Pages

7/26/2022

ملزم ظہیر، یوتھیاپا اور لبرلز

ہمیں اپنے زمانہ طالب علمی اور پھر دور وکالت میں کبھی یہ خیال ہی نہیں آیا کہ نوکری کی جائے شادی کے بعد ہم میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ جج بنا جائے مگر وہ نہ بنے سکے البتہ سرکاری وکیل بن گئے۔ نوکری لگنے کے بعد معلوم ہوا وکالت میں آزادی و انکم نوکری سے ذیادہ ہے کہ مئی 2014 میں جتنی ہماری اوسط انکم تھی اگست 2020 کو ہماری تنخواہ اتنی ہوئی، کل ملا کرچھ سال بعد!!
جج کے امتحانات کی تیاری ہم ملیر کورٹ (کراچی) کی لائبریری میں یا پھر اپنے آفس میں کرتے تھے۔ لائبریری میں آٹھ سے بارہ افراد کا گروپ تھا جن میں ایک فرد ابھی وکالت کر رہا ہے ، ایک سرکاری وکیل یعنی کہ میں و باقی سب ججز ہیں۔ ہمیں سب سے خوش قسمت وہ وکلالت والا لگتا ہے ۔
دوران اسٹیڈی مختلف نوعیت کے قانونی معاملات کو بشکل کہانی ان پر تبادلہ خیال کرتے تھے۔ تبہی ایک بار نیا نیا سندھ میں پاس ہونے والا کم عمری کی شادی والا قانون بھی زیر بحث آیا دوران بحث یہ دلچسپ نقطہ سامنے رکھا گیا کہ کیا ہو اگر ایک سولہ اور آٹھارہ سال کے درمیانی عمر کی لڑکی سندھ سے نکل کے پنجاب میں جا کے کورٹ میرج کر لے، کیونکہ یہ عمل یہاں سندھ میں نکاح خواہ اور دولہے کے لئے تو قابل گرفت ہے مگر پنجاب میں یہ جرم ہی نہیں ہے کہ وہاں سولہ سال سے اوپر کی لڑکی کی شادی قانونًا درست ہے۔ اس وقت اندازہ نہیں تھا نو سال بعد اس طرح کا ایک اصل مقدمہ ملک میں اس قدر مشہور ہو گا کہ ہر فرد اس کیس کے تمام کرداروں کے نام تک واقف ہو گا۔ یہ کیس اس کی کم عمر مبینہ مغویہ کے نام سے ہی مشہور ہے ہر یو ٹیوبر، شوشل میڈیا صارف اور روایتی میڈیا اس کیس کا ذکر کرتے ہوئے اس کم عمر مغویہ کا نام لیتے ہیں جبکہ قانون ایسے کیسوں میں “مظلومہ" یعنی victim کا نام پریس میں لینے سے منع کرتا ہے اور اسے قابل سزا عمل بتاتا ہے مطلب کہ جرم۔ اس بات پر بحث ممکن ہے کہ آیا واقعی کم عمر مبینہ مغویہ "مظلومہ" ہے یا نہیں اور اول اول اس نے خود جب میڈیا پر انٹرویو دیئے اب اس کے بعد بھی یہ قانون لاگو ہو گا یا نہیں۔ میری ذاتی رائے ہے قانون تو لاگو ہوتا ہے کیونکہ اس سلسلے میں کسی قسم کی چونکہ چونانچے والی کوئی شرط نہیں ہے قانون میں۔
جب کم عمری کی شادی کے اس قانون کے سلسلے میں مشاورت اور ورکشاپ ہو رہی تھیں تو ایک ایسی ہی ورکشاپ میں ہم نے سوال کیا آج آپ قانون تو پاس کروا رہے ہیں کہ کم عمر دلہن کے والدین، دولہے اور نکاح خواح کو سزا دی جائے گی مگر وہ جو نکاح ہوا ہے اسے تو آئینی و قانونی تحفظ حاصل ہے اس کا کیا کریں گے دولہا سزا کاٹ کر واپس آتا ہے تو وہ خاندان کی مرضی یا عدالت میں حق زناشوئی کا کیس کرے گا تب متعلقہ عدالت کیا کرے گی اس پر بھی اسی قانون سازی میں حل نکالیں نیز یہ بھی کہا تھا کہ چلیں والدین کم عمر لڑکی کی شادی کرتے ہیں تو سزاوار ہوئے مگر ایک کم عمر لڑکی اپنی مرضی سے کورٹ میرج کرتی ہے تو کیا ہو گا اس کا بھی قانونی حل نکالیں۔ مگر کسی نے اس طرف توجہ نہ دی۔ دوسری تجویز تو چند منتظمین کوبری لگی خاص ایک ظاہری لبرل کو ان سے ورکشاپ کے بعد کی ہائی ٹی پر خوشگوار انداز میں تلخ باتیں بھی ہوئیں تھیں اس تجویز کی بناء پر کیونکہ وہ اسی ہفتے ایک کورٹ میرج کی پٹیشن میں سندھ ہائی کورٹ میں پیش ہوئیں تھیں کم عمر جوڑے کی حمایت میں۔
یہ قوم یا ہجوم کسی سیاسی ، لسانی، مذہبی، مسلکی اور سوشل ایشو پر جذباتی بھی بہت ہے اور سخت بھی۔ کسی بھی موقف پر جذباتی انداز میں ڈٹ جانے کا نتیجہ عدم برداشت اور بدتمیزی ہی نکلتا ہے۔ جو رویوں میں پختہ ہوتا جا رہا ہے خاص کر جب یہ خیال ہو کہ پکڑ نہیں ہو گی۔ ایسا ہی اس کیس میں بھی ہے اس کیس کو رپورٹ کرنے والے اور اس رپورٹ کو فالو کرنے والے دونوں اخلاقیات سے عاری رپورٹنگ کرتے ہیں ۔ ساتھ ہی دونوں طرف کے احباب جھوٹ کی آمیزش بھی کرتے ہیں جانے انجانے میں۔ فرد کو اپنے موقف پر ڈٹ جانا چاہئے اول جب وہ درست ہو دوئم جب اس سے کسی فرد کو اور خاص کر پورے معاشرے کو نقصان نہ پہنچتا ہو مگر ہم اپنی انا کی تسکین کے لئے یہ سب کرتے ہیں تو یہ تباہی ہے۔
لڑکی کے باپ یا فیملی کی سختی کی تو سمجھ آتی ہے اپنے مسلکی و سوشل بیک گراونڈ کی وجہ سے۔ وکالت کے دوران ہر پانچ میں سے ایک کورٹ میرج میں ہمیں لڑکی کی ایسی ہی فیملی سے واسطہ پڑتا تھا اور نتیجہ لڑکی اپنے خاندان سے مزید دور ہو جاتی تھی یوں راوبط دوبارہ بننے کے امکانات خاتم ہو جاتے ہیں۔ سو فیصد کیسوں میں جو لڑکی کورٹ میرج کے لئے گھر چھوڑتی ہے اس کی فیملی کی کسی ناں کسی خاتون (فیمیل ممبر) کو معاملات کا پہلے سے علم ہوتا ہے وہ کوئی بھی رشتہ ہو سکتا ہے۔ ہم نے ایک کورٹ میرج کروائی جس میں لڑکی کی فیملی لڑکے کی فیملی سے کئی گناہ طاقتور تھی اور معاشی طور پر مضبوط بھی۔ ابتداء میں باپ اور دیگر فیملی ممبر نے مخالفت کی مگر ملک سے باہر رہنے والے لڑکی کے بھائی نے ہم سے رابطہ کیا ملاقات ہوئی ، جوڑے کی ملاقات اپنے دفتر میں کروائی طے پایا لڑکی واپس آئے چونکہ خاندان کے باہر کے لوگوں کو علم نہیں لہذا ہم اس سلسلے میں ابتداء سے رخصتی تک کے تمام لوازمات کرتے ہیں کہ معاشرے میں عزت قائم رہے لڑکی لڑکا خوفزدہ تھے۔ ان کی ویڈیو بیانات و دیگر کاروائی کر کے واپس اپنے خاندانوں میں بھیجا گیا۔ پھر رشتہ مانگنے سے لے کر نکاح و رخصتی تک کے تمام ضروریات انہوں نے مکمل کی یہ دونوں خاندانوں و جوڑے کے لئے اچھا ہوا۔ شادی کے لئے یقینًا ہمارے معاشرے میں خاندانوں کا رضامند ہونا لازم ہے مگر وہ جو الگ خاندان بنانے کی بنیاد بنے گے انہیں بھی اہمیت دی جائے تو بہتر نتائج آئیں گے۔
عدالتی و قانونی نقطہ نظر سے دیکھیں تو بات سیدھی سی ہے میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی۔ یہاں قاضی نکاح والا سمجھ لیں یا انصاف کرنے والا دونوں ٹھیک ہیں۔ لڑکی جس کے حق میں بیان دے گی وہ ہی کامیاب ہو گا۔ لڑکی کو کراچی لانے کا مقصد اسے ظہیر سے دور کرنا ہے مگر کیا ایسے میں وہ اپنے باپ کاظمی صاحب کے قریب ہو جائے گی؟
ہم اپنی خواہش و مرضی کو درست و ٹھیک بات پر فوقیت دیتے ہیں ۔ خواہش، مرضی و مفاد تو بدلتا رہتا ہے مگر حق و سچ دائمی ہے۔ انا کی جیت میں رشتے کچلے جاتے ہیں کچلے جا رہے ہیں اور ایسے معاملات میں ہم پارٹی بن کر کسی ایک کا ساتھ نہیں دے رہے بلکہ ان کے درمیان جو خونی رشتہ رکھتے ہیں میں مزید دوریاں پیدا کر رہے ہیں۔ قانون میں ایسے کیسوں کی "مظلومہ" کے نام کی پریس میں ممانعت کافی نہیں بلکہ خاندانوں کے نام اور مقدمات کی کوریج پر بھی پابندی ہونی چاہئے۔ تب ہی انصاف ہو پائے گا ورنہ سیاسی کیسوں کی طرح ایسے معاملات میں بھی پہلا قتل سچ و انصاف کا ہو گا۔

5/17/2022

فیصلہ

عدالتیں سائلین کی مرضی کے فیصلے کرنے کو نہیں بلکہ جو انہیں عین انصاف لگے اپنی قانونی سمجھ بوجھ کے تحت آزادانہ فیصلے دینے کو ہیں۔ 
 جج کی مرضی و خواہش ممکن ہے کبھی انصاف کے متضاد ہو مگر وہ پابند ہے کہ قانون و حقائق (جو عدالت کے سامنے ہوں) کے مطابق فیصلہ دے۔ تاریخ بہت ظالم ہے یہ آگاہ کر دیتی ہے کون سا فیصلہ انصاف کے مطابق تھا اور کون سا خواہش کے زیر اثر۔ یوں پردہ فاش ہوتا ہے کون سا منصف ایماندار تھا اور کون سا قاضی بے ایمان۔ 
کسی سائل کا فیصلے کو ناانصافی کہنا اسے غلط فیصلہ نہیں بناتا۔