Pages

7/05/2016

گزری عیدیں!!

عید تو بچوں کی ہوتی ہے جب بچے تھے تو بڑوں کی زبانی یہ جملہ سن کر خیال آتا کیسے ہیں یہ ہمارے بڑے ہیں اپنی مرضی کر سکتے ہیں جیب میں پیسے ہیں جو چاہے کھائیں جیسا دل کرے ویسے کپڑے بنوائیں پھر بھی کہتے ہیں کہ عید ہماری ہے ان کی نہیں! عجیب لگتی تھی ان کی بات۔ اب ہم بچے نہیں رہے بڑے ہو گئے ہیں، کسی حد تک صاحب اختیار بھی ہیں اور جان گئے ہیں اس وقت کے بڑے ٹھیک کہتے تھے سچے تھے اب ہم بھی یہ ہی کہتے ہیں “عید تو بچوں کی ہوتی ہے “۔
جان گئے ہیں جو صاحب اختیار نظر آتے ہیں ان سے ذیادہ بے اختیار شاید ہی کوئی ہو جب ان کی خوشی دوسروں سے جڑ ی ہوئی ہوتی ہے۔ ذمہ دارویوں کا احساس من مانی کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہوتا ہے۔جان گئے ہیں ہم بچپن میں جن (والدین) کی اجازت کے طلب گار ہوتے تھے وہ دراصل ہماری خوشی کے آگے اپنی مرضیوں و خواہشوں کا گلا دبا دیتے تھے ۔ ہمارے نئے کپڑوں و جوتوں کے لئے اپنے پرانے جوڑوں کو استری کر کے عید والے دن زیب تن کرتے تھے۔ ہماری زندگی کی آسانی ان کی دشوار زندگی کا نتیجہ ہوتی تھی۔ تب نہ علم تھا نہ احساس! اب معلوم ہے مگر طاقت اب بھی اتنی نہیں کہ ان آسانیوں کا صلہ دے سکیں اُن دنوں کا بدل دے سکیں۔
ہماری میٹھی عید بھی ان کی عید قربان ہی ہوتی تھی۔ عید خوشی ہے ، خوشی احساس کا نام ہے اورعمر کی گنتی کے ساتھ اب احساس بدل گیا ہے یہ عید یقین بچپن کی عید سے مختلف ہے پہلے دوستوں و کزنوں کے ساتھ قہقہہ لگانا، ملنے والی رقم جو عیدی کہلاتی ہے اسے اپنی ذات پر خرچ کرنا اچھا لگتا ہے اب دعا ہے جنہوں نے میری عیدوں کو اپنی خوشیاں جانا اللہ توفیق دے ہے آنے والے دن میں اُن کی خوشیوں کا سبب و وسیلا بنو۔
آپ سب کو عید مبارک، اپنی خوشیوں میں انہیں یاد رکھیں جن کی خوشیاں آپ سے منسلک رہی ہے یا ہیں ۔ جانے انجانے میں انہیں دکھ یا تکلیف دینے سے اجتناب کریں یہ دکھ و تکلیف آپ کے ان سے رویے تک ہی محدود نہیں آپ کے ممکنہ دیگر دنیاوی معاملات سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔
وہ عیدیں جو گزر چکی اب میسر نہیں !مگر آنے والی عیدیں ممکن ہیں گزشتہ عیدوں سے بہتر ہوں، جنہیں بہتر بھی ہم ہی بنا سکتے ہیں۔خوش رہیں۔


2/06/2014

اصل کی طرف سفر

گاؤں کی طرف سفر کا آغاز کیا تو اپنے آباؤ اجداد کی وراثت کی طرف جانے کی خوشی تھی. اپنے اصل کی طرف روانگی کیا لذت عطا کرتی ہے یہ بیان سے باہر ہے. سفر سارا اسی سرشاری میں ہوا.
میں اپنے خاندان کی اس نسل سے تعلق رکھتا ہوں جن کی پیدائش و پرورش شہر میں ہوئی. گاؤں سے ہمارا تعلق بڑوں کی زبانی سنے ہوئے قصوں سے شروع ہو کر ان قصوں پر ہی ختم ہوتا ہے.
غیر محسوس انداز میں ایک ایسی نسل جو اپنے اصل سے واقف ہو کر اس سے دور اور اس سے جڑے ہونے کے باوجود اس سے بے خبر ہوتے ہیں.
دیہاتی زندگی کے حق میں ہماری وکالت زبانی جہاد سے آگے نہیں ہوتی. جب کبھی اپنے ہم عمر کزنوں سے  دیہی زندگی کے کسی گوشے سے متعلق سوال کرتا ہوں کہ یہ کیا ہے یہ کیسے ہے تو اندر کہیں سے یہ آواز آتی ہے جہالت یہ بھی ہے کہ بندہ ان باتوں اور حقیقتوں سے ناواقف ہو جس پر آباؤ اجداد کو ماہرانہ دسترس ہو، ایسا علم کیا کرنا جو اصل سے دور کرے.
یہاں گاؤں میں کھلے گھر کو حویلی کہتے ہیں! یہ بادشاہوں کی حویلیوں جیسی نہیں ہوتی مگر رہائشیوں کے لئے یہ اپنی سلطنت کے دربار سے کم نہیں. میرے گاؤں میں لوگوں نے اپنی ان حویلیوں کو واقعی سلطنت کے دربار سا بنا رکھا ہے بیرون ملک کی کمائی سے بننے والے یہ مکان شہر کے بنگلوں سے ذیادہ بہتر اور جدید ہیں. ان میں اپنا آبائی مکان جو اب بھی پرانے طرز کا ہی ہے ایک احساس جرم میں مبتلا کرتا ہے کہ دیکھو مکان کے مکین اس سے دور ہو تو گھر ویران ہوتے ہیں. ایسے گھر ان ریسٹ ہاؤس کی شکل اختیار کر لیتے ہیں جو سال دو سال میں ایک آدھ بار آباد ہوں.

سمجھنے والی بات یہ ہے کہ میرا جیسا خود فریبی میں مبتلا ہو کر بے شک یہ فخر کرتا ہے کہ وہ ایسی زندگی گزار رہا ہے جو شہری و دیہاتی زندگی کا بھرپور امتزاج ہے مگر درحقیقت ایک رخ یہ بھی ہے کہ میرے جیسا بندہ نئی تشکیل شدہ پہچان اور اصل پہچان کی درمیانی کشمکش کا شکار بھی رہتا ہے .

1/16/2009

گھر بنانا سہل نہیں اور میرے آٹھ گھر!

<(ڈفر نے ہمیں ٹیگ کیا تھا کہ اپنے (مطلوبہ) آٹھ گھروں کے بارے میں بتائے اُس ہی سلسلے میں یہ تحریر ہے)
ہماری پیدائش لیاری کی ہے! ‘اڑے تم مانو! نہیں تو دے گا ایک ہاتھ‘، نیوی کے سرکاری فلیٹ کی! والد صاحب بے شک پی آئی اے میں تھے مگر وہ رہتے اپنے بڑے بھائی کے ساتھ تھے جو نیوی میں تھے! وہاں سے گرین ٹاؤن میں ایک کرائے کے مکان میں شفٹ ہو گئے، یہاں سے انہیں ڈیوٹی آنے جانے میں آسانی رہتی تھی! بچپن میں اپنے گھر کی اُنسیت سے ہم ناواقف تھے!
جب ہم آٹھ برس کے ہوئے تو والد صاحب نے ماڈل کالونی میں ایک سو بیس گز کا ایک پلاٹ خریدا، چاردیواری کی پھر دو کمروں اور ایک کچن اور باتھ روم کا اسٹکچر کھڑا کیا، اُن پر سیمنٹ کی چادریں ڈال کر وہاں شفٹ ہو گئے! یہاں سب سے پہلے تو صحن میں وہ ٹینک بہت عجیب لگا جس پر کوئی چھت نہیں تھی، ہمارے ذہین میں جو پہلی چیز اُسے دیکھ کر سمجھ میں آئی وہ یہ کہ یہ نہانے کے لئے ہے مگر ایسا نہیں تھا! کیونکہ وہاں شفٹ ہونے کے کوئی ہفتہ بھر کے اندر ابو نے اُس پر چھت ڈلوا دی تھی، اہم وجہ خود ہماری ذات تھی کہ ہم و ہماری بہنیں اُس میں گر ہی ناں جائے! پہلی رات اُس گھر میں ہم کافی دیر تک جاگتے رہے، وجہ اُس کا نیا ہونا نہیں بلکہ، وہ آسمان کے تارے تھے جن سے ہماری واقفیت اُس ہی رات ہوئی تھی، مجھے وہ بہت بھلے لگے! اس سے قبل فلیٹ و کرائے کے مکان میں یوں کھلے آسمان کو دیکھنے سے ہم محروم رہے تھے، ہمارے اُس اشتیاق و خوشی کا ذکر اب بھی والد صاحب کبھی کبھی کرتے ہیں۔ ایک اور چیر ہم نے اس گھر میں قریب دو ماہ بغیر بجلی کے گزارے تھے اور چھ ماہ بجلی کے کنکشن کے بغیر!
ایک سو بیس گز کوئی بڑی جگہ نہیں مگر اُس وقت ہمیں بہت بڑی معلوم ہوتی تھی! ہم یہاں کرکٹ بھی کھیل لیتے، لوکن میٹی بھی کھیلی اور باغ بانی بھی کی! کوئی چالیس گز کی کچی جگہ پر ہم نے بنڈیاں، لوکی، آلو، مرچیں، توری، ٹماٹر اور کریلے جیسی سبزیاں وغیرہ، چیکو، آم، امرود، پپیتا اور انار جیسے پھل، گنا بھی نیز گلاب، موتیا، رات کی رانی و دن کا راجہ اور نہ معلوم کون کونسے دیگر پھول وغیرہ کی کامیاب کاشت کی۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مکان کے نقشہ و حالت میں اُس وقت موجود بجٹ و سوچ و خواہش کے مطابق تبدیلیاں کی جاتی رہیں! کبھی پلستر کروا لیا، کبھی لینٹر ڈلوا لیا، کبھی کچھ اور کبھی کچھ، ہر بار کسی بڑی تبدیلی کے بعد گھر کے بجٹ میں روزمرہ کے آمور کی تبدیلی سے اس کے پہلے جیسے نہ رہنے کا پتا چلتا! جیسے جب لینٹر ڈلوایا یا یوں کہہ لیں جب چھت پکی ہوئی تو امی اگلے تین سال پنجاب میں اپنے میکے نہیں گئی! کیونکہ ایسے ایک چکر کے لئے بھی تو اچھے بجٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔`
گھر میں اب بھی کئی تبدیلیاں متوقعے ہیں! اب یہ دوسوپچاس گز کا ہے، اس میں اب بھی ایک باغیچاں ہے، اس کی موجودہ حالت کی چند تصاویر درجہ ذیل ہیں!






چند مزید تصاویر یہاں ہیں! اس کی سٹیلائیٹ تصویر یہاں دیکھ لیں!
جب ہم اپنے اس علاقے میں آئے تھے تو یہ علاقہ نہایت غیر آباد تھا! رات آٹھ بجے کے بعد سواری نہیں ملتی تھی، مگر اب یہ ایک اچھے علاقوں میں شمار ہوتا ہے! ہر سہولت یہاں موجود ہے! لہذا آٹھ گھروں کی گنتی میں اسے پہلے نمبر پر رکھے کیونکہ اس گھر کی تعمیر میں وقت و پیسے کے ساتھ ساتھ میری فیملی کی محبت و الفت بھی شامل ہے۔
دوسرا گھر میرا میرے اپنے آبائی گاؤں میں ہے، یہ میرے پیدائش سے پہلے سے وہاں موجود ہے مگر اب اُس کی شکل بھی پہلی سی نہیں رہی، میرے تایا زاد کزن کی شادی کے موقع پر اُس کی ایک بار پھر نئے سرے سے تعمیر کی گئی ہے! مکمل جدید طرز کی، پہلے اُسے حویلی کہا جاتا تھا، اب مکان کہہ لیں! یہ ہمارے دونوں تایا و ابو کا مشترکہ مکان ہے جو ہزار گز (ایک کنال) سے کچھ اوپر جگہ پر ہے۔ گاؤں میں ہماری جتنی زمین ہے مجھے اس کا اندازہ نہیں! البتہ اُس کے ٹھیکہ کی مد میں اتنے چاول آ جاتے ہیں کہ ہمیں بازار سے خریدنے نہیں پڑتے پورے سال! اور ساتھ میں آنے والی رقم پورے سال کے ٹھیکے کی مد میں البتہ ابو کی ایک ماہ تنخواہ سے آدھی یا ہماری ایک ماہ کی کمائی سے کچھ اُوپر ہوتی ہے!
کوئی اور گھر نہیں ہے! البتہ اسلام اباد میں گلشن کشمیر نامی اسکیم میں ایک کنال کا پلاٹ ہے خواہش ہے کہ خدا پیسے دے تو وہاں بھی ایک اچھا سا مکان تعمیر کر لو!!!
یہ تو ہو گئے وہ مکان جو درحقیقت ہیں، آٹھ میں سے تین آپ ان ہی کو گن لیں، اب خواہش یا خوابوں کی بات ہو تو باقی کی پانچ بھی کہیں ناں کہیں بنا لیتے ہیں! شرط پاکستان (جس ملک میں رہائش والی شرط کی روشنی میں) کی حدود کے اندر کی خوامخواہ میں لگا دی ہے! ہم تو ویسے بھی یہاں سے باہر کا سوچتے ہی نہیں ہیں!
چوتھا مکان! سیف الملوک جھیل کے کنارے پر ہونا چاہئے! اایسی خوبصورت جگہ پر مکان کے جگہ اور کئی فائدے ہیں وہاں یہ امکان بھی ہے کہ شائد پریوں سے ملاقات وغیرہ ہو جائے! کوئی پری ہماری محبت میں گرفتار ہو جائے اور یوں ہماری کہانی بھی بچے اپنی اپنی دادی کی زبانی سنا کریں گے!! ٹھیک ہے ناں!
پانچواں مکان مالم جبہ کے آس پاس ہونا چاہئے! تاکہ کبھی سیف الملوک پر نہانے کے لئے آنے والی پریوں سے دور جانے یعنی اُن کی نظروں سے چھپنا ہو تو بندہ مالم جبہ پر چھٹیاں گزارنے چلا جایا کرے! شہر کے ہنگاموں اور پریوں کی صحبت ے دور!
چھٹاں مکان جا کر مری میں بنایا جائے تاکہ کبھی اسلام آباد سے نکل کر قریب قریب تفریح کا ارادہ ہو تو اِدھر کا رُخ کیا جائے! کچھ ہمارے دوسرے (سمجھا کریں ناں) جاننے والوں کو بھی فائدہ ہو!
ساتواں مکان ہونا چاہئے کشمیر میں! خواہش تو سری نگر کی ہے مگر ابھی مظفرآباد پر ہی گزارا کرتے ہیں!!!
اور آٹھوں مکان _______ میں ہونا چاہئے! بھائی یہ بھی بتا دیا تو ہم چھپے گے کہاں؟؟؟ یہ نہیں بتانا! کوئی ایسی بھی تو جگہ ہونی ہو ناں جہاں _____________!!! سمجھا کریں ناں!
اچھا اب آٹھ بلاگرز کو ٹیگ بھی کرنا ہے تو جناب بدتمیز، جہانزیب، عمار، ابوشامل، شاکر، مارواء، ساجد اقبال اورشاہ فیصل کو ٹیگ کرتا ہو!!!! ہون تسی لکھو!