دل کی بستی عجیب بستی ہے
لوٹنے والے کو ترستی ہے
ہو قناعت جو زندگی کا اصول
تنگ دستی، فراخ دستی ہے
جنس دل ہے جہاں میں کم یاب
پھر بھی یہ شے غضب کی سستی ہے
ہم فنا ہو کر بھی فنا نہ ہوئے
نیستی اس طرح کی ہستی ہے
آنکھ کو کیا نظر نہیں آتا
ابر کی طرح برستی ہے
شاعر: علامہ اقبال
4 تبصرے:
کیا آپ کو یقین ہے کہ یہ "علامہ اقبال" کی نظم ہے- ہمارا خیال ہے کہ یہ علامہ اقبال کی نہیں ہے-
ارسلان
ارسلان یہ اقبال کا غیر شائع شدہ کلام ہے۔
ہے علامہ اقبال کا ہے۔ یہ بات مستعند ہے۔
میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں کہی۔ پڑھی ہے
یہ غزل علامہ اقبال نے اپنے ایامِ شباب میں لکھی جب وہ اپنے استاد داغ دہلوی سے اصلاح لیتے اور انہی کے اسلوب میں غزلیں لکھتے تھے- اس غزل کو علامہ اقبال نے اپنے کسی مطبوعہ کلام کے مجموعے خصوصا" بانگء درا میں شامل نہیں کیا تھا- لیکن یہ پوری غزل غلام رسوم مہر نے اپنی کتاب " سرودء رفتہ" ص 154 میں شامل کیا ہے- غزل سہل نگاری اور غنائیت کا شاہکار ہے- اسے معروف گلوکار استاد حامد علی خاں نے گایا بھی ہے جسے اقبال اکادمی کے یو ٹیوب چینل میں شامل کیا ہوا ہے-
ظفر حسن رضا /١٦ نومبر ٢٠٢٣ء
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے
نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔