Pages

5/12/2019

1965 کے صدرارتی انتخابات


وہ تاریخ جو آپ کو مطالہ پاکستان کی کورس کی کتابوں میں نہیں ملے گی


تاریخ می کئی چہروں پر ایسا غلاف چڑھا رکھاہے کہ اب انکی تعریف کرنی پڑتی ہے اور ان کا ماضی ہمیں بھولنا پڑتا ہے ایسےکئی کردار صدارتی الیکشن 1965 کے ہیں جن پر اب کوئی بات بھی نہیں کرتا اور نہ انکے بارے میں کچھ لکھا جاتا ہے یہ پہلا الیکشن تھا جس میں بیورکریسی اور فوج نے ملکر دھاندلی کی۔
1965کے صدارتی الیکشن میں پہلی دھاندلی خود ایوب خان نےکی پہلے الیکشن بالغ رائے دہی کی بنیاد پر کرانے کا اعلان کیا ۔یہ اعلان 9اکتوبر1964کوہوا مگر فاطمہ جناح کے امیدوار بنے کے بعد یہ اعلان انفرادی رائے ٹھہرا اور ذمہ داری حبیب اللّہ خان پرڈالی گئی یہ پہلی پری پول دھاندلی تھی۔
1964 میں کابینہ اجلاس کے موقع پروزراء نے خوشامد کی انتہا کی حبیب خان نے فاطمہ جناح کو اغواء کرنے کی تجویز دی وحیدخان نے جووزیراطلاعات اورکنویشن لیگ کے جنرل سیکرٹری تھے تجویزدی کہ ایوب کو تاحیات صدر قرار دینے کی ترمیم کی جائے بھٹونے مس جناح کو ضدی بڑھیا کہا اگرچہ یہ تمام تجاویز مسترد ہوئیں۔ ایوب خان نے الیکشن تین طریقوں سے لڑنےکا فیصلہ کیا۔
پہلامذھبی سطح پر،انچارج ، پیرآف دیول تھے جنہوں نے مس جناح کےخلاف فتوےديئے
دوسری انتظامی سطح پرسرکاری ملازم ایوب کی مہم چلاتے رھے
تیسری عدالتی سطح پرمس جناح کےحامیوں پرجھوٹےمقدمات درج ہوئےعدالتوں سے انکے خلاف فیصلے لئے گئے۔
سندھ کے تمام جاگیردار گھرانے ایوب کےساتھ تھے۔بھٹو،جتوئی،۔محمدخان جونیجو،ٹھٹھہ کےشیرازی،خان گڑھ کے مہر،۔نواب شاہ کےسادات،بھرچونڈی،رانی پور،ہالا،کےپیران کرام ایوب خان کےساتھی تھے۔جی ایم سید ، حیدرآباد کےتالپوربرادران اور بدین کے فاضل راہو مس جناح کے حامی تھے یہی لوگ غدار تھے ۔
پنجاب کے تمام سجادہ نشین سوائے پیرمکھڈ صفی الدین کوچھوڑکر باقی سب ایوب خان کے ساتھی تھے۔سیال شریف کےپیروں نے فاطمہ جناح کےخلاف فتوی دیا پیرآف دیول نے داتادربار پر مراقبہ کیا ۔اور کہاکہ داتاصاحب نے حکم دیا ہے کہ ایوب کوکامیاب کیاجائے ورنہ خدا پاکستان سے خفا ہو جائے گا۔ آلومہار شریف کے صاحبزادہ فیض الحسن نے عورت کےحاکم ہونے کے خلاف فتوی جاری کی ۔مولاناعبدالحامدبدایونی نے فاطمہ جناح کی نامزدگی کو شریعت سے مذاق اور ناجائز قرار دیا حامدسعیدکاظمی کے والد احمدسعیدنے ایوب کو ملت اسلامیہ کی آبروقراردیا یہ لوگ دین کے خادم ہیں۔لاھورکے میاں معراج الدین نے فاطمہ جناح کےخلاف جلسہ منعقدکیا جس سےمرکزی خطاب غفارپاشا وزیربنیادی جمہوریت نے خطاب کیا معراج الدکن نے فاطمہ جناح پر اخلاقی بددیانتی کاالزام لگایا موصوف یاسمین راشدکےسسرتھے۔ میانوالی کی ضلع کونسل نے فاطمہ جناح کے خلاف قراردداد منظور کی ۔ مولانا غلام غوث ہزاروی صاحب نے ایوب خان کی حمایت کااعلان کیا اور دعا بھی کی پیرآف زکوڑی نے فاطمہ جناح کی نامزدگی کو اسلام سے مذاق قراردیکر عوامی لیگ سے استعفی دیا اور ایوب کی حمایت کااعلان کیا۔
سرحدمیں ولی خان مس جناح کےساتھ تھے ۔یہ غدارتھے۔
بلوچستان میں مری سرداروں اورجعفرجمالی کوچھوڑ کر سب فاطمہ جناح کےخلاف تھے۔ قاضی محمد عیسی مسلم لیگ کابڑ انام بھی فاطمہ جناح کےمخالف اورایوب کے حامی تھے انہوں نے کوئٹہ میں ایوب کی مہم چلائی ۔ حسن محمودنے پنجاب و سندھ کے روحانی خانوادوں کو ایوب کی حمایت پرراضی کیا۔
خطہ پوٹھوہارکے تمام بڑے گھرانے اور سیاسی لوگ ایوب خان کےساتھ تھے ۔ چودھری نثار والد برگیڈیئرسلطان , ملک اکرم جو دادا ہیں امین اسلم کے ملکان کھنڈا کوٹ فتح خان، پنڈی گھیب، تلہ گنگ ایوب کے ساتھ تھے سوائے چودھری امیر اور ملک نواب خان کےاور الیکشن کے دو دن بعد قتل ہوئے۔
شیخ مسعود صادق نے ایوب خان کیلئے وکلاہ کی حمایت کا سلسلہ شروع کیا کئ لوگوں نے انکی حمایت کی پنڈی سے راجہ ظفرالحق بھی ان میں شامل تھے اسکےعلاوہ میاں اشرف گلزار ۔بھی فاطمہ جناح کے مخالفین میں شامل تھے۔
صدارتی الیکشن 1965کے دوران گورنر امیرمحمد خان صرف چند لوگوں سےپریشان تھے ان میں شوکت حیات،۔خواجہ صفدر جو والد تھے خواجہ آصف کے، چودھری احسن جو والد تھے اعتزاز احسن کے ، خواجہ رفیق جو والد تھے سعدرفیق کے ، کرنل عابدامام جو والد تھے عابدہ حسین کے اورعلی احمد تالپورشامل تھے۔ یہ لوگ آخری وقت تک۔۔فاطمہ جناح کےساتھ رہے۔
صدارتی الکشن کےدوران فاصمہ جناح پر پاکستان توڑنےکاالزام بھی لگا یہ الزام زیڈ-اے-سلہری نے اپنی ایک رپورٹ میں لگایا جس میں مس جناح کی بھارتی سفیرسےملاقات کاحوالہ دياگیا اوریہ بیان کہ قائدتقسیم کےخلاف تھے یہ اخبار ہرجلسےمیں لہرایاگیا ایوب اس کو لہراکر مس جناح کوغدارکہتےرھے۔
پاکستان کامطلب کیا لاالہ الااللّہ جیسی نظم لکھنےوالے اصغرسودائی ایوب خان کے ترانے لکھتے تھے۔ اوکاڑہ کےایک شاعر ظفراقبال نے چاپلوسی کےریکارڈ توڑڈالے یہ وہی ظفراقبال ہیں جوآجکل اپنےکالموں میں سیاسی راہنماؤں کامذاق اڑاتےہیں۔ سرورانبالوی اور دیگرکئی شعراء اسی کام میں مصروف تھے۔ حبیب جالب، ابراھیم جلیس ، میاں بشیرفاطمہ جناح کےجلسوں کے شاعرتھے۔ جالب نے اس کام میں شہرت حاصل کی ۔ میانوالی جلسےکےدوران جب گورنرکے غنڈوں نے فائرنگ کی توفاطمہ جناح ڈٹ کرکھڑی ہوگئیں اسی حملےکی یادگا بچوں پہ چلی گولی ماں دیکھ کےیہ بولی نظم ہے۔۔فیض صاحب خاموش حمائتی تھے۔
چاغی،لورالائی ، ،سبی، ژوب، مالاکنڈ، باجوڑ، دیر، سوات، سیدو، خیرپور، نوشکی، دالبندین، ڈیرہ بگٹی، ہرنائی، مستونگ، چمن، سبزباغ سے فاطمہ جناح کو کوئی ووٹ نہیں ملا ۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ایوب ، فاطمہ کےووٹ برابرتھے مس جناح کےایجنٹ ایم خمزہ تھے اور اے سی جاویدقریشی جو بعد میں چیف سیکرٹری بنے
مس جناح کو کم ووٹوں سے شکست پنڈی گھیب میں ہوئی۔ ایوب کے82 اور مس جناح کے 67 ووٹ تھے۔اس الیکشن میں جہلم کے چودھری الطاف فاطمہ جناح کےحمائتی تھے مگر نواب کالاباغ کےڈرانےکےبعد۔ پیچھے ہٹ گئ یہاں تک کہ جہلم کےنتیجے پردستخط کیلئے ۔مس جناح کے پولنگ ایجنٹ گجرات سے آئے اسطرح کی دھونس عام رہی۔
۔حوالےکیلئےدیکھئے ڈکٹیٹرکون ایس ایم ظفرکی ، میراسیاسی سفر حسن محمود کی ، فاطمہ جناح ابراھیم جلیس کی ۔مادرملت ظفرانصاری کی ۔۔فاطمہ جناح حیات وخدمات وکیل انجم کی۔ story of a nation..allana..A nation lost it's soul..shaukat hayat..Journey to disillusion..sherbaz mazari. اورکئ پرانی اخبارات۔۔


یہ تحریر دراصل ایک سرمد سلطان کے ٹویٹ ٹھریڈ کا مجموعہ ہے جو آپ یہاں دیکھ سکتے ہیں

9/16/2018

فوجی ڈیم

ایک سینئر بتا رہے تھے ماضی میں جب بھی فوجی حکومت آئی یعنی فوجی حکمران آیا اس نے ڈیم بنانے پر زور دیا یا اس کا سوشہ چھوڑا۔
پوچھا فوجی حکمران مطلب فوج کا حکمران
بے دھیانی سے بولے "ہاں"
تو پوچھا ڈیم کے نعرہ کا مطلب فوجی حکومت ہوتا ہے ؟
بولے خاموش بیٹا تیری عمر ابھی میری عمر جتنی نہیں ہوئی کوئی دوسری بات کر۔

6/20/2018

ایلیکٹیبل

ایک عجیب معاملہ ہے بڑی پارٹیوں  کے نامرذ امیدوار کردار میں بڑے نہیں اور جو امیدوار  کردار میں اچھے ہیں وہ بڑی پارٹی میں نہیں۔ ہمارے ملک کی جمہوریت میں یوں لگتا ہے بڑے و بُرے  اور اچھے و نکے آپس میں ایک دوسرے سے جڑے ہیں۔ دلچسپ بات جو پارٹی جس قدر کم عوام میں مقبول ہوتی ہے اس قدر بہترین کردار کا امیدوار نامزد کرتی ہے اور جو جو عوامی حمایت بڑھتی جاتی ہے اس کا ممکنہ امیدوار اس قدر کمزور کردار کا حامل ہوتا ہے۔ اس اعلی درجے کے پست کردار امیدوار کو ایلیکٹیبل کا نام دیا جا رہا ہے۔
ایسا کیوں ہے؟ کیا یہ منتخب امیدوار ہمارے معاشرے کا آئینہ نہیں ہیں؟ اگر جمہوریت واقعی ہی عوام کی حکومت کی ایک شکل ہے تو اس سے یہ اخذ کیا جائے کہ بحیثیت قوم ہم  پست کردار ہیں؟ یا ابھی ہم قوم کی تعریف سے بھی دور ایک ہجوم یا گروہ ہیں؟

12/27/2017

※※※اقسام وکیل با زبان وکیل ※※※

(نوٹ یہ تحریر مجھے بذریعہ وٹس اپ موصول ہوئی لکھاری کا علم نہیں مگر حسب حال ہے)

‎ہم پر یہ راز کھلا کہ دیگر مخلوقات کی طرح وکیلوں کی بھی کئی اقسام پائ جاتی ہیں ۔

‎جن کی حتمی تفصیلات بارکونسل کے مستقل  افسران کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ۔کچھ ناکام وکیلوں کی مدد سے ہم تاحال وکیلوں کی جن اقسام کو دریافت کر پا ۓ وہ درج زیل ھیں

اصلی وکیل:

‎سب سے پہلے تو اصلی وکیل، یہ وکیلوں کی وہ کمیاب قسم ہے جو شاذ شاذ ہی نظر آتے ھیں۔یہ ھر نۓ قانون سے واقفیت کی کوشش میں سرگرداں نظر آتے ھیں۔ عموماََ ان کے جلو میں دو نہایت تابع فرماں قسم کے ننھے وکیل یعنی جونیئر ہوتے ہیں، جن میں سے ایک کے ہاتھ می مقدموں کی فائلیں اور دوسرے کے ہاتھوں میں کوئی پی ایل ڈی کی موٹی سی کتاب یا اصل وکیل کی ڈائری ہوتی ہے ، جو اس کے لئے کسی کتاب سے کم نہیں ہوتی یہ دونوں اصل وکیل کے دائیں بائیں چلتے ہوئے انتہائی ہنر مندی سے ایک ایسی مثلث تشکیل دے لیتے ہیں جس میں اصلی وکیل اور انکے درمیان شرقاََ غرباََ ڈیڑھ قدم کا فاصلہ اور آپس میں شمالََ جنوباََ ٹھیک تین قدم کا فاصلہ برقرار رہتا ہے ۔

‎اصلی وکیل اپنے مقدمات کی پیروی خود کریں یا کسی جونیئر کو بھیجیں ہر دو صورت میں انہیں مقدمے کی ٹھیک ٹھیک صورتحال معلوم ہوتی ہے ۔ اور یہ مقابلے کے وکیل سے ایک قدم آگے کی سوچ میں ڈوبے رہتے ہیں گفتگو کم کرتے ہیں سوچتے زیادہ ہیں ان کے منہ سے نکلنے والا ایک ایک جملہ آئین کی پُر پیچ ندیوں میں نہایا ہوا، اور قانون کی موٹی موٹی کتابوں کی ہوا سے سکھایا ہوا ہوتا ہے ۔ اس پہلی قسم کے وکیلوں کو انسانوں کے بجائے کتابوں کے درمیان رہنا زیادہ پسند ہوتا ہے۔۔۔دفتر ان کا وقت زیادہ گزرتا ھے ۔سوائے جج حضرات کے ، یہ عام زندگی میں کسی سے نہیں الجھتے ، چونکہ یہ قسم شاذ و نادر نظر آتی ہے لہذا ان کے بارے میں زیادہ معلومات حاصل نہیں۔

قبلی وکیل:

یہ عموماً میرون ٹائ میں ملبوس نظر آئیں گے اور اس تکلیف کے پیش نظر کے ان کو مقدمہ میں پیش ھو نے کی ابھی اجازت نہ ھے ان کا خیال ھوتا ھے کہ اگر موصوف استاد کی جگہ یہ ھوتے تو ان کی شعلہ بیانی قابل سماعت ھوتی جبکہ مستقبل میں اس کے بالکل برعکس ھوتا ھے اور دوران بحث اپنی آواز بمشکل سنائ دیتی ھے۔

منتھلی وکیل:

یہ قسم سرکاری دفاتر میں پائ جاتی ھے جن کو منتھلی تنخواہ کی ترسیل ان کے بینک اکاونٹ میں مل جاتی ھی اور ان کا کام صرف عدالتوں کے باھر کھڑے  ھو کر اس وکیل کا انتظار کرنا ھوتا ھے جس کو اس سرکاری ادارے نے متعین کیا ھوتا ھے۔  ان کے پاس ایک سرکاری گاڑی ھوتی ھے جس میں پیٹرول ڈلتا ھی رھتا ھے۔ ان کا قوانین کی تشریح سے کوئ واسطہ نہیں ھوتا اور الیکشن کے دن بھی وارد ھوتے ھیں۔

الیکشنلی وکیل:

یہ جوائنٹ سیکرٹری سے لے کر صدر تک کا الیکشن لڑتا ھے اور  وہ کچھ کرتا ھے جو ساری اقسام کے وکیل مل کر بھی نہیں کر سکتے۔۔۔۔  میرا مطلب بار کی خدمت۔۔۔۔۔ کرتا ھے۔۔۔

جبلی وکیل:

جبل عربی میں پہاڑ کو کہتے ھیں ۔۔۔تو شاھیں ھے بسیرا کر لا فرموں کی چٹانوں پر۔۔۔۔ اس وکیل کو اس کے علم کے عوض دس گنازیادہ  ڈالر ملتے ھیں۔ اس کی زندگی پرتعیش اور اکثر رنگین ھوتی ھے۔۔۔ فکر معاش اس کا مسلۂ نہیں ھوتا بلکہ مزید تر معاش از خود اس کی تلاش میں ھوتا ھے۔۔۔۔ویک اینڈ پر اس کا خرچہ ایک سول جج کی ماہانہ تنخواہ کے برابر ھو جایا کرتا ھے۔۔۔ یہ اکثر سوال کرتا پایا جاتا ھے کہ آجکل ھائ کورٹ کی عمارت کہاں واقع ھے۔۔۔وجود زن سے ان کی تصویر کائنات میں رنگ سنبھالے نہیں سنبھلتے۔۔۔۔۔پردہ پوشی درست است

نسلی وکیل:

‎ان کے علاوہ وکیلوں کی ایک قسم نسلی وکیل بھی ہے ، یہ وکیلوں کی وہ قسم ہے جو نسل در نسل
‎وکالت سے وابستہ ہے ان میں کچھ صرف ددیال کی طرف سے واکالت ورثے میں پاتے ہیں اور کچھ نجیب الطرفین وکیل ہوتے ہیں ادھر ابا اور دادا وکیل اور ادھر اماں اور نانا وکیل ۔ وکالت ان کی رگوں میں دوڑ تی ہے ۔ اور اگر انہیں وکالت سے دلچسپی نہ بھی ہو تب بھی یہ کامیاب وکیل ثابت ہوتے ہیں ۔ گھرانے کا گھرانا وکیل ہوتا ہے نہار منہ مقدموں کی باتیں شروع ہوجاتی ہیں۔ خاندان میں کوئی جج بھی ہوجائے تو سونے پہ سہاگہ ۔ نسلی وکیلوں کو زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی، انہیں بچپن ہی سے وکالت کے داؤ پیچ سکھائے جاتے ہیں جس سے یہ اسکول میں اساتذہ اور ساتھ پڑھنے والے بچوں کی زندگی مشکل کردیتے ہیں بعد کو یہی مشق شدہ تربیت جج صاحبان کے لئے دردِ سر بنتی ہے ۔ ایسے واقعات بھی سننے میں آئے ہیں کہ بھر ی عدالت میں مقدمے کی پیروی کے دوران دلائل دیتے ہوئے وکیل صاحب نے "آئی آبجیکٹ مائی لارڈ" کے بجائے روانی میں " آئی آبجیکٹ بڑے ماموں" کہہ دیا۔

‎ایک اعتبار سے یہ مظلوم بھی ہوتے ہیں کہ کسی مقدمے کی بیروری میں تاخیر سے پہنچنے پر جو ڈانٹ جج صاحب سے کمرہِ عدالت میں پڑتی ہے وہی ڈانٹ رات کو کھانے کی میز پر انہیں جج صاحب سے بحثیت والدِ محترم دوبار سننے کو ملتی ھے

کسلی وکیل:

‎نسلی وکیلوں کو جہاں بہت سے فوائد ہیں وہیں بہت سے نقصانات بھی ہیں ، ان کے مقابلے میں وکیلوں کی ایک دوسری قسم جسے "کسلی وکیل" کہا جاتا ہے ہمیشہ آرام سے رہتی ہے ۔ ان کی نسبت ان کی کسل مندی کی بنیاد پر ہے ۔ یہ انتہائی سست اور کاہل قسم کے وکیل ہوتے ہیں ، ایک تو عدالتی نظام کی رفتار پر پہلے ہی تنقید کی جاتی ہے ، کسلی وکیل اس رفتار کو اور سست کردیتے ہیں ، ذرا ذرا سی بات بلکہ بات بے بات پیروئی کی نئی تاریخ لینا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ " تاریخ پہ تاریخ ۔۔۔ تاریخ پہ تاریخ"جیسے مشہور فلمی ڈائیلاگ انہیں کسلی وکیلوں کی مرہونِ منت ہیں ۔ یہ زیادہ تر وقت اپنے دفاتر میں گزارتے ہیں بار کونسل میں کم آتے ہیں ۔ عدالتوں میں اس سے بھی کم جاتے ہیں ۔ یہ کبھی کبھی بار کونسل کے سوفوں میں یوں دھنس کے بیٹھے نظر آتے ہیں کہ کوٹ پشت سے اٹھ کر گدی سے ہوتا ہوا سر کے اوپر آکر ایک موکلہ سا بنا لیتا ہے جس سے منہ نکال کر یہ بے دلی اور نفرت سے چاک و چوبند وکیلوں کو گھورتے ہیں ۔ ویسے تو یہ تمام لوگوں کو گھورتے ہیں مگر ان کےغضب کا سب سے زیادہ شکار ، "پسلی وکیل " ہوتے ہیں ۔

پسلی وکیل:

‎جی ہاں ، "پسلی وکیل"یہ وہ وکیل ہیں جن کیلئے محاورے کا ڈیڑھ پسلی بھی زیادہ معلوم ہوتا ہے ۔ معصوم معصوم چہروں والے یہ ننھے وکیل ، اپنی خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے پڑھائی میں بہت آگے ہوتے ہیں ۔ یہ بچپن میں غذا سے حاصل ہونے والی توانائی کا بڑا حصہ، اپنی ذہنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں استعمال کرتے ہیں لہذا جسمانی نشونما کی رفتار سست پڑجاتی ہے ۔ اگر ایسے چار چھ پسلی وکیل ایک جگہ جمع ہوں اور پس منظر سے عدالت کی عمارت ہٹا دی جائے ، تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اسکول کے بچے سالانہ ٹیبلو کی تیاری کررہے ہیں ۔

‎ایسے وکیل عموماََ جرائم کے مقدموں سے دور رہتے ہیں ، عموماََ ایسے مقدمات کا انتخاب کرتے ہیں جس میں کسی زور آور موکل سے واسطہ نہ پڑےمثلاََ مالی بے ضابتگی، نام کی تبدیلی ، ملکیت کی منتقلی، اور صلاح نامہ وغیرہ

ٹسلی وکیل:

‎ ۔ان کے بالکل مخالف ، وکیلوں کی ایک سب سے خطرناک قسم پائی جاتی ہے جسے "ٹسلی وکیل " کہا جاتا ہے ۔ یہ "ٹسلی" لفظ ٹسل سے ہے ۔ بمعنی اڑ جانا، ضد کرنا، کینہ رکھنا، جھگڑا کرنا ، دشمنی رکھنا، اس لفظ میں یہ تمام کیفیات یکجا ہیں ۔ اس نوع کے وکلا ء کے پاس زیادہ تر مقدمات اپنے ہی قائم کردہ ہوتے ہیں ۔جو انہوں نے اپنے قرب و جوار کے لوگوں پر مختلف اوقات اور مختلف کیفیات میں دائر کئے ہوتے ہیں ۔جن میں عام طور سے محلے کا دھوبی ، حجام، گاڑی کا مکینک، بچوں کے اسکول کا ہیڈ ماسٹر، سسرالی رشتہ دار، الغرض جہاں جہاں ان کی ٹسل ہوجائے یہ وہیں مقدمہ داغ دیتے ہیں ۔ یہ وکیل اپنی وکالت کی سند کا بے دریغ استعمال اپنا بنیادی حق سمجھتے ہیں ۔ بعض اوقات تو مقدمہ ہارنے کے بعد مقابلے کے وکیل تک پر مقدمہ داغ دیتے ہیں ۔

وصلی وکیل:
‎البتہ وکیلوں کی سب سے زرخیز قسم وصلی وکیل ہوتے ہیں ۔ یہ صرف عدالتی شادیاں یعنی کورٹ میرج کرواتے ہیں۔ ان کے پاس کبھی مقدمات کی کمی نہیں ہوتی ۔ بلکہ عدالتی شادیوں کے نتیجے میں عداوتی مقدمات کا ایسا بیج بو تے ہیں جس سے دوسرے وکیلوں کا دال دلیہ بھی جاری ہوجاتا ہے ۔ حالانکہ بارکونسل میں ان کی زیادہ آؤ بھگت نہیں ہوتی مگر اعداد و شمار سے ثابت کرنا مشکل نہیں کہ یہی طبقہء وکیلاں ساٹھ فیصد وکیلوں کیلئے معاشی راہیں ہموار کرتا ہے ۔

7/27/2016

پنجابی نظم

اُٹھ شاہ حُسینا ویکھ لے اسّی بدلی بیٹھے بھیس
ساڈی جِند نمانی کُوکدی اسی رُلگئے وِچ پردیس
ساڈا ہر دم جی کُرلاوندا، ساڈی نِیر وگاوے اَکّھ
اساں جیوندی جاندے مر گئے، ساڈا مادھو ہوئیا وَکھ
سانوں سپّ سمے دا ڈنّگدا، سانوں پَل پَل چڑھدا زہر
ساڈے اندر بیلے خوف دے، ساڈے جنگل بن گئے شہر
اساں شوہ غماں وِچ ڈُبدے، ساڈی رُڑھ گئی ناؤ پتوار
ساڈے بولن تے پابندیاں، ساڈے سر لٹکے تلوار
اساں نیناں دے کھوہ گیڑ کے کِیتی وتّر دل دی بھوں
ایہ بنجر رہ نماننڑی، سانوں سجّن تیری سَونھ
اساں اُتوں شانت جاپدے، ساڈے اندر لگی جنگ
سانوں چُپ چپیتا ویکھ کے، پئے آکھن لوک ملنگ
اساں کُھبے غم دے کھوبڑے، ساڈے لمے ہو گئے کیس
پا تانے بانے سوچدے، اساں بُندے ریندے کھیس
ہُن چھیتی دوڑیں بُلھیا، ساڈی سولی ٹنگی جان
تینوں واسطہ شاہ عنایت دا، نہ توڑیں ساڈا مان
اساں پیریں پا لئے کُنگھرو، ساڈی پاوے جِند دھمال
ساڈی جان لباں تے اپّڑی، ہُن چھیتی مُکھ وِکھال
ساڈے سر تے سورج ہاڑھ دا، ساڈے اندر سِیت سیال
بن چھاں ہُن چیتر رُکھ دی، ساڈے اندر بھانبڑ بال
اساں مچ مچایا عشق دا، ساڈا لُوسیا اِک اِک لُوں
اساں خُود نوں بُھلّے سانولا، اساں ہر دم جپیا توں
سانوں چِنتا چِخا چڑھاون دی، ساڈے تِڑکن لَگے ہَڈّ
پَھڑ لیکھاں برچھی دُکھ دی ساڈے سینے دتی کَڈ
اساں دھُر تُوں دُکھڑے چاکدے ساڈے لیکھیں لکھیا سوگ
ساڈی واٹ لمیری دُکھ دی،ساڈے عُمروں لمے روگ
ساڈے ویہڑے پھوہڑی دُکھ دی،ساڈا رو رو چوئیا نور
ایہ اوکڑ ساڈی ٹال دے، تیرا جیوے شہر قصور
آ ویکھ سُخن دیا وارثا،تیرے جنڈیالے دی خیر
اَج پُتر بولی ماں دے پئے ماں نال رکھن وَیر
اَج ہیر تیری پئی سہکدی، اَج کَیدو چڑھیا رنگ
اَج تخت ہزارے ڈھے گئے،اَج اُجڑیا تیرا جھَنگ
اَج بیلے ہو گئے سنجڑے، اَج سُکیا ویکھ چنھا
اَج پِھرن آزُردہ رانجھڑے، اَج کھیڑے کر دے چاء
اَج ٹُٹی ونجھلی پریت دی، اَج مُکے سُکھ دے گِیت
بَن جوگی دَر دَر ٹولیا، سانوں کوئی نہ مِلیا مِیت
اساں اکھرموتی رولدے، اساں در در لاندے واج
کوئی لبھے ہِیر سیالڑی جیہڑی رنگے اپنا تاج
ساڈے ہتھ پیالہ زہر دا، اساں ویلے دے سُقراط
اساں کَھنڈ بنائیے کھار نوں ساڈی جگ توں وکھری بات
اُٹھ جاگ فریدا سُتّیا ہُن کر کوئی تدبیر
جِند ہِجر کریڑے پَھس کے اَج ہو گئی لیرو لِیر
سانوں جوبن رُتے ویکھ کے سَب آکھن بابا لوگ
کِس کھویا ساڈا جوبنا سانوں لگا کیہا روگ
اساں پیڑاں دا وَنجھ پالیا سانوں دُکھاں چاہڑی پان
سانوں غم دا پینجا پِنجدا ساڈے تُنبے اُڈدے جان
اساں بِیجے رُکھ انار دے سانوں لبھے تُمے کَوڑ
اساں مرن دیہاڑ اُڈیکدے ساڈی وَدھدی جاوے سَوڑ
ساڈے سِر تے رُکھ بلور دے ساڈی دھُپوں گہری چھاں
ساڈے تَنبو ساڑے سورجے ساڈی لُوسے دھرتی ماں
ساڈی اُجڑی حالت ویکھ کے پا رحمت دی اِک جھات
ساڈے سر توں اَنھی رات نوں ہُن کر سائیاں شبرات
ہُن آ باہو سُلطانیا سانوں درداں لیا لتاڑ
اَج توڑ زنجیری دُکھ دی اَج "ھُو" دا نعرہ مار
سانوں الف بنا دے پیاریا ساڈی مُک جائے بے دی لوڑ
مَن مُشّکے بوٹی عشق دی سب نِکلے دل دی کوڑ
ایتھے تِڑدے سب ایمان تے ایتھے اُڈدی عشق دی دھُوڑ
جو عشق سلامت منگدا پھڑ اُس نوں لیندے نُوڑ
ساڈا تالو جاوے سُکدا ساڈی ودھدی جاوے پیاس
بن بدل ساون ماہ دا ساڈی پوری کر دے آس
اساں اپنی قبرے آپ ہی لئے لہو دے دیوے بال
اساں بے بُریاں دے شہر وِچ ایہ کیتا نواں کمال
سائیں دمڑی شاہ دیا پیاریا تیرا جیوے سیف ملوک
ساڈے دیدے ترسن دید نوں ساڈے دل چوں اُٹھدی ہوک
سانوں گُڑھتی دے دے سُخن دی ساڈی کر دے صاف زبان
سانوں بُکّل وِچ لپیٹ کے ہُن بخشو عِلم گیان
اساں راتیں اُٹھ اُٹھ پِٹدے ساڈے کالجے پئے گئی سوج
اساں چَھم چَھم روندے پیاریا سانوں ہر دم تیری کھوج
اساں موہرا پِیتا سچ دا ساڈے نِیلے ہو گئے بُلھ
اساں رہ گئے کلّم کلّڑے ساڈا ویری ہویا کُل
ساڈے نَینِیں نِیندر رُس کے جا پُہنچی کیہڑے دیس
ہر راتیں چَھویاں مار دے سانوں لیف سرہانے کھیس
آ کوٹ مِٹھن دیا والیا لے جھبدے ساڈی سار
ہِک تِکھڑا نین نوکیلڑا ساڈے دل تِھیں ہویا پار
سانوں چڑھیا تَیئیا ہِجر دا ساڈا کر لے کوئی توڑ
سانوں بِرہن جوکاں لگیاں ساڈا لِتا لہو نچوڑ
اساں اپنے ہی گل لگ کے نِت پائیے سو سو وَین
ساڈی آ قسمت نوں چِمبڑی اِک بھکھاں ماری ڈین
ایہنوں کِیلو منتر پھوک کے ایہنوں کڈھو دیسوں دور
ایہہ پِچھل پیری اوتری ایتھے بن بن بیٹھے حور
اَج پے گیا کال پریت دا اَج نفرت کیتا زور
کر تتّا لوگڑپریم دا ساڈے جثے کرو ٹکور
ساڈی سوچ نوں پیندیاں دندلاں ساڈے جھل جھل ہف گئے ساہ
نِت پھندے بُن بُن سُخن دے اساں خُود نوں دیندے پھاہ
سانوں ویلا پَچھ لگاوندا اُتے گھڑیاں پاون لُون
دن راتاں مَچھ مریلڑے سانوں غم دی دلدل دھُون
سانوں لڑدے ٹھُونوے یاد دے ساڈا جُثہ نِیلو نِیل
سانوں کُوڑے کُوڑا آکھدے کیہ دیئے اساں دلیل
آ تلونڈی دے بادشاہ گرو نانک جی مہاراج
توں لاڈلا بولی ماں دا تیری جگ تے رہنی واج
لے فیض فرید کبیر توں کیتا اُلفت دا پرچار
توں نفرت دے وِچ ڈُبدے کئی بیڑے کیتے پار
تُوں مان ودھایا پُرش دا تُوں ونڈیا اَت پیار
پا سچ دی چھاننی پاپ چوں تُوں لِتا پُن نتار
تیرا وسے گُرو دوالڑا تیرا اُچا ہووے ناں
دِن راتیں سِیساں دیوندی تینوں نانک بولی ماں
اے شِو کمارا پیاریا منگ ماں بولی دی خیر
اساں ٹُر پئے تیری راہ تے اساں نپّی تیری پَیڑ
تُوں چھوٹی عُمرے پیاریا کیتا عمروں وَدھ کمال
تُوں ماں بولی دا بوٹڑا لیا لہو اپنے نال پال
توں بھنے پِیڑ پراگڑے توں پیتی گھول رسونت
تیرا لِکھیا گاہ نہ کڈھدے کئی سُر دے شاہ کلونت
پا چھاپاں چَھلے پینکھڑا لا ٹِکا نَتھ پازیب
تُوں ورت کے لفظ انوکھڑے بھری ماں بولی دی جیب
تُساں سب سُچجے سجڑے رل پیش کرو فریاد
رب ماں بولی دا اُجڑیا گھر فیر کرے آباد
چل چھڈ ندیمے قادری ہُن کر دے پُور کلام
تُوں سیوک بولی ماں دا تیرا جگ تے رہنا نام


6/07/2013

خواب جنون اور تعبیر

میرے ایک دوست ہیں نام لینا مناسب نہیں لیکن کافی عرصے تک "خرچے" سے بھی تنگ تھے کافی عرصہ تنگ دستی کی زندگی گزارنے کے بعد نہ صرف ڈسٹرکٹ کورٹ کراچی سے نااہل وکیل قرار پائے بلکہ روایتی خوشامدی اور چاپلوس نہ ہونے کی وجہ سے ان کی وکالت کامیاب نہ ہوسکی کمال کے مقرر ہیں اور ایک اچھے قصہ گو ہیں اتنے اچھے کہ وہ پورا دن بولتے رہتے تھے اور ان کی پیاری باتیں ہم سنتے رہیں وکالت میں شدید ناکامی کے بعد خاموشی سے یورپ میں جابسے بعد ازاں کافی عرصے تک اس کے خوابوں کو ڈسکس کرتے رہے اس دنیا کے ناکام ترین انسان کی باتیں شیئر کرتے رہے پانچ سال کے طویل وقفے اور روپوشی کے بعد دودن قبل اس کی کال وصول ہوئی پہلے تو مجھے یقین ہی نہیں آیا کہ وہ دنیا کا ناکام ترین انسان واپس آچکا ہے بہرحال اس کے ساتھ پورا دن رہا مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ وہ ایک یورپی ملک کا ایک اہم وکیل بن چکا ہے اور اس کی لاء فرم یورپ کی مشہور لاء فرم بن چکی ہے اور اس کے پاس کامیابیوں کے بے شمار ریکارڈ تھے میں نے پوچھا کہ کیا کوئی شارٹ کٹ تو کامیاب نہیں ہوگیا اس نے کہا ایسا کچھ نہیں وہاں پر وکالت کا ایک نظام ہے ایک ماحول ہے ایک احساس زمہ داری ہے وکالت کتنا زمہ داری کا شعبہ ہے وہاں جا کر احساس ہوا اور ایک وکیل کی کتنی عزت ہوتی ہے وہاں احساس ہوا میں نے پوچھا کہ وہاں کے جج تو کافی ایماندار ہونگے میرے دوست نے کہا نہیں وہاں ایسا کوئی تصور نہیں ایماندار جج اور بے ایمان جج کیا ہوتا ہے؟ جج تو جج ہی ہوتا ہے کھلاؤ سونے کا نوالہ اور دیکھو شیر کی آنکھ سے یہ ان کا اصول ہے اگر کوئی بے ایمان ہے تو اپنے خرچے پر وہاں کا سسٹم اتنا مضبوط ہے کہ کوئی کرپشن کا سوچ بھی نہیں سکتا اچھا کیا وہاں ججز کی کرپشن کو سپورٹ کرنے کیلئے "ایم آئی ٹی" نہیں ہے بھائی یہ ایم آئی ٹی کیا بلا ہے وہاں ایک ہی "ٹی" ہے وہاں کا سسٹم خود ایماندار ہے اس لیئے یورپی ممالک میں عدلیہ کو "ایم آئی ٹی" جیسے ڈھول بجانے کی فرصت ہی نہیں نہ ان کو ایسے ڈھکوسلے ایجاد کرنے کی کوئی ضرورت ہے لیکن اتنا چیلنج ہے کوئی کرپشن کرکے تو دیکھے اچھا اگر کسی بااثر جسٹس کا جونئیر کرپشن کرے تو اس کے لیئے وہ سفارش تو کرتا ہوگا میرے دوست نے کہا ایسا کچھ نہیں وہاں ڈھکوسلوں کا کوئی سلسلہ ہے ہی نہیں وکیل اپنے کلائنٹ کے قانونی حقوق کی حفاظت کا زمہ دار ہے ہر صورت ہر قیمت پر اور اگر یہ بات ثابت ہوجائے کہ وکیل نے غفلت کا مظاہرہ کیا تو اس کو اپنے ہی منتخب نمائیندوں کی حمایت حاصل نہیں ہوتی لائسنس منسوخ کوئی رعایت ہی نہیں میرے منہ سے نکل گیا کیا وہاں بارکونسل نہیں میرے دوست نے کہا ادارے ہیں لیکن وہ زمہ دار ہیں
اب فائدے سن لو وہاں ایک عام وکیل کی بھی اتنی انکم ہے کہ وہ ایک پورے خاندان کو پال سکتا ہے ادارے مضبوط ہونے سے ادارے کا وقار بحال ہے کرپشن کے خاتمے سے ایک میرے جیسا نااہل وکیل جو پاکساتنی عدلیہ میں مس فٹ تھا آج کامیاب زندگی گزار رہا ہے بعد ازاں جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ صرف پانچ سال کے قلیل عرصے مٰیں اس نے پاکستان جو اثاثے بنائے ان اثاثوں کا سوچنا بھی مشکل ہے مجھے اس کی ایک بات ہمیشہ یاد رہی یار خواب بڑے دیکھو ایک دن آتا ہے وہ بڑے خواب تعبیر بن جاتے ہیں مٰیں نے کہا چلو آج ڈسٹرکٹ کورٹ چلتے ہیں کہا نہیں کبھی نہیں کیونکہ وہاں میرے خواب دفن ہیں وہ خوابوں کا قبرستان ہے وہاں میں نہیں جاسکتا میں نے کہا پتہ چلا کہ "مشیر"صاحب بھی چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ بن گئے ہیں وہ بھی تو ہم سے اپنے خواب شیئر کیا کرتے تھے ان کے خواب شرمندہ تعبیر کیوں نہ ہوئے میرے دوست نے کہا اپنے اپنے جنون کی بات ہواکرتی ہے میرے خوابوں کے پیچھے میرا جنون تھا اور ان کے خواب کیوں شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے ہوں وہ خود جانے ہوسکتا ہے کہ ان کا خواب صرف چیف جسٹس سندھ ہایئکورٹ بننے کا ہو تو ان کاخواب بھی شرمندہ تعبیر ہوچکا آج وہ بھی تو چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ ہیں کے سی ڈی آر میں بیٹھ کر جو خواب دیکھتے اور دکھاتے تھے جب وہ خود بھول گئے ہیں تو ہمیں بھی بھول جانے میں کیا حرج ہے
یہ کہہ کر میرا دوست واپس چلا گیا
آخر میں کچھ عرصہ قبل لکھی گئی ایک تحریر کا دوبارہ حوالہ خوش قسمتی سے سپریم کورٹ میں کام کرنے ایک اچھا ماحول موجود ہے کمرہ عدالت کا ایک بہترین ماحول ہے تمام کاروائی ریکارڈ ہوتی ہے اور اہم اداروں کے سربراہان کی کوششوں کے باوجود کیسز چیمبر میں نہیں سنے جاتے بلکہ مقدمات کی کھلی سماعت کی جاتی ہے اس حوالے سے چیف صاحب پر کوئی کبھی بھی تنقید نہیں کرے گا کہ سپریم کورٹ میں گورننس کے ایشوز ہیں یہی حال ملک بھر کی ہائکورٹس کا ہے وہاں نظام کو بہتر بنانے میں کافی کامیابیاں ہوئی ہیں ججز کی کمی ایک مسئلہ تھی وہ بھی کسی حد تک حل ہوچکا ہے
ماتحت عدلیہ جہاں ہرروزلاکھوں کی تعداد میں پیش ہوتے ہیں جہاں لوگوں کے معمولی نوعیت کے معاملات سے لیکر قتل تک کے مقدمات پیش ہورہے ہوتے ہیں وہاں پاکستان کی عدالتوں میں ہمیشہ سے مسائل اور پریشانیاں عوام کا مقدر رہی ہیں ان عدالتوں سے نہ صرف عوام بلکہ وکلاء کو بھی شکوے اور شکایات رہے ہیں اس حوالے سے متعدد بار سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کی توجہ دلائی گئی لیکن کسی کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگی حالیہ دنوں میں 2013 کی کراچی بارکی منتخب کابینہ نے شاید تنگ آمد بجنگ آمد کے تحت کاروائی کی جس کے بعد سندھ ہائی کورٹ نے سخت نوٹس بھی لیا جوابی طورپر وکلاء نے بھی ہڑتال کی اور کافی کامیاب ہڑتال کی لیکن بالآخر یہ معاملہ بھی اسی طرح ہی شاید حل ہونے جارہا ہے کہ" تھپڑ" مار کر معافی مانگ لی جائے اور یہ گھسا پٹا نعرہ بلند کردیاجائے کہ بار اور بنچ ایک ہی گاڑی کے دوپہیئے ہیں جو ایک دوسرے کے بغیر نہیں چل سکتے پھر یہی کہا جائے گا کہ" سب کچھ بھول جا" لیکن چیف صاحب کو اس بار اس کا سخت نوٹس لینا چایئے اس سارے معاملے کو ایک جسٹس کی نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے
کیا واقعی رشوت کا لین دین ہوتاہے؟
اس کو کیسے کنٹرول کیا جائے؟
ماتحت عدلیہ کے اکثر ججز مقدمات کی کھلی عدالت میں سماعت کیوں نہیں کرتے؟
کیا عدالتی اوقات کار کے دوران یا بعد ججز کا اپنے دوست وکلاء یا ملزمان کے ساتھ بیٹھ کر میٹنگ کرنا درست ہے یا غلط؟
جو نظام جو ڈسپلن سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کی سطح پر سختی سے لاگو ہوچکا ہے وہ ماتحت عدلیہ میں کیوں نہیں ہوسکتا؟
اگرسپریم کورٹ اورہائی کورٹ کی ساری کاروائی شفاف بنانے کیلئے ریکارڈ کی جاسکتی ہے تو ماتحت عدلیہ میں کیا رکاوٹ ہیش آرہی ہے ؟
کراچی میں پاکستان کی ٪10 آبادی رہتی تو اس حوالے سے کیا خصوصی اقدامات کیئے گئے ہیں؟
کراچی کے جوڈیشل کمپلیکس کے حوالے سے اہم فیصلوں میں کیا رکاوٹیں ہیں؟
ریکارڈکیپنگ کے لیئے جو پیمانہ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں اپنایا گیا ہے وہی ماتحت عدلیہ
میں کیوں نہیں؟ کراچی کی عدالتوں سے ہزاروں سنگین جرائم میں ملوث افراد کس طرح ضمانت پر رہا ہونے کے بعد لاپتہ ہوگئے ہیں؟ کون زمے دار ہے؟ اور کیا ان کی ضمانت کے طور پر جمع کروائی گئیں دستاویزات پر جرمانہ عائد کیا گیا اور کیا وہ دستاویزات اصلی تھیں؟ اور اگر جعلی دستاویزات تھیں تو پریذایڈنگ آفیسر کس حد تک ذمے دار تھے؟ اسی طرح بہت سے افراد کو زاتی ضمانت پر چھوڑا گیا کیوں؟ کیا سنگین جرائم میں ملوث افراد کو صرف زاتی ضمانت پر چھوڑا جاسکتا ہے؟ وکلاء تںظیمیں صرف ایک ہی مطالبہ کررہی ہیں کہ ان کو کام کرنے وہی ماحول میسر ہونا چاہیئے جو سپریم کورٹ ہائی کورٹ میں وکلاء کو حاصل ہے جس طرح عوام کو چیٖف صاحب سے بے شمار توقعات وابستہ ہیں اسی طرح وکلاء بھی وہی توقعات وابستہ کیئے بیٹھے ہیں
اکیسویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ ایک ایسا عدالتی نظام جس کے زریعے شہریوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے ہم ایسی عدالتی اصلاحات کا مطالبہ کرتے ہیں جن کے زریعے ایک عام شہری بھی اپنے حقوق کے تحفظ کے لیئے عدالت میں بلاجھجک آسکے جب عام شہری کو باآسانی انصاف ملے گا تو نہ صرف شہریوں کی بے چینی کا خاتمہ ہوگا بلکہ پاکستانی معاشرے میں ایسا امن قائم ہوگا جس کی تمنا ہر پاکستانی شہری کررہاہے
تحریر : صفی الدین اعوان

4/24/2013

درمیانہ اُمیدوار!

یار الیکشن کی تیاری کیسی ہے؟
“ہم نے کیا تیاری کرنی ہے، ملک میں چھٹی ہو گی اور ہم جا کر ووٹ ڈال آئیں گے”
اچھا جی تو پھر انتخاب کر لیا اُمیدوار کا؟
“ہاں یار جب ووٹ ڈالنا ہے تو کسی نہ کسی کا انتخاب تو کرنا پڑے گا ناں”
تو کس پارٹی کو ووٹ ڈال رہے ہو؟
“یار آزاد امیدوار کو ڈالوں گا کسی سیاسی پارٹی کو ووٹ نہیں ڈال رہا”
اچھا! لگتا ہے کوئی جاننے والا تمھارا کھڑا ہے انتخاب میں؟
“نہیں نہیں!یار میں تو اُسے جانتا بھی نہیں! چھ مہینے پہلے ہمارے گھر آیا تھا جب امجد کے ہاں بچی ہوئی تھی بس اُس کے بعد اب ووٹ مانگنے آیا ہے”
اوہ خیر تیرے گھر آتا جاتا ہے اور تو کہہ رہا ہے تو جانتا بھی نہیں ہے اُسے ! بڑا ڈرامے باز ہے تو! کون ہے وہ؟
“ابے میرا کوئی رشتے داری نہیں ہے بندیا رانا سے”
اوئے تو کھسرے کو ووٹ دے گا؟
“ہاں! کیوں کیا مسئلہ ہے؟”
ابے کسی مرد کو نہ سہی کسی عورت کو ہی ڈال دے یہ کیا کہ تو ہجڑے کو ووٹ دینے لگا ہے! کیسا لگے گا ایک ہجڑا اسمبلی میں؟
“اور میاں تمہارا مطلب ہے پچھلی اسمبلی میں کوئی ہجڑا نہیں تھا؟”
ہاں نہیں تھا ناں!
“ اچھا جی! تمھارے ملک میں ڈرون حملے ہوئے، دوسرے ملک کی فوج اندر آ کر آپریشن کر کے چلی گئی، وہ اپنے بندے کو قاتل ہونے کے باوجود بچا کر لے گئے، تمہاری فوج سے وہ اپنے مفادات کا تحفظ کروا رہے ہیں، اور کسی پارلیمنٹیرین کو اس پر منافقت سے پاک بات کرنے کی توفیق نہیں ہوئی، تم کہتے ہو سابقین ہجڑے نہیں تھے.”
حد ہوتی ہے تم کسی اور کو موقع دو اور بھی کئی جماعتیں ہیں، ہجڑا منتخب کرنا کیا ضروری ہے؟
" اب رہنے دو! شیر بلٹ پروف شیشے کے پیچھے سے دھارتا ہے اور بلا جو ہے وہ بیبیوں سے میک اپ کر کے سونامی لانے کو نکلتا ہے باقی رہ گئے ترازوں والے تو اُن کی مردانگی یہاں سے نظر آتی ہے کہ جس قوم کی بیٹی کے نام پر کئی ماہ سے سیاست ہو رہی تھی اُس کی بہن کے مقابلے بندہ اُتارا ہوا ہے. اور باقی تو ہیں ہی سابقہ حکمران. اس لئے ایک خواجہ سرا ہی بہتر انتخاب کہ اُس میں کچھ نا کچھ مردانگی ہے اور مردانگی جن میں ہو مسئلہ وہ ہی نظر آتی ہے، ذہنی ہجڑوں سے بہتر ہے جسمانی ہجڑا منتخب کر لیا جائے!”
جا یار تو جس کو مرضی ووٹ ڈال! میرے سے غلطی ہوئی جو تجھ سے پوچھ لیا!

3/21/2013

انتخاب

انتخاب کرنا آسان عمل نہیں ہے! یہ اُس وقت مزید دشوار معلوم ہوتا ہے جب اِس مرحلہ پر اپنے فائدے سے زیادہ اجتماعی فائدے کو مدنظر رکھنا ہوتا ہے. ہمارے معاشرے و خاندانی نظام کی ساخت نے ہمیں بڑوں کی موجودگی میں فیصلہ کرنے سے باز رہنے جیسا رواج تخلیق کیا ہے کہ زندگی میں ہم ہر دوسرے تیسرے معاملہ میں جہاں انتخاب کا موقع ملتا ہے بڑوں کو یہ اختیار دے کر خود کو سعادتمند ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں.
انتخاب سعادتمند مندی فیصلہ کے اختیار سے گریز کرنا نہیں بلکہ فیصلہ کو اُس صورت میں قبول کرنا ہے جب آپ کی مرضی بڑوں سے مختلف ہو جس کا اظہار آپ اُن کے سامنے اس انداز میں کر چکے ہوں کہ وہ آپ کی بات کو تسلیم کریں یا آپ کو ویسا کرنے کی اجازت دے. سعادتمندی کا اصل امتحان اُس وقت شروع ہوتا ہے جب بڑوں کا فیصلہ آپ کے حق میں نقصان کا باعث بن جائے تب آپ کا رویہ یہ بتاتا ہے کہ آپ سعادتمند ہیں یا سعادتمندی کا ڈرامہ کرتے ہیں۔
زندگی میں ملنے والے کتنے فیصلے ایسے ہیں جو ہم اپنی ذات سے بلند ہو کر کرتے ہیں؟
لہذا جناب انتخابات آنے والے ہیں ایسی سعادت مندی سے باز آئیں کہ جہاں بڑوں نے کہا وہاں ووٹ ڈال دیا، یا بے فائدہ سمجھ کر ڈالا ہی نہیں یا یہ کہ ذاتی مفاد کو اجتماعی فائدے کے مقابلے میں اہم جان کر ووٹ بیچ دیا! جس کو آپ مخلص جانے تمام میں بہتر جانے اُسے منتخب کرے۔

9/09/2012

ایڈوکیٹ راجہ ریاض

10 ستمبر 2007 بروز پیر صبح ساڑھے نو بجے کا وقت ایک پر درد لمحہ تھا جب ٹی وی چینلز پر یہ پٹی چلی کہ راجہ ریاض ایڈووکیٹ کو وائی ایم سی اے گرائونڈ کے سامنے سامراجی آلۂ کار اور عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے نامعلوم دہشت گردوں نے بندوق کی گولیوں سے چھلنی کرکے شہید کردیا جب کہ متعلقہ سڑک کے دونوں اطراف پر پولیس بھی تعینات تھی۔ راجہ ریاض سے میری ملاقات 1974 سے تھی۔ اس وقت وہ طالب علم رہنما تھے اور ملیر کے ستار ایدھی کہلاتے تھے۔ سیاسی جماعت کے رہنما یا کارکن نے ملیر کے عوام کی اتنی خدمت نہیں کی جتنی راجہ ریاض نے کی۔
ان سے ملاقات کرنے جائو تو پتہ چلا کہ پچھلی گلی کی فلاں بیوہ کے گھر نلکے سے پانی بھر کے دے رہے ہیں، کبھی ملنے جائو تو پتہ چلا کہ کسی ضعیف کے لیے راشن لینے گئے ہیں، کبھی گھر والے بتاتے کہ کچھ طلبا صبح کو آئے تھے اور انھیں لے کر کالج میں داخلہ دلوانے گئے ہیں۔ ان کی اس ٹیم میں شہنشاہ حسین ایڈووکیٹ، گل فراز احمد، احمد علی، ریاض بنگش، اعجاز بنگش، جعفر الحق، صابر اور سہیل وغیرہ جیسے نہ جانے کتنے پر جوش طلبا اور نوجوان ہوتے تھے۔ یہ پہلے ایم ایس ایف (MSF) مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن جو کہ ایک دائیں بازو کی رجعتی طلبا تنظیم تھی، اس میں کام کرتے تھے۔ اس وقت ملیر کے انقلابی رہنما وحید مصیح والد مصیح الرحمن، شعیب جوادی، محمد یامین، خرم مرزا، شمس الحق (شمبو بھائی) اور اعجاز حسین خان وغیرہ ملیر کے بائیں بازو کے حوالے سے مزدوروں، طلبا، نوجوانوں اور عوام میں بڑی مقبولیت رکھتے تھے۔ کامریڈ محمد یامین تو صوبائی اسمبلی کے نمایندے کے لیے انتخاب بھی لڑ چکے ہیں۔ انھی کی صحبت اور رہنمائی میں خاص کر وحید مصیح کا خلوص، قربت اور رہنمائی نے راجہ ریاض کو انقلابی سوشلزم کا حامی بنا دیا اور وہ بلاناغہ انقلابی رسالے ’’سرخ پرچم‘‘ اور ’’صنوبر‘‘ پڑھا کرتے تھے۔ پھر ایم ایس ایف میں اس قدر عملی اور نظریاتی کام کیا جس کے نتیجے میں ایم ایس ایف ایک ترقی پسند اور انقلابی طلبا تنظیم بن گئی۔
راجہ ریاض اس تنظیم کے ملک کے مرکزی صدر منتخب ہوگئے۔ پھر یہ تنظیم پنجاب، کشمیر، پختون خوا اور کراچی میں پھلنے پھولنے لگی۔ اس میں راجہ ریاض کا کردار، نظریہ، سادگی اور اپنی ذات کی نفی نے بڑا اہم رول ادا کیا۔ کامریڈ راجہ ریاض کا ملیر میں جن لوگوں کے ساتھ ہمہ وقت اٹھنا بیٹھنا اور ایک خاندان جیسے تعلقات تھے تو وہ تھے ملیر ’’سی‘‘ ایریا کے اعجاز حسین خان اور ان کے رفقاء جو کہ رام پوری کے نام سے جانے جاتے تھے۔ اعجاز حسین خان، نیشنل عوامی پارٹی، ملیر کے صدر اور ایوبی آمریت میں عوامی لیگ کے ٹکٹ سے دو بار بی ڈی ممبر منتخب ہوئے۔
واضح رہے کہ کامریڈ اعجاز حسین خان واحد شخص تھے جو کہ عوامی لیگ کے ٹکٹ سے منتخب ہوئے۔ اعجاز حسین خان کے صاحب زادے مسعود حسین خان ایڈووکیٹ کی راجہ ریاض سے 34 سالہ قربت تھی اور وہ قربت، خلوص، نظریہ، جرأت اور سچّائی پر مبنی تھی۔ راجہ ریاض تھے پنجابی مگر ملیر میں جن 99.9 فیصد لوگوں کے لیے کام کیا وہ اردو بولنے والے محنت کش، طلبا اور نوجوان تھے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ رنگ و نسل، فرقہ، مذہب اور زبان سے بالاتر مزدور طبقے کی عالمی یکجہتی اور عالمی انقلاب کے حامی تھے۔
وہ اپنی روح کی گہرائیوں سے ایک سچّے سوشلسٹ تھے۔ کامریڈ راجہ ریاض کی پیدایش جہلم میں ہوئی تھی جہاں سے عظیم مزدور اور کمیونسٹ رہنما دادا میر داد کا تعلق تھا اور وہ ممبئی میں محنت کشوں کے ایک جلوس کی رہنمائی کرتے ہوئے گولیوں سے شہید ہوئے تھے۔ راجہ ریاض جہلم میں پیدا ہوئے اور کراچی میں محنت کشوں کے حقوق کے لیے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔ وہ دادا میرداد کے وارث تھے۔ جہاں تک شہادت کی بات ہے تو چند روز قبل امان اﷲ خان جو کہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے سابق رکن تھے،کراچی میں نامعلوم دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہوئے، ان کا آبائی تعلق بلوچستان سے تھا۔ ان کی شہادت پر بھی ہماری آنکھیں پرنم ہیں۔ راجہ ریاض جامعہ ملیہ ملیر کے طالب علم تھے۔
وہ انٹر کالیجیٹ باڈی کے بھی رہنما رہے۔ انھوں نے تعلیم حاصل کرنے کے بعد مشین ٹولز فیکٹری لانڈھی میں ملازمت اختیار کرلی۔ وہاں انھوں نے مزدوروں کو منظم کیا اور یونین کے رہنما بن گئے جب کہ اس وقت مشین ٹولز فیکٹری (یہ اسلحہ سازی کی فیکٹری ہے) میں سندھی، پنجابی، ہزارہ، پشتون، مہاجر اور بلوچ وغیرہ کے نسلی اور قومی ناموں سے مزدوروں نے اپنی الگ الگ انجمنیں بنا رکھی تھیں۔ راجہ ریاض نے ان کے خلاف ’’اعلان جنگ‘‘ کردیا۔
ان کے علاوہ مشین ٹولز فیکٹری میں دیگر انقلابی، سوشلسٹ اور کمیونسٹ کارکنان جن میں جعفر، علمدار حیدر، جاوید شکور اور رشید جیسے سرگرم کارکنان برسرپیکار تھے۔ انھوں نے ان سب کے ساتھ مل کر مزدور طبقے کی یکجہتی کے لیے اور قومیتی ونسلی تنگ نظری کے خلاف جدوجہد کی۔ کراچی میں اس وقت مزدوروں کی ہونے والے جدوجہد سب سے نمایاں مختلف فیکٹریوں میں تھی۔ جن میں مشین ٹولز فیکٹری کے مزدوروں کی جدوجہد زیادہ ریڈیکل تھی۔ جب کامریڈ راجہ ریاض نے لاء کرلیا تو انھوں نے وکالت کرنے کی ٹھانی۔
جب وکیل بنے تو وکیلوں کی جدوجہد میں اتنے نمایاں ہوئے کہ کراچی بار کے سالانہ انتخابات میں نائب صدر کا انتخاب لڑے اور سب سے زیادہ ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔ وہ عجیب سادے انسان تھے۔ ان کے پاس کبھی بھی منی بیگ اور بریف کیس نہیں ہوتا تھا۔ موکل (کلائنٹ) کی پہلے صلح کرانے کی کوشش کرتے تھے اور جب وہ نہ مانتے تھے تو مقدمہ لڑتے تھے ۔ وہ مزاجاً بہت سچّے اور بہادر انسان تھے۔ ایک بار کراچی سٹی کورٹ میں ایک وکیل نے ایک موچی بچّے کو ماں بہن کی گالی دے دی، جس میں کامریڈ راجہ ریاض نے اس وکیل سے کہا کہ آپ اس غریب بچّے کی ماں کو کیوں گالی دے رہے ہیں؟
جواب میں اس وکیل نے کہا کہ آپ کون ہوتے ہیں پوچھنے والے؟ جیسے ہی یہ بات کہی تو کامریڈ ریاض نے اپنی فائل دور رکھی اور اس وکیل کو گھما کے ایک زوردار تھپڑ رسید کردیا۔ پھر راجہ ریاض کے سارے دوستوں نے اس مزدور دشمن وکیل کی خوب خبر لی۔ یہ تھے ان کے ذاتی کردار۔ راجہ ریاض یوم مئی کے جلسے، جلوس اور حسن ناصر اور نذیر عباسی کی برسی پر جلسوں میں شرکت کو اپنا اوّلین فریضہ سمجھتے تھے۔
کامریڈ راجہ ریاض کی شہادت کو 5 سال گزر گئے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بھی قائم ہوگئی ۔ راجہ ریاض کا خاندان راولپنڈی منتقل بھی ہوگیا، مگر اب بھی قاتلوں کا پتا چلا اور نہ ہی شہید کے مقدمے میں کوئی پیش رفت ہوئی۔ لوگ اکثر کہتے ہیں کہ قتل نہیں چھپتا مگر کراچی میں تو چھپتا آرہا ہے۔
تحریر: زبیر رحمن ٭٭٭٭٭٭٭٭ بشکریہ : ایکسپریس