دل کی بستی عجیب بستی ہے
لوٹنے والے کو ترستی ہے
ہو قناعت جو زندگی کا اصول
تنگ دستی، فراخ دستی ہے
جنس دل ہے جہاں میں کم یاب
پھر بھی یہ شے غضب کی سستی ہے
ہم فنا ہو کر بھی فنا نہ ہوئے
نیستی اس طرح کی ہستی ہے
آنکھ کو کیا نظر نہیں آتا
ابر کی طرح برستی ہے
شاعر: علامہ اقبال
3 تبصرے:
کیا آپ کو یقین ہے کہ یہ "علامہ اقبال" کی نظم ہے- ہمارا خیال ہے کہ یہ علامہ اقبال کی نہیں ہے-
ارسلان
ارسلان یہ اقبال کا غیر شائع شدہ کلام ہے۔
ہے علامہ اقبال کا ہے۔ یہ بات مستعند ہے۔
میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں کہی۔ پڑھی ہے
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے
نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔