Pages

8/23/2015

بابے پھر بابے ہوتے ہیں

کہنے کو اس مضمون کا عنوان بزرگ بھی ہو سکتا تھا مگر بزرگی میں شرارت ہو سکتی ہے مسٹنڈاپن نہیں اس لئے بابے ہی ٹھیک لگتا ہے. ہمارے دور کے مسٹندے کچھ ذیادہ لوفر ہو گئے ہیں مگر پہلے کے لوفر بھی اتنے مسٹندے نہیں ہوتے تھے. یہ بابے اپنی جوانی کے دل لبھانے والے جھوٹے سچے قصے سنا کر جس طرح جوانوں کی چوری پکڑتے ہیں وہ ان کا کی حاصل ہے.


ایسے ہی ایک بابے کے منہ سے ایک بار سننے کو ملا کہ کیا دور آ گیا ہے ایک ہمارا دور تھا جب لڑکوں کے دوست اور لڑکیوں کی سہیلیاں ہوتی ہے اب تو لڑکوں کی سہیلیاں اور لڑکیوں کے دوست ہوتے ہیں. تب ہم کسی لڑکی کے قریب ہوتے تو وہ فٹ سے کہہ دیتی دیکھو مجھے دھوکہ نہ دینا ایسا نہ ہو کہ کل کو کسی اور سے شادی کر لو ہم لڑکیاں بہت حساس ہوتی ہیں کسی کو ایک بار اپنا کہہ دیا تو پھر ساری عمر اسی کی ہو کر رہ جاتی ہیں اور ایک آج کی چوکریاں ہیں دوستی کے دوسرے دن ہی نوٹ کروا دیتی ہیں کہ دیکھو سنجیدہ نہ ہو جانا میں بس ٹائم پاس کر رہی ہوں کل کو تو کون اور میں کون.


یہ بابے وقت کے بدلنے کے بارے میں بتاتے ہیں کہ پہلے گھر بناتے وقت گھر والوں کے ساتھ ساتھ مہمانوں کے لئے بھی ایک حصہ ہوتا تھا مہمان خانے میں مہمان کی خدمت کو ایک بندہ مختص ہوتا تھا آج کی طرح نہیں کہ صرف صوفہ سیٹ ہو بلکہ پلنگ یا چارپائی ہوتی کہ آنے والا مہمان آرام کرتا. پہلے مہمان کو رحمت تصور ہوتا تھا اور آج اپنے رویے سے رہ مت کہا جاتا ہے .


ان بابوں سے اس لئے بھی ڈر لگتا ہے کہ قصے سنا کر نصیحتیں کرتے ہیں. ان کے پاس ملا دوپیازہ ہے، ملا لٹن ہے، متایو فقیر ہے، جٹ مانا ہیں. یہ اپنے اپنے علاقوں کے کرداروں کے نام لے کر مختلف قصوں کی مدد سے مخصوص سبق سکھانے کے لئے ہنسی مذاق میں سنا ڈالتے ہیں. ہم جیسے لونڈے انہیں لاکھ کہیں کہا یہ کردار خیالی ہیں، یہ قصے جھوٹے ہیں. یہ بابے باز نہیں آتے پھر سے کسی اگلی نشست میں ان کرداروں کے قصوں کی مدد سے شخصیت کی تعمیر کرنے بیٹھ جاتے ہیں.


ایک محفل میں رشوت کی افادیت پر بحث ہو رہی تھی ایک بابا جوش میں دونوں ہاتھ ہوا میں کھڑا کر کے بولا مجھے ذیادہ نہیں معلوم بس اتنا جانتا ہوں کہ کچھ حرام کے تخم سے ہوتے ہیں کچھ کا تخم حرام کا ہوتا ہے اول ذکر جنتی ہو سکتا ہے اگرچہ اس کے ماں باپ جہنمی ہو مگر ثانی ذکر جہنم کی آگ کا ایندھن ہو گا . پوچھا بابیوں کہنا کیا چاہتے ہو کہنے لگے کچھ ماں باپ کی حرام کاری کی وجہ سے حرامی نسل ہوتے ہیں اور کچھ اپنی کمائی کی وجہ سے! یہ رشوت خور والے دوسری قسم کے حرامی ہیں جو اپنی نسل کو بھی حرامی بنا دیتے ہیں. ایسے سخت جملے سننے کے بعد ہمارے کئی دوستوں نے اس بابے سے ملنا چھوڑ دیا.


یہ بابے اپنی عمر کو اپنا تجربہ بتاتے ہیں. یہ سامنے والے کی نیت کو اس کے اعمال سے پرکھنے کے قائل معلوم ہوتے ہیں ان کے یہاں benefit of doubt بہت ذیادہ پایا جاتا ہے. ایسے ہی ایک بابا جی کہا کرتے ہیں کہ برا وہ جس کی برائی پکڑی جائے چاہے اس نے کی بھی نہ ہو اور اچھا وہ جو پکڑ میں نہ آئے. ہم نے کہا بابیوں اب تو بدنامی بھی نامور کر دیتی ہے تو کہنے لگے جیسے لوگ ویسا ان کا ہیرو ہوتا ہے ہر طبقہ و گروہ کا اپنا رول ماڈل (ہیرو) ہو گا ناں. بات پلے نہ پڑی تو ہم نے کندھے اُچکا دیئے، دھیمے سے مسکرا کر بولے وکیل ہو تم؟ ہم نے سر کی جنبش سے ہاں کی. کہنے لگے وکیلوں میں سے تمہارا آئیڈیل کوئی بڑا قانون دان یا جج ہو گا ایک ڈاکو نہیں ایسے ہی جو جس شعبے کا بندہ ہے اس کا رول ماڈل اس ہی شعبے کا بندہ ہو گا ہر فرد کسی اپنے ہم پیشہ یا ہم نظریہ و عقیدہ کو ہی ماڈل بناتے ہیں. ہم نے کہا کہ اگر کوئی کسی دوسرے شعبہ کے بندے کو اپنا رول ماڈل بنا لے تو! کہنے لگے وہ بہروپیا ہے جو ایسا کرتا ہے. ہم اس کی بات سے متفق نہیں تھے مگر کسی سخت جملے سے بچنے کے لیے خاموش رہے.


حالات و زمانے کا رونا رونے والی ایک محفل میں اہل محفل جب حاکموں کے برے کردار کو زیر بحث لائے تو ایک اور بابا جی رائےزنی کرتے ہوئے گویا ہوئے خود کو بدل لو اچھا حاکم میسر آ جائے گا چوروں کا سربراہ چوروں میں سے ہی ہو گا جیسے ہم ویسے ہمارے حاکم.


ہمارے دوست جوانی میں ہی بابا جی ہو گئے ہیں. ان کا پسندیدہ موضوع رویے ہیں. وہ لوگوں کے رویوں پر خیال آرائی کرتے رہتے ہیں؛ ہمارے علاوہ باقی سب ہی ان کے خیالات کو سراہتے ہیں. اولاد کی تربیت پر بات ہو رہی تھی کہنے لگے اگر گھر کے سربراہ کے مزاج میں سختی ہو تو اولاد باغی ہو جاتی ہے. ملک کا حاکم و خاندان کا سربراہ اگر ہر معاملہ میں اپنی مرضی مسلط کرنے لگ جائیں تو بغاوتیں جنم لیتے ہیں اور زندگی کی آخری سانسیں تنہائی میں گزرتی ہے اگر اولاد کی قربت نصیب بھی ہو تو صحبت نصیب نہیں ہوتی.


ہمارے ایک دوست ایک مشکل میں پھنس گئے تلاش ہو رہی تھی کسی اثر رسوخ والے بندے کی اسی سلسلے "غلطی" سے ایک بابا جی سے آمنا سامنا ہوا کہنے لگے جس کے پاس بھی جاؤ گے اس کے اثر رسوخ میں اضافہ کا باعث بنو گے! جو آج کام آئے گا کل کام بھی لے گا اور احسان مند تم ہی رہو گے اور جو کام کا آسرا دے گا وہ بھی کل کو کام نکلوا لے گا جو کرنا ہے خود کرو. ہمارے دوست بابے کی باتوں میں آ گئے اور اب وہ خود کافی اثر رسوخ والے بندے ہیں.


بابیوں کی کوئی عمر، نسل، عقیدہ اور تجربہ لازمی نہیں بقول ہمارے ایک بابا صفت دوست کہتے ہیں بابا وہ جو رمز کی بات کہہ دے. ہم نے تو سیکھ لیا ہے ان بابیوں کی بات کو ایسے اگنور کرو جیسے یو این او کشمیر کے مسئلہ کو اگنور کرتی ہے. ان کی قربت شخصیت میں موجود "ضروری" خامیوں کے نقصاندہ ہو سکتی ہے. کیا آپ کا کبھی کسی بابے سے واسطہ پڑا ہے؟


8/14/2015

پاک وطن چاند ستارے والا!

اس سال بارہ اگست کو بنوریہ آرگنائزیشن و اردو سورس کے تعاون سے ہونے والے ایک تقریب میں شرکت کی جس میں امانت اللہ و نورجہاں کے گائے ہوئے گانے کا اسلامی ریمکس ورژن جاری کیا گیا. شاید یہ کسی مدرسہ کی جانب سے ملی نغمہ کی پہلی پروڈکشن ہے. آپ اسے ایک عمدہ پروڈکشن تو کہہ سکتے ہیں مگر تخلیقی کام نہیں.
اس سے قبل بنوریہ آرگنائزیشن نے علامہ اقبال کے کلام لب پہ آتی ہے دعا کا بھی اسلامی ریمکس ورژن کا اجراء کیا ہے دونوں پروڈکشن میں مفتی نعیم سمیت کئی دیگر علماء و طالبات کے محبت بھرے پیغامات ہیں.
Aye Watan Payare Watan (Pak Watan) - Binoria Media


پشاور آرمی پبلک اسکول کے سانحہ کے بعد مذہبی حلقے جس مخصوص دباؤ کا شکار ہیں اس دباؤ کو کم کرنے کی کوشش معلوم ہوتی ہے. اس پلیٹ فارم پر مقررین کا ذیادہ زور اس بات پر تھا کہ ہم مدرسہ والے ہیں بندوق والے نہیں، ایسے ہی جیسے کچھ مکتبہ فکر (میں ان میں سے ہوں) والے کہتا ہے کہ ہم دم درود والے مولوی ہیں بم برود والے نہیں. ذاتی طور پر مجھے مذہبی حلقوں کا یوں پچھلے قدموں پر جا کر ایسے اقدامات کرنا اور خود کے بنیاد پرست نہ ہونے کا اظہار کرنا اچھا نہیں لگا. اس قسم کے پروڈکشن جدت سے منسلک ہونے کی بناء پر کرنا ٹھیک ہے مگر ردعمل میں کرنا کمزوری و چوری کا اظہار لگتا ہے .

ہم ایک ایسا ہجوم ہے جس کو دوسروں پر تنقید کرنے اور ان کو دیوار سے لگانے میں خوشی ملتی ہے .
اب ایسے میں اس تنقید کے ممکنہ ڈر سے اور اپنے سافٹ امیج ابھارنے کو سامنے والا جو یہ قدم اٹھائے گا اب بھی اس پرتنقید ہو گی کہنے والوں کی زبان بندی ممکن نہیں، حلال موسیقی کی اصلاح کے پیچھے چھپے طنز کو سمجھنا ذیادہ مشکل نہیں. ہم غلط کو غلط جان کر اس میں پر قائم رہنے والہیں اور نیکی کی تلقین کرنے والے کی غلطیوں کو اس پر تنقید کرنے کا جواز مانتے ہیں.

نظریات کے اختلاف کو ذاتی نفرتوں و دوریوں کو سبب بنانے سے اجتناب کریں. قائل کرنے کی کوشش کو مسلط کرنے کی جدوجہد میں نہ بدلیں. کسی کی چوری پکڑنے کی خواہش سے ذیادہ بہتر اس بات پر شکر ادا کرنا ہے کہ اپنا پردہ و بھرم قائم ہے. یقین جانے زندگی سکون میں آ جائے گی.