یہ اُس دور کی بات ہے جب ہم نے تازہ تازہ پی اے ایف انٹر کالج ملیر میں داخلہ لیا تھا! ہم اُن چند طالب علموں میں سے تھے جن کے والد فوجی میں نہیں تھے، کلاس فیلوز کی اکثریت فوجی پس منظر رکھتی تھی۔ ایسے ہی ایک دن گفتگو مختلف انداز میں جاری تھی، ہم اُس میں کوئی حصہ نہیں ڈال رہے تھے ساتھ بیٹھے دوست سے کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں سے متعلق خیالات کا تبادلہ کر رہے تھے۔
تب اتنے میں محفل کے دوسرے حصے میں ایک لڑکے نے اپنی علمیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ اگر ایک ٹینک کی رقم جو فوج اُس کی خریداری پر لگاتی ہے کو تعلیم پر خرچ کریں تو قریب تین سو افراد ماسٹر تک اپنی تعلیم مکمل کر لیں! اس ہی طرح اُس نے ایک کلاشنکوف سے لے کر ہوائی جہاز ااور ایک فوجی کی تنخواہ سے لے کر پوری بٹالین کے اخراجات کا موازنہ تعلیمی اخراجات تک کرتے ہوئے یہ باور کروانے کی ہر ممکن کوشش کی کہ اگر فوج نہ ہوتی تو ملک میں خواندگی کی شرح سو فیصد نہیں تو نوے فیصد ضرور ہوتی، ایٹم بم کا دھماکا اُس وقت نہیں کیا تھا پاکستان نے ورنہ اُس بارے میں بھی وہ کچھ نا کچھ روشنی ڈالتے جبکہ اُس کے والد خود افواج پاکستان کا حصہ تھے۔ ہم اپنی کرکٹ کی گفتگو چھوڑ کر اُس کی گفتگو سننے لگ پڑے تھے اپنے دلائل کے اختتام پر اُس نے داد طلب نگاہوں سے سب کی جانب دیکھا۔ ہم نے اُس سے جزوی اتفاق کیا کہ تعلیم قوم کے ہر فرد کے لئے ضروری ہے اور یہ سب سے بہترین دفاع ہے مگر یہ کہنا کہ فوج کا ہونا ناخوادگی کی وجہ ہے یا یہ کہ فوج کم کی جائے، اس سے ہمیں اختلاف ہے ہاں جس ملک کی عوام تعلیم یافتہ ہو جائے تو اُس ملک کی فوج بھی اُس پوزیشن میں آ جاتی ہے کہ معاشی لحاظ سے خود کمانے لگ پڑے۔ لیکن بہرحال ایسی قسم کی بحث کا جو انجام ہوتا ہے ہو ہی ہوا کہ نہ وہ میری بات کا قائل ہوا اور نہ مجھے اُس کا فلسفہ سمجھ میں آیا۔
اب جب کہ پاکستان ایٹمی قوت بن چکا ہے، جہاں قوم کا ایک بڑا حصہ ایٹمی قوت ہونے پر فخر کرتا ہے، اسے کارنامہ مانتے ہوئے مختلف شکلوں میں اس کا کریڈٹ اپنی اپنی جماعت کے سر ڈالتا ہے کوئی اپنے لیڈر کو اس کے شروع کرنے پر ہیرو بتاتا ہے اور کوئی اپنے لیڈر کو دھماکے کرنے کا فیصلہ کرنے کی بناء پر اُسے قوم کا مسیحا بتاتا ہے تو ایک طرف کئی ایسے احباب ہیں جو اسے ایک غلطی قرار دیتے ہیں! نہ صرف غلطی بتاتے ہیں بلکہ یہ دعٰوی بھی کرتے ہیں کہ یہ ایٹمی قوت ہونا ہی دراصل تمام مصیبتوں کی جڑ ہے، اس سلسلے میں ایسی ہی ایک کالمی بحث کا آغاز بزرگ کالم نگار حقانی صاحب نے اپنے کالم کے ذریعہ ہوا جناب نے اپنے فیصلے کو درست قرار دیا جس میں انہوں نے ایٹمی دھماکا کرنے کی مخالفت کی تھی، جواب میں مجید نظامی نے ایک کالم لکھ دیا۔
دشمن پر قابو پانے کے لئے ضروری ہوتا ہے اُس کی طاقت کو ختم کیا جائے! اُس کی جس قوت سے ڈر لگتا ہو اُس کو اُس سے جدا کرنے یا چھین لینے کو سہی کی جائے۔ اُسے اپنا محتاج بنانا ہو، اُسے اپنے رحم و کرم پر رکھنا ہو، اُسے فتح کرنا ہو، اُسے زیر کرنا ہو تو لازم ہے کہ اُسے اُس خصوصیت، اہلیت، قابلیت و ہنر سے محروم کر دیا جائے جس کی بنیاد پر ایسا کرنا دشوار و ناممکن ہو۔ آج ہمارا ایٹمی طاقت ہونا ہماری بقا کی کنجی ہے۔ اگر کبھی یہ شور اُٹھتا ہے کہ یہ “مذہبی انتہا پسندوں“ کے ہاتھ لگ سکتا ہے اس کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم ہمارے حوالے کر دو تو یہ وہ طاقت ختم کرنے کی ہی کوشش ہے، یہ جو خبر آتی ہے ناں کہ امریکی فوج کا ایک دستہ افغانستان پہنچ گیا ہے پاکستان کے ایٹمی پلانٹ پر قبصہ کرنے (یہ خبر فوسک بیوز نے چلائی تھی) یا کہ پاکستان امدادی رقم ایٹمی اسلحہ کی پیداوار پر خرچ کرے گا لہذا نظر رکھی جائے یہ وہ نفسیاتی حملہ ہیں جو کسی کو اپنے قابو میں لانے کے لئے کئے جاتے ہیں ورنہ سچ تو یہ ہے انہیں یہ بھی علم نہیں کہ کہ پاکستان کا ایٹمی پلان کیسے چل رہا ہے! کہاں کہاں ہے! کون سی یا کس قسم کی پروسیسنگ کہاں ہو رہی ہے، البتہ یہ اُن کے علم میں ہے کہ ہم نے اپنے ایٹمی پلانٹ کی موبائل یونٹیں بنا رکھی ہیں! اور مختلف کام مختلف مقامات پر ہوتے ہیں! لہذا اب اسے کسی بھی حملے سے تباہ اور فوجی کاروائی سے اپنے قبصہ میں نہیں لیا جا سکتا۔
شکر ہے ہم نے یہ بنا لیا اور ہمیں فخر ہے کہ ہم دنیا کا جدید ترین و سستا ترین طریقہ یورینیم کی افزائش کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ دشمن یہاں سے ہی ہماری طاقت کا اندازہ لگا چکا ہے اور وہ جانتا ہے ایٹم بم ہم نے اپنی حفاظت کے لئے بنایا ہے! اور ہم جانتے ہیں حفاظت کس طرح کی جاتی ہے!
5/21/2009
یہ حفاظت کو بنایا ہے
9/06/2008
امداد و قوت
جب ہم چھوٹے تھے تو بچوں کی کہانیاں کافی شوق سے پڑھا کرتے تھے! کئی کہانیاں ہمیں سمجھ بھی نہیں آتی تھیں! ایک ایسی ہی کہانی کچھ یوں تھی!
کہتے ہیں ایک ملک خداداد میں رعایا کافی سکون سے رہ رہے تھے، ملک کی آبادی توحید کی قائل تھی! جو کچھ بھی مانگنا ہوتا رب تعالٰی سے طلب کرتی! ایک بار مشہورہو گیا کہ ملک خداداد کے گنجان جنگل میں ایک درخت ہے اُس کے سامنے کھڑے ہو کر جو دعا مانگی جائے وہ قبول ہو جاتی، کئی لوگوں نے دعا مانگی اور وہ قبول ہو گئی، ہوتے ہوتے یہ سلسلہ اس قدر بڑھ گیا کہ عوام گمراہ ہو کر اُس درخت کی عبادت کرنے لگ پڑے۔ جب اس کا علم اُس علاقے کے ایک چھوٹے دوکاندار بہادر ہو ہوا تو اُسے بہت غصہ آیا اُس نے اپنی کلہاڑی لی اور درخت کاٹنے کے لئے جنگل کی طرف روانہ ہو گیا! کہ نہ درخت ہو گا نہ یہ گمراہی مزید پھیلے گی! جب وہ جنگل کے قریب پہنچا تو شیطان ایک پہلوان کے روپ میں اُس کا راستہ روک کر کھڑا ہو گیا! پہلے شیطان نے اُسے پیار محبت سے روکنے کی کوشش کی لیکن بہادر نے اُس کی ایک نہ مانی اور وہ اپنے ارادے پر قائم رہا! پھر شیطان اُسے دھمکیاں دینے لگ پڑا مگر بہادر ٹس سے مس نہ ہوا، آخر دونوں میں کُشتی ہوئی اور بہادر سے پہلے ہی وار میں شیطان کو اُٹھا کر دور دے مارا! شیطان کو سمجھ آ گئی کہ لڑائی میں اس شخص کو مات دینا ممکن نہیں لہذا شیطان نے فورا نیا تیر چلایا! اُس نے اُسے آفر کی کہ اگر تم اُس درخت کو نہ کاٹو تو میں تمہیں پانچ سو درہم دوں گا! بہادر نے انکار کر دیا! اُس نے کہا میں ہر ماہ تمہیں اتنی رقم ادا کرو گا! بہادر لالچ میں آ گیا اور پانچ سو درہم اُس ہی وقت لے کر واپس چلا آیا!
قریب پانچ ماہ تک شیطان نے اُسے ہر ماہ پانچ سودرہم دیئے! پھر اچانک یہ سلسلہ رک گیا! ابتدا میں بہادر کو پانچ سو درہم کا انتظار رہا پھر اُسے اندر سے ملامت ہونے لگی! لہذا ایک بار پھر وہ کلہاڑی لے کر وہ درخت کاٹنے کے لئے نکل گیا! اب کی بار پھر پرانے والے مقام پر شیطان اُس ہی پہلوان کے روپ میں اُسے ملا، اُس نے پرانے والئے انداز نے پہلے پیار سے پھر ڈرا دھمکا کر اُسے روکنا چاہا، آخر دونوں میں لڑائی ہوئی اور بہادر نے شیطان کو چاروں شانے چت کر دیا! آخر میں شیطان نے پھر لالچ والی ترتیب آزمائی اور بہادر نے انکار کر دیا! شیطان نے انکار کیا تو شیطان نے سو درہم بڑھا دیئے، پھر ہوتے ہوتے بہادر آٹھ سو درہم پر درخت نہ کاٹنے پر راضی ہو گیا!
اب کے کوئی تین ماہ بعد ہی شیطان نے رقم کی ادائیگی روک لی، بہادر اب کے جو گھر سے نکل کر جنگل کی طرف بڑھا تو شیطان نے راستہ روک لیا! دونوں میں لڑائی ہوئی اور شیطان نے بہادر کو وہ چاروں شانے چت کر دیا! بہادر کچھ بھی نہ کر سکا! اور شاید اب وہ کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا!
کہانی لکھنے والے نے بعد میں بتایا کہ حرام کھانے سے برائی کو روکنے کی قوت ختم ہوجاتی ہے! میں یہ سمجھا کہ جس سے مانگ کر کھایا جائے اُس کے خلاف لڑنا ممکن نہیں ہوتا نہ ہی سکت ہوتی ہے! یہ انفرادی واجتماعی سطح دونوں صورتوں میں درست ہے؟
ہم بیرونی دنیا سے امداد کے طالب رہے ہیں! لیتے رہتے ہیں! ہماری نئے وزیراعظم بھی امریکہ کا ایک دورہ اس لئے کر چکے، ہمیں فوجی و سویلین امداد لینی ہوتی ہے!ایسی میں وہ کیا ہے جو ہم رہن رکھ کر آتے ہیں؟؟؟ خوداری و عزت!
یار لوگ ناراض ہیں کہ امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر زمینی حملہ کیا بیس افراد جان بحق یا ہلاک (اب شہید کہوں گا تو اپنے ہی مارے گے) ہوئے، اور پاکستان نے کیا کیا؟ ارے بابا پارلیمنٹ نے قرارداد مذمت پاس کردی، دفتر خارجہ نے مذمتی و احتجاجی بیان کافی نہیں ہے کیا! اور بھی امداد لینی ہے! بند ہو گئی تو پھر؟ دہشت گردی کی یہ جنگ جاری رکھنی ہے ناں!
ویسے آج یوم دفاع ہے آپ کو مبارک ہو! یوم دفاع!