Pages

5/04/2017

بدمعاش ہیرو

ہمارے رویےہماری شخصیت کا آئینہ ہوتے ہیں۔ ہماری شخصیت کی تعمیر میں وہ تمام عوامل شامل ہیں جن سے ہم متاثر ہوں ۔ گزشتہ چند سالوں سے ہماری درمیان ایک ایسی نسل پروان چڑ چکی ہے جو بدمعاشی، گالی ، بدتمیزی، پگڑی اچھالنے اور اوچھے پن کو قابل ستائش جانتی ہے اگر یہ اس فرد کے بارے میں یا کے لئے ہو جو ان  کی نظر میں ظالم ، چور یا برا ہے۔
ہمارے رویوں میں ایک خاص خامی جو داخل ہو چکی وہ یہ کہاگر ہم نے خود کو کسی گروہ سے منسلک کیا تو ہم اس کے ہر برے فعل کے لئے بھی نہ صرف جواز تلاش کرتے ہیں بلکہ اس کو درست قرار دینے کے لئے جھوٹ (پروپیگنڈے) تک کا سہارا لے لیتے ہیں۔ایسے رویے کو شخصیت کا حصہ بنانے میں ہمارے لکھاریوں و میڈیا نے بہت اہم کردار ادا کیا۔جنہوں نے ناانصافی کا خاتمہ لاقانونیت سے کرنے کا درس اپنے قصےکہانیوں سے دیا ۔
غلط راستہ درست منزل تک نہیں لے کر جا سکتا۔اونچی عمارتیں مضبوط بنیادوں کے مرہون منت ہوتی ہیں اور مضبوط بنیادیں غیرمیعاری مواد سے نہیں رکھی جاسکتی، پھر ہم غلط رویوں اور کمزور کرداروں سے ایک بہتر معاشرہ کیسے تعمیر کر سکتے ہیں۔

گزشتہ دنوں ضلع عمر کوٹ کی تحصیل کنری کے تھانے میں ایک مقامی وڈیرے کی ایس ایچ او سے بدتمیزی کی ویڈیو ایسی ہی ایک رویے کی عکاس ہے۔


محکمہ آب پاشی سے پانی کی باری پر شروع ہونے والا جھگڑا وڈیرے کے نقظہ نظر سے ظالم کا ہاتھ روکنے کی کاوش دراصل لاقانونیت کا مظاہرہ تھی۔ یہاں بھی دونوں طرف کے گروہوں نے سوشل میڈیا پر اپنے اپنے ہیرو و ولن کی حمایت میں کہیں آدھے سچ اور کہیں پورے جھوٹ کا سہارا لیا۔
واقعہ کی جزیات اور حقیقت کے بیان سے بڑھ کر اہم یہ کہ ہم خود یہ جان لیں کہ اندھیرے کو روشنی سے ہی ختم کیا جاسکتا ہے۔ ایڈونچریس اور بدمعاش ہیرو پردے کی اسکرین پر تو گلیمر بکھیر سکتے ہیں مگر حقیقی زندگی میں اس آندھی کی ماند ہے جو تباہی پھیلاتی ہے اور ان جلتے دئیوں کوبھی بجھا دیتی ہے جو کسی حد تک روشنی کی وجہ تھے۔

9/29/2013

گوگل ڈرائیو اور میرا منٹ

اس سے بہتر اس موضوع پر آپ کو تحریر یقین آئی ٹی نامہ یا کمپیوٹنگ پر مل سکتی ہے مگر ہم پر چونکہ کوئی پابندی نہیں لہذا ہم اس پر اپنی رائے دینے جا رہے ہیں!
2008 سے ہم ونڈو سے لینکس کے صارف ہو چکے ہیں اوبنٹو میں جب Unityکی آمد ہوئی تو ہمارے پرسنل کمپیوٹر پر اوبنٹو نے چلنے سے انکار کر دیا لہذا ہم لینکس منٹ پر منتقل ہو گئے! اپنی پیشہ وارانہ ضرورت کے لئے اپنا ڈیٹا ایک جگہ کے بجائے کئی جگہ درکار ہوتا ہے لہذا اپنے تمام سسٹم پر ڈراپ باکس کا استعمال کرتا ہوں کوئی شک نہیں یہ ایک بہتر ٹول ہے مگر گوگل ایک بڑا نام ہے اور ان کی طرف سے گوگل ڈرائیو کی آمد کے بعد سے اس کی طرف مائل رہا مگر نہ تو گوگل خود کسی ایسے ٹول کو میدان میں لایا جو لینکس پر چل سکے نہ ہی ابتدا میں ہمیں تلاش پر نصیب ہوا!!
مگر چند دن پہلے ہمیں Insync نامی ٹول کے بارے میں علم ہوا یہ گوگل ڈرائیو کا Third Party ٹول ہے۔ یہ ایک کمرشل ٹول ہے جو دس ڈالر یعنی قریب ہزار روپے میں پڑتا ہے مگر میرے لئے ایک اچھا ڈراپ باکس کا متبادل ہے، 15 دن کے ٹرائل پریڈ میں اس نے میرے 25 ہزار ڈرافٹ گوگل پر منتقل کر دیئے دوسرا ایک عمدہ کام یہ کہ اب میں آن لائن کہیں بھی بیٹھ کر اپنا دیٹا اپ ڈیٹ کر سکتا ہوں جو کہ میرے سسٹم پر بھی اپڈیٹ ہو جائے گا!! کہ گوگل ڈرائیو میں گوگل آفس کی سہولت بھی یہ جو کہ ڈراپ باکس میں نہیں!
اگر آپ لینکس کے صارف ہیں تو آزما کر دیکھے! ونڈو پر ہم نے اسے نہیں آزمایا!!

3/28/2012

نوشتہ دیوار

جب ہم پی ایف کالج میں پڑھتے تھے تو زندگی بہت عمدہ تھی! فکر نہ فاقہ عیش کر کاکا!! کر تو ہم اب بھی عیش ہی رہے ہیں مگر تب کی بات اور تھی۔

ایک دن کالج آئے تو ایک خاتون کا نام اور فون نمبر کالج کی تمام دیواروں پر لکھا ہوا تھا! شدید حیرت ہوئی! اگلے پورا ماہ اہم موضوع بحث یہ اسٹوڈنٹ ہی رہی تمام کالج میں! وہ اسٹوڈنٹ تو اگلے دن سے کالج نہیں آئی!! جن کے ناموں کو تفتیش کے دائرے میں لایا گیا اُن میں ہمارا نام بھی تھا جب ہی مجرم پکڑنے کی ذمہ داری Vice Principle نے ہمیں دے دی!! ایسے کیسوں کے مجرم پکڑ میں آتے ہیں کیا؟

تب ہم نے جانا ایک کام کا چور ہر کام کا چور مانا جاتا ہے! ہمارا جرم بس اتنا تھا کہ ہم نے کالج کی ایک سابقہ روایت کو دوبارہ زندہ کیا تھا اور وہ تھی کلاس یا کالج سے bunk مارنا!! اس ہی بناء پر کوئی بھی دو نمبر کام ہوتا ہمارا نام مجرمان کی فہرست میں آتا تھا!! وہ تو شکر ہے نہ تو ہمارا کبھی bunk پکڑا گیا نہ کسی اور جرم کی پاداش میں ہم کالج سے نکالے گئے۔

آج فلکر پر ایک تصویر دیکھ پر کالج کا یہ قصہ یاد آ گیا!

2/02/2012

Have a nice Date

یہ کہنا مشکل ہے کہ کون ٹھیک نہیں؟ مگر یہ سمجھنا دشوار نہیں کہ کیا ٹھیک نہیں!مگر روکیے کیا ٹھیک نہیں اس کا تعین کرنا بھی اب ممکن نظر نہیں آتا! کیونکہ آپ کا ٹھیک ممکن ہے ہے میرا ٹھیک نہ ہو؟ اور میرا ٹھیک آپ کے لئے قابل برداشت نہ ہو۔ یوں غلط و ٹھیک کی تعریف ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے کی حد کو جا پہنچے۔

ہماری با حیثیت مجموعی کچھ ایسی عادت بن گئی ہے کہ ہم عمل کی مخالفت نہیں کرتے بلکہ فرد کے دشمن ہو جاتے ہیں۔ معاشرتی طور پر کچھ ایسا مزاج بنا چکے ہیں کہ کسی کو غلط سے روکنے کے لئے غلط رستے کا انتخاب کرتے ہیں یا شاید ہم جو کرنا چاہتے ہیں وہ ظاہر نہیں کرتے۔

جب ہم ایل ایل بی میں پڑھتے تھے تو ایس ایم لاء کالج کے قریب ہی جیو چینل کا دفتر کھلا، اُن کے چند ایک پروگرام کی ریکارڈنگ وہاں ہوتی تھی، ہم ایک دو پروگرام کی ریکارڈنگ میں بطور ناظرین جاتے ان میں ایک پروگرام تھا “اُلجھن سلُجھن” عوامی مسائل پر گفتگو ہوتی تھی، ایک مرتبہ گئے تو ٹرک ڈرائیوروں کے “دلبروں” کی بات ہو رہی تھی۔ یہ ٹاپت نہایت واہیات لگا لہذا واپس کالج چلے گئے ایک مرتبہ پھر گئے تو خواتین کی آپسی کشش سے پیدا ہونے والے ممکنہ مسائل پر روشنی ڈالی جا رہی تھی گفتگو سن کر ہتھیلی تک میں پسینہ آ گیا جبکہ اسٹو دیو فل ایسی تھا۔ ٹاک شو میں ایسے ٹاپک پر ہونے والی گفتگو پر ہم نے جانے سے توبہ کر لی۔

جب کبھی ایسے افراد سے جو میڈیا میں ان ٹاپک پر بات کرتے سے بات ہوت کہ کیا ایسے پروگرام ہونے چاہئے یا یہ کہ ان ٹائمنگ میں ٹی وی پر چلنے چاہئے جس میں چلتے ہیں تو وہ بہت زور دار انداز میں اس کی حمایت کرتے اور انوکھا جواب یہ ہوتا کہ جب ہم نے اس مسئلے پر کام شروع کیا تو مولویوں نے بہت شور کیا ہمیں بہت مشکل پیش آئی مگر اب تو لوگوں میں “شعور” آ گیا ہے۔ میں اس argument سے کبھی بھی مطمئین نہیں ہوا۔

ان تمام باتوں کے باوجود ہمیں کبھی اُن افراد سے ذاتی نفرت نہیں ہوئی میرے چند ایک دوست (جو جانتے ہیں) حیران ہوتے ہیں کہ میری حلقہ احباب میں چند ایک ایسے افراد بھی رہے ہیں اور اب بھی ہیں جو ایسی سرگرمیوں میں مبتلا ہیں جو معاشرتی و اخلاقی اعتبار سے درست نہیں اور میرا اُن سے تعلق اُس وقت تک رہا جب تک کہ انہوں نے مجھے اُن عمل میں شریک کرنے کی کوشش نہ کی جب دعوت گناہ ہوا جو یا تو دعوت واپس لی گئی یا تعلق اختتام کو پہنچا۔ مگر کبھی کسی محفل میں ملاقات ہوئی تو ہیلو ہائے کر لی۔ اس بات پر ہم خود کو منافق بھی کہتے ہیں۔

گزشتہ دنوں سوشل میڈیا میں مایا خان ہر طرف چھائی ہوئی تھی۔ معاملہ پارکوں میں چھاپے تھے۔ یار لوگ چھاپہ مارنے سے ذیادہ مایا خان کو ننگی گالیاں دینے میں ذیادہ دلچسپی لیتے نظر آئے۔ دوسری بات جو مجھے سمجھ میں نہیں آئی وہ یہ کہ عوامی مقامات پر کیا گیا کوئی عمل یا حرکت کسی کا ذاتی معاملہ ہوسکتی ہے؟ اگر ہاں تو کیسے؟ اور کس حد تک؟ خواہ وہ اُن کا لباس کا انتخاب ہو! ! گھر کی چار دیواری میں تو آپ کی privacy ہو سکتی ہے مگر گھر سے باہر اور عوامی مقامات پر اس کا تعین کرنا ایک متنازعہ معاملہ ہے۔ کچھ احباب اس سلسلے میں ملکی قانون تک اپنے رائے کا اظہار کرتے ہیں اور چند “انتہا پسند” مذہبی نقطہ نظر سے اس معاملے کو سُلجھانے کی کوشش کریں گے اور کچھ تو بین الاقوامی قوانین کو بھی اس سلسلے میں کھینچ لاتے ہیں۔

بین الاقوامی سطح پر یار لوگ International Covenant on Civil and Political Rights کی دفعہ 17 کا حوالہ دیتے ہے جو کچھ یوں ہے:

1. No one shall be subjected to arbitrary or unlawful interference with his privacy, family, home or correspondence, nor to unlawful attacks on his honour and reputation. 2. Everyone has the right to the protection of the law against such interference or attacks.

یعنی ہر کسی کو تحفظ حاصل ہے نجی معاملات میں کسی دوسری کی غیرقانونی مداخلت سے خواہ وہ خاندانی نوعیت کے ہو یا گھریلو یا کسی قسم کی کوئی خط و کتابت جبکہ ایسی مداخلت اُس کی معاشرہ میں مقام و عزت کو متاثر کرے. اب بھی یہ سوال باقی ہے کہ نجی معاملات کی کی وسعت کیا ہے؟ نجی معاملات میں وہ سے مراد وہ زندگی کے پہلو وہ خالص و بیادی طور پر فرد کی ذات سے متعلق ہیں۔

یوں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پرائیویسی کسی فرد کی زندگی کے وہ پہلو و تعلقات ہیں جو وہ نہ صرف عوام کی نظروں سے چھپا کر رکھنا چاہتا ہے بلکہ جس میں مداخلت اُس فرد کو قبول نہیں۔ اسے ایک بنیادی حق تسلیم کیا جا چکا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ پہلوو تعلقات جو کوئی فرد عوام سے چھپا کر رکھنا چاہتا ہے کیا عوام کے درمیان یا عوامی مقامات پر ظاہر کرے گا خواہ اُس کی کوئی بھی صورت ہو؟ ممکنہ جواب ہاں نہیں ہوسکتا مگر مباحث میں یہ ایک متنازعہ موضوع رہا ہے اور ممکن رہے مگر اکثریت مقامات پر جواب باں نہیں ہوتا، اگر مگر کے ساتھ چند احباب اسے ہاں کہہ دیتے ہیں۔

چار دیواری کے اندر ہونے والی حرکات تسلیم شدہ طور پر پرائیویسی کے ذمرہ میں آتی ہے اخلاقی، مذہبی، قانونی اور معاشرتی طور پر اسے تسلیم کیا جا چکا ہے۔ ملکی آئین کی دفعہ 14 اس ضمن میں قابل توجہ ہے۔

The dignity of man and, subject to law, the privacy of home, shall be inviolable.

اس ہی لئے جب پولیس کسی چاردیواری کے اندر سے “جوڑے” پکڑ کر ایف آئی آر کاٹتی ہے تو آغاز ایف آئی آر میں گھر میں داخل ہونے کی وجہ اُس عمارت میں مفرور ملزم کے موجود ہونا قرار دیتی ہے۔ مذہبی نقطہ نظر سے گھر کی چار دیواری میں کسی کی پرائیویسی میں دخل اندازی کی ممانعت کو سمجھنے کے لئے حضرت عمر کا وہ واقعہ ہی کافی میں جس میں رات کے پہر میں ایک گھر سے اس لئے معذرت کر کے باہر نکل گئے کہ اُن کا گھر کی چار دیواری میں تجسس کے زیر اثر بلا اجازت داخل ہونا غلط تھا جبکہ صاحب مکان کے پاس اُس وقت شراب و شباب موجود تھا۔

مایا خان پر ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ انہیں یوں اپنی ممکنہ اپنی اخلاقی اقدار کی تبلیغ کرنے کا اختیار نہیں یا نافذ کرنے کا۔ تبلیغ تو انسان کی فطرت بھی ہے اور بلا شک و شبہ جز ایمان بھی اور جن نظریات و اقدار کو آپ حق تسلیم کرتے ہو وہ خود با خود آپ پر لاگو ہو جاتی ہے۔ تبلیغ فطرت یوں ہے کہ اگر میں کہو کہ آپ اپنی اخلاقی اقدار کسی پر لاگو نہیں کو سکتے تو بنیادی طور پر میں اپنی اخلاقی اقدار کی تبلیغ کر رہا ہو اور چاہتا ہون کہ آپ اس” اخلاقی” اصول کو خود پر لاگو کریں۔

اس پورے معاملے میں ایک عنصر ایسا ہے تو قابل گرفت ہے اور وہ یہ کہ آیا کسی فریق کی عزت نفس مجروح ہوئی ہے؟ اگر ہاں تو مایا خان اس سلسلے مین قابل گرفت ہو گی مگر اس کا فیصلہ کرنے کا اختیار ملکی عدالت کے پاس ہے عدالت کا دروازہ متاثرہ فریق ہی کھٹکا سکتا ہے آپ یا میں نہیں!

آخری بات یہ کہ اگر آپ چار دیواری میں اپنے پریمی کے ساتھ وقت گزارنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو ہم آپ کو کہیں گے “Have a nice Date”.

1/14/2012

نشان زدہ

جی جناب عمار کے کھیل میں ہماری شمولیت کی وجہ محترمہ عنیقہ ناز اور محترمہ شاہدہ اکرام کی طرف سے نشان زدہ کرنا تھا۔ افسوس اردو بلاگرز کی اقلیت یعنی خواتین بلاگرز نے تو ہمیں اس کھیل میں شامل کیا مگر کسی مرد بلاگر کو یہ توفیق نہیں ہوئی۔ خیر اب حسب روایت سوالات کے جوابات عرض ہیں۔

سوال نمبر 1- ۲۰۱۲ میں کیا خاص یا نیا کرنا چاہتے ہیں؟
وہ سب کچھ جو گزشتہ سال کرنا چاہتا تھا مگر کچھ حالات و واقعات و مجبوریوں کی بناء پر نہیں کرسکا۔
سوال نمبر 2- ۲۰۱۲ میں کس واقعے کا انتظار ہے؟
ایسا کچھ نہیں جس کا انتظار ہو مگر یہ دعا ضرور ہی کچھ بُرا نہ ہو۔
سوال نمبر 3- ۲۰۱۱ میں کوئی کامیابی ؟
زندگی آگے بڑھ رہی ہے اور جہاں چند خواہشات حسرت کا روپ دھار لیتی ہیں وہاں ہی کئی خواہشات و تمنائیں پوری ہو جاتی ہیں مگر گزشتہ برس ایسی کو کئی کامیابیاں تھی جن پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں مگر یہاں بیان کرنا درست معلوم نہیں ہوتا۔
سوال نمبر 4- سال ۲۰۱۱ کی کوئی ناکامی ؟
جو ہوتا ہے اچھے کے لئے ہوتا ہے اور جو اچھے کے لئے ہو وہ ناکامی نہیں ہوتی۔
سوال نمبر 5- سال ۲۰۱۱ کی کوئی ایسی بات جو بہت دلچسپ اور یادگار ہو؟
ناقابل بیاں
سوال نمبر 6- سال کے شروع میں کیسا محسوس کر رہے ہیں؟
ایک لفظ میں!!! بُرا۔ سال کا آغاز اچھا نہیں رہا پہلے ماہ کے پہلے عشرے میں اوپر نیچے دو تین بُرے واقعات و حادثات سے دوچار ہونا پڑا!
سوال نمبر 7- کوئی چیز یا کام جو ۲۰۱۲ میں سیکھنا چاہتے ہیں؟
“اللہ کی رضا میں راضی ہونا”


تو جی جناب اب ہم کس کس کو اس کھیل میں شامل کریں؟؟ چلیں جناب بلال میاں،محترم شاکر عزیز، محترم عمیر ملک،محترم فہد میاں، عدنان مسعود اور راشد کامران!!!! بات روایت کی ہے اردو بلاگرز کی روایت۔

11/16/2011

ابے تو بھی بڑا “زرداری” ہے

گزشتہ چند ماہ سے بلکہ یوں کہہ لیں ڈھائی سال سے موبائل پر اسپیم ایس ایم ایس آتے ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ابتدا ہفتہ مین ایک دو ایس ایم ایس سے ہوئی مگر اب تو روزانہ درجن بھر آنے لگ گئے ہیں۔ اول اول تو ہم اس قدر اس سے بیزار نہیں تھے مگر اب دیکھ کر غصہ چھڑ جاتا ہے اگر ہم مصروف ہوں۔

آج کل ہمارے (وکلاء) کے الیکشن ہو رہے ہیں سپریم کورٹ کے الیکشن میں تو ہمیں تنگ نہیں کیا گیا تھا کہ ہم اُس مقابلہ میں ہماری ضرورت نہیں تھی وجہ صاف ہے ہم سپریم کورٹ کے وکیل تو نہیں ہیں ناں اب تک ! مگر ہائی کورٹ اور ضلعی عدالتوں کی الیکشن میں تو بذریعہ ایس ایم ایس ووٹ مانگنے والوں نے مت مار دی ہے، وہ الگ بات ہے ان ایس ایم ایس میں بھیجے جانے والے اقوال نہایے عمدہ ہوتے ہیں۔ اپنے وکلاء کے الیکشن تک تو بات ٹھیک تھی مگر نامعلوم کس نے ہمارا فون نمبر پریس کلب کراچی اور آرٹ کونسل والوں کو دے دیا؟ ممبر نہ ہونے کے باوجود وہاں سے الیکشن لڑنے والوں کے ووٹ کی درخواست کے ایس ایم ایس آتے ہیں اُن کے الیکشن کے دنوں میں۔

پہلے پہل آنے والے پیغامات میں کراچی میں فروخت ہونے والے مکان، فلیٹ،دفتر، گاڑی، کار، موٹر سائیکل اور دیگر قابل فروخت اشیاء کےنقد و آسان اقساظ پر دستیابی کے پیغامات آتے تھے۔ مگر اب زیر تعمیر مسجد و مدرسے کے چندے، یتیم بچیوں کی شادی میں مدد، استخارہ کرنے والے کا پتہ، رشتوں کی تلاش، ٹیوٹر (ٹیوشن سینٹر) کی دستیابی، پرائیویٹ اسکولوں و سینٹروں میں ڈاخلے کا اعلانات، پلمبر، مستری، رنگ والا، موٹر مکینک و بورنگ والے کی دستیابی بمعہ موبائل نمبر، ریسٹورینٹ و ہوٹل کا پتہ بمعہ مینو بلکہ یہاں تک کہ ایک بار ہمین ایک ایس ایم ایس آیا جس میں ڈلیوری کے وقت لیڈی ڈاکٹر کی دستیابی سے آگاہ کیا گیا تھا اور ساتھ یہ بتایا گیا تھا کہ ختنے کرنے کا معقول انتظام ہے۔ جبکہ اُس وقت ہم کنوارے تھے اور دوسری آفر بھی ہمارے لئے کار آمد نہیں تھی کہ وہ کام مین نمٹ گیا تھا۔ اس سلسلے میں 2009 میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن نے ایک ضابطہ اخلاق جاری کر دیا تھا جس کا نام “تحفظِ صارفین ریگولیشن 2009” ہے۔

اس ہی کی روشنی میں 14 نومبر کو پی ٹی اے نے تمام موبائل کمپنیوں کو ایک لیٹر یا سرکولر جاری کیا جس کے تحت “اسپیم فلٹر” پالیسی کے تحت اُن الفاظ کی لسٹ جاری کی گئی جن پر پابندی لگائی ہے۔ رومن اردو اور انگریزی الفاط کی یہ لسٹ نہ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے اور انگریزی تو خیر ہماری ویسے بھی ملکی کی اکثریتی آبادی کی طرح نہایت “عمدہ” ہے مگر جاری کردہ رومن اردو کے الفاظ کو دیکھ کر معلوم ہوا کہ ہم تو اردو زبان سے بھی قریب “نابلد” ہی ہیں۔

دیگر سرکاری کاموں کی طرح ان جاری کردی بین الفاظ کی فہرستوں نے بھی عوام کو ہنسنے کا موقعہ فراہم کیا ہے۔ کل 586 اردو کے الفاظ اور 1109 انگریزی کے الفاظ پر پابندی لگائی گئی ہے۔ اردو الفاظ کی بین لسٹ کے مطابق سیریل نمبر 13 پر “Mangaithar”(یعنی منگیتر) ، سیریل نمبر 35 پر “kutta”(یعنی کتا), سیریل نمبر 205 پر “mango” (جو آم کی انگریزی) , سیریل نمبر 214 پر لفظ “taxi”، سیریل نمبر 197 پر “kuti”(یعنی کتی) اور سیریل نمبر 195 پر “kuta”(یعنی کتا) جیسے الفاظ موجود ہے۔

اگر آپ رومن اردو میں ایس ایم ایس نہیں کرتے تو آپ اردو کی فہرست سے گالیوں کے تازے نمونے کسی کو ایس ایم ایم کرنے کے لئے استعمال کر سکتے ہیں اور ہاں بوقت ضرورت غصہ آنے پر اس پوسٹ کے “عنوان” کو لکھ کر جسے چاہے بھیج دیں۔ ٹھیک ہے ناں؟ کیونکہ اس لفظ پر تو بین نہیں لگ سکتا۔ ویسے اگر آپ کو عنوان کی سمجھ نہین آئی تو آپ علم کے آضافے کے لئے "اس ڈکشنری/لغت" پر نظر ڈالیں۔

8/18/2011

ایسا کیوں؟؟

ب ہم کیا کریں؟ ہوا کچھ یوں کہ گزشتہ دنوں ہم نے اپنے پڑوسی سی لیا ہوا انٹرنیٹ کا کنکشن اُتارا اور پی ٹی سی ایل والوں کا ڈی ایس ایل لگوانے کا آرڈر دے دیا! جس دن پی ٹی سی ایل والا اپنی ڈیوائس دے کر گیا اُس دن (جمعرات 10 اگست 2011) کو ہمارے علاقے میں بارش ہو گئی! جس سے فون ڈیڈ ہو گیا۔ یوں انٹرنیٹ کیا آن ہوتا ہمارے گھر والے فون کی سہولت سے بھی محروم ہو گئے۔ اُس پر ظلم یہ کہ موبائل فون پر کال کرکے جو رشتہ دار گھر کے نمبر نہ اُٹھانے کی شکایت کرتا یہاں سے جواب آتا "جب سے شعیب نے انٹرنیٹ لگایا ہے فون ڈیڈ ہو گیا ہے" یوں اصل قصور وار ہم ٹھہرتے!
ہم نے فون کے ڈیڈ ہونے کے اگلے دن ہی اپنی شکایت درج کروا دی مگر مجال ہے محکمہ کی کان پر جوں بھی رینگی ہو ہاں ہمیں فون کر کے ہر بار یہ ضرور پوچھتے کہ جی نیٹ لگ گیا ہے یا نہیں پی ٹی سی ایل والے! جس پر ہم انہیں اپنے فون کے خراب ہونے کا رونا روتے اور الگ سے بھی اپنی شکایت 1218 پر درج کرواتے یہ یوں کہہ لیں کہ پہلے سے موجود زخم (شکایت) ہو ہرا کرتے مگر کون سنے ہماری آہ و زاری؟ بس ایک جواب ملتا کہ جی آپ کی شکایت ہم نے آپ کی متعلقہ ایکسچنج کو کر دی ہے۔ بس!
آخر منگل کی رات بتاریخ 16 اگست ہم نے آخری بار 1218 پر کال کی اپنی شکایت میں ایک جھوٹ کا اضافہ کیا کہ "آج لائین مین آیا تھا فون ٹھیک کرنے کے 500 روپے مانگ رہا تھا جب ہم نے نہیں دیئے تو وہ وہ فون ٹھیک کیئے بغیر واپس چلا گیا" فون کال 10 بجے رات کو کی اوربدھ کی صبح بتاریخ 17 اگست گیارہ بجے لائن مین نے آ کر ایک طرف تو پہلے فون ٹھیک کیا دوسری طرف کہا جی کس نے آپ سے پیسے مانگے تھے گھر والوں نے تو ایسی کسی شکایت سے انکار کیا کہ ہم نے نہیں کی مگر 12:30 بجے پی ٹی سی ایل والوں کی میرے موبائل پر کال آئی جناب فون ٹھیک ہو گیا ناں آپ کا؟ اور اب کے تو پیسے نہیں مارنگے ناں نیر کیا یہ ہی تھا جو آج آیا جس نے پیسے مانگے تھے!! آپ کو معلوم ہو گا ہمارا جواب کیا ہو گا!!
مگر اب دل پر ایک بوجھ سا ہے کہ ہم نے یہ جھوٹ کیوں بولا؟ اس کا کیا حل ہے کہ یہ بوجھ ہٹ جائے؟؟ اس موئے فون کو دیکھنے کو بھی دن نہیں کر رہا!! دوئم ذہن میں یہ پریشانی کہ کیا معاشرے میں اب سچ سے ذیادہ جھوٹ کی سنی جاتی ہے؟ ایسا کیوں؟

6/27/2011

چل چھٹی پر نکل!


گزشتہ دنوں اردو بلاگنگ کی دنیا میں ہی ویڈیو مین نظر آنے والے قصے سے متعلق پڑھ کر ہی خود پر ترس آیا تھا! کیونکہ کہ ہم ایسے واقعات کی خبریں پڑھتے رہتے ہیں کہ بچہ یا تو سڑک پر پیدا ہو جاتا ہے یا ہسپتال میں سیکیورٹی انتظامات کی وجہ سے موت کی آغوش مین چلا جاتا ہے! ایسے میں برطانوی ڈاکٹر کا اپنے ملک کے وزیراعظم سے یہ سلوک دیکھ کر اندازہ ہوا کہ وہاں اخلاقیات زندہ ہیں مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہاں اس میدان میں کچھ کچھ خرابی کی ابتداء ہو ہی گئی ہے لگتا ہے کیونکہ سنا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو جبری چھٹیوں پر روانہ کر دیا گیا ہے!!!خبر کا آغاز نہایت دلچسپ ہے "احساس کمتری کے مارے ہوئے معاشرے ہمیشہ سے برطانوی جمہوریت کے راگ الاپتے رہے ہیں لیکن حقائق اس کے بر عکس ہیں۔ " ہون فیر!!!!

6/17/2011

سماجی میڈیا کانفرنس (مکمل روداد)

سماجی میڈیا کانفرنس کی مکمل رودادعمار ابن ضیاء کی زبانی کچھ یوں ہے۔

قسط اول
قسط دوئم
قسط سوئم

 

6/15/2011

سماجی میڈیا کانفرنس

گزشتہ ہفتہ ہم نے آواری ٹاور میں پاکستان (منتظمین کے بقول) کی پہلی بین الاقوامی سماجی میڈیا کانفرنس میں شرکت کی!!۔ اس کو کو امریکی قونصلیٹ نے منعقد کیا تھا، ہاں جی خرچہ اُن ہی کا تھا، اور شرکاء کو دیئے جانے والے اکثر تحفے بھی۔ اس تقریب کو بظاہر پی سی ورلڈ نامی گروپ کی طرف سے منعقد کیا گیا! یعنی کہ International Data Group, Inc نے۔تقریب کا دعوتی و ادارے کے تعارف کا پیج اب اُن کی ویب سائیٹ سے نہ صرف غائب ہے بلکہ فرنٹ پیج بھی ہٹا لیا گیا ہےمزید یہ کہ  ان کے ٹویٹر آکاونٹ میں بھی آخری اپ ڈیٹ آٹھ جون یعنی کانفرنس سے دو دن قبل کی ہیں مزید جس سے کچھ اچھا تاثر نہیں اُبھرتا! اور یوں لگتا ہے کہ سب کچھ ایک "خاص پریکٹس" کے لئے کیا گیا۔

اس کانفرنس میں تین اردو بلاگر بھی شریک تھے ایک محمد اسد (جو اپنی نیوز ایجنسی کی طرف سے اس کی کوریج کرنے آئے تھے بطور بلاگر نہیں)، عمار اور میں (ہم اُن کی دعوتی لسٹ میں نہیں تھے اول اول مگر پھر دعوتی میل مل گیا!!)، اس کانفرنس کی روداد عمار نے تحریر کرنی (پہلا حصہ وہ تحریر کر چکے ہیں) ہے دیکھے باقی کا کب مکمل کرتے ہیں! اس کانفرنس کی دوران ایک ویڈیو بطور پرومو چلتی رہی جس میں بیان کی گئی معلومات نہایت عمدہ ہیں اور کام کی مگر اس میں ایک خامی تھی جو مجھے اچھی نہیں لگی!!! پاکستان کے نقشہ میں کشمیر نہیں تھا!! ویڈیو دیکھ لیں!

اس کانفرنس کو اٹینڈ کر کے میں نے محسوس کیا کہ اردو بلاگنگ سے متعلق ایک ورک شاپ نہ لے کر (اس سلسلے میں سستی کا مظاہرہ کر کے) ہم نے غلطی کی ورنہ ایسا کرنا مشکل نہ تھا۔

اپڈیٹ:- پی سی ورلڈ پاکستان کی ویب سائیٹ واپس آ گئی ہے۔

6/01/2011

الم پلم

جی جناب مہنگائی کے اعلان کا مہینہ آن پہنچا! میں بجٹ کو مہنگائی ہی سمجھتا ہوں!! لہذا جون مہنگائی کا مہینہ ہوا!
آج کل لکھنے کو دل ہی نہیں کر رہا، کیوں؟؟؟ یہ بھی معلوم نہیں! ایک مسئلہ تو میرے ساتھ شروع سے ہے میں اپنے اندر کی تحریک سے کچھ لکھو تو لکھو ورنہ نہین لکھا جاتا یہ بھی کئی بار ہو چکا ایک عنوان/مضمون پر کچھ لکھا بس اختتامی جملے باقی ہیں مگر پھر بلاگ پر پوسٹ نہ کیا! ہر بار ایسا کرنے کی وجہ مختلف ہوتی تھی!
کئی دوستوں اور احباب نے بذریعہ ای میل و ایس ایم ایس بھی تجویر دی کہ اس ٹاپک پر اپنے بلاگ پر کچھ پوسٹ کرو مگر دل ہے کہ مانتا ہی نہیں!! وجہ یہ کہ جب تک مجھے اندر سے تحریک نہ ہو نہیں لکھتا!!
کیا اس کا کوئی حل ہے؟؟؟



3/31/2011

تم نے بُرا کھیلا! مگر تم اچھے ہو!

پاکستان انڈیا سے ہار گیا! ہار جیت کھیل کا حصہ ہے، مگر اپنی قوم کا کیا کریں جنہیں پڑوسی سے ہار قبول نہیں؟ اس بار ردعمل ویسا نہیں رہا کہ لوگ ٹیم پر ہار کی بناء پر ڈنڈے لے کر پڑ جائے اس بار ردعمل کافی مثبت رہا! اُمید و خواہش کے باوجود پیشن گوئی پر مشتمل ردوعمل نہیں ملے!
پاکستان کی عوام کو یار لوگ کہتے ہیں میڈیا نے شعور دیا! میڈیا میں اتنا شعور تھا کہ اچھے اچھوں کو مرحوم طوطے کی پیشن گوئی پر جیت کے خواب دیکھا دیئے اور طوطے کے حمایتی نجومیوں کو بھی میدان میں لے آئے! اب آپ بتاؤ کہ ہم میں اور پڑوسیوں کے میڈیا کی حرکتوں میں کتنا فرق ہے؟
سنجیدگی سے دیکھا جائے تو ٹیم کے اس ٹورنامنٹ میں ویسے کھیل کا مظاہرہ نہیں کیا جیسا کہ اُس سے توقع تھی! یہ عوام کی امیدوں پر پورا نہ اُترنے کا کام پاکستانی کرکٹ ٹیم گزشتہ تین ورلڈکپ سے کر رہی ہے! اول دونوں میں امید تھی کہ اچھا کھیلے گے سیمی فائنل نہیں تو ناک آؤٹ مرحلے تک تو ضرور جائے گے اور ایسا نہ ہوا ٹیم وقت سے پہلے واپس لوٹ آئی!! اب کے عوام کی رائے تھی کہ جلد واپس آ جائے گی مگر سیمی فائنل کھیل گئی! کر لو گل؟ خود کپتان نے سیمی فائنل سے آگے کا وعدہ نہیں کیا تھا!
میں بھی عوام میں سے ہوں! اس لئے ٹیم کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کرتا ہوں! سات نوجوان کھلاڑی! جن کا یہ پہلا بڑا ٹورنامنٹ! اور اُس میں سیمی فائنل کھیلنا! ایک نہایت عمدہ کارگردگی ہے! مایوسی ہوئی سیمی فائنل میں یونس خان و مصباح کی بیٹنگ سے! یوں لگا وہ ٹیم کے لئے نہیں اپنے لئے کھیل رہے ہیں! واقعی لگتا ہے مصباح نے اس میچ میں آفریدی سے ہاتھ کر لیا ہے! عمر گل بھی پریشر میں اپنے کھیل کو خراب کر بیٹھے! عبدلزاق اور کامران کے بارے میں بھی سوچنے کی ضرورت ہے! سوچنا کیا ہے یہ تو اپ جانتے ہی ہوں گے؟
ان تمام باتوں کے باوجود "پاکستانی ٹیم! تم بُرا کھیلے مگر تم پھر بھی اچھے ہو" بھارت سے یہ میچ کھیلنا بھی تمہاری جیت ہے کیونکہ جو ملک جنوری 2009 سے تم سے نہ کھیلنے کے بہانے بنا رہا تھا تم نے اُسے وہاں پھنسایا کہ نہ اُگلے بنے نہ نگلے۔
ویسے ہم ہارکر بھی باوقار رہے ہیں! کہ اُن کی عزت تو جیت کر بھی برہنہ ہوئی جا رہی ہے!!

3/23/2011

آتشی لومڑی کی چوتھی نسل

ہمارا انٹرنیٹ پر جتنا بھی وقت گزرتا ہے اس دوران آتشی لومڑی ہمارا ساتھ خوب دیتی ہے۔ آج آتشی لومڑی کا نیا ورژن میدان میں آگیا ہے جسے آپ باآسانی نیٹ (ونڈو، لینکس، میک) سے اُتار سکتے ہیں مگر اگر ہماری طرح آپ بھی اُبنٹو کے صارف ہیں (ہمارے کمپیوٹر کو ونڈو کی شکل دیکھے ہوئے قریب دو سال ہو گئے ہیں) تو آپ Launchpad سے آتشی لومڑی کے Personal Package Archives کے کی مدد سے اس کو اپگریڈ کر کے چوتھے ورژن پر جا سکتے ہیں ہمارے پاس تو نیا ورژن خوب کام کر رہا ہے اور یہ جاننے کے لئے کہ اور کتنے احباب آتشی لومڑی کی چوتھی نسل کو گلے لگا چکے ہیں یہاں تشریف لے جائیں۔

اوبنٹو میں آتشی لومڑی کی چوتھی نسل حاصل کرنے کے لئے ٹرمینل (Applications > Terminal) جا کر یہ کمانڈ لکھے۔



sudo add-apt-repository ppa:mozillateam/firefox-stable
sudo apt-get update
sudo apt-get upgrade