نہ معلوم ہم کب آزاد ہو گے! اپنے ملک میں ہم یوں غلام ہیں کہ بعض دفعہ احساس ہوتا ہے کہ آزادی کی ایک جدوجہد اور درکار ہے ابھی!
4/09/2013
اظہار رائے کو پابند کرنے کی آزادی
نہ معلوم ہم کب آزاد ہو گے! اپنے ملک میں ہم یوں غلام ہیں کہ بعض دفعہ احساس ہوتا ہے کہ آزادی کی ایک جدوجہد اور درکار ہے ابھی!
2/15/2013
فاصلہ رکھیں ورنہ!!!!
BillBoard پر درج قرآنی آیات و احادیث ایسی ہیں جو صاحب شعور کو یہ سمجھا دیتی ہیں کہ دینی تعلیمات سے کی رو سے یہ دن ہمارے معاشرتی اقدار سے ٹکراؤ کا سبب بنتا ہے ۔ جیسے سورۃ النور میں بیان ہے “اور جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی پھیلے اُن کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے” اور یہ فرمان رسول اللہ “جب تم حیا نہ کرو تو جو جہ چاہئے کرو”۔
بات یہ ہے جیسے ہدایت منتخب لوگوں کو نصیب ہوتی ہے ایسی ہی کچھ ایسے بھی ہوں گے جہیں گمراہی کے لئے آزاد چھوڑ دیا گیا ہو گا۔
جن لوگوں کے دلوں پر قفل لگ جائیں انہیں ہدایت نصیب نہیں ہوتی اور ایسے لوگ نہ صرف یہ کہ احکامات ماننے سے انکاری ہوتے ہیں بلکہ اُن کا مذاق بناتے ہیں اُن کا یہ مذاق اُڑانا اُن کے باطل کو پہچاننےمیں مدد دیتا ہے ایسے لوگوں پر غصہ نہیں کرنا چاہئے یہ قابل رحم لوگ ہوتے ہیں کہ اللہ انہیں ہدایت دے۔
سبین محمود اینڈ کمپنی نے ان آیات و احادیث والے BillBoards کے ساتھ کھڑے ہو کر ٹرک آرٹ بنانے والا حیدر علی کے بنائے بینر کے ساتھ کُل آٹھ سے دس تصاویر اُتار کر اپنی فیس بک وال پر یہ تصاویر چپسا کی جہاں سے بلال لکھانی نے انہیں ایکسپریس ٹریبون کے فیس بک اکاؤنٹ پر لگایا۔
قرآنی آیات و احادیث کی غلط تشریح کر کے لوگوں کو گمراہ کرنے والے اور ان آیات کا مذاق اُڑانے والے دونوں ایک ہی صف میں ہیں دونوں کے اسپانسر و آقا بھی ایک ہی ہیں!ایک دین دار بن کر اور دوسرے دین سے بیزار ہو کر خود کو گمراہی کے راستے پر ڈالتے ہیں۔ روشنی کے نام پر اندھیرے پھیلانے والے اور آگاہی کے نام پر بھکانے والےیہ لوگ اس قابل نہیں کہ ان پر اپنا وقت برباد کیا جائے ہاں یہ ضرور ہے کہ ان سے فاصلہ رکھا جائے ورنہ دل بیمار ہو جائے گا! اور یہ بیماری پیار نہیں کرواتی گمراہی لاتی ہے!!
12/29/2012
رن مریدوں کا سانجہ پیر
ایک جگہ پولیس نا کا لگا کر گھڑی تھی کہ پولیس کے ہاتھ چار بدمعاش لگے،علاقہ ایسا تھا جہاں کی پیری مریدی کا سلسلہ رہتا تھا لہذا پولیس آفیسر نے شغل کے طور پر کہا کہ تم میں سے جس کا پیر سب سے ذیادہ طاقت والا ہوتا گا وہ آزاد ہو گا باقی حوالہ جیل۔ لہذا اُن بدمعاشوں نے اپنے اپنے پیروں کا تعارف و تعریف کی۔
پہلا بولا کہ میرے پیر کا نام “لمبا پیر” ہے ، بہت کرامت والا ہے اُس نے لوگوں کو بہت فیض دیا ہے۔
دوسرا بولا کہ میرے پیر کا نام “کھمبا پیر” ہے اور اُس کے مزار پر جا کر منت مانگی جائے تو دنیاوی معاملات میں فائدہ ہو تا ہے۔
تیسرا بولا میں تو “کرامتی پیر” کا مرید ہوں اور ایک دنیا اُس کی کرامات کی گواہ ہے۔
جب چوتھے کی باری آئی تو اُس نے جھجگتے جھجگتے ہوئے کہا میں تو “رن مرید” ہوں۔
اُس نے بس اتنا ہی کہا تھا کہ اچانک ہے پولیس والے نے اُٹھ اُس کو گلے سے لگا لیا اور کہا “اوئے ساڈا تے سانجا پیر اے”
بات یہ تھی دونوں ہی رن مرید تھے مگر رن دونوں کی الگ الگ تھی!!!
اتنا تو ہم نے سُن رکھا ہے کہ پیر کے ہاتھ پر بیعت ہوتی ہے، بیعت ایک طرح سے عہد اطاعت ہوتی ہے۔
یار لوگ پوچھتے ہیں کہ وہ کیا وجہ ہے کینیڈین اور برطانوی پاکستانی “رہنماؤں” میں پائے جانے والی محبت کی وجہ کیا ہے تو اب ہم یہ کہہ دے ہے دونوں کا پیر سانجا ہے تو لوگوں کو بات ہم ہی سمجھ آتی ہے۔ ایسے لیڈر رن مرید ہو ں کوئی ماننے کو تیار نہیں مگر مزید دلچسپ صورت حال تب پیدا ہوتی ہے جب یہ بتا جائے کہ وہ ایک ہی “رن” کے “مرید” ہیں تو یار لوگوں کو یقین نہیں آتا لہذا ہم آپ کی آسانی کے لئے دونوں کے اٹھائے گئے ممکنہ بیعت پیش کر دیتے ہیں۔
کینیڈا کا بیعت!!!
برطانوی بیعت
2/23/2012
مداخلت کیسی؟
“ابے ان امریکیوں کی تو ایسی کی تیسی!”
ابے اب کے کیا ہوا؟ جو ایسی تیسی کرنے کا خیال آیا؟
“دیکھو ذرا تو قرارداد پیش کرتے پھرتے ہیں پاکستان کو توڑنے کی”
اجی کون سے قرارداد پیش کر دی؟
“ابے وہ ہی پاکستان، ایران اور افغانستان میں سے ایک نئی ریاست بنانے کی تاکہ بقول خالق قرارداد کے وہ ریاست یہاں انتہا پسند کے خلاف اُن کی معاون ہو”
تو پھر؟
“تو پھر یہ کہ ہم ایسی کوئی امریکیوں کی حرکت برداشت نہیں کریں گے ہماری حکومت نے بھی ہر سطح پر امریکیوں کو یہ بتا دیا ہے”
(جواب میں زور دار قہقہہ)
“تم یوں کیوں ہنس رہے ہو اس بات پر؟”
بھو لے بادشاہ کس حکومت نے؟ وہ جو ڈراؤن حملے نہیں روک سکی؟ وہ اپنی فوج کے خلاف خود امریکیوں کو خط لکھتی ہے؟ اور وہ جو ہر وقت ہر شعبہ میں امریکی کی امداد وصول کر رہی ہے؟ جو مانگ کر کھاتے ہیں وہ بتاتے ہیں بلکہ بتائی بات پر عمل کرتے ہیں”
2/19/2012
اور کچھ درکار ہے؟
*بی بی سی اردو نے خبر لگائی “بلوچستان کی آزادی کے حق میں قرارداد” ہم نے یوں سمجھا “پاکستان کو توڑنے کے حق میں قرار داد”!! اپنی اپنی سمجھ و سوچ کی بات ہے۔۔
بلوچستان پر لکھنے والے اکثر یہ خیال کرتے ہیں کہ اہل بلوچستان سے باقی پاکستان کو کوئی ہمدردی نہیں مگر حقیقت ایسی نہیں! جن دشواریوں میں بلوچستان میں بسنے والے ہیں اُن کی مشکلات کا شکار باقی پاکستان ہے۔ کہتے ہیں موجودہ نئے بد ترین حالات کا آغاز بلوچستان میں 2004 سے شروع ہوا یہ تب ہی کی بات ہے جب پڑوس میں امریکی اُتر آئے تھے اور تازہ تازہ امریکیوں کا بھارت سے طالبان کے خلاف خفیہ اتحاد ہوا تھا اور را کو افغان سر زمین پر جگہ ملی مگر سچ یہ ہے کہ اُن پر الزام لگانے سے پہلے ہمیں اپنی کمزوریوں پر نظر رکھنی چاہئے۔
2007 سے پاکستان نے بین الاقوامی سطح پر بلوچستان میں بیرونی مداخلت کا کئی مرتبہ ذکر کیا اور اس سلسلے میں بھارت کو قصوروار بتلایا مگر اتنی ہمت نہ کر سکے کہ نیٹو و امریکہ کو بھی شریک کار بتلائے۔ ہم بین الاقوامی معاملات سے نا واقف ہیں مگر امریکی ایوانِ نمائندگان میں ریپبلکن جماعت کے نمائندے ڈینا روبا کی پیش کردہ قرارداد کو ہر گز صرف ایک فرد کا ذاتی فعل سمجھنے سے قاصر !
ذاتی فعل بتاتے ہوئے ڈینا روبا کی پاکستان مخالفت بیان کرتے ہوں اس حرکت سے قبل بھی دو معاملات کا ذکر کیا جاتا ہے اول 2009 میں کانگریس میں کیری لوگر بل کے خلاف ووٹ ڈالنا دوئم گزشتہ سال پاکستان میں امداد روکنے کو “Defund United States Assistance to Pakistan Act of 2011” نامی بل ایوان نمائندگان میں پیش کرنا۔
ڈینا روبا سے آگے کی بات اس سلسلے میں یوں کہی جا سکتی ہے کہ اس سال پہلے مرتبہ 13 جنوری کو امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان Victoria Nuland نے بلوچستان کے معاملے میں اظہار ان الفاظ میں کیا!۔
جسے اُس وقت ہی نیٹ پر کافی ڈسکس کیا گیا تھا۔
اس کے علاوہ 8 فروری کو کانگریسی بحث رکھی جس میں دیگر چار افراد کے ہمراہ علی حسن (ہیومن رائیٹ کمیشن، ڈائریکٹر پاکستان)بھی شریک تھے۔ جس میں آزاد بلوچستان کی تجویز بھی سامنے آئی اور اب یہ قرارداد۔ کیا اور کچھ بھی درکار ہے سالمیت پر حملے کو؟
2/14/2012
ویلنٹائن ڈے بارے
حقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ ویلنٹائن ڈے پو 85 فیصد کارڈ خواتین خریدتی ہیں اور 15 فیصد مرد۔ کل خریداروں کی تیس فیصد تعداد ایسے ہے جو ایک سے ذیادہ کارڈ خریدتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق ویلنٹائن ڈے پر پھول خریدنے والوں میں 75 فیصد مرد اور 25 فیصد خواتین ہوتی ہیں جبکہ 18 فیصد خواتین ایسی ہیں جو خود اپنے لئے پھول خریدتی یا منگواتی ہیں خریدتی ہیں۔
قریب ایک تہائی مرد ویلنٹائن ڈے پر تحفہ وصول کرنے کے خواہش مند نہیں ہوتے اوی 22 فیصد کے قریب خواتین ایسی ہوتی ہیں۔
ہر ویلنٹائن ڈے پر قریب 55 سے 60 فیصد امریکن خواتین اس عزم کا اظہار کرتی ہیں کہ اگر اُن کے پاٹنر نے اُنہیں اس ویلنٹائن پر تحفہ نہ دیا تو وہ اُسے چھوڑ دے گی پھر بھی اکثر مردوں کی جان نہیں چھوٹتی اور اکثریت خواتین اپنے طور پر وجہ تراش کر انہیں معاف کردیتی ہیں۔
ویلنٹائن ڈے پر سب سے ذیادہ کارڈ بچوں کی جانب سے اپنے ٹیچر کو موصول ہوتے ہیں۔
ایک اور تحقیق کے مطابق ویلنٹائن ڈے کے موقعے پر کئی نو عمر بچے و بچیاں ویلنٹائن نہ ہونے پو احساس کمتری کا شکار ہوتی ہیں جن میں سے ایک مخصوص تعداد خودکشی کی کوشش بھی کرتی ہے۔
ایک رائے کے مطابق چالیس فیصد افراد ویلنٹائن سے متعلق منفی رائے رکھتے ہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ 10 ملین افراد ویلنٹائن ڈے پر خریدا گیا تحفہ دراصل اپنے پالتو جانور کو دیتے ہیں۔
26 فیصدویلنٹائن ڈے کی مخالفت کرنے والے گھر کی چار دیواری میں کسی ناں کسی کو ہیپی ویلنٹائن کہتے ہیں اسی طرح 13 فیصد تعداد ایسی ہے جو صرف اپنے پاٹنر سے ویلنٹائن کی مخالفت کرتے ہیں۔
(اس کے علاوہ بھی انٹرنیٹ پر کئی دلچسپ فیٹ تھے مگر وہ قابل سنسر تھے لہذا اُن کا ذکر نہیں کر رہے)
11/27/2011
تم قومی غیرت کی بات کرتے ہو؟
دلچسپ بات یہ کہ ای میل کے تبادلے مین ایک اہم الزام ہم پر یہ لگا کہ ایک تو میں متعصب ہوں دوسرا تنگ نظر! ہم انکار نہیں کرتے ممکن ہیں دونوں باتیں درست ہوں کیونکہ بقول ہمارے بڑوں کے یہ دونوں بیماریاں جس میں ہوتی ہیں وہ خود میں اس کی تشخیص نہیں کر سکتا یوں ہم اس پر اپنی رائے نہیں دیتے اور چونکہ ہم “اُبھرتی آواز” کی شخصیت سے واقف نہیں تو اُس پر تبصرہ نہیں کرتے۔
ای میل تبادلے میں جو بات وجہ تنازعہ بنی وہ وہ ہی معاملہ ہے جو نیٹو و پاکستان کے درمیان وجہ تنازعہ ہے۔ یعنی پاکستانی سرحد پر نیٹو کا حملہ۔ ہمارا موقف یہ تھا کہ عوامی رد عمل کی غیر موجودگی میں فوج اس معاملے پر اپنی آواز بلند نہ کرتی! اور فوجی ردعمل بھی چند دن میں عامی جذبات کے ٹھنڈا ہونے پر اسکرین سے غائب ہو جائے گا۔ مگر “ابھرتی آواز” اس سے متعفق نہیں تھے۔
میرا کہنا یہ ہے کہ ہم گذشتہ 11 سال کی اس جنگ میں چالیس ہزار جانے گنوا چکے ہیں۔ جون 2004 سے اب تک 290 ڈراؤن حملوں میں قریب 2700 کے قریب جانوں کا نقصان اُٹھا چکے ہیں ان ڈھائی ہزار مرنے والوں میں سے آفیشلی 98 فیصد افراد کے متعلق سب کا اتفاق ہے (مارنے والوں کا بھی) کہ وہ بے گناہ تھے بقایا دو فیصد پر بھی شبہ ہے کہ ممکن ہے اُن کے اکثریت بھی مطلوبہ ٹارگٹ نہ ہوں بمشکل 70 سے 90 افراد کے درمیان پر قیاس ہے کے وہ اُن کے مطلوبہ “دہشت گرد” ہیں۔ اتنی بری تعداد میں بے گناہ پاکستانی شہریوں کی اموات پر کوئی ردعمل نہیں ہوا تو اب کیسے فوجی جرنیل کی غیرت جاگ سکتی ہے؟
اور قومی غیرت کا یہ حال ہے کہ ہم نے اُس چالیس ہزار شہیدوں کو یاد رکھنے کا کوئی ایک بہانہ بھی نہیں تراشہ یار کیا رکھیں گے؟ غیر ملکی فوج کے ہاتھوں ڈراؤن اٹیک میں مرنے والوں کا کبھی نہیں سوچا تو اب کے کیا کر لیں گے؟
اپنے فوجی کے مرنے پر ردعمل دیکھنا ہو تو دور کی کیا مثال دوں اپنے نام نہاد اتحادیوں کو ہی دیکھ لو۔ مئی 2007 میں ایک پاکستانی فوجی نے جذبات میں آ کر ایک امریکی فوحی میجر لیری کو مار (پوری دہشت گردی کی جنگ میں کسی پاکستانی فوجی کے ہاتھوں مارے جانے والا واحد اتحادی فوجی) گیا تو امریکی میڈیا ہے اُسے فیچر کیا۔ اُس وقت ہی نہیں بلکہ پر سال اُس کی برسی پراور اس کے علاوہ بھی بہانے بہانے سے لکھتے ہین اور ہر بار اسے ایک فوجی کا جذباتی انفرادی رد عمل نہیں بتاتے بلکہ پاکستانی فوج کی اندرونی سازش قراد دیتے ہیں ایسا آخری فیچر نیو یارک جیسے اخبار نے شائع کیا جبکہ پینٹاگون آفیشلی یہ کہہ چکا ہے کہ ہونے والی تفتیش میں یہ ثابت ہوا ہے کہ یہ ایک انفرادی عمل تھا۔ مزید یہ کہ انہوں نے اپنے مرنے والے فوجی کی یاد میں ایک میموریل فنڈ قائم کیا ہے جس کے تحت نہ صرف طالب علموں کو اسکالرشپ دی جاتی ہے بلکہ ہر سال بیس بال ٹورنامنٹ کا بھی انعقاد ہوتا ہے۔
اور دیکھ لیں “اُبھرتی آواز” ہم کہاں کھڑے ہیں؟ موجودہ ڈرامے بازی کو آپ رد عمل کہتے ہیں تو آپ کی مرضی۔
جب تک ہم اس “دہشت گردی” کی نام نہاد جنگ کا حصہ ہیں تب تک تبدیلی حاکم و جرنیل کت رویے میں مجحے نظر نہیں آتی۔
آپ اپنی شناخت تو بتانے کی ہمت نہیں رکھتے! قومی غیرت کہاں سے دیکھاؤ گے؟
11/26/2011
یادداشت یعنی memo
“کیوں؟ تجھے اس سے کیا لینا ہے؟”
یار ویسے ہی پوچھ رہا ہوں ہر بندہ ہی اس کی بات کرتا ہے، اس لئے پوچھ رہا تھا۔
“کچھ نہیں ہے بس ذرا فوج و حاکم مل کر 'مخول' کر رہے ہیں”
کیا مطلب ہے تمھارا؟ حسین حقانی کو سفارت سے ہٹا دیا، فوج کی مرضی کا سفیر بھیجنے کے بجائے وہ شیری رحمان کو اسمبلی سے استعفیٰ لے کر سفیر بنا کر بھیج دیا، اس مراسلے پر تفتیش ہو رہی ہے اور تمہیں یہ مخول لگتا ہے؟
“اُس میمو یا مراسلے کو چھوڑ، یہ دیکھ جہاں فوجی جرنیل و حاکم ملک میں ہونے والے ڈراؤن حملے نہ روک سکیں، دوسرے ملک کے کی فوج ملک میں داخل ہو کر فوجی کاروائی کر جائے انہیں خبر نہ ہو، دوسری فوج کے طیارے سرحدی چوکیوں پر حملہ کر کےاپنے فوجی مار جائے اور اپنی فوج کا سربراہ صرف مذمتی بیان جاری کرے۔ ابے وہاں ایک مراسلے پر تماشہ لگےیہ مخول ہی تو ہے”
تمہارا مطلب ہے کہ جرنیل و حاکم آپس میں مخول کر رہے ہیں؟
“نہیں تو”
یہ کیا مذاق ہے آپس میں تو کس سے؟ تو نے مجھے پاگل سمجھ رکھا ہے کیا؟
“ابے مخول تو یہ تیرے و میرے سے کر رہے ہیں، یعنی عوام سے۔ آپس میں تو ان کی یہ لڑائی سوکنوں والی ہے جو پیا من کو بھانے کو لڑتی ہیں، بس پیا کو یقین آ جائے میں اُس کی سکی ہوں دوسری تو ڈرامے باز۔کام ہو جائے آج جو یاداشت دجہ تنازعہ ہے وہ کل کسی کی یاداشت میں نہ ہو گی”
9/06/2011
جمہوریت کی پٹری
8/28/2011
نوبت یہاں تک کیوں آن پہنچی
ایک اب تک کی غیر مصدقہ خبر چونکہ غیر مصدقہ ہے اس لئے آپ اسے افواہ کہہ لے یہ ہے کہ ایم کیو ایم نے حکومت میں واپسی کی شرط یہ رکھی تھی کہ ذوالفقار مرزا سندھ کی سیاست سے آؤٹ ہو جائے اور اس ہی شرط کو پورا کرنے کے لئے آصف علی زرداری نے گذشتہ تین چار (جب کراچی میں گیلانی صاحب آئے تھے اور رحمان ملک پر مرزا صاحب پھٹ پڑے تھے تب سے) روز سے ذوالفقار مرزا کو اپنے پاس بلا کر بٹھا رکھا تھا یہاں تک کہ اُن کا موبائل فون بھی اُن سے لے لیا تھا! اور اُنہیں اُن کی پسند کے ملک میں سفیر بنانے کی پیش کش ہوئی مگر مرزا نہ مانے تو استعفی مانگ لیا اور مرزا نے ایسا راستہ اختیار کیا کہ نہ نگلے بنے اب اور نہ اگلے!
ذولفقار مرزا نے اس پریس کانفرنس کی تیاری کن کے ساتھ کی یہ ایک الگ معاملہ ہے! اور جو مواد دوران پریس کانفرنس اُن کے پاس تھا وہ تفتیشی مواد وہ ساتھ نہیں رکھ سکتے تھے یہ ایک الگ قانونی بحث ہے۔ اُن کے تمام الزامات یوں بھی غلط ثابت کرنا ایم کیو ایم کے لئے ممکن نہیں کہ ان کے تمام دستاویزی ثبوت درحقیقت اُن کے پاس تھے سوائے ایک الزام کے جو انہوں نے سب سے اخر میں قرآن پاک کو اپنے سر پر رکھ کر لگایا۔ ایم کیو ایم و الطاف کا امریکی مدد سے پاکستان توڑنے کا! اس پر امریکی وضاحت بھی جلد آ جائے گی
7/03/2011
ہم کہیں گے تو شکایت ہو گی
امریکی اسٹیٹ ڈپاٹمنٹ کی ویب سائیڈ پر اگر "سفارت کار ہو حاصل استہقاق" والی دستاویز کے صفحہ 164 پر درج ہے
یعنی کہ امریکی حکومت کے بیان کردہ اصولوں میں یہ بات تو تسلیم کی گئی ہے کہ 'استہقاق کے حامل افراد کی یہ ذمہ داری و فرض ہے کہ وہ متعلقہ ریاست کے اصول و ضوابط اور قوانین کا احترام کریں'
اردو محفل کی اس پوسٹ سے معلوم ہوا کہ اسلام آباد میں موجود امریکی سفارت خانے میں پاکستان میں ہم جنس پرستوں کے جشن کی تقریب منعقد کی، پاکستان میں امریکی تعاون سے منعقد ہونے والی یہ پہلی ہم جنس پرستوں کی محفل تھی۔ یہ تقریب گزشتہ ماہ 26 جون کو منعقد کی گئی۔
یعنی گزشتہ ماہ کے آخری عشرے میں کم و بیش اس طرح کی دو تقریبات ہوئی اور ایک کو مقامی اخبارات میں من چاہی کوریج ملی! انگریزی و اردو دونوں اخبارات میں۔ پہلی تقریب جو نتھیا گلی مین ہوئی اُس کو بی بی سی نے کوریج دی۔
ہم جنس پرستی اور جنسی بے راروی ہمارے معاشرے میں درست طور پر غلط سمجھے جاتے ہیں اور ہمارا مذہب ان واہیاتیوں کی اجازت بھی نہیں دیتا اور اس ہی لئے ہمارے ملک میں موجود قوانین کے تحت یہ قابل گرفت عمل ہے۔ بات یہاں تک ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر ہر فورم پر پاکستان نے ایسے کسی بھی عمل و قانون کی حمایت سے انکار کیا جس سے ہم جنس پرستی کی حمایت کرنا مقصود ہو۔ اس کی تازہ ترین مثال بھی گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کے فورم پر امریکہ کی جانب سے ہم جنس پرستی کی حمایت میں پیش کردہ قرارداد کے موقع پر پاکستان کے نمائندہ ضمیر اکرام نے صاف طور پر کہا تھا یہ "ہم جنس پرستی کسی طور پر بنیادی انسانی حق نہیں ہے" اس کے باوجود امریکی سفارت خانے کا یہ عمل کہ پاکستان میں ہم جنس پرستوں کی تقریب منعقد کرنا اور امریکی سفارت کار رچرڈ ہوگلینڈ کی طرف مکمل حمایت کا یقین دلانہ ایک غیر مہذب عمل اور اپنے کی بیان کردی سفارتی آداب کے خلاف ہے۔ پریس ریلیز کا متعلقہ حصہ
جہان ہم سمجھتے ہیں کہ امریکی حکومت اور اُس کا سفارت خانہ اپنی اعمال پر خود توجہ دے اور پاکستانی عوام کے جذبات اور قوانین کا احترام کرے وہاں حکومت وقت سے بھی یہ امید رکھتے ہیں تعاون و تعلقات کو غلامی کی حدود سے باہر رکھے اور ایسے معاملات میں سخت موقف اختیار کرے۔ مگر لگتا یہ ہے کہ دونوں کام نہیں ہونے۔
6/23/2011
روشن خیالوں جرنیلوں کا مولوی پن
جی ہم کہہ سکتے ہیں "مولوی" ایک پیشہ نہیں کیفیت ہے یہ کسی وقت کسی میں بھی بیدار ہو سکتی ہے یا پروان پا سکتا ہے اگر ہم یہ مان لیں کہ روشن خیالوں کے الزام کے مطابق "مولوی" ایک ایسا کردار ہے جو اپنے نظریے و سوچ و مقاصد کے راستے میں آنے والی ہر بات و عمل کو اسلام مخالف قرار یا خلاف شریعت قرار دے کر اُس کو کچلنے یا راستے سے ہٹانے کا انتظام کرتا ہے۔
عوام کا عام سا مطالبہ یہ ہے کہ ہماری حکومت و انتظامی ادارے اپنے تمام اقدامات ملکی مفاد میں اُٹھائے مگر ذاتی مفاد کی رسی سے بندھے صاحب اقتدار و اختیار کے حامل طبقہ کے افراد اپنے ہر قدم کو ملک و قوم کے مستقبل کے لئے بتا کر اندھیرے غار کی طرف بڑھتے جاتے ہیں۔
امریکی جی حضوری میں اول اول چند ٹکوں کی خاطر ملک کی نوجوانوں و عزتوں کو فروخت کیا۔ اب معاملہ اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ جب امریکا کی جنگ پر سوال کیا جانے لگا تو خاموش کروانے کے لئے "مولوی" نامی کردار کی روش پر چلتے ہوئے حق کی آواز بلند کرنے والے کو "شدت پسند" یا "انتہا پسندوں" کا ساتھی قرار دے دیا!!
مگر یقین جانے اب بھی روشن خیال کود آئیں گے میدان میں اور "روشن خیالوں کے مولوی پن" سے آپ کو مزید واقفیت دیں گے۔
6/15/2011
سماجی میڈیا کانفرنس
گزشتہ ہفتہ ہم نے آواری ٹاور میں پاکستان (منتظمین کے بقول) کی پہلی بین الاقوامی سماجی میڈیا کانفرنس میں شرکت کی!!۔ اس کو کو امریکی قونصلیٹ نے منعقد کیا تھا، ہاں جی خرچہ اُن ہی کا تھا، اور شرکاء کو دیئے جانے والے اکثر تحفے بھی۔ اس تقریب کو بظاہر پی سی ورلڈ نامی گروپ کی طرف سے منعقد کیا گیا! یعنی کہ International Data Group, Inc نے۔تقریب کا دعوتی و ادارے کے تعارف کا پیج اب اُن کی ویب سائیٹ سے نہ صرف غائب ہے بلکہ فرنٹ پیج بھی ہٹا لیا گیا ہےمزید یہ کہ ان کے ٹویٹر آکاونٹ میں بھی آخری اپ ڈیٹ آٹھ جون یعنی کانفرنس سے دو دن قبل کی ہیں مزید جس سے کچھ اچھا تاثر نہیں اُبھرتا! اور یوں لگتا ہے کہ سب کچھ ایک "خاص پریکٹس" کے لئے کیا گیا۔
اس کانفرنس میں تین اردو بلاگر بھی شریک تھے ایک محمد اسد (جو اپنی نیوز ایجنسی کی طرف سے اس کی کوریج کرنے آئے تھے بطور بلاگر نہیں)، عمار اور میں (ہم اُن کی دعوتی لسٹ میں نہیں تھے اول اول مگر پھر دعوتی میل مل گیا!!)، اس کانفرنس کی روداد عمار نے تحریر کرنی (پہلا حصہ وہ تحریر کر چکے ہیں) ہے دیکھے باقی کا کب مکمل کرتے ہیں! اس کانفرنس کی دوران ایک ویڈیو بطور پرومو چلتی رہی جس میں بیان کی گئی معلومات نہایت عمدہ ہیں اور کام کی مگر اس میں ایک خامی تھی جو مجھے اچھی نہیں لگی!!! پاکستان کے نقشہ میں کشمیر نہیں تھا!! ویڈیو دیکھ لیں!
اس کانفرنس کو اٹینڈ کر کے میں نے محسوس کیا کہ اردو بلاگنگ سے متعلق ایک ورک شاپ نہ لے کر (اس سلسلے میں سستی کا مظاہرہ کر کے) ہم نے غلطی کی ورنہ ایسا کرنا مشکل نہ تھا۔
اپڈیٹ:- پی سی ورلڈ پاکستان کی ویب سائیٹ واپس آ گئی ہے۔
6/06/2011
جہالت بمقابلہ دہشت گردی کی جنگ
جگر کیسا ہے؟
“زخمی"
کیوں کیا ہوا؟
“ابے تو نے بجٹ نہیں دیکھا جو پیش ہوا ہے"
ہاں دیکھا تھا! یار کمال کر دیا اپوزیشن نے وزیر خزانہ کو چوڑیاں تک پیش کر دین تھی مزا آ گیا!!۔
“ابے یہ حال ہے اس قوم کا جہالت پر قائم رہنا!! یہ کون سا اپوزیشن نے جمہوری عمل کیا شور کر کے؟"
تو کیا کرتے؟
“اگر اصل میں جمہوریت پر یقین ہے تو اب اسمبلی میں بجٹ پر بحث کر کے اُسے عوامی بنائیں"
مثلا جناب کیا کرے؟
“اب تم یہ دیکھو کیا بجٹ آیا ہے صحت کی مد میں 16 ارب 90 کروڑ روپے یعنی فی پاکستانی صرف 85 روپے!!! مذاق ہے کہ نہیں"
ہاں!! کم ہیں۔
“اور تعلیم کی مد میں صرف 16 ارب روپے یہ بھی کوئی رقم ہے؟ "
ابے نہیں ہیں ناں پیسے اپنا ملک غریب ہے ناں!!کیا ہوا؟؟ اور ویسے بھی وفاق ہی کی ذمہ داری تو نہیں یہ اب صوبے کی ذمہ داری ہے
“واہ واہ!! دہشت گردی کی جنگ کے لئے قریب 495 ارب رکھے ہیں!! غریب ملک نے یعنی تعلیم کے مد میں پورے سال کا بجٹ دہشت گردی کی جنگ کے ایک دن کے بجٹ کے برابر!!!”
تو کیا ہو!! ہر ایک کی اپنی اہمیت ہے!!!۔
“تو تمہارا خیال ہے جہالت کے اندھیروں سے پھوٹنے والی جنگ پر اربوں خرچ کرنا بہتر ہے مگر جہالت کو ختم کرنے کے لئے کرچ کرنا اہم نہیں؟؟"
یار پتا نہیں تم کیا کہہ رہے ہو!!! خدا حافظ
5/08/2011
ہارن آہستہ بجائیں!!
ملیر بار کے سیکٹری جنرل جو کے ایبٹ آباد سے تعلق رکھتے ہیں کل ہے اپنے شہر گئے! آج اُن کا ایک ایس ایم ایس ہمین موصول ہوا! ایس ایم ایس کیا تھا ایبٹ آباد میں موجود عوامی رائے کا اظہار تھا اُن کے بقول انہوں نے پی ایم اے ایبٹ آباد کے قریب دیوار پر لکھا ہے!
3/21/2011
غریب، برگر بچے اور انقلاب
“غریب بہت ہی غریب ہوتا ہے، اُس کے پاس پینے کو Nestle کا پانی بھی کم مقدار میں ہوتاہے، وہ پیسے بچانے کے لئے Nestle کی بڑی بوتل خریدتا ہے، یہاں تک کہ ذیادہ گرمی میں وہ جوس پینے کے بجائے اس پانی پر ہی گزارہ کرتا ہے، غریب کے پاس ایک ہی گاڑی ہوتی ہے، اُس کا گھر بھی چھوٹا ہوتا ہے، غریب کے گھر میں سب سے ذیادہ مظلوم اُس کی بیوی ہوتی ہے کیوں کہ وہ بیوٹی پارلر بھی کم ہی جاتی ہے، اور اُسے کئی سوٹ دس سے پندرہ بار سے ذیادہ پہننے پڑتے ہیں جس کی وجہ سے وہ آؤٹ آف فیشن ہو جاتے ہیں۔ غریب نہ صرف خود غریب ہوتا ہے بلکہ اُس کے نوکر، ڈرائیور، مالی، باورچی اور چوکیدار تک غریب ہوتے ہیں۔ اس لئے ہمیں مل کر غربت کے خاتمے کے لئے اپنی جدوجہد کرنے چاہئے"
ہم سوچتے تھے کہ غریب کے لئے جدوجہد ایسے مضامین لکھنے والے ممکنہ بچے کیسے جدوجہد کریں گے؟ تب ہم نے ایک ایسے ہی بچے کی انقلاب کی کاقش سے متعلق یہ ویڈیو دیکھی آپ سے جانے کہ انقلاب کیوں نہیں آ رہا!!
“جلسے کے لئے آپ دیکھے ہماری بہنوں، mothers کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ہم سارے اچھی فیملی کے لوگ ہیں، ہم سڑکوں پر آئے ہیں نعرہ لگانے کے لئے، عمران خان کے لئے، ہمیں اپنی پولیس مار رہی ہیں، ہمیں دھکے دے رہی ہے، ہم انقلاب کے لئے آئے ہیں، اپ کے ملک کے لئے آئے ہیں، ہر بندہ اپنے ملک کے لئے نکل کر آیا ہے، اس گرمی میں کون اتنا جلوس کرتا ہے؟ پولیس والے ہمیں دھکے دے رہے ہیں! کس کے لئے؟ ایک انگریز کے لئے! ریمنڈ ڈیوس کے لئے؟ لاہور میں وہ خون خرابے کر کے بھاگ گیا اپنے ملک! ہماری عافیہ صدیقی کے ساتھ کیا ہوا؟ اتنا انصاف تو کسی میں نہیں ہے! ہم سارے سڑکوں پر آئے ہیں، ہمارے گھروں میں بھی پردے ہوتے ہیں! ہماری عورتیں بھی پردے کرتی ہیں مگر جب انقلاب کی ضرورت ہوتی ہے گھر میں ہر بندہ نکل آتا ہے۔ کیوں؟(لوگوں سے سوال) میں جھوٹ بول رہا ہوں؟ میں صحیح بول رہا ہوں ناں؟ (آوازیں : جی جی) سارا بندہ نکل آتا ہے! سر ہمیں اپنی پولیس مار رہی ہے ہم انقلاب کیسے لائے گے؟ آپ بتائیں! آپ میڈیا والے ہیں آپ ہمارے ساتھ اگر ہوں گے تو تب انقلاب آئے گا! اگر پولیس والے ہمیں مارے گے نہیں تب انقلاب آئے گا! آپ دیکھے عمران خان اُس کا کیا ضرورت ہے؟ وہ تو بہت امیر بندہ ہے، وہ اوپر کھڑا ہوا ہے وہ بھی جلسے جلوس دے رہا ہے اُس کو بھی دھکے لگ رہے ہیں۔ ہر ببدے کو Left, Right, Central دھکے دے رہے ہیں! یہ میرے بھائے گرمی میں خراب ہو گئے ہیں! ہمیں کوئی ضرورت ہے یہاں آنے کی"
کر لو گل!!! اے کی اے؟؟؟ مجھے ذاتی طور پر اس لڑکے کے خلوص پر شبہ نہیں! یہ سچے جذبے سے ممکن ہے سرشار ہو مگر زندگی کی حقیقت نے نا واقف ہے!!
ممکن ہے ایسے ہے پولیس کی دنڈے کے ڈر سے انقلاب سے بھاگنے والے کارکنان سے مایوس ہو کر عمران خان نے لندن والی سرکار کو فون کیا ہو "پیر صاحب! ہمارے بندے تو پولیس سے جان کی امان مانگتے ہیں وہ منتر مجھے بھی دے دو جس سے آپ کے کارکنان پولیس کو جان سے آہو!!!!”
اپ ڈیٹ:- اس جذباتی جذبے والے لڑکے کا رد عمل:
3/17/2011
اُس کے اطمینان کا کیا ہو گا؟؟
“تو آپ لوگ وکیل ہیں"
ہم "جی جناب، کوئی قصور اس میں ہمارا؟"
رکشہ والا "نہیں جناب قصور آپ کا کیا ہونا ہے، مین نے تو ویسے ہی پوچھ لیا کہ آپ نے ابھی پولیس والوں کو اپنا تعارف کروایا تھا ناں اس لئے"
ہم "اچھا"
رکشہ والا "ویسے صاحب میں مکمل ان پڑھ بندہ ہو مگر یہ جانتا ہوں کہ جس کو قانون آتا ہے ناں وہ بڑا تیز بندہ ہوتا ہے، دوسرا ہم تو ویسے ہی وکیل کا گرویدہ ہے"
ہم "یار گرویدہ تو ہم ہے آپ لاہوریوں کے آپ نے جو ڈیوس کو پکڑا"
رکشہ والا "صاحب ہم نے کیا پکرنا تھا، اُس کی قسمت ہی بری تھی قابو آ گیا"
ہم " نہین یار بڑا کام کیا تم لوگوں نے"
رکشہ والا "صاحب ویسے ایک بات ہے جب سے وہ پکڑا گیا ہے ناں ایک عجیب سا اطمینان ہے اندر، یہ پولیس والے بھی اب مطمین نظر آتے ہیں ذیادہ تنگ نہیں کرتے ورنہ پہلے تو بہت سوال کرتے تھے"
ہم " کیا اطمینان؟ اور پولیس والے کیسے مطمین ہو گئے؟"
رکشہ والا " ارے صاحب، جب کوئی مجرم مکمل ثبوت کے ساتھ پکڑا جائے اور مناسب تشہیر سے یہ احساس ہو کہ اسے قرار واقعی سزا ہو گی تو ہم غریبوں کو اندر سے اطمینان ہوتا ہے کہ انصاف ہو گا، اور پولیس بھی اچھی لگتی ہے محافظ معلوم ہوتی ہے ورنہ تو دشمن۔ صاحب اُس دن سے ہمارا روزگار بھی بڑھا ہے"
ہم "کیا بات ہے آپ تو بہت گہری باتیں کرتے ہوں"
رکشہ والا "ارے صاحب کیوں مذاق اُڑاتے ہوں"
آج ریمنڈڈیوس کی رہائی کی خبر سن کو جو دوسرا شخض ہمارے ذہن میں آیا وہ وہی رکشہ والا تھا۔۔۔۔ اب سوچتا ہوں اُس کے اطمینان کا کیا ہو گا؟؟ اور سچی بات بتاؤ اب تو خود مجھے بھی عدم تحفظ کا احساس ہو رہا ہے کیا معلوم کب کہاں کوئی ریمنڈڈیوس کسی گاڑی سے مجھ پر بھی فائر کر دے؟
2/22/2011
بھوک ہرتال
اوئے فکر نہ کر ڈرامہ ہو گا امریکہ ہو یا اُس کا ایجنٹ دونوں بھوکے نہیں رہتے البتہ بھوک کے لئے بندے مار دیتے ہیں خواہ بھوک تیل کی ہو یا اقتدار کی!۔