Pages

5/12/2019

1965 کے صدرارتی انتخابات


وہ تاریخ جو آپ کو مطالہ پاکستان کی کورس کی کتابوں میں نہیں ملے گی


تاریخ می کئی چہروں پر ایسا غلاف چڑھا رکھاہے کہ اب انکی تعریف کرنی پڑتی ہے اور ان کا ماضی ہمیں بھولنا پڑتا ہے ایسےکئی کردار صدارتی الیکشن 1965 کے ہیں جن پر اب کوئی بات بھی نہیں کرتا اور نہ انکے بارے میں کچھ لکھا جاتا ہے یہ پہلا الیکشن تھا جس میں بیورکریسی اور فوج نے ملکر دھاندلی کی۔
1965کے صدارتی الیکشن میں پہلی دھاندلی خود ایوب خان نےکی پہلے الیکشن بالغ رائے دہی کی بنیاد پر کرانے کا اعلان کیا ۔یہ اعلان 9اکتوبر1964کوہوا مگر فاطمہ جناح کے امیدوار بنے کے بعد یہ اعلان انفرادی رائے ٹھہرا اور ذمہ داری حبیب اللّہ خان پرڈالی گئی یہ پہلی پری پول دھاندلی تھی۔
1964 میں کابینہ اجلاس کے موقع پروزراء نے خوشامد کی انتہا کی حبیب خان نے فاطمہ جناح کو اغواء کرنے کی تجویز دی وحیدخان نے جووزیراطلاعات اورکنویشن لیگ کے جنرل سیکرٹری تھے تجویزدی کہ ایوب کو تاحیات صدر قرار دینے کی ترمیم کی جائے بھٹونے مس جناح کو ضدی بڑھیا کہا اگرچہ یہ تمام تجاویز مسترد ہوئیں۔ ایوب خان نے الیکشن تین طریقوں سے لڑنےکا فیصلہ کیا۔
پہلامذھبی سطح پر،انچارج ، پیرآف دیول تھے جنہوں نے مس جناح کےخلاف فتوےديئے
دوسری انتظامی سطح پرسرکاری ملازم ایوب کی مہم چلاتے رھے
تیسری عدالتی سطح پرمس جناح کےحامیوں پرجھوٹےمقدمات درج ہوئےعدالتوں سے انکے خلاف فیصلے لئے گئے۔
سندھ کے تمام جاگیردار گھرانے ایوب کےساتھ تھے۔بھٹو،جتوئی،۔محمدخان جونیجو،ٹھٹھہ کےشیرازی،خان گڑھ کے مہر،۔نواب شاہ کےسادات،بھرچونڈی،رانی پور،ہالا،کےپیران کرام ایوب خان کےساتھی تھے۔جی ایم سید ، حیدرآباد کےتالپوربرادران اور بدین کے فاضل راہو مس جناح کے حامی تھے یہی لوگ غدار تھے ۔
پنجاب کے تمام سجادہ نشین سوائے پیرمکھڈ صفی الدین کوچھوڑکر باقی سب ایوب خان کے ساتھی تھے۔سیال شریف کےپیروں نے فاطمہ جناح کےخلاف فتوی دیا پیرآف دیول نے داتادربار پر مراقبہ کیا ۔اور کہاکہ داتاصاحب نے حکم دیا ہے کہ ایوب کوکامیاب کیاجائے ورنہ خدا پاکستان سے خفا ہو جائے گا۔ آلومہار شریف کے صاحبزادہ فیض الحسن نے عورت کےحاکم ہونے کے خلاف فتوی جاری کی ۔مولاناعبدالحامدبدایونی نے فاطمہ جناح کی نامزدگی کو شریعت سے مذاق اور ناجائز قرار دیا حامدسعیدکاظمی کے والد احمدسعیدنے ایوب کو ملت اسلامیہ کی آبروقراردیا یہ لوگ دین کے خادم ہیں۔لاھورکے میاں معراج الدین نے فاطمہ جناح کےخلاف جلسہ منعقدکیا جس سےمرکزی خطاب غفارپاشا وزیربنیادی جمہوریت نے خطاب کیا معراج الدکن نے فاطمہ جناح پر اخلاقی بددیانتی کاالزام لگایا موصوف یاسمین راشدکےسسرتھے۔ میانوالی کی ضلع کونسل نے فاطمہ جناح کے خلاف قراردداد منظور کی ۔ مولانا غلام غوث ہزاروی صاحب نے ایوب خان کی حمایت کااعلان کیا اور دعا بھی کی پیرآف زکوڑی نے فاطمہ جناح کی نامزدگی کو اسلام سے مذاق قراردیکر عوامی لیگ سے استعفی دیا اور ایوب کی حمایت کااعلان کیا۔
سرحدمیں ولی خان مس جناح کےساتھ تھے ۔یہ غدارتھے۔
بلوچستان میں مری سرداروں اورجعفرجمالی کوچھوڑ کر سب فاطمہ جناح کےخلاف تھے۔ قاضی محمد عیسی مسلم لیگ کابڑ انام بھی فاطمہ جناح کےمخالف اورایوب کے حامی تھے انہوں نے کوئٹہ میں ایوب کی مہم چلائی ۔ حسن محمودنے پنجاب و سندھ کے روحانی خانوادوں کو ایوب کی حمایت پرراضی کیا۔
خطہ پوٹھوہارکے تمام بڑے گھرانے اور سیاسی لوگ ایوب خان کےساتھ تھے ۔ چودھری نثار والد برگیڈیئرسلطان , ملک اکرم جو دادا ہیں امین اسلم کے ملکان کھنڈا کوٹ فتح خان، پنڈی گھیب، تلہ گنگ ایوب کے ساتھ تھے سوائے چودھری امیر اور ملک نواب خان کےاور الیکشن کے دو دن بعد قتل ہوئے۔
شیخ مسعود صادق نے ایوب خان کیلئے وکلاہ کی حمایت کا سلسلہ شروع کیا کئ لوگوں نے انکی حمایت کی پنڈی سے راجہ ظفرالحق بھی ان میں شامل تھے اسکےعلاوہ میاں اشرف گلزار ۔بھی فاطمہ جناح کے مخالفین میں شامل تھے۔
صدارتی الیکشن 1965کے دوران گورنر امیرمحمد خان صرف چند لوگوں سےپریشان تھے ان میں شوکت حیات،۔خواجہ صفدر جو والد تھے خواجہ آصف کے، چودھری احسن جو والد تھے اعتزاز احسن کے ، خواجہ رفیق جو والد تھے سعدرفیق کے ، کرنل عابدامام جو والد تھے عابدہ حسین کے اورعلی احمد تالپورشامل تھے۔ یہ لوگ آخری وقت تک۔۔فاطمہ جناح کےساتھ رہے۔
صدارتی الکشن کےدوران فاصمہ جناح پر پاکستان توڑنےکاالزام بھی لگا یہ الزام زیڈ-اے-سلہری نے اپنی ایک رپورٹ میں لگایا جس میں مس جناح کی بھارتی سفیرسےملاقات کاحوالہ دياگیا اوریہ بیان کہ قائدتقسیم کےخلاف تھے یہ اخبار ہرجلسےمیں لہرایاگیا ایوب اس کو لہراکر مس جناح کوغدارکہتےرھے۔
پاکستان کامطلب کیا لاالہ الااللّہ جیسی نظم لکھنےوالے اصغرسودائی ایوب خان کے ترانے لکھتے تھے۔ اوکاڑہ کےایک شاعر ظفراقبال نے چاپلوسی کےریکارڈ توڑڈالے یہ وہی ظفراقبال ہیں جوآجکل اپنےکالموں میں سیاسی راہنماؤں کامذاق اڑاتےہیں۔ سرورانبالوی اور دیگرکئی شعراء اسی کام میں مصروف تھے۔ حبیب جالب، ابراھیم جلیس ، میاں بشیرفاطمہ جناح کےجلسوں کے شاعرتھے۔ جالب نے اس کام میں شہرت حاصل کی ۔ میانوالی جلسےکےدوران جب گورنرکے غنڈوں نے فائرنگ کی توفاطمہ جناح ڈٹ کرکھڑی ہوگئیں اسی حملےکی یادگا بچوں پہ چلی گولی ماں دیکھ کےیہ بولی نظم ہے۔۔فیض صاحب خاموش حمائتی تھے۔
چاغی،لورالائی ، ،سبی، ژوب، مالاکنڈ، باجوڑ، دیر، سوات، سیدو، خیرپور، نوشکی، دالبندین، ڈیرہ بگٹی، ہرنائی، مستونگ، چمن، سبزباغ سے فاطمہ جناح کو کوئی ووٹ نہیں ملا ۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ایوب ، فاطمہ کےووٹ برابرتھے مس جناح کےایجنٹ ایم خمزہ تھے اور اے سی جاویدقریشی جو بعد میں چیف سیکرٹری بنے
مس جناح کو کم ووٹوں سے شکست پنڈی گھیب میں ہوئی۔ ایوب کے82 اور مس جناح کے 67 ووٹ تھے۔اس الیکشن میں جہلم کے چودھری الطاف فاطمہ جناح کےحمائتی تھے مگر نواب کالاباغ کےڈرانےکےبعد۔ پیچھے ہٹ گئ یہاں تک کہ جہلم کےنتیجے پردستخط کیلئے ۔مس جناح کے پولنگ ایجنٹ گجرات سے آئے اسطرح کی دھونس عام رہی۔
۔حوالےکیلئےدیکھئے ڈکٹیٹرکون ایس ایم ظفرکی ، میراسیاسی سفر حسن محمود کی ، فاطمہ جناح ابراھیم جلیس کی ۔مادرملت ظفرانصاری کی ۔۔فاطمہ جناح حیات وخدمات وکیل انجم کی۔ story of a nation..allana..A nation lost it's soul..shaukat hayat..Journey to disillusion..sherbaz mazari. اورکئ پرانی اخبارات۔۔


یہ تحریر دراصل ایک سرمد سلطان کے ٹویٹ ٹھریڈ کا مجموعہ ہے جو آپ یہاں دیکھ سکتے ہیں

4/30/2019

اپنی ایک لا علمی کا اعتراف!!

آج 2016 میں پارلمنٹ میں زنا سے متعلق ہونے ترامیم کا مطالعہ کرتے وقت "علم" ہوا (اور افسوس بھی کہ پروسیکیوٹر اور وکیل ہونے کی بناء پر مجھے اس بارے میں آگاہ ہونا چاہئے تھا نہ جانے پہلے اس ترمیم کو یوں کیوں نہ دیکھا) کہ اس میں ایسی ترامیم بھی ہیں جن کا اطلاق صرف "زنا" سے متعلقہ جرائم تک نہیں ہے بلکہ ان کے اثرات بڑے گہرے اور در رس ہیں اگر عدالتیں اس کو استعمال کریں اگرچہ اب تک اس کا استعمال ہوتے دیکھا نہیں پہلی ترمیم تعزیرات پاکستان کی دفعہ 166 میں ذیلی دفعہ 2 میں اس انداز میں ہوا 

Whoever being a public servant, entrusted with the investigation of a case, fails to carry out the investigation properly or diligently or fails to pursue the case in any court of law properly and in breach of his duties, shall be punished with imprisonment of either description for a term which may extend to three years, or with fine, or with both.
 یعنی کہ ناقص تفتیش پر تفتیشی آفیسر کو تین سال تک کی سزا ہو سکتی ہے 
پہلے پہلے یہ ترمیم دفعہ 218 اے کے طور پر صرف زنا سے متعلق تفتیش تک محدود کر کے شامل کرنے کی تجویز تھی، اگر تفتیشی آفیسرز کو ناقص تفتیش پر سزا کا رجحان پیدا ہو تو ممکن ہے کہ "انصاف" کے اسباب پیدا ہوں مگر دہشت گردی سے متعلق قانون کی دفعہ 27 کا استعمال(جو اسی مقصد کے تحت موجود ہے) بھی ججز کی نرم دلی کے باعث بے اثر ہوئے پڑی ہے۔ اسی طرح اسی ترمیم میں دفعہ 186 کی ذیلی دفعہ 2 میں شامل کیا گیا کہ
 Whoever intentionally hampers, misleads, jeopardizes or defeats an investigation, inquiry or prosecution, or issues a false or defective report in a case under any law for the time being in force, shall be punished with imprisonment for a term which may extend to three years or with fine or with both.
 یعنی کہ تفتیش و استغاثہ کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے، گمراہ کرنے یا خراب کرنے میں شامل ہوا یا جھوٹی یا غلط رپورٹ کسی مقدمہ میں جاری کرے وہ بھی تین سال کی سزا کا مستعحق ہو گا۔ پہلے شاید زنابلجبر سے متعلق ترامیم کو پڑھتے ہوئے لاشعور میں یہ تھا کہ یہ ترامیم زنا جیسے جرم تک محدود ہے مگر اب اسے دوبارہ اتنے وعرصے بعد ایک نظر دیکھنے سے یہ آگاہی ہوئی کہ اس کے اثرات دور رس ہیں۔
ایک بار ایک ریٹائر جسٹس جو بعد میں قانون کی تدریس سے جڑ گئی تھے سے ایک محفل میں سنا تھا "قوانین کی اس دفعات کا اطلاق میں عمر کے بڑے حصے عدالت میں کرتا رہا ہو مگر اب جب پڑھانے کی نیت سے پڑھتا ہوں تو ان کے نئے معنی مجھ پر آشکار ہوتے ہیں" آج کچھ ایسا ہی میرے ساتھ ہوا ہے۔

9/14/2015

فیصلے و انصاف

کام نہیں ذمہ داری بندے کو مارتی ہے. جب دوسری کی عزت، مال و زندگی کا دارومدار آپ کی قابلیت و فیصلہ کا منتظر ہو تو ذمہ داری فیصلہ کرنا نہیں انصاف کرنا ہوتا ہے. عدالتوں سے فیصلے ذیادہ آ رہے ہیں انصاف کم!


جب جب ہم نے جج کے امتحان کی تیاری کی تب تب ہمیں اپنے ایک  دوست کی بات یاد آئی کہ حاکم و قاضی بننے کی خواہش ہی نااہلیت کی سند ہے امتحان میں کامیابی حاصل کرنے والا جج کی کرسی پر بیٹھ کر فیصلے تو کر سکتا ہے انصاف کرنے کا اہل ہو اس کی کوئی ضمانت نہیں. ایسی باتیں ان کو سمجھ آئیں جنہوں نے سمجھنی ہوں ہمارا ان سے کیا لینا دینا. ہمارے والد نے ایک رات سو جانے کا حکم صادر کرتے ہوئے پوچھا جج بن کر کیا کرو گے ہم نے فورا ججز کی تنخواہ، مراعات اور معاشرتی مقام پر روشنی ڈالی بجائے خوش ہونے کے چہرے پر پریشانی نظر آئی. اگلے دن والدہ نے ہم سے پوچھا کیا کہا تھا رات کو تم نے اپنے ابو کو؟ ہمیں نہ سوال سمجھ آیا نہ رات کی گفتگو کی طرف دھیان گیا! لہذا سوال کر ڈالا "کیوں کیا ہوا؟" کہنے لگی کہہ رہے تھے یہ عام سا ہی نکلا لگتا ہے کسر رہ گئی تربیت میں!


اکثر سرکاری ملازمین کا بڑھاپا تب شروع ہوتا ہے جب وہ نوکری سے ریٹائر ہو جاتے ہیں عمر کی گنتی نہیں وقت اہم ہے . تب ہی ان کے پاس سنانے کو زندگی کے کئی قصے ہوتے ہیں. جج بھی سرکاری ملازم ہی ہوتا ہے. ریٹائرمنٹ کے بعد وکالت کمانے کے لیے کم اور قصے سنانے کے لیے ذیادہ کرتا ہے. یہ قصے ان کے لئے ستائش جیتے کا ذریعہ ہوں گے مگر نئی نسل کے لئے سیکھنے کا راستہ ہوتے ہیں، ایسے قصوں سے سیکھا ہوا ہمیشہ کام آتا ہے عدالت میں بھی اور زندگی میں بھی.


عدالتوں میں فیصلوں کے لئے ہونی والی مباحث میں حقائق و قانون دونوں زیر بحث آتے ہیں مگر جب بھی سابقہ ججز سے ان کے اہم فیصلوں کی روداد سنے تو وہ معاملے سے متعلق حقائق و اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ کیسے ان کا فیصلہ انصاف کے مطابق تھا قانونی نقاط قصے کا حصہ نہیں ہوتے . اس سے ہم نے یہ تاثر لیا نیت انصاف کرنا ہو تو ٹیڑھا قانون بھی رکاوٹ نہیں بنتا.

کوئی خود کو برا نہیں کہتا مگر جو سچ دوسرے آپ کے بارے میں کہتے ہیں اس کا کوئی متبادل نہیں. سابقہ ججز کے ساتھ کام کرنے والے کلرک، پٹے والے، ان کے ڈرائیور،  گارڈ اور باورچی جو قصے سناتے ہیں ان سے محسوس ہوتا ہے جج صاحبان کی اکثریت بس نوکری کرتی ہے، فیصلے سناتی ہیں. کہنے کو تو کہا جاتا ہے ایک بے گناہ کو سزا دینے سے بہتر ہے کہ سو گناہ گار کو چھوڑ دیا جائے مگر گناہ گار کو سزا سنائے جانے کے جو قوت و حوصلہ درکار ہے وہ بھی کسی حد تک ناپید ہے. یہ ڈر کہ اوپر والی عدالت اگر میرا فیصلہ بدل دے اور ایسے بدلے ہوئے فیصلوں کی اکثریت نوکری میں ترقی کے امکان کم دیتے ہیں کا خوف ملزمان کو چھوڑنے کا سبب بنتے ہیں. یوں فیصلے ہوتے ہیں انصاف نہیں.


عمومی طور پر قتل و زنا کے مقدمات کے علاوہ باقی جرائم میں ملزم کو بری کرنے کا رجحان قریب قریب سو فیصد ہی ہے. صرف جج صاحبان ہی رعایت نہیں کرتے بلکہ خود مدعی، پولیس اور پراسیکیوٹر بھی ملزمان کے ساتھ نرمی رکھتے ہیں. مدعی و گواہان تو عدالت سے باہر ملزمان سے صلح کر کے کٹہرے میں بیان بدلتے ہیں یوں ملزمان باعزت بری ہوتے ہیں (یہ بات کسی حد تک دیوانی و خانگی تنازعات کے بارے میں بھی ہے) . تھانے میں لکھوائی گئی ابتدائی رپورٹ میں شامل جھوٹ سچ کو بھی کھا جاتا ہے. عدالت کے کٹہرے میں انصاف کے حصول کے لئے کم اور دوسرے کو سزا دلوانے کو ذیادہ پیش ہونے والوں کا جھوٹ ملزم کو تو گناہ گار نہیں کرتا البتہ اس کی غلطیوں و جرائم کو دھندلا ضرور کر دیتا ہے. عدالت کے کٹہرے میں صرف ملزم و مجرم ہی نہیں فریادی و گواہ بھی پیش ہوتے ہیں. مجرمان کو صرف عدالت کے کٹہرے میں لانا ہی کافی نہیں ہوتا کٹہرے میں خود مدعی کو بھی کھڑا ہونا ہوتا ہے. برائی اور گناہ کی شہادت دینا اصل امتحان ہے جس میں بہت کم لوگ ہی کامیاب ہوتے ہیں کچھ بیان سے مکر جاتے ہیں اور کچھ جرم کی ہیت بڑھانے کو اس میں جھوٹ کی آمیزش کرتے ہیں، جھوٹ پکڑا جاتا ہے یوں  سچ بھی مشکوک ہو جاتا ہے اور ملزم بری. ایسے میں فیصلہ آتا ہے شاید تب حالات کے تحت یہ ہی انصاف ہے.


عدالت کے کٹہرے میں گواہی سے پہلے حلف لیا جاتا ہے. ہر فرد کو اس کے عقیدے کے مطابق کلمہ پڑھایا جاتا ہے اس کے رب کا خوف دلوا کر سچ بولنے کا کہا جاتا ہے اور جھوٹ کی صورت میں رب العزت کے عذاب و کہر کا حقدار.  ہمارے ایک سینئر دوست کہتے ہیں یہ عدالتوں کے کٹہرے میں خدا کو حاضر ناضر جان کر بولا گیا جھوٹ ہی تو ہماری تباہی کی وجہ ہے. لوگ اپنے اپنے خداؤں کے نام پر جھوٹی گواہی دینے سے نہیں ڈرتے مگر بیوی و بچوں کے نام پر قسم کھا کر گواہی دینے سے انکار کر دیتے ہیں اندازہ لگایا جا سکتا ہے کیونکہ فیصلے آتے ہیں انصاف نہیں.


ایسا بھی نہیں کہ سب جھوٹ کی دلالی کریں کئی کٹہرے میں سچ کے سوا کچھ بھی نہیں گواہی میں کہتے اور ہم نے دیکھا وہ انصاف پر مبنی فیصلے جیت کر جاتے ہیں. انصاف یہ ہی نہیں کہ ملزم کو سزا ہو انصاف یہ ہے کہ اسے احساس ہو وہ پچھتائے، وہ توبہ کرے اور معافی کا طالب ہو.


عدالتیں نہیں، جج نہیں، وکیل نہیں، گواہ نہیں بلکہ صرف سچ ہی انصاف کے حصول کو ممکن بناتا ہے آٹے میں نمک کے برابر جھوٹ بھی انصاف کو کھا جاتا ہے پھر بس فیصلہ ہی آتا ہے. یہ مشاہدہ ہے یہ تجربہ ہے مگر یہ سمجھ کسی کسی کو آتی ہے یہ نظر ہر کسی کو نہیں آتا.
ہماری عدالتوں سے واقعی اب فیصلے آ رہے ہیں انصاف نہیں اور قصور وار ہم سب ہیں کوئی ایک نہیں. 


8/23/2015

بابے پھر بابے ہوتے ہیں

کہنے کو اس مضمون کا عنوان بزرگ بھی ہو سکتا تھا مگر بزرگی میں شرارت ہو سکتی ہے مسٹنڈاپن نہیں اس لئے بابے ہی ٹھیک لگتا ہے. ہمارے دور کے مسٹندے کچھ ذیادہ لوفر ہو گئے ہیں مگر پہلے کے لوفر بھی اتنے مسٹندے نہیں ہوتے تھے. یہ بابے اپنی جوانی کے دل لبھانے والے جھوٹے سچے قصے سنا کر جس طرح جوانوں کی چوری پکڑتے ہیں وہ ان کا کی حاصل ہے.


ایسے ہی ایک بابے کے منہ سے ایک بار سننے کو ملا کہ کیا دور آ گیا ہے ایک ہمارا دور تھا جب لڑکوں کے دوست اور لڑکیوں کی سہیلیاں ہوتی ہے اب تو لڑکوں کی سہیلیاں اور لڑکیوں کے دوست ہوتے ہیں. تب ہم کسی لڑکی کے قریب ہوتے تو وہ فٹ سے کہہ دیتی دیکھو مجھے دھوکہ نہ دینا ایسا نہ ہو کہ کل کو کسی اور سے شادی کر لو ہم لڑکیاں بہت حساس ہوتی ہیں کسی کو ایک بار اپنا کہہ دیا تو پھر ساری عمر اسی کی ہو کر رہ جاتی ہیں اور ایک آج کی چوکریاں ہیں دوستی کے دوسرے دن ہی نوٹ کروا دیتی ہیں کہ دیکھو سنجیدہ نہ ہو جانا میں بس ٹائم پاس کر رہی ہوں کل کو تو کون اور میں کون.


یہ بابے وقت کے بدلنے کے بارے میں بتاتے ہیں کہ پہلے گھر بناتے وقت گھر والوں کے ساتھ ساتھ مہمانوں کے لئے بھی ایک حصہ ہوتا تھا مہمان خانے میں مہمان کی خدمت کو ایک بندہ مختص ہوتا تھا آج کی طرح نہیں کہ صرف صوفہ سیٹ ہو بلکہ پلنگ یا چارپائی ہوتی کہ آنے والا مہمان آرام کرتا. پہلے مہمان کو رحمت تصور ہوتا تھا اور آج اپنے رویے سے رہ مت کہا جاتا ہے .


ان بابوں سے اس لئے بھی ڈر لگتا ہے کہ قصے سنا کر نصیحتیں کرتے ہیں. ان کے پاس ملا دوپیازہ ہے، ملا لٹن ہے، متایو فقیر ہے، جٹ مانا ہیں. یہ اپنے اپنے علاقوں کے کرداروں کے نام لے کر مختلف قصوں کی مدد سے مخصوص سبق سکھانے کے لئے ہنسی مذاق میں سنا ڈالتے ہیں. ہم جیسے لونڈے انہیں لاکھ کہیں کہا یہ کردار خیالی ہیں، یہ قصے جھوٹے ہیں. یہ بابے باز نہیں آتے پھر سے کسی اگلی نشست میں ان کرداروں کے قصوں کی مدد سے شخصیت کی تعمیر کرنے بیٹھ جاتے ہیں.


ایک محفل میں رشوت کی افادیت پر بحث ہو رہی تھی ایک بابا جوش میں دونوں ہاتھ ہوا میں کھڑا کر کے بولا مجھے ذیادہ نہیں معلوم بس اتنا جانتا ہوں کہ کچھ حرام کے تخم سے ہوتے ہیں کچھ کا تخم حرام کا ہوتا ہے اول ذکر جنتی ہو سکتا ہے اگرچہ اس کے ماں باپ جہنمی ہو مگر ثانی ذکر جہنم کی آگ کا ایندھن ہو گا . پوچھا بابیوں کہنا کیا چاہتے ہو کہنے لگے کچھ ماں باپ کی حرام کاری کی وجہ سے حرامی نسل ہوتے ہیں اور کچھ اپنی کمائی کی وجہ سے! یہ رشوت خور والے دوسری قسم کے حرامی ہیں جو اپنی نسل کو بھی حرامی بنا دیتے ہیں. ایسے سخت جملے سننے کے بعد ہمارے کئی دوستوں نے اس بابے سے ملنا چھوڑ دیا.


یہ بابے اپنی عمر کو اپنا تجربہ بتاتے ہیں. یہ سامنے والے کی نیت کو اس کے اعمال سے پرکھنے کے قائل معلوم ہوتے ہیں ان کے یہاں benefit of doubt بہت ذیادہ پایا جاتا ہے. ایسے ہی ایک بابا جی کہا کرتے ہیں کہ برا وہ جس کی برائی پکڑی جائے چاہے اس نے کی بھی نہ ہو اور اچھا وہ جو پکڑ میں نہ آئے. ہم نے کہا بابیوں اب تو بدنامی بھی نامور کر دیتی ہے تو کہنے لگے جیسے لوگ ویسا ان کا ہیرو ہوتا ہے ہر طبقہ و گروہ کا اپنا رول ماڈل (ہیرو) ہو گا ناں. بات پلے نہ پڑی تو ہم نے کندھے اُچکا دیئے، دھیمے سے مسکرا کر بولے وکیل ہو تم؟ ہم نے سر کی جنبش سے ہاں کی. کہنے لگے وکیلوں میں سے تمہارا آئیڈیل کوئی بڑا قانون دان یا جج ہو گا ایک ڈاکو نہیں ایسے ہی جو جس شعبے کا بندہ ہے اس کا رول ماڈل اس ہی شعبے کا بندہ ہو گا ہر فرد کسی اپنے ہم پیشہ یا ہم نظریہ و عقیدہ کو ہی ماڈل بناتے ہیں. ہم نے کہا کہ اگر کوئی کسی دوسرے شعبہ کے بندے کو اپنا رول ماڈل بنا لے تو! کہنے لگے وہ بہروپیا ہے جو ایسا کرتا ہے. ہم اس کی بات سے متفق نہیں تھے مگر کسی سخت جملے سے بچنے کے لیے خاموش رہے.


حالات و زمانے کا رونا رونے والی ایک محفل میں اہل محفل جب حاکموں کے برے کردار کو زیر بحث لائے تو ایک اور بابا جی رائےزنی کرتے ہوئے گویا ہوئے خود کو بدل لو اچھا حاکم میسر آ جائے گا چوروں کا سربراہ چوروں میں سے ہی ہو گا جیسے ہم ویسے ہمارے حاکم.


ہمارے دوست جوانی میں ہی بابا جی ہو گئے ہیں. ان کا پسندیدہ موضوع رویے ہیں. وہ لوگوں کے رویوں پر خیال آرائی کرتے رہتے ہیں؛ ہمارے علاوہ باقی سب ہی ان کے خیالات کو سراہتے ہیں. اولاد کی تربیت پر بات ہو رہی تھی کہنے لگے اگر گھر کے سربراہ کے مزاج میں سختی ہو تو اولاد باغی ہو جاتی ہے. ملک کا حاکم و خاندان کا سربراہ اگر ہر معاملہ میں اپنی مرضی مسلط کرنے لگ جائیں تو بغاوتیں جنم لیتے ہیں اور زندگی کی آخری سانسیں تنہائی میں گزرتی ہے اگر اولاد کی قربت نصیب بھی ہو تو صحبت نصیب نہیں ہوتی.


ہمارے ایک دوست ایک مشکل میں پھنس گئے تلاش ہو رہی تھی کسی اثر رسوخ والے بندے کی اسی سلسلے "غلطی" سے ایک بابا جی سے آمنا سامنا ہوا کہنے لگے جس کے پاس بھی جاؤ گے اس کے اثر رسوخ میں اضافہ کا باعث بنو گے! جو آج کام آئے گا کل کام بھی لے گا اور احسان مند تم ہی رہو گے اور جو کام کا آسرا دے گا وہ بھی کل کو کام نکلوا لے گا جو کرنا ہے خود کرو. ہمارے دوست بابے کی باتوں میں آ گئے اور اب وہ خود کافی اثر رسوخ والے بندے ہیں.


بابیوں کی کوئی عمر، نسل، عقیدہ اور تجربہ لازمی نہیں بقول ہمارے ایک بابا صفت دوست کہتے ہیں بابا وہ جو رمز کی بات کہہ دے. ہم نے تو سیکھ لیا ہے ان بابیوں کی بات کو ایسے اگنور کرو جیسے یو این او کشمیر کے مسئلہ کو اگنور کرتی ہے. ان کی قربت شخصیت میں موجود "ضروری" خامیوں کے نقصاندہ ہو سکتی ہے. کیا آپ کا کبھی کسی بابے سے واسطہ پڑا ہے؟


6/16/2015

بھائی پر لطیفہ، طنز یا خوشامد؟

اہل علم نہایت سنجیدہ ہوتے ہیں ان کا مزاح بھی سبق آموز ہوتا ہے. زندگی کے کچھ شعبہ و پیشے ایسے ہوتے ہیں جن میں سنجیدہ نوعیت کے افراد کی ضرورت ہوتی ہے مراثی طبیعت و مسخرے مزاج افراد کا وہاں ہونا بگاڑ کا سبب بنتا ہے. سیاست و صحافت ایسے ہی شعبہ ہیں.


یوں تو ہمارے ملک کی سیاست میں قابل افراد کا قحط تو ہے ہی  اوپر سے اب مسخرے صفت افراد کی تعداد بھی بڑھنے لگی ہے. ایسا نہیں کہ سیاسی مسخرے پہلے نہیں ہوتے تھے مگر انہیں کبھی درجہ اول کے سیاست دان نہیں مانا جاتا تھا. جلسوں میں پارٹی قیادت کے جلسہ گاہ میں داخلے سے قبل عوام کو مصروف رکھنے کے لئے اب کی خدمات بشکل مقرر حاصل کی جاتی تھیں. پھر آہستہ آہستہ یہ کردار مقبول ہوئے اور مخالف پارٹی کی قیادت کو بے عزت کرنے کو آگے کئے جانے لگے ایک آدھ کو  اس بناء پر وزارت سے بھی نوازا گیا. جب وزارت کے حصول کے لیے مسخرہ پن بھی اہلیت بنی تو کئی سیاہ ست دان اس قابلیت کو اپنانے لگے. ماشاءاللہ اب اکثریت اس خوبی کی حامل ہے.


پیر و گدی نشین حاکموں کی قربت حاصل کرنے کو الہام و خواب کے من گھڑت قصوں کا استعمال کرتے ہیں. یہ خوابی قصے حاکم کی عظمت کو بیان کرنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں. منبروں سے ہونے والی سیاست نے جہاں ایسے کئی قصوں کو جنم دیا ہے وہاں ہی ایسے کئی کرداروں کو بھی اس قصہ گوئی کی بناء پر کامیابی سے ہمکنار کیا ہے. یہ بھی ایک المیہ ہے ایسے قصے و قصہ گو بعد میں کتابوں کی زینت بن کر "مستند " تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں.


ملک کی سیاست میں ارتقاء اب اس شعبہ کو اُس مقام پر لے آیا ہے جہاں خود پارٹی سربراہ گانوں کی گونج میں تقریر کرتا ہے، گا گا کر اپنا مدعا بیان کرتا ہے، لہک لہک کر ٹی وی اسکرین پر عجیب و غریب جسمانی حرکات کے ساتھ بیان فرماتے ہیں. ایسے میں آپ کیا خیال کرتے ہیں کہ قیادت کو خوش کرنے کو کیا کیا نہیں کیا جا سکتا؟ ابتدائی کاوشوں میں کہیں ناں کہیں کچھ غلطیاں تو ہو ہی جاتی ہیں . اس بار بھی ہو گئی، غلطیاں درست کرنے کے لیے ہی ہوتی ہیں اگلی بار کسی ایسے فرد سے منسوب کر دیں گے قصہ جو حیات ہو لیاقت علی خان و قائداعظم ان کے خواب میں آ کر "ہم نہیں ہمارے بعد، الطاف الطاف" کہے. حیران و پریشان نہ ہوں ابتداء میں ایسے بیان لطیفہ کی شکل میں وارد ہوتے ہیں جنہیں مخالفین بطور طنز استعمال کرتے ہیں اور بقایا بطور خوشامد. یہ برائی سب پارٹیاں اپنا چکی ہیں کسی کی پکڑی گئی اور کوئی بچ گیا.


اس لطیفے کو سنجیدگی سے لیا جانا خود میڈیا کی غیر سنجیدگی کو ثابت کرتا ہے. یہ خبر بریکنگ نیوز کے طور پر آئی تھی وہ تو شوشل میڈیا پر اس پر طنز ہوا تو شاید اس وجہ سے خبر کا رخ بدلا. ویسے میڈیا میں بھی تو مراثی و مسخرے داخل ہو چکے ہیں ناں. لہذا ان کا بھی غلطی نہیں ہے.


6/05/2015

روہنگیا: مظلوم ترین آبادی

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ 1982 میں شہریت سے متعلق قانون پاس ہونے کے بعد قریب اٹھارہ لاکھ مسلم آبادی پر مصیبتوں کے پہاڑ اتارے گئے خاص کر روہنگیا نسل کے مسلمانوں پر کہ انہیں برما (میانمار) کا شہری ماننے کے بجائے غیر ملکی قرار دیا گیا یوں ایک شہری کو حاصل تمام بنیادی حقوق سے اِس مسلم آبادی کو محروم کر دیا گیا یہاں تک آزادانہ نقل و حمل جیسا بنیادی انسانی حق بھی سلب کر لیا گیا مگر حقیقت یہ ہے کہ اس خطے میں روہنگیا نسل سمیت دیگر مسلمان آبادی پر سولہویں صدی سے ہی سختیاں شروع ہو گئی تھی جب جانوروں کی قربانی سے روکنے کے عمل سے مظالم کا آغاز ہو گیا تھا.
دنیا میں یہ کہاجاتا ہے کہ بودھ امن پسند ہیں ان کی تعلیمات کے مطابق انسانی جان کیا جانور کو مارنا بھی ظلم ہے. مگر میانمار کے معاملات سے تو یہ فقط "پراپیگنڈہ" لگتا ہے. مسلم کشی کو لیڈ کرنے والا بودھ بھگشواء ہی تو ہے. ایک سزا یافتہ، مذہبی تعصب کا شکار. اور قاتلوں کی فوج بودھ بھگشوؤں پر مشتمل ہے.
میانمار میں جس قسم کے قوانین پاس ہو رہے ہیں اور حکومت جس طرح کا رویہ اختیار کئے ہوئے ہے اس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس ساری بربریت و غارت گری کو سرکاری سرپرستی حاصل ہے. مسلم آبادی پر دو سے ذیادہ بچے پیدا کرنے پر پابندی عائد ہے. ایک مسلم خاندان پر لازم ہے کہ وہ دو بچوں کے درمیان کم از کم تین سال کا وقفہ لازم ہے. دوسری طرف میانمار صدر صاف الفاظ میں روہنگیا آبادی کو ملک چھوڑنے کا مشورہ دے چکا ہے.
ہم نے سنا تھا کہ عورت کا دل بہت نرم ہوتا ہے، چونکہ وہ ایک جان کو جنم دیتی ہے اس لئے انسانی جان کی قدر کو مرد کے مقابلے میں بہتر سمجھتی ہے، مگر معلوم ہوا کہ جب بات اقتدار کے لالچ کی ہو انسانی جان مسلم آبادی کی ہو تو ایک بودھ مذہب کی سیاستدان عورت کی جانب سے سوال کرنے پر بھی مذمت نہیں کی جاتی. انگ سان سوچی نے بھی ایسا ہی کیا یوں اس خیال کو تقویت پہنچی کہ امن کا نوبل انعام دراصل میرٹ پر نہیں پسند پر دیا جاتا ہے.
برما میں ہونے والی اس مسلم کشی میں وہاں کی حکومت، اپوزیشن اور مذہبی طبقے تمام کے تمام ایک ہی لائن پر ہیں، جس سے یہ تاثر قائم ہوتا ہے کہ عوامی سطح پر اس انسان کشی کو قبولیت کا درجہ حاصل ہے ایسے میں اس (روہنگیا) مسلم کشی  کا حل کیا ہو گا؟ بیرونی دنیا اور خاص کر مسلم دنیا کیسے انسانی جانوں کو بچا پائے گی؟ کیا بیرونی دنیا ان روہنگیا نسل کو اپنے یہاں پناہ گزیر کرے گی اور اگر ہاں تو کب تک؟
میانمار سے باہر ہونے والے احتجاج و مذمتی جلوس وہاں کے لوگوں کا ذہن نہیں بدلنے والے کم از کم اتنی جلدی نہیں کہ روہنگیا کی آبادی کی مزید بڑے نقصان سے بچ سکے. بیرونی دنیا کی پابندیاں ممکن ہے کسی حد تک بہتری کا راستہ نکال لیں مگر اصل حل یہ ہی ہے کہ کوئی ایسی قوت ہو جو قاتلوں کا ہاتھ موڑ سکے خواہ وہ مقامی آبادی سے نکلے یا بیرونی حملہ آوروں کی شکل میں! کیا مسلم دنیا ایسا ایڈوینچر کر سکی گی؟ نہیں تو بھول جائیں کہ آپ و میں میانمار کی روہنگیا آبادی کو بچا پائے گے البتہ روہنگیا مقتولین کے خاندانوں سے ایسے شدت پسندوں کی پیدائش ضرور ہو گی جو دوسروں پر رحم شاید نہ کریں.

1/08/2015

بوڈیسر مسجد و تالاب

ننگرپارکر سے پانچ کلو میٹرشمال مغر ب میں بوڈیسر نامی گاؤں کے پاس کارونجھر پہاڑ کے قدموں میں واقع تالاب و مسجد کو بھی شاید گاؤں کی مناسبت سے ہی بوڈیسر مسجد و بوڈیسر ڈیم کا نام دیا گیا ہے۔ یہ معلوم نہیں گاؤں یا مسجد سے کس کا نام پہلے بوڈیسر رکھا گیا ؟ اگرچہ تالاب ذیادہ قدیم ہے مگر قیاس غالب ہے کہ اس تالاب یا ڈیم کو بوڈیسر کا نام بعد میں دیا گیا ہو گا۔
کارونجھر پہاڑ ی سلسلہ دراصل گرینائٹ کے ذخائر ہیں، یہ رن آف کچھ کے شمال میں واقع ہے۔رن آف کچھ کے پرانے باسیوں کو ہی کچھی کہا جاتا ہے۔ مقامی آبادی کا کہنا ہے کہ بارش کے بعد کارونجھر پہاڑ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے مگر ہم نے اسے خشک حالت میں دیکھا اور پتھروں کےبڑے سائزوہیت سے حیران ہوئے۔ پہاڑ اور قریبی زمین کی ساخت اس بات کی چغلی کھاتے ہیں کہ کبھی ہزاروں سال پہلے یہاں دریا بہتہ ہو گا۔
بوڈیسر مسجد کے قریب لگے بورڈ کے مطابق یہ مسجد سن ۱۵۰۵ عیسوی (۸۰۸ ھجری)میں گجرات کے حاکم محمود شاہ بن مظفر بن غیاث الدین نے تعمیر کی۔ اس وقت کےا گجرات(احمد آبااد) کے حاکم ناصرالدین محمود شاہ اول مساجد کی تعمیر کا شوق رکھتے تھے اور محمود بگڑا کے نام سے مشہور تھے۔ وہ سن ۱۵۰۵ میں یہاں محمود بگڑا اور راجپوت سوڈا کے درمیان جنگ ہوئی تھی تب ہی یہ مسجد تعمیر ہوئی۔ جنگ میں کام آنے والے چندمسلم سپاہیوں کی قبریں بھی اس ہی مسجد کے قریب بنائی گئی تھی۔ بوڈیسر نام کا ایک علاقہ آج بھی بھارت کے صوبے گجرات کے ضلع کچھ کی تحصیل عبداصہ میں ہے ممکن ہے ہندوستانی مزاج کے مطابق اس مسجد کو اُس ہی علاقے کے نام پر بوڈیسر قرار دیا ہو۔ جیسا کہ ایک ہی نام کے کئی قصبے و گاوّں آباد کرنے کا رواج ہے یہاں۔پہلی مرتبہ جب ہم نے بوڈیسر کا نام سنا تو لگا جیسے بدھا سر کہا گیا ہے اور ہم جین مذہب کے خیالات میں ہونے کی وجہ سے اسے بدھ مذہب سے ملانے لگے مگر مقامی لوگوں سے تصدیق نہ ہو سکی۔
اپ ڈیٹ :پروفیسر نور احمد کاکہنا ہے کہ بوڈیسر دراصل دو الفاظ کا مرکب ہے، بودے اور سر،بوڈے ایک سابقہ حاکم بوڈے پرامر کے نام سے لیا گیا ہے کہ یہ گاوں اُس نے بنایا جبکہ سر سے مراد وہ قدرتی تالاب ہے جو بارش کے پانی سے دجود میں آتا ہے۔ یعنی قصبوں کے نام حاکم کے نام پر ہوتے ہیں اور بستے اُس میں عوام ہیں یہ کافی پرانا سلسلسہ ہے۔
ایک کہانی یہ بھی ہے کہ روجپوتوں نے اس علاقے کے بیل حاکم کو شکست دے کر اُس کا سر اس تالاب یا جھیل میں پھینکا تھا اس لئے بھی اسے بوڈیسر کہا جاتا ہے
ویسے بوڈیسر سنسکرت زبان کا لفظ بھی ہے جس سے مراد ایک مکمل طریق حیات ہے، بوڈیسر مرد و عورت کے درمیان روحانی تعلق سے لے کر، مذہبی عبادت ، مذہبی رہنما کی اطاعت، مخصوص جسمانی کسرت (غالب امکان یوگا ہے کیوں کہ اوم یوگا کا مخصوص کلمہ ہے)،جنسی تعلقات، شاعری، رقص اور فنون لطیفہ کی تمام ہی اشکال وغیرہ یعنی یوں سمجھ لیں بوڈیسر سے مراد زندگی کے اور اُس سے جھڑے تمام معاملات لیئے جاتے ہیں۔ اس لئے اگرچہ تصدیق تو نہیں ہوئی اب تک مگر یہ ہی خیال کیئے لیتے ہیں بوڈیسر دراصل یہ ہی سنسکرتی لفظ बोधसार ہے سنگ مرمر سے بنی یہ بوڈیسر مسجد ہندو و جین مذہب کی عمارتوں کی بناوٹ سے متاثر نظر آتی ہے خاص کر کے اس کا گنبد اندرونی جانب سے جین مذہب کے مندروں سے ملتا جلتا ہے۔ قریب پانچ سو سال قبل تعمیر کی گئی یہ مسجد آج بھی بہت دلکش ہے۔

مسجد کے ساتھ ہی ایک چھوٹا تالاب یا ڈیم ہے یہ تالاب بارش کی موجودگی میں چشمے کی سی صورت اختیار کر لیتا ہے ۔ کارونجھر پر برسنے والا بارش کا پانی مختلف چھوٹے بڑے چشموں سے ہوتا ہوا اس تالاب کے شکم کو بھرتا ہے۔ محمود غزنوی سومناتھ کو فتح کرنے کے بعدواپسی میں اس تالاب کا مہمان ہوا تھا۔

تالاب سے کچھ فاصلہ پر جین مذہب کا ایک مندر ہے اسے آپ بوڈیسر مندر کہہ لیں گزشتہ پوسٹ میں میں نے گوری مندر بارے بتایا تھا۔ اس خطے میں ان مندروں کو دیکھ ہم یہاں کے پرانے دور کے کاریگروں کے فن تعمیر کی صلاحیت سے متاثر ہوئے ہیں۔

12/22/2014

گوری مندر

سندھی میں اسے گوری جو مندر بتایا گیا ہے یعنی گوری کا مندر پہلے پہل سن کر خیال آیا شاید کسی رنگت کی سفید خاتون کی مناسبت سے یہ نام رکھا گیا ہے مگر بعد میں معلوم ہوا کہ یہ نام اس شاید گوری چی نامی جین مذہب کے پیروکار کی وجہ سے ہے جس نے اسے سن سولہویں صدی عیسوی کے شروع میں تعمیر کیا کیا تھا اگرچہ یہاں جین مذہب کے مندروں کی تعمیر 1376 ء سے ہو رہی تھی ایک روایت کے تحت یہ بھی ممکن ہے یہ تب ہی تعمیر ہوا ہو ۔ایک روایت یہ بھی ہے کہ اسےایک جین مذہب کے پیروکار مینگھو نے تعمیر کیا تھا جوپاری ننگر کا رہائشی تھا،جو کہ پیرس ناتھ پرسوپو کا ماننے والا تھا، یہ پیرس ناتھ پرسوپو وہیجوصاحب خود گورو گورتھ ناتھ کا مرید تھا۔جو پیرس ناتھ پرسوپو وہیجوصاحب گوری چی خاندان سے تھے اس بناء پر اس مندر گوری مندر کے نام سے جانا جارا ہے۔یہ مندر جین مذہب کے فرقے شویت امبر کے پیروکاروں کا مانا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ بطورمذہبی مدرسہ کے جین مذہب کے پیروکار استعمال کرتے رہے ہیں۔ ایک روایت یوں بھی ہے کہ یہ گوری نہیں گودی ہے گودی جی پرشاناتھ کی مناسبت سے، گودی جی پرشادناتھ دراصل جین مذہب کے تیسویں گرو یا پیغمبر تھےجین مذہب کے کُل چوبیس گرو یا پیغمبر ہیں۔مگر مقامی آبادی چونکہ اسے گوری مندر کہتے ہیں لہذا ہم بھی گوری مندر ہی لکھ رہے ہیں۔
اس مندر کی تاریخ کی کئی روایات ہے بہرحال یہ مندر اسلام کوٹ اور ننگرپارکر کے درمیان واقع یہ جین مذہب کا مندر ماروی کے گاوں سے قریب چار میل کے فاصلے پر ہے۔ تھرپارکر میں ننگرپارکر کا علاقہ میں کبھی جین مذہب کے کافی پیروکار آباد تھے سنا ہے قریب پچاس کے لگ بھگ یہاں جین مذہب کے چھوٹے بڑے مندر ہیں، ہم نے دو ہی کامشاہدہ کیا ہے۔
اس مندر کی تعمیر میں ماربل کا پتھر استعمال کیا گیا ہے خیال کیا جاتا ہے یہ پتھر گجرات سے لایا گیا تھا۔مندر کی تعمیرقدیم قرون وسطی طرز کی ہے۔تقریبا پچاس کے لگ بھگ چھوٹے بڑے گنبد اس مندر کی چھت پر موجودہیں۔مندر کی بیرونی بارہ دری والے گنبدکی اندرونی جانب نقش نگاری کی گئی ہے جو دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ نقش و نگار دراصل جین مذہب کے چوبیس گروز کی تشبیہ ہیں اور اس کے علاوہ عبادات کے مناظر و جانوروں (گھوڑا،ہاتھی وغیرہ) کی تشبیہات ہیں۔
اس وقت یہ مندر تباہی کا شکار ہے تیس فیصد مندر ٹوٹ چکا ہے مندر کے اندر چمگاڈروں کا بسیرا ہے۔ محکمہ آثار قدیمہ نے لوگوں کو متنبہ کرنے کو جو بورڈ لگا رکھا ہے وہ خود زمین بوس ہو رہا ہے اور اُس پر سے تنبیہ تحریر مٹ چکی ہے تو مندر کی حفاظت کا امکان ہی نظر نہیں آتا۔ زیر میں مندر کی چند تصاویر آپ کے دیکھنے کو دی جا رہی ہیں اندازہ لگائے کیسا اثاثہ تباہ ہو رہاہے کیسی تاریخی عمارت تاریک ہو رہے ہے۔