دو لاکھ کے درمیان ہے، عبدلستارایدھی کا کہنا ہے کہ جان بحق ہونے والے افراد کی تعداد تین لاکھ کے لگ بھگ ہے بیز پچاس ہزار افراد کو وہ سپرد خاک کر چکے ہیں۔۔۔زخمی ہونے والے افراد کی بھی ایک بڑی تعداد ہے۔۔۔ذیادہ تر افراد کے سر پر چوٹ آئی یا جسم میں کئی نا کئی فرکچر آیا ہے،اب ساری عمر یہ آنے والے زخم ان کے جسم پر اس زلزلہ کی نشانی کے طور پر ساتھ رہیں گے۔۔۔سینتیس لاکھ سے چالیس لاکھ تک افراد اس زلزلہ سے متاثر ہوئے۔۔ کئی علاقوں میں نوے سے سو فیصد تک عمارتیں ملبے میں تبدیل ہو گئیں، شہر کھنڈر بن گئے۔۔کھنڈر سے کیا نکلتا ہے؟؟لاشیں! سو وہ ہی نکلی۔۔۔معجزہ بھی ہوئے زندہ جسم بھی باہر آئے مگر اندر سے مر چکے تھے۔۔۔کسی کی ماں نہ رہی کوئی یتیم ہو گیا کبھی کوئی “ست بھرائی“ تھی مگر اب اس کا کوئی بھائی نہیں رہا صاحب اولاد بے اولاد ہیں اب!۔۔۔۔۔۔ گیارہ منٹوں میں آنے والے چار جھٹکوں نے سب کچھ بدل دیا اور اگلے دو دن آنے والے ایک سو ساٹھ جھٹکوں نے نمک پاشی کا کام کیا۔۔۔۔۔۔مگر! سچی بات ہے ان لوگوں کا حوصلہ بھی قابل دید تھا۔۔۔دوسرے کا دکھ ایک کو اپنے سے بڑا معلوم ہوتا یہ ہی اس کے کئے صبر کا باعث تھا کہ مجھ پر تو کم پہاڑ گرے ہیں دکھ کے۔۔۔۔ بچے قوموں کا مستقبل کہلاتے ہیں۔۔۔ اس آفت آسمانی میں سب سے ذیادہ یہ ہی متاثر ہوئے۔۔۔جان بحق ہونے والے افراد میں نصف تعداد ان کی ہے۔ اسکول کی عمارتوں میں ان کی بڑی تعداد زندہ دفن ہوئی۔۔۔ اب مردہ باہر آرہی ہے۔۔۔گڑھی حبیب اللہ سے چھ سو بچیاں، بالاکوٹ کے شاہین میموریل سکول سے چار سو بچے۔۔ ایک نسل جو نہیں رہی۔۔۔جو زندہ ہیں وہ خوف کا شکار ، نفسیاتی مریض! تباہ شدہ علاقوں میں ،ان بے حال لوگوں کی مشکلات ابھی ختم نہیں ہوئی۔۔۔ سرد موسم کا آغاز۔۔۔بارش کی بے رحمی ۔۔ برف باری ۔۔۔ اور اوپر آسمان اور نیچے زمین ۔۔۔ خیمہ اور کمبل کے منتظر ۔۔۔۔ناگہانی آفت ابھی جاری ہے ختم نہیں ہوئی!۔

10/15/2005

The blogging generation

THE news from our ICM poll that a third of young people online have launched their own blog or personal website may come as a surprise to many older people only dimly aware of what blogging is all about.
It is the latest example of the transforming effects of the information revolution that are leaving very few activities unaffected. Blogging simply involves setting up a site on the internet where you can “blog” your views together with photographs and invite comments from friends or interested people anywhere in the world, as long as they are online. It takes only a few minutes to set up a site with one of numerous free programmes available on the web. Michael Howard was quite right in his valedictory speech to yesterday’s Tory conference to say of the new generation: “Their youth has been shaped by the internet and the iPod, by cheap flights and mobile phones.” And not only youth. Blogging is now a mainstream activity for politicians, economists and, increasingly, corporations, plus the army of bloggers around the world who call governments and companies to account with instant rebuttals and who are setting up heir own form of “citizens’ journalism” to provide a grassroots alternative to what is perceived as the corporate-driven agenda of many media organisations. Blogging in turn is only a small part of the digital revolution that has provided practically everyone in the industrialised world who wants one with a mobile phone that is itself cannibalising other gizmos such as cameras, music players, radios and 50 other functions. From cars that know where they are located to robot vacuum cleaners, and from internet shopping to playing online games with millions of others around the world, the digital revolution is sweeping all before it. Above all - thanks to search engines such as Google and Yahoo - there is free access (after paying a monthly fee to a service provider) to practically anything you want to know about anything. The limiting factor on acquiring knowledge these days is not being rich but whether you have the inclination to search for it or not. There are, of course, dangers — from inadequate monitoring of what children are doing to the avalanche of junk mail and pornography that assails users. —The Guardian, London
************************** **************************
thank you= dawn

امداد اور۔۔۔۔۔

زمین کیا لرزی قیامت آ گئی، گھر قبر بن گئے۔گھر کی چھت اور فرش کے درمیان بس گھر کے مکین ہی فاصلے کا سبب تھے۔۔۔ زمین کی تھرتھراہٹ سے جہاں اس میں دڑاڑیں پڑی وہاں ہی پاکستانی قوم کی بظاہر نظر آنے والی دڑاڑیں (فاصلے)ختم ہو گئی۔۔۔زمین کا ہر بار کانپنا دوریوں کو کم کرنے کا سبب بنا۔۔ لوگوں نے اپنے ان مصیبت ذدہ بھائیوں کی مدد میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔۔۔ اہل کراچی نے کمال کردیا۔۔۔ یہاں پی اے ایف میوزیم میں امدادی سامان کا ڈیر لگا ہوا ہے ۔۔۔پی ایف بیس فیصل سے روزانہ تین (C130) سامان لے کر چکلالہ ائیر بیس جاتے ہیں سامان کی ترسیل کے لئے جہازوں کی ہی تعداد کم ہے۔۔۔ کراچی کے مختلف علاقوں سے نوجوان سامان پیک کرنے کے لئے(فری میں) یہاں آ جاتے ہیں ۔۔ یوں ایک ساتھ کام کرنے سے چند نئے اچھے دوست مل جاتے ہیں۔۔۔۔خود ایدھی والوں کا کہنا ہے کہ کراچی سے انہیں قریب پانچ سو ٹرک کے قریب امدادی سامان ملا ہے اس کے علاوہ مختلف سماجی اور سیاسی تنظیموں کی طرف سے دی گئی امداد الگ ہے۔۔شہر میں چند مفاد پرست بھی ہیں۔۔چند لوگ تشہیر کے لئے امدامی اقم دے رہئ ہیں اور کئی نیک دل نام بتائے بغیر(ایک صاحب نے پانچ کروڑ کی رقم نام ظاہر نہ کرنے کی شرط کے ساتھ دی)۔۔پرسوں اصل سے ذیادہ کرایہ مانگنے والے کئی ٹرک ڈرائیور حضرات کی پٹائی کی گئی۔۔معلوم ہوتا ہے ادویات اور دوسرے امدادی سامان کی قیمتیں بڑھانے والے افراد کا بھی یہ ہی حال کرنا پڑے گا۔۔۔۔۔ساتھ ہی ایک شک دل میں آتا ہے کہ ہم جو یہ سامان جمع کر کے دے رہے ہیں نہ معلوم ان ضرورت مندوں تک پہنچ پائے گا کہ نہیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

10/13/2005

فرض؟

ان کی مدد ہمارا فرض ہے۔۔۔۔ یہ ہمارے ہیں۔۔۔۔ان کی مدد ہم پر قرض ہے۔۔۔اسے احسان نہ سمجھے۔۔۔۔ اپنا فرض ادا کرے۔۔۔ اس وقت تنقید کرنا درست نہیں۔۔۔۔۔ مدد کی نیت کرے سبب خود ہی بن جائے گا ۔۔۔اللہ ہماری مدد کرے۔۔۔

10/12/2005

امتحان

بالا کوٹ ، مانسھرہ ۔باغ،شمیت کئی شہر علاقے تباہ ہو گئے ہے اپنے ان بھائیوں کی مدد ہم پر لازم ہے ۔۔۔۔اللہ ہمیں ہمت اور حوصلہ دے ان کی مدد کا ۔۔۔ یہ امتحان ہے ہمارے حوصلے کا۔۔صبر کا ۔۔۔

10/10/2005

دردآشنا

اس کے علاوہ اردو بلاگر کی یہ تحریریں بھی
یہاں جو بات قابل غور ہے ہر فرد زلزلے کے متاثرین کے لئے پریشان ہے نیز ان کی مدد کر رہا ہے جہاں تک اس سے ممکن ہو رہا ہے اور دوسروں کو اس کی نہ صرف تلقین کر رہا ہے بلکہ راستہ بھی بتا رہا ہے ۔۔۔۔۔ہم سب درد آشنا ہیں۔۔ہم سب اس مشکل کی گھڑی میں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ہوئے ہیں۔۔۔اللہ ہماری مدد کرے اور رحم فرمائے۔۔۔آمین!۔

10/08/2005

زلزلہ

آج صبح 8.50 پر پاکستان میں زلزلہ آیا ۔شدت 7.6 ۔۔سنا ہے 1000 سے ذیادہ اموات کا اندیشہ ہے۔۔۔۔ خدا رحم کرے۔۔زلزلہ کا مرکز اسلام آباد سے 60 میل شمال مشرق میں اور 6.2 میل گہرائی میں تھا۔۔۔ آپ احباب کیسے ہیں ۔۔جو اسلام آباد اور لاہور کے رہائشی ہیں یا وہ احباب جو اس زلزلے والے علاقے میں ہیں۔۔ ؟؟؟؟

10/06/2005

یہ کیا پوسٹ ہے؟؟؟؟

انٹر نیشنل مارکیٹ میں خام تیل کی قیمیت ٦٥-٦٦ ڈالر فی بیرل (میری اطلاع کے مطابق ممکن ہے درست نہ ہو) ہے اس کے ٹرانسپوٹیشن کے اخراجات ٣٠ سینٹ فی بیرل ہے۔۔چلے آپ دو ملا کر یوں کہہ لے کہ پاکستان کی سرحد پر آتے آتے خام مال ٦٧ ڈالے کا ایک بیرل پڑتا ہے۔۔۔ایک بیرل میں ٤٢ گیلنز ہو نے ہیں اور ٤٢ گیلن ١٥٩ لیٹر کے برابر ہے یو ایک لیٹر خام تیل پڑا کتنے کا پڑا ذرا حساب لگائے۔۔۔اس کی صفائی پر کتنا خرچہ ہو گا۔۔اس میں سے مٹی کا تیل ،ڈیزل ،گریس بھی پیڑول کے ساتھ نکلے گی۔۔۔ وہ بھی فروخت ہو گی ۔۔۔ پھر۔۔۔۔؟؟؟؟؟
×××××××××××××
اب ذرا ان لنک کا وزٹ کرے (اگر وقت ہو تو)۔

10/03/2005

تجربہ

Shoiab Safdar LOVES Urdu Blogger
12012 3213 534 87
Love Level: 87%
Name 1: Name 2:
ہم ایک ہیں۔۔۔۔۔
How to make a Shoiab Safdar
Ingredients: 1 part intelligence 1 part courage 3 parts ego
Method: Layer ingredientes in a shot glass. Top it off with a sprinkle of caring and enjoy!
Username:
بس یہ معلوم کرنے کے لئے کہ کوئی گانا کیسے بلاگ پر ڈالتے ہیں

9/30/2005

سن لو

لو جی میں پاس ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔ جب فون پر یہ بات میں نے گھر پر بتائی تو بہن (چھوٹی) نے کہا “مجھے پتا تھا ہمارے ملک کا تعلیمی نظام خراب ہے مگر اتنا اس کا اندازہ نہیں تھا“۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خیر ۔۔۔۔۔۔۔۔ وکالت اب دور نہیں۔۔۔۔۔۔ نوٹ؛ “نصیحت کرنے والے احباب جان لیں ہمارے پاس دوسرا کان اکثر بد ہضمی دور کرنے کے لئے ہے نصحیتیں“

9/28/2005

ماضی میں تبدیلی یا ترمیم

کیا تاریخ کے اوراق میں تبدیلی کیا ترمیم ممکن ہے؟ کیا ماضی کو بدلا جا سکتا ہے؟ اس کا جواب نہایت سیدھا ہے نہیں ایسا ممکن نہیں ۔۔۔۔۔تو کیا اسے چھپانا ممکن ہے؟ اس سے پردہ پوشی ہوسکتی ہے؟ کیا اس سسلے میں کسی کو گمراہ کیا جاسکتا ہے؟ شائد انفرادی سطح پر تو ایسا ممکن ہو مگر اجتماعی سطح پر ایسا نہیں ہو سکتا۔۔۔۔۔بہت مشکل ہے۔۔۔ پھر بھی دیکھنے میں آیا ہے ایک ہی دور کے متعلق نیز کسی دور کے کسی حکمران کے متعلق مختلف قسم کی آراء پائی جاتی ہیں،ایک شخض ایک قوم کا ہیرو ہے تو دوسری کے لئے ولن ۔۔۔ ایک کا مسیحا تو دوسری کا قاتل کہلاتا ہے۔۔۔۔۔ایک کے لئے کچھ اور دوسری کا واسطے کچھ اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مثلا صلاح الدین ایوبی اہل مسلم کے لئے ہیرو ہے مگر اہل لوئیہ کے نزدیک جنگجو۔۔۔جس نے انہیں شکست دی ۔۔۔ اسی طرح صلیبی جنگوں کے دوسرے سپہ سالار کا بھی یہ ہی عالم ہے۔۔۔ طارق بن ذیاد جس نے اسپین میں مسلم سلطنت کی بنیاد ڈالی اس کے کشی جلانے کے واقعہ کو مثال بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔۔۔کشتیاں جلانے والا محاورہ اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے (مجھے تو یہ ہی پتا ہے)۔۔۔۔ اس فرد کو اہل مسلم اعلی حاکم اور مجاہد مانتے ہیں، مگر۔۔۔ اسپین کے ایک عجائب گھر کے باہر اس کے مجسمے کے نیچے یہ الفاط درج ہیں “ ایک جشی قزاق جس نے ٧١٣ء میں اسپین پر حملہ کرکے ایک جابرانہ حکومت کی بنیاد ڈالی جس نے کافی عرصہ تک ایل اسپین پر ظلم و ستم کے پہاڑ گرائے“ (میں نے یہ پی ٹی وی کے نامہ نگار سرور منیر راؤ کے کالم میں پڑھا تھا) محمد بن قاسم جو ٧١٢ ء میں سندھ فتح کیا۔۔۔ ہندو تاریخ دان اسے بھی بحری قزاق کرار دیتے ہیں۔۔۔ حجاج بن یوسف (کوفہ کا گورنر) واقعی میں ایک سخت اور جابر حاکم بیان کیا جاتا ہے مگر ۔۔۔۔۔ غیر مسلم تاریخ دان اسے جنسی بے واہ روی کا شکار قرار دیتے ہیں مگر کسی مسلم تاریخ دان نے ایسا نہیں کہا نہ مانا۔۔۔ بلکہ قران پاک کا ایک اعلی قاری مانا جاتا ہے۔۔۔ مجھے کنفرم تو نہیں مگر ایک رائے یہ بھی ہے کہ قرآن پاک پر اعراب اس ہی کی رائے پر لگائے گئے تھے۔۔۔۔ اگر “بت شکن“ کہا جائے تو محمود غزنوی کاخیال آتا ہے۔۔ بھارت میں چھٹی جماعت کی کتاب High road of India میں اس کے کردار کو مکرو دکھایا گیا ہے۔۔۔۔ اکبر جس نے اپنے دور حکمرانی میں اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے ہندؤوں میں شادی کی ۔۔۔۔۔الگ مذہب کی بنیاد ڈالی ۔۔۔ اس بناء پر اسے “مغل اعظم“ کا لقب ملا۔۔۔ اعلی انصاف کی وجہ سے نہیں مسلم تاریخ دانوں کی رائے ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب سے ٥٨ برس پہلے کہ بات ہو تو بھی تمام تاریخ دان کسی ایک بات پر متفق نہیں۔۔۔۔۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی چار لڑائیوں کی آٹھ کہانیاں ہیں ہر جنگ سے متعلق دونوں ملکوں کی اپنی اپنی رائے ہے۔۔۔۔اپنی اپنی کہانیاں۔۔ نائن الیون کے بعد سے اب تک خود دو مختلف گروہ تاریخ کو اپنے انداز میں لکھ کو بیان کر رہے ہیں۔۔۔ آج کا میڈیا بھی جانبدار آج کاتاریخ دان بھی۔۔۔ اب آپ بنائے کون سی تاریخ اہل مسلم سچ مانے۔۔۔۔۔ وہ جو مسلم تاریخ دانوں نے لکھی ۔۔۔۔ اور غیر مسلم نے اسے غلط ثابت نہیں کیا (یا کر سکے)۔۔۔ اور مان جائے کہ وہ ایک برا ماضی رکھتے ہیں۔۔۔۔ اور اپنی نئی نسل کو بھی یہ ہی بتائے؟؟؟ یا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

9/25/2005

پکوڑے

رمضان کی آمد آمد تھی مٹر اور آلو اور آلو مٹر کھا کھا کر افسر کی جان پر بنی ہوئی تھی۔ عام دنعں میں آلوؤں کے چپس بنا بنا کر چائے کے ساتھ پیش کر دیئے جاتے تو کس حد تک تنوع کا احساس ہوتا لیکن رمضان میں تو دن میں کھانا پینا بھی موقوف ہوتا ہے۔ سو پی ایم سی نے میس کے ارکان کا ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا کہ رمضان کے لئے مینو تیار کیا جا سکے۔ہم کافی پریشان ہوئے کہ میس میں آلو مٹر کے ڈبوں کے بعد صرف بہسب موجود ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اور صرف بیسن کے لئے ہوتے ہوئے کیا مینو تیار ہو سکے گا۔
اجلاس کی کاروائی شروع ہوئی ۔ارکان کی تعداد اس دن اتفاق سے نو تک جا پہنچی تھی، تفصیل سے اجلاس کی اہمیت بتائی گئی اور ان سے درخواست کی گئی کہ وہ اپنی تجاویز اجلاس میں شرح صدر سے پیش کریں۔ ہم نے اجازت صدر یہ بات بھی گوش گزار کر دی کہ میس میں آلو اور مٹر کے ڈبع کے بعد صرف بیسن موجود ہے، تجاویز “میسر شدہ وسائل“ کی حدود میں ہوں۔
“بیسن سے کیا کچھ بنایا جاسکتا ہے“ ؟ وضاحت چاہی گئی۔
“پکوڑے“
“پکوڑے تو افطاری ہی میں ذیادہ لطف دیں گے اِس لیے انھیں افطاری ہی میں رکھا جائے“۔
“بجا“۔
“پہلے سات دنوں کا صرف افطارری کا مینو تیار کرلیا جائے“۔
“جیسا آپ چاہیں“۔
تو میس سیکرٹری آپ ہمیں افطاری میں کیا کچھ دے سکتے ہیں؟“۔
“جی پکوڑے“۔
“چلیں ایک دن تو پکوڑے ٹھیک ہیں۔ باقی دن ———؟“۔
“یہی سوچنے کے لئے اجلاس بلایا گیا ہے۔آپ تجاویز دیں“۔
“میس میں کیا کچھ موجود ہے؟“۔
“آلو اور مٹر“۔
“انہیں مارو گولی“۔ایک صاحب بھنائے۔
“ٹھیک ہے سر“۔
“اور کیا ہے؟“۔
“بیسن“۔
“بیسن سے کیا کچھ بن سکتا ہے؟“۔
“جی میرے علم کی حد تک تو پکوڑے بنائے جا سکتے ہیں“۔
“چلیں ایک دن تو طے ہو گیا لکھے اتوار کو پکوڑے“۔ایک صاحب نے اختلاف کیا“پکوڑے جمعرات کو کھائے جائیں اور معمولی بحث کے بعد یہ اختیار میص سیکر ٹری کو سونپ دیا گیا کہ جس دن وہ چاہیں پکوڑے بنالیا کریں۔چنانچہ ہم نے لکھا؛
مینو برائے افطار
پکوڑے برائے سوموار
“اچھا یہاں بازار میں کیا کچھ ملتا ہے؟“۔
“اول تو عصر کے بعد سے لوگ دکانیں بند کر کے اپنے اپنے گھر کو سدھار تے ہیں۔دوسرے ان کے ہاں کھانے کی اشیاء نہیں بکتیں۔ صرف ایک چھوٹی سی دوکان کھلی رہتی ہے۔ دیر سے آنے والے ڈرائیوروں کے لئے“۔
“ کیا کچھ ہوتا ہے اس کے پاس افطار کے لئے؟“۔
“جی پکوڑے“۔
وہ تو ہم میس میں بنا لیں گے“۔
“جی جی با لکل“۔
“کس دن رکھے گئے ہیں پکوڑے؟“۔
“جی سوموار کو“۔
“ویری ویل! میس میں اور کچھ نہیں مٹر آلو کے علاوہ“۔
“جی بیسن ہے نا“۔
“بیسن سے کیا کیا چیزیں بنتی ہیں“۔
“جی میں نے عرض کیا تھا نا ———- پکوڑے“۔
خاموشی کا ایک وقفہ۔
ویٹر کو آواز دی گئی۔ خانساماں کو طلب کیا گیا۔
یہ خانساماں مقامی باشندوں میں سے عارضی طور پر بھرتی کیا گیا تھا۔ اصل خانساماں چھٹی پر تھا۔ وہ ہوتا تو شائد بیسن سے بہے کچھ بنا سکتا۔لیکن عارضی خانساماں اور پی ایم سی کے درمیان مذاکرات بری طرح ناکام ہو گئے۔سنیے ذرا؛
پی ایم سی اور خانساماں کے درمیان مذاکرات ، میس ممبران گوش بر آواز،
“تم افطار کے لئے کیا کیا کچھ بنا سکتے ہو؟“۔
“سب کچھ بنا سکتا ہوں سر جی“۔
“مثلا؟“۔
“سر جی ، ہر چیز بنا سکتا ہوں لیکن یہاں کوئی چیز ملتی ہی نہیں۔میس حوالدار پنڈی سے صرف ڈھائی من بیسن لایا ہے“۔
“بیسن سے تم کیا کیا چیزیں بنا سکتے ہو“۔
“سر جی پکوڑے“۔
“شٹ اپ“۔
اور پی ایم سی میٹنگ ادھوری چھوڑ کر چلے گئے۔
تحریر=کیپٹن اشفاق حسین اقتباس =جنٹل مین الحمدللہ

9/24/2005

مدد درکار ہے۔۔۔۔۔بلاگ کے سلسلے میں کوئی کر سکے گا؟؟؟؟؟؟؟؟؟ پہلا مسئلہ یہ ہے کہ آپیرا میں اودوویب پیڈ کام نہیں کر رہا، اگر بلاگ پر موجود کی بورڈ سے کلک کرو تو لکھا جاتا ہے مگر دوسری طرح نہیں۔۔۔۔ دوسرا یہ کی اشتہاری تبصروں سے بچنے کے لئے میں تبصرہ سسٹم میں کیسے تبدیلی کرو(ویسے تو ابھی تک کوئی اشتہاری تبصرہ بلاگ پر نہیں ہوا) وہ آن کرنا تو آتا ہے مگر تبصرہ فارم میں (بلاگ میں ہی) شامل کرنے سے قاصر رہا ہو۔۔۔حارث اور انکل اجمل کے تبصرہ سسٹم سے (سورس دیکھ کر) کوڈ کاپی کیا(صرف الفاظ دوبارہ لکھے والا) مگر وہ ٹھیک طرح کام نہیں کررہا کیا کسی کے پاس حل ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟ انکل اجمل کا کیا گیا تبصرہ ہر مرتبہ ایک آدھ دن گزر جانے کے بعد خود باخود نامعلوم کیوں! (میں نہیں کرتا)غائب ہوجاتا ہے۔۔۔اس کی اجہ اور حل کسے کو معلوم ہے۔۔۔یا انکل آپ خود مٹا دیتے ہیں؟؟؟؟؟ ایک بات اور یہ کہ کیا اب بھی تبصرہ فارم میں ریاضی کے عجیب و غریب فارمولے آتے ہیں؟؟؟؟؟؟؟ بتا دے شکر گزار ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ××××××× کیا آپ کے لئے یہ ممکن ہے کہ آپ اپنی سالگرہ کے دن سے مجھے آگا ہ کر دے؟؟؟اگر ہاں تو یہاں پر بتا دے۔۔۔

9/22/2005

انگوٹھا

یوں تو انسانی جسم کے تمام اعضاء بہت اہم ہیں کئی ایسے جو خود انسانی زندگی کی بقاء کے لئے ضروری نھی۔۔۔۔۔۔ان میں انگوٹھے کی ایک اپنی الگ سیاسی، معاشی(؟)،معاشرتی، اخلاقی اور ذاتی حیثیت ہے۔اختلاف؟؟ کرلو۔۔مگر ہمارے پاس بھی اپنے دلائل ہیں۔

ہر بندے کےپاس کل چار انگوٹھے ہوتے ہیں(دو پاؤں کے اور دو ہاتھوں کے) ،ان کے بڑے فائدے ہیں۔۔۔پاؤں کا انگوٹھا اگر نہ ہو تو ہوائی چپل(اس کا تعلق جزیرہ ہوائی سے نہیں) نہیں پہنی جا سکتی۔۔۔علم نجوم نے بھی پاؤں کے انگوٹھے کو اہم گردانا ہے، بتاتے ہیں کہ اس کے پڑوس کی انگلی اگر بڑی ہوتو آپ کا اپنی(یا اپنے) شریک حیات پر رعب ہوتا ہے؛ اسی وجہ سے ہمارے ایک دوست نے گھر والوں کے سامنے شرط رکھی کہ“میری کسی پر نہیں(حکمرانی) چلتی سب مجھ پر (حکم) چلاتے ہیں لہذا بہتر ہے میری بیوی وہ بنائی جائے جس کے پاؤں کے انگوٹھے کے برابر والی انگلی چھوٹی ہو کہ کہیں تو میری بھی(حکمرانی) چلے“ ، تب اُن کی امی نے بیٹے کی خواہش پر ایک رشتہ دیکھتے وقت پاؤں دیکھنے کے لئے لڑکی سے جوتا اتارنے کے لئے کہا تو بولی“آنٹی آپ امی(چبا کر) تو بنے پھر موقع بے موقع جوتی اتارا کرو گی“۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جس طرح ہاتھی کے دانت دیکھانے کے اور اور کھانے کے اور ہوتے ہیں اسی طرح انسانی انگوٹھا دیکھانے میں اور ہوتا ہے اور لگانے میں اور۔۔۔اگر یہ مٹھی کے اوپر چست حالت میں ہوتا “زبردست“،“شاباش“ کے معنی میں آتا ہے مگر اگر یہ جھول رہا ہوتو چڑانے کے معنی میں اس صورت میں اسے ٹھینگا کہتے ہیں لیکن اگر اس کا رخ زمین کی طرف ہو تو اس کا مقصد نیچا دیکھانا ہوتا ہے۔۔۔(یہ اشارے اگر کوئی دوسرا آپ کے لئے بھی کر سکتا ہے اور بوقت ضرورت آپ بھی دوسروں کے خلاف)۔

نا خواندہ یا ان پڑھ افراد کا انگوٹھا پڑھا لکھا ہوتا ہے تب ہی تو مختلف قانونی دستاویزات پر دستخط کی جگہ جا بجا استعمال ہوتا ہے ان کی جانب سے۔۔۔۔۔یار لوگ ان کو انگوٹھا چھاپ کہتے ہیں ویسے اکثر موقعہ پر خواندہ خضرات بھی انگوٹھا چھاپ بن جاتے ہیں!!کبھی ووٹ ڈالنے جائے یا شناختی کارڈ بنوانے!!

آپ کے انگوٹھے کی پوزیشن میں نہیں دیکھ سکتا۔۔۔۔چلے تبصرہ میں بتا دے!!!!!!

9/20/2005

I'm.....

I'm an ordinary man Who desires nothing more Than just an ordinary chance To live exactly as he likes And do precisely what he wants. An average man am I, Of no eccentric whim, Who likes to live his life, free of strife, Doing whatever he thinks is best for him. Oh, Just an ordinary man. I'm a quiet living man, Who prefers to spend the evenings In the silence of his room; Who likes an atmosphere as restful As an undiscovered tomb. A pensive man am I, Of philosophic joys; Who likes to meditate, contemplate, Free from humanity's mad inhuman noise. A quiet living man. Professor Higgins

9/18/2005

مکالمے

تم “جیو“ ٹی وی دیکھتے ہو؟ ہاں! کیوں؟ دیکھو! وہ اپنی ہر نیوز سیگمنٹ کو مختلف حصوں میں تقسیم کر کے ان کے نام یوں رکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔ “جیو نیوز“، “جیو دنیا“، “جیو ٹریول“، “جیو انٹرٹینمنٹ“، “جیو کھیل“، “جیو کرکٹ“، “جیو ہاکی“ وغیرہ تو! ذرا سوچو! اگر وہ جرائم سے متعلق خبروں کے لئے ایک سیگمنٹ بنائے تو اس کا کیا نام رکھے گے؟ بھلا !کیا؟ “جیو جرائم“
××××××××××××
تم نے وہ اپنے صدر کا بیان سنا! ارے کس بیان کی بات کر رہے ہو! وہ تو ہر وقت ہی بیان دیتے رہتے ہیں؟ یار! وہ ویزہ اور دولت سے متعلق مظلوم خواتین پر جوالزام دھرا ہے ہاں یار نہایت بچگانہ بیان ہے شرم نہ آئی اسے۔۔۔۔۔ ہاں!ہاں!مگر کچھ معلوم ہے کیوں دیا ہے؟ کیوں دیا ہے؟ بھائی “پروفیشنل جیلسی“ہے کیا بکواس ہے یہ بیان اور پروفیشنل جیلسی؟ دماغ تو ٹھیک ہے تمھارا! بھائی! یہ ان جی اوز اور صدر دونوں مغرب کے کہنے پر ملک میں “روشن خیالی“ عام کر رہے ہیں نا! ہاں تو پھر! اب! سمجھ جاؤ ایک فریق دوسرے کی کامیابی پر جیلس نہیں ہو گا تو اور کیا ہو گا!

9/16/2005

اسراءیل منظور یا نا منظور؟؟؟؟

پاکستان اور اسرائیل کے مابین تعلقات پر “پی آر کمار“ کی کتاب“پردہ کے دوسری طرف“ پڑھی۔۔۔ پڑھ کر احساس ہوا پاک اسرائیل تعلقات کے ہامی شائد یہ ہی کتاب پڑھ کر اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کرتے ہیں۔۔۔ اس میں شبہ نہیں کہ اس کتاب کے کئی واقعات حرف بہ حرف درست ہیں۔۔۔ مگر کمار نے اسے اپنے انداز میں دیکھا ہے۔۔۔ اس کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کے تسلیم کرنے سے متعلق تمام دلائل کو اس کتاب میں یکجا کردیا گیا ہے۔۔۔میں چاہو گا کہ آپ (اگر وقت ہو تو) اسے ضرور پڑھے۔۔۔۔ مگر ساتھ ہی میں یہاں ان دلائل اور تاریخی واقعات کو بیان کر دو جو اسرائیل مخالف پیش کرتے ہیں (غلط وہ بھی نہیں) عالمی صیہونی کانگریس کے صدر وائزمین نے ١٩١٤ء میں فلسطین کے بارے میں کہا؛“ایک ملک جس کی کوئی قوم نہیں،ایسی قوم جس کا کوئی ملک نہیں“ ١٩١٧ میں برطانیہ کے اس وقت کے وزیر خارجہ الفور نے جب فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کی حمایت کا اعلان کیا (یہ اعلان الفور کے نام سے منسوب ہے) تو قائد اعظم نے اس کی مخالفت سخت الفاظ میں کی تھی ، ان کی رائے میں اسرائیل کا قیام عالمی سازش ہے،یہ ریاست دراصل عربوں کے سینے میں ایک خنجر ہے جس سے ہمیشہ عربوں کا سینہ زخمی رہےگا۔۔۔ کہتے ہیں عالمی صیہونی تحریک نے ١٩١٩ میں ورسائی امن کانفرنس مے موقع پر اپنی مجوزہ یہودی ریاست کا جو نقشہ پیش کیا تھا اس کی رو سےاسرائیم مشتمل ہو گا مصر دریائے نیل تک، پورا شام، پورا لبنان، عراق کا بڑا حصہ، ترکی کا ضنوی حصہ اور مدینہ منورہ تک حجاز کا پورا علاقہ۔ ١٩٢٢ سے ١٩١٤٧ تک یہودی پوری دنیا سے آ کر فلسطین میں اس ریاست کے قیام کی غرض سے جمع ہوتے رہے،وہ مکانات کرائے پر لیتے اور اگر کوئی کرائے پر نہ دیتا تو منہ مانگی قیمت یا اصل سے کئی ذیادہ کئی ذیادہ قیمت لگا کر مکان خرید لیتے۔۔۔ ١٩٣٨ میں ڈیوڈ بن گوریاں نے یہودی لیڈروں کے سامنے کہا؛“ ہم باہر کی دنیا میں الفاظ کی جنگ کے ذریعے عربوں کی مخالفت کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ہمیں اس حقیقت کو نہیں بھولنا چاہئے کہ ہم ظالم اور جارح ہیں عرب صرف اپنا دفاع کر رہے ہیں“۔ جرمنی کا مشہور رہنما ہٹلر کی ان کے بارے میں رائے تھی کہ دنیا میں ہر بیماری کے جراثیم ہونے ہیں اور برائی دنیا کی سب سے بڑی بیماری ہے۔اس بیماری کے جراثیم یہودی ہیں وہ سمجتا تھا کہ دینا کی لسی برائی کی جڑ تک پہنچا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس کا آغاز کسی یہودی دماغ سے ہوا ہے(اختلاف آپ کا اور میرا حق ہے) ہٹلر کے ہولوکاسٹ کے بعد جولائی ١٩٣٩ میں فرانس میں ٣٢ ممالک کے نمائیدے اس بات پر غور کرنے جمع ہوئے کہ کون کتنے یہودیوں کو پناہ دے گا یا دے سکتا ہے تب فرانس، ہالینڈ، ڈنمارک، امریکہ، یوروگوئے اور ونیزویلا نے کسی بھی یہودی کو پناہ دینے سے انکار کردیا۔۔۔یہ بیس ہراز یہودی فلسطین میں لا کر بسائے گئے۔۔۔ہٹلر سے ان بیس ہزار یہودیوں کو نجات دلانے والے سویڈش صلیب احمر کے سربراہ کاونٹ فوک برناڈاٹ کو انتہا پسند صیہونی تنظیم “سٹرن کینگ“ کے سربراہ اساق شیمر کے حکم پر اہل فلسطین کے حق میں اہم بیان دینے کے جرم میں قتل کردیا جس میں اس نے فلسطینوں کے حقوق اور ملکیت جائیداد کے متعلق کہا تھا۔۔۔ نومبر ١٩٤٧ میں امریکی دباؤ کے تحت اقوام متحدہ نے فلسطین کو “عارضی“ طور پر دو حصوں میں تقسیم کرنے کی سفارش کی تو پاکستان سمیت تمام عرب ممالک نے اس کی مخالفت کی۔۔۔۔اس سے پہلے ٢٥ اکتوبر کو رائٹر کو انٹرویوں دیتے ہوئے قائداعظم نے کہا تھا؛“ فلسطین کے بارے میں ہمارے موقف کی وضاحت ہمارے نمائندے نے اقوام متحدہ میں کردی ہے۔مجھے اب بھی امید ہے کہ تقسیم فلسطین کا منصوبہ مسترد کردیا جائے گاورنہ ایک خوفناک کشمکش محض عربوں اور تقسیم کا منصوبہ نافذ کرنے والوں کے درمیان نہ ہو گا بلکہ پوری اسلامی دنیا کے خلاف بغاوت کرے گی کیوں کہ ایسے فیصلے(اسرائیل کے قیام) کی حمایت نہ تو تاریخی اعتبار سے کی جا سکتی اور نہ سیاسی اور اخلاقی طور پر۔ایسے حالات میں پاکستان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا کہ عربوں کی مکمل اور غیر مشروط حمایت کرے“۔ اسرائیل کے قیام کے بعد یہود نے اس علاقے پر اپنا تسلط مضبوط کرنے کے لئے ہر غیر اخلاقی اقدام روا رکھا، زور،زبردستی۔۔۔حد دیکھے کہ اپنی عدالتیں قائم کی جن میں جائداد سے متعلق دعوہ کیا جاتا کہ یہ جائیداد آج سے قریب بارہ سو سال پہلے میرے اس جدامجد کے پاس تھی اس بنیاد پر مقدمہ جیت کر مکان اپنا اور مسلمان باہر۔۔۔۔ ١٩٦٧ء میں عربوں کئ ٤٥٠ مربع کلومیٹر کےعلاقے پرقابص ہو گئے۔۔۔۔اقوام متحدہ کو جنگ بندی کی قرارداد منظور کرنے میں دو دن کی تاخیر اس بناء پر ہوئی کہ امریکی سفیر آرتھر گولڈ برگ نے مخالفت کی تھی بلا کس بات کی؟۔۔۔بھائی سادہ کہ اسرائیل کو جارح نہ قرار دو دوسرا یہ کہ اسرائیل کی فوجیں ٤ جون ١٩٦٧ کی سرحد پر واپس جانا پسند نہیں کرتی لہذا انہیں ایسا کرنے کا نہ کہا جائے۔۔۔ میری رائے؛ قیام پاکستان سے پہلے مسلم لیگ کے رہنماؤں نے اور پاکستان بننے کے بعد حکمرانوں نے اوپن فورم میں ہمیشہ عربوں کا ساتھ دیا ہے اس معاملہ میں۔۔۔۔اندرون خانہ اور چند ایک مواقع پر غیر سرکاری سطح پر دونوں ممالک کے نمائیدگان اور سفیروں کے مابین ملاقات ہوئی جن میں کئی معاملات نمٹائے گئے مگر اس کے باوجود پاکستان نے کبھی اسرائیل کی حمایت نہ کی۔۔۔۔۔۔نہ ان کے کسی اقدام کو درست کہا۔۔سرکاری سطح پر اسرائیل سے تعلقات سے اجتناب کی وجہ؟ اس سے کسی ملک کو تسلیم کرنا مراد لیا جاتا ہے،آپ مانتے ہیں کہ وہ ایک ریاست ہے۔۔۔ابھی اگر قومی اسمبلی میں وزیراعظم صاحب یہ نہ کہتے کہ اس ملاقات سے یہ نہ سمجھا جائے کہ ہم نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے تو بین الاقوامی قانون کے مطابق یہ اخذ کر لا جاتا کہ پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا ہے۔۔۔تشکیلی نظریہ۔۔۔۔اسرائیل پاکستان سے تعلقات کا اس لئے خواہش مند ہے کہ وہ پاکستان کے ہاتھ سے عرب کارڈ لینا چاہتا ہے جسے پاکستان ترپ کے پتے کے طور پر استعمال کرتا آ رہا ہے۔۔۔پاکستان نے اگر اسے مان لیا تو اسلامی ممالک کی طرف سے اسے کم مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا کیوں کہ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ او آئی سی کے قیام میں پاکستان کے ہاتھ اور اب ایٹمی طاقت ہونے کی بناء پر سعودی عرب کے بعد پاکستان کو اسلامی دنیا میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔۔۔جبکہ پاکستان کے لئے اس کی طرف سے دو لالچ دیئے جا رہے ہیں (جس کا اسرائیلی میڈیا اس وقت ذکر کر رہا ہے) ایک ایٹمی معاملے میں مدد دوسرا معاشی معاملے میں سپورٹ۔۔۔۔۔کیا ایسا ممکن ہے؟ اسرائیلی میڈیا نے ہی پاکستان کے ایٹم بم کو سب سے پہلے “اسلامی بم“ قرار دیا اور وہاں سے مغرب نے یہ اصلاح اٹھا لی! چند ایک بار وہ کہوٹہ لیب پر حملے کا پروگرام بنا چکے ہیں اب اس پر یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اس سلسلے میں کوئی رہنمائی کرے؟؟؟؟؟؟معاشی معاملے میں مدد کرے گے لیکن اپنی ! یہ منڈی تو اب بھی اُن کے پاس ہے۔۔۔۔ جو دعوی ان کا فلسطین پر ہے(یہ ہمارے آباؤ اجداد کی زمین ہے ) اس پر اقبال کا ایک شعر ہے خاک فلسطین پر یہودی کا اگر حق ہپسانیہ پہ حق نہیں کیوں اہل عرب کا

9/14/2005

ڈوریTag

مجھے جہانزيب اور قدیر رانا نے ٹیگ کیا۔۔۔۔یوں میں اس ڈوری سے بند گیا ہو۔۔۔ پانچ سال پہلے پانچ سال پہلے میں اپنے گھر میں تھا۔۔۔۔۔؟ ۔۔۔۔مذاق!۔۔۔انٹر کے امتحان دے کر فارغ تھا۔۔۔نتیجہ کا انتظار تھا، یعنی انٹر(انٹرمیڈیٹ نہ کہ گھسنا) سے ایگزیسٹ (برخاستگی) ہی سمجھے۔ساتھ ہی یہ سوچ رہا تھا کہ آگے سائنس ہی کو ذریعہ تعلیم بناؤ یا آرٹس کی طرف کود جاؤں، دراصل میڑک کے ابتدائی دور ہی میں نے وکالت کی فیلڈ میں کودنے کا آرادہ کر لیا تھا والد صاحب کی خواہش پر، انٹر تک سائنس پڑھنے کی دو وجہ تھی ایک فوج میں جانے کا شوق دوسرا کسی نے کہا تھا آرٹس تو نالائق تو پڑھتے ہیں کم ازکم انٹر تو سائنس میں کرو۔۔۔سو کرلیا۔۔۔رزلٹ کے بعد آرٹس کی طرف رجوع کیا۔۔۔اور سچی بات ہے کہ اس وقت ہی مطالعہ کی عادت پڑی خاص طور پر سیاسیات اور تاریخ اسلام نے سوچ کو الگ ہی رخ کی طرف موڑ دیا یوں رٹے کے طریقہ کار کو چھوڑ کر سمجھ بوجھ اور پرکھنے کی عادت پڑی ساتھ ہی باتوں اور واقعات کو پھیلا کر دیکھنے کی عادت پڑی۔۔۔۔۔۔۔شائد اس کی ایک وجہ میرے استاد تھے ؟ہاں! وہ ہی تھے ایک سال پہلے ایک سال پہلے میں قانونی کنوارہ پن (ارے بھائی وکالت ،ایل ایل بی) کے دوسرے سال کے امتحان کے رزلٹ کا انتظار تھا اور ساتھ ہی پنجاب کے ٹور پر تھا۔۔۔چھ سال بعد گیا تھا۔۔۔بہت مزا آیا۔۔تمام کزن اور رشتے داروں سے مل کر۔۔۔ واپس آ دوبارہ پڑھائی شروع ہو گئی۔۔۔ہاں! ایک دلچسپ واقع! سال پہلے کا۔ہوا یہ کہ کالج(ایس ایم لاء) میں میرے دوست کا ایک کزن “جیو“ میں کام کرتا ہے اس کو کہہ کر ہم نے جیو کے پروگرام میں شرکت کی کوئی سبیل کرنے کو کہا۔۔اور اسے“اُلجھن سلُجھن“ کے پاس مل گئے ہم گئے پروگرام کی شوٹنگ میں حصہ لیا (ایک دن میں دو پروگرام ریکارڈ ہوئے) اور واپس آگئے۔۔۔الگلی مرتبہ پھر پاس کا بندوبست ہو گیا۔۔دوست نے کہا بھائی ساتھ جا رہے ہو تو وہاں کچھ نا کچھ لوگوں کے مسائل کے متعلق رائے دینا ہم نے کہا ٹھیک ہے یہ کیا مسئلہ ہے۔۔۔ابتدائی گفتگو کے بعد(کیمرہ آف کر کے) جب حاضرین سے پوچھا گیا کہ کون کون مشورہ دے گا تو ہم نے بھی ہاتھ کھڑا کر دیا اب جو ہم نے(سوچ رکھا تھا) بولنا تھا وہ ایک دوسرے صاحب نے کہہ دیا اب ان کے بعد ہماری باری آئی تو ہمارے پاس کہنے کو کچھ نہ تھا۔۔۔فورا کچھ نہ آیا تو اس بات کو ہی بدل کر کہنے کا ارادہ کیا رائے دینے کا آغار کیا تو روک دیا گیا کہ کیمرہ فوکس کرنے دیں،میں نے دوبارہ گفتگو شروع کی تو میزبان ٹھیک ہماری آنکھوں میں دیکھ رہی تھی (کہا گیا تھا کیمرہ کے بجائے ان کی طرف دیکھا جائے) ۔۔میں کچھ سٹپٹا گیا نظر ہٹا کر دوسری طرف کر لی جہاں کی اس طرف ان کا شائد ایڈیٹیگ روم تھا بہر حال جو بھی تھا بھائی میری تصویر آرہی تھی۔۔رنگ کالا تھا کافی۔۔اب ادھر میں یہ بول رہا تھا ادھر میں اپنے رنگ کالا آنے کے بارے میں سوچ رہا تھا ساتھ ہی مجھے محسوس ہوا کہ میری آواز کچھ کانپ رہی ہے شائد گبھراہٹ سے(کیمرے کا خوف) اب جو کچھ میں نے بولنا تھا میں بھول گیا۔۔۔۔اول فول بکواس کی اور مائک سے جان چھرائی یہ سب کام کل دو منٹ سے کم وقت میں ہوا مگر مجھے دو گھنٹوں پر محیط محسوس ہوا۔۔۔۔میری اس اول فول کو سراہا گیا (تعجب ہے)۔۔سنا دیکھایا بھی گیا تھا(میرے گھر کیبل نہیں ہے)۔۔۔اس کے بعد اگلی مرتبہ جب پروگرام میں شرکت کرنے گیا تو اس کا ٹاپک کافی ذیادہ بولڈ تھا لہذا اس کے بعد کبھی اس پروگرام کی ریکاڈنگ پر نہیں گیا۔۔۔۔۔ موسیقی! گانوں کے بول مجھے پورے یاد نہیں رہتے۔۔۔بس پنچ لائین یاد رہتی ہے یا وہ لائین جو پنچ کرے۔۔۔نئے پرانے سب اچھے گانے سنتا ہوں خاص طور پر عارفانہ کلام ،عارفانہ کلام سننے کی عادت ابو کی وجہ سے پڑی۔۔۔ اسنیکس! اسنیکس میں سب ہی اچھا لگتا ہے۔۔۔پکوڑے سر فہرست ہیں۔۔۔ سو ملین ڈالر! ارے !یہ سو ملین ڈالر مجھے دے گا کون؟۔۔۔۔اگر ملے تو سب سے پہلے تھپڑ مارو گا جو بھی سامنے ہوا اسے،تاکہ مجھے یقین ہو جائے کہ حقیقت ہے کہی خواب تو نہیں۔۔۔پھر آگے کا سوچوں گا۔۔۔ جہگیں جہاں میں جانے کو تیار رہتا ہوں! کمپیوٹر کے سامنے۔۔۔۔۔دوستوں کی محفل میں۔۔۔کسی مباحثے میں۔۔۔۔۔۔کسی تقریب میں بڑی خوشیاں! عمرہ کی سعادت۔۔۔۔۔اچھی کتاب کا تحفہ۔۔۔۔امتحان میں کامیابی(کسی بھی) یعنی کسی کی امید پر پورا اترنے پر ٹی وی! اس کا شوق نہیں پالا۔۔۔۔ویسے اگر کہیں کوئی سیاسی یا معاشرتی موضوع پو پروگروم لگا ہو تو پورا دیکھتاہو۔۔۔ کھلونے! ارے! میرے یہ کون سی عمر ہے ان سے کھلنے کی۔۔۔۔ کپڑے نہیں پہنوں گا! جو مجھے اچھے نہ لگے!۔۔۔اور لڑکیوں کے کپڑے۔۔۔ ٹیگ! جناب آپ اور آپ جی کہا آپ بھی۔۔۔ اس کے علاوہ زکریا انکل اجمل دانیال خاور شعیب شیپر نبیل میرا پاکستان(پاکستان کے سیاسی حلات کے بارے میں لکھا جائے تو مزا آئے) عادل منیر احمد طاہر ہی محبت کی ڈوری ہے۔۔۔۔اس لئے آپ لوگوں کو اس میں باندھا ہے۔۔۔۔جو پہلے ہی اس ڈوری کے تحت بندھ کے لکھ چکے ہیں۔۔۔انہیں خود سے آگے پا کر لائین میں پیچھے لگ گئے ہیں

9/10/2005

مہنگائی کا ریلا اور اپوزیشن کا رولا

جمعہ کو ہڑتال تھی جزوی رہی۔۔ہڑتال بھی اور ہرتال کے متعلق بیان بھی۔۔۔۔صبح ساڑھے گیارہ بجے کے بعد جزوی ہوئی اور شام تک ختم ہو گئی۔یہ ہڑتال پوری اپوزیشن کی نہ تھی،اےآرڈی والے ڈرے ڈرے رہے۔۔۔خود مجلس میں مولانا صاحب کا رد عمل پرے پرے والا تھا۔۔۔۔آج کل وہ ویسے بھی قاضی صاحب سے چند قدم پیچھے ہوتے ہیں بھائی پیچھے سے“پباں پار کھلو کے“ حکومت کو ہاتھ ہلا کے بتانا آسان ہے کہ “کچھ نظر کرم ہو یہاں بھی عنایت“ ہم منتظر کھڑے ہیں،یوں یہ قاضی کا شو تھا۔۔شو ختم ہو گیا۔۔۔اپنوں نے کہا واہ واہ کیا کامیابی ہے۔۔غیروں نے سنائی خبر الگ۔۔۔آج تو ویسے بھی جمہ تھا آدھا کاروبار بند ہوتا ہے۔۔۔شیخ صاحب نے نوید سنائی اس سے ذیادہ ناکام ہڑتال میں نے آج تک نہیں دیکھی۔۔۔قاضی میاں اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔۔۔لیکن شو پھیکا بھی نہیں رہا ۔پورے ملک میں جو ہوا سو ہوا۔۔کراچی میں حالات ذرا مختلف تھے، رات کو ہونے والے دھماکے نے نازک بھی کردئیے۔۔۔۔یہاں ہڑتال کو ناکام کرنے کا ذمہ اُن کو تھا جنہوں نے اس عمل کو رواج کی حد تک فروغ دیا یعنی بلی کو دودھ کی حفاظت پر مامور کردیا گیا۔۔۔ صوبائی حکومت کی طرف سے متعلقہ ڈی ایس پی حضرات کو ان کی جانب سے متعلقہ ٹی پی او کو اس کی طرف سے ماتحت ایس ایچ او کو حکم ہوا ہڑتال ہوئی اگر کامیاب تو تمہاری خیر نہیں۔۔۔ انہوں نے اپنے علاقے کے دوکان داروں کو جا لیا کل دوکان بند نہ ہو۔۔سمجھے کہ سمجھاؤں! ، اب کون نہ سمجھے؟۔۔پھر بھی کئی ایسے نکلے جن کی سمجھ میں بات نہ آئی اور کئی ایسے جو جمعہ کو دوکان بند کرتے تھے مگر حکم کے بعد دوکان پر نظر آئے۔۔۔تنہا!۔ پہیہ جام کر کے گاڑی بھگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔لا لو حساب! کوئی بتائے کہ کیا ایسا ممکن ہے؟ہڑتال معاشی جمود کا سبب تو بن سکتی ہے مگر اسے بہتری کی راہ پر نہیں ڈال سکتی۔معیشت جمود کا شکار ہو تو مہنگائی کا ختم ہونا مشکل ہے۔ ہرتالوں کی سیاست ویسے ہی اچھی نہیں اور اگر یہ مہنگائی کے خلاف ہو تو اسے عقل مندی کا نام دینا محال ہے۔ ××××××× کراچی میں بارش ہو گئی کل جمعہ کی نماز شروع ہوئی تو کافی تیز ہوئی مگر نماز کے اختتام سے قبل چلی گئی۔۔مگر آج صبح تو کمال ہو گیا خوب بارش ہوئی۔۔اہل کراچی کو یہ نعمت ملی مگر کئی جگہوں پر ناقض انتظامات کی وجہ سے یہ نعمت باعث زحمت بن جائے گی۔۔۔۔ساون پورا اس کے انتظار میں گزرا اور یہ آئی تو بھادوں کی ٢٥ تاریخ کو کر لو حساب۔۔۔۔!؟

9/03/2005

یہودی لڑکی سے شادی اور پاک اسرائیل تعلقات

ترکی میں قصوری صاحب نے اپنےاسرائیلی ہم منصب سے ملاقات کی ۔یہ پاکستان و اسرائیل کے درمیان سرکاری سطح پر باضابطہ پہلا رابطہ ہے۔۔۔۔اس سے قبل مکا لات والا معاملہ تھا۔۔۔ملاقات کے بعد عرض کیا کہ ہم ان(اسرائیل) سے ملے ہیں مگر ان کو ایک ملک نہیں مانتے۔۔۔بات کچھ پلے نہیں پڑی۔۔۔کوئی پوچھے سرکار! بندہ اس سے ملتا ہے جس کے وجود کو مانے ہم نہیں کہتے “قانون بین الاقوام“ کہتا ہے۔۔۔۔آپ کیا کہتے ہیں؟ مزید کہا کہ ملاقات سے پہلے فلسطین کے صدر محمود عباس اور سعودی عرب سمیت آٹھ مسلم ممالک کو اعتماد میں لیا۔فلسطینی ذرائع نے تردید کر دی کیسا اعتماد؟مئی میں اسلام آباد میں ملاقات (دونوں ممالک کے صدر کے درمیان) کے بعد کوئی رابطہ نہیں ہے۔۔۔۔اہل فلسطین نے غزہ میں پاکستان کے اس اقدام کے خلاف مظاہرہ کیا اور “دشمن سے ملاقات نامنظور“ کے نعرے لگائے۔۔۔اپنا جانا تو یہ نعرہ لگایا ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔ “دشمن کا دوست دشمن “ والا نعرہ بھی لگ سکتا تھا۔۔۔ احتیاط لازم ہے ورنہ یہ تعرہ لگ سکتا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اسرائیل کو ملک تسلیم کرنا نہ کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے۔۔۔اچھا! اب یہ سوچا جا رہا ہے کہ اسے تسلیم کیا جائے یا نہیں؟ (اب تک ستاون میں سے سات ممالک نے اسے تسلیم کیا ہے۔جویہ ہیں، مصر ، اردن ، ترکی ، موریطانیہ، قازقستان، ازبکستان ، اور کرغیزستان)۔۔۔۔اب صدر سے نہ پوچھے وہ تو تقریر کی تیاری کر رہے ہیں ارے وہ ہی جو انہوں نے یہودی لابی سے کرنی ہے۔۔۔باقی بچے اپنے شجاعت تو انہوں نے تو الٹا سوال کر ڈالا “بھائی ان مجلس والوں سے پوچھوں کہ اگر یہودی لڑکی سے شادی ہو سکتی ہے تو یہودیوں سے مذاکرات کیوں نہیں ہو سکتے“ ہون آرام ایں

8/28/2005

قائد کی منشاء سیکولر ریاست؟؟؟؟؟

آئین پاکستان کے بارے میں فروری ١٩٤٨ کو ایک امریکی اخبار نویس کو انٹرویو دیتے ہوئے آپ(قائداعظم) نے غیر مبہم الفاظ میں فرمایا“پاکستان کا آئین ابھی بنا نہیں ہے اور اور یہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی بنائے گی مجھے یقین ہے کہ یہ جمہوری انداز کا ہوگا جس میں اسلام کے اصول ہوں گے ان اصولوں کا آج بھی عملی زندگی میں وہ ہی اطلاق ہوتا ہے جیسے کہ تیرہ سو سال قبل اسلام اور اس کی مثالیت نے ہمیں جمہوریت سکھائی ہے۔اس ہمیں انسانوں کی برابری انصاف اور ہر شخص کے ساتھ حسن سلوک کا سبق سکھایا ہے۔ہم ان شاندار روایات کے وارث ہیں اور پاکستان کے آئندہ دستور کے واضعین کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے پوری طرح آگاہ ہیں۔(ملت کا پاسبان ٣٣٣ قائداعظم اکیڈمی کراچی)۔
١٩ فروری١٩٤٨ کو اسٹریلیاں کے عوام سے نشری خطاب میں لادینی اوردینی ریاست کی وضاحت کرتے ہوئے قائداعظم محمد علی جناح نے کہا“ ہماری عظیم اکثریت مسلمان ہے ، ہم رسول خدا کی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں ہم اسلامی ملت برادری کے رکن ہیں جس میں حق ، وقار اور وفاداری کے تعلق سے سب برابر ہیں ،نتیجاَ ہم میں اتحاد کا ایک خصوصی اور گہرا شعور موجود ہے لیکن غلط نہ سمجھے پاکستان میں کوئی نظام پاپائیت رائج نہیں ، اس طرح کی کوئی چیز نہیں ہے، اسلام ہم سے دیگر عقائد کو گوارا کرنے کا تقاضہ کرتا ہے اور ہم اپنے ساتھ ان لوگوں کے گہرے اشتراک کا پر تپاک خیر مقدم کرتے ہیں خود پاکستان کے سچے اور وفادار شہریوں کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرنے کے لئے آمادہ اور رضامند ہوں۔(قائداعظم تقاریر و بیابات جلد چہارم صحفہ ٤١٥)۔
جہاں تک “مذہبی حکومت“ اور “سیکولر اسٹیٹ“ کا تعلق ہے اس سلسلے میں قائداعظم کے افکار اور نظریات کیا تھے ، وہ بالکل صاف وشفاف اور واضح ہیں، غیر مبہم ہیں اور ہر قسم کے شک وشبہ سے پاک ہیں۔٢٥ رجب ١٣٦٠ھ بمطابق ١٩ اگست ١٩٤٠ کو قائداعظم محمد علی جناح نے راک لینڈ کے سرکاری گیسٹ ہاوس (حیدرآباد دکن) میں طلباء اور نوجوانوں کو یہ موقع مرحمت فرمایا کہ وہ آپ سے بے تکلفانہ بات چیت کرسکیں۔اگر چہ آپ کی طبیعت ناساز تھی لیکن اس کے باوجود آپ نے پنتالیس ٤٥ منٹ تک ان سے گفتگو فرمائی ۔ اس یاد گار اور تاریخی موقع پر نواب بہادر یار جنگ بھی موجود تھے ۔ جناب محمود علی بی اے (عثمانیہ یونیورسٹی) نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تمام گفتگو ریکارڈ کر کے اوریئنٹ پریس کو ارسال کردی۔
قائداعظم کا دوسرا خطاب دراصل وہ ہے جو انہوں نے ٢ نومبر ١٩٤١ کو مسلم یونیورسٹی یونین علی گڑھ سے فرمایا اور جس میں نہایت تفصیل کے ساتھ ہندو اخبارات کے بے بنیاد، شرارت آمیز اور مضحکہ خیز اداریوں کوکچا چٹھا بیان فرمایا جس میں انہوں نے غلط اور حقیقت سے دور پروپیگنڈہ کیا تھا کہ پاکستان ایک سیکولر اسٹیٹ ہو گی جس میں انہیں جملہ اختیارات سے محروم رکھا جائے گا۔قائداعظم نے اپنے خطاب میں واضح کیا؛“ آپ نے ہندو رہنماؤں کے بیانات اور ذمہ دار ہندواخبارات کے ادارئے پڑھے ہو گے ۔ وہ بہت شرارت آمیز اور خطرناک قسم کے دلائل دے رہے ہیں لیکن یقیناَ وہ الٹ کر انہی کے سر آن پڑیں گے ، میں صرف ایک ممتاز سابقہ کانگریسی اور ایک سابقہ وزیر داخلہ مسٹر منشی کی تقریر سے ایک اقتباس پیش کروں گا۔ اخبارات میں شائع شدہ تقریر کے مطابق انہوں نے کہاکہ تجویز پاکستان کے تحت جو حکومت قائم ہو گی وہ “سول حکومت“ نہیں ہوگی جو تمام فرقوں پر مشتمل ایک مخلوط مجلس قانون ساز کے سامنے جوابدہ ہو بلکہ وہ ایک “مذہبی ریاست“ ہو گی جس نے اپنے مذہب کی تعلیمات کے مطابق کے مطابق حکمرانی کرنے کا عہد کر رکھا ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ تمام جو اس مذہب کے پیروکار نہیں ہوں گے ان کا اس حکومت میں کوئی حصہ نہیں ہو گا۔ایک کروڑ تیرہ لاکھ سکھ اورہندو مسلمانوں کی مذہبی ریاست کے زیر سایہ اقلیت بن جائی گے۔ یہ ہندو اور سکھ پنجاب میں عاجز ہوں گے اور ہند کے لئے غیر ملکی! ۔۔۔۔کیا ہندوؤں اور سکھوں کو مشتعل نہیں کیا جا رہا ہے؟ان کو یہ بتانا کہ وہ ایک “مذہبی ریاست“ ہوگی جس میں انہیں جملہ اختیارات سے تہی دست رکھا جائے گا، یہ کلیتَا “غیر درست“ بات ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہےکہ وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں غیر مسلموں کے ساتھ اچھوتوں کا سلوک کیا جائے گا۔ میں مسٹر منشی کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ صرف ان کے مذہب اور فلسفہ کی ہی اچھوتوں سے آشنائی ہے۔ اسلام ان غیر مسلموں کے ساتھ جو ہماری حفاظت میں ہوں عدل ، مساوات، انصاف، رواداری بلکہ فیاضانہ سلاک کا قائل ہے۔ وہ ہمارے لئے بھائیوں کی طرح ہوں گے اور ریاست کے شہری ہوں گے“۔(قائداعظم تقاریر و بیانات جلد دوم صفحات ٥١٨)۔
جہاں تک سوشلزم ، کمیونزم ، نیشنل سوشلزم وغیرہ کا تعلق ہے ایسے نظام ہائے حکومت کے دلدادگان اور پرستاروں کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ قائداعظم ان کے سخت خلاف تھے اور انہیں خارج از بحث کردانتے تھے۔٩ مارچ١٩٤٤ءکو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی یونین سے خطاب کے دوران آپ نے واضح طور پر اعلان کرتے ہوئے فرمایا
۔“ایک اور پارٹی جو کچھ عرصے سے سرگرم ہو گئی ہی “کمیونسٹ پارٹی“ ہے ان کا پروپیگنڈہ مکارانہ ہے اور میں آپ کو خبردار کرتا ہوں کہ ان کے چنگل میں نہ پھنسیں۔ان کا پروپیگنڈہ ایک سراب ہے اور ایل دام۔آپ کیا چاہتے ہیں؟یہ ساشلزم،کمیونزم،نیشنل سوشلزم اور ہر دیگر “ازم“ کی باتیں خارج از بحث ہیں۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ آپ فی الفور کچھ کر سکتے ہیں؟ کب اور کس طرح؟ آپ اس امر کا فیصلہ کر سکتے ہیں کہ آپ کو پاکستان میں کون سا نظام حکومت مطلوب ہوگا؟ کوئی نہ کئی پارٹی ہم سے کہتی ہے کہ ہمیں پاکستان میں جمہوری حکومت یا سوشلٹ یا نیشنلسٹ حکومت قائم کرنی چاہئے۔ یہ سوال آپ کو فریب دینے کےلئے اٹھائے جاتے ہیں۔اس وقت تو آپ صرف پاکستان کی حمایت کیجئے۔ اس کا مطلب ہے کہ سب اے پہلے آپ کو ایک علاقہ اپنے قبصے میں لینا ہے۔پاکستان ہوا میں قائم نہیں ہو سکتا۔ جب آپ اپنے “اوطان“ کا قبصہ لے لیں گے تب یہ سوال اٹھے گا کہ آپ کون سا نظام حکومت رائج کرنا چاہتے ہیں لہذا آپ اپنے ذہن کو ان فضول خیالات سے ادھر ادھر بھٹکنے نہ دیجئے۔(قائداعظم تقاریر و بیانات جلد سوم صفحہ ٢٦٦-٢٧٢)۔
قائداعظم کے مندرجہ بالا خیالات و نظریات سے یہ بات واضح ہو گئی کہ قائداعظم پاکستان کو ایک دینی اسلامی ریاست بنانے کے حامی تھے لہذا بانی پاکستان کو سیکولرزم نظریات کا حامل قرار دینا انتہائی ظلم و زیادتی ہے۔
(تحریر= ایاز محمود رضوی بشکریہ نوائے وقت)

8/24/2005

گوگل میسنجر

لو جی گوگل والوں کا میسنجر آ گیا ہے۔ میں نے تو ڈاؤن لوڈ کرلیا آپ بھی کر لو اگر چاہو تو۔۔۔ ویسے میرے پاس کوئی بندہ جی میل والا نہ تھا اس لئے محفل سے رابطہ کیا اورجو افراد ملے انہیں فہرست میں شامل کر لیا لہذا آپ سے التماس ہے کہ یار اب مجھے نظر انداز نہ کر دینا بھائی۔ویسے جب تک آپ بات شروع نہ کرے گے میں آپ کو تنگ نہ کرو گا پکا وعدہ۔۔۔ اسے استعمال کرنے کے لئے آپ کو جی میل کی آئی ڈی چاہئے۔ بس اور بڑی فائل نہیں ہے نو سو کے بی کی ہے کر لے ڈاؤن لوڈ

8/23/2005

mis/miss

مس کہیں بھی ہو اس سے کچھ اچھے کی امید یہ رکھی جائے۔یہ ہر شے کو الٹا کر رکھ دیتی ہے یعنی یہ جس سے نتھی ہو جائے اس کا بیڑا غرق سمجھو۔ انگریزی زبان میں تو اس نے اپنی تباہ کاریاں مچائی ہی ہیں ساتھ ہی مرد کی زندگی کا سکون بھی غارت کیا ہے۔انگریزی ربان میں اس کے کرتوت یہ ہیں۔ Conduct = Misconduct ,Guide = Misguide, Fit = Misfit , Match = Mismatch , Advise = Misadvise اور ایسے ہی چند دیگر ۔۔۔۔۔۔۔ کیا سمجھے! اگر آپ مرد ہیں تو اس کے نقصانات کو بیان کرنے کی مزید ضرورت نہیں مگر اگر آپ خاتون ہیں تو فائدہ نہیں کیوں کہ آپ کسی دلیل کو نہیں مانے گی۔۔۔۔

8/20/2005

دینی مدارس

دینی مدارس پر آج ایک بڑا الزام مغربی میڈیا یہ لگاتا ہے کہ ان میں جہادی پیدا کیے جاتے ہیں ، کم عمر بچوں کی برین واشنگ کر کے انہیں بندوق تھما کے دوسرے مذہب کے پیروکاروں کو مارنے کا حکم دے کر اس کے بدلے جنت کی بشارت دی جاتی ہے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ کشمیر کی تحریک میں شہید ہونے والے اکثر نام مثلاّ غلام عباس، عارف حسین ، عثمان عتیق، محمد صابر، ابو عاصم، فیصل محمود، صداقت، نذیر نیاز، مدثر، راشد یا تو یہ سب نوجوان کرسچن مشینری اسکولوں مثلاّ ایچی سن لاہور، سینٹ پٹیرک کراچی سے فارغ التحصیل تھے یا دیگر سرکاری اسکولوں اور کالجوں سے پڑھ کر نکلے تھے۔
۔( ویوز اینڈ نیوز سےاقتباس ، تحریر ہے ڈاکٹر شاہد مسعود)۔

8/15/2005

انتخابات غیر جماعتی؟؟؟

آوےگابھائی آوے گا کوئی نا کوئی تو آوے گا۔کا دور شروع،اب ملک میں جگہ جگہ نعرہ لگ رہے چاکنگ ہو رہی ہے،پوسٹر لگ رہے ہیں۔ سب سے ذیادہ حمایتی جے جے او این کے ہیں یعنی جیڑا جتے اودے نال(جو جیتے گا ہم اس کے ساتھ ہیں)۔ بتایا گیا تھا اب کے بلدیاتی الیکشن غیر جماعتی ہو گے اور ایسا ہی ہو تا نظر آرہا ہے۔کیا آپ کو اختلاف ہے؟؟ اچھا پچھلے چند دنوں کے اخبارات دیکھ لیں،کیسے بیانات ہیں۔یہ ہی نا کہ مولوی کو ووٹ نہ ڈالو! حکمرانوں کی طرف سے۔۔۔۔ الطاف بھائی نے تو صاف الفاظ میں مشورہ دیا کہ سرکار! یہ جماعت اسلامی پر پابندی تو لگاؤ یہ لوگ بہت تنگ کررہے ہیں۔۔۔ جب جماعت باہر ہوگئی تو الیکشن غیر جماعتی ہو گئے ناں۔ غیر سیاسی تو نہیں ہیں۔۔۔ بڑی سیاست ہو رہی ہے،ہر صوبے کا وزیراعلی وگورنر اور وفاقی وزیر اپنے اپنے علاقے میں اپنے اپنے پینل کی تشہیر کر رہا ہے،فلاں پینل کو ووٹ ڈالو میرا حمایت یافتہ ہے باقی سب حماقت یافتہ،میری بات پر آنکھ بندکر کے یقین کرو ورنہ۔۔۔آنکھ میں دھول جھونک سکتے ہیں کہ جیتے گے تو ہمارےہی بندے ایسے نہیں تو ویسے ہی کیا سمجھے؟؟؟ مخالفین انتخاب کے بعد آوٹ ہو جائے گےاگر ایسا نہیں ہوا تو پولینگ اسٹیشن کا عملہ اپنی سرکاری نوکریوں سے۔۔ اپوزیشن ؟ ان کی بھی کہانی خوب ہے۔سمجھ نہیں آتی مخالفین ہیں یا حمایتین۔میاں ، بی بی ملک سے باہر ہیں جب دولہا ہی نہیں تو بارات کیسی؟؟ باقی بچے مجلس والے تو جو باجماعت اکھٹی نماز نہیں پڑھ سکتے اُن کی جماعت کیسی؟ لہذا بلدیاتی انتخابات میں بھی ان کی آپس میں لڑائی چل رہی ہے مشترکہ امیدوار کھڑے نہیں کر سکے اور اب کھڑے ہوئے امیدواروں کو مشترک کرنے پر لڑ رہے ہیں کراچی! بڑا شہر بڑی باتیں سلیکشن متحدہ اور مجلس میں سے کسی کی ہونا ہے۔ ذیادہ امکان متحدہ کے ہیں گورنر بھی تو اپنا ہے ان کا۔۔ اصل صورت حال الیکشن کے بعد معلوم ہو گی تب پتہ چلے گا جیت الیکشن کی بناء پر ہوئی یا سلیکشن کی بناء پر۔۔بہر حال جو ہو اچھا ہو۔۔

8/14/2005

ٓآزادی مبارک

جشن آزادی مبارک ! آج صرف قائداعظم کے دو فرمان۔۔۔ اگر ہم خود کو بنگالی ،پنجابی، بلوچی اور سندھی وغیرہ پہلے اور مسلمان اور پاکستانی بعد میں سمجھنے لگیں گے تو پھر پاکستان لازمّا پارہ پارہ ہو کر رہ جائے گا
ڈھاکہ٣١ مارچ ١٩٤٨
اگر ہم اس مملکت پاکستان کو خوش اور خوشحال بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی پوری توجہ لوگوں اور بالخصوص غریب طبقے کی فلاح و بہبود پر مرکوز کرنی پڑے گی
خظبہ صدارت دستور ساز اسمبلی ۱۹۴۷

8/09/2005

جشن آزادی

جشن آزادی! بچپن میں مجھے اس کا کوئی شعوری احساس سوائے اس کے کہ گھر میں جھنڈیاں لگانی ہے اور چھت پر جھنڈا لگانا ہے نہ تھا۔
اسکول میں جب ١٤اگست کی تقریب کے حوالے سے سرگرمیاں شروع ہوتی تو مجھے معلوم ہوتا کہ یہ دن قریب ہے ( جو بات درست ہو اس کا اعتراف کر لینا چاہئے) اسکول کی ان تقریبات میں میں نے کبھی شرکت نہ کی سوائے آخری دن کے جب میں باقی بچوں کے ہمراہ اسے دیکھنے کے لئے پہنچ جاتا۔۔۔یا پھر کلاس روم کو مختلف جھنڈیوں سےسجانے اور تحریک پاکستان کے رہنماؤں کی تصاویر آویزہ کرنے کی حد تک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔البتہ محلے میں اس کی تیاری میں پیش پیش ہوتا۔چندہ جمع کرنے سے لے کر جھنڈیاں خریدنے اور ان کو گلی میں باندھنے تک۔۔علاقے میں ہماری گلی اُن چند گلیوں میں شمار ہوتی جہاں جھنڈیوں کے لہرانےکی آواز ہر آنے جانے والے کو اپنی جانب متوجہ کرتی اور سورج کی روشنی کے راستے میں کسی حد تک رکاوٹ کرتی ۔۔۔ اب ایسا نہیںہے۔

گھر میں ذرا رواج مختلف ہے ۔ ١٢ تاریخ تک ہم بہن بھائی جتنی رقم جمع کرے گے اتنی ہی رقم والد صاحب اس میں ملائے گے یہ طے ہوا تھا ایک مرتبہ مگر ہوتا یوں ہے ہم سے جس قدر رقم جمع ہوتی وہ والد ہمیں ہی دے دیتے ہیں اور جتنی رقم ہمیں جھنڈیوں کے لئے درکار ہوتی وہ الگ سے پکڑا دیتے۔۔ مگر رقم جمع کرنے کی شرط نہ ختم کرتے۔۔۔۔۔ اب اس شرط کا اطلاق ہماری چھوٹی بہنوں پر ہوتا ہے۔۔۔۔دوسری پابندی یہ ہے کہ بازار سے بنی بنائی جھنڈیاں نہ لائی جائیں گی بلکہ جھنڈیاں گھر لا کر خود سے دھاگے پر لگا کر سجائی جائیں گی۔۔۔۔ اس پر اب بھی عمل ہوتا ہے۔ ان تیاروں کے سلسلے میں ایک مرتنہ جھنڈیاں لگانے کے بعد بارش سے سب خراب ہو گئیں تو میری چھوٹی بہن بہت روئی تھی ۔۔۔ اور وہ اپنی طرف سے اللہ سے لڑی تھی۔۔۔ہم جھنڈیوں کو دھاگے سے لگانے کے لئے آٹے کی لیوی بنا کر استعمال کرتےہیں۔ یہاں میں اپنے ابو کی ایک بات ضرور بتاؤں گا جو مجھے اچھی لگی ان کا کہنا ہے“مذہب،ملک اور برادری (خاندان) کے لئے اگر کچھ کرو تو اسے احسان سمجھ کر نہ کرو اور اس کے بدلے میں بھی کچھ طلب نہ کرو“۔ اب آخر میں میری انگریزی کی تک بندی جو میری اس زبان میں واحد تک بندی ہے یہ میں نے دسویں جماعت میں کی تھی پھر مجھے پتہ چل کیا کہ میں کتنے پانی میں ہو

MY HOME LAND

In the world ,the best Land That is my Home Land I like its all thing, present here Also its all Field & Sand I want to kill all enemy of my land And want to die for this Land We all , who live here All are Brother & Friend I Love my HOME LAND I Love My

8/07/2005

انگریزی اردو لغت

مجھے معلوم ہے کہ آپ کی انگریزی اچھی ہے مگر میرا تو حال ماندہ (برا) ہےنا۔اب اس بنا پر ہم انگریز یا اس کی انگریزی یا خود مجھ کو جتنا بھی کوس لے مگر تسلیم کرنا پڑے گا کہ آج کے دور میں اس سے دوری ممکن نہیں اس کو ایک بین الاقوامی زبان کی حیثیت حاصل ہے۔اگر آپ بھی میری طرح (انگریزی سے کم واقف) تو عرض ہے کہ اس سلسلے میں انگریزی سے اردو اور اردو سے انگریزی لغت درکار ہوتی ہے۔اس سلسلے میں کلین ٹچ والوں کی ڈکشنری کافی سو دمند ثابت ہو سکتی ہے۔یہ ایک اچھی لغت ہے۔اس کا سائز قریب قریب چھ (۶)ایم بی ہے اور یہ ہے بھی مفت۔۔۔۔۔۔۔۔! امید کرتا ہو آپ کے کام آئے گی۔۔۔۔۔

8/05/2005

نوجوان کے نام

ترے صوفے ہیں افرنگی ، تیرے قالین ہیں ایرانی لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی امارت کیا ،شکوہ خسروی بھی ہو تو کیا حاصل نہ زورِ حیدری تجھ میں نہ استغناے سلمانی نہ ڈھونڈ اس چیز کو تہذیب حاضر کی تجلی میں کہ پایا میں نے استغنا میں معراج مسلمانی عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں نظر آتی ہے اس کو اپنی منزل آسمانوں میں نہ ہو نومید، نومیدی زوال علم و عرفاں ہے امید مرد مومن ہے خدا کے راز دانوں میں نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں (کیا مجھے شاعر کا نام لکھنے کی ضرورت ہے؟

7/31/2005

مدارس آرڈ یننس

یہ لو ایک اور آرڈیننس (مدارس آرڈیننس) آرہا ہے آنے دو! دھشت گردی کے خلاف جنگ کے علاوہ کوئی دوسرا کام بڑی روانگی سے کر رہی ہےوہ نئے نئے آرڈیننس پاس کر ہی ہے اور پرانے قوانین کو ترمیم کے بعد نئے نام سے جاری۔نہیں نہیں جناب ہمیں کوئی اعتراز نہیں ہم نے نہ تو حسبہ بل پر اعتراز کیا نہ اس پر اعتراز کرنے پر اعتراز کیا بلا اب کیا کرے گے۔ بھائی ہمیں نہ تو قانون بنانے پر شکایت ہے نہ اس کے پاس ہونے پر نہ اس کے نفاذ پر، بات ساری ہی ہے کہ یہ تو ہو کہ یہ سارے کام ہم اپنی خواہش اور مرضی سے کر رہے ہیں اب اس آرڈیننس کو ہی لے لیں لگتا ہے کہ انکل سام اور اس کے چیلے کے حکم پر بنایا جا رہاہے۔ فارن میڈیا سے خطاب میں صدر صاحب نے ارشاد کیا “دسمبر تک مدارس کی رجسٹریشن مکمل ہونی چاہئے“ ٹھیک ہے جناب مگر! ساتھ ہی حکم جاری ہوا کہ “غیر ملکی طالب علموں دسمبر تک ملک چھوڑ جاؤ“۔ ہان اب وہ کہے گے کہ ہم نے یہ فیصلہ بھی خود کیا ہے،کسی دباؤ کا نتیجہ نہیں۔ فلسفی اسپنزنے کہا تھاکہ اگر کسی اینٹ کو ہوا میں پھینک دیا جائے اور پوچھا جائے اے اینٹ کدھر چلی؟ وہ کہی گی میں اپنی مرضی سے جاہی ہو کسی کی کیا ہمت کہ مجھے اس راہ پر ڈالے۔ہماری مثال ابھی کچھ ایسی ہی ہے،جو حکم اس کعبہ (امریکہ) سے آتا ہے اس پر سر تسِلیم خم ہوتا ہے ساتھ کہتے ہیں یہ ہماری اپنی مرضی ہے،اور وہ! خانہ کعبہ پر حملے کی تجویز پیش کرتے ہیں ہے نا کمال! بعد میں بے شک معافی مانگ لو ایک بار دل کی بات تو زبان پر لے آؤ۔ آردیننس آئے اس پر عمل ہو ، مدارس کی رجسٹریشن ہونی چاہیئے۔یوں ان کو ایک مقام حاصل ہو گا۔مگر غیر ملکی طالب علموں کے انخلاء والا معاملہ کچھ ٹھیک نہیں اس سے ان ممالک میں پاکستان کا امیج مجروح ہونے کا اندیشہ ہے جن سے یہ طالب علم یہاں آئے ہاں اگر ان طلبہ کی رجسٹریشن کر لی جاتی تو بہتر تھااور صرف مدارس آرڈیننس کیوں؟ این جی اوز آڈیننس بھی کیوں نہیں؟ اپنی رائے یہاں بھی دیں

7/30/2005

نوبل انعام

"سنو اور غور سے سنو۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب یہ پرائز نوبل نہیں اگنوبل ہو گیا ہے۔ یہ اب صرف مغرب اور مغربی اقدار پر یقین رکھنے والوں کے لیے ہے۔ یہ آج تک کسی ایسے شخض کو نہیں ملا ،جس نے مغربی بالادستی قبول نہ کی ہو۔ اس میں سیاست اتنی ہوتی ہے کہ ایک زمانے میں جونہی کوئی روسی مصنف بھاگ کر یورپ آ جاتا جو اپنی تحریروں میں اپنے ملک کو گالیاںنکالتا تھا ۔ مثلا سونرے انشن تو فوری طور پر نوبل انعام۔۔۔۔۔ دہشت پسند بیگن کو نوبل امن انعام۔۔۔۔۔۔ علامہ اقبال کو نہیں البتہ ٹیگور کو ادب کا انعام۔۔۔دنیا کے ایک عظیم ناول نویس یاسر کمال کواس لیے انعام نہیں دیا جائے گا کہ وہ کرد ہے اور ترک ناپسند کریں گے۔ ایک ایسے یہودی ادیب کو انعام۔۔۔۔۔۔جو صرف پولینڈ کی پولش زبان میں لکھتا ہے اور انڈونیشیا سےالگ ہو جانے کے لیے جدوجہد کرنے والے مشرقی تیمور کے ایک پادری "بشپ بیلو" اور لیڈر "ہو سے ہوتا" کوامن انعام کہ شاباش بیٹا مسلمان ملک سے الگ ہونے کوشش میں ہم تمارے ساتھ ہیں۔ کیا یہ انعام کسی کشمیری لیڈر کو بھی مل سکتا ہے۔جو اپنی آزادی کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔اور آخری بات مدر ٹریسا کوامن انعام اس لیے کہ وہ مغرب سے آئی ہے اور عبدالستار ایدھی جو دنیا کے ہر انعام بلند ہے ۔اسے اس لائق نہیں سمجھا گیا کیونکہ وہ مشرق سے آیا ہے،چنانچہ نوبل پرائز بھی اب گینڈا ایوارڈ بن گئے ہیں" (مستنصڑ حسین تارڑ کی کتاب 'ہزاروں ہیں شکوے' سے اقتباس)۔

7/25/2005

نم آنکھ

نم آنکھ سے ہر چیز دھندلی دیکھائی دیتی ہےخواہ یہ نمی کسی دکھ ،تکلیف، مایوسی ،درد،خوف یا خوشی کی بناء پرآئے جب سب دھندلا دیکھائی دے تو حقیقت کا ادراک ناممکن نہ بھی ہو دشوار ضرور ہوتا ہے جب تک یہ نمی آنسو کا روپ دھار کر بہہ نہ جائے اس وقت تک منظر صاف نہیں ہوتا ،بات سمجھ نہیں آتی،آنکھ چاہے بیرونی ہو یا اندرونی(دل کی)۔
*******
ایک خبر کے مطابق برطانوی وزیراعظم اپنے میک اپ پر کافی رقم خرچ کرچکے ہیں، وہ میک اپ کا استعمال میڈیا کے سامنے آنے سے قبل کرتے ہیں،کبھی اسے خواتین کے لئے مخصوص سمجھا جاتا تھا مگر اب سربراہان بھی میک اپ کرتے ہیں،واہ بھائی! بڑی بات ہے۔

7/14/2005

لطیفہ

ممکن ہے یہ لطیفہ آپ کو پسند نہ آئے لہذا پیشگی معافی! ایک امریکی بچے نے راستے میں ایک پادری کو دیکھ کر مخاطب کرتے ہوئے کہا“ہیلو مسٹر“۔ پادری نے شفقت آمیز لہجہ میں کہا“بیٹا تم مجھے مسٹر کے بجائے فادرکہو تو ذیادہ مناسب ہے“۔ بچے نے حیرت سے اسے دیکھا اور بولا“اچھا!توآپ یہاں گھومتے پھر رہے ہیں اور ممی اتنے برسوں سے مجھے یہ کہ رہی ہیں کہ انہیں معلوم نہیں میرا باپ کہاں ہے“۔ ××××× ذاتی تک بندی تذکرہ جب اُس نے اپنی وفاؤں کا کیا ہر قصہ نے گواہی دی اُس کی بے وفائی کی

7/13/2005

سانحه گھوٹگی

غفلت ہمیشہ نہ سہی مگر اکثر و بیشتر بڑے حادثات کو جنم دیتی ہے۔گھوٹگی کا واقعہ بھی ایسا ہی ہے۔ ٹرینوں کا تصادم! جو بڑی ہلاکتوں کا سبب بنتا ہے یہاں بھی دو سو سے زائد ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔امدادی کاروائیاں جاری ہے۔خدا رحم کرے۔

7/09/2005

منقسم قوم اور الیکشن

وہ سندھی،وہ بلوچی،وہ پٹھان،وہ پنجابی،وہ مہاجر،وہ کشمیری،وہ سرائیکی،وہ سنی ،وہ شعیہ،وہ دیوبند،وہ وہابی،وہ الحدیث،وہ غیر الحدیث،تقسیم در تقسیم،گروہ درگروہ،لسانی و مذہبی بنیادوں پر بٹی ہوئی یہ قوم،جوہم ایک ہیں کے بجائے ہم ایک ایک ہیں کا نعرہ لگا رہی ہے۔یہ ایک اور ایک کا سفر نہیں بلکہ ایک اور الگ یعنی تنہائی کاسفر ہے،تفریق کا پہاڑہ ہے۔ہم کے بجائے" میں" کی بات ہے اور اوپر سے یہ الیکشن جو ہر بار اُس زلزلے کا کام کرتے ہیں جو کسی عمارت کی دیوار میں چند نئی دڑاریں پیدا کر دیتا ہے اور پہلے کی دڑاروں کو مزید واضح کر دیتا ہے،فاصلوں کو بڑھا دیتا ہے۔ایسے الیکشن میں کن کی سلیکشن ہو گی اس کا حساب لگانا دشوار ہے کیا؟ انتخاب میں لوگ اپنی اپنی پسند کے امیدوار کی حمایت کرتے ہیں نیز اسے ووٹ دینے پولیگ اسٹیشن جاتے ہیں۔۔۔۔یہاں تک معاملہ ٹھیک ہیں مگر۔۔۔۔اس سیاسی اختلاف،پسند نہ پسند،حمایت کو ذاتی اختلاف بنا لیتے ہیں یہ درست نہیں،کسان کے بیٹے تو سمجھ گئے تھے کہ گٹھری سے جدا ہونے والی لکڑی کو توڑنا آسان ہے نہ معلوم قائد کی قوم کب جانے؟ ملک میں بلدیاتی انتخابات کی آمدآمدہے،کراچی میں دو پارٹیاں انتخاب کی تیاریاں بڑی زوروشور سے کر رہی ہیں ساتھ ہی شور بھی۔ایک کی رائے میں اس نےبڑے کام کئے ہیں اور دوسری کادعویٰ ہے کہ وہ اب میدان خالی نہیں چھوڑے گی۔ایک کا زور سٹی گورنمنٹ میں تھا اور دوسری کی طاقت صوبائی حکومت میں ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ شہر میں کافی ترقیاتی کام ہوئےمگرساتھ ہی اِن کے تصادم سےشہر میں کافی بدامنی رہی۔ہر منصوبہ کا آغاز دودومرتبہ ہواایک مرتبہ سٹی گورنمنٹ والے ابتداء کرتےاوردوسری مرتبہ صوبائی گورنمنٹ والے سنگ بنیاد رکھتے ۔ تصادم کا آغاز اس ہی وقت شروع ہو گیا تھا جب شہری حکومت کی سربراہی نعمت اللہ کو ملی اورگورنری عشرت العباد کے ہاتھ لگی،ایک رات ایک پارٹی دوسری کے خلاف چاکنگ کرتی تو اگلی رات دوسری پارٹی پہلی کی مخالفت میں بینر آویزا کردیتی جن کے آخر میں تحریر ہوتا منجانب "اہل کراچی" جبکہ اہل کراچی کو تو اس معاملہ سے بے خبر ہوتے اس تصادم نے تعلیمی اداروں کو بھی کافی متاثر کیا،موقع بےموقع یہ ادارے ان پارٹیوں کی ذیلی طلبہ تنظیموں کے جھگڑوں کی وجہ سےکالج ہفتہ دس دن کے لئے بندہوئے۔ خیر اب دیکھے کیا ہوتا ہے؟ کون آتا ہے؟ جو ہو اچھا ہو ۔کوئی ایسا نہ آئے جو داغ کے متعلق ایسی رائے رکھے کہ "داغ نہیں تو سیکھنا نہیں" یا "داغ تو اچھے ہوتے ہیں" ،یہ کردار پر لگے داغ ہیں سرف ایکسل نہیں جاتے۔کیا سمجھے؟؟؟

7/05/2005

امتحان

امتحان آ کر چلے گئے اور اس دوران ہم چَلّے(نیم پاگل) ہو گئے۔ چلو! شکر خدا کا اچھے ہو گئےدونوں امتحان بھی اور ہم بھی۔جو انہوں نے پوچھا وہ ہمیں آتاتھابلکہ یوں کہئے کہ انہوں نے وہ ہی پوچھا جو ہمیں آتا تھا،ہم نے بھی ہر سوال کا نصابی و کتابی جواب دیا اپنے پاس سے کیا لکھتے؟کچھ آتا تو لکھتے نا! اب دعا یہ ہی ہے کہ کامیابی ہمارے قدم چومے بعد میں بے شک کلی کر لے۔

6/03/2005

ذاتی تک بندی

مسکرا کے ملنے سے شکوے دور نہیں ہوتے
شکوؤں کی دوری کیلئے لڑنا بھی ضروری ہے
ہاتھ کے ملانے سے دل ملا نہیں کرتے
دلوں کے ملاپ کیلئے خیال ملنا ضروری ہے

سینے سے لگانے سے دوست بنا نہیں کرتے
کوئی دوست بنانے کیلئے اعتماد بھی ضروری ہے

مذاکرات کی میز پر جگڑے حل نہیں ہوتے
جھگڑے نمٹانے کیلئے نیت ہونا ضروری ہے

حقیقت کے بتلانے سے ساتھی سمجھا نہیں کرتے
بات سمجھ آنے کیلئے ٹھوکر کھانا ضروری ہے

5/30/2005

قصوری کی نیند

یہ خبر اتور انتیس مئی کی "نوائے وقت" کے صحفہ بارہ (جو آخری ہوتا ہے) میں پڑھی ذرا ملاحظہ ہو "اسلام آباد (آئن لائن) وزیز خارجہ خورشید محمود قصوری ہفتہ کو او آئ سی کی نامور شغصیات کے کمیشن کے دو روزہ اجلاس کی افتتاحی تقریب میں وزیراعظم شوکت عزیز کی تقریر کے دوران سٹیج پر بیٹھے سوگئے جس پر ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے او آئی سی کے سیکٹرری جنرل اور ملائشیا کے وزیر خارجہ مسکراتے رہے جبکہ شرکاء بھی یہ منظر دیکھ کر محظوظ ہوتے رہے خورشید قصوری وزیر اعظم کی تقریر سے بے نیاز نیند کے مزے لیتے رہے اور گہری نیند میں جانے کے بعد انہوں نے نہ صرف خراٹے مارنے شروع کر دیئے بلکہ خود کلامی بھی شروع کر دی اس پر ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے او آئی سی کے سیکٹرری جنرل اور ملا ئشیا کے وزیر خارجہ ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکراتے رہے جب کہ وزیر اعظم کی تقریر ختم ہونے کے قریب آئی تو سیکورؕؕٹی والوں نے قصوری کو اٹھا نت کے لئے ایک اہلکار کو بھیجا جس نے جا کر وزہر خارجہ کی کرسی کو ہلایا تو یکدم قصوری نیند سے بیدار ہوکر بیٹھ گئے جیسے ہی وزیر اعظم کی تقریر ختم ہوئی تو سب سے ذیادہ تالیاں بھی قصوری نے ہی بجائیں"۔ اب آپ کیا تبصرہ کریں گے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

5/26/2005

اسلامی قانون،روشن خیالی اور ہم

کوئی قا نون کتنا ہی اچھا اور جامع کیوں نہ ہو اس نے کسی بھی معاملے کے تمام پہلوؤں کو سامنے رکھ کر چا ہے جتنا ہی بہتر حل واضع کیا ہو مگراگرقانون کے نفار میں بد نیتی کا مظاہرہ کیا جائے تو ساری کاوش و محنت پر پانی پھر جاتا ہے۔بنایا گیا اصول بس ایک دکھاوے کی چیز بن کر رہ جاتا ہے۔ ایسا ہی سلوک ہمارے ملک میں اسلامی قوانین کے ساتھ ہوتا ہے۔ آئین پاکستان کا آرٹیکل۲۰۳وفاقی شریعت کورٹ سے متعلق ہے اس کورٹ کا مقصدیہ ہے کہ یہ خود یا پاکستانی شہری کی تحریک پر یا وفاقی حکومت یا کسی صوبائی حکومت کی تحریک پر اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں کسی قانون کا بغور جائزہ لینے کے بعد یہ فیصلہ صادر کرے کہ آیا یہ قانون اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے یا متصارم نیز اسے کس طرح اسلامی خطوط کے مطابق بنایا جا سکتا ہے۔بعض احباب کی رائے میں دراصل اس کورٹ کا مقصدصرف دکھاوے کے طورپر نومولد قانون کے کان میں اذان دے کر اسے مسلمان بنانا ہے اس بات سے قطع نظر کہ وہ مسلمان ہوا یا نہیں۔ مگرمیرا خیال یہ ہے کہ ایسا نہیں دراصل ہم ہی عملا ٹھیک نہیں۔ذرا شریعت کورٹ کے ان فیصلوں پر نظر ڑالیں اول :شریعت کورٹ نے سود سے متعلق ۲۲قانونی دفعات کو قرآن وسنت کے خلاف اور کالعدم قرار دینے کا فیصلہ سنایا
( ۱۴نومبر ۱۹۹۱)
دوئم-تمام قسم کی لاٹریاں اسلامی احکام کے منافی ہیں (۹جنوری ۱۹۹۲) ۔ سوئم-ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم خلاف اسلام ہے (فیصلہ ۲۳ اپریل ۱۹۹۲) ۔ اس طرح کے دیگر کئ فیصلے ہیں۔ ہم نے کتنے مانے؟۔ سود والے معاملے پر اپیل کی آٹھ نو سال معاملہ لٹکا پھر بھی سپریم کورٹ نے شریعت کورٹ کے معاملے کو درست قرار دیا تو وفاق نے نظر ثانی کی اپیل کی اور فیصلہ اپنے حق میں لے لیا جی لےلیا ۔لاٹری !پنجاب حکومت کی جانب تازہ مثال ڈھائی کروڑ کا انعام والی معلوم ہے نا!۔۔۔۔ملازمت میں کوٹہ! سسٹم ختم ہوا کیا؟ اب ذرا حدودکی بات ہو جائے۔ عرض ہے کہ چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا اور زنا کی سزا کوڑے مارنا اور سنگسار کرنا دونوں سزائے پاکستان کے قانون کےمطابق ہیں ،حدود آرڈینس ۱۹۷۹ء،یہ قانون ضیاء الحق نے دینی جماعتوں کے کہنے پر بنوایا تھا،مگر تسلیم کرنے کی بات یہ ہے ۵ جولائی ۱۹۷۹ جب سے یہ قانون لاگو ہوا اس قانون کے تحت سزا تو دی گئی مگر اس پر عمل درآمد نہ کیا گیا،وجوہات بہت سی ہیں ،اول گواہان کے لئے رکھی گئی کڑی شرائط (ان کے لئے لازم ہے کہ انہوں نےگناہ کبیرہ نہ کیا ہو)کہ وہ تذکیہ الشعود پر پورا اترے،دوئم چوری کی صورت میں دو اور زنا کی صورت میں چار چشم دیدگواہ درکار ہیں،سوئم نام نہاد وہ این جی اوز جو مغربی فنڈ پر چلتی ہیں اور انسانی حقوق کا ڈھول بجاتی ہیں کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ زانی ہے!ہے تو انسان نا!۔۔۔۔۔ جہاں تک جدید سہولیات کے ذریعے زانی یا چور ثابت ہونے پر حدود لاء کے نفاذ کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں علماء اکرام کا مشترک فتویٰ یا اجتہاد درکار ہے کہ آیا ڈی این اے ٹیسٹ ،یا کوئی آڈیو یا ویڈیو ٹیپ جو کسی جرم کو ثابت کرے اُسے کس حد تک شہادت کے طور پر قبول کیا جائےاور کس حد تک نہ کیا جائے،علماء اکرام و مفتی حضرات میں اس سلسلے دو مختلف اراء ہیں کچھ کی رائے میں حدود کا نفاذ ممکن ہے اور چند اس با ت سے انکاری ہیں،بحرحال کچھ بھی ہو لیکن امید کی جاتی ہے کہ مستقبل میں ایسی شہادت حدود کے نفاذ کا ذریعہ بن جائے گی،مگر اگر ابھی کسی فرد پر حدود کا نفاذ نہ ہو تو اس کا مطلب یہ نہ ہے کہ مجرم کو کچھ نہ کہا جائے گا بلکہ اس پر تعزیر کا نفاذ ہو گا یعنی مجرم کو کیا سزا دی جائے یہ قاضی پر ہے (معافی کی گنجائش نہیں) اور یہ عین اسلام ہے،پاکستان میں اس سلسلے میں مختلف قوانین موجود ہیں(تعزیرات پاکستان،ضابطہ فوجداری،ضابطہ دیوانی)۔ ان مشکلات کے علاوہ مجرم کو حدود کے مطابق سزایاب نہ کرنے کی ایک وجہ سیاسی ہے کہ اس سلسلے میں بین الاقوامی دباؤ کہ یہ سزائے انسانی حقوق کے خلاف ہیں اور ہم روشن خیالی کے بخار میں مبتلا ان کے دباؤ میں آ کر یہ سزا نہیں دیتے،اللہ ہمیں توفیق عطا کریں کہ ہم دوسروں پر یہ ظاہر کرنے کہ بجائے کہ ہم روشن خیال ہیں یہ بتا سکے کہ انہیں ہمارے مذہبی معاملات میں دخل نہیں دینا چاہئے۔ روشن خیالی کی بھی کیا بات ہے اس بیماری نے کیا کیا گل کھلائے ہیں ابھی لاہور میں اس مرض میں مبتلا افراد نے مخلوط میراتھن ریس کروائی آج خواتین سڑکوں پر مردوں کے ساتھ دوڑی ہیں کل گھروں سے دوڑی گی،بات یہ ہے کہ ملک کی ترقی کے لئے لازم ہے عورت و مردشانے سے شانہ ملا کر چلے مگر شانے سے شانہ مارنہ ضروری نہیں ہے،عورت کو زندگی کے ہر شعبہ میں ہونا چاہئے مگر! مرد و عورت کو ہر لمحہ اپنی حدود سے تجاوز نہ کرنا چاہئے،ہم روشن خیالی کی وباء میں مبتلا ہو رہے ہیں اور دنیا انتہاپسندی کی طرف مائل ہے،گوانتےموبے میں قرآن پاک کی شہادت،بھارت میں بابری مسجد کہ بعد ایک مسجد اور شہید کی جارہی ہے اور فرانس نے اسکاف پر پابندی لگادی۔ قرآن میں ہے "اور اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ" مگر پڑھے کون؟پڑھے تو مانے کون! اہل نظرذوق نظر خوب ہے لیکن جو حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا
**********************
رات اسٹڈی کے دوران یہ جملے ذہن ہیں آئے ضبط تحریر میں لا رہا ہوں "محبوب بھی خدا کی طرح ہوتا ہے اس کی بھی پرستش کی جاتی ہے وہ اپنے عاشق کی ضروریات سے واقف بھی ہو تو چاہتا ہے کہ وہ اسے ہر ضرورت کے لئے پکارے اس سے ہاتھ اٹھا کر اپنی ضرورت کے لئے آگاہ کیا جاتا ہے اس سے بات کرنے کے لئے زبان سے گفتگو کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ دل کی زبان پر استعفادہ کرنا پڑتا ہے،اس کے قریب جانے کے لئے جسمانی قربت کی نہیں بلکہ دلی قربت چاہئے،اسے راضی کرنے کے لئے گڑگڑانا پڑتا ہے،اس کی خوشنودی کے حصول کے واسطے ہر اس کام سے اجتناب کرنا پڑتا ہے جو اسے برا لگے اور ہر وہ کام کرنا پڑتا ہے جو اسے پسند ہو،اس تعلق میں بھی بندے کو توحید کا دامن تھامنا پڑتا ہے شرک یہاں بھی جائز نہیں"۔