Pages

7/10/2019

جج کا ملاقی فرد

آج کل ایک منصف کی ویڈیو کا بہت شور ہے ویڈیو میں گفتگو کے مواد سے قطع نظر ایک معاملہ یہ بھی ہے کہ جج صاحب اپنی رہائش گاہ پر کس فرد سے ملاقی ہو رہے ہیں ایک ایسا فرد جس کا اپنا ایک کریمنل ریکارڈ ہے او رجو ایک ایسے فرد کا سیاسی سپوٹرجس کے مقدمہ کا فیصلہ ان جج صاحب نے کیا ۔ جج کے لئے سوشل ہونا کبھی بھی درست نہیں سمجھا گیا اور جن چند ایک سے ممکنہ طور ملنا لازم ٹہرے اس سلسلے میں بھی انہیں ملاقاتی کے کردار اور شہرت کو بھی دیکھنا ہوتا ہے۔
قریب آٹھ دس سال قبل ایک ایسے ہی معاملے پر دوران گفتگو بیرسٹر شاہدہ جمیل نے ہمیں اس سلسلے میں بطور مثال اپنے دادا سر شاہ محمد سلیمان (یہ الہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہے ہیں 1932 سے 1937 تک) کا ایک قصہ سنایا تھا کہ او ل تو وہ عوامی تقریبات میں جاتے نہ تھے تاہم انہیں ایک بار اس علاقے کے ایک ایسے کاروباری فرد کی جانب سے شادی کی تقریب کی دعوت موصول ہوئی جسے نظرانداز کرنا ان کے لئے ممکن نہ ہو پا رہا تھا۔ ایسے میں انہوں نے اپنی ہائی کورٹ کی رجسٹرار کی ذمہ داری لگائی کہ وہ معلوم کر کے آگاہ کرے آیا اس دعوت دینے والے محترم یا ان کے خاندان کے کسی فرد کا کو ئی مقدمہ ان کی عدالت میں تو نہیں ، طے یہ پایا کہ اگر مقدمہ ہوا تو وہ اس تقریب میں شرکت سے معذرت کر لیں گے۔ رجسٹرار نے رپورٹ کی کہ اس کا کوئی مقدمہ یا تنازعہ اس عدالت کے روبرو نہیں ہے لہذا دعوت قبول کی گئی۔ پروگرام کے مطابق جب دعوت میں شرکت کے لئے پہنچے تو عدالت کا رجسٹرار بھی ہمراہ تھا تقریب میں شریک افراد کو دروازے پر ریسیو کرنے والوں میں ایک فرد ایسا تھا جو اگرچہ مدعو کرنے والے کا رشتہ دار نہ تھا مگر اس کا ایک مقدمہ عدالت میں زیرالتواء تھا چیف جسٹس صاحب تقریب کے دروازے سے واپس ہو لئے۔ یہ کردار اب میسر نہیں ہیں۔
منصف کے لئے انصاف کی پہلی سیڑھی یہ کہ وہ ہر اس تعلق سے کنارا (نظر انداز) کرے جو کسی بھی طرح اس کے فیصلے پر اثر انداز ہو سکتا ہو۔ ہمارے ایک دوست ایڈیشنل سیشن جج نے تو نوکری جوائن کرنے سے ایک دن قبل اپنی فیملی کے افراد کو جمع کر کے کہا وکالت کے دور میں اور اب میں فرق ہے یاد رکھنا کل سے میں ایک بہت بڑی ذمہ داری پر ہو گا لہذا کبھی یہ مت سمجھنا کہ تم لوگوں کی وجہ (سفارش) سے میں انصاف میں کسی قسم کی کوتاہی کا مرتکب ہو کر اپنی آخرت کا سودا کروں۔ یہ بات انہوں نے شاید ہمیں بھی (دوستوں کی ایک محفل میں) اس نیت سے سنائی کہ مستقبل میں انہیں دوستوں سے اور دوستوں کو ان سے کوئی غلط امید یا شکایت نہ ہو۔
کچھ فرائض سخت احتیاط اور احساس ذمہ داری سے منسلک ہوتے ہیں۔

4/30/2019

اپنی ایک لا علمی کا اعتراف!!

آج 2016 میں پارلمنٹ میں زنا سے متعلق ہونے ترامیم کا مطالعہ کرتے وقت "علم" ہوا (اور افسوس بھی کہ پروسیکیوٹر اور وکیل ہونے کی بناء پر مجھے اس بارے میں آگاہ ہونا چاہئے تھا نہ جانے پہلے اس ترمیم کو یوں کیوں نہ دیکھا) کہ اس میں ایسی ترامیم بھی ہیں جن کا اطلاق صرف "زنا" سے متعلقہ جرائم تک نہیں ہے بلکہ ان کے اثرات بڑے گہرے اور در رس ہیں اگر عدالتیں اس کو استعمال کریں اگرچہ اب تک اس کا استعمال ہوتے دیکھا نہیں پہلی ترمیم تعزیرات پاکستان کی دفعہ 166 میں ذیلی دفعہ 2 میں اس انداز میں ہوا 

Whoever being a public servant, entrusted with the investigation of a case, fails to carry out the investigation properly or diligently or fails to pursue the case in any court of law properly and in breach of his duties, shall be punished with imprisonment of either description for a term which may extend to three years, or with fine, or with both.
 یعنی کہ ناقص تفتیش پر تفتیشی آفیسر کو تین سال تک کی سزا ہو سکتی ہے 
پہلے پہلے یہ ترمیم دفعہ 218 اے کے طور پر صرف زنا سے متعلق تفتیش تک محدود کر کے شامل کرنے کی تجویز تھی، اگر تفتیشی آفیسرز کو ناقص تفتیش پر سزا کا رجحان پیدا ہو تو ممکن ہے کہ "انصاف" کے اسباب پیدا ہوں مگر دہشت گردی سے متعلق قانون کی دفعہ 27 کا استعمال(جو اسی مقصد کے تحت موجود ہے) بھی ججز کی نرم دلی کے باعث بے اثر ہوئے پڑی ہے۔ اسی طرح اسی ترمیم میں دفعہ 186 کی ذیلی دفعہ 2 میں شامل کیا گیا کہ
 Whoever intentionally hampers, misleads, jeopardizes or defeats an investigation, inquiry or prosecution, or issues a false or defective report in a case under any law for the time being in force, shall be punished with imprisonment for a term which may extend to three years or with fine or with both.
 یعنی کہ تفتیش و استغاثہ کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے، گمراہ کرنے یا خراب کرنے میں شامل ہوا یا جھوٹی یا غلط رپورٹ کسی مقدمہ میں جاری کرے وہ بھی تین سال کی سزا کا مستعحق ہو گا۔ پہلے شاید زنابلجبر سے متعلق ترامیم کو پڑھتے ہوئے لاشعور میں یہ تھا کہ یہ ترامیم زنا جیسے جرم تک محدود ہے مگر اب اسے دوبارہ اتنے وعرصے بعد ایک نظر دیکھنے سے یہ آگاہی ہوئی کہ اس کے اثرات دور رس ہیں۔
ایک بار ایک ریٹائر جسٹس جو بعد میں قانون کی تدریس سے جڑ گئی تھے سے ایک محفل میں سنا تھا "قوانین کی اس دفعات کا اطلاق میں عمر کے بڑے حصے عدالت میں کرتا رہا ہو مگر اب جب پڑھانے کی نیت سے پڑھتا ہوں تو ان کے نئے معنی مجھ پر آشکار ہوتے ہیں" آج کچھ ایسا ہی میرے ساتھ ہوا ہے۔

7/05/2016

گزری عیدیں!!

عید تو بچوں کی ہوتی ہے جب بچے تھے تو بڑوں کی زبانی یہ جملہ سن کر خیال آتا کیسے ہیں یہ ہمارے بڑے ہیں اپنی مرضی کر سکتے ہیں جیب میں پیسے ہیں جو چاہے کھائیں جیسا دل کرے ویسے کپڑے بنوائیں پھر بھی کہتے ہیں کہ عید ہماری ہے ان کی نہیں! عجیب لگتی تھی ان کی بات۔ اب ہم بچے نہیں رہے بڑے ہو گئے ہیں، کسی حد تک صاحب اختیار بھی ہیں اور جان گئے ہیں اس وقت کے بڑے ٹھیک کہتے تھے سچے تھے اب ہم بھی یہ ہی کہتے ہیں “عید تو بچوں کی ہوتی ہے “۔
جان گئے ہیں جو صاحب اختیار نظر آتے ہیں ان سے ذیادہ بے اختیار شاید ہی کوئی ہو جب ان کی خوشی دوسروں سے جڑ ی ہوئی ہوتی ہے۔ ذمہ دارویوں کا احساس من مانی کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہوتا ہے۔جان گئے ہیں ہم بچپن میں جن (والدین) کی اجازت کے طلب گار ہوتے تھے وہ دراصل ہماری خوشی کے آگے اپنی مرضیوں و خواہشوں کا گلا دبا دیتے تھے ۔ ہمارے نئے کپڑوں و جوتوں کے لئے اپنے پرانے جوڑوں کو استری کر کے عید والے دن زیب تن کرتے تھے۔ ہماری زندگی کی آسانی ان کی دشوار زندگی کا نتیجہ ہوتی تھی۔ تب نہ علم تھا نہ احساس! اب معلوم ہے مگر طاقت اب بھی اتنی نہیں کہ ان آسانیوں کا صلہ دے سکیں اُن دنوں کا بدل دے سکیں۔
ہماری میٹھی عید بھی ان کی عید قربان ہی ہوتی تھی۔ عید خوشی ہے ، خوشی احساس کا نام ہے اورعمر کی گنتی کے ساتھ اب احساس بدل گیا ہے یہ عید یقین بچپن کی عید سے مختلف ہے پہلے دوستوں و کزنوں کے ساتھ قہقہہ لگانا، ملنے والی رقم جو عیدی کہلاتی ہے اسے اپنی ذات پر خرچ کرنا اچھا لگتا ہے اب دعا ہے جنہوں نے میری عیدوں کو اپنی خوشیاں جانا اللہ توفیق دے ہے آنے والے دن میں اُن کی خوشیوں کا سبب و وسیلا بنو۔
آپ سب کو عید مبارک، اپنی خوشیوں میں انہیں یاد رکھیں جن کی خوشیاں آپ سے منسلک رہی ہے یا ہیں ۔ جانے انجانے میں انہیں دکھ یا تکلیف دینے سے اجتناب کریں یہ دکھ و تکلیف آپ کے ان سے رویے تک ہی محدود نہیں آپ کے ممکنہ دیگر دنیاوی معاملات سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔
وہ عیدیں جو گزر چکی اب میسر نہیں !مگر آنے والی عیدیں ممکن ہیں گزشتہ عیدوں سے بہتر ہوں، جنہیں بہتر بھی ہم ہی بنا سکتے ہیں۔خوش رہیں۔


1/06/2016

قیدی

مجھے آئینہ پر ابھرتے اپنے عکس پر ہنسی آ رہی تھی کہ یہ میری حرکات و سکنات کا قیدی ہے، جو میں کروں گا یہ وہ ہی کرتب دیکھائے گا. اپنے عکس پر طنزیہ مسکراہٹ ڈالتے ہوئے جب میں پلٹا تو چاروں طرف مکمل اندھیرا چھا گیا، گھبرا کر میں نے مڑ کر دیکھا تو شیشے کے اس طرف روشن کمرے میں میرا عکس، ہم ذات، قہقہے لگا رہا تھا اور میرے چاروں طرف اندھیرا تھا.


5/19/2015

اردو + شوشل میڈیا سمٹ

قریب دو سال اور تین ماہ بعد پاکستان کے مختلف شہروں کے اردو بلاگرز آپس میں مل بیٹھیں جنوری 2013  کے آخری دنوں میں  اردو بلاگرز لاہور میں مل بیٹھے تھے جبکہ  اس بار میزبان کراچی کے اردو بلاگرز تھے مگر کراچی کے ہم بلاگرز نے اسے شوشل میڈیا سمٹ بنا دیا جو کئی اردو بلاگرز کے لئے وجہ شکایت بنا  مگر سمٹ کے بعد.

سوال اٹھائے جاتے ہیں یہ ہی سوچنے  کا حق ہے کہ ہر معاملے کا باریک بینی سے جائزہ لے  ایسے میں خدشات و اعتراضات بھی سامنے آتے ہیں مگر چند اعترازات کا جواب بس یہ ہوتا ہے کہ بندہ انہیں بے بنیاد قرار دے دے تاوقتکہ ان کے درست ہونے کی شہادت مثل پر موجود نہ ہو۔

میں نے خود نے گزشتہ کانفرنس کے متعلق جب لکھا تو اٹھنے والے خدشات سے متعلق یہ کہا تھا کہ جس کا جو مفاد ہو  اُسے عزیز ہمیں تو ملاقات کا ایک عمدہ بہانہ  مل گیا ساتھ میں اختتام ان الفاظ پر کیا تھا

! سو باتوں کی ایک بات اردو بلاگر پھر اردو بلاگر ہے جو اپنی دنیا آپ بناتے ہیں وہ اپنی قیمت نہیں لگاتے کیوں کہ وہ جانتے ہیں ہمارے انمول ہونے کی ایک نشانی یہ ہے کہ ہم اردو بلاگر ہیں! کوئی لاکھ کوشش کرے مگر ہم رضیہ نہیں ہیں بلکہ کچھ کے لئے “بلا” ہیں جو سچ کہنے کا “گُر” جانتے ہیں!!
باقی آپ سمجھ دار ہیں !!!


اس سمٹ سے مجھے ایک  دلچسپ مشاہدہ ہوا کہ جس طرح میرے جیسے اردو میڈیم والے انگریزی زبان سے جھجک محسوس کرتے ہیں اس ہی طرح ایک مخصوص تعداد میں انگریزی میڈیم والے اردو زبان سے خوف محسوس کرتے ہیں۔ انگریزی میڈیم اسکول کے فارغ و تحصیل انگلش بلاگرز صاف اردو بولنے کی ناکامی کی وجہ سے سمٹ میں پریزنٹیشن سے انکاری ہوتے رہے، اگرچہ متعلقہ موضوع پر انہیں کافی عبور حاصل تھا بلکل ایسے جس طرح اچھی کارکردگی دیکھانے کے بعد کھلاڑی مین آف دی میچ نہ بننے کی دعا کرتا ہے۔

سمٹ والا دن کافی ہنگامہ خیز تھا یہ ہمارا سمٹ والے دن خیال تھا مگر بعد میں معلوم ہوا ہنگامہ توابھی باقی ہے ۔ انسان خطا کا پتلا ہے غلطیاں ہوئی ہیں اور پہلی بار تھی ہونا بنتی بھی تھیں انہیں نوٹ کریں تاکہ آئندہ نہ ہوں لڑائی یا طنز نہیں۔ سوال اٹھانے اور طنز کرنے میں بڑا فرق ہے. جب طنز کرتے ہوئے یا طنز کرنے کے بعد سوال اٹھائے جاتے ہیں تو یہ خیال کیا جاتا ہے کہ سوال کا مقصد تنگ کرنا لہذا خاموشی ہی بہترین جواب  ہے.

اس سمٹ سے کیا فائدہ ہوا؟ اس کا مقصد کیا تھا؟ کچھ فوائد فوری ہوتے ہیں اور کچھ کافی عرصے کے بعد سامنے آتے ہیں. ایسے فوائد جو دیر سے حاصل ہونے ہوں ان کے لئے ایک خاص قسم کے فالو اپ کی ضرورت ہوتی ہے خدا کرے ہم اس کے لیے مطلوبہ اقدامات کر سکیں.
اہم بات یہ کہ روایتی میڈیا نے تسلیم کیا سوشل میڈیا ایک بڑا میڈیم ہے، نیز یہ کہ وہ تو روزی روٹی کما رہے ہیں اصل حق گوئی تو صرف سوشل میڈیا پر ہی ممکن ہے. بڑے اداروں میں مالکان کی دی گئی لائن پر کام کرنا ہوتا ہے اور جبکہ سوشل میڈیا پر دل و ضمیر کی. یہ بھی کہ روایتی میڈیا کے سو سال پر سوشل میڈیا کا ایک دن بھاری ہے.

ہم اردو بلاگرز کو اپنا حلقہ احباب بڑھانا ہو گا اپنے کنویں سے باہر جانا ہو گا. اب سے پہلے میرا یہ خیال تھا اردو بلاگرز  خودنمائی نہیں چاہتے مگر معلوم ہوتا ہے ایسا کوئی جذبہ ہم میں موجود ہے. جہد مسلسل ہمیں خود ہی نمایاں کر دے گی بس سفر جاری رہنا چاہئے اور ایک دوسرے سے منسلک.

9/22/2014

بے ربط باتیں

ادب میں میں پائے جانے والے بے ادب مواد کی وجہ سے خاندان کے بزرگ کم عمر بچوں سے ادب کو چھپا کر رکھتے ہیں اور ادب کے خالق بے ادبی کی کاوش کو عشق مجازی باور کرواتے ہوئے عشق حقیقی کو منزل بتاتا ہے۔شاید اسی لئے بگاڑ ایسا آتا ہے کہ ایک نسل دنیا پتل دی پر سنی لیون کے ٹھمکو پر مدہوش ہونے لگتی ہے۔
اگر صوفیوں نے اللہ کی محبت کو بیان کرنے کے لئے دنیا کی محبت کے قصوں کو مثال بنا کر پیش کیا تو اسے بنیاد بنا کراہل دانش کو ہر اپنی نسل کو یہ باور کروانے کی سہی نہیں کرنی چاہئے کہ جنس مخالف کی کشش دراصل محبت کی ایک شکل ہے اور محبت کی شدت عشق کا وہ مقام ہے جس میں ملن نہ ہو تو بندہ ولی کے درجے تک پہنچ جاتا ہے۔
عشق مجازی کو عشق حقیقی کا راستہ بتانے والے ایک ایسی کنفیوز جنریشن کی وجہ بن سکتے ہیں جو محبت، عشق اور ہوس میں فرق کرنے سے قاصر ہو۔
(کافی دنوں سے یہ نامکمل تحریر پڑی ہوئی ہے شاید نامکمل ہے رہے اس لئے ایسے ہی بلاگ پر ڈال دی)

8/10/2013

کمرشلائز رمضان اور ڈسکو عید

کہتے ہیں اپنے شہر کے کسی گھر والے ایک دودھ والے سے لڑ رہے تھے کہ تو نے کل کیسا دودھ دیا جسے پی کر گھر کے سارے بچے و بڑے بیمار پڑ گئے تھے یوں خراب و ملاوٹ والا دودھ دے کر کیوں حرام کھاتے ہوں؟ گوالے نے معذرت کی کہ کل غلطی سے یاد نہ رہا اور میں آپ لوگوں کے گھر خالص دودھ دے گیا تھا! مستقبل میں یہ غلطی نہیں کروں گا! بات سادہ سی ہے یہ حال اب معاشرے کا ہے کہ خالص شے ہضم ہی نہیں ہوتی ہمیں ہر شے میں ملاوٹ درکار ہے خواہ خواہش خالص کی ہو۔
مذہب یقین شے نہیں مگر معاشرے کا رجحان بتاتا ہے کہ ہمیں دین اسلام کا خالص پن بھی تنگ کرتا ہے! ہمارے ایک دوست مقامی مسجد میں امام و خطیب تھے انہوں نے اپنی مسجد انتظامیہ سے کئی بار کہا کہ مجھے تنظیم کی دوسری مسجد میں بھیج دیا جائے مگر اُن کی خطابت (جمعہ کا خطبہ) کا علاقہ دیوانہ تھا لہذا انتظامیہ اُن کی درخواست کو ایک طرف کر دیتی لہذا اُنہوں نے اپنے ایک دوست سے اس سلسلےمشورہ کیاکیا کرو دوست نے مشورہ دیا کہ اپنی خوبی کو ہی خامی بنا لو علاقے میں ذیادہ تر بینک کے ملازمین رہتے ہیں لہذا اس جمعے کو "سود" کی "افادیت" پر روشنی ڈال دو پھر دیکھوکیا ہوتا ہے لہذا جب اُس نے اہل علاقہ پر اپنے زور خطابت کا ایسا اثر چھوڑا کہ ہفتے کی نماز فجر کی امامت وہ دوسری مسجد میں کر رہے تھے۔
یار لوگوں رمضان پر ہونے والے ٹی وی افطار پر نقطہ چینی اس انداز میں کرتے جیسے ملک کی اکثریت امریکی ویزہ کے لئے اپلائی کر کے امریکہ کو گالیاں دیتی ہےغصہ امریکہ کی پالیسی پر نہیں ویزہ نہ دینے پر ہوتا ہے۔ ہر کسی کو آمر کی لیاقت پر شبہ ہے مگر اُس کی کی گئی ملاوٹ سے سب ہی محظوظ ہوتے ہیں۔ یہ نئی نسل کے مولوی ہیں! اللہ کو مانتے ہیں مگر اللہ کی پوری طرح نہیں مانتے۔ جتنی مان سکتے ہیں اُس ہی کومکمل اسلام قرار دیتے ہیں۔
دونمبری کرتے ہیں! دونمبر ہیں! ایک نمبر اسلام کیسے اپنا سکتے ہیں؟ اور کیسے ایک نمبر اسلام والوں کو اپنائیں گے؟ ہماری نانی کا جب انتقال ہوا تو قیاس لگانے والوں نے کہا کہ بڑی نیک بندی تھی جس کا جنازہ "حافظ صابر علی" نے پڑھا! پوچھا یہ کون صاحب ہیں؟ کہنے لگے اللہ والے ہیں ۔ کہا کیا ثبوت؟ بتانے والے نے بتایا یہ کم ثبوت ہے کہ لوگ دل سے عزت کرتے ہیں! ہم نے کہا یہ کافی نہیں کوئی اور ثبوت! سامنے والا بولا گھر کی معاشی حالت اچھی نہیں ، اگر یہ بندہ چاہتا تو دین فروشی سے مال بنا سکتا تھا مگر ایسا نہیں کیا!خود کو پیر نہیں بناتا ورنہ لوگ مریدوں کی طرح چاہتے ہیں۔بات سن کردل نہیں مانا کہ جس کی بیٹیوں کا رشتہ لینے سے لوگ اس بناء پر راضی نہ ہوں کہ کچھ ذیادہ ہی نیک ہیں ایسی دیندار لڑکیوں کے ساتھ گزارہ کون کرے!! ایسے ایک نمبر بندے سے بندہ دور ہی اچھا ہے۔
رہبر کہہ گیا ہے میری امت کا فتنہ مال ہے! اُس کا کہا کیسے غلط ہو؟ ٹی وی پر مال بانٹا ہی مال بنانے واسطے بنایا جاتا ہے۔ یہ مال بانٹ پر مال بنانا ہی تو کمرشلزم ہے! رمضان تو کمرشلزم کی نظر ہوا ہی ہے مگر اس سے قبل ہی جو حال ہم نے عید کر دیا تھا کیا وہ دینی پیغامات کی مطابق تھا؟ نہیں ناں!! خرابی ایک دم نہیں آتی! مگر ابھی وقت ہی کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ خرابی ہے یوں اس کے دور ہونے کا امکان زندہ ہے کیا ہو جو یہ احساس بھی نہ رہے؟

4/09/2013

اظہار رائے کو پابند کرنے کی آزادی

جن اردو بلاگرز نے لاہور میں ہونے والی اردو بلاگرز کانفرنس میں شرکت کی وہ مسرت اللہ جان سے واقفیت رکھتے ہوں گے ! جناب مختلف ویب سائیٹ پر کالم یا تحریرں لکھتے رہتے ہیں! آج صبح معلوم ہوا جناب نے ایک کالم سچ ٹی وی پر لکھا جس کی بناء پر جناب کو امیریکن کونسلیٹ کی جانب سے دھمکیاں موصول ہوئی جس کے خلاف انہیں ابتدا میں ایف آئی آر کٹوانے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا مگر بعد میں ہائی کورٹ کی مداخلت سے وہ ابتدائی رپورٹ درج کروانے میں کامیاب ہوئے۔
نہ معلوم ہم کب آزاد ہو گے! اپنے ملک میں ہم یوں غلام ہیں کہ بعض دفعہ احساس ہوتا ہے کہ آزادی کی ایک جدوجہد اور درکار ہے ابھی!

3/24/2013

اردو بلاگرز ہینگ آؤٹ

اردو بلاگرز کا یہ دوسرا ہینگ آؤٹ تھا! اس سے قبل ہونے والی آن لائن ملاقات کی داستان آپ بلال بھائی کے بلاگ پر پڑھ سکتے ہیں! گزشتہ رات ہونے والی ایک اور ایسی ملاقات کی ریکارڈنگ ذیل میں موجود ہے۔ کئی سابقہ بلاگرز کوشش کے باوجوداس ہینگ آؤٹ میں جگہ نہ بنا سکے جن میں جہانزیب اشرف نمایاں ہیں نیز قدیر جنجوعہ اس کے آن ایئر ہونے کی وجہ سے شرکت سے انکاری تھے۔ جناب خرم شبیر و ڈاکٹر منیر سے ایس ایم ایس پر اپنی مصروفات کی وجہ سے معذرت کی۔ اس بار عثمان لطیف جو کہ SEO ہیں نے اس آئن لائن ملاقات میں خصوصی شرکت کی ! اردو بلاگرز نے انہیں آئندہ آئن لائن ملاقات میں اردو بلاگرز کے حوالے سے SEO یعنی سرچ انجن (گوگل) میں عمدہ رینک کے حوالے سے ایک کلاس یا لیکچر کا وعدہ لیا ہے۔ اس آئن لائن ملاقات میں کس کس پہلو پر بات ہوئی اس کا ایک اندازہ آپ ویڈیوز سُن کر لگا سکتے ہیں!!! کل باری باری کُل تین سیشن ہوئے جن میں سے دو کی ریکارڈنگ ذیل میں ہے! جو احباب ویڈیوز نہیں دیکھ سکتے وہ آئی ٹی نامہ والے سے اس سلسلے میں کسی ٹوٹکے کی فرمائش کر لیں!! یا پھر بلال بھائی کو کہہ دے ایک مختصر پچھلی بار کی طرح عمدہ تحریر عنایت کریں۔

2/02/2013

اردو بلاگر پھر اردو بلاگر ہے!!

یار لوگوں نے تو قسط وار کہانیاں شروع کر رکھی ہیں!لاہور میں ہونے والی اردو بلاگرز کے اجتماع عام پر!! اردو بلاگرز جنہوں نے اس میں شرکت کی وہ اس اجتماع کو کانفرنس کے نام سے یاد کرتے ہوں گے مگر ہم اسے ساتھی اردو بلاگرز سے ملاقات کا سبب یا بہانہ مانتے ہیں!
یہ کانفرنس ایشین کینڈین جرنلسٹس ایسوسی ایشن (ACJA) کے صدر محسن عباس صاحب نے کروائی تھی! یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ جنوری کی 26 اور 27 کو یہ کانفرنس منعقد ہوئی اور ٹھیک جب تمام اردو بلاگرز اپنے گھروں کو پہنچے ایشین کینڈین جرنلسٹس ایسوسی ایشن (ACJA) کی ویب سائیٹ انٹرنیٹ کی دنیا سے غائب ہو گئی!! البتہ ڈائیورسٹی رپورٹر یہ صفحہ ایشین کینڈین جرنلسٹس ایسوسی ایشن (ACJA) کے لئے مختص ہے!
اس کانفرنس یا اجتماع میں ہماری ملاقات چند عمدہ دوستوں سے ہوئی! اردو بلاگر جتنا نیٹ پر بے باک ہے اتنا ہی محفل میں ہو سکتا ہے یہ تاثر مکمل طور پر سچ نہ ثابت ہوا! م بلال م جتنی عمدہ اردو لکھتا ہے اتنا ہی اعلی بندہ ہے، نہایت مخلص و سادہ! مگر لہجہ میری طرح دیسی ہے! لاہور دیس میں بسے پردیسی صاحب لاہوریوں کی طرح بڑی دل اور عمدہ اخلاق والے بندے ہیں۔ شاکر عزیز کی شخصیت اُس کے بلاگ سے مختلف سنجیدہ لکھنے والا یہ شخص بظاہر نہایت ہنس مکھ بندہ ہیں، اس کی جھگتیں اس کے فیصلا آبادی ہونے کی دلیل دیتی ہیں! فیصل آباد سے دوسری آنے والی شخصیت جناب مصطفےٰ ملک تھے ہم ابتدا میں اُن کے سامنے ایسے پیش آنے کی کوشش کرتے رہے جیسے بچے بڑوں کے سامنے دبے دبے رہتے ہیں مگر وہ تو ہم سے ذیادہ زندہ دل و جواں نکلے! پھر کیا محفل لگی ہو گی آپ کو اندازہ ہوگا!! جس بندے کی شخصیت نے مجھے سب سے ذیادہ متاثر کیا وہ ریاض صاحب کی شخصیت تھی جسے گفتگو کا سلیقہ آتا ہے، دلیل سے بات دل میں اُتارنی آتی ہے۔ جو دوسرے کو سُن کر سمجھنا جانتا ہے! فخر نوید کے کیا کہنے بندہ اُس کی صحبت کو بھول نہیں سکتا یہ شخص واقعی ایسا ہے جس پر فخر کیا جا سکے اس سے دوستی کسی نوید سے کم نہیں۔ خرم ابن شبیر!!! کیا بات ہے اس بندے ہیں دل کا صاف آدمی اور محبت کرنے والا۔ کانفرنس میں موجود تین پپو بچو میں سے ایک یہ تھا باقی دو تو میں ایک نو وارد نعیم خان جن کا تعلق سوات سے ہے مگر رہتے وہ پشاور میں ہیں!اور دوسرے حسن معراج ڈان نیوز کے “خوب است خوب است” کرتے پائے گئے۔ زھیر چوھان ممکن ہے کئی دوستوں کو شرمیلا لگا ہو مگر یہ بندہ جس انداز میں مجھ سے آکر ملا دل باغ باغ ہو گیا! لگا ہی نہیں کہ پہلے ملاقات ہے یوں لگا جیسے ہم کئی بار مل چلے ہیں! حیرت تو مجھے محمد سعد سے پر ہوئی نیٹ پر جتنی بے تکلفی سے بات کرتا ہے اتنا ہے تعارف کروانے سے اجتناب کرتا محسوس ہوا ابتدا میں۔ بنیادی طور پر یہ بندہ ریکٹ لیٹ کرتا ہے جیسے ربورٹ نہیں کرتے! ویسے “مولبی ربورٹ” کہہ لیں! مجموعی طور پر ایک اچھے اخلاق کا مالک! عباس میاں کے کیا کہنے ایک دن ہی ہمارے ساتھ رہے مگر اپنی شخصیت کا اثر چھوڑ گئے اور جاتے جاتے اپنے دوستوں عبدالستاراور عاطف مرزا کو بھی لے گئے!!! راجہ اکرام یہ مکمل پاکستانی کسی بھی قسم کے خوف اور پریشانی سے پاک نظر آنے والا!! سادہ۔ ساجد امجد ساجد سے مل کر بھی اچھا لگا اور اُن سے ہمیں جو شکایتیں اردو وکیپیڈیا سے تھی یا ہیں بیان کر دیں۔ اس کے علاوہ مذثر لندی کوتل سے، جن کا لندی کوتل سے ہونا دوستو کے چہرے پر پر مسکراہت کی وجہ بنا اور محترم مسرت اللہ جان پشاور سے تھے ایک کھلے دل کے!! اور فرحت عباس شاہ صاحب کے بارے کون نہیں جانتا! خادم اعلی کے لئے نادم اعلی کا اصلاح استعمال کرنے والا کتنا بے باک بندہ ہو گا !مہتاب عزیز بھی اسلام آباد سے آنے والا ایک نہایت اچھا انسان ہے۔
آخر میں محسن صاحب جو اس کانفرنس کے اسپانسر بھی تھے اور میرے آبائی شہر لاہور کے!!
کانفرنس اردو بلاگرز کے لئے مجموعی طور پر اچھی رہی ہے اگر کسی کے اپنے مقاصد ہو تو ہوں مگر اردو بلاگرز کے مفاد میں جو اچھا ہو گا ہم اُسے اچھا کہیں گے! یہ کانفرنس اتنی اہم تھی کہ اس کے مخالف بھی اس میں خود کو اس میں شرکت سے نہ روک سکے! سو باتوں کی ایک بات اردو بلاگر پھر اردو بلاگر ہے جو اہنی دنیا آپ بناتے ہیں وہ اپنی قیمت نہیں لگاتے کیوں کہ وہ جانتے ہیں ہمارے انمول ہونے کی ایک نشانی یہ ہے کہ ہم اردو بلاگر ہیں! کوئی لاکھ کوشش کرے مگر ہم رضیہ نہیں ہیں بلکہ کچھ کے لئے “بلا” ہیں جو سچ کہنے کا “گُر” جانتے ہیں!!
باقی آپ سمجھ دار ہیں !!!
پہلے دن کی کاروائی کی کچھ ویڈیو جھلکیاں یہاں موجود ہیں!

2/23/2012

مداخلت کیسی؟

میاں کیا منہ بنا کر پھر رہے ہوں کیا ہوا؟
“ابے ان امریکیوں کی تو ایسی کی تیسی!”
ابے اب کے کیا ہوا؟ جو ایسی تیسی کرنے کا خیال آیا؟
“دیکھو ذرا تو قرارداد پیش کرتے پھرتے ہیں پاکستان کو توڑنے کی”
اجی کون سے قرارداد پیش کر دی؟
“ابے وہ ہی پاکستان، ایران اور افغانستان میں سے ایک نئی ریاست بنانے کی تاکہ بقول خالق قرارداد کے وہ ریاست یہاں انتہا پسند کے خلاف اُن کی معاون ہو”
تو پھر؟
“تو پھر یہ کہ ہم ایسی کوئی امریکیوں کی حرکت برداشت نہیں کریں گے ہماری حکومت نے بھی ہر سطح پر امریکیوں کو یہ بتا دیا ہے”
(جواب میں زور دار قہقہہ)
“تم یوں کیوں ہنس رہے ہو اس بات پر؟”
بھو لے بادشاہ کس حکومت نے؟ وہ جو ڈراؤن حملے نہیں روک سکی؟ وہ اپنی فوج کے خلاف خود امریکیوں کو خط لکھتی ہے؟ اور وہ جو ہر وقت ہر شعبہ میں امریکی کی امداد وصول کر رہی ہے؟ جو مانگ کر کھاتے ہیں وہ بتاتے ہیں بلکہ بتائی بات پر عمل کرتے ہیں”

2/19/2012

بے تکی باتوں کو چھ سال ہوئے!

19 فروری 2005 کو جب ہم نے “بے طقی باتیں، بے طقے کام” کے نام سے یہ بلاگ بنایا تھا تو ہم نہیں جانتے تھی کہ دراصل یہ بلاگ شے کیا ہے؟ سچی بات ہے یہ ناسمجھی اب بھی قائم ہے۔ ہمارے بلاگ پر پہلا تبصرہ دانیال نے کیا تھا۔

تب سے اب تک چھ سال ہو گئے بلاگنگ کے۔ اب چھ سالوں میں پانچ سو سے اوپر تحریریں لکھی جن پر قریب دو ہزار تبصرے ہوئے جن میں سے ساٹھ کے قریب تبصرے ہم نے سنسر کئے ۔

اکثر دوست اب بھی پوچھتے ہیں کہ بلاگ کا نام بے طقی کیوں ہے وجہ ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں آپ دوبارہ پڑھ لیں اور جس قدر تھوڑی بہت ہمیں انگریزی آتی ہے ہم نے یہ ہی جان پائے ہیں کہ Pensive کا مطلب سنجیدہ و گہری و اُداس سوچ و خیال ہوتا ہے اس مناسبت سے Pensive Man سے مراد ایک فکر میں ڈوبا ہوا فرد ہونا چاہئے۔

اس عرصہ میں ایک بار ہم بلاگ اسپاٹ سے ورڈ پریس کی طرف گئے اور اپنا کافی سارا ڈیٹا ضائع کر کے پھر بلاگ اسپاٹ کی طرف لوٹ آئے اور اب اس ہی کے ہو کر رہ گئے ہیں۔

اس عرصہ میں کئی ساتھی بلاگر نہایت عمدہ انداز تحریر و خیالات کے ہمراہ اردو بلاگنگ کا حصہ بنے اور غائب ہوئے۔ اس ہی سفر کی یادوں پر مشتمل “اردو بلاگرز” سے متعلق سوال جواب کا سلسلہ فیس بک کے اردو بلاگرز گروپ میں شروع کیا گیا ہے کیا بھی اس کھیل میں شریک ہو سکتے ہیں۔

1/14/2012

نشان زدہ

جی جناب عمار کے کھیل میں ہماری شمولیت کی وجہ محترمہ عنیقہ ناز اور محترمہ شاہدہ اکرام کی طرف سے نشان زدہ کرنا تھا۔ افسوس اردو بلاگرز کی اقلیت یعنی خواتین بلاگرز نے تو ہمیں اس کھیل میں شامل کیا مگر کسی مرد بلاگر کو یہ توفیق نہیں ہوئی۔ خیر اب حسب روایت سوالات کے جوابات عرض ہیں۔

سوال نمبر 1- ۲۰۱۲ میں کیا خاص یا نیا کرنا چاہتے ہیں؟
وہ سب کچھ جو گزشتہ سال کرنا چاہتا تھا مگر کچھ حالات و واقعات و مجبوریوں کی بناء پر نہیں کرسکا۔
سوال نمبر 2- ۲۰۱۲ میں کس واقعے کا انتظار ہے؟
ایسا کچھ نہیں جس کا انتظار ہو مگر یہ دعا ضرور ہی کچھ بُرا نہ ہو۔
سوال نمبر 3- ۲۰۱۱ میں کوئی کامیابی ؟
زندگی آگے بڑھ رہی ہے اور جہاں چند خواہشات حسرت کا روپ دھار لیتی ہیں وہاں ہی کئی خواہشات و تمنائیں پوری ہو جاتی ہیں مگر گزشتہ برس ایسی کو کئی کامیابیاں تھی جن پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں مگر یہاں بیان کرنا درست معلوم نہیں ہوتا۔
سوال نمبر 4- سال ۲۰۱۱ کی کوئی ناکامی ؟
جو ہوتا ہے اچھے کے لئے ہوتا ہے اور جو اچھے کے لئے ہو وہ ناکامی نہیں ہوتی۔
سوال نمبر 5- سال ۲۰۱۱ کی کوئی ایسی بات جو بہت دلچسپ اور یادگار ہو؟
ناقابل بیاں
سوال نمبر 6- سال کے شروع میں کیسا محسوس کر رہے ہیں؟
ایک لفظ میں!!! بُرا۔ سال کا آغاز اچھا نہیں رہا پہلے ماہ کے پہلے عشرے میں اوپر نیچے دو تین بُرے واقعات و حادثات سے دوچار ہونا پڑا!
سوال نمبر 7- کوئی چیز یا کام جو ۲۰۱۲ میں سیکھنا چاہتے ہیں؟
“اللہ کی رضا میں راضی ہونا”


تو جی جناب اب ہم کس کس کو اس کھیل میں شامل کریں؟؟ چلیں جناب بلال میاں،محترم شاکر عزیز، محترم عمیر ملک،محترم فہد میاں، عدنان مسعود اور راشد کامران!!!! بات روایت کی ہے اردو بلاگرز کی روایت۔

11/26/2011

مانگ ووٹ کہ تجھے ووٹ ڈالو

اب تو قریب ہر کوئی جان چکا کہ بلاگ ایوارڈ ہو رہے ہیں۔ وہ بھی جو مقابلے میں اُتر چلے اور وہ بھی جو مقابلے سے انکاری ہیں ۔
بلاگ ایوارڈ میں کل 33 زمروں میں 350 بلاگ نامزد ہوئے ہیں۔ بہترین اردو بلاگ میں 16 اور اردو زبان کے بہترین استعمال میں 3 بلاگ۔ اس کے علاوہ 2 اردو بلاگ عمدہ مزاح کے زمرے میں اور ایک اردو بلاگ سیاسی بلاگ کے ذ مرے میں شامل ہے۔ یوں کل 22 اردو بلاگ مقابلے میں شامل 350 بلاگ میں موجود ہیں۔ جو کہ 6 انگریزی بلاگ کے مقابلے میں ایک اردو بلاگ کے بنتی ہے۔ اردو بلاگ کے ووٹ مانگنے کء لئے انگریزی زبان کا بینر دستیاب ہے۔
کچھ ایسے ذمرے تھے جن میں مزید اردو دنیا کا حصہ ہو سکتا تھا جیسے بہترین بلاگ ایگریگیٹر میں اردو سیارہ، ماروائی فیڈ ، اردو بلاگرز اور اردو کے سب رنگ شامل ہو سکتے تھے۔
 اسی طرح چند ایک ساتھی بلاگرز نے مقابلے میں حصہ نہیں لیا جو میرے نزدیک ایک درست رویہ نہیں۔ مقابلے میں شامل ہونے کا مقصد صرف مقابلے میں جیت ہی نہیں ہوتا بلکہ اس سے کہیں ذیادہ اہم یہ ہوتا ہے کہ احباب کو علم ہو ہم بھی میدان میں ہیں۔ جیسے کم از کم تین نئے اردو بلاگ کا علم مجھے اُن کے اس مقابلے میں شمولیت کے بعد معلوم ہوا۔ یہ ہی نہیں کئی عمدہ انگریزی بلاگ بھی ہمارے گوگل ریڈر کی فہرست میں شامل ہو گئے ہیں۔
ہم قریب سب ہی اردو بلاگرز کو میرٹ پر ووٹ دے چکے جو مقابلے میں ہیں۔ مگر اگر بھی بھی کوئی یہ خیال کرے کہ وہ رہ گیا ہو شاید تو ضرور آگاہ کر دے۔ ہم نے انگریزی بلاگ کو بھی ووٹ کیا ہے کیا آپ کی پسند کا بلاگ مقابلے میں ہے؟ اگر ہاں تو ضرور ووٹ مانگے۔
وہ احباب جو مقابلے میں نامزد ہیں ووٹ مانگنے میں شرم محسوس نہ کریں کیونکہ اہل دانش کا کہنا ہے ووٹ مانگنے اور بھیک مانگنے کے اصول و قواعد ایک سے ہے۔ یعنی کہ ہر کسی سے مانگو، ہر وقت مانگو، ہر طرح سے مانگو اور بار بار مانگو۔۔

11/09/2011

دل کی بستی عجیب بستی ہے (اقبال)

دل کی بستی عجیب بستی ہے
لوٹنے والے کو ترستی ہے

ہو قناعت جو زندگی کا اصول
تنگ دستی، فراخ دستی ہے

جنس دل ہے جہاں میں کم یاب
پھر بھی یہ شے غضب کی سستی ہے

ہم فنا ہو کر بھی فنا نہ ہوئے
نیستی اس طرح کی ہستی ہے

آنکھ کو کیا نظر نہیں آتا
ابر کی طرح برستی ہے

شاعر: علامہ اقبال




7/09/2011

اے لڑکی تو روتی ہے؟ دختر کراچی کے نام۔۔۔

اے لڑکی تو روتی ہے؟
کیوں اپنے باپ کو روتی ہے
.
وہ باپ جو سر کا سایہ تھا
جو تم سب کا سرمایہ تھا
قربان ہوا زرداروں پر
عصبیت کے دلالوں پر
.
اے لڑکی تو روتی ہے؟
کیوں اپنے باپ کو روتی ہے
.
جو باپ سراپا شفقت تھا
جو الفت کا ایک پیکر تھا
اب لوٹ کے گھر نہ آئے گا
بس تم سب کو تڑپائے گا
.
اے لڑکی تو روتی ہے؟
کیوں اپنے باپ کو روتی ہے
.
ہاں تیری یہ آہ و فغاں
چلی ہے سوئے آسماں
سارے شہر کے بام و در
انسانیت پہ نوحہ خواں
.
اے لڑکی تو روتی ہے؟
کیوں اپنے باپ کو روتی ہے
.
یہ سسکیاں، یہ ہچکیاں
کیسے سنیں صاحب صدر
سب ساتھ ہیں قاتل انہی کے
کیسے ہو انصاف ادھر؟
.
اے لڑکی تو روتی ہے؟
کیوں اپنے باپ کو روتی ہے
.
ذرداری، الطاف و اسفندیار ہیں
خون ناحق پہ سبھی تیار ہیں
ان سے ناطہ توڑ لو، لوگو سنو
ورنہ یونہی خوف و دہشت میں جیو
.
اے لڑکی تو روتی ہے؟
کیوں اپنے باپ کو روتی ہے


وقاراعظم (اردو بلاگر و شاعر

5/01/2011

اردو پر خُودکش حملہ

اردو برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کی ایک نمایاں پہچان رہی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد اسے ہر آئین میں قومی زبان قرار دیا گیا۔ لیکن اسے وقتا فوقتا پرایوں اور اپنے "محسنوں" کے حملوں کا سامنا کرنا پڑتا رہا۔ تقسیم سے قبل پرائے اور اسکے بعد اپنے اس پر حملہ آور ہوتے رہے۔ اب صوبہ پنجاب کی حکومت نے اس پر حملہ کر دیا ہے۔ قدرے تفصیل میں جانے سے قبل قارئین کرام کو گزشتہ حملوں کی جھلکیاں دکھانا دلچسپ امر ہو گا۔
اردو 1849ء میں سکھ دور کے اختتام پر صوبہ پنجاب کے سرکاری دفاتر اور عدالتوں میں رائج کی گئی۔ اس پر پہلا حملہ 1862 میں ہوا۔ اردو کے خلاف ایک زوردار مہم چلائی گئی اور صوبہ بدر کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ چنانچہ پنجان کے گورنر سر رابرٹ منٹگمری نے انگریز کمشنروں اور ڈپٹی کمشنروں کا اجلاس طلب کر کے آراء حاصل کیں۔ اکثر شرکاء نے اردو کے حق میں تقاریر کیں اور یہ حملہ ناکام ہو گیا۔ نتیجا اردو سرکاری زبان رہی اس سخت جاں زبان پر دوسرا حملہ 1882ء میں کیا گیا۔اردو کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کیلئے ہنٹر تعلیمی کمیشن قائم ہوا۔ ایک سوالنامہ جاری ہوا اور بظاہر پنجاب سے اس کی بے دخلی کے واضح اشارے ملنے لگے۔ اگرچہ عوامی سطح پر اس حوالے سخت بے چینی پائی جاتی تھی لیکن وہ بیچارے تو روزاول سے مجبور ہی رہے ہیں۔ کوش قسمتی سے سرسید اس کمیشن کے رکن تھے۔ مسلمانوں کو انگریزی پڑھنے کی تقلین کرنےوالے یہ مبلغ اردو سے بھی بے پناہ محبت کرتے تھے چنانچہ انہوں نے اس حملے کو بھی بڑے ٹیکنیکل طریقے سے ناکام بنا دیا۔ تیسرا حملہ 1908ء میں ہوا جب ڈاکٹر بی سی چڑجی نے پنجاب یونیورسٹی کے جلسہ اسناد مین خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "پنجاب میں اردو کی جگہ پنجابی رائج کی جائے" مسلمانان پنجاب نے اس پر شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ چنانچہآل اندیا مسلم ایجوکیشن کانفرنس کا پنگامی اجلاس بلایا گیا جس میں علامہ اقبال، سر شیخ عبدالقادر، سر محمد شفیع، مولانا شاہ سلیمان پھلواری، سرامام علی اور مولوی محبوب عالم ایڈیٹر "پیسہ اخبار" اور دیگر مسلم زعماء شریک ہوئے۔ چنانچہ اردو حمایت میں ایک زبردست قرارداد منظور کی گئی اور ساتھ ہی چیٹر جی کی تجویز سے سخت اکتلاف بھی ریکارڈ کیا گیا۔ اس طرح تقسیم ہند سے پہلے یہ تیسرا اور آخری حملہ بھی ناکام ہوا۔
قیام پاکستان کے بعد بنگال میں اردو کے خلاف آواز اُٹھائی گئی جسکے نتیجہ میں قائداعظم مرحوم بنفس نفیس وہاں تشریف لے اور ڈھاکہ میں دو ٹوک الفاط میں اعلان کیا کہ اردو اور صرف اردو ہی پاکستان کی قومی زبان ہو گی۔ اگرچہ جب سے اب تک یہ انگریز کے ذہنی غلاموں کے چرکے مسلسل سہتی رہی لیکنایوبی دور میں اس کے رسم الخط کو عربی کے بجائے سرے سے رعمن مین تبدیل کرنے کے عزائم کا اظہار کیا جانے لگا۔ اپس بار بابائے اردو مولوی عبدالحق، ڈاکٹر سید عبداللہ، مولانا صلاح الدین و دیگر نامور اردو نے اسکا بے مثال طریقے سے دفاع کیا اور اب کی بار بھی یہ خطرہ ٹل گیا جبکہ ان زعماء کے بعد احمد خان (ملیگ) مرحوم، صدر تحریک نّاذ اردو نے اپنی بساط کے مطابق قومی زبان کی حمایت کا علم بلند کئے رکھا۔ ان کی وفات کے بعد اردو "دشمنوں" کیلئے عملا میدان صاف ہو گیا۔
خودکش حملہ آوروں کے متعلق اب تک جو معلومات ملی ہیں ان کے مطابق مسلمان نوجوان کو دنیا میں ہی جنت کی نعمتوں اور حوروں بہشت کے حسن دلفریب کی جھلکیاں دکھائی جاتی ہیں اور اس بات پر آمادہ کر لیا جاتا ہے کہ "اپنی جان کو دھماکہ مین اڑا کر ابدی جنت حاصل کو لو۔ اس عارضی زندگی و ناپئدار دنیا کو خیر باد کہو، اپنے ہم وطنوں کو خاک و کون مین لوٹاؤ اور ابدی زندگی کی خوشحالیوں سے متمتع ہو جاؤ"۔ بد قسمتی سے کچھ ایسی ہی صورت حال پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب مین آئینی تحفظ رکھنے والی اور قائد اور علامہ کی محبوب زبان اردو کے حوالے سے پیش آ گئی ہے۔ حکومت پنجاب کو اسکے مشیر حضرات نے اردو ذریعہ تعلیم کو اسکولوں سے بے دخل کر کے "انگلش میڈیم" کے نفاذ کے تحت ترقی اور خوشحالی کی جنت کا یقین دلایا ہے، لہذا خادم اعلی پنجاب برصغیر میں مسلم رہنماؤں کی اردو کیلئے دو توک حمایت اور جدوجہد کو ایک طرف رکھ کر پنجاب کو "جنت ارضی" بنانے پر تلے ہوں۔ یوں لگتا ہے کہ ان کے کیال مین متذکرہ قائدین اور پاکستان کے تمام آئین بنانے والے دور جدید کے تقاضوں اور انگریزی کی اہمیت سے قطعا نا بلد تھے جبکہ حکومت پنجاب جو جنت حاسل کرنا چاہتی ہے بلاشبہ اس کی ترقی اور خوشحالی کے بجائے ناخواندگی اور جہالت کے فوارے تو ضرور ہی پھوٹ رہے ہو گے کیونکہ ایک محتاط اندزے کے مطابق 1943ء سے اس وقت تک چالیس لاکھ نوجوانوں کو صرف اس لئے جہالت کے غاروں میں دھکیل دیا گیا کہ وہ دسویں جماعت میں انگریزی (بطور مضمون) پاس نہیں کر سکے۔ اس طرح بی اے ، بی ایس سی کے حالیہ نتائج کے مطابق 78 فیصد ناکام ہوئے جن میں بہت بری اکثریت انگریزی میں فیل ہونے والوں کی ہے اور کم و بیش ہر سال ذہانت کا یوں قتل عام ہو رہا ہے۔ ایسا آخر کیوں نہ ہو؟ ہمارے ارباب اقتدار انگلش دیوی کے چرنوں میں اپنے نوجوانوں کی ذہانتوں کا خون یوں پیش نی کریں تو وفاداری کا اور کیا ثبوت پیش کریں؟ لیکن ہم تو ان سے مخلصانہ گذارش کرین گے کہ اردو پر رحم فرمائیں اور قومی تشخص کے اثاثے کو تباہ نہ ہونے دیں۔

تحریر: ڈاکٹر محمد شریف نظامی

3/22/2011

ضروری وضاحت۔۔۔۔ایک بار پھر

یہ اب کوئی راز نہیں کہ اردو بلاگرز کے تحریروں پر چند نامعلوم تبصرہ نگار اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں، جن میں سے کئی تبصرہ اخلاقی میعار کت اعتبار سے پست ہوتے ہیں وہاں چند ایک تبصرہ تحریر کی مناسبت سے عمدہ ہوتے ہیں جن کو وہاں رہنا چاہئے مگر چونکہ میرے بلاگ میں پالیسی ہے کہ نامعلوم یا ایسے نام سے موجود تبصرہ جس سے تبصرہ نگار کی پہچان نکلی معلوم ہو کو مٹا دیا جائے گا خواہ بات کتنی ہی عمدہ کیوں نہ ہو۔ لہذا آئندہ تبصرہ نگار اپنا نام ضرور ظاہر کرے یہ بات ایک مرتبہ پھر اس لئے دوبارہ بیان کرنی پڑی کہ دو دنوں میں چند تبصرہ مٹانے پڑے۔
بدتہذیب تبصرہ تو مٹا ہی دیئے جائے گے ہاں اختلافی رائے کو جو تہذیب کی قدروں کے اندر ہو کو چھیڑا بھی نہیں جائے گا۔
شکریہ:

2/25/2011

ٹی بریک!! ایک تعارف۔۔۔ایک پلیٹ فارم

میرے عزیز(اردو) بلاگرز؛ آج سے ٣ برس پہلے جب ٹی بریک نے انٹرنیٹ کی دنیا میں آنکھ کھولی تو ہمارے سامنے ٢ آزمائشیں تھیں: ایک پاکستانی بلاگز کی دنیا تک رسائی اور دوسرا معیاری مواد کو فروغ دینا. ان چند سالوں میں ہم نے کئ سنگ میل عبور کیے؛ لیکن معیاری مواد آج بھی ہماری اور پڑھنے والوں کی اولین ترجیح ہے. ٹی بریک کو پاکستان کے سب سے بڑے بلاگنگ نیٹ ورک ہونے کا اعزاز حاصل ہے.١٦٠٠ سے زائد registered بلاگزمیں پاکستان کے کئی مشہور بلاگرز بھی شامل ہیں جو انگریزی پڑھنے والوں میں بہت شہرت رکھتے ہیں. ان بلاگز کو نہ صرف پاکستان بلکہ کئی مغربی ممالک میں بھی بہت ذوق و شوق سے پڑھا جاتا ہے. جو انکے معیار کا منہ بولتا ثبوت ہے. ان بلاگز نے اپنا سفر ٹی بریک کے ساتھ شروع کیا اور آج بھی ٹی بریک کے ساتھ منسلک ہیں. ان چند سالوں میں کئی اردو بلاگرز سے ملاقات کا شرف ہوا اور ان کے خیالات اور تحریر نے مجھ کو بہت متاثر کیا. لیکن جب بھی تحقیق کے لئے google کی مدد لی تو انگریزی مواد نے اردو مواد پر سبقت لے لی. اسکے پیچھے کئی تکنیکی عوامل کارفرماں ہیں. لیکن عمدہ معیار کے باوجود اردو بلاگز آج وہ حیثیت یا عوامی پذیرائی نہیں رکھتے جو انکو ملنی چاہیے اور اسکا سب سے بڑی وجہ انٹرنیٹ visibility ہے.

ٹی بریک اس بلاگ پوسٹ کے توسط سے تمام اردو پڑھنے اور لکھنے والوں کو دعوت دیتی ہے کہ وہ ٹی بریک میں شامل ہوں اور اردو پڑھنے والوں تک اپنی آواز پہنچایں اور انگریزی بلاگرز کے ساتھ برابری کی سطح پر قدم ملا کر چلیں. اس سے نہ صرف اردو کو ترقی ملے گی ; اردو پڑھنے والوں کو معیاری مواد ملےگا، بلکہ اردو لکھنے والے نوجوان طبقے کو پذیرائی بھی ملے گی جو شہرت کے حصول کے لئے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے. میں اس موقعے پر اپنی بات ختم کرتا ہوں اور آپکی گزارشات اور تجاویز کے لئے اس فورم پر دعوت دیتا ہو. آپ ٹی بریک میں اپنے بلاگز register کروائیں اوراردو کی ترقی کے لئے اپنی تجاویز سے آگاہ کریں.!

یہ عمار یاسر کی تحریر ہے! ان کا اول ذکر/تعارف اردو بلاگرز عمار ضیاء کی اس تحریر میں پڑھ چکے ہیں! محترم ٹی بریک کے Co-Founder ہیںاور  ایک عمدہ شخصیت کے مالک۔

 اس تحریر کا بنیادی مقصد اردو بلاگرز کی ترویج ہے گو کہ اس سے قبل بھی اردو بلاگرز کو اپنے چند ایک اعلی پلیٹ فارم میسر ہیں

1/10/2011

دو قصے

پرسوں اپنے کامیاب گورنری کے لئے دیئے گئے انٹرویو کے بعد جب پیپلزلائر فورم کے چیرمین کراچی کے پیپلز پارٹی کے وکلاء کے ساتھ وقت گزار رہے تھے تو ایک شریک محفل کے اس جملے پر کہ "بھائی ان کے ساتھ ابھی جس نے کوئی تصویر بنانی ہو یا وعدہ لینا ہو لے لےورنہ بعد میں کیا معلوم ملاقات ہو بھی یا نہیں؟" تو جواب میں اُن حضرت نے یہ قصہ سنایا!
ایک سابقہ گورنر پنجاب گورنری ملنے سے قبل اپنے ایک دوست کے ہمراہ اکثر شکار کو جاتے تھے اپنے کا وہ دوست جانوروں کی اوازیں نکالنے کا ماہر تھا! جب وہ صاحب گورنر بنے تو جناب کے دوست اُن سے ملنے گورنر ہاؤس پہنچے تو سیکورٹی والوں نے انہیں اندر داخل نہ ہونے دیا جواب میں اُس دوست نے باہر ہی کھڑے ہو کر جانوروں کی آوازیں نکالنا شروع کر دی تو کھر صاحب نے کہا بھائی اس بندے کو اندر انے دوں!! لہذا آپ لوگ بھی وکیل ہو تحریک میں نعرے لگانے کی پریکٹس ہو گئی ہے شروع ہو جانا!! پھر کون روک سکے گا آپ کو داخلے سے؟
اس کے علاوہ ایک اور نہایت دلچسپ و (بتانے والے کے بقول) سچا قصہ یوں ہے!
ہمارے ملک کے ایک صوبے کے وزیراعلی جن کے متعلق اہل خبر جانتے ہیں کہ وہ مخصوص نشے کے شوقین ہیں، اُس ہی نشے میں مدہوش اپنے پہلے اسلام آباد کے دورے سے واپسی پر اپنے صوبے میں لوٹے تو سرکاری گاڑی میں بیٹھ کر وزیراعلی ہاؤس کی جانب روانہ ہوئے! ہوئے پروٹوکول کی گاڑیوں نے ہارن/سائرن بجایا، گھبرا کر اپنے ڈرائیور سے مخاطب ہوئے!
“ابے! گاڑی تیز چلا، لگتا ہے اپنے پیچھے پولیس لگ گئی ہے"
ڈرائیور نے عرض کیا جناب پولیس پیچھے نہیں لگی آپ اس صوبے کء وزیراعلی ہو یہ آپ کے پروٹوکول کی گاڑیاں ہیں! آپ کی حفاظت ہر مامور ہیں تو انہیں اطمینان ہو!!!
کمال ہے ناں!!!