Pages

8/21/2025

سیاست، عدالت اور تضاد

 جو لوگ پہلے سپریم کورٹ کو 'اسٹیبلشمنٹ کی عدالت' قرار دیتے تھے، وہی آج اپنے حق میں فیصلہ آنے پر اسے کسی ڈیل کا نتیجہ نہیں سمجھتے۔ یہی نہیں، وہ بیرسٹر گوہر کے اس بیان کو بھی کسی ڈیل کا حصہ ماننے کو تیار نہیں، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ: ”ہم فرشتے نہیں، 9 مئی ایک غلطی تھی جس کی ہم سب نے مذمت کی۔“ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہی لوگ جب آئی ایس پی آر کے اس بیان پر کہ سید نے وڑائچ کو کوئی انٹرویو نہیں دیا پر سینہ تان کر کہتے ہیں کہ ”دیکھا! ہمارا کپتان نہیں مانا۔“ وہ خود کو سچا اور مکمل سچائی پر یقین رکھنے والا سمجھتے ہیں۔

​ہم نے دیکھا ہے کہ فوجداری مقدمات میں، چاہے وہ ضلعی عدالت میں ہوں یا انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں، جب مدعی فریق اپنا بیان تبدیل کرتا ہے تو وہ عموماً دو میں سے ایک ہی بات کرتا ہے: یا تو یہ کہ ”یہ مجرم نہیں“ یا پھر یہ کہ ”ہم نے اللہ کی رضا کی خاطر معاف کیا“۔ حالانکہ حقیقت میں سب جانتے ہیں کہ ایک ڈیل ہو چکی ہوتی ہے، مگر اس حقیقت سے انکار کی اداکاری کی جاتی ہے اور جان بوجھ کر انجان بنا جاتا ہے۔ نہیں نہیں یہ نہیں کہا جا رہا کہ یہاں ایسا ہوا ہے۔ 

​ وڑائچ صاحب ایک قدآور صحافی ہیں، انہیں مزید شہرت کا کوئی لالچ نہیں ہونا چاہیے۔ اور نیازی صاحب ابھی تک باہر نہیں آئے، وہ آنا چاہتے ہیں مگر جن پر انہیں باہر لانے کی ذمہ داری ہے وہ لانا نہیں چاہتے شاید، وہ بونے اپنا قد لمبا ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ باقی جو لوگ اقتدار میں ہیں، ان کے بارے میں بس اتنا کہنا کافی ہے کہ:

​Power is, and will remain, in the hands of the powerful, who ultimately decide who will be its next inheritor.

​جو ٹھہرے ہیں تو شاید دل میں کچھ ہے

جو چل پڑیں گے تو یہ بھی نہ ہوگا



5/17/2022

فیصلہ

عدالتیں سائلین کی مرضی کے فیصلے کرنے کو نہیں بلکہ جو انہیں عین انصاف لگے اپنی قانونی سمجھ بوجھ کے تحت آزادانہ فیصلے دینے کو ہیں۔ 
 جج کی مرضی و خواہش ممکن ہے کبھی انصاف کے متضاد ہو مگر وہ پابند ہے کہ قانون و حقائق (جو عدالت کے سامنے ہوں) کے مطابق فیصلہ دے۔ تاریخ بہت ظالم ہے یہ آگاہ کر دیتی ہے کون سا فیصلہ انصاف کے مطابق تھا اور کون سا خواہش کے زیر اثر۔ یوں پردہ فاش ہوتا ہے کون سا منصف ایماندار تھا اور کون سا قاضی بے ایمان۔ 
کسی سائل کا فیصلے کو ناانصافی کہنا اسے غلط فیصلہ نہیں بناتا۔

5/12/2019

1965 کے صدرارتی انتخابات


وہ تاریخ جو آپ کو مطالہ پاکستان کی کورس کی کتابوں میں نہیں ملے گی


تاریخ می کئی چہروں پر ایسا غلاف چڑھا رکھاہے کہ اب انکی تعریف کرنی پڑتی ہے اور ان کا ماضی ہمیں بھولنا پڑتا ہے ایسےکئی کردار صدارتی الیکشن 1965 کے ہیں جن پر اب کوئی بات بھی نہیں کرتا اور نہ انکے بارے میں کچھ لکھا جاتا ہے یہ پہلا الیکشن تھا جس میں بیورکریسی اور فوج نے ملکر دھاندلی کی۔
1965کے صدارتی الیکشن میں پہلی دھاندلی خود ایوب خان نےکی پہلے الیکشن بالغ رائے دہی کی بنیاد پر کرانے کا اعلان کیا ۔یہ اعلان 9اکتوبر1964کوہوا مگر فاطمہ جناح کے امیدوار بنے کے بعد یہ اعلان انفرادی رائے ٹھہرا اور ذمہ داری حبیب اللّہ خان پرڈالی گئی یہ پہلی پری پول دھاندلی تھی۔
1964 میں کابینہ اجلاس کے موقع پروزراء نے خوشامد کی انتہا کی حبیب خان نے فاطمہ جناح کو اغواء کرنے کی تجویز دی وحیدخان نے جووزیراطلاعات اورکنویشن لیگ کے جنرل سیکرٹری تھے تجویزدی کہ ایوب کو تاحیات صدر قرار دینے کی ترمیم کی جائے بھٹونے مس جناح کو ضدی بڑھیا کہا اگرچہ یہ تمام تجاویز مسترد ہوئیں۔ ایوب خان نے الیکشن تین طریقوں سے لڑنےکا فیصلہ کیا۔
پہلامذھبی سطح پر،انچارج ، پیرآف دیول تھے جنہوں نے مس جناح کےخلاف فتوےديئے
دوسری انتظامی سطح پرسرکاری ملازم ایوب کی مہم چلاتے رھے
تیسری عدالتی سطح پرمس جناح کےحامیوں پرجھوٹےمقدمات درج ہوئےعدالتوں سے انکے خلاف فیصلے لئے گئے۔
سندھ کے تمام جاگیردار گھرانے ایوب کےساتھ تھے۔بھٹو،جتوئی،۔محمدخان جونیجو،ٹھٹھہ کےشیرازی،خان گڑھ کے مہر،۔نواب شاہ کےسادات،بھرچونڈی،رانی پور،ہالا،کےپیران کرام ایوب خان کےساتھی تھے۔جی ایم سید ، حیدرآباد کےتالپوربرادران اور بدین کے فاضل راہو مس جناح کے حامی تھے یہی لوگ غدار تھے ۔
پنجاب کے تمام سجادہ نشین سوائے پیرمکھڈ صفی الدین کوچھوڑکر باقی سب ایوب خان کے ساتھی تھے۔سیال شریف کےپیروں نے فاطمہ جناح کےخلاف فتوی دیا پیرآف دیول نے داتادربار پر مراقبہ کیا ۔اور کہاکہ داتاصاحب نے حکم دیا ہے کہ ایوب کوکامیاب کیاجائے ورنہ خدا پاکستان سے خفا ہو جائے گا۔ آلومہار شریف کے صاحبزادہ فیض الحسن نے عورت کےحاکم ہونے کے خلاف فتوی جاری کی ۔مولاناعبدالحامدبدایونی نے فاطمہ جناح کی نامزدگی کو شریعت سے مذاق اور ناجائز قرار دیا حامدسعیدکاظمی کے والد احمدسعیدنے ایوب کو ملت اسلامیہ کی آبروقراردیا یہ لوگ دین کے خادم ہیں۔لاھورکے میاں معراج الدین نے فاطمہ جناح کےخلاف جلسہ منعقدکیا جس سےمرکزی خطاب غفارپاشا وزیربنیادی جمہوریت نے خطاب کیا معراج الدکن نے فاطمہ جناح پر اخلاقی بددیانتی کاالزام لگایا موصوف یاسمین راشدکےسسرتھے۔ میانوالی کی ضلع کونسل نے فاطمہ جناح کے خلاف قراردداد منظور کی ۔ مولانا غلام غوث ہزاروی صاحب نے ایوب خان کی حمایت کااعلان کیا اور دعا بھی کی پیرآف زکوڑی نے فاطمہ جناح کی نامزدگی کو اسلام سے مذاق قراردیکر عوامی لیگ سے استعفی دیا اور ایوب کی حمایت کااعلان کیا۔
سرحدمیں ولی خان مس جناح کےساتھ تھے ۔یہ غدارتھے۔
بلوچستان میں مری سرداروں اورجعفرجمالی کوچھوڑ کر سب فاطمہ جناح کےخلاف تھے۔ قاضی محمد عیسی مسلم لیگ کابڑ انام بھی فاطمہ جناح کےمخالف اورایوب کے حامی تھے انہوں نے کوئٹہ میں ایوب کی مہم چلائی ۔ حسن محمودنے پنجاب و سندھ کے روحانی خانوادوں کو ایوب کی حمایت پرراضی کیا۔
خطہ پوٹھوہارکے تمام بڑے گھرانے اور سیاسی لوگ ایوب خان کےساتھ تھے ۔ چودھری نثار والد برگیڈیئرسلطان , ملک اکرم جو دادا ہیں امین اسلم کے ملکان کھنڈا کوٹ فتح خان، پنڈی گھیب، تلہ گنگ ایوب کے ساتھ تھے سوائے چودھری امیر اور ملک نواب خان کےاور الیکشن کے دو دن بعد قتل ہوئے۔
شیخ مسعود صادق نے ایوب خان کیلئے وکلاہ کی حمایت کا سلسلہ شروع کیا کئ لوگوں نے انکی حمایت کی پنڈی سے راجہ ظفرالحق بھی ان میں شامل تھے اسکےعلاوہ میاں اشرف گلزار ۔بھی فاطمہ جناح کے مخالفین میں شامل تھے۔
صدارتی الیکشن 1965کے دوران گورنر امیرمحمد خان صرف چند لوگوں سےپریشان تھے ان میں شوکت حیات،۔خواجہ صفدر جو والد تھے خواجہ آصف کے، چودھری احسن جو والد تھے اعتزاز احسن کے ، خواجہ رفیق جو والد تھے سعدرفیق کے ، کرنل عابدامام جو والد تھے عابدہ حسین کے اورعلی احمد تالپورشامل تھے۔ یہ لوگ آخری وقت تک۔۔فاطمہ جناح کےساتھ رہے۔
صدارتی الکشن کےدوران فاصمہ جناح پر پاکستان توڑنےکاالزام بھی لگا یہ الزام زیڈ-اے-سلہری نے اپنی ایک رپورٹ میں لگایا جس میں مس جناح کی بھارتی سفیرسےملاقات کاحوالہ دياگیا اوریہ بیان کہ قائدتقسیم کےخلاف تھے یہ اخبار ہرجلسےمیں لہرایاگیا ایوب اس کو لہراکر مس جناح کوغدارکہتےرھے۔
پاکستان کامطلب کیا لاالہ الااللّہ جیسی نظم لکھنےوالے اصغرسودائی ایوب خان کے ترانے لکھتے تھے۔ اوکاڑہ کےایک شاعر ظفراقبال نے چاپلوسی کےریکارڈ توڑڈالے یہ وہی ظفراقبال ہیں جوآجکل اپنےکالموں میں سیاسی راہنماؤں کامذاق اڑاتےہیں۔ سرورانبالوی اور دیگرکئی شعراء اسی کام میں مصروف تھے۔ حبیب جالب، ابراھیم جلیس ، میاں بشیرفاطمہ جناح کےجلسوں کے شاعرتھے۔ جالب نے اس کام میں شہرت حاصل کی ۔ میانوالی جلسےکےدوران جب گورنرکے غنڈوں نے فائرنگ کی توفاطمہ جناح ڈٹ کرکھڑی ہوگئیں اسی حملےکی یادگا بچوں پہ چلی گولی ماں دیکھ کےیہ بولی نظم ہے۔۔فیض صاحب خاموش حمائتی تھے۔
چاغی،لورالائی ، ،سبی، ژوب، مالاکنڈ، باجوڑ، دیر، سوات، سیدو، خیرپور، نوشکی، دالبندین، ڈیرہ بگٹی، ہرنائی، مستونگ، چمن، سبزباغ سے فاطمہ جناح کو کوئی ووٹ نہیں ملا ۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ایوب ، فاطمہ کےووٹ برابرتھے مس جناح کےایجنٹ ایم خمزہ تھے اور اے سی جاویدقریشی جو بعد میں چیف سیکرٹری بنے
مس جناح کو کم ووٹوں سے شکست پنڈی گھیب میں ہوئی۔ ایوب کے82 اور مس جناح کے 67 ووٹ تھے۔اس الیکشن میں جہلم کے چودھری الطاف فاطمہ جناح کےحمائتی تھے مگر نواب کالاباغ کےڈرانےکےبعد۔ پیچھے ہٹ گئ یہاں تک کہ جہلم کےنتیجے پردستخط کیلئے ۔مس جناح کے پولنگ ایجنٹ گجرات سے آئے اسطرح کی دھونس عام رہی۔
۔حوالےکیلئےدیکھئے ڈکٹیٹرکون ایس ایم ظفرکی ، میراسیاسی سفر حسن محمود کی ، فاطمہ جناح ابراھیم جلیس کی ۔مادرملت ظفرانصاری کی ۔۔فاطمہ جناح حیات وخدمات وکیل انجم کی۔ story of a nation..allana..A nation lost it's soul..shaukat hayat..Journey to disillusion..sherbaz mazari. اورکئ پرانی اخبارات۔۔


یہ تحریر دراصل ایک سرمد سلطان کے ٹویٹ ٹھریڈ کا مجموعہ ہے جو آپ یہاں دیکھ سکتے ہیں

12/27/2017

※※※اقسام وکیل با زبان وکیل ※※※

(نوٹ یہ تحریر مجھے بذریعہ وٹس اپ موصول ہوئی لکھاری کا علم نہیں مگر حسب حال ہے)

‎ہم پر یہ راز کھلا کہ دیگر مخلوقات کی طرح وکیلوں کی بھی کئی اقسام پائ جاتی ہیں ۔

‎جن کی حتمی تفصیلات بارکونسل کے مستقل  افسران کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ۔کچھ ناکام وکیلوں کی مدد سے ہم تاحال وکیلوں کی جن اقسام کو دریافت کر پا ۓ وہ درج زیل ھیں

اصلی وکیل:

‎سب سے پہلے تو اصلی وکیل، یہ وکیلوں کی وہ کمیاب قسم ہے جو شاذ شاذ ہی نظر آتے ھیں۔یہ ھر نۓ قانون سے واقفیت کی کوشش میں سرگرداں نظر آتے ھیں۔ عموماََ ان کے جلو میں دو نہایت تابع فرماں قسم کے ننھے وکیل یعنی جونیئر ہوتے ہیں، جن میں سے ایک کے ہاتھ می مقدموں کی فائلیں اور دوسرے کے ہاتھوں میں کوئی پی ایل ڈی کی موٹی سی کتاب یا اصل وکیل کی ڈائری ہوتی ہے ، جو اس کے لئے کسی کتاب سے کم نہیں ہوتی یہ دونوں اصل وکیل کے دائیں بائیں چلتے ہوئے انتہائی ہنر مندی سے ایک ایسی مثلث تشکیل دے لیتے ہیں جس میں اصلی وکیل اور انکے درمیان شرقاََ غرباََ ڈیڑھ قدم کا فاصلہ اور آپس میں شمالََ جنوباََ ٹھیک تین قدم کا فاصلہ برقرار رہتا ہے ۔

‎اصلی وکیل اپنے مقدمات کی پیروی خود کریں یا کسی جونیئر کو بھیجیں ہر دو صورت میں انہیں مقدمے کی ٹھیک ٹھیک صورتحال معلوم ہوتی ہے ۔ اور یہ مقابلے کے وکیل سے ایک قدم آگے کی سوچ میں ڈوبے رہتے ہیں گفتگو کم کرتے ہیں سوچتے زیادہ ہیں ان کے منہ سے نکلنے والا ایک ایک جملہ آئین کی پُر پیچ ندیوں میں نہایا ہوا، اور قانون کی موٹی موٹی کتابوں کی ہوا سے سکھایا ہوا ہوتا ہے ۔ اس پہلی قسم کے وکیلوں کو انسانوں کے بجائے کتابوں کے درمیان رہنا زیادہ پسند ہوتا ہے۔۔۔دفتر ان کا وقت زیادہ گزرتا ھے ۔سوائے جج حضرات کے ، یہ عام زندگی میں کسی سے نہیں الجھتے ، چونکہ یہ قسم شاذ و نادر نظر آتی ہے لہذا ان کے بارے میں زیادہ معلومات حاصل نہیں۔

قبلی وکیل:

یہ عموماً میرون ٹائ میں ملبوس نظر آئیں گے اور اس تکلیف کے پیش نظر کے ان کو مقدمہ میں پیش ھو نے کی ابھی اجازت نہ ھے ان کا خیال ھوتا ھے کہ اگر موصوف استاد کی جگہ یہ ھوتے تو ان کی شعلہ بیانی قابل سماعت ھوتی جبکہ مستقبل میں اس کے بالکل برعکس ھوتا ھے اور دوران بحث اپنی آواز بمشکل سنائ دیتی ھے۔

منتھلی وکیل:

یہ قسم سرکاری دفاتر میں پائ جاتی ھے جن کو منتھلی تنخواہ کی ترسیل ان کے بینک اکاونٹ میں مل جاتی ھی اور ان کا کام صرف عدالتوں کے باھر کھڑے  ھو کر اس وکیل کا انتظار کرنا ھوتا ھے جس کو اس سرکاری ادارے نے متعین کیا ھوتا ھے۔  ان کے پاس ایک سرکاری گاڑی ھوتی ھے جس میں پیٹرول ڈلتا ھی رھتا ھے۔ ان کا قوانین کی تشریح سے کوئ واسطہ نہیں ھوتا اور الیکشن کے دن بھی وارد ھوتے ھیں۔

الیکشنلی وکیل:

یہ جوائنٹ سیکرٹری سے لے کر صدر تک کا الیکشن لڑتا ھے اور  وہ کچھ کرتا ھے جو ساری اقسام کے وکیل مل کر بھی نہیں کر سکتے۔۔۔۔  میرا مطلب بار کی خدمت۔۔۔۔۔ کرتا ھے۔۔۔

جبلی وکیل:

جبل عربی میں پہاڑ کو کہتے ھیں ۔۔۔تو شاھیں ھے بسیرا کر لا فرموں کی چٹانوں پر۔۔۔۔ اس وکیل کو اس کے علم کے عوض دس گنازیادہ  ڈالر ملتے ھیں۔ اس کی زندگی پرتعیش اور اکثر رنگین ھوتی ھے۔۔۔ فکر معاش اس کا مسلۂ نہیں ھوتا بلکہ مزید تر معاش از خود اس کی تلاش میں ھوتا ھے۔۔۔۔ویک اینڈ پر اس کا خرچہ ایک سول جج کی ماہانہ تنخواہ کے برابر ھو جایا کرتا ھے۔۔۔ یہ اکثر سوال کرتا پایا جاتا ھے کہ آجکل ھائ کورٹ کی عمارت کہاں واقع ھے۔۔۔وجود زن سے ان کی تصویر کائنات میں رنگ سنبھالے نہیں سنبھلتے۔۔۔۔۔پردہ پوشی درست است

نسلی وکیل:

‎ان کے علاوہ وکیلوں کی ایک قسم نسلی وکیل بھی ہے ، یہ وکیلوں کی وہ قسم ہے جو نسل در نسل
‎وکالت سے وابستہ ہے ان میں کچھ صرف ددیال کی طرف سے واکالت ورثے میں پاتے ہیں اور کچھ نجیب الطرفین وکیل ہوتے ہیں ادھر ابا اور دادا وکیل اور ادھر اماں اور نانا وکیل ۔ وکالت ان کی رگوں میں دوڑ تی ہے ۔ اور اگر انہیں وکالت سے دلچسپی نہ بھی ہو تب بھی یہ کامیاب وکیل ثابت ہوتے ہیں ۔ گھرانے کا گھرانا وکیل ہوتا ہے نہار منہ مقدموں کی باتیں شروع ہوجاتی ہیں۔ خاندان میں کوئی جج بھی ہوجائے تو سونے پہ سہاگہ ۔ نسلی وکیلوں کو زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی، انہیں بچپن ہی سے وکالت کے داؤ پیچ سکھائے جاتے ہیں جس سے یہ اسکول میں اساتذہ اور ساتھ پڑھنے والے بچوں کی زندگی مشکل کردیتے ہیں بعد کو یہی مشق شدہ تربیت جج صاحبان کے لئے دردِ سر بنتی ہے ۔ ایسے واقعات بھی سننے میں آئے ہیں کہ بھر ی عدالت میں مقدمے کی پیروی کے دوران دلائل دیتے ہوئے وکیل صاحب نے "آئی آبجیکٹ مائی لارڈ" کے بجائے روانی میں " آئی آبجیکٹ بڑے ماموں" کہہ دیا۔

‎ایک اعتبار سے یہ مظلوم بھی ہوتے ہیں کہ کسی مقدمے کی بیروری میں تاخیر سے پہنچنے پر جو ڈانٹ جج صاحب سے کمرہِ عدالت میں پڑتی ہے وہی ڈانٹ رات کو کھانے کی میز پر انہیں جج صاحب سے بحثیت والدِ محترم دوبار سننے کو ملتی ھے

کسلی وکیل:

‎نسلی وکیلوں کو جہاں بہت سے فوائد ہیں وہیں بہت سے نقصانات بھی ہیں ، ان کے مقابلے میں وکیلوں کی ایک دوسری قسم جسے "کسلی وکیل" کہا جاتا ہے ہمیشہ آرام سے رہتی ہے ۔ ان کی نسبت ان کی کسل مندی کی بنیاد پر ہے ۔ یہ انتہائی سست اور کاہل قسم کے وکیل ہوتے ہیں ، ایک تو عدالتی نظام کی رفتار پر پہلے ہی تنقید کی جاتی ہے ، کسلی وکیل اس رفتار کو اور سست کردیتے ہیں ، ذرا ذرا سی بات بلکہ بات بے بات پیروئی کی نئی تاریخ لینا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ " تاریخ پہ تاریخ ۔۔۔ تاریخ پہ تاریخ"جیسے مشہور فلمی ڈائیلاگ انہیں کسلی وکیلوں کی مرہونِ منت ہیں ۔ یہ زیادہ تر وقت اپنے دفاتر میں گزارتے ہیں بار کونسل میں کم آتے ہیں ۔ عدالتوں میں اس سے بھی کم جاتے ہیں ۔ یہ کبھی کبھی بار کونسل کے سوفوں میں یوں دھنس کے بیٹھے نظر آتے ہیں کہ کوٹ پشت سے اٹھ کر گدی سے ہوتا ہوا سر کے اوپر آکر ایک موکلہ سا بنا لیتا ہے جس سے منہ نکال کر یہ بے دلی اور نفرت سے چاک و چوبند وکیلوں کو گھورتے ہیں ۔ ویسے تو یہ تمام لوگوں کو گھورتے ہیں مگر ان کےغضب کا سب سے زیادہ شکار ، "پسلی وکیل " ہوتے ہیں ۔

پسلی وکیل:

‎جی ہاں ، "پسلی وکیل"یہ وہ وکیل ہیں جن کیلئے محاورے کا ڈیڑھ پسلی بھی زیادہ معلوم ہوتا ہے ۔ معصوم معصوم چہروں والے یہ ننھے وکیل ، اپنی خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے پڑھائی میں بہت آگے ہوتے ہیں ۔ یہ بچپن میں غذا سے حاصل ہونے والی توانائی کا بڑا حصہ، اپنی ذہنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں استعمال کرتے ہیں لہذا جسمانی نشونما کی رفتار سست پڑجاتی ہے ۔ اگر ایسے چار چھ پسلی وکیل ایک جگہ جمع ہوں اور پس منظر سے عدالت کی عمارت ہٹا دی جائے ، تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اسکول کے بچے سالانہ ٹیبلو کی تیاری کررہے ہیں ۔

‎ایسے وکیل عموماََ جرائم کے مقدموں سے دور رہتے ہیں ، عموماََ ایسے مقدمات کا انتخاب کرتے ہیں جس میں کسی زور آور موکل سے واسطہ نہ پڑےمثلاََ مالی بے ضابتگی، نام کی تبدیلی ، ملکیت کی منتقلی، اور صلاح نامہ وغیرہ

ٹسلی وکیل:

‎ ۔ان کے بالکل مخالف ، وکیلوں کی ایک سب سے خطرناک قسم پائی جاتی ہے جسے "ٹسلی وکیل " کہا جاتا ہے ۔ یہ "ٹسلی" لفظ ٹسل سے ہے ۔ بمعنی اڑ جانا، ضد کرنا، کینہ رکھنا، جھگڑا کرنا ، دشمنی رکھنا، اس لفظ میں یہ تمام کیفیات یکجا ہیں ۔ اس نوع کے وکلا ء کے پاس زیادہ تر مقدمات اپنے ہی قائم کردہ ہوتے ہیں ۔جو انہوں نے اپنے قرب و جوار کے لوگوں پر مختلف اوقات اور مختلف کیفیات میں دائر کئے ہوتے ہیں ۔جن میں عام طور سے محلے کا دھوبی ، حجام، گاڑی کا مکینک، بچوں کے اسکول کا ہیڈ ماسٹر، سسرالی رشتہ دار، الغرض جہاں جہاں ان کی ٹسل ہوجائے یہ وہیں مقدمہ داغ دیتے ہیں ۔ یہ وکیل اپنی وکالت کی سند کا بے دریغ استعمال اپنا بنیادی حق سمجھتے ہیں ۔ بعض اوقات تو مقدمہ ہارنے کے بعد مقابلے کے وکیل تک پر مقدمہ داغ دیتے ہیں ۔

وصلی وکیل:
‎البتہ وکیلوں کی سب سے زرخیز قسم وصلی وکیل ہوتے ہیں ۔ یہ صرف عدالتی شادیاں یعنی کورٹ میرج کرواتے ہیں۔ ان کے پاس کبھی مقدمات کی کمی نہیں ہوتی ۔ بلکہ عدالتی شادیوں کے نتیجے میں عداوتی مقدمات کا ایسا بیج بو تے ہیں جس سے دوسرے وکیلوں کا دال دلیہ بھی جاری ہوجاتا ہے ۔ حالانکہ بارکونسل میں ان کی زیادہ آؤ بھگت نہیں ہوتی مگر اعداد و شمار سے ثابت کرنا مشکل نہیں کہ یہی طبقہء وکیلاں ساٹھ فیصد وکیلوں کیلئے معاشی راہیں ہموار کرتا ہے ۔

9/14/2015

فیصلے و انصاف

کام نہیں ذمہ داری بندے کو مارتی ہے. جب دوسری کی عزت، مال و زندگی کا دارومدار آپ کی قابلیت و فیصلہ کا منتظر ہو تو ذمہ داری فیصلہ کرنا نہیں انصاف کرنا ہوتا ہے. عدالتوں سے فیصلے ذیادہ آ رہے ہیں انصاف کم!


جب جب ہم نے جج کے امتحان کی تیاری کی تب تب ہمیں اپنے ایک  دوست کی بات یاد آئی کہ حاکم و قاضی بننے کی خواہش ہی نااہلیت کی سند ہے امتحان میں کامیابی حاصل کرنے والا جج کی کرسی پر بیٹھ کر فیصلے تو کر سکتا ہے انصاف کرنے کا اہل ہو اس کی کوئی ضمانت نہیں. ایسی باتیں ان کو سمجھ آئیں جنہوں نے سمجھنی ہوں ہمارا ان سے کیا لینا دینا. ہمارے والد نے ایک رات سو جانے کا حکم صادر کرتے ہوئے پوچھا جج بن کر کیا کرو گے ہم نے فورا ججز کی تنخواہ، مراعات اور معاشرتی مقام پر روشنی ڈالی بجائے خوش ہونے کے چہرے پر پریشانی نظر آئی. اگلے دن والدہ نے ہم سے پوچھا کیا کہا تھا رات کو تم نے اپنے ابو کو؟ ہمیں نہ سوال سمجھ آیا نہ رات کی گفتگو کی طرف دھیان گیا! لہذا سوال کر ڈالا "کیوں کیا ہوا؟" کہنے لگی کہہ رہے تھے یہ عام سا ہی نکلا لگتا ہے کسر رہ گئی تربیت میں!


اکثر سرکاری ملازمین کا بڑھاپا تب شروع ہوتا ہے جب وہ نوکری سے ریٹائر ہو جاتے ہیں عمر کی گنتی نہیں وقت اہم ہے . تب ہی ان کے پاس سنانے کو زندگی کے کئی قصے ہوتے ہیں. جج بھی سرکاری ملازم ہی ہوتا ہے. ریٹائرمنٹ کے بعد وکالت کمانے کے لیے کم اور قصے سنانے کے لیے ذیادہ کرتا ہے. یہ قصے ان کے لئے ستائش جیتے کا ذریعہ ہوں گے مگر نئی نسل کے لئے سیکھنے کا راستہ ہوتے ہیں، ایسے قصوں سے سیکھا ہوا ہمیشہ کام آتا ہے عدالت میں بھی اور زندگی میں بھی.


عدالتوں میں فیصلوں کے لئے ہونی والی مباحث میں حقائق و قانون دونوں زیر بحث آتے ہیں مگر جب بھی سابقہ ججز سے ان کے اہم فیصلوں کی روداد سنے تو وہ معاملے سے متعلق حقائق و اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ کیسے ان کا فیصلہ انصاف کے مطابق تھا قانونی نقاط قصے کا حصہ نہیں ہوتے . اس سے ہم نے یہ تاثر لیا نیت انصاف کرنا ہو تو ٹیڑھا قانون بھی رکاوٹ نہیں بنتا.

کوئی خود کو برا نہیں کہتا مگر جو سچ دوسرے آپ کے بارے میں کہتے ہیں اس کا کوئی متبادل نہیں. سابقہ ججز کے ساتھ کام کرنے والے کلرک، پٹے والے، ان کے ڈرائیور،  گارڈ اور باورچی جو قصے سناتے ہیں ان سے محسوس ہوتا ہے جج صاحبان کی اکثریت بس نوکری کرتی ہے، فیصلے سناتی ہیں. کہنے کو تو کہا جاتا ہے ایک بے گناہ کو سزا دینے سے بہتر ہے کہ سو گناہ گار کو چھوڑ دیا جائے مگر گناہ گار کو سزا سنائے جانے کے جو قوت و حوصلہ درکار ہے وہ بھی کسی حد تک ناپید ہے. یہ ڈر کہ اوپر والی عدالت اگر میرا فیصلہ بدل دے اور ایسے بدلے ہوئے فیصلوں کی اکثریت نوکری میں ترقی کے امکان کم دیتے ہیں کا خوف ملزمان کو چھوڑنے کا سبب بنتے ہیں. یوں فیصلے ہوتے ہیں انصاف نہیں.


عمومی طور پر قتل و زنا کے مقدمات کے علاوہ باقی جرائم میں ملزم کو بری کرنے کا رجحان قریب قریب سو فیصد ہی ہے. صرف جج صاحبان ہی رعایت نہیں کرتے بلکہ خود مدعی، پولیس اور پراسیکیوٹر بھی ملزمان کے ساتھ نرمی رکھتے ہیں. مدعی و گواہان تو عدالت سے باہر ملزمان سے صلح کر کے کٹہرے میں بیان بدلتے ہیں یوں ملزمان باعزت بری ہوتے ہیں (یہ بات کسی حد تک دیوانی و خانگی تنازعات کے بارے میں بھی ہے) . تھانے میں لکھوائی گئی ابتدائی رپورٹ میں شامل جھوٹ سچ کو بھی کھا جاتا ہے. عدالت کے کٹہرے میں انصاف کے حصول کے لئے کم اور دوسرے کو سزا دلوانے کو ذیادہ پیش ہونے والوں کا جھوٹ ملزم کو تو گناہ گار نہیں کرتا البتہ اس کی غلطیوں و جرائم کو دھندلا ضرور کر دیتا ہے. عدالت کے کٹہرے میں صرف ملزم و مجرم ہی نہیں فریادی و گواہ بھی پیش ہوتے ہیں. مجرمان کو صرف عدالت کے کٹہرے میں لانا ہی کافی نہیں ہوتا کٹہرے میں خود مدعی کو بھی کھڑا ہونا ہوتا ہے. برائی اور گناہ کی شہادت دینا اصل امتحان ہے جس میں بہت کم لوگ ہی کامیاب ہوتے ہیں کچھ بیان سے مکر جاتے ہیں اور کچھ جرم کی ہیت بڑھانے کو اس میں جھوٹ کی آمیزش کرتے ہیں، جھوٹ پکڑا جاتا ہے یوں  سچ بھی مشکوک ہو جاتا ہے اور ملزم بری. ایسے میں فیصلہ آتا ہے شاید تب حالات کے تحت یہ ہی انصاف ہے.


عدالت کے کٹہرے میں گواہی سے پہلے حلف لیا جاتا ہے. ہر فرد کو اس کے عقیدے کے مطابق کلمہ پڑھایا جاتا ہے اس کے رب کا خوف دلوا کر سچ بولنے کا کہا جاتا ہے اور جھوٹ کی صورت میں رب العزت کے عذاب و کہر کا حقدار.  ہمارے ایک سینئر دوست کہتے ہیں یہ عدالتوں کے کٹہرے میں خدا کو حاضر ناضر جان کر بولا گیا جھوٹ ہی تو ہماری تباہی کی وجہ ہے. لوگ اپنے اپنے خداؤں کے نام پر جھوٹی گواہی دینے سے نہیں ڈرتے مگر بیوی و بچوں کے نام پر قسم کھا کر گواہی دینے سے انکار کر دیتے ہیں اندازہ لگایا جا سکتا ہے کیونکہ فیصلے آتے ہیں انصاف نہیں.


ایسا بھی نہیں کہ سب جھوٹ کی دلالی کریں کئی کٹہرے میں سچ کے سوا کچھ بھی نہیں گواہی میں کہتے اور ہم نے دیکھا وہ انصاف پر مبنی فیصلے جیت کر جاتے ہیں. انصاف یہ ہی نہیں کہ ملزم کو سزا ہو انصاف یہ ہے کہ اسے احساس ہو وہ پچھتائے، وہ توبہ کرے اور معافی کا طالب ہو.


عدالتیں نہیں، جج نہیں، وکیل نہیں، گواہ نہیں بلکہ صرف سچ ہی انصاف کے حصول کو ممکن بناتا ہے آٹے میں نمک کے برابر جھوٹ بھی انصاف کو کھا جاتا ہے پھر بس فیصلہ ہی آتا ہے. یہ مشاہدہ ہے یہ تجربہ ہے مگر یہ سمجھ کسی کسی کو آتی ہے یہ نظر ہر کسی کو نہیں آتا.
ہماری عدالتوں سے واقعی اب فیصلے آ رہے ہیں انصاف نہیں اور قصور وار ہم سب ہیں کوئی ایک نہیں. 


5/27/2015

جعلی ڈگری، سچی صحافت

دھوکہ و فراڈ ایک جرم ہے، جرم قابل سزا ہوتا ہے. ملزم کے مجرم بننے تک کے درمیانی سفر میں کئی ایسے مقام آتے ہیں جب اپنے و مخلص پہچانے جاتے ہیں. ہمارے ایک دوست کہا کرتے ہیں مجرم کو اس کے جرم کی سزا دلانا اس سے دوستی و محبت کی ایک شکل بھی ہو سکتی ہے اور اس کو بچا لینا اس سے دشمنی.
ہمارے ملک میں حرام کی کمائی سے حج کرنا ہی نہیں بلکہ اس پر زکوۃ و صدقہ دینے کا بھی عام رواج ہے. جو  نوکری پیشہ حلال کمانے کے دعویدار ہیں ان میں سے بھی کئی میری طرح کے ہیں جو نوکری پر آدھ گھنٹہ لیٹ جاتے ہیں اور پونے گھنٹہ پہلے نکل لیتے ہیں کہ کام ختم ہو گیا اور سرکاری گھاتوں میں ہونے والی بے قاعدگیوں سے یوں لاتعلق ہوتے ہیں جیسے کہ گونگے، بہرے و اندھے ہوں جبکہ معلوم سب ہوتا ہے.
ہر مارکیٹ کے اپنے بنائے ہوئے چند اصول ہوتے ہیں جس سے انحراف جائز ہوتا ہے مگر اس بے اصولی کا اقرار نہیں کیا جاتا یہ مارکیٹ کا سب سے بڑا و اہم قانون ہوتا ہے.
اصلی یونیورسٹی اصلی ڈگریوں کے ساتھ ساتھ "دیگر" اسناد کا بھی اجراء کر دیں تو لینے والا مجرم ہوتا ہے مگر جعلی یونیورسٹی کی ڈگری دینے والا مجرم ہوتا ہے یہ ہی اصول ہے یہ ہی قانون. اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ خریدار خود بھی دونمبر مال کی تلاش میں تھا.
صحافت ایک نوبل پروفیشن ہے صحافی کے لئے، ان کے مالکان کے لئے یہ صنعت ہے. صنعت کوئی بھی ہو مقصد پیسہ بنانا ہوتا ہے.  اس صنعت میں سب سے ذیادہ بکنے والی شے جھوٹ ہے. یہاں سچ نہ بولنے پر بھی پیسہ کمایا جاتا ہے بس مرضی کی قیمت لگ جائے. میڈیا مالک صحافی کی ضرورت کی بولی لگاتا ہے، بیچارا صحافی اپنی مجبوری کی قیمت پر بک جاتا ہے.
اگر حرام کی کمائی سے بنائی گئی مسجد میں نماز پڑھنے والے نمازیوں کی نماز کی قبولیت کے سوال کرنا درست نہیں اور نماز کی قبولیت پر شک نہیں تو آنے دیا جائے ایک ایسا میڈیا گروپ جس سے صحافی کی قیمت اس کی مجبوری و ضرورت کو دیکھ کر نہیں قابلیت کو دیکھ کر ادا کی گئی ہو تاکہ سچ بولنے کی قیمت لگے چھپانے کی نہیں، جھوٹ نہ بولنا اصول ٹھہرے قیمت نہیں. ہاں حرام کی کمائی کمانے والا یا قانون شکنی کرنے والے کا معاملہ الگ ہے.
ضمیر کی آواز پر لبیک کہنے کے دعویدار اصولوں کے کتنے بڑے سوداگر ہے ہم جانتے ہیں.
(یہ میری رائے ہے اختلاف آپ کا حق ہے)


8/28/2013

کورٹ محرر کا ایک غیر سنجیدہ انٹرویو

آج ہم نے جس شخصیت کو انٹرویو کیلئے منتخب کیا ہے اگرچہ بظاہر وہ ایک چھوٹی شخصیت ہے لیکن درحقیقت وہ عدلیہ کی سب سے اہم ترین شخصیت ہے وہ ایک اہم ترین شخصیت اس وقت ہمارے ساتھ موجود ہیں اگرچہ وہ کسی تعارف کی محتاج نہیں لیکن انٹرویو شروع کرنے سے پہلے ہم چاہیں گے کہ وہ اپنا تعارف خود کروائیں
جناب زرہ نوازی ہے آپ کی اس خاکسار کو بہت سے لوگ " کورٹ کی دائی" کے نام سے پکارتے ہیں کچھ لوگ مجھے کورٹ کا پٹواری کہتے ہیں جب کے سرکاری طورپر مجھے "کورٹ محرر" کہا جاتا ہے میں کورٹ کی دائی بھی ہوں پٹواری بھی ہوں اور کورٹ محرر بھی میرا سرکاری کام تھانے کی ڈاک کورٹ سے لیکر تھانے تک پہنچانا ہے اور تھانے سے ڈاک لیکر کورٹ تک پہنچانا ہے تھانے کے کیسز کی نگرانی کرنا ہے افسران تک عدالتی احکام پہنچانا ہے کورٹ کی جانب سے گواہ کو جب گواہی کیلئے طلب کیا جاتا ہے تو ہم ہی گواہ کے پاس کورٹ کے اور احکامات لیکر جاتے ہیں کورٹ میں چلنے والے تھانے کے کیسز میری جایئداد بھی ہیں اور اثاثہ بھی اور میرا کاروبار بھی میں کورٹ میں جو بھی رپورٹ جمع کروادوں وہ حتمی تصور ہوتی ہے اور اسی رپورٹ ہی کی بنیاد پر کیس کا فیصلہ ہوتا ہے
سوال: کورٹ محرر صاحب آپ اپنے کاروبار اور اپنی شخصیت پر مزید کچھ روشنی ڈالیں؟
کورٹ محرر: جناب کیا روشنی ڈالوں میرے بغیر عدالتی کاروائی چل نہیں سکتی اگرچہ میں ایک چھوٹا موٹا پرزہ نظر آتا ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں پاکستانی عدلیہ کا سب سے اہم ترین مہرہ ہوں مجسٹریٹوں کو نفع بخش تھانے میری مرضی سے ملتے ہیں سیشن جج میرے مریدوں میں شامل ہوتا ہے عدالت میں میری مرضی کے بغیر کوئی کاروائی نہیں ہوسکتی اور بعض معاملات میں میری طاقت آئی جی سندھ سے بھی زیادہ ہے اگر ہم نہ ہوں تو کیس ڈسپوزل مشینیں خود ڈسپوزل ہوجائیں
سوال: حد ادب گستاخ کس قسم کی باتیں کررہے ہیں آپ کا علاقہ مجسٹریٹ آپ کے پینل پر کس طرح کام کرسکتا ہے اور آپ کی مرضی سے تھانے کس طرح تقسیم ہوسکتے ہیں اور کیس ڈسپوزل مشین سے کیا مراد ہے؟ آپ جانتے ہیں کہ آپ کیا غلط قسم کی باتیں کررہے ہیں ڈھنگ کے کپڑے آپ پہن نہیں سکتے اور باتیں کررہے ہو بڑی بڑی کہاں آئی جی سندھ اور کہاں تم جیسے تیس مارخان
کورٹ محرر: اصل بات یہ ہے کہ لوگوں سے سچ برداشت نہیں ہوتا میں آپ کو اپنی طاقت بتاتا ہوں میں ایک پولیس کا سپاہی بھی ہوں اور میرے لیئے لازم قرار دیا گیا ہے کہ میں ہمیشہ عدالت میں یونیفارم میں پیش ہوا کروں گا- عدالت کے سامنے آئی جی سندھ سے لیکر ڈی جی رینجرز تک یونیفارم میں پیش ہوتے ہیں بڑے سے بڑا فوجی افسر خفیہ ایجنسیوں کے افسران تک عدالت میں یونیفارم کی پابندی کرتے ہیں جبکہ میں ایک عام سپاہی جس کو کورٹ محرر کا عہدہ دیا گیا ہے کس طریقے سے سیشن جج کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہوتا ہوں وہ بھی بغیر یونیفارم کے کبھی آپ نے مجھے یونیفارم میں دیکھا ہے میں نے تو یونیفارم تک نہیں سلوایا اور کس علاقہ مجسٹریٹ کی بات کررہے ہیں میں جب سیشن جج کو خاطر میں نہیں لاتا تو یہ مجسٹریٹ میرے سامنے کیا بیچتے ہیں
آپ بات کررہے ہیں "کیس ڈسہوزل مشین" کی آپ کو نہیں پتا کہ کیس ڈسپوزل مشین کیا ہوتی ہے میں آپ کو بتاتا ہوں تفتیشی افسر جب تفتیش مکمل کرکے "ردی کاغذ" جو کوئی کباڑیا بھی خریدنے پر راضی نہ ہو عدالت میں چالان کی صورت میں جمع کروادیتا ہے تو عدالت ان ردی پیپرز پر بغیر دیکھے بغیر پڑھے بغیر سمجھے انتظامی حکم جاری کردیتی ہے تو اس کے بعد میرااور عدالت کام شروع ہوجاتا ہے عدالتی پیش کار ملزم میرے ساتھ مل کر جعلی رپورٹیں لگواتے ہیں کہ گواہان دستیاب نہیں میں اپنے کارندوں کے ساتھ مل کر گواہان کو ایسا ہراساں کرتا ہوں کہ وہ خواب میں بھی کورٹ کا رخ نہیں کرتا میری جعلی رپورٹوں پر ملزمان ایسے باعزت بری نہیں ہوتے جناب اس کے پیچھے پورا گیم ہوتا ہے اور اس گیم کا کپتان میں ہوں میرے تعاون کے بغیر کوئی بھی ملزم باعزت بری ہو نہیں سکتا جب میری جعلی فرضی رپورٹوں پر ملزم باعزت بری ہوتے ہیں تو نہ صرف وہ ملزمان سب کی مٹھی گرم کرکے جاتے ہیں بلکہ کیس زندہ دفن کرنے کی خوشی میں جج کو "پوایئنٹس " بھی ملتے ہیں جتنا زیادہ ڈسپوزل اتنے ہی زیادہ پوایئنٹس زیادہ سے زیادہ پوایئٹ حاصل کرنے والے کو ہماری زبان میں کیس ڈسپوزل مشین کہاجاتا ہے اسے کہتے ہیں ڈبل مزا آپ میری طاقت کو کبھی نہ آزمانا میری اجازت کے بغیر جج ضمانت منظور نہیں کرسکتا مجھے کورٹ کا پٹواری ایسے نہیں کہتے میں پورے کیس کی جزیات اور کلیات سے واقف ہوتا ہوں جو وکیل زیادہ قانون جھاڑے میرے ساتھ تعاون نہ کرے ان کے ملزمان کو جب تک میں پھانسی کے پھندے تک نہ لے جاؤں مجھے اور میری پوری ٹیم کو چین نہیں آتا
سوال: ایک تو آپ کو گھٹیا اور بے ہودہ قسم کے الزام لگانے کی بری عادت ہے کل آپ سیشن جج کے سامنے جائیں گے بغیر یونیفارم کے مت جانا وہ بڑے ایماندار لوگ ہیں اصول پسند لوگ ہیں دیکھتا ہوں آپ کو کیسے جیل نہیں بھیجتے
جب آئی جی سندھ یونیفارم کے بغیر عدالت میں پیش نہیں ہوتا تو تم اتنے طاقتور کب سے ہوگئے؟ اور آپ کی اجازت کے بغیر ضمانت کیسے نہیں ہوسکتی؟ اور آپ کی ٹیم سے کیا مراد ہے؟
جواب: میں ادنی سا کورٹ محرر اس چیلنج کو قبول کرتا ہوں جو عدلیہ گزشتہ 67 برسوں میں مجھ حقیر، فقیر بے توقیر کو یونیفارم نہیں پہنا سکی میں دیکھتا ہوں مجھے کیسے یونیفارم پہنائے گی اور جو جج وکیل کورٹ اسٹاف پورا دن مجھ سے دو نمبر کام کرواتے ہوں وہ کیسے میرے خلاف کاروائی کرسکتے ہیں لیکن میرا بھی ایک چیلنج ہے اگر کسی جج نے مجھے جیل بھیجا صرف اس وجہ سے کہ میں یونیفارم کے بغیر پیش ہوتا ہوں تو 7دن میں اس کا ٹرانسفر تھر کے علاقے مٹھی میں نہ کروایا تو میرا نام بدل دینا میں اکیلا نہیں ڈوبوں گا پورے سسٹم کو ساتھ لیکر ڈوبوں گا ہزاروں راز اس سینے میں دفن ہیں سب کے سب کھول دوں گا اگر کورٹ محرر کے ساتھ چھیڑا گیا تو پورا سسٹم بیٹھ جائے گا جہاں تک ضمانت کا تعلق ہے تو نہ ہی میں تھانے سے پولیس فائل لیکر آؤں گا نہ ہی جج ضمانت دے گا صرف اسی گراؤنڈ پر ہی کیس لٹکا رہے گا آپ نے پوچھا کہ میری ٹیم سے کیا مراد ہے یہ سوال رہنے دیں اب تو میری ٹیم پورا "گینگ بلکہ مافیا" بن چکی ہے
سوال: دوروپے کے کورٹ محرر حد ادب گستاخ اب تم اپنے قد سے بہت اونچی اونچی باتیں کررہے ہو ایسا نہ ہو کہ تمہاری بے لگام زبان اور بڑی بڑی باتیں چیف جسٹس سندھ ہایئکورٹ تک پہنچ جایئں اور تمہاری ساری اکڑخانیاں ایک منٹ میں نکل جائیں یاد رکھنا کہ غرور کا سر ہمیشہ نیچا ہوتا ہے حقیقت تو یہ کہ تم ایک نمبر کے جھوٹے انسان ہو تمہاری سب باتیں جھوٹ پر مبنی ہیں تم جیسا جھوٹا انسان کبھی زندگی میں نہیں دیکھا
کورٹ محرر: چیف جسٹس سندھ ہایئکورٹ کو میں اچھی طرح جانتا ہوں ان کا نام مشیر عالم ہے وہ پہلے کراچی کی ڈسٹرکٹ کورٹس میں پریکٹس کرتے تھے ان کو "سب" پتا ہے ان کو وہ سب باتیں پتہ ہیں جو ایک پریکٹسنگ ایڈووکیٹ کو پتا ہوتی ہیں جسٹس وہ بہت بعد میں بنے ہیں وہ آپ سے زیادہ علم رکھتے ہیں میں بڑی باتیں نہیں کرتا ہوں عاجز حقیر فقیر بے توقیر ہوں ایک حقیقت بات بتا رہا ہوں کہ جو عدلیہ اتنی بے بس ہو کہ گزشتہ 67 سالوں میں ایک میرے جیسے ایک دوروپے کے کورٹ محرر کو یونیفارم تک نہ پہنا سکے وہ اور کیا تیر مارے گی
سوال: آپ کو سب سے زیادہ خوشی کب ہوتی ہے؟
مجھے سب سے زیادہ خوشی اس وقت ہوتی ہے جس دن وکلاء عدالتوں کا بائیکاٹ کردیتے ہیں وہ دن ہمارے لیئے عید کا دن ہوتا اس دن میدان خالی ہوتا ہے ہم خوب مال بناتے ہیں
عدالتی بائیکاٹ کے دوران بھی کام ہوتا ہے؟ کورٹ محرر: چھوڑیں جی لگتا ہے آپ کو کچھ بھی نہیں پتا اصل کام تو ہوتا ہی عدالتی ہڑتال کے دن ہے ہڑتال کے دن تو ہم مال بنانے میں اتنا مصروف ہوتے ہیں کہ سرکھجانے کی فرصت نہیں ملتی اور بائیکاٹ کے دوران تو ایسا ایسا کام ہوتا ہے کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا
سوال: آپ نے اپنے پورے کئرئیر میں اپنے آپ کو کب بے بس محسوس کیا؟
کورٹ محرر: کیا یاد کروادیا یہ کہہ کر کورٹ محرر نے سسکیاں لے لے کر رونا شروع کردیا جسٹس صبیح الدین احمد کا دور جب وہ سندھ ہایئکورٹ کے چیف جسٹس تھے میری زندگی کا بدترین دور تھا میں نے اپنی پوری زندگی میں اپنے آپ کو اسقدر بے بس محسوس نہیں کیا جتنا اس دور میں محسوس کیا ہم جعلی رپورٹیں لگا لگا کر تھک جاتے تھے کہ گواہ دستیاب نہیں مکان چھوڑ کر چلا گیا لیکن عدالتیں کسی بھی صورت میں میں کیس ختم ہی نہیں کرتی تھیں ایک کیس میں پورے تین سال تک رپورٹ دیتا رہا کہ گواہ علاقہ چھوڑ گیا دستیاب نہیں لیکن جج کہتا تھا میں مجبور ہوں 249 اے کے تحت ملزم کو باعزت بری نہیں کرسکتا بالآخر تین سال بعد مجبوری کے عالم میں میں نے گواہان پیش کرہی دیئے لیکن ظالم جج نے ملزم کو ان کی گواہی پر سزا بھی لگا دی اتنا ظلم تھا اس دور میں جو گواہ تفتیش میں پیش ہوگیا اس کو ہرصورت کورٹ لیکر آؤ عدالتیں گواہان کو ہر صورت میں لانے کا حکم دیتی تھیں اور ہمیں حکم ملتے تھے کہ گواہ کو ہرصورت لیکر آؤ چاہے ہتھکڑی لگا کر لانا پڑے ایسا ظلم میں نے پاکستان کی تاریخ میں نہیں دیکھا میری رپورٹ اٹھا کر پھینک دی جاتی تھی مجھے جج صاف صاف کہتے تھے کہ تم نے یہ رپورٹ گھر بیٹھ کر بنائی ہے اور ملزم سے پیسے لیکر بنائی ہے مجھے گالیاں دی جاتی تھیں مجھے جھوٹا کہاجاتا تھا
ایک جج نے میری رپورٹ پر 249 اے کے تحت ملزمان کو باعزت بری کیا تو مجسٹریٹ کی نوکری تیل ہوتے ہوتے رہ گئی صبیح صاحب نے مجسٹریٹ کو طلب کرکے کہا کہ 249 اے کے تحت رہا کرنے سے محسوس ہورہا ہے کہ آپ نے پولیس کی تفتیش کا مطالعہ کیئے بغیر ہی چالان پر انتظامی حکم کیا ہے اس کے بعد اس مجسٹریٹ نے قسم کھائی کہ وہ ہمیشہ "ججمنٹ" کرے گا باقی نوکری اس نے ججمنٹ پاس کرکے گزاری گواہان کو طلب کرتے میری رپورٹ کو ردی کی ٹوکری میں پھینکتے اور کہتے کہ ہر صورت میں گواہ پیدا کرکے لاؤ ان کے بیان قلمبند کرتے جس کے بعد گواہان کے بیانات کی روشنی میں مقدمے کا فیصلہ کرتے تھے اور کبھی بھی ہمارے تفتیشی افسران کی تفتیش کا مطالعہ کیئے بغیر انتظامی حکم جاری نہیں کیا اور تفتیش میں ایسے ایسے کیڑے نکالتے تھے کہ تفتیشی افسران نوکری سے تنگ ہوگئے تھے ہماری پوری تنخوا خرچ ہوجاتی تھی ایسا مشکل وقت ایسے مشکل حالات خدا کبھی دشمن کو نہ دکھائے
آپ نے اپنی زندگی میں سب سے اچھا دور کب دیکھا؟
کورٹ محرر:دوہزار سات میں جب وکلاء تحریک شروع ہوئی تھی اس دور میں ہڑتالوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا وہی میری زندگی کے عروج کا دور تھا اس کے بعد تو عروج ہی عروج ہے ایسی مارا ماری شروع ہوئی کہ "تو مار تے میں مار ، میں مار تے تو مار" روز، روز کی ہڑتالوں نے عدلیہ کی بنیادیں ہی ہلا کر رکھ دی ہیں پورا نظام ہی تباہ و برباد ہوچکا ڈسٹرکٹ کورٹس کے وکلاء گزشتہ چھ سال کے دوران ہڑتالیں کرکرکے معاشی طور پر اتنے تباہ و برباد ہوگئے کہ اب ان میں ہڑتال کی سکت ہی نہیں رہی اسی دوران عدلیہ بطور ادارہ تباہ ہوا اور ہماری سوئی ہوئی قسمت جاگ گئی وکلاء کو ہڑتالوں کا مشورہ دینے والے عظیم انسان کو ہمارے بیوی بچے جھولی پھیلا پھیلا کر دعا دیتے ہیں ہماری حکومت سے اپیل ہے کہ پاکستان میں عدالتی بائیکاٹ کے خالق کو ہمارے محسن کو فوری طور پر تلاش کرنے کا حکم دے قومی تمغہ دے یعنی کوئی نشان امتیاز دے بدقسمتی سے ہم اپنے محسن کا نام تک نہیں جانتے جس نے ہمارے گھروں میں معاشی خوشحالی کی بنیاد رکھی ہم وکلاء کے اس بے مثال لیڈر کو اپنا قائد اپنا پیرومرشد تسلیم کرتے ہیں جس نے ہڑتالوں کے زریعے وکلاء کے معاشی قتل کی بنیاد رکھی
آج وکلاء میں بھی بلاوجہ کے ایسے لوگ پیدا ہورہے ہیں کہ جو وکلاء کو ورغلا رہے ہیں کہ وہ کسی بھی معاملے پر پرامن احتجاج کیلئے عدالتی بائیکاٹ کے علاوہ کوئی اور پرامن طریقہ تلاش کریں یاللہ ایسے لوگوں کی سازشوں سے ہمیں محفوظ فرما اور ان کو نیست ونابود فرما عدلیہ پر ہمارا احسان ہے
وکلاء تحریک کے دوران جب پورا نظام بند گلی میں کھڑا تھا اس دوران ہم کورٹ محرر ہی تھے جنہوں نے اپنے تجربے کی روشنی میں عدلیہ کو "بند گلیوں " سے نکلنے کے ایسے ایسے راستے دکھائے جس کے زریعے عدلیہ اس دور میں بند گلی سے ایسا نکلی کہ لوگ سوچ بھی نہیں سکتے اس کے بعد ہمارا تجربہ ہے اور عدلیہ کی طاقت ہے اور کورٹ اسٹاف کی پبلک ڈیلنگ ہے ہم نے مل جل کر ایک ایسی مضبوط بااعتماد پایئدار اور نفع بخش پارٹنرشپ کی بنیاد رکھ دی ہے جس کو توڑنا وکلاء کیلئے اب ناممکن ہی ہوگا
کورٹ محرر کی مسلسل بکواس سن کر ہماری قوت برداشت دے گئی اور غصے سے کہا کورٹ محرر بدمعاش تم عزت کے قابل ہی نہیں اپنی بکواس بند کرو اور دفع ہوجاؤ جھوٹے بدمعاش کہیں کے تم ایک نمبر کے جھوٹے انسان ہو تم نے اپنے قد سے بڑی جتنی بھی باتیں کی ہیں وہ سب جھوٹ ہیں
کورٹ محرر یہ سن کر برا مانے بغیر چلا گیا
تحریر : صفی الدہن ایڈوکیٹ

6/12/2013

ڈی این اے، اسلامی نظریاتی کونسل اور ہمارا قانون!!

ہمیں شاید عادت ہو گئی ہے آسان بات کو دشوار کرنے کی اور سیدھی بات میں ابہام ڈالنے کی! گزشتہ دنوں جب اسلامی نظریاتی کونسل نے پریس ریلیز جاری کی تو جس انداز میں خبر ہم تک پہنچی یوں معلوم ہوا کہ جیسے اسلامی نظریاتی کونسل نے ڈی این اے کو بطور شہادت لینے سے ہی انکار کیا ہے! ہم بھی اول اول اس کو لے کر پریشان ہو گئے کہ یہ مولویوں نے کیا کیا!!! مگر بعد میں علم ہوا معاملہ یوں نہیں تھا!!
آپ ڈان اخبار اور دنیا پاکستان میں اس خبر کی سرخی دیکھیں تو آپ کو سمجھ آ جائے گی کہ ابہام کس نے کہاں کیا!
ڈان نے خبر یوں لگائی “جنسی زیادتی کے مقدمات میں ڈی این اے ناقابل قبول
اور دنیا پاکستان نے یوں “زنا بالجبر ، ڈی این اے ٹیسٹ بطورمددگارشہادت قبول ہے: اسلامی نظریاتی کونسل”۔
بات یہ ہے کہ زنا بالجبر کی اسلامی سزا ہے سنگسار کرنا!! جو کہ حدود لاء کی دفعہ چھ اور دفعہ 17 کے تحت ہے! اور حدود لاء کی دفعہ آٹھ کے تحت یہ سزا اُس وقت ہی دی جائے گی جب یا تو ملزم خود اعتراف جرم کر لے یا پھر اُس کے اس گناہ یا جرم کی شہادت چار عینی گواہ دیں! اسلامی نظریاتی کونسل نے یہاں یہ رائے دی کہ زنا بالجبر کے مقدمات میں صرف ڈی این اے ٹیسٹ ہی کی بناء پر حد (یعنی سنگساری کی سزا ) نافذ نہیں کی جا سکتی اسے صرف ضمنی شہادت کے طور پر قبول کیا جائے گا! یعنی یہ شرعی شہادت نہیں! اور صرف اس کی بناء پر شرعی سزا نہیں ملے گی! اس میں کوئی حرج نہیں یہ ایک درست رائے ہے! کیوں؟
ایک عام خیال یا مغالطہ یہ پایا جاتا ہے کہ اگر چار گواہ نہ ہو تین یا اس سے کم گواہ ہوں یا شرعی شہادت نہ ہو تو ملزم کو کہا جائے گا “سر غلطی ہو گئی آپ گھر جاؤ، عیاشی کرو، آپ تو شریف آدمی ہو” ایسا نہیں ہے جناب! حدود کا نفاذ نہ ہونے پر ملزم با عزت آزاد نہیں کیا جاتا بلکہ تب بھی اگر ایسے شواہد و شہادتیں ہو جن سے اُس کا جرم ثابت ہوتا ہو تو وہ قابل سزا ٹھہرتا ہے! کیسے؟
حدود لاء کی دفعہ 10 کے تحت 25 سال تک قید(جو ہر گز 4 سال سے کم نہ ہو گی) اور 30 کوڑے مارے جائیں گے مجرم کو! مزید یہاں یہ بتانا بھی اہم ہو گا کہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 376 کے تحت زنا بالجبر میں ہی عدالت ملزم کے مجرم ثابت ہونے پر موت کی سزا بھی دے سکتی ہے۔ صرف معلومات کے لئے عرض ہے کہ پڑوسی ملک بھارت میں اس جرم کی ذیادہ سے ذیادہ سزا موت نہیں ہے یعنی ہمارے یہاں سزا سخت ہے۔ اور ملتی بھی ہے یہ نہ سمجھا جائے کہ ملزم بچ جاتا ہو گا!
اسلامی نظریاتی کونسل کی اس رائے سے پہلے ہی سپریم کورٹ اور فیڈرل شریعت کورٹ مختلف فیصلوں میں ڈی این اے ٹیسٹ کو معاون شہادت کا درجہ دے چکی ہیں بلکہ اکتوبر 2012 میں سپریم کورٹ سفارشات دی چکی ہے کہ زنا بالجبر کے کیسوں میں ڈی این اے کو لازمی قرار دیا جائے مگر دونوں (سپریم کورٹ اور فیڈرل شریعت کورٹ) حد کے نفاذ کے لئے صرف ڈی این اے کو بطور شہادت قابل قبول نہیں سمجھتیں!! کیونکہ کہ صرف اور صرف ڈی این اے کی شہادت زنا بالرضا اور زنا بالجبر میں تفریق کرنے میں معاون نہیں ہے۔ اس سلسلے میں دیگر شہادتیں بھی درکار ہوتی ہیں۔
امید کرتا ہوں دوست بات کو سمجھ گئے ہو گے! یوں لگتا ہے ٹی وی میں ہونے والی مباحث لوگوں کو با علم کرنے کے بجائے گمراہ کرنے کو کیئے جاتے ہیں۔ مزید یہاں یہ بھی آگاہ کردوں کہ پاکستان میں اب تک کسی ملزم کے مجرم ثابت ہونے پر حد نافذ نہیں ہوئی نیز اسلامی نظریاتی کونسل کو آڑے ہاتھوں لینے والے ہی ان حدود کی سزاؤں کو غیر انسانی سمجھتے ہیں! یعنی نہ اُدھر خوش نہ ادھر!!