Pages

12/11/2017

اور سڑک بن گئی!!!!

یہ قریب بیس سال قبل کی بات ہے میرے رہائشی علاقے ماڈل کالونی کی ایک نہایت مصروف سڑک ماڈل کالونی روڈ مکمل طور پر تباہ تھی۔ ہم یار دوست اکثر مذاق میں کہتے کہ جس نے جھولے لینے ہیں وہ بائیک لے کر اُس طرف چلا جائے۔ مگر پھر ایک دن صبح صبح اس سڑک پر کارپیٹنگ ہوئی ہوئی تھی مکمل سڑک نئی نئی سی معلوم ہوتی تھی دیکھ کر حیرت اس لئے ہوئِی کہ ایک دن قبل جب وہاں سے گزر ہوا تھا تو "جھولے" لے کر آئے تھے مطلب سڑک خستہ حالت میں تھی۔ معلومات لینے پر معلوم ہوا کراچی کی مشہور زمانہ پارٹی کے لیڈران نے ایک جلسہ کی سلسلے میں تشریف لانا تھا س لئے ایک ہی رات میں انتظامیہ نے "فرض شناسی" کا ثبوت دیا جو اہل علاقہ کے لئے چند دنوں کی "سہولت" کی شکل میں برآمد ہوا۔
تب یہ جانا کہ اگر آپ کے علاقے میں بہتری چاہے وقتی یا مستقل ان "جلسوں" کے مرہون منت ہوتی ہے جن کے سبب انہیں آپ کے محلے آنا پڑے۔ یوں وہ سڑک ہر جلسے و سیاسی ایکٹیوٹی پر "نئی " سی ہو جاتی مگر اب پھر دو سالوں سے وہ دوبارہ اجڑی ہوئی ہے۔
قریب ڈھائی سال قبل عمرکوٹ میں تعیناتی ہوئی تو میرپور خاص سے عمر کورٹ تک کی روڈ کی حالت زار دیکھ کر افسوس بھی ہوتا اور غصہ بھی آتا کہ یہ ہماری صوبائی حکومت کام کیوں نہیں کرتی۔ مگر ڈیڑھ ماہ قبل اس سڑک کی قسمت جاگی اور یہ سڑک بہتر انداز میں کارپیٹ ہونا شروع ہوئی چونکہ سیاسی جماعتوں کے جلسے پہلے بھی ہوتے رہے مگر اس روڈ کی حالت جوں کی توں رہی اس لئے اول خیال یہ آیا کہ ممکنہ طور پر یہ الیکشن سے قبل کیا جانے والا کام ہے مگر جب گزشتہ اتوار مقامی رہنما کے بیٹے کی شادی میں شرکت کے لئے مختلف "رہنماؤں" اور خاص کر صوبے کے حاکم جماعت کے تمام وہ لیڈر جن کا تعلق سندھ سے تھا کی آمد ہوئی تو معلوم ہوا یہ "ترقیاتی پروجیکٹ" اس شادی کی بدولت ہے۔
ایسی ہی خبر اس سے قبل لاہور سے "بنت مریم" کے گھر اپنی والدہ کی آمد پر تعمیر کی جانے والی سڑک سے جڑی ہے۔ یوں یہ بات پکی ہو گئی ہے کہ ہمیں اپنے اپنے علاقے کی بہتری کے لئے یقین کوئی ایسی ہی تقریب رکھنی پڑے گی ورنہ کوئی امید بر نہیں آتی۔

4/21/2013

سالارجیل میں

وقت وقت کی بات ہے۔ کبھی دل میں آتا تھا تو قلم کی جنبش سے ایک نوٹیفکیشن جاری ہوتا اور قانون وجود میں آ جاتا تھا مگر آج جناب خود قلم کی جنبش کی زد میں آ کر قانون کے شکنجے میں ہے۔ جو دہشت گردوں سے جنگ لڑنے کی بات کرتا تھا آج خود دہشت گردی کے الزام کا سامنا کررہا ہے۔جناب سپا سالار ہوتے تھے اب سپاہیوں کی قید میں ہوتے ہیں۔ غلط فیصلے غلط جگہ پر پہنچا دیتے ہیں اور ایسے فیصلے کبھی درست مشوروں سے حاصل نہیں ہوتے۔
مشیر کا انتخاب حکمران کے اقتدار کا دو رانیاں طے کرتا ہے۔اور وکیل کا انتخاب ملزم کے مجرم تک کے سفر بارے قیاس کرتا ہے۔ جس کیس میں جناب کی پکڑ ہوئی اس میں جناب کا گرفت میں اتنی آسانی سے آنا نہیں بنتا تھا۔ قابل ضمانت جرائم میں ملزم کو ضمانت درخواست کے بغیر ہی مل جاتی ہے مگر جناب کے ساتھ وہ معاملہ یوں ہوا کہ نمازیں بخشو انے گئے روزے گلے پڑھ گئے والا ہوا ضمانت تو کیا ملنی تھی ATC کی دفعہ سات بھی شامل کر دی گئی۔
خود کو بڑا منوانے والے لوگوں کو تھانے جانے میں بڑی تکلیف ہوتی ہے، اس تکلیف میں وہ جیل میں چلیں جاتے ہیں۔ جناب بھی شاید اس ہی مسئلہ کا شکار ہوئے ورنہ متعلقہ تھانے جا کر اگر ایس ایچ او سے ملاقات کرتے وہاں بیٹھ کر کافی و سگار سے لطف اندوز ہو کر آتے تو اج اپنے ہی فارم ہاؤس میں قید نہ ہوتے۔ اس جرم میں جناب کی ضمانت تھانے دار یا تفتیشی آفیسر بھی لے سکتا تھا۔ اگر عدالت جانے کا اتنا ہی شوق تھا تو جناب جب کراچی میں سندھ ہائی کورٹ میں پیش ہوئے تب transit بیل لی تھی تب اسلام آباد میں ضلعی جج کے سامنے پیش ہو کر ضمانت لے لیتے وہ اگر رد بھی کرتا تو دہشت گردی کی دفعات کو اضافہ تو نہ کرتا کہ یہ اُس کے پاس ایسا کوئی اختیار نہ تھا مگر بدقسمتی جس کو یہ اختیار تھا جناب اُس کے ہی سامنے پیش ہوئے اور در لئیے گئے۔ ہم نے یہاں دیکھا ہے کہ ہمارے سینئر وکیل اکثر کلائینٹ کا معاملہ نچلی عدالتوں کے بجائے اعلی عدالتوں میں براہ راست لے جاتے ہیں جس سے ایک تو ریلیف جلدی مل جاتا ہے دوسرا فیس اچھی مل جاتی ہے۔ یہاں یقین فیس کا معاملہ نہ ہو گا مگر اس توپ سے مکھی نہ مری اور نقصان الگ ہوا۔
سچی بات تو یہ ہے کہ جناب کا اقتدار اور اس یوں ذلیل ہونا میری ذات کو بہت کچھ سکھا گیا اور سیکھا رہا ہے۔ دنیا داری کے اعتبار سے بھی اور پیشہ وارانہ زندگی کے لحاظ سے بھی۔
کہانیوں میں پڑھا تھا، تاریخ نے بتایا تھا کہ بادشاہ قید ہوتے ہیں، مارے جاتے ہیں، ذلیل ہوتے ہیں مگر یہ سب تب ہی ہوتا ہے جب اُن میں غرور ہو تکبر ہو، انسانیت نہ ہو! پھر وہ کتنے ہی عقل کُل کیوں نہ ہوں لوگوں کی بد دعائیں انہیں نالائق مشیروں اور ظالم دشمنوں سے لڑوا دیتی ہے۔ قانون قدرت سے زیادہ ظالم دشمن کون ہو گا؟ آج ایسی تاریخ کو خود بنتے دیکھ رہا ہوں!اگر ایسے کیس مین ایسی گرفت ہے تو باقی میں خدا خیر کرے۔ سالار جیل میں ہے اور یار لوگ کہہ رہے ہے سالا جیل میں ہے۔

4/01/2013

ہم بھی امیدوار ہیں!!

گزشتہ سات سال سے ہم آپ کے سامنے ہیں! آپ ہمارے کردار سے واقف ہیں۔ ہر شخص میں کوئی نہ کوئی خامی ہوتی ہیں ممکن ہے ہم میں بھی کچھ خامیاں ہوں۔ سیاست کے بارے ہمارےنظریات یقین اچھے نہیں مگر آج کے جمہوری دور میں ہم ووٹ کی طاقت سے ہی تبدیلی لا سکتے ہیں!
ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ اچھی و عمدہ قیادت کا ملک میں فقدان ہے لہذا اس بات کا اظہار ہم اکثر و بیشتر کرتے رہے ہیں ۔ جب الیکشن کے فارم پُر ہونا شروع ہوئے تو عدالت میں بھی ہم نے اپنے ان خیالات کا اظہار اپنے دوستوں سے کیا لہذا پرسوں دوستوں سے مشورے کے بعد ہم نے اپنے حلقہ PS-121 سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کر کے فارم جمع کروا دیئے تھے جو آج منظور ہو گئے ہیں!۔
آزاد امیدوار کی حیثیت سے فارم جمع کروائے تھے، مگر پھر APML نے ٹکٹ کا کہا ہے!ایم کو ایم کے امیدوار سے ہماری بات چیت چل رہی ہے دیکھے کیا رزلٹ نکلتا ہے!
آپ میں سے کون کون الیکشن کے سلسلے میں ہمارا ساتھ دے گا؟ جو حلقے میں رہتے ہیں وہ ووٹ ڈال دیں اور جو حلقے سے باہر ہے وہ نوٹ ڈال دے تاکہ الیکشن کے اخراجات میں آسانی ہو۔
اس طرح کا اپریل فول تو منایا جا سکتا ہے. اللہ اس جھوٹ کو معاف کرے.