عید تو بچوں کی ہوتی ہے جب بچے تھے تو بڑوں کی زبانی یہ جملہ سن کر خیال آتا کیسے ہیں یہ ہمارے بڑے ہیں اپنی مرضی کر سکتے ہیں جیب میں پیسے ہیں جو چاہے کھائیں جیسا دل کرے ویسے کپڑے بنوائیں پھر بھی کہتے ہیں کہ عید ہماری ہے ان کی نہیں! عجیب لگتی تھی ان کی بات۔ اب ہم بچے نہیں رہے بڑے ہو گئے ہیں، کسی حد تک صاحب اختیار بھی ہیں اور جان گئے ہیں اس وقت کے بڑے ٹھیک کہتے تھے سچے تھے اب ہم بھی یہ ہی کہتے ہیں “عید تو بچوں کی ہوتی ہے “۔
جان گئے ہیں جو صاحب اختیار نظر آتے ہیں ان سے ذیادہ بے اختیار شاید ہی کوئی ہو جب ان کی خوشی دوسروں سے جڑ ی ہوئی ہوتی ہے۔ ذمہ دارویوں کا احساس من مانی کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہوتا ہے۔جان گئے ہیں ہم بچپن میں جن (والدین) کی اجازت کے طلب گار ہوتے تھے وہ دراصل ہماری خوشی کے آگے اپنی مرضیوں و خواہشوں کا گلا دبا دیتے تھے ۔ ہمارے نئے کپڑوں و جوتوں کے لئے اپنے پرانے جوڑوں کو استری کر کے عید والے دن زیب تن کرتے تھے۔ ہماری زندگی کی آسانی ان کی دشوار زندگی کا نتیجہ ہوتی تھی۔ تب نہ علم تھا نہ احساس! اب معلوم ہے مگر طاقت اب بھی اتنی نہیں کہ ان آسانیوں کا صلہ دے سکیں اُن دنوں کا بدل دے سکیں۔
ہماری میٹھی عید بھی ان کی عید قربان ہی ہوتی تھی۔ عید خوشی ہے ، خوشی احساس کا نام ہے اورعمر کی گنتی کے ساتھ اب احساس بدل گیا ہے یہ عید یقین بچپن کی عید سے مختلف ہے پہلے دوستوں و کزنوں کے ساتھ قہقہہ لگانا، ملنے والی رقم جو عیدی کہلاتی ہے اسے اپنی ذات پر خرچ کرنا اچھا لگتا ہے اب دعا ہے جنہوں نے میری عیدوں کو اپنی خوشیاں جانا اللہ توفیق دے ہے آنے والے دن میں اُن کی خوشیوں کا سبب و وسیلا بنو۔
آپ سب کو عید مبارک، اپنی خوشیوں میں انہیں یاد رکھیں جن کی خوشیاں آپ سے منسلک رہی ہے یا ہیں ۔ جانے انجانے میں انہیں دکھ یا تکلیف دینے سے اجتناب کریں یہ دکھ و تکلیف آپ کے ان سے رویے تک ہی محدود نہیں آپ کے ممکنہ دیگر دنیاوی معاملات سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔
وہ عیدیں جو گزر چکی اب میسر نہیں !مگر آنے والی عیدیں ممکن ہیں گزشتہ عیدوں سے بہتر ہوں، جنہیں بہتر بھی ہم ہی بنا سکتے ہیں۔خوش رہیں۔
7/05/2016
گزری عیدیں!!
6/28/2015
چڑی روزے سے روزے تک
اب ہم بڑے ہیں اور بڑوں میں شمار ہوتے ہیں ایک وقت تھا کہ ہم چڑی کی سی جان ہوتے تھے. دین و دنیا دونوں کی سمجھ نہ تھی. یوں تو دین و دنیا کے بارے میں اب بھی جاہل ہیں مگر بچپن میں تو ہم ان کی فکر سے مکمل آزاد تھے. والد صاحب کے ساتھ بس جمعہ والے دن مسجد و مولوی کا دیدار ہوتا تھا باقی سارا ہفتہ گھر پر ہی اللہ اللہ ہوتی جس میں ڈنڈی مارنا ہمارا روزانہ کا معمول ہوتا بلکہ روزانہ ایک دو بار ڈنڈی مارنا معمول ہوتا.
یہ انسانی فطرت ہے کہ جس کام کا کہا جائے اس جانب راغب بے شک نہ ہو مگر جس سے روکا جائے اس طرف کھچاؤ محسوس ہوتا ہے. ایسی ہی کشش روزے کی جانب تھی. مجھے اپنی عمر، دن، مہینہ یاد نہیں بس سردیوں کا موسم، سحری کا وقت، لحاف میں لیٹا ہونا اور کچن میں والدہ کا سحری تیار کرنا یاد ہے. والدین ہمیں روزہ کے لئے نہیں اٹھاتے تھے اور ہم بس وہی بستر پر لیٹے لیٹے قیاس کرتے اب پراٹھا پک رہا ہے ان کھا رہے ہیں اب اذان ہو گئی. سامان سمیٹنا جا رہا ہے، اب تلاوت قرآن و نماز پڑھنے لگ گئے ہیں پھر کب دوبارہ آنکھ لگتی ہمیں علم نہیں. کئی بار نہانے سے پانی پینے یا کوئی اور وجہ بنا کر اٹھے کہ شاید ہمیں روزہ رکھوا لیں مگر ناکام رہے.
نماز دین کا ستون ہے
امی سے روزہ رکھنے کی فرمائش کا اظہار کرتے تو کہتی کہ ابھی چھوٹے ہو بڑے ہو کر رکھنا. پھر ایک رمضان میں شرط عائد ہوئی نمازیں پوری پڑھو تو روزہ رکھوایا جائے گا. "من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن سکا" روزہ دار بنے کی خواہش کے باوجود ہم چند نمازوں میں ڈنڈی مار گئے. تب جمعہ کی چھٹی ہوتی تھی ایک جمعرات کو آگاہ کیا گیا کہ کل آپ روزہ رکھیں گے مگر مکمل نہیں چڑی روزہ.
چڑی روزہ ہم سے پہلے محلے کا ایک دوست رکھ چکا تھا لہذا ہمیں علم تھا کہ دوپہر کے وقت "روزہ کشائی" ہو جاتی ہے لہذا ہم نے احتجاج کیا نہیں پورا روزہ رکھنا ہے چڑی روزہ نہیں رکھنا تب ہمیں باور کرایا گیا کہ پورا روزہ رکھنے کو پوری نمازیں پڑھوں. ہمیں والدہ کی "چالاکی" پر بڑا غصہ آیا مگر کیا کرتے، دل میں یہ سوچ کر خاموشی اختیار کی کہ ہم نے نمازوں میں ڈنڈی ماری ہے تو بدلے میں والدہ ہمارے روزے میں ڈنڈی مار گئی ہیں.
سحری میں روزہ رکھنے کو اٹھے تو ناشتے والے لوازمات کے علاوہ میٹھی لسی ایک زائد ایٹم تھا. سحری کی اس کے بعد نماز فجر ادا کی (یہ ہماری پہلی فجر کی نماز تھی جو وقت پر پڑھی تھی). پھر سو گئے اسکول کی چھٹی تھی. دس بجے اٹھے پھر کب ایک بجا معلوم ہی نہیں ہوا بس روزہ کھلوا دیا گیا. یعنی دوپہر کا کھانا، جس کے بعد والد کے ہمراہ جمعہ پڑھنے چلے گئے. اگلے دو جمعہ بھی ایسے ہی چڑی روزے رکھوائے گئے . آخری والے جمعہ کو والدین ہمیں مکمل روزہ رکھوانے پر تیار ہو گئے تھے اور بات وفا ہوئی.
کب روزہ کھلے گا؟
جمعہ کے بعد سہ پہر تک تو معاملات ٹھیک رہے مگر شام چار بجے پیاس شدت سے لگنا شروع ہو گئی. پانچ بجے کھیلنے جانے کی ہمت بھی نہ تھی لہذا نہیں گئے. امی کے ڈر سے نماز عصر پڑھی وہ بھی صرف فرض. جہاں دسترخوان لگاتے ہیں ہم وہاں ہی لیٹے ہوئے تھے ابو نے ایک دو بار پوچھا روزہ لگ رہا ہے ہم نے جھوٹ بولا کہ نہیں. ہم نہیں ہماری حالت سب بعید کھول رہی تھی. امی ابو عموماً افطاری کا کوئی خاص اہتمام نہیں کیا کرتے تھے بس اتنا کہ عشاء کے بجائے مغرب کے وقت رات کا کھانا کھا لیا جاتا اور ایک سردائی(سندھی زبان میں تھادل) کا شربت اضافی ہوتا اور عشاء کے وقت موسمی فروٹ کھایا جاتا . مگر ہمارے پہلے روزے پر بیکری کے کافی سارے لوازمات و فروٹ وغیرہ دسترخوان کا حصہ تھے. خدا خدا کر کے اذان ہوئی مگر لقمہ لینے سے پہلے ہم روزہ کھولنے کی یاد کی ہوئی دعا ہی بھول گئے. اب ہاتھ میں کھجور پڑے امی کی جانب دیکھنے لگے. پوچھنے پر بتایا دعا بھول گیا ہو جو پڑھ کر روزہ کھولنا ہے. مسکرا پر دعا بتانے لگی ابھی " ﻟَﻚَ ﺻُﻤْﺖُ" پر پہنچی تو ہمیں دعا یاد آ گئی ہم نے تیزی سے دعا پڑھی اور پھر کھجور منہ میں ڈالی اور پانی پینے لگے. مغرب کی نماز میں ڈنڈی مار گئے.
اگلے سال رمضان المبارک میں ہر جمعہ کو روزہ رکھوایا گیا ساتھ میں آخری عشرے کے چند طاق کے روزے رکھوائے گئے. جس دن ہمارا روزہ ہوتا تب روزہ کشائی پر لوازمات کی تعداد ذیادہ ہوتی. آہستہ آہستہ ہر گزرتے سال کے ساتھ ہم مکمل روزہ دار ہو گئے مگر نمازی نہ ہو سکے. بچپن میں کئی بار ایسا بھی ہوا کہ ہم یہ بھول جاتے کہ ہمارا روزہ ہے اسکول میں دوست سے لے کر کچھ کھا لیا تب یا تو کھاتے وقت یاد آتا کہ اوہ ہمارا تو روزہ ہے یا کھا پی کر کافی دیر بعد یاد آتا. ایک بار تو ایک دوست نے اس ہی بھول کر کھانے کی حرکت کی وجہ سے ہمارے روزہ دار ہونے کو جھوٹ قرار دیا تب پہلے تو ہم اس سے لڑ پڑے اور بے نتیجہ لڑائی کے بعد رو پڑے کہ ہمارا روزہ ہے یہ مانا جائے اب اس وقت کو یاد کرکے مسکرا جاتے ہیں.
جب وقت افطاری آیا نہ کوئی بندہ رہا نہ بندے کا پتر
روزے کے دوران ہماری غائب دماغی کے کئی قصے ہیں جو اب فیملی میں ہمیں تنگ کرنے کو مکمل تو نہیں دہرائے جاتے بس پنچ لائن کہہ دی جاتی ہے وجہ یہ کہ قصے ازبر ہوچکے سب کو، مثلاً ایک بار ہم گھر میں ہی بہنوں کے ساتھ کرکٹ کھیل رہے تھے تو دوران کھیل گیند کچن کی طرف گئی ہم گیند پکڑ کر کچن میں داخل ہوئے امی پکوڑے بنا رہی تھیں ہم نے سوال کیا "روزہ کھلنے میں کتنا وقت ہے؟" جواب آیا بیس منٹ ہیں. ہم نے کہا ٹھیک ہے چلیں پھر ایک پکوڑا ہی دے دیں. اب بھی اکثر "ایک پکوڑا ہی دے دیں" کہہ کر ہمیں تنگ کیا جاتا ہے.
بلوغت کے بعد ایک بار ایسا ہوا کہ ہم رمضان المبارک کے نصف روزے رکھنے سے محروم ہوئے وجہ لقوے کا حملہ تھا میں آج بھی یہ سمجھتا ہوں کہ اگر رمضان المبارک کے علاوہ کوئی اور مہینہ ہوتا تو شاید میں اس بیماری کی زد آ چکا ہوتا اور آج کسی سے سیدھے منہ بات نہ کر رہا ہوتا . ہوا یوں کہ سحری کے بعد وضو کے دوران کرولی کرتے ہمیں احساس ہوا کہ سیدھی طرف ہونٹوں کی گرپ کچھ کمزور ہے لہٰذا اسی دن دس بجے ڈاکٹر سے رجوع کیا جس نے آدھ گھنٹے کے معینہ کے بعد بتایا کہ اس قدر ابتدائی اسٹیج پر آج تک میرے پاس کوئی مریض نہیں آیا. یوں علاج ہوا اور ہم بچ گئے.
یہ پہلا رمضان ہے جب ہم گھر یا گھر والوں سے دور ہیں. اب سحری میں ماں کی آواز نہیں جگاتی بلکہ خود اُٹھ کر باورچی کو یا تو اٹھانا پڑتا ہے یا اطمینان کرنا کہ وہ اٹھ گیا ہے. اب جو ملے اس سے سحری و افطاری کرنی پڑتی ہے نخرے و فرمائشوں کو پورا کرنے والی ماں تو گھر پر ہے باورچی کہہ دیتا ہے صاحب پہلے بتانا تھا اب تو یہ ہی ہے. وقت وقت کی بات ہے جی. نماز میں سستی اب بھی ہے روزے میں لگن پہلی سی نہیں رہی. اللہ ہی ہے جو ہماری اس بھوک و پیاس کو روزے کا درجہ دے بڑے کھوٹے اعمال ہیں.
اردو بلاگرز میں سات آٹھ سال پہلے ایک روایت تھی کہ کسی خاص تہوار یا ایونٹ کی تحریر لکھنے کے بعد دوسرے ک ٹیگ کرتے تھے کہ وہ بھی اس بارے میں لکھیں اس ہی امید پر ہم درج ذیل بلاگرز کو ٹیگ کر رہے ہیں (بلاگرز تو بہت ہے مگر ہم پانچ کو ٹیگ کر رہے ہیں) وہ بھی تحریر لکھ کر مزید پانچ پانچ بلاگرز کو ٹیگ کر لیں.
انکل اجمل
محمد رمضان رفیق
کوثر بیگ
یاسر خوامخواہ جاپانی
نعیم خان
نوٹ : اردو بلاگرز نے اپنے اپنے پہلے روزے کی یادوں کو تحریر کیا جو تمام کی تمام تحریریں منطرنامہ پر جمع کی گئی ہیں یہاں دیکھی جا سکتی ہیں.
9/22/2014
بے ربط باتیں
اگر صوفیوں نے اللہ کی محبت کو بیان کرنے کے لئے دنیا کی محبت کے قصوں کو مثال بنا کر پیش کیا تو اسے بنیاد بنا کراہل دانش کو ہر اپنی نسل کو یہ باور کروانے کی سہی نہیں کرنی چاہئے کہ جنس مخالف کی کشش دراصل محبت کی ایک شکل ہے اور محبت کی شدت عشق کا وہ مقام ہے جس میں ملن نہ ہو تو بندہ ولی کے درجے تک پہنچ جاتا ہے۔
عشق مجازی کو عشق حقیقی کا راستہ بتانے والے ایک ایسی کنفیوز جنریشن کی وجہ بن سکتے ہیں جو محبت، عشق اور ہوس میں فرق کرنے سے قاصر ہو۔
(کافی دنوں سے یہ نامکمل تحریر پڑی ہوئی ہے شاید نامکمل ہے رہے اس لئے ایسے ہی بلاگ پر ڈال دی)
2/14/2010
یہ بھی مغرب کی سازش ہے؟
نوجوان شادی شدہ جوڑے بہتر ہو گا احتیاط کے طور پر اپنے ساتھ نکاح نامہ رکھ لیں نہیں تو امکان ہے کہ یوم حیا والے اپنے آج کے "منشور" پر عمل کرنے میں جلد بازی کا مظاہرہ کر لیں ، لہذا نکاح نامے یا نکاحی رشتہ کے غیر موجودگی میں "کزن ہے کزن ہے" کی رٹا لگانے کی مشق کر لیں ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔ خالی خودپُرلیں اندازہ تو ہو گا آپ کو، اس کے علاوہ جیب میں چند پیسے پارک کے چوکیدار و ریسٹورنٹ کے ویٹرکے علاوہ قانون کے "محافظوں" کے لئے بھی رکھ لیں کہ ضرورت پڑ سکتی ہے۔
ایک تو یہ دن آیا بھی چھٹی والے دن ہے یار لوگوں کے لئے تو مسئلہ نہیں مگر "قوموں کی عزت جن سے ہے" اُن کے لئے کارگر بہانے کی تلاش دشوار ہو گئی ہے۔ اس سلسلے میں انجمن عاشقین نے کوئی دس دن پہلے ہی ممکنہ بہانوں کی ایک فہرست بذریعہ ایس ایم ایس انجمن کے اراکین و ہمدردوں تک پہنچا دی تھی۔
اب آتے ہیں سنجیدہ بات کی طرف ہم بعض مرتبہ ضرورت سے زیادہ رد عمل دیکھاتے ہیں یا یوں کہہ لیں درست طریقے سے ردعمل نہیں کرتے بات کو لوجیکل طریقے سے کرنے بجائے جذباتی انداز میں پیش کرتے ہیں، ہر معاملہ کو بلاوجہ مغربی سازش قرار دے دیتے ہیں یہ بات سمجھ سے قاصر ہے کہ وہ اپنے تہواروں کو کسی بھی سازش کے تحت کیوں کر متعارف کروائے گے؟، بے شک محبت ایک اچھا جذبہ ہے مگر یہ انداز محبت ہمارا نہیں یہ بات ہمیں سمجھنے و سمجھانے کی ضرورت ہے۔ کورٹ میں کورٹ میرج کے لئے آنے والے جوڑوں میں نہ نہ کرتے ساٹھ فیصد وہ افراد ہوتے ہیں جو اپنی "بھول" کو نکاح کا شیڈ دینا چاہتے ہیں۔ میڈیا کو احتیاط کرنا تو چاہئے ہی کیونکہ کم عمر بچے ٹی وی پروگرام دیکھنے کے بعد اس طرح کے سوالات کے ساتھ وارد ہوتے ہیں کہ جواب دینا مشکل ہو جاتا ہے۔ نا پختہ ذہن صحیح و غلط کا فیصلہ کرنے میں ناکام رہتے ہی اور برائی میں بہت کشش ہے۔
اگر ہمارا معاشرہ جس میں کسی دور میں میاں بیوی خاندان کے بزرگوں کی موجودگی میں ایک چارپائی پر بیٹھنے تک سےاحتیاط کرتے تھے اور نوبیہاتے جوڑے آپسی گفتگو سے، اور بزرگ آج بھی ان باتوں کو بتاتے ہوئے خوبیوں میں گنتے ہیں، اگر آج اُس سطح پر پہنچ گیا ہے جہاں نوجوان لڑکی لڑکے تعلق کو جائز سمجھنےکی روایت پڑ چکی ہے تو آپ ایسے دنوں کو نہ منانے کا کوئی جواز پیش کر دیں رد سمجھا جائے گا جو اپنی ثقافت و روایات اور دینی معاملات کوجان کر بھی ایسے دنوں کے حامی ہیں وہ کسی دلیل سے ماننے والے نہیں۔ ہاں آپ اُن کی نظر میں قدامت پسند، تنگ نظر،مذہبی اور جاہل وغیرہ ضرور مانے جائے گے۔
ایک سوال آخر یوم محبت پر ایسا کیا ہوتا ہے کہ یار لوگ ٹھیک نو ماہ بعد بچوں کا دن مناتے ہیں؟
1/09/2010
یادش بخیر
ماضی کی یاد نے آ پکڑا ہے، ماضی اتنا خوبصورت کی لگتا ہے، تب کی تلخ یادیں بھی میٹھے درد کی طرح ہوتی ہے، جن سے لذت کی ٹیسیں اُٹھتی ہیں۔ وہ اسکول کے دن! زمانہ کتنا بدل گیا ہے۔ چند لمحوں میں ماضی کی مکمل ڈی وی ڈی (کیسٹ کا زمانہ تو گیا ناں) آنکھوں کے سامنے چل جاتی ہے، سالوں کے واقعات سیکنڈوں میں مکمل جزیات کے ساتھ پردہ اسکرین پر نمودار ہو جاتے ہیں! کیا بات ہے۔
چلیں میں آپ سے دو مختلف اپنے واقعات شیئر کرتے ہیں، جن کا بہت خاص تعلق ہمارے آج سے ہے! اول چوری و پہلی گالی کا!
ہم نے پہلی چوری اپنے گھر میں کی تھی! جو آخری ثابت ہوئی۔ معاملہ یہ تھا ہمیں جیب خرچ میں آٹھ آنے ملتے تھے روزانہ یہ تب کی بات ہے جب ہم پانچویں یا چھٹی میں تھے۔ اسکول میں وہ میٹھے بال وہ جو رنگ برنگ ہوتا ہے نہ معلوم کیا نام ہے اُس کا؟ (کیا کوئی بتائے گا) ہم اُسے بابے بڈھے کا بال کہا کرتے تھے! وہ ایک روپے کا ملتا تھا۔ ہم کچھ دن سوچتے کہ رہے کہ کل لے کر کھاؤ گا پھر ایک دن ہم نے اپنی آٹھنی بچائی اگلے دن ملنے والی اٹھنی ملی اور ایک روپیہ ہو گئے صبح یہ سوچ کر خوش ہوئے کہ آج بابے بڈھے کے بال لے کر کھاؤ گا اور آدھی چھٹی میں ہمارے ساتھ ظلم ہو گیا! وہ بندہ ہی نہیں آیا!!!! اور ساری خوشی غارت ہو گئی۔ اور شام تک ایک روپیہ بھی خرچ ہو گیا! اگلے دن وہ بندہ پھر آیا ہم نے اپس سے تصدیق کی کہ بھائی کل آؤ گے تو اُس نے ہاں کی!! شام کو خیال غلط آیا کہ کیوں ناں رات کو برتنوں میں پڑے اُس گلاس سے آٹھنے نکال لئے جائے جن میں پیسے پڑے ہوتے ہیں! رات وہاں سے پیسے نکال کر اپنے اسکول کے کپڑوں کی جیب میں رکھ کر سو نے کے لئے لیٹے تو چوری پکڑی جا چکی تھی! دو تھپڑ پڑے اور ایک ہفتہ کے لئے جیب خرچ بند ہو گیا! وہ الگ بات ہے کہ تمام ہفتہ کے جیب خرچ کی رقم تین روپے ہفتے کے آخر میں اس وعدہ کے ساتھ دے دی گئی کہ آئندہ چوری نہیں کروں گا!! اور مار پڑنے اور جیب خرچ بندہونے کی وجہ سے وہ بابے بڈھے کے بال و چوری دونوں سے نفرت ہو گئی!!!
اس ہی طرح اُن ہی دنوں ایک مرتبہ ہمارے گھر میں محلے کے ایک گھر کے چند افراد آئے تھے اُن کے ساتھ ہماری عمر کا بچہ بھی تھا! ہم اُس کے ساتھ کھیل رہےتھے کسی بات پر ہمارا اُس سے کھیل کے دوران جھگڑا ہو گیا ! ہم نے غصے میں اُسے "خنزیر، اُلو کا پٹھا" کہہ دیا اس سے قبل کے جملہ مزید آگے بڑھتا ایک زنائے دار تھپڑ ہمارے گال پر پڑ گیا! اس سوال کے ساتھ ہم نے یہ الفاظ کہاں سے سیکھے؟ اُس دن کے بعد ہمارے منہ سے کوئی گالی نہیں نکلی! ہاں اب وکالت کی فیلڈ میں انے کے بعد زبان کچھ خراب ہو گئی ہے مگر مجال ہے گھر میں کبھی غلطی سے بھی الفاظ کا چناؤ خراب ہوا ہو!
ہمیں یہ دو نوں قصے ہر بار بچپن کی یادوں کے ساتھ یاد آتے ہیں اول اس لئے کہ یہ ہمارے اول جرم ٹہرے تھے دوئم ان پر تھپڑ پڑے تھے۔
کیا آپ کی کوئی ایسا قصہ ہے؟؟ کیا آپ لکی رہے!