دھوکہ و فراڈ ایک جرم ہے، جرم قابل سزا ہوتا ہے. ملزم کے مجرم بننے تک کے درمیانی سفر میں کئی ایسے مقام آتے ہیں جب اپنے و مخلص پہچانے جاتے ہیں. ہمارے ایک دوست کہا کرتے ہیں مجرم کو اس کے جرم کی سزا دلانا اس سے دوستی و محبت کی ایک شکل بھی ہو سکتی ہے اور اس کو بچا لینا اس سے دشمنی.
ہمارے ملک میں حرام کی کمائی سے حج کرنا ہی نہیں بلکہ اس پر زکوۃ و صدقہ دینے کا بھی عام رواج ہے. جو نوکری پیشہ حلال کمانے کے دعویدار ہیں ان میں سے بھی کئی میری طرح کے ہیں جو نوکری پر آدھ گھنٹہ لیٹ جاتے ہیں اور پونے گھنٹہ پہلے نکل لیتے ہیں کہ کام ختم ہو گیا اور سرکاری گھاتوں میں ہونے والی بے قاعدگیوں سے یوں لاتعلق ہوتے ہیں جیسے کہ گونگے، بہرے و اندھے ہوں جبکہ معلوم سب ہوتا ہے.
ہر مارکیٹ کے اپنے بنائے ہوئے چند اصول ہوتے ہیں جس سے انحراف جائز ہوتا ہے مگر اس بے اصولی کا اقرار نہیں کیا جاتا یہ مارکیٹ کا سب سے بڑا و اہم قانون ہوتا ہے.
اصلی یونیورسٹی اصلی ڈگریوں کے ساتھ ساتھ "دیگر" اسناد کا بھی اجراء کر دیں تو لینے والا مجرم ہوتا ہے مگر جعلی یونیورسٹی کی ڈگری دینے والا مجرم ہوتا ہے یہ ہی اصول ہے یہ ہی قانون. اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ خریدار خود بھی دونمبر مال کی تلاش میں تھا.
صحافت ایک نوبل پروفیشن ہے صحافی کے لئے، ان کے مالکان کے لئے یہ صنعت ہے. صنعت کوئی بھی ہو مقصد پیسہ بنانا ہوتا ہے. اس صنعت میں سب سے ذیادہ بکنے والی شے جھوٹ ہے. یہاں سچ نہ بولنے پر بھی پیسہ کمایا جاتا ہے بس مرضی کی قیمت لگ جائے. میڈیا مالک صحافی کی ضرورت کی بولی لگاتا ہے، بیچارا صحافی اپنی مجبوری کی قیمت پر بک جاتا ہے.
اگر حرام کی کمائی سے بنائی گئی مسجد میں نماز پڑھنے والے نمازیوں کی نماز کی قبولیت کے سوال کرنا درست نہیں اور نماز کی قبولیت پر شک نہیں تو آنے دیا جائے ایک ایسا میڈیا گروپ جس سے صحافی کی قیمت اس کی مجبوری و ضرورت کو دیکھ کر نہیں قابلیت کو دیکھ کر ادا کی گئی ہو تاکہ سچ بولنے کی قیمت لگے چھپانے کی نہیں، جھوٹ نہ بولنا اصول ٹھہرے قیمت نہیں. ہاں حرام کی کمائی کمانے والا یا قانون شکنی کرنے والے کا معاملہ الگ ہے.
ضمیر کی آواز پر لبیک کہنے کے دعویدار اصولوں کے کتنے بڑے سوداگر ہے ہم جانتے ہیں.
(یہ میری رائے ہے اختلاف آپ کا حق ہے)
5/27/2015
جعلی ڈگری، سچی صحافت
12/22/2014
گوری مندر
سندھی میں اسے گوری جو مندر بتایا گیا ہے یعنی گوری کا مندر پہلے پہل سن کر خیال آیا شاید کسی رنگت کی سفید خاتون کی مناسبت سے یہ نام رکھا گیا ہے مگر بعد میں معلوم ہوا کہ یہ نام اس شاید گوری چی نامی جین مذہب کے پیروکار کی وجہ سے ہے جس نے اسے سن سولہویں صدی عیسوی کے شروع میں تعمیر کیا کیا تھا اگرچہ یہاں جین مذہب کے مندروں کی تعمیر 1376 ء سے ہو رہی تھی ایک روایت کے تحت یہ بھی ممکن ہے یہ تب ہی تعمیر ہوا ہو ۔ایک روایت یہ بھی ہے کہ اسےایک جین مذہب کے پیروکار مینگھو نے تعمیر کیا تھا جوپاری ننگر کا رہائشی تھا،جو کہ پیرس ناتھ پرسوپو کا ماننے والا تھا، یہ پیرس ناتھ پرسوپو وہیجوصاحب خود گورو گورتھ ناتھ کا مرید تھا۔جو پیرس ناتھ پرسوپو وہیجوصاحب گوری چی خاندان سے تھے اس بناء پر اس مندر گوری مندر کے نام سے جانا جارا ہے۔یہ مندر جین مذہب کے فرقے شویت امبر کے پیروکاروں کا مانا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ بطورمذہبی مدرسہ کے جین مذہب کے پیروکار استعمال کرتے رہے ہیں۔ ایک روایت یوں بھی ہے کہ یہ گوری نہیں گودی ہے گودی جی پرشاناتھ کی مناسبت سے، گودی جی پرشادناتھ دراصل جین مذہب کے تیسویں گرو یا پیغمبر تھےجین مذہب کے کُل چوبیس گرو یا پیغمبر ہیں۔مگر مقامی آبادی چونکہ اسے گوری مندر کہتے ہیں لہذا ہم بھی گوری مندر ہی لکھ رہے ہیں۔
اس مندر کی تاریخ کی کئی روایات ہے بہرحال یہ مندر اسلام کوٹ اور ننگرپارکر کے درمیان واقع یہ جین مذہب کا مندر ماروی کے گاوں سے قریب چار میل کے فاصلے پر ہے۔ تھرپارکر میں ننگرپارکر کا علاقہ میں کبھی جین مذہب کے کافی پیروکار آباد تھے سنا ہے قریب پچاس کے لگ بھگ یہاں جین مذہب کے چھوٹے بڑے مندر ہیں، ہم نے دو ہی کامشاہدہ کیا ہے۔
اس مندر کی تعمیر میں ماربل کا پتھر استعمال کیا گیا ہے خیال کیا جاتا ہے یہ پتھر گجرات سے لایا گیا تھا۔مندر کی تعمیرقدیم قرون وسطی طرز کی ہے۔تقریبا پچاس کے لگ بھگ چھوٹے بڑے گنبد اس مندر کی چھت پر موجودہیں۔مندر کی بیرونی بارہ دری والے گنبدکی اندرونی جانب نقش نگاری کی گئی ہے جو دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ نقش و نگار دراصل جین مذہب کے چوبیس گروز کی تشبیہ ہیں اور اس کے علاوہ عبادات کے مناظر و جانوروں (گھوڑا،ہاتھی وغیرہ) کی تشبیہات ہیں۔
اس وقت یہ مندر تباہی کا شکار ہے تیس فیصد مندر ٹوٹ چکا ہے مندر کے اندر چمگاڈروں کا بسیرا ہے۔ محکمہ آثار قدیمہ نے لوگوں کو متنبہ کرنے کو جو بورڈ لگا رکھا ہے وہ خود زمین بوس ہو رہا ہے اور اُس پر سے تنبیہ تحریر مٹ چکی ہے تو مندر کی حفاظت کا امکان ہی نظر نہیں آتا۔ زیر میں مندر کی چند تصاویر آپ کے دیکھنے کو دی جا رہی ہیں اندازہ لگائے کیسا اثاثہ تباہ ہو رہاہے کیسی تاریخی عمارت تاریک ہو رہے ہے۔
اس مندر کی تاریخ کی کئی روایات ہے بہرحال یہ مندر اسلام کوٹ اور ننگرپارکر کے درمیان واقع یہ جین مذہب کا مندر ماروی کے گاوں سے قریب چار میل کے فاصلے پر ہے۔ تھرپارکر میں ننگرپارکر کا علاقہ میں کبھی جین مذہب کے کافی پیروکار آباد تھے سنا ہے قریب پچاس کے لگ بھگ یہاں جین مذہب کے چھوٹے بڑے مندر ہیں، ہم نے دو ہی کامشاہدہ کیا ہے۔
اس مندر کی تعمیر میں ماربل کا پتھر استعمال کیا گیا ہے خیال کیا جاتا ہے یہ پتھر گجرات سے لایا گیا تھا۔مندر کی تعمیرقدیم قرون وسطی طرز کی ہے۔تقریبا پچاس کے لگ بھگ چھوٹے بڑے گنبد اس مندر کی چھت پر موجودہیں۔مندر کی بیرونی بارہ دری والے گنبدکی اندرونی جانب نقش نگاری کی گئی ہے جو دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ نقش و نگار دراصل جین مذہب کے چوبیس گروز کی تشبیہ ہیں اور اس کے علاوہ عبادات کے مناظر و جانوروں (گھوڑا،ہاتھی وغیرہ) کی تشبیہات ہیں۔
اس وقت یہ مندر تباہی کا شکار ہے تیس فیصد مندر ٹوٹ چکا ہے مندر کے اندر چمگاڈروں کا بسیرا ہے۔ محکمہ آثار قدیمہ نے لوگوں کو متنبہ کرنے کو جو بورڈ لگا رکھا ہے وہ خود زمین بوس ہو رہا ہے اور اُس پر سے تنبیہ تحریر مٹ چکی ہے تو مندر کی حفاظت کا امکان ہی نظر نہیں آتا۔ زیر میں مندر کی چند تصاویر آپ کے دیکھنے کو دی جا رہی ہیں اندازہ لگائے کیسا اثاثہ تباہ ہو رہاہے کیسی تاریخی عمارت تاریک ہو رہے ہے۔