Pages

4/06/2013

ہائے اوئے کہاں جا پھنسا!!

نظریاتی اختلاف ہو تو الگ بات ہے! مگر کیا کریں وہ تو شخصیت پسندی کی بیماری میں مبتلا فرد ہے! برداشت اُس میں یوں بھی نہیں کہ وہ خود سے متضاد نظریات رکھنے والوں کو جہالت کی ڈگری عطا کرنے کا ہنر جانتا ہے!شخصیت پسندی ایک ایسی بیماری جو انتخاب کو آسان مگر درست انتخاب کو ناممکن بنا دیتی ہے! جو ایسا سمجھتیں ہیں وہ دراصل اُس کی نظر میں اُس کی پسندیدہ شخصیت سے نا واقف ہیں۔ اُس کی پسندیدہ شخصیت میں کوئی بُرائی ہو ہی نہیں سکتی!وہ سمجھتا ہے ہر بُرے آدمی کو اچھا آدمی بُرا لگتا ہے اور اس ہی لئے اُس کی پسندیدہ شخصیت میں کوئی خرابی نہیں!اُسے بُرا سمجھنے والے دراصل خود اچھے نہیں ہیں! اُس کی شعوری سوچ کی ترقی کے ساتھ ساتھ اُس کی پسندیدہ شخصیت اگرچہ تبدیل ہوتی رہی مگر اسے حسن اتفاق ہی کہا جاتا ہے ہے ہر بار اُس کی پسندیدہ شخصیت اقتدار میں ہوتی جس کا اظہار وہ اُس شخصیت سے ضرور کرتا کہ وہ سچ کے پرچار کرنے کا عادی تھا مگر اس حق گوئی کو اُس کے حاسدین نے خوشامد کانام دیا۔
جعلی ڈگری
وہ نظریاتی اختلاف کو اس طرح بیان کرتا ہے کہ جو اختلاف نظر آئے وہ ہی نظریاتی ( یعنی نظر +آتی) اختلاف ہے لہذا وہ مخالفین سے اپنا اختلاف اس حد تک کرتا ہے کہ نظر آئے چاہے کہیں بھی لہذا یہ اختلاف مختلف وجوہات کی بناء پر کبھی گلی محلے اور کبھی تھانہ کچہری میں نظر آتا ہے۔وہ جانتا تھا حق کی جنگ میں بندے کو مشکلات برداشت کرنا پڑتی ہیں، اپنی اس حق سچ کی لڑائی میں اُسے بھی جیل کی ہوا کھانی پڑی! مگر اُس نے ہمت نہ ہاری اور باطل کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھی ، چونکہ محبت و جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا ہے لہذا اُس نے سب ہی کیا اگر کچھ رہ گیا ہو تو اُس کی کسر وہ بعد میں پوری کر دیتا مگر!!! خدمت کی راہ میں وہ ہی بندہ آ گیا جس کے سامنے وہ باطل کی ہار کی جدوجہد کے سلسلے میں پیش ہوتا رہا تھا!
تب وہ جج تھا تب بھی اُس سے اُسے آزاد نہ رہنے دیا تھا اب بھی وہ اُسے عوام کی خدمت سے روکنے پر بضد ہے! وہ جو حق کی جیت کے لئے ہر ڈگری کو استعمال کرتا تھا آج ڈگری اُس ہی کو اُس کے خلاف استعمال کیا گیا ہے۔

7/25/2010

جعلی ڈگریوں والے



جی جناب یہاں جعلی ڈکریوں والے اب تک کے سیاستدانوں کی مکمل لسٹ ہے دیکھیں اور کتنے سیاستدان اس لسٹ میں شامل ہوتے ہیں!!!۔
ویسے اُن لوگوں کو کیسے پکڑا جائے جنہوں نے پرچے آوٹ کروا کر اور اپنی جگہ کسی اور کو بیٹھا کر ڈگری حاصل کی ہے؟

7/16/2010

میڈیا کے خلاف قرارداد کا متن

(ذیل میں میڈیا کے خلاف پنجاب اسمبلی کی پاس کی جانے والی قرارداد کا متن پیش کیا گیا ہے، اس پر رائے دے آپ کو قرارداد کی کس کس بات سے اختلاف ہے اور کیوں؟)
پنجاب اسمبلی کا یہ اجلاس گزشتہ کچھ عرصے سے ذرائع ابلاغ کے بعض حصوں میں جمہوری اداروں، سیاسی رہنماؤں اور عوامی نمائندوں کے بارے میں کئے جانے والے غیر ذمہ درانہ پراپیگنڈہ کو تشویش کی نظر سے دیکھتا ہے اور اس رائے کا حامل ہے کہ یہ پراپیگنڈہ پاکستان میں جمہوریت کے مستقبل اور آئین و قانون کی بالا دستی کے حوالے سے منفی  اثرات کا حامل ہو سکتا ہے۔
اس ایوان کے تمام اراکین متفقہ طور پر جمہوری اداروں اور عوامی نمائندوں کے خلاف شروع کی جانے والی اس ضروری پراپیگنڈہ مہم کی مذمت کرتے ہیں اور میڈیا کے ذمہ داران سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں جمہوری اداروں، عوامی نمائندوں اور سماجی راہنماؤں کے بارے میں بے بنیاد، بلا تحقیق اور توہین آمیز اور غیر ذمہدرانہ پروگرام پیش کرنے سے اعتراز کریں۔
یہ ایوان پوری دیانتداری سے سمجھتا ہے کہ بعض ٹیلی وژن چینلز نے اس ایوان کی معزز خواتین اراکین کی فوٹیج پر مبنی بھارتی گانوں کے ساتھ پروگرام پیش کرکے غیر ذمہ درانہ، اخلاقیات اور مشرقی روایات کی بدترین مثال پیش کی ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ یہ اجلاس ان چینلز سے قوم کی قابل احترام نمائندہ خواتین کے بارے میں دکھائے جانے والے اس قابل مذمت پروگرام پر آئندہ کیلئے محتاط رہنے کا مطالبہ کرتا ہے۔
یہ ایوان وطن عزیز میں زمہ درانہ اور غیر جابندرانہ صحافت کرنے والے اہل صحافت کے کردار اور قربانیوں کا معترف ہے اور ان کی قومی خدمات پر انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہے۔ تاہم یہ ایوان ذمہ درانہ اور آزاد صحافت کے زمہ داران سئ یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ صحافت میں مذموم ہتھکنڈوں، غیر ذمہ درانہ رپوٹنگ اور مخصوص مفادات کیلئے سیاسی اور غیر سیاسی شخصیتوں کی کردار کشی کے رجحان کی حوصلہ شکنی کرنے کیلئے آگے بڑھیں اور اپنا کردار ادا کریں۔
پنجاب اسمبلی کے اراکین کا یہ اجلاس میڈیا پر قومی سیاسی سخصیتوں کے بارے میں تبصرہ آرائی میں تضحیک آمیز عنصر کی سمولیت اور اس ضمن میں گروہی اور علاقائی بنیادوں پر روا رکھے جانے والے امتیازی برٹاؤ کو بھی تشویش کی نظر سے دیکھتا ہے۔
پنجاب اسمبلی کا یہ اجلاس حکومت سے مطالبہ سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اراکین اسمبلی اور میڈیا کے نمائندوں پر مشتمل ایک کمیٹی کو تشکیل دے جو اس صورتحال کا جائزہ لے کر قابل عمل سفارشات پیش کریں۔

دستخط

3/22/2009

ایک اور کی لیاقت! شاید جعلی ہو!

سب سے پہلے ہمیں “عامر لیاقت“ کی کی قابلیت کی خبر ملی بذریعہ “اُمت“ اخبار کہ جناب اصلی علامہ نہیں ہیں! بڑا شور مچا! مگر اُمت پر کیس فائل ہو کر بھی نہ ہوا! پھر “اہل نظر“ کی نظر میں جانبدار ٹھہرنے والے صحافی کی زبانی معلوم ہوا “محترم“ بابر اعوان بھی اصلی ڈاکٹر نہیں ہیں! پھر بلوچستان (گوادر ) سے منتخب ہونے والے  ایم این اے “محترم“ یعقوب بزنجو کی بھی گریجوایشن کی سند جعلی نکلی وہ بلوچستان نیشنل پارٹی سے تھے یوں بی این پی،  پی پی پی اور قائد تحریک کی پارٹیوں کا اسکور ایک ایک سے برابر جا رہا تھا کہ کراچی کو پیپلز پارٹی کے جھنڈوں سے سجانے والےکراچی پیپلز پارٹی کے صدر اور حال ہی میں سینیٹر منتخب ہونے والے “محترم“ جناب فیصل رضا عابدی نقلی گریجوایشن  کی مارک شیٹ کے حامل نکلے! یہ خبر “امت نے لگائی ہے! یوں “امت“ نے جہاں “دی نیوز“ پر دو ایک سے سبقت حاصل کی وہاں ہی اب پیپلز پارٹی کو بھی ایم کیو ایم اور بی این پی پر ایک جعلی ڈگری کی سبقت حاصل ہو گئی ہے! معلوم ہوتا ہے “فوری تعلیم اور تیز خواندگی“ کا فارمولا کافی کامیاب رہے گا ملک میں! خبرذیل میں دیکھ سکتے ہیں!

1

2

3

4