Pages

5/02/2021

متواسط طبقہ اور مہنگا ازاربند


ہم میں سے ہر ایک ہر معاملے کو اپنے نقطہ نظر سے دیکھنے کا عادی ہے اس کی وجہ اس کا اپنا خاص ماحول جس میں اس نے نشوونما پائی یا وہ طبقہ جس سے وہ تعلق رکھتا ہے۔ فرد کی معاشی حیثیت بھی اس کے ماحول و تعلق کو ظاہر کرتی ہے۔ کسی کے لئے پچاس ہزار ایک ماہ کے لئے کافی ہیں اور کوئی اس میں بمشکل ایک ہفتہ "گزارا" کر پاتا ہے۔

جب ہم نے اپنی وکالت شروع کی یعنی اپنے سینئر سے الگ ہوئے تو ایک پہلا مسئلہ جس سے ہمارا واسطہ پڑا وہ سائل سے معاوضے کا تعین تھا۔ جس لاء فرم سے ہم نے وکالت سیکھنے کی ابتداء کی تھی وہ ایک اونچے طبقے سے تعلق رکھتی تھی لہذا میرے ریفرنس کے افراد کے لئے اس حیثیت کی فیس ادا کرنا ممکن نہ تھا۔ وکالت کے آغاز میں اس بات کی تو سمجھ آ گئی کہ معاوضہ طلب کرتے وقت صرف مسئلہ کی پچیدگی ہی نہیں بلکہ سائل کی قوت خرید کو بھی مد نظر رکھنا ہوتا ہے۔

متواسط طبقے کے سائل سے جس ضمانت کے ہم چالیس ہزار طلب کرتے تھے چند ہمارے دوست وہ کام بیس ہزار میں اور کچھ سینئر وکلاء اسے طرز کی ضمانت کے ڈیڑھ سے تین لاکھ روپے فیس کی مد میں لیتے تھے۔ فرق ٹریٹمنٹ کا ہوتا تھا بس۔ قانون و دلائل میں کیا فرق ہونا ہے بشرطیکہ وکیل محنتی ہو۔ وہ کہتے ہے ناں ایک امیرزادے کے ہاتھوں قتل ہو گیا تو اس کا باپ ایک وکیل کے پاس اپنا کیس لے کر گیا معاملات طے ہو رہے تھے تو امیرزادے کا باپ وکیل کی "کم" فیس کی بناء پر بددل ہو گیا کہ جو اس قدر کم معاوضہ مانگ رہا ہے اس نے کیا مقدمہ لڑنا ہے لہذا وہ ایک دوسرے وکیل کے پاس کیس لے گیا بھاری معاوضہ دینے کے بعد بھی اس کے بیٹے کو سزا ہو گئی۔ کچھ عرصے بعد باپ کی ملاقات پہلے والے وکیل سے ہوئی تو اس نے بچے کے مقدمے بارے پوچھا تو باپ نے آگاہ کیا کہ اسےسزا ہو گئی ہے جس پر وکیل صاحب بولے " دیکھ لیں جو کام آپ نے پندرہ لاکھ میں کروایا وہ میں تین میں کردیتا"۔

یہ قیمت یا معاوضہ کا فرق وکالت ہی نہیں بلکہ ہر شعبہ زندگی میں نام (جسے آپ برانڈ کہہ لیں) اور ٹریٹمنٹ (اسے آپ پریزنٹیشن یا سہولت کہہ لیں) کی وجہ سے ہوتا ہے۔ میرے والد جب اپنی نوکری سے ریٹائر ہوئے تو باقی پاکستانیوں کی طرح انہوں نے بھی ریٹائزمنٹ کے بعد حج کا رادہ کر رکھا تھا۔ حج ایک مشقت والی عبادت ہے لہذا اس مشقت کو کم کرنے کے لئے انہوں نے سرکاری کے بجائے پرائیویٹ سیکٹر سے حج پر جانے کا پروگرام بنایا 2016 میں جب سرکار پونے چار لاکھ کا حج کروا رہی ی میرے والدین نے جو پیکج لیا وہ ساڑھے سات لاکھ فی کس والا تھا حرم و مدینہ میں قریب رہائش و دیگر سہولیات کی بنا پر ان کا حج با آسانی ہوا۔ تب ہمیں معلوم ہوا کہ مولانا طارق جمیل صاحب پندرہ لاکھ فی کس کے حساب سے حج کا پیکج دے رہے ہیں۔


ہر طبقے کے اپنے برانڈ ہوتے ہیں ہر شعبہ میں۔ ان کی اپنی شرائط ہوتی ہیں۔ میرے جیسے متواسط طبقے کے بندے کو کبھی بھی بڑے نام (برانڈ) کی خریداری بارے میں نہیں سوچنا چاہئے۔ ایم ٹی جے برانڈ ابھی کا نہیں ہے شروع سے ہی اوپری طبقے کا برانڈ ہے۔ ان کے پیروکار ابتداء سے ہی "بڑے نام" رہے ہیں۔ بڑے برانڈ آہستہ آہستہ ہر شعبہ میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں ان پر تنقید یا ان کی حمایت کرتے واقت احتیاط کریں کیونکہ کہیں آپ کے اپنے  نظریات اور کہیں آُپ کا اپنا طبقہ اس تنقید یا حمایت کا نشانہ بن سکتا ہے۔ چالیس والا آزار بند سو روپے میں یا چار سو والی ٹوپی پندرہ سو میں ہرگز مہنگی نہیں بس وہ آپ کے لئے نہیں ہے کیونکہ آپ کی کلاس دوسری ہے۔

4/01/2019

جب ملزم انتقال کر گیا


ہمارے ایک دوست جو اب ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل ہو گئے ہیں پہلے ہماری طرح اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹر (ہم اسسٹنٹ پروسیکیوٹر جنرل ہیں اب) تھے ان کی عدالت کے ایک مقدمے میں ایک ملزم اچانک غیر حاضر ہوا اور پھر کئی تاریخوں میں جب وہ پیش نہ ہوا تو اس ملزم کے وکیل نے عدالت کو ملزم کے کسی رشتے دار کے حوالے سے تحریری طور پر آگاہ کیا کہ "ملزم کے فلاح رشتے دار سے معلوم ہوا ہے کہ ملزم  بنام فلاح انتقال کر گئے ہیں لہذا میرے لئے مزید اس مقدمے میں پیروی کرنا ممکن نہیں" انہوں نے یہ آگاہی درخواست  اردو میں دی (ورنہ عموماً وکلاء انگریزی میں عدالت کو تحریری طور مخاطب کرتے ہیں) ۔
اس بنیاد پر اس مقدمہ کی سماعت معطل ہو گئی یعنی dormant کہہ لیں۔ چند ماہ بعد اس کیس کا تفتیشی آفیسر اس ملزم کی کسی دوسرے کیس میں گرفتاری کی رپورٹ لایا اور مقدمہ دوبارہ اوپن ہوا اور وہ ہی وکیل صاحب اس کی ضمانت کی درخواست کے ساتھ حاضر ہوئے تو ہمارے دوست نے  وکیل کی سابقہ غلط بیانی کی طرف عدالت کو متوجہ کیا کہ یہ وکیل صاحب ماضی میں ملزم کے "انتقال" کی اطلاع دے کر عدالت کو گمراہ کر چکے ہیں لہذا اب ان کی درخواست ضمانت نہ صرف رد کی جائے بلکہ عدالت سے غلط بیانی پر وکیل کے خلاف بھی کاروائی کی جائے۔ وکیل صاحب کا دعویٰ تھا انہوں نے کسی قسم کی کوئی غلط بیانی نہیں کی لہذا انہیں سماعت کا موقع فراہم کیا جائے وہ اگلی تاریخ پر سب واضح کر دیں گے لہذا تاریخ پڑ گئی۔
دن مقررہ پر سرکاری وکیل (ہمارے دوست) اور ملزم کے وکیل دونوں حاضر ہوئے ملزم کے وکیل نے اردو لغت کی چند کتب کی مدد سے ثابت کیا کہ درخواست میں "انتقال" سے مراد ملزم کا مقام یا جگہ تبدیل کرنا ہے نہ کہ وفات پا جانا لہذا اگر زبان سے ناواقفیت کی بناء پر عدالت یا کسی فرد نے مختلف سمجھا تو اس میں ان کا کوئی قصور نہیں۔
بعد میں ضمانت ہوئی ملزم کی یا نہیں یہ تو معلوم نہیں مگر وکیل صاحب کی واہ واہ ضرور ہوئی ہمارے وہ دوست آج زباں دانی اور الفاظ کے چناؤ میں اپنی مثال آپ ہیں اور اس سلسلے میں وہ اپنا استاد انہی وکیل صاحب کو مانتے ہیں ہمیں علم نہیں اس عدالت کے جج صاحب کی اس سلسلے میں کیا رائے ہے۔
یہ سارا قصہ ہمیں ابن آس صاحب کے اس اسٹیٹس سے بتانے کا خیال آیا۔

4/21/2018

دعا، طلب اور شرف قبولیت

یوں لگتا ہے کچھ دعائیں منظور ہو کر نہیں دیتی چاہے کتنا رو کر مانگو اور کچھ خیالات ابھی طلب کی دہلیز پر پہنچتے بھی نہیں کہ پورے ہو جاتے ہیں۔ مطلوب کے نہ ملنے کا احساس بن مانگے ملنے والی نعمتوں پر شکر گزاری کے راستے بند کر دیتا ہے۔
بڑے بزرگ کہتے ہیں جو دعائیں قبولیت کا شرف نہیں رکھتی ان کے بدل میں ملنے والی نعمت دراصل انمول ہوتی ہیں مگر اس کی آگاہی صرف اس کو ہو پاتی ہے جو شکر گزار  و رب کی رضا پر مطمئن ہو بصورت دیگر بندہ ایسی راہ پر چل نکلتا ہے جس سے آخرت کی کھیتی و فصل دونوں تباہ ہو جاتے ہیں۔
دعا و شکر گزاری کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔  شکر گزاری دراصل دعا کی قبولیت کی سند ہے۔ خالق کی عبادات، اللہ کے بندوں کی مدد و ان پر احسان، ہر مشکل و تکلیف پر صبر، مختصر یہ کہ زندگی کے ہر لمحہ میں اللہ کو یاد رکھنا ہی شکرگزاری ہے۔
اسے اپنے بندے کا رو رو کر مانگنا پسند ہے مگر نہ ملنے پر اپنے بندے کا رونا نہیں۔ طلب کے پورا نہ ہونے پر شکایت کرنے والے عموماً ذہانت سے نہیں عقل سلیم سے مرحوم ہوتا ہے جس کی ایک شکل گمراہی کی وہ سطح ہے جب کوئی رب کی ذات سے مایوس ہو کر اس کے ہونے سے انکار کر دیتا ہے۔
مانگو!! اس کی ذات سے یہاں تک خواہش کے پورے نہ ہونے پر مانگ بدل جائے مگر مایوسی تمہیں اپنی لپیٹ میں نہ لے مانگ کا بدلنا بھی سند خوشنودی ہے۔

12/11/2017

اور سڑک بن گئی!!!!

یہ قریب بیس سال قبل کی بات ہے میرے رہائشی علاقے ماڈل کالونی کی ایک نہایت مصروف سڑک ماڈل کالونی روڈ مکمل طور پر تباہ تھی۔ ہم یار دوست اکثر مذاق میں کہتے کہ جس نے جھولے لینے ہیں وہ بائیک لے کر اُس طرف چلا جائے۔ مگر پھر ایک دن صبح صبح اس سڑک پر کارپیٹنگ ہوئی ہوئی تھی مکمل سڑک نئی نئی سی معلوم ہوتی تھی دیکھ کر حیرت اس لئے ہوئِی کہ ایک دن قبل جب وہاں سے گزر ہوا تھا تو "جھولے" لے کر آئے تھے مطلب سڑک خستہ حالت میں تھی۔ معلومات لینے پر معلوم ہوا کراچی کی مشہور زمانہ پارٹی کے لیڈران نے ایک جلسہ کی سلسلے میں تشریف لانا تھا س لئے ایک ہی رات میں انتظامیہ نے "فرض شناسی" کا ثبوت دیا جو اہل علاقہ کے لئے چند دنوں کی "سہولت" کی شکل میں برآمد ہوا۔
تب یہ جانا کہ اگر آپ کے علاقے میں بہتری چاہے وقتی یا مستقل ان "جلسوں" کے مرہون منت ہوتی ہے جن کے سبب انہیں آپ کے محلے آنا پڑے۔ یوں وہ سڑک ہر جلسے و سیاسی ایکٹیوٹی پر "نئی " سی ہو جاتی مگر اب پھر دو سالوں سے وہ دوبارہ اجڑی ہوئی ہے۔
قریب ڈھائی سال قبل عمرکوٹ میں تعیناتی ہوئی تو میرپور خاص سے عمر کورٹ تک کی روڈ کی حالت زار دیکھ کر افسوس بھی ہوتا اور غصہ بھی آتا کہ یہ ہماری صوبائی حکومت کام کیوں نہیں کرتی۔ مگر ڈیڑھ ماہ قبل اس سڑک کی قسمت جاگی اور یہ سڑک بہتر انداز میں کارپیٹ ہونا شروع ہوئی چونکہ سیاسی جماعتوں کے جلسے پہلے بھی ہوتے رہے مگر اس روڈ کی حالت جوں کی توں رہی اس لئے اول خیال یہ آیا کہ ممکنہ طور پر یہ الیکشن سے قبل کیا جانے والا کام ہے مگر جب گزشتہ اتوار مقامی رہنما کے بیٹے کی شادی میں شرکت کے لئے مختلف "رہنماؤں" اور خاص کر صوبے کے حاکم جماعت کے تمام وہ لیڈر جن کا تعلق سندھ سے تھا کی آمد ہوئی تو معلوم ہوا یہ "ترقیاتی پروجیکٹ" اس شادی کی بدولت ہے۔
ایسی ہی خبر اس سے قبل لاہور سے "بنت مریم" کے گھر اپنی والدہ کی آمد پر تعمیر کی جانے والی سڑک سے جڑی ہے۔ یوں یہ بات پکی ہو گئی ہے کہ ہمیں اپنے اپنے علاقے کی بہتری کے لئے یقین کوئی ایسی ہی تقریب رکھنی پڑے گی ورنہ کوئی امید بر نہیں آتی۔

7/05/2016

گزری عیدیں!!

عید تو بچوں کی ہوتی ہے جب بچے تھے تو بڑوں کی زبانی یہ جملہ سن کر خیال آتا کیسے ہیں یہ ہمارے بڑے ہیں اپنی مرضی کر سکتے ہیں جیب میں پیسے ہیں جو چاہے کھائیں جیسا دل کرے ویسے کپڑے بنوائیں پھر بھی کہتے ہیں کہ عید ہماری ہے ان کی نہیں! عجیب لگتی تھی ان کی بات۔ اب ہم بچے نہیں رہے بڑے ہو گئے ہیں، کسی حد تک صاحب اختیار بھی ہیں اور جان گئے ہیں اس وقت کے بڑے ٹھیک کہتے تھے سچے تھے اب ہم بھی یہ ہی کہتے ہیں “عید تو بچوں کی ہوتی ہے “۔
جان گئے ہیں جو صاحب اختیار نظر آتے ہیں ان سے ذیادہ بے اختیار شاید ہی کوئی ہو جب ان کی خوشی دوسروں سے جڑ ی ہوئی ہوتی ہے۔ ذمہ دارویوں کا احساس من مانی کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہوتا ہے۔جان گئے ہیں ہم بچپن میں جن (والدین) کی اجازت کے طلب گار ہوتے تھے وہ دراصل ہماری خوشی کے آگے اپنی مرضیوں و خواہشوں کا گلا دبا دیتے تھے ۔ ہمارے نئے کپڑوں و جوتوں کے لئے اپنے پرانے جوڑوں کو استری کر کے عید والے دن زیب تن کرتے تھے۔ ہماری زندگی کی آسانی ان کی دشوار زندگی کا نتیجہ ہوتی تھی۔ تب نہ علم تھا نہ احساس! اب معلوم ہے مگر طاقت اب بھی اتنی نہیں کہ ان آسانیوں کا صلہ دے سکیں اُن دنوں کا بدل دے سکیں۔
ہماری میٹھی عید بھی ان کی عید قربان ہی ہوتی تھی۔ عید خوشی ہے ، خوشی احساس کا نام ہے اورعمر کی گنتی کے ساتھ اب احساس بدل گیا ہے یہ عید یقین بچپن کی عید سے مختلف ہے پہلے دوستوں و کزنوں کے ساتھ قہقہہ لگانا، ملنے والی رقم جو عیدی کہلاتی ہے اسے اپنی ذات پر خرچ کرنا اچھا لگتا ہے اب دعا ہے جنہوں نے میری عیدوں کو اپنی خوشیاں جانا اللہ توفیق دے ہے آنے والے دن میں اُن کی خوشیوں کا سبب و وسیلا بنو۔
آپ سب کو عید مبارک، اپنی خوشیوں میں انہیں یاد رکھیں جن کی خوشیاں آپ سے منسلک رہی ہے یا ہیں ۔ جانے انجانے میں انہیں دکھ یا تکلیف دینے سے اجتناب کریں یہ دکھ و تکلیف آپ کے ان سے رویے تک ہی محدود نہیں آپ کے ممکنہ دیگر دنیاوی معاملات سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔
وہ عیدیں جو گزر چکی اب میسر نہیں !مگر آنے والی عیدیں ممکن ہیں گزشتہ عیدوں سے بہتر ہوں، جنہیں بہتر بھی ہم ہی بنا سکتے ہیں۔خوش رہیں۔


6/21/2016

ناکامی بھی بخشش ہے

وقت سے پہلے حاصل ہونے والی  کامیابی بڑی کامیابی کے راستے کی رکاوٹ بھی ہوسکتی ہے. جہد مسلسل پر حاصل ہونے والی بڑی کامیابی کئی چھوٹی چھوٹی کامیابیوں و ناکامیوں کے ملاپ کا نتیجہ ہوتی ہیں . مسلسل ناکامیاں ممکن ہے مایوسی کی پرورش کرتی ہوں مگر مثبت رویہ رکھنے والے کو بطور انعام اپنی فیلڈ کا سب سے کامیاب فرد بنا دیتی ہے.


جب کبھی اپنے اردگرد نظر دہرائی جدوجہد کے ابتدا میں کامیابی حاصل کر کے مطمئن ہونے والوں کو کامیاب لوگوں کی فہرست میں پچھلی نشست میں دیکھا. کاوشوں کے نتائج پر اطمینان کرنے والے آگے بڑھنے کی صلاحیت کھو دیتے ہیں. یہ خیال کہ ناکامیاں ہی کسی فرد کو ناکام بناتی ہیں اس وقت غلط ثابت ہوا جب کسی چھوٹی یا نچلی منزل پر مطمئن بیٹھے شخص کو دیکھا کہیں وہاں وہ اپنی اولین کامیابی کی بناء پر پہنچا تھا.


ایک بزرگ نے ہمیں ایک بار کہا تھا "پتر ناکامیوں کو سنبھال کر رکھا کر یہ مثالی کامیابی کی کنجی ہوتی ہیں" ہمیں یہ بات تب سمجھ میں نہیں آئی تھی مگر اب احساس ہوتا ہے ناکامی ایندھن کا کام بھی تو کرتی ہے بڑی منزل تک پہنچنے کے لئے ذیادہ ایندھن درکار ہوتا ہے شاید اس سے یہ مراد ہو کبھی خیال آتا ہے شاید چونکہ ہر ناکامی ایک نیا سبق دیتی ہے جو علم میں اضافہ کا سبب بنتا ہے اور مثالی کامیابی علم کے بغیر ممکن نہیں شاید ان کی یہ مراد ہو قیاس ہی کر سکتا ہوں مطلب سمجھنے میں مگر جس پہلو سے بھی دیکھو بات سچی ہی معلوم ہوتی ہے.


بات یہ ہے کہ ناکامی بھی تحفہ ہے بخشش ہے کھلے دل سے قبول کریں گے تو بڑی کامیابی عنایت ہو گی ورنہ منزل سے دور ہی رہے گی اور بندہ ہمیشہ ناکام. ناکامی کو تحفہ یا بخشش ماننے کا طریقہ یہ ہے کہ بندہ جدوجہد کرے.