Pages

12/13/2017

جی نہیں میں بلاگر نہیں رہا!!!!

یہ ابتدائی وکالت کے پہلے چھ ماہ کی بات ہے۔ ہمارے ایک دوست ایک فوجداری کیس میں پھنس گئے۔ چونکہ ان کی جان پہچان میں ہم ہی تھے، لہٰذا وہ مسئلہ بیان کیے بغیر ہمیں رفیق بنا کر لے گئے اور ایک پولیس والے سے ملوایا۔

چائے کیفے میں، اے ایس آئی صاحب ہمارے دوست کے "جرم" کی تفصیل بیان کر رہے تھے اور ساتھ ساتھ ہمارے لیے اپنے احسانات کی رعایتیں بھی بتا رہے تھے ۔ ہم صرف "جی جناب، شکریہ" کہتے رہے۔ وجہ سادہ تھی: جرم و قانون کی سمجھ تو نہ تھی، لیکن پولیس والا ہر بات پر کہتا،
"وکیل صاحب، آپ تو قانون سمجھتے ہیں، آپ ہی سمجھائیں۔"

گھر آ کر ہم نے متعلقہ کتاب کھولی اور حقیقت جانچی۔ معلوم ہوا کہ پولیس والا "کمائی" کر گیا، ورنہ معاملہ اتنا سنگین نہیں تھا جتنا وہ بتا رہا تھا ۔

تب ہم نے سیکھا کہ جھوٹی تعریف اور کم علمی دونوں پروفیشنل زندگی کے لیے نقصان دہ ہیں۔ اور یہ کہ جو علم نہ ہو، اس بارے ضرور پوچھیں، جان لیں اور پھر آگے بڑھیں۔ یہ خیال کہ ہمیں سب آتا ہے، اتنا خطرناک ہے جتنا یہ کہ کوئی شعبہ یا کیس پہلے نبردآزما ہو چکا ہو، اس لیے وہ بہتر جانتا ہو۔

گزشتہ دنوں میٹرک کے ایک دوست سے ملاقات ہوئی۔ باتوں باتوں میں پرانی یادیں تازہ ہوئیں۔ کسی بات پر اس نے کہا:
"تم تو سمجھتے ہو گے، آخر بلاگر ہو۔"

ہمیں یاد آیا کہ واقعی بلاگر ممکن ہے اپنی پروفیشنل زندگی کے مخصوص معاملات میں جانکاری رکھتا ہو، لیکن ہر فن کا ماہر نہیں۔ اہل علم وہی ہے جو علم حاصل کرنے کی جدو جہد جاری رکھے۔ صرف اظہار رائے صاحب علم ہونے کی دلیل نہیں 

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے

نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔