Pages

7/10/2019

جج کا ملاقی فرد

آج کل ایک منصف کی ویڈیو کا بہت شور ہے ویڈیو میں گفتگو کے مواد سے قطع نظر ایک معاملہ یہ بھی ہے کہ جج صاحب اپنی رہائش گاہ پر کس فرد سے ملاقی ہو رہے ہیں ایک ایسا فرد جس کا اپنا ایک کریمنل ریکارڈ ہے او رجو ایک ایسے فرد کا سیاسی سپوٹرجس کے مقدمہ کا فیصلہ ان جج صاحب نے کیا ۔ جج کے لئے سوشل ہونا کبھی بھی درست نہیں سمجھا گیا اور جن چند ایک سے ممکنہ طور ملنا لازم ٹہرے اس سلسلے میں بھی انہیں ملاقاتی کے کردار اور شہرت کو بھی دیکھنا ہوتا ہے۔
قریب آٹھ دس سال قبل ایک ایسے ہی معاملے پر دوران گفتگو بیرسٹر شاہدہ جمیل نے ہمیں اس سلسلے میں بطور مثال اپنے دادا سر شاہ محمد سلیمان (یہ الہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہے ہیں 1932 سے 1937 تک) کا ایک قصہ سنایا تھا کہ او ل تو وہ عوامی تقریبات میں جاتے نہ تھے تاہم انہیں ایک بار اس علاقے کے ایک ایسے کاروباری فرد کی جانب سے شادی کی تقریب کی دعوت موصول ہوئی جسے نظرانداز کرنا ان کے لئے ممکن نہ ہو پا رہا تھا۔ ایسے میں انہوں نے اپنی ہائی کورٹ کی رجسٹرار کی ذمہ داری لگائی کہ وہ معلوم کر کے آگاہ کرے آیا اس دعوت دینے والے محترم یا ان کے خاندان کے کسی فرد کا کو ئی مقدمہ ان کی عدالت میں تو نہیں ، طے یہ پایا کہ اگر مقدمہ ہوا تو وہ اس تقریب میں شرکت سے معذرت کر لیں گے۔ رجسٹرار نے رپورٹ کی کہ اس کا کوئی مقدمہ یا تنازعہ اس عدالت کے روبرو نہیں ہے لہذا دعوت قبول کی گئی۔ پروگرام کے مطابق جب دعوت میں شرکت کے لئے پہنچے تو عدالت کا رجسٹرار بھی ہمراہ تھا تقریب میں شریک افراد کو دروازے پر ریسیو کرنے والوں میں ایک فرد ایسا تھا جو اگرچہ مدعو کرنے والے کا رشتہ دار نہ تھا مگر اس کا ایک مقدمہ عدالت میں زیرالتواء تھا چیف جسٹس صاحب تقریب کے دروازے سے واپس ہو لئے۔ یہ کردار اب میسر نہیں ہیں۔
منصف کے لئے انصاف کی پہلی سیڑھی یہ کہ وہ ہر اس تعلق سے کنارا (نظر انداز) کرے جو کسی بھی طرح اس کے فیصلے پر اثر انداز ہو سکتا ہو۔ ہمارے ایک دوست ایڈیشنل سیشن جج نے تو نوکری جوائن کرنے سے ایک دن قبل اپنی فیملی کے افراد کو جمع کر کے کہا وکالت کے دور میں اور اب میں فرق ہے یاد رکھنا کل سے میں ایک بہت بڑی ذمہ داری پر ہو گا لہذا کبھی یہ مت سمجھنا کہ تم لوگوں کی وجہ (سفارش) سے میں انصاف میں کسی قسم کی کوتاہی کا مرتکب ہو کر اپنی آخرت کا سودا کروں۔ یہ بات انہوں نے شاید ہمیں بھی (دوستوں کی ایک محفل میں) اس نیت سے سنائی کہ مستقبل میں انہیں دوستوں سے اور دوستوں کو ان سے کوئی غلط امید یا شکایت نہ ہو۔
کچھ فرائض سخت احتیاط اور احساس ذمہ داری سے منسلک ہوتے ہیں۔

4/21/2018

دعا، طلب اور شرف قبولیت

یوں لگتا ہے کچھ دعائیں منظور ہو کر نہیں دیتی چاہے کتنا رو کر مانگو اور کچھ خیالات ابھی طلب کی دہلیز پر پہنچتے بھی نہیں کہ پورے ہو جاتے ہیں۔ مطلوب کے نہ ملنے کا احساس بن مانگے ملنے والی نعمتوں پر شکر گزاری کے راستے بند کر دیتا ہے۔
بڑے بزرگ کہتے ہیں جو دعائیں قبولیت کا شرف نہیں رکھتی ان کے بدل میں ملنے والی نعمت دراصل انمول ہوتی ہیں مگر اس کی آگاہی صرف اس کو ہو پاتی ہے جو شکر گزار  و رب کی رضا پر مطمئن ہو بصورت دیگر بندہ ایسی راہ پر چل نکلتا ہے جس سے آخرت کی کھیتی و فصل دونوں تباہ ہو جاتے ہیں۔
دعا و شکر گزاری کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔  شکر گزاری دراصل دعا کی قبولیت کی سند ہے۔ خالق کی عبادات، اللہ کے بندوں کی مدد و ان پر احسان، ہر مشکل و تکلیف پر صبر، مختصر یہ کہ زندگی کے ہر لمحہ میں اللہ کو یاد رکھنا ہی شکرگزاری ہے۔
اسے اپنے بندے کا رو رو کر مانگنا پسند ہے مگر نہ ملنے پر اپنے بندے کا رونا نہیں۔ طلب کے پورا نہ ہونے پر شکایت کرنے والے عموماً ذہانت سے نہیں عقل سلیم سے مرحوم ہوتا ہے جس کی ایک شکل گمراہی کی وہ سطح ہے جب کوئی رب کی ذات سے مایوس ہو کر اس کے ہونے سے انکار کر دیتا ہے۔
مانگو!! اس کی ذات سے یہاں تک خواہش کے پورے نہ ہونے پر مانگ بدل جائے مگر مایوسی تمہیں اپنی لپیٹ میں نہ لے مانگ کا بدلنا بھی سند خوشنودی ہے۔

12/13/2017

جی نہیں میں بلاگر نہیں رہا!!!!

یہ ابتدائی وکالت کے پہلے چھ ماہ کی بات ہے۔ ہمارے ایک دوست ایک فوجداری کیس میں پھنس گئے۔ چونکہ ان کی جان پہچان میں ہم ہی تھے، لہٰذا وہ مسئلہ بیان کیے بغیر ہمیں رفیق بنا کر لے گئے اور ایک پولیس والے سے ملوایا۔

چائے کیفے میں، اے ایس آئی صاحب ہمارے دوست کے "جرم" کی تفصیل بیان کر رہے تھے اور ساتھ ساتھ ہمارے لیے اپنے احسانات کی رعایتیں بھی بتا رہے تھے ۔ ہم صرف "جی جناب، شکریہ" کہتے رہے۔ وجہ سادہ تھی: جرم و قانون کی سمجھ تو نہ تھی، لیکن پولیس والا ہر بات پر کہتا،
"وکیل صاحب، آپ تو قانون سمجھتے ہیں، آپ ہی سمجھائیں۔"

گھر آ کر ہم نے متعلقہ کتاب کھولی اور حقیقت جانچی۔ معلوم ہوا کہ پولیس والا "کمائی" کر گیا، ورنہ معاملہ اتنا سنگین نہیں تھا جتنا وہ بتا رہا تھا ۔

تب ہم نے سیکھا کہ جھوٹی تعریف اور کم علمی دونوں پروفیشنل زندگی کے لیے نقصان دہ ہیں۔ اور یہ کہ جو علم نہ ہو، اس بارے ضرور پوچھیں، جان لیں اور پھر آگے بڑھیں۔ یہ خیال کہ ہمیں سب آتا ہے، اتنا خطرناک ہے جتنا یہ کہ کوئی شعبہ یا کیس پہلے نبردآزما ہو چکا ہو، اس لیے وہ بہتر جانتا ہو۔

گزشتہ دنوں میٹرک کے ایک دوست سے ملاقات ہوئی۔ باتوں باتوں میں پرانی یادیں تازہ ہوئیں۔ کسی بات پر اس نے کہا:
"تم تو سمجھتے ہو گے، آخر بلاگر ہو۔"

ہمیں یاد آیا کہ واقعی بلاگر ممکن ہے اپنی پروفیشنل زندگی کے مخصوص معاملات میں جانکاری رکھتا ہو، لیکن ہر فن کا ماہر نہیں۔ اہل علم وہی ہے جو علم حاصل کرنے کی جدو جہد جاری رکھے۔ صرف اظہار رائے صاحب علم ہونے کی دلیل نہیں 

12/11/2017

اور سڑک بن گئی!!!!

یہ قریب بیس سال قبل کی بات ہے میرے رہائشی علاقے ماڈل کالونی کی ایک نہایت مصروف سڑک ماڈل کالونی روڈ مکمل طور پر تباہ تھی۔ ہم یار دوست اکثر مذاق میں کہتے کہ جس نے جھولے لینے ہیں وہ بائیک لے کر اُس طرف چلا جائے۔ مگر پھر ایک دن صبح صبح اس سڑک پر کارپیٹنگ ہوئی ہوئی تھی مکمل سڑک نئی نئی سی معلوم ہوتی تھی دیکھ کر حیرت اس لئے ہوئِی کہ ایک دن قبل جب وہاں سے گزر ہوا تھا تو "جھولے" لے کر آئے تھے مطلب سڑک خستہ حالت میں تھی۔ معلومات لینے پر معلوم ہوا کراچی کی مشہور زمانہ پارٹی کے لیڈران نے ایک جلسہ کی سلسلے میں تشریف لانا تھا س لئے ایک ہی رات میں انتظامیہ نے "فرض شناسی" کا ثبوت دیا جو اہل علاقہ کے لئے چند دنوں کی "سہولت" کی شکل میں برآمد ہوا۔
تب یہ جانا کہ اگر آپ کے علاقے میں بہتری چاہے وقتی یا مستقل ان "جلسوں" کے مرہون منت ہوتی ہے جن کے سبب انہیں آپ کے محلے آنا پڑے۔ یوں وہ سڑک ہر جلسے و سیاسی ایکٹیوٹی پر "نئی " سی ہو جاتی مگر اب پھر دو سالوں سے وہ دوبارہ اجڑی ہوئی ہے۔
قریب ڈھائی سال قبل عمرکوٹ میں تعیناتی ہوئی تو میرپور خاص سے عمر کورٹ تک کی روڈ کی حالت زار دیکھ کر افسوس بھی ہوتا اور غصہ بھی آتا کہ یہ ہماری صوبائی حکومت کام کیوں نہیں کرتی۔ مگر ڈیڑھ ماہ قبل اس سڑک کی قسمت جاگی اور یہ سڑک بہتر انداز میں کارپیٹ ہونا شروع ہوئی چونکہ سیاسی جماعتوں کے جلسے پہلے بھی ہوتے رہے مگر اس روڈ کی حالت جوں کی توں رہی اس لئے اول خیال یہ آیا کہ ممکنہ طور پر یہ الیکشن سے قبل کیا جانے والا کام ہے مگر جب گزشتہ اتوار مقامی رہنما کے بیٹے کی شادی میں شرکت کے لئے مختلف "رہنماؤں" اور خاص کر صوبے کے حاکم جماعت کے تمام وہ لیڈر جن کا تعلق سندھ سے تھا کی آمد ہوئی تو معلوم ہوا یہ "ترقیاتی پروجیکٹ" اس شادی کی بدولت ہے۔
ایسی ہی خبر اس سے قبل لاہور سے "بنت مریم" کے گھر اپنی والدہ کی آمد پر تعمیر کی جانے والی سڑک سے جڑی ہے۔ یوں یہ بات پکی ہو گئی ہے کہ ہمیں اپنے اپنے علاقے کی بہتری کے لئے یقین کوئی ایسی ہی تقریب رکھنی پڑے گی ورنہ کوئی امید بر نہیں آتی۔

7/05/2016

گزری عیدیں!!

عید تو بچوں کی ہوتی ہے جب بچے تھے تو بڑوں کی زبانی یہ جملہ سن کر خیال آتا کیسے ہیں یہ ہمارے بڑے ہیں اپنی مرضی کر سکتے ہیں جیب میں پیسے ہیں جو چاہے کھائیں جیسا دل کرے ویسے کپڑے بنوائیں پھر بھی کہتے ہیں کہ عید ہماری ہے ان کی نہیں! عجیب لگتی تھی ان کی بات۔ اب ہم بچے نہیں رہے بڑے ہو گئے ہیں، کسی حد تک صاحب اختیار بھی ہیں اور جان گئے ہیں اس وقت کے بڑے ٹھیک کہتے تھے سچے تھے اب ہم بھی یہ ہی کہتے ہیں “عید تو بچوں کی ہوتی ہے “۔
جان گئے ہیں جو صاحب اختیار نظر آتے ہیں ان سے ذیادہ بے اختیار شاید ہی کوئی ہو جب ان کی خوشی دوسروں سے جڑ ی ہوئی ہوتی ہے۔ ذمہ دارویوں کا احساس من مانی کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہوتا ہے۔جان گئے ہیں ہم بچپن میں جن (والدین) کی اجازت کے طلب گار ہوتے تھے وہ دراصل ہماری خوشی کے آگے اپنی مرضیوں و خواہشوں کا گلا دبا دیتے تھے ۔ ہمارے نئے کپڑوں و جوتوں کے لئے اپنے پرانے جوڑوں کو استری کر کے عید والے دن زیب تن کرتے تھے۔ ہماری زندگی کی آسانی ان کی دشوار زندگی کا نتیجہ ہوتی تھی۔ تب نہ علم تھا نہ احساس! اب معلوم ہے مگر طاقت اب بھی اتنی نہیں کہ ان آسانیوں کا صلہ دے سکیں اُن دنوں کا بدل دے سکیں۔
ہماری میٹھی عید بھی ان کی عید قربان ہی ہوتی تھی۔ عید خوشی ہے ، خوشی احساس کا نام ہے اورعمر کی گنتی کے ساتھ اب احساس بدل گیا ہے یہ عید یقین بچپن کی عید سے مختلف ہے پہلے دوستوں و کزنوں کے ساتھ قہقہہ لگانا، ملنے والی رقم جو عیدی کہلاتی ہے اسے اپنی ذات پر خرچ کرنا اچھا لگتا ہے اب دعا ہے جنہوں نے میری عیدوں کو اپنی خوشیاں جانا اللہ توفیق دے ہے آنے والے دن میں اُن کی خوشیوں کا سبب و وسیلا بنو۔
آپ سب کو عید مبارک، اپنی خوشیوں میں انہیں یاد رکھیں جن کی خوشیاں آپ سے منسلک رہی ہے یا ہیں ۔ جانے انجانے میں انہیں دکھ یا تکلیف دینے سے اجتناب کریں یہ دکھ و تکلیف آپ کے ان سے رویے تک ہی محدود نہیں آپ کے ممکنہ دیگر دنیاوی معاملات سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔
وہ عیدیں جو گزر چکی اب میسر نہیں !مگر آنے والی عیدیں ممکن ہیں گزشتہ عیدوں سے بہتر ہوں، جنہیں بہتر بھی ہم ہی بنا سکتے ہیں۔خوش رہیں۔


8/23/2015

بابے پھر بابے ہوتے ہیں

کہنے کو اس مضمون کا عنوان بزرگ بھی ہو سکتا تھا مگر بزرگی میں شرارت ہو سکتی ہے مسٹنڈاپن نہیں اس لئے بابے ہی ٹھیک لگتا ہے. ہمارے دور کے مسٹندے کچھ ذیادہ لوفر ہو گئے ہیں مگر پہلے کے لوفر بھی اتنے مسٹندے نہیں ہوتے تھے. یہ بابے اپنی جوانی کے دل لبھانے والے جھوٹے سچے قصے سنا کر جس طرح جوانوں کی چوری پکڑتے ہیں وہ ان کا کی حاصل ہے.


ایسے ہی ایک بابے کے منہ سے ایک بار سننے کو ملا کہ کیا دور آ گیا ہے ایک ہمارا دور تھا جب لڑکوں کے دوست اور لڑکیوں کی سہیلیاں ہوتی ہے اب تو لڑکوں کی سہیلیاں اور لڑکیوں کے دوست ہوتے ہیں. تب ہم کسی لڑکی کے قریب ہوتے تو وہ فٹ سے کہہ دیتی دیکھو مجھے دھوکہ نہ دینا ایسا نہ ہو کہ کل کو کسی اور سے شادی کر لو ہم لڑکیاں بہت حساس ہوتی ہیں کسی کو ایک بار اپنا کہہ دیا تو پھر ساری عمر اسی کی ہو کر رہ جاتی ہیں اور ایک آج کی چوکریاں ہیں دوستی کے دوسرے دن ہی نوٹ کروا دیتی ہیں کہ دیکھو سنجیدہ نہ ہو جانا میں بس ٹائم پاس کر رہی ہوں کل کو تو کون اور میں کون.


یہ بابے وقت کے بدلنے کے بارے میں بتاتے ہیں کہ پہلے گھر بناتے وقت گھر والوں کے ساتھ ساتھ مہمانوں کے لئے بھی ایک حصہ ہوتا تھا مہمان خانے میں مہمان کی خدمت کو ایک بندہ مختص ہوتا تھا آج کی طرح نہیں کہ صرف صوفہ سیٹ ہو بلکہ پلنگ یا چارپائی ہوتی کہ آنے والا مہمان آرام کرتا. پہلے مہمان کو رحمت تصور ہوتا تھا اور آج اپنے رویے سے رہ مت کہا جاتا ہے .


ان بابوں سے اس لئے بھی ڈر لگتا ہے کہ قصے سنا کر نصیحتیں کرتے ہیں. ان کے پاس ملا دوپیازہ ہے، ملا لٹن ہے، متایو فقیر ہے، جٹ مانا ہیں. یہ اپنے اپنے علاقوں کے کرداروں کے نام لے کر مختلف قصوں کی مدد سے مخصوص سبق سکھانے کے لئے ہنسی مذاق میں سنا ڈالتے ہیں. ہم جیسے لونڈے انہیں لاکھ کہیں کہا یہ کردار خیالی ہیں، یہ قصے جھوٹے ہیں. یہ بابے باز نہیں آتے پھر سے کسی اگلی نشست میں ان کرداروں کے قصوں کی مدد سے شخصیت کی تعمیر کرنے بیٹھ جاتے ہیں.


ایک محفل میں رشوت کی افادیت پر بحث ہو رہی تھی ایک بابا جوش میں دونوں ہاتھ ہوا میں کھڑا کر کے بولا مجھے ذیادہ نہیں معلوم بس اتنا جانتا ہوں کہ کچھ حرام کے تخم سے ہوتے ہیں کچھ کا تخم حرام کا ہوتا ہے اول ذکر جنتی ہو سکتا ہے اگرچہ اس کے ماں باپ جہنمی ہو مگر ثانی ذکر جہنم کی آگ کا ایندھن ہو گا . پوچھا بابیوں کہنا کیا چاہتے ہو کہنے لگے کچھ ماں باپ کی حرام کاری کی وجہ سے حرامی نسل ہوتے ہیں اور کچھ اپنی کمائی کی وجہ سے! یہ رشوت خور والے دوسری قسم کے حرامی ہیں جو اپنی نسل کو بھی حرامی بنا دیتے ہیں. ایسے سخت جملے سننے کے بعد ہمارے کئی دوستوں نے اس بابے سے ملنا چھوڑ دیا.


یہ بابے اپنی عمر کو اپنا تجربہ بتاتے ہیں. یہ سامنے والے کی نیت کو اس کے اعمال سے پرکھنے کے قائل معلوم ہوتے ہیں ان کے یہاں benefit of doubt بہت ذیادہ پایا جاتا ہے. ایسے ہی ایک بابا جی کہا کرتے ہیں کہ برا وہ جس کی برائی پکڑی جائے چاہے اس نے کی بھی نہ ہو اور اچھا وہ جو پکڑ میں نہ آئے. ہم نے کہا بابیوں اب تو بدنامی بھی نامور کر دیتی ہے تو کہنے لگے جیسے لوگ ویسا ان کا ہیرو ہوتا ہے ہر طبقہ و گروہ کا اپنا رول ماڈل (ہیرو) ہو گا ناں. بات پلے نہ پڑی تو ہم نے کندھے اُچکا دیئے، دھیمے سے مسکرا کر بولے وکیل ہو تم؟ ہم نے سر کی جنبش سے ہاں کی. کہنے لگے وکیلوں میں سے تمہارا آئیڈیل کوئی بڑا قانون دان یا جج ہو گا ایک ڈاکو نہیں ایسے ہی جو جس شعبے کا بندہ ہے اس کا رول ماڈل اس ہی شعبے کا بندہ ہو گا ہر فرد کسی اپنے ہم پیشہ یا ہم نظریہ و عقیدہ کو ہی ماڈل بناتے ہیں. ہم نے کہا کہ اگر کوئی کسی دوسرے شعبہ کے بندے کو اپنا رول ماڈل بنا لے تو! کہنے لگے وہ بہروپیا ہے جو ایسا کرتا ہے. ہم اس کی بات سے متفق نہیں تھے مگر کسی سخت جملے سے بچنے کے لیے خاموش رہے.


حالات و زمانے کا رونا رونے والی ایک محفل میں اہل محفل جب حاکموں کے برے کردار کو زیر بحث لائے تو ایک اور بابا جی رائےزنی کرتے ہوئے گویا ہوئے خود کو بدل لو اچھا حاکم میسر آ جائے گا چوروں کا سربراہ چوروں میں سے ہی ہو گا جیسے ہم ویسے ہمارے حاکم.


ہمارے دوست جوانی میں ہی بابا جی ہو گئے ہیں. ان کا پسندیدہ موضوع رویے ہیں. وہ لوگوں کے رویوں پر خیال آرائی کرتے رہتے ہیں؛ ہمارے علاوہ باقی سب ہی ان کے خیالات کو سراہتے ہیں. اولاد کی تربیت پر بات ہو رہی تھی کہنے لگے اگر گھر کے سربراہ کے مزاج میں سختی ہو تو اولاد باغی ہو جاتی ہے. ملک کا حاکم و خاندان کا سربراہ اگر ہر معاملہ میں اپنی مرضی مسلط کرنے لگ جائیں تو بغاوتیں جنم لیتے ہیں اور زندگی کی آخری سانسیں تنہائی میں گزرتی ہے اگر اولاد کی قربت نصیب بھی ہو تو صحبت نصیب نہیں ہوتی.


ہمارے ایک دوست ایک مشکل میں پھنس گئے تلاش ہو رہی تھی کسی اثر رسوخ والے بندے کی اسی سلسلے "غلطی" سے ایک بابا جی سے آمنا سامنا ہوا کہنے لگے جس کے پاس بھی جاؤ گے اس کے اثر رسوخ میں اضافہ کا باعث بنو گے! جو آج کام آئے گا کل کام بھی لے گا اور احسان مند تم ہی رہو گے اور جو کام کا آسرا دے گا وہ بھی کل کو کام نکلوا لے گا جو کرنا ہے خود کرو. ہمارے دوست بابے کی باتوں میں آ گئے اور اب وہ خود کافی اثر رسوخ والے بندے ہیں.


بابیوں کی کوئی عمر، نسل، عقیدہ اور تجربہ لازمی نہیں بقول ہمارے ایک بابا صفت دوست کہتے ہیں بابا وہ جو رمز کی بات کہہ دے. ہم نے تو سیکھ لیا ہے ان بابیوں کی بات کو ایسے اگنور کرو جیسے یو این او کشمیر کے مسئلہ کو اگنور کرتی ہے. ان کی قربت شخصیت میں موجود "ضروری" خامیوں کے نقصاندہ ہو سکتی ہے. کیا آپ کا کبھی کسی بابے سے واسطہ پڑا ہے؟


6/28/2015

چڑی روزے سے روزے تک

اب ہم بڑے ہیں اور بڑوں میں شمار ہوتے ہیں ایک وقت تھا کہ ہم چڑی کی سی جان ہوتے تھے. دین و دنیا دونوں کی سمجھ نہ تھی. یوں تو دین و دنیا کے بارے میں اب بھی جاہل ہیں مگر بچپن میں تو ہم ان کی فکر سے مکمل آزاد تھے. والد صاحب کے ساتھ بس جمعہ والے دن مسجد و مولوی کا دیدار ہوتا تھا باقی سارا ہفتہ گھر پر ہی اللہ اللہ ہوتی جس میں ڈنڈی مارنا ہمارا روزانہ کا معمول ہوتا بلکہ روزانہ ایک دو بار ڈنڈی مارنا معمول ہوتا.

یہ انسانی فطرت ہے کہ جس کام کا کہا جائے اس جانب راغب بے شک نہ ہو مگر جس سے روکا جائے اس طرف کھچاؤ محسوس ہوتا ہے. ایسی ہی کشش روزے کی جانب تھی. مجھے اپنی عمر، دن، مہینہ یاد نہیں بس سردیوں کا موسم،  سحری کا وقت، لحاف میں لیٹا ہونا اور کچن میں والدہ کا سحری تیار کرنا یاد ہے. والدین ہمیں روزہ کے لئے نہیں اٹھاتے تھے اور ہم بس وہی بستر پر لیٹے لیٹے قیاس کرتے اب پراٹھا پک رہا ہے ان کھا رہے ہیں اب اذان ہو گئی. سامان سمیٹنا جا رہا ہے، اب تلاوت قرآن و نماز پڑھنے لگ گئے ہیں پھر کب دوبارہ آنکھ لگتی ہمیں علم نہیں. کئی بار نہانے سے پانی پینے یا کوئی اور وجہ بنا کر اٹھے کہ شاید ہمیں روزہ رکھوا لیں مگر ناکام رہے.

نماز دین کا ستون ہے

امی سے روزہ رکھنے کی فرمائش کا اظہار کرتے تو کہتی کہ ابھی چھوٹے ہو بڑے ہو کر رکھنا. پھر ایک رمضان میں شرط عائد ہوئی نمازیں پوری پڑھو تو روزہ رکھوایا جائے گا. "من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن  سکا" روزہ دار بنے کی خواہش کے باوجود ہم چند نمازوں میں ڈنڈی مار گئے. تب جمعہ کی چھٹی ہوتی تھی ایک جمعرات کو آگاہ کیا گیا کہ کل آپ روزہ رکھیں گے مگر مکمل نہیں چڑی روزہ.

چڑی روزہ ہم سے پہلے محلے کا ایک دوست رکھ چکا تھا لہذا ہمیں علم تھا کہ دوپہر کے وقت "روزہ کشائی" ہو جاتی ہے لہذا ہم نے احتجاج کیا نہیں پورا روزہ رکھنا ہے چڑی روزہ نہیں رکھنا تب ہمیں باور کرایا گیا کہ پورا روزہ رکھنے کو پوری نمازیں پڑھوں. ہمیں والدہ کی "چالاکی" پر بڑا غصہ آیا مگر کیا کرتے، دل میں یہ سوچ کر خاموشی اختیار کی کہ ہم نے نمازوں میں ڈنڈی ماری ہے تو بدلے میں والدہ ہمارے روزے میں ڈنڈی مار گئی ہیں.

سحری میں روزہ رکھنے کو اٹھے تو ناشتے والے لوازمات کے علاوہ میٹھی لسی ایک زائد ایٹم تھا. سحری کی اس کے بعد نماز فجر ادا کی (یہ ہماری پہلی فجر کی نماز تھی جو وقت پر پڑھی تھی). پھر سو گئے اسکول کی چھٹی تھی. دس بجے اٹھے پھر کب ایک بجا معلوم ہی نہیں ہوا بس روزہ کھلوا دیا گیا. یعنی دوپہر کا کھانا،  جس کے بعد والد کے ہمراہ جمعہ پڑھنے چلے گئے. اگلے دو جمعہ بھی ایسے ہی چڑی روزے رکھوائے گئے . آخری والے جمعہ کو والدین ہمیں مکمل روزہ رکھوانے پر تیار ہو گئے تھے اور بات وفا ہوئی.

کب روزہ کھلے گا؟

جمعہ کے بعد سہ پہر تک تو معاملات ٹھیک رہے مگر شام چار بجے پیاس شدت سے لگنا شروع ہو گئی. پانچ بجے کھیلنے جانے کی ہمت بھی نہ تھی لہذا نہیں گئے. امی کے ڈر سے نماز عصر پڑھی وہ بھی صرف فرض. جہاں دسترخوان لگاتے ہیں ہم وہاں ہی لیٹے ہوئے تھے ابو نے ایک دو بار پوچھا روزہ لگ رہا ہے ہم نے جھوٹ بولا کہ نہیں. ہم نہیں ہماری حالت سب بعید  کھول رہی تھی. امی  ابو عموماً افطاری کا کوئی خاص اہتمام نہیں کیا کرتے تھے بس اتنا کہ عشاء کے بجائے مغرب کے وقت رات کا کھانا کھا لیا جاتا اور ایک سردائی(سندھی زبان میں تھادل) کا شربت اضافی ہوتا اور عشاء کے وقت موسمی فروٹ کھایا جاتا . مگر ہمارے پہلے روزے پر بیکری کے کافی سارے لوازمات و فروٹ وغیرہ دسترخوان کا حصہ تھے. خدا خدا کر کے اذان ہوئی مگر لقمہ لینے سے پہلے ہم روزہ کھولنے کی یاد کی ہوئی دعا ہی بھول گئے. اب ہاتھ میں کھجور پڑے امی کی جانب دیکھنے لگے. پوچھنے پر بتایا دعا بھول گیا ہو جو پڑھ کر روزہ کھولنا ہے. مسکرا پر دعا بتانے لگی ابھی " ﻟَﻚَ ﺻُﻤْﺖُ" پر پہنچی تو ہمیں دعا یاد آ گئی ہم نے تیزی سے دعا پڑھی اور پھر کھجور منہ میں ڈالی اور پانی پینے لگے. مغرب کی نماز میں ڈنڈی مار گئے.

اگلے سال رمضان المبارک میں ہر جمعہ کو روزہ رکھوایا گیا ساتھ میں آخری عشرے کے چند طاق کے روزے رکھوائے گئے. جس دن ہمارا روزہ ہوتا تب روزہ کشائی پر لوازمات کی تعداد ذیادہ ہوتی. آہستہ آہستہ ہر گزرتے سال کے ساتھ ہم مکمل روزہ دار ہو گئے مگر نمازی نہ ہو سکے. بچپن میں کئی بار ایسا بھی ہوا کہ ہم یہ بھول جاتے کہ ہمارا روزہ ہے اسکول میں دوست سے لے کر کچھ کھا لیا تب یا تو کھاتے وقت یاد آتا کہ اوہ ہمارا تو روزہ ہے یا کھا پی کر کافی دیر بعد یاد آتا. ایک بار تو ایک دوست نے اس ہی بھول کر کھانے کی حرکت کی وجہ سے ہمارے روزہ دار ہونے کو جھوٹ قرار دیا تب پہلے تو ہم اس سے لڑ پڑے اور بے نتیجہ لڑائی کے بعد رو پڑے کہ ہمارا روزہ ہے یہ مانا جائے اب اس وقت کو یاد کرکے مسکرا جاتے ہیں.

جب وقت افطاری آیا نہ کوئی بندہ رہا نہ بندے کا پتر

روزے کے دوران ہماری غائب دماغی کے کئی قصے ہیں جو اب فیملی میں ہمیں تنگ کرنے کو مکمل تو نہیں دہرائے جاتے بس پنچ لائن کہہ دی جاتی ہے وجہ یہ کہ قصے ازبر ہوچکے سب کو، مثلاً ایک بار ہم گھر میں ہی بہنوں کے ساتھ کرکٹ کھیل رہے تھے تو دوران کھیل گیند کچن کی طرف گئی ہم گیند پکڑ کر  کچن میں داخل ہوئے امی پکوڑے بنا رہی تھیں ہم نے سوال کیا "روزہ کھلنے میں کتنا وقت ہے؟" جواب آیا بیس منٹ ہیں. ہم نے کہا ٹھیک ہے چلیں پھر ایک پکوڑا ہی دے دیں. اب بھی اکثر "ایک پکوڑا ہی دے دیں" کہہ کر ہمیں تنگ کیا جاتا ہے.

بلوغت کے بعد ایک بار ایسا ہوا کہ ہم رمضان المبارک کے نصف روزے رکھنے سے محروم ہوئے وجہ لقوے کا حملہ تھا میں آج بھی یہ سمجھتا ہوں کہ اگر رمضان المبارک کے علاوہ کوئی اور مہینہ ہوتا تو شاید میں اس بیماری کی زد آ چکا ہوتا اور آج کسی سے سیدھے منہ بات نہ کر رہا ہوتا . ہوا یوں کہ سحری کے بعد وضو کے دوران کرولی کرتے ہمیں احساس ہوا کہ سیدھی طرف ہونٹوں کی گرپ کچھ کمزور ہے لہٰذا اسی دن دس بجے ڈاکٹر سے رجوع کیا جس نے آدھ گھنٹے کے معینہ کے بعد بتایا کہ اس قدر ابتدائی اسٹیج پر آج تک میرے پاس کوئی مریض نہیں آیا. یوں علاج ہوا اور ہم بچ گئے.

یہ پہلا رمضان ہے جب ہم گھر یا گھر والوں سے دور ہیں. اب سحری میں ماں کی آواز نہیں جگاتی بلکہ خود اُٹھ کر باورچی کو یا تو اٹھانا پڑتا ہے یا اطمینان کرنا کہ وہ اٹھ گیا ہے. اب جو ملے اس سے سحری و افطاری کرنی پڑتی ہے نخرے و فرمائشوں کو پورا کرنے والی ماں تو گھر پر ہے باورچی کہہ دیتا ہے صاحب پہلے بتانا تھا اب تو یہ ہی ہے. وقت وقت کی بات ہے جی. نماز میں سستی اب بھی ہے روزے میں لگن پہلی سی نہیں رہی. اللہ ہی ہے جو ہماری اس بھوک و پیاس کو روزے کا درجہ دے بڑے کھوٹے اعمال ہیں.

اردو بلاگرز میں سات آٹھ سال پہلے ایک روایت تھی کہ کسی خاص تہوار یا ایونٹ کی تحریر لکھنے کے بعد دوسرے ک ٹیگ کرتے تھے کہ وہ بھی اس بارے میں لکھیں اس ہی امید پر ہم درج ذیل بلاگرز کو ٹیگ کر رہے ہیں (بلاگرز تو بہت ہے مگر ہم پانچ کو ٹیگ کر رہے ہیں) وہ بھی تحریر لکھ کر مزید پانچ پانچ بلاگرز کو ٹیگ کر لیں.
 انکل اجمل
 محمد رمضان رفیق
 کوثر بیگ 
 یاسر خوامخواہ جاپانی
 نعیم خان  

نوٹ : اردو بلاگرز نے اپنے اپنے پہلے روزے کی یادوں کو تحریر کیا جو تمام کی تمام تحریریں منطرنامہ پر جمع کی گئی ہیں  یہاں  دیکھی جا سکتی ہیں.

6/09/2015

بیہودہ غیر فرمائشی و بے ربط پوسٹ

فرمائش پر کچھ بھی نہیں ہو پاتا ہم سے بلکہ اب تو مزاج ایسا بد ہو چکا ہے کہ کوئی کام to do list میں ہو اور کوئی اسی کام کی فرمائش کر دے تو اسے کرنے کو دل نہیں چاہتا. کرنے بیٹھ جاؤ تو ہو نہیں پاتا. فرمائشی پوسٹ لکھا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن معلوم ہوتا ہے.

ہمارے ایک دوست کو زندگی میں دوسری بار محبت ہونے کا دھوکہ ہوا تو ہمارے پاس دوڑے دوڑے آئے کہنے لگے یار بچی بڑی ٹائیٹ ہے چھوڑنے کو دل نہیں کرتا اور بیوی بھی اچھی ہے بتا کیا کرو؟ ہم نے کہا انتظار کر. کہنے لگے کس بات کا؟ جواب دیا جب گود میں اپنی بچی آ جائے تو دماغ سے یہ معشوق بچی نکل جائے گی. پہلے مشکوک نظروں سے دیکھا پھر گالیاں دیتے ہوئے چلے گئے. آج کل بیوی و بچی کو سنبھال رہے ہیں. ایک. دن ملےتو کہنے لگے تیری زبان کالی ہے اس وقت اُن کی گود میں بچی تھی.

ہمارے ایک اور دوست نے جعلی فیس بک پروفائل لڑکی کے نام سے بنا رکھی تھی. کئی دوستوں کو ایڈ کر کے ان سے فلرٹ کر رہے تھے ساتھ میں شغل میں دوسرے کراچی کے رہائشی لڑکوں کو بھی پاگل بنا رہے تھے ایک ایک کر کے سب دوستوں سے بکرا بنانے کی ٹریٹ کھائی پھر دیگر لڑکوں پر بھی راز فاش کرنے لگے. اک دن دوسرے دوست نے بتایا کہ جناب نے ایک لڑکے کو یہ بتانے کو میں لڑکا ہوں لڑکی نہیں ایک ریسٹورنٹ میں بلایا تو معلوم ہوا سامنے سے آنے والا لڑکا دراصل اصل میں کوئی خاتون تھی جو لڑکیوں سے لڑکا بن کر فلرٹ کرتی ہے فیس بک پر! ہمارے دوست کی آئی ڈی تو ڈی ایکٹو ہو چکی اس بی بی کا معلوم نہیں. اس وقت دونوں میں سے کون بکرا بنا یہ فیصلہ کرنا ابھی بھی باقی ہے

اسکول کالج کے بچے و بچیاں رومانی کہانیاں و فلمیں دیکھ کر چاہے جانے کی خواہش میں مبتلا ہو جاتے ہیں. ایسے میں ان کے شرارتی دوست و سہیلیاں انہیں تنگ کرنے کو اس غلط فہمی میں مبتلا کردیتے ہیں کہ فلاں تمہیں عجیب نظروں سے دیکھتا ہے یوں یہ سلسلہ اس قدر آگے بڑھ جاتا ہے کہ وہ خود یہ خیال پال لیتے ہیں کہ محبت ہو گئی ہے. جبکہ یہ Love نہیں Lust ہوتا ہے. چاہے جانے کی خواہش کے زیراثر پیدا ہونے والی غلط فہمی ہوتی ہے.

پہلے پہلے تو ہم بھی اس معاملے سے نا سمجھ تھے مگر وکالت میں آنے کے بعد ایک تو پبلک ڈیلنگ کی بناء پر دوئم کورٹ میرج کے لئے آنے والے جوڑوں کے انٹرویو کرنے پر احساس ہوا کہ فلرٹ کرنے والا دوسرے کو ہی نہیں بلکہ خود کو بھی جھوٹی محبت کے دھوکے میں رکھتا ہے. اور وہ انتہائی قدم (بھاگ کر شادی) دراصل اپنی بےراہ روی کے غلطی پر پردہ ڈالنے کی وجہ سے کرتا ہے یا انا کی تسکین کے لیے کہ مسترد کئے جانے کا زخم اسے منظور نہیں ہوتا. معاشی طور پر کمزور مرد اس موقع پر واپسی کی طرف سفر شروع کر دیتے ہیں اور یوں کئی زندگیاں متاثر ہوتی ہیں.

صوفی شعراء نے عشق حقیقی کو عشق مجازی کی تمثیل سے سمجھایا. وقت گزرا جدید نئے دور میں وہ عشق مجازی کی تمثیل پردہ اسکرین پر نازیبا حرکات کرتے (گانوں)  مرد و زن کے روپ میں نظر آنے لگی ہیں اب وہ کلام غلط تعبیر و تشریح کی بناء پر دوا نہیں زہر بن گیا ہے. گزرتے وقت کے ساتھ نئی نسل محبت کو بستر پر وقت گزارنے کا بہانہ سمجھ بیٹھی ہے.

میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں میچور و سمجھدار افراد خاص اساتذہ کو بالغ ہوتے بچوں کو اس سلسلے میں educate کرنے کی ضرورت ہے ورنہ اس عمر میں کی گئی غلطی ان کی شخصیت کو اس انداز میں متاثر کرتی ہے کہ وہ اپنے اردگرد مزید تباہی کا سبب بنتا ہے.

اب دیکھ لیں یہ پوسٹ بیہودہ و بے ربط تھی کہ نہیں؟ جب عنوان سے ظاہر تھا تو وقت برباد کرنے کی کیا ضرورت تھی. اتنا ہی فالتو کا وقت ہے تو تبصرے کر کے دل کی بھڑاس نکال لیں اب وقت تو برباد ہو ہی چکا. جس شیطان سے آپ کو تحریر پڑھنے پر مجبور کیا وہ ہی آپ کو تبصرے سے بھی روکے گا.

5/21/2015

شوشل میڈیا اسٹیٹس ٢

گزشتہ چند دنوں میں فیس بک و ٹویٹری اسٹیٹس جو ہم نے لگائے ذیل میں ہیں خالض ہمارے اپنے ۔

‏لاعلمی اندھیرے کی طرح ہے ٹھنڈی و نابینا، آگاہی دھوپ کی طرح جس قدر بڑھتی جاتی ہے گرمائش و بے چینی پیدا کرتی جاتی ہے. #میراخیال

‏محبت میں ملن نہیں آؤ جھگڑ کے تعلق مضبوط کریں #خیال

‏نیکیوں کی تلقین کرنے والے گناہ سے بھی بچا مجھ کو. #خواہش

‏منافقت بڑی خبیث شے ہے اتنی کہ جو کرتے ہیں انہیں بھی پسند نہیں ہے. #تجربہ

‏محبت کا بہترین تحفہ ملاپ نہیں جدائی ہے. #خیال

‏جس شعبے اور بات کا ادراک نہ ہو اس پر تبصرہ آپ کو شرمندہ کر سکتا ہے. #تجربہ آپ بیتی

‏شادی سے پہلے کے آ فیئر بعد میں "کرنٹ"  آ فیئر ثابت ہوتے ہیں وہ بھی خطرہ چار سو بیس والے . #تجزیہ

‏پہلے کہتے تھے اپنی زبان پر قابو رکھو اب کہنا بنتا ہے اپنی انگلیاں سنبھال کر ٹائپ کرو. #سوشل_میڈیا

‏شریف لڑکوں اور بگڑی لڑکیوں کی مارکیٹ میں ڈیمانڈ کبھی کم نہیں ہوتی. #تجزیہ #غلط_بات

‏اہل اسلام کی آبادی کافی ذیادہ ہے لہذا مسلمان کم کرنے کو بم و فتوٰی دونوں کا استعمال جاری ہے. #تجزیہ

‏گوری رنگت و کالے دل دونوں بربادی کا سبب بن سکتے ہیں. #میراخیال

‏ثقافت و مذہب ایک لائن پر آ جائیں تو قانون و باقی دنیا کی اخلاقیات معاشروں کو نہایت ذیادہ سست روی سے تبدیل کرتی ہے. #الیکشن #عورت #ووٹ

‏خوش فہمی و غلط فہمی میں ایک ممکنہ فرق یہ بھی ہے کہ خوش فہمی کی حقیقت کھلنے پر دکھ اور غلط فہمی کے دور ہونے پر اطمینان ہوتا ہے. #میراخیال

‏تعصب ایک بیماری ہے جو اس بیماری میں مبتلا ہو اسے سامنے والے میں نظر آتی ہے یہ ہی معاملہ جہالت کا ہے. #میراخیال

‏قابلیت و ایمانداری ایسی خصوصیات ہیں جو کرپٹ معاشروں میں دشمنوں کی تعداد میں اضافہ کرتی ہیں. #خیال

‏مطالبے منوانے کے لیے نہیں بلیک میل کرنے کے لئے بھی کئے جاتے ہیں. #کراچی #صوبہ

‏سیاست میں "اوئے"  اور مردوں میں "اوئی اللہ" کہنا اب بدتہذیبی نہیں رہا. اس سے اخلاقیات کی پستی کی بلندیوں کا اندازہ لگائیں. #مزاح

‏الزام ملزم بنا دیتا ہے اور جب تک حقیقت عیاں ہوتی ہے زمانہ مجرم بنا چکا ہوتا ہے. #المیہ

‏پیٹ کے بھوکے کو روٹی مل جائے تو وہ مطمئن ہو جاتا ہے مگر نیت کا بھوکا مغرور. #تجزیہ

‏صلاحیت کے بغیر کامیابی کی جدوجہد لا حاصل رہتی ہے. #تجربہ و #تجزیہ

‏موت کے بارے میں سوچنے لگتا ہوں تو زندگی سے خوف محسوس ہونے لگتا ہے. #خیال


10/02/2014

شوشل میڈیائی اسٹیٹس

گزشتہ دنوں ہمارے چند فیس بک و ٹویٹری اسٹیٹس جو ہم نے لگائے ذیل میں ہیں خالض ہمارے اپنے ۔


وہ کہتے ہیں "محبت فاتح عالم"، اب انہیں کیا کہیں جو محبت محبوب نہ جیت سکے اُس سے عالم فتح کر کے عاشق نے کیا لینا ہے۔ ‫#‏خیال‬
مجرا مجرا ہوتا ہے چاہے کنجری کرے یا شریف زادی۔ اعضاء کی شاعری کہنے سے اُس کی خرابی کم نہیں ہوتی۔ ‫#‏خیال‬
محبت مانگنے والے زندگی برباد نہ کر ‫#‏خیال
لوگ محبت کی دلیل دینے کو دل ہار جانے کی بات کرتے ہیں مگر اُس کا کیا کیا جائے جو روح میں اُتر گیا ہو؟ #خیال
اے میرے رب مجھے ہمیشہ حلال طریقے اور ذریعے سے پیٹ و نفس کی بھوک مٹانے کی توفیق عطا کر۔ #دعا
یااللہ اس فانی زندگی کی اُن کامیابیوں سے بچانا جو میری ابدی زندگی کی بربادی وجہ بنے۔ #دعا
دعائیں سننے والے دیر نہ کیا کر #خواہش

کچھ آنکھوں کے کرب چہرے کی مسکراہت سے بھی کم نہیں ہوتے۔ ‫#‏تجربہ‬

جہالت سے بہتر موت ہے۔

وطن میں غیر ہوئے پھرتے ہیں

لوگوں کو گنا جاتا ہے تولا نہیں جاتا چاہے جلسہ ہو یا جمہوریت۔

اپنی قابلیت سے ذیادہ معاوضہ بھی دراصل کرپشن و رشوت کی ایک شکل ہے ۔ (ماخوذ)

ویسے ناکامی پر ہنسنے کا مزا کامیابی پر خوشی کے آنسو بہانے سے ذیادہ آتا ہے۔

اخلاق انسان کی پہچان کروا دیتا ہے.



اور آخر میں گزشتہ دنوںہونے والا ایک ٹیلیفونک مکالمہ .


ہیلو جی آپ میری آئی ڈی کو جعلی کیو سمجھتے ہیں؟
"کون بول رہا ہے"
وہ جسے آپ نے میسج میں کہا کہ میں لڑکا ہوں
"اچھا تو پھر"
دیکھیں اب تو آپ کو یقین آ گیا ناں میں لڑکی ہوں اب ریکویسٹ منظور کر لیں۔ ایس ایم بھی کیا مگر آپ مانے نہیں
"نمبر کہاں سے لیا میرا"
پروفائل سے
"اچھا"
تو اب آپ ایڈ رہے ہیں ناں
"نہیں"
کیوں؟ اب کیوں نہیں
"بی بی اتنی بے باک و بے خوف لڑکیوں سے دوستی سے میں اجتناب کرتا ہوں"
مٹھی جانے کا یہ مطلب تو نہیں کہ بندہ واقعی دیہاتیوں والی سوچ پال لے۔ چلیں پھر بات کرو گی۔

8/23/2014

ناکامی کسی کا مقدر نہیں

کسی کو ناکام کرنے کو فقط اتنا کافی ہے کہ اُس سے جیت کی امید چھین لی جائے، جیت کی امید کے خاتمے کے ساتھ ہی کامیابی کی جدوجہد دم توڑ جاتی ہے۔ کامیابی کی امید باقی ہو تو ناکامی کا خوف جدوجہد کے لئے تیل کا کام کرتا ہے یعنی جستجو مزید تیز ہو جاتی ہے۔ ایسا فقط فرد کے لئے ہی نہیں بلکہ افراد کے ایک گرو یا قوم کے لئے بھی درست ہے۔ جیت کی امید کے خاتمے سے اگلا مقام یہ ہے کہ فرد ہار یا ناکامی کو ہی اپنا مقدر سمجھے۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم وطنوں سے جیت کی امید ہی نہیں چھین لی گئی بلکہ یہ باور کروا دیا گیا ہے کہ ہار یا ناکامی آپ کا مقدر ہے۔ ایک بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے کہ زندگی کے ہر میدان میں نااہل افراد اقرباپروری یا دولت کے زور پر قابض ہو گے یا ہیں اور اُن کا مقدر یہاں اس وطن میں نہیں۔ قابل آدمی ناکام ہو کر مایوسی پال لے تو اُس کی صحبت کئی دیگروں کو بھی اس بیماری میں مبتلا کر دیتی ہے۔ یوں اس بیماری کے مریض بڑھتے جاتے ہیں ۔
مگر حقیقت میں قابل آدمی ہمیشہ دوسروں کی ضرورت ہی نہیں مجبوری ہوتا ہے آپ اپنی قابلیت میں اضافہ کرے یقین کریں آپ بھی ضرورت نہیں سامنے والی کی مجبوری بن جائیں گے۔ تجربے نے یہ بات سکھائی ہے کہ ہر نااہل کو ایک اہل بندہ درکار ہوتا ہے اور اگر آگے جانے کی جستجو برقرار رہے تو راستے بھی ذہین لوگ بناتے ہیں۔ مایوس ہونے والے دراصل وہ ہوتے ہیں جو ہار و ناکامی کو مقدر مان لے۔
ہاں ایسی کامیابی کے لئے بس جدوجہد و انتظار ضروری ہے۔

6/15/2014

خود غرضی!!

جب ہم کہتے ہیں کہ سب کی اپنی اپنی غرض ہے کسی کو میری پرواہ نہیں کو اس کا ایک مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ ہم تسلیم ہیں کہ ہم بھی اپنی ذات میں خود غرض ہیں اور چاہتے ہیں کہ لو گ ہماری پرواہ کریں! لیکن اپنے رویے اور سوچ میں یہ خیال لئے ہوتے ہیں کہ ہم خود غرض نہیں۔

2/06/2014

اصل کی طرف سفر

گاؤں کی طرف سفر کا آغاز کیا تو اپنے آباؤ اجداد کی وراثت کی طرف جانے کی خوشی تھی. اپنے اصل کی طرف روانگی کیا لذت عطا کرتی ہے یہ بیان سے باہر ہے. سفر سارا اسی سرشاری میں ہوا.
میں اپنے خاندان کی اس نسل سے تعلق رکھتا ہوں جن کی پیدائش و پرورش شہر میں ہوئی. گاؤں سے ہمارا تعلق بڑوں کی زبانی سنے ہوئے قصوں سے شروع ہو کر ان قصوں پر ہی ختم ہوتا ہے.
غیر محسوس انداز میں ایک ایسی نسل جو اپنے اصل سے واقف ہو کر اس سے دور اور اس سے جڑے ہونے کے باوجود اس سے بے خبر ہوتے ہیں.
دیہاتی زندگی کے حق میں ہماری وکالت زبانی جہاد سے آگے نہیں ہوتی. جب کبھی اپنے ہم عمر کزنوں سے  دیہی زندگی کے کسی گوشے سے متعلق سوال کرتا ہوں کہ یہ کیا ہے یہ کیسے ہے تو اندر کہیں سے یہ آواز آتی ہے جہالت یہ بھی ہے کہ بندہ ان باتوں اور حقیقتوں سے ناواقف ہو جس پر آباؤ اجداد کو ماہرانہ دسترس ہو، ایسا علم کیا کرنا جو اصل سے دور کرے.
یہاں گاؤں میں کھلے گھر کو حویلی کہتے ہیں! یہ بادشاہوں کی حویلیوں جیسی نہیں ہوتی مگر رہائشیوں کے لئے یہ اپنی سلطنت کے دربار سے کم نہیں. میرے گاؤں میں لوگوں نے اپنی ان حویلیوں کو واقعی سلطنت کے دربار سا بنا رکھا ہے بیرون ملک کی کمائی سے بننے والے یہ مکان شہر کے بنگلوں سے ذیادہ بہتر اور جدید ہیں. ان میں اپنا آبائی مکان جو اب بھی پرانے طرز کا ہی ہے ایک احساس جرم میں مبتلا کرتا ہے کہ دیکھو مکان کے مکین اس سے دور ہو تو گھر ویران ہوتے ہیں. ایسے گھر ان ریسٹ ہاؤس کی شکل اختیار کر لیتے ہیں جو سال دو سال میں ایک آدھ بار آباد ہوں.

سمجھنے والی بات یہ ہے کہ میرا جیسا خود فریبی میں مبتلا ہو کر بے شک یہ فخر کرتا ہے کہ وہ ایسی زندگی گزار رہا ہے جو شہری و دیہاتی زندگی کا بھرپور امتزاج ہے مگر درحقیقت ایک رخ یہ بھی ہے کہ میرے جیسا بندہ نئی تشکیل شدہ پہچان اور اصل پہچان کی درمیانی کشمکش کا شکار بھی رہتا ہے .

1/22/2014

جہالت کی آگاہی

ہم نے سنا ہے علم و آگاہی جہالت سے نکالتی ہے. دانشوری دراصل سمجھ بوجھ و عقل کا نام ہے. بے خبری کیا ہے یہ بندہ خبر ہونے سے قبل نہیں جان سکتا. کامیابی صرف اور صرف محنت کا ثمر ہے یہ وہ ہی کہتے جو اپنی جہالت سے ناواقف ہوں. جس قدر ہم معلومات تک رسائی حاصل کر رہے ہیں ہمارے علم میں اضافہ کم سے کم ہوتا جا رہا ہے.
کامیابی دراصل آگاہی کی طرف سفر ہے. اس سفر میں گمراہی کی ابتداء اپنے علم کو کامل و مکمل جاننے سے شروع ہوتی ہے اور بندہ اپنی جہالت کے باوصف باقیوں کو کمتر جانتا ہے.
معلومات میں سے علم تک اور علم سے عمل تک کا سفر بندے کے دانشور یا جاہل ہونے کا اعلان کر دیتا ہے.
ہم معلومات تک محدود رہ کر خود کو دانشور کہہ کر اپنی جہالت کا اعلان کرتے ہیں.

12/03/2013

گناہ کی حسرت و پچھتاوا

سُنا ہے بُرائی میں کشش ہوتی ہے مگر کیا کیا جائے زندگی میں ہم ایک دو معاملات میں "حسرت گناہ" کا شکار رہے. گناہ یا بُرائی سے بچنے کو کوشش نہیں کی مگر اس کی طرف قدم بڑھا نہیں پایا اگر کبھی اس جانب گیا تو ناکامی کا سامنا ہوا.
یوں لگا جیسے کوئی طاقت اس طرف جانے سے روکنے پر مامور ہو ہم پر. اس وقت احساس ہوا کہ ناکامی کا غم ایک سا ہوتا ہے خواہ اچھائی پر ہو یا گناہ پر.

گمراہی یا بہکنے سے بچنے کو فقط یہ لازم نہیں کہ بندہ نہ صرف خود نیکی کرے یا نیکی کی تلقین کرے بلکہ گمراہ لوگوں کی صحبت سے دور رہنا بھی اہم ہے. دعا صرف گناہ سے بچنے تک محدود نہ ہو بلکہ شیطان صفت لوگوں سے پناہ بھی دعا کا حصہ ہو.
اب زندگی کے اس موڑ پر احساس ہوتا ہے خوش قسمت وہ بھی ہوں گے جو نیک اعمال کو زندگی کا حصہ بنائے رکھے اور تمام عمر گناہ سے باز رہیں. مگر وہ لوگ جو بُرائی کی دنیا سے نکل کر نیکی کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں وہ اصل میں نہایت ہی قسمت والے ہوتے ہیں. وہ نہ صرف روحانی منازل تیزی سے طے کرتے ہیں بلکہ مالک کی پسندیدگی کی لسٹ میں ٹاپ پوزیشن پر ہوتے ہیں. جیسے پیچھے رہ جانے کا احساس جدوجہد کو تیز کر دیتا ہے اور مقابلہ کرنے کی خواہش کے زیر اثر امیدوار سب سے آگے نکل جاتا ہے.
میرے جیسے "حسرت گناہ"  رکھنے والے نیکی میں سب سے پیچھے رہتے ہیں مگر گناہ سے توبہ کرنے والے نیکوں کی لسٹ میں خود سے آگے نظر آتے ہیں.
پچھتاوا گناہ ایک بڑا عمل ہے.
.