بارش سیلاب لاتی ہے تو ہریالی بھی لاتی ہے۔ مگر یہ اس پر منحصر ہے کہ بارش کس زمین پر برسی ہے۔ جب زمین نم ہوتی ہے تو اس کی زرخیزی کا در کھل جاتا ہے۔ پکی زمینیں، جن پر پتھر یا پکے مکانات ہوں، پانی میں ڈوب کر تباہ ہو جاتی ہیں لیکن جہاں پانی کو زمین میں جذب ہونے کا راستہ ملے، وہاں سے ہریالی پھوٹتی ہے اور ایک خوشگوار و دلکش منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔ تھر کے ریتیلے پہاڑ اس کی بہترین مثال ہیں جنہوں نے آسمان سے برسنے والے پانی کے بعد ایک سبز قالین بچھا لیا ہے۔ یہ مناظر تھر کی چند روز قبل کی واپسی پر بنائی گئی ایک چند سیکنڈ کی ویڈیو سے لیے گئے ہیں۔
8/30/2025
8/21/2025
سیاست، عدالت اور تضاد
جو لوگ پہلے سپریم کورٹ کو 'اسٹیبلشمنٹ کی عدالت' قرار دیتے تھے، وہی آج اپنے حق میں فیصلہ آنے پر اسے کسی ڈیل کا نتیجہ نہیں سمجھتے۔ یہی نہیں، وہ بیرسٹر گوہر کے اس بیان کو بھی کسی ڈیل کا حصہ ماننے کو تیار نہیں، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ: ”ہم فرشتے نہیں، 9 مئی ایک غلطی تھی جس کی ہم سب نے مذمت کی۔“ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہی لوگ جب آئی ایس پی آر کے اس بیان پر کہ سید نے وڑائچ کو کوئی انٹرویو نہیں دیا پر سینہ تان کر کہتے ہیں کہ ”دیکھا! ہمارا کپتان نہیں مانا۔“ وہ خود کو سچا اور مکمل سچائی پر یقین رکھنے والا سمجھتے ہیں۔
ہم نے دیکھا ہے کہ فوجداری مقدمات میں، چاہے وہ ضلعی عدالت میں ہوں یا انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں، جب مدعی فریق اپنا بیان تبدیل کرتا ہے تو وہ عموماً دو میں سے ایک ہی بات کرتا ہے: یا تو یہ کہ ”یہ مجرم نہیں“ یا پھر یہ کہ ”ہم نے اللہ کی رضا کی خاطر معاف کیا“۔ حالانکہ حقیقت میں سب جانتے ہیں کہ ایک ڈیل ہو چکی ہوتی ہے، مگر اس حقیقت سے انکار کی اداکاری کی جاتی ہے اور جان بوجھ کر انجان بنا جاتا ہے۔ نہیں نہیں یہ نہیں کہا جا رہا کہ یہاں ایسا ہوا ہے۔
وڑائچ صاحب ایک قدآور صحافی ہیں، انہیں مزید شہرت کا کوئی لالچ نہیں ہونا چاہیے۔ اور نیازی صاحب ابھی تک باہر نہیں آئے، وہ آنا چاہتے ہیں مگر جن پر انہیں باہر لانے کی ذمہ داری ہے وہ لانا نہیں چاہتے شاید، وہ بونے اپنا قد لمبا ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ باقی جو لوگ اقتدار میں ہیں، ان کے بارے میں بس اتنا کہنا کافی ہے کہ:
Power is, and will remain, in the hands of the powerful, who ultimately decide who will be its next inheritor.
جو ٹھہرے ہیں تو شاید دل میں کچھ ہے
جو چل پڑیں گے تو یہ بھی نہ ہوگا
8/20/2025
🌊 سیلاب اور حکمرانوں کی کارکردگی
آسمان سے برستا پانی ہر سال نئی آزمائش لے کر آتا ہے۔ کبھی پنجاب، کبھی خیبرپختونخوا اور اب سندھ کے حکمرانوں کی کارکردگی اس سیلابی ریلے میں بہہ کر رہ جاتی ہے۔ تینوں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اپنی ناقص کارکردگی کو امدادی سامان اور فوٹو سیشنز کے ذریعے کیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن حقیقت سب کے سامنے ہے۔
اصل سوال یہ ہے کہ بارش بذاتِ خود تباہی نہیں لاتی۔ پانی کی یہ بارش قدرت کا تحفہ ہے، مگر تباہی اس وقت آتی ہے جب زمین پر بیٹھے حکمران اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتے۔ وہ بروقت ان تجاوزات کو ختم نہیں کرتے جو پانی کے قدرتی بہاؤ میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ یہی رکاوٹیں بستیوں کو اجاڑ دیتی ہیں، کھیت کھلیان ڈبو دیتی ہیں اور انسانی جانیں نگل لیتی ہیں۔
مزید برآں، وہ درخت جو زمین کو مضبوطی اور توازن فراہم کرتے ہیں، ان کی حفاظت بھی نہیں کی جاتی۔ کہاوت ہے: "پانی درختوں کو نہیں مارتا، پتھروں کو بہا لے جاتا ہے۔" لیکن یہاں معاملہ الٹ
ہے—حکمرانوں کی غفلت درختوں کو کاٹ دیتی ہے اور بستیوں کو کمزور کر دیتی ہے۔
المیہ یہ بھی ہے کہ وزرائے اعلیٰ کی کارکردگی سب کے سامنے کھلنے کے باوجود سیاسی کارکن اپنی جماعت کے سربراہ پر سوال اٹھانے کے بجائے مخالف جماعت کو نشانہ بناتے ہیں۔ حالانکہ سب سے پہلا سوال اپنی قیادت سے ہونا چاہیے: آخر کیوں ہر سال بارش اور سیلاب کی تباہ کاریوں کے سامنے یہ نااہلی اور بے بسی دکھائی دیتی ہے؟
8/02/2025
نو عمر آفیسر
آفسری ایک خطرناک بیماری ہے۔ یہ کسی کو بھی لاحق ہو سکتی ہے، لیکن اس کا سب سے تباہ کن اثر اُس وقت دیکھنے کو ملتا ہے جب ایک نو عمر افسر کے ماتحت کوئی ایسا شخص آ جائے جو عمر میں اس کے باپ کے برابر ہو اور ہر بات پر "جی سر، جی سر" کہنے پر مجبور ہو۔
ایسے میں کم عمر افسر اپنے سے کئی گنا تجربہ رکھنے والے بزرگ ماتحت کو محض ایک "چاکر" سمجھنے لگتا ہے۔ سوچیے، اس رویے کا نفسیاتی اثر اس بزرگ ملازم پر جو ہو گا سو ہو گا مگر اس نو عمر آفیسر پر جو اثر ہوتا ہے، وہ شاید زیادہ گہرا، دیرپا اور تباہ کن ہوتا ہے — جو اسے انسانیت، شائستگی اور ادارہ جاتی حکمت و احترام سے محروم کر دیتا ہے۔
اپنی زندگی میں ہم نے خود یہ منظر بارہا دیکھا — کسی کم عقل نو عمر "مالک" کے ہاتھوں اُن ملازمین کو بے توقیر ہوتے دیکھا جنہوں نے اپنی پوری عمر محنت، دیانت اور تجربے سے نظام چلایا تھا۔
آج کے دور میں عمر اور تجربہ، طاقت اور اختیار کے مقابلے میں اکثر بے وقعت نظر آتے ہیں۔
8/07/2023
شاہ دولہ کے چوہوں جیسے
مائیکرو سیفلی پیدائش کے دوران لگے والی ایک ایسی بیماری ہے جس کی بناء پر نومولود کے دماغ کی پرورش رک جاتی ہے۔ گجرات کے ایک بزرگ شاہ دولے کا مزار ایسے بچوں کی پناہ گاہ ہے۔ اس بناء پر ان بچوں کو شاہ دولہ کے چوہے کہا جاتا ہے کہ سر و دماغ چھوٹا رہ جانے سے چہرہ بہت باریک و پتلا ہوتا ہے۔ ایک قیاس والا الزام یہ بھی افواہ کی صورت میں مشہور ہے کہ یہاں اولاد کی منٹ قبول ہونے پر جو پہلی اولاد یہاں چھوڑ کر جاتی ہے وہ مکمل تندرست ہوتی ہے مگر مکینیکل طریقے سے سر کو کسی سانچے نما شے میں قید کر کے دماغ کی پرورش روک دی جاتی ہے اور آکسیجن کی کمی سے سر و دماغ کی ساخت چھوٹی رہ جاتی ہے۔
شاہ دولہ کے چوہے اس اعتبار سے آسانی سے پہچانے جاتے ہیں کہ ان کے سر و دماغ کی ساخت چھوٹی ہوتی ہے۔ اگر دماغ کی بڑھوتی رک جائے تو دولہ شاہ کے چوہے تخلیق ہوتے ہیں تو اگر سوچ کی بڑھوتی کو کسی خاص سیاسی لیڈر کی محبت میں قید کر دیا جائے، کسی مخصوص مذہبی رنگ میں مقید کر دیا جائے، کسی لسانی تعصب کے سانچے میں باندھ دیا جائے تو کیا وہ بھی ایک طرح کے دولے شاہ کے چوہوں کے مقابلے کا گروہ نہیں بن جائے گا؟
کیا ہم ہم میں سے اکثر اپنے منفرد انداز کے دولے شاہ کے چوہے نہیں ہیں؟ غور کریں؟ کیا ہم نے اپنے شعور کی پرورش کو روک نہیں دیا؟ کیا ہم نے اپنی پسند سے متضاد سچائیوں کو نہ ماننے کے لئے تاویلیں نہیں جمع کر رکھیں؟ کیا ہمیں صرف اپنی پسند کا سچ سننے کی عادت نہیں ہو گی؟
کچھ دھیان تو دیں؟
5/24/2023
پاک بیتی
شیری مزاری پارٹی چھوڑ گئی وجہ بیٹی، شاہ محمود قریشی اور پرویز الٰہی اب تک پارٹی کا حصہ ہیں وجہ ان کے بیٹے۔ جو پارٹی میں ہیں وہ محدود ہیں، یا تو جیل تک یا پھر گھر تک۔
کسی نے کہاں جنہوں نے electable پارٹی کو دیئے تھے اب وہ ہی انہیں نکال رہے ہیں۔ پانچ چھ سال پہلے پی ٹی آئی کے لئے جو ن۔لیگ کے ساتھ کیا گیا تھا وہ اب پی ٹی آئی کے ساتھ ہو رہا ہے۔ فرق یہ ہے پہلے نیازی صاحب لاڈلے تھے تو گود لیئے گئے تھے جنہوں نے گود لیا یہ جب ان کے ہی سر چڑھے تو پہلے انہوں نے عاق کیا اب در بدر کرنے کا ارادہ ہے۔ اول اول دربدر کرنے کا ارادہ نہ تھا مگر اس گھمنڈ نے ہی مروایا جس کی بنا پر یہ بد تمیزی کا شکار تھے۔
اچھے بچے بنو تو تحت عطا کرنے والے بد تمیزی کرنے پر تختہ دار پر بھی چڑھا دیتے ہیں۔ پہلے بھی ایک کو وزیراعظم بنانے کو ملک دولخت کیا تھا مگر پھر بگڑنے پر سزا موت سنا دی۔ پہلے بھی ایک کو شہر کا بھائی بنایا تھا پھر آوارہ ہونے پر اسے اپنی ہی بنائی پارٹی سے بے دخل کر کے عبرت کا نشان بنا دیا۔ پہلے بھی ایک کو اہل بتاتے تھا مگر ڈسنے کی تیاری دیکھ کر نااہل قرار دیا۔ اب والا کیسے بچے گا؟
طاقتور اس وقت تک طاقتور ہیں جب تک اقتدار میں رہنے والا اس کا احسان مند رہے۔ صاحب اقتدار ہونے کا احساس اصل اقتدار ملنے سے ذیادہ پرفریب ہوتا ہے۔ احساس میں مبتلا احسان کی گرفت میں رہتا ہے۔ بادشاہ گر ہونا بادشاہ ہونے سے ذیادہ بہتر ہیں۔ وہ بادشاہ گر ہیں اب تک۔ آپ مانے یا نہ مانے وہ ثابت کر رہے ہیں۔
کوفے والے ہر جگہ آباد ہیں۔ مشکل وقت آئے تو پہچانے جاتے ہیں۔ اقتدار میں شریک ہی بعد میں ملزم ٹھہرنے پر سلطانی گواہ بنتے ہیں۔ ان کا سلطانی گواہ بنانا تو ان کی فطرت ہے جیسے اقتدار ملتے ہی اپنا اصل چہرہ آشکار کرنا جناب کا ایک فطری عمل تھا۔ اگر جناب اقتدار کو پانے و اقتدار میں رہنے کو سب کچھ کر سکتے ہیں تو مخالف کو ایسا کرنے پر اب طعنہ دینا بھی منافقت ہے۔
4/10/2023
انصاف یا رعایت
7/26/2022
ملزم ظہیر، یوتھیاپا اور لبرلز
5/17/2022
فیصلہ
8/16/2021
اقتدار کا نشہ
نشہ فرد کی عقل کو ماند ہی نہیں کرتا بلکہ اکثر اس کی سمجھ بوجھ کو بھی مکمل طور پر "متاثر" کرتا ہے۔ مدہوشی میں کیئے گئے فیصلے کبھی بھی ہوش مندی میں کئے گئے فیصلوں جیسے بہتر نہیں ہوتے۔ اقتدار کی غلام گردشوں کا حصہ ہنا بھی ایک قسم کا نشہ ہے جوالگ ہی مدہوشی کا سبب بنتا ہے۔ تخت سے جڑے رہنے کی خواہش اور اپنی طاقت کو بڑھانے کا شوق! فرد کو قانون کی لاقانونیت کے لئے پر اکساتا ہے۔ تاریخ ایسے افراد کو ولن بتاتی ہے جبکہ وہ جو بنتی تاریخ میں جی رہے ہوتے ہیں اس وقٹ خود کو مسیحا سمجھ رہے ہوتے ہیں۔
5/02/2021
متواسط طبقہ اور مہنگا ازاربند
ہم میں سے ہر ایک ہر معاملے کو اپنے نقطہ نظر سے دیکھنے کا عادی ہے اس کی وجہ اس کا اپنا خاص ماحول جس میں اس نے نشوونما پائی یا وہ طبقہ جس سے وہ تعلق رکھتا ہے۔ فرد کی معاشی حیثیت بھی اس کے ماحول و تعلق کو ظاہر کرتی ہے۔ کسی کے لئے پچاس ہزار ایک ماہ کے لئے کافی ہیں اور کوئی اس میں بمشکل ایک ہفتہ "گزارا" کر پاتا ہے۔
جب ہم نے اپنی وکالت شروع کی یعنی اپنے سینئر سے الگ ہوئے تو ایک پہلا مسئلہ جس سے ہمارا واسطہ پڑا وہ سائل سے معاوضے کا تعین تھا۔ جس لاء فرم سے ہم نے وکالت سیکھنے کی ابتداء کی تھی وہ ایک اونچے طبقے سے تعلق رکھتی تھی لہذا میرے ریفرنس کے افراد کے لئے اس حیثیت کی فیس ادا کرنا ممکن نہ تھا۔ وکالت کے آغاز میں اس بات کی تو سمجھ آ گئی کہ معاوضہ طلب کرتے وقت صرف مسئلہ کی پچیدگی ہی نہیں بلکہ سائل کی قوت خرید کو بھی مد نظر رکھنا ہوتا ہے۔
متواسط طبقے کے سائل سے جس ضمانت کے ہم چالیس ہزار طلب کرتے تھے چند ہمارے دوست وہ کام بیس ہزار میں اور کچھ سینئر وکلاء اسے طرز کی ضمانت کے ڈیڑھ سے تین لاکھ روپے فیس کی مد میں لیتے تھے۔ فرق ٹریٹمنٹ کا ہوتا تھا بس۔ قانون و دلائل میں کیا فرق ہونا ہے بشرطیکہ وکیل محنتی ہو۔ وہ کہتے ہے ناں ایک امیرزادے کے ہاتھوں قتل ہو گیا تو اس کا باپ ایک وکیل کے پاس اپنا کیس لے کر گیا معاملات طے ہو رہے تھے تو امیرزادے کا باپ وکیل کی "کم" فیس کی بناء پر بددل ہو گیا کہ جو اس قدر کم معاوضہ مانگ رہا ہے اس نے کیا مقدمہ لڑنا ہے لہذا وہ ایک دوسرے وکیل کے پاس کیس لے گیا بھاری معاوضہ دینے کے بعد بھی اس کے بیٹے کو سزا ہو گئی۔ کچھ عرصے بعد باپ کی ملاقات پہلے والے وکیل سے ہوئی تو اس نے بچے کے مقدمے بارے پوچھا تو باپ نے آگاہ کیا کہ اسےسزا ہو گئی ہے جس پر وکیل صاحب بولے " دیکھ لیں جو کام آپ نے پندرہ لاکھ میں کروایا وہ میں تین میں کردیتا"۔
یہ قیمت یا معاوضہ کا فرق وکالت ہی نہیں بلکہ ہر شعبہ زندگی میں نام (جسے آپ برانڈ کہہ لیں) اور ٹریٹمنٹ (اسے آپ پریزنٹیشن یا سہولت کہہ لیں) کی وجہ سے ہوتا ہے۔ میرے والد جب اپنی نوکری سے ریٹائر ہوئے تو باقی پاکستانیوں کی طرح انہوں نے بھی ریٹائزمنٹ کے بعد حج کا رادہ کر رکھا تھا۔ حج ایک مشقت والی عبادت ہے لہذا اس مشقت کو کم کرنے کے لئے انہوں نے سرکاری کے بجائے پرائیویٹ سیکٹر سے حج پر جانے کا پروگرام بنایا 2016 میں جب سرکار پونے چار لاکھ کا حج کروا رہی ی میرے والدین نے جو پیکج لیا وہ ساڑھے سات لاکھ فی کس والا تھا حرم و مدینہ میں قریب رہائش و دیگر سہولیات کی بنا پر ان کا حج با آسانی ہوا۔ تب ہمیں معلوم ہوا کہ مولانا طارق جمیل صاحب پندرہ لاکھ فی کس کے حساب سے حج کا پیکج دے رہے ہیں۔
باندھنے میں سہل، کھولنے میں رواں۔۔۔۔ ٹی جے ناڑے
— حُسین (@Jafar_Hussein) April 29, 2021
7/19/2020
گورک ہل کا سفر
5/12/2019
1965 کے صدرارتی انتخابات
12/21/2018
موٹیویشنل اسپیکر
ابے آج کل کیا کر رہا ہے
"کچھ نہیں بس فارغ ہو وقت برباد کر رہا ہوں"
اچھا! ایسا کر پھر یو ٹیوب پر ڈاکومینٹری دیکھا کر یا کسی اچھے موٹیویشنل اسپیکر کو سنا کر
"کوئی اچھا نام بتا بتا اس سلسلے میں"
یار ایک لاہور کا ہے قاسم علی شاہ یا کراچی کا ہے عاطف احمد اچھے ہیں ویسے
"ٹھیک ایک ہندوستانی کا نام بھی سنا ہے سندیپ کر کے نام ہے وہ کیسا ہے"
وہ بھی ٹھیک ہے اسے بھی سنا جا سکتا ہے
"ویسے ان کو سننے سے موٹیویشن ملتی ہے کیا؟"
ابے موٹیویشن ان اسپیکروں سے نہیں ملتی بس باتیں کرنا آ جاتی ہے یہ فائدہ ہے سننے کا
11/01/2018
آسیہ ملعونہ پر سپریم کورٹ کا فیصلہ
قانونی اعتبار سے آسیہ بری ہو چکی ، ریویو داخل بھی ہوا تو بھی سزا بحال ہونا ممکن نہیں اب قانونی طور پر۔
اس کیس میں سزا برقرار رکھنے کے لئے بھی کافی مواد تھا اور یاد رہے ہائی کورٹ نے سزا کو برقرار رکھتے وقت عدالت سے باہر عوامی جرگہ میں ملزمہ کے اقبال جرم کو قانون کی روشنی میں پہلے ہی رد کر دیا تھا یوں اس فیصلے میں باقی تضادات کے مقابلے میں دو ہی تضاد ایسے ہیں جنہیں بریت کی وجہ بیان کیا جا سکتا ہے ایک مدعی (قاری ) تک اس توہین کی خبر کس طرح پہنچی؟ اس سلسلے میں مثل پر دو بیان ہیں ایک میں قاری کی بہن نے اسے بتا کہ اس کی شاگرد خواتین کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا دوسرا وہ خواتین خود قاری صاحب کے سامنے پیش ہوئیں۔ دوسرا خواتین نے دوران جرح عدالت میں فالسے کے باغ میں پانی پینے والی بات پر ہونے والے جھگڑے کی صحت یا واقعی سے انکار کیا مگر باقی دیگر گواہان نے اس جھگڑے سے متعلق گواہی دی۔
باقی تضادات عوامی جرگہ کے گرد گھومتے ہیں۔
جسٹیس کھوسہ صاحب کو فوجداری مقدمات میں پاکستان میں سند مانا جاتا ہے۔ ان کے فیصلے بہت بہترین ہوتے ہیں ، جس قدر محنت سے انہوں نے اپنا اضافی نوٹ فیصلے کے حق میں لگایا ہے یقین جانے اس سے آدھی محنت وہ اختلافی نوٹ بھی لگا سکتے تھے یہ ہی نہیں اس سے بھی کم محنت میں وہ ممتاز قادری والے کیس میں سزائے موت کو عمرقید میں بدل سکتے تھے۔ (آسیہ اور عاصیہ کو ایک سمجھنا بھی عجب غلطی ہے معلوم ہوتا ہے صرف انگریزی کتاب سے ریفرنس لیا گیا ہے جو تلفظ ملنے سے یہ غلطی کر لی)
اور جس قدر محنت اور باریک بینی سے چیف صاحب نے آسیہ والی ججمنٹ لکھی ہے اس سے آدھی محنت سے بھی کم محنت میں شاہزیب والے کیس میں جبران ناصر کی پٹیشن/درخواست رد ہو سکتی تھی (فوجداری مقدمات میں تیسرے فریق کی درخواست پر فیصلہ بدلنے کی اس سے قبل کوئی مثال میری نظر سے نہیں گزری نہ کوئی سینئر ایسی کوئی مثال بیان کرتا ہے)۔
مختصر قانون یقین اہم ہے مگر جج کی منشاء بھی کہیں کہیں غالب ہوتی ہے۔ یہ منشاء ہی دلیل و تاویل کا فرق ہوتی ہے۔ اس ججمنٹ پر کسی جج نے اختلافی نوٹ نہیں لکھا ججمنٹ کے حق میں یہ ایک بہت بڑا آرگومنٹ ہے جس کا جواب ممکن نہیں۔
مذہبی حلقوں میں ملک کی بڑی عدالت اپنا وقار اس ہی مقام پر لے آئی ہے جس مقام پر نظریہ ضرورت کو متعارف کروانے اور پی سی او حلف کے بعد سیاسی حلقوں میں پہنچ گئی تھی۔
اکتیس اکتوبر کو اب ہر سال انگریز دور کے غازی علیم الدین شہید کے ذکر کے ساتھ ملک پاکستان کے ایوان اقتدار و عدلیہ بارے کیسے خطاب ہوا کرے گے گلی گلی کیا آپ انہیں آج ہی بیان کر سکتے ہیں۔
10/23/2018
برا تو عوام ہے!!!
ہمارے ایک دوست نے آپریشن "رد الفساد" کے دوران کا ایک قصہ سنایا۔ جن علاقوں میں پاک فوج نے کارروائیاں کیں، وہاں طالبان کو کسی حد تک مقامی حمایت حاصل تھی۔ اس لیے، فوج کے اہلکار وہاں سے نکلتے ہوئے مقامی افراد سے گفتگو کرتے تاکہ کوئی ایسی معلومات مل سکے جو آپریشن میں مددگار ثابت ہو۔ دوسری طرف، مقامی آبادی بھی ایک عجیب خوف میں مبتلا تھی؛ وہ نہ کھل کر فوج کے خلاف بات کر سکتے تھے اور نہ ہی طالبان کی کھلم کھلا مخالفت کر سکتے تھے، کیونکہ وہ تذبذب کا شکار تھے۔
ایسے ہی ایک موقع پر، ایک مقامی بزرگ سے پوچھا گیا کہ ان کی طالبان کے بارے میں کیا رائے ہے؟ انہوں نے جواب دیا، "سنا ہے اچھے لوگ ہیں، اللہ کے قانون کی بات کرتے ہیں، قرآن و سنت کا نفاذ چاہتے ہیں اس زمین پر۔"
اس کے بعد پاک فوج کے بارے میں سوال کیا گیا تو جواب آیا، "وہ بھی اچھے لوگ ہیں، پاکستان کی بات کرتے ہیں اور پاکستان ہمارا ملک ہے، مسلمانوں کا ملک ہے، اللہ اور رسول کے نام پر بنا ہے، اور اس کی سالمیت چاہتے ہیں۔"
اگلا سوال ہوا کہ "طالبان بھی اچھے اور فوج بھی اچھی، یہ کیا بات ہوئی؟ برا تو کوئی نہ کوئی ہوگا؟"
بزرگ گویا ہوئے، "برا تو ہم ہیں، ہم عوام! جو نہ مذہب کا سوچتے ہیں نہ ملک کا۔ سب کی تعریف کرتے ہیں، سب کی برائی کرتے ہیں۔ ہمیں اس کی سزا بھی ملتی ہے اور ملنی بھی چاہیے۔"
گزشتہ دو ماہ سے ملک میں انتخابات کے بعد تو یوں لگتا ہے جیسے اس بزرگ کی بات درست تھی: "برا تو ہم عوام ہیں!" کیا پٹواری، کیا یوتھیا، کیا جیالا، کیا جماعتی یا کسی اور سیاسی جماعت یا گروہ کا حمایتی۔ سب اپنی اپنی جگہ ٹھیک ہیں، ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے نظریے اور مؤقف پر قائم ہے۔ اصل میں، عوام ہی ہیں جو تذبذب کا شکار رہتے ہیں اور بظاہر ہر ایک کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔ یہی ہمارا تضاد اور دوغلا پن ہے جس کی وجہ سے ہم سب کی تعریف بھی کرتے ہیں اور سب کو برا بھلا بھی کہتے ہیں۔
9/16/2018
فوجی ڈیم
ایک سینئر بتا رہے تھے ماضی میں جب بھی فوجی حکومت آئی یعنی فوجی حکمران آیا اس نے ڈیم بنانے پر زور دیا یا اس کا سوشہ چھوڑا۔
پوچھا فوجی حکمران مطلب فوج کا حکمران
بے دھیانی سے بولے "ہاں"
تو پوچھا ڈیم کے نعرہ کا مطلب فوجی حکومت ہوتا ہے ؟
بولے خاموش بیٹا تیری عمر ابھی میری عمر جتنی نہیں ہوئی کوئی دوسری بات کر۔
6/20/2018
ایلیکٹیبل
ایک عجیب معاملہ ہے بڑی پارٹیوں کے نامرذ امیدوار کردار میں بڑے نہیں اور جو امیدوار کردار میں اچھے ہیں وہ بڑی پارٹی میں نہیں۔ ہمارے ملک کی جمہوریت میں یوں لگتا ہے بڑے و بُرے اور اچھے و نکے آپس میں ایک دوسرے سے جڑے ہیں۔ دلچسپ بات جو پارٹی جس قدر کم عوام میں مقبول ہوتی ہے اس قدر بہترین کردار کا امیدوار نامزد کرتی ہے اور جو جو عوامی حمایت بڑھتی جاتی ہے اس کا ممکنہ امیدوار اس قدر کمزور کردار کا حامل ہوتا ہے۔ اس اعلی درجے کے پست کردار امیدوار کو ایلیکٹیبل کا نام دیا جا رہا ہے۔
ایسا کیوں ہے؟ کیا یہ منتخب امیدوار ہمارے معاشرے کا آئینہ نہیں ہیں؟ اگر جمہوریت واقعی ہی عوام کی حکومت کی ایک شکل ہے تو اس سے یہ اخذ کیا جائے کہ بحیثیت قوم ہم پست کردار ہیں؟ یا ابھی ہم قوم کی تعریف سے بھی دور ایک ہجوم یا گروہ ہیں؟
12/27/2017
شاہ رخ جتوئی کی رہائی کیوں ممکن ہوئی؟؟؟
پاکستان میں کچھ جرائم نا قابل راضی نامہ ہیں اور کچھ قابل راضی نامہ ہیں۔ قتل کا مقدمہ دفعہ 309 اور 310 تعزیرات پاکستان اور ضابطہ فوجداری دفعہ 345 ذیلی دفعہ 2 کے تحت عدالت مجاز کے اجازت سے قابل راضی نامہ ہوتا ہے ۔ مگر چونکہ اس قتل سے عام لوگوں میں خوف و ہراس پھیلا تھا (جو دراصل میڈیا کوریج کا نتیجہ تھا) اس لیے مقدمہ میں دہشت گردی کی دفعات بھی شامل کی گئیں جو کہ ناقابل راضی نامہ ہے ۔شاہ رخ کو ٹرائل کورٹ سے سزا ہو گئی مگر اپیل کے دوران شاہ زیب کے وارثان سے راضی نامہ ہوگیا، مگر اس کے باوجود شاہ رخ کی رہائی ممکن نہ تھی۔ اس کی دو وجوہات تھیں. 1 ۔دہشت گردی کی دفعہ کی موجودگی میں راضی نامہ ممکن نہ تھا۔
2۔۔دفعہ 338 ای (2) تعزیرات پاکستان کے تحت اگر کسی قبل راضی نامہ کیس میں سزا ہو جائے اور اپیل میں راضی نامہ ہو تو عدالت کی صوابدید ہوگی کہ اس کو تسلیم کرے یا نہ کرے جس کے الفاظ یوں ہیں!
مزید براں دفعہ 311 تعزیرات پاکستان کے تحت قتل کے کیس میں راضی نامہ ہونے کے باوجود عدالت اصول "فساد فی الآ رض" کے تحت تعزیر میں ملزم کو سزا دےسکتی ہے۔
اس سلسلے میں ذیل کا فیصلہ ایک نظیر ہے۔
ایسا ہی ایک فیصلہ PLD 2006 Peshawar page 82 ہے باقی عموما عدالتیں فساد فی الآ رض کی تعریف میں عموما سفاکی کے جز کو دیکھی ہیں۔ . مگر سندھ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلہ میں دہشت گردی کی دفعات ختم کردی کیونکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق ذاتی دشمنی کی وجہ سے کیا گیا جرم دہشت گردی کے ذمرے میں نہیں آتا۔
اب ٹرائل کورٹ راضی نامہ کو تسلیم کرنے کی پابند تھی ۔جس سے شاہ رخ جتوئی کی رہائی کی راہ ہموار ہوگئی ۔ مگر اب بھی سرکار سندھ ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ اپیل دائر کرسکتی ہے۔ جو یقیناً وہ نہیں کریگی مگر پرائیویٹ سطح پر دائر کر دی گئی ہے۔اس مقدمہ سے ایک بار پھر اس تاثر کو تقویت ملی کہ پاکستان میں امیر آدمی کے سزا سے بچنے کے بہت سے راستے ہوتے ہی,مگر درحقیقت ایسا بالکل نہیں ہے اس قانون کے تحت ہر طبقے کے افراد فیض یاب ہوئے ہیں اور یہ قانون خاندانوں کی دشمنوں کے کے اختتام کا سبب بھی بنتا ہے. مگر اگر اس قانون سے کسی کو اختلاف ہے تب اس کی تبدیلی اسمبلی سے ہی ممکن ہے بذیعہ ترمیم کیونکہ فیڈریل شریعت کورٹ (PLD 2017 page 8 FEDERAL-SHARIAT-COURT ) سے ایسی ایک پٹیشن جس میں متعلقہ دفعات 306 (b) اور (c), 307(1) (b) اور (c), 309(1), 310(1) کوچیلنج کیا گیا تھا رد کر دی گئی ہے ۔
※※※اقسام وکیل با زبان وکیل ※※※
(نوٹ یہ تحریر مجھے بذریعہ وٹس اپ موصول ہوئی لکھاری کا علم نہیں مگر حسب حال ہے)
ہم پر یہ راز کھلا کہ دیگر مخلوقات کی طرح وکیلوں کی بھی کئی اقسام پائ جاتی ہیں ۔
جن کی حتمی تفصیلات بارکونسل کے مستقل افسران کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ۔کچھ ناکام وکیلوں کی مدد سے ہم تاحال وکیلوں کی جن اقسام کو دریافت کر پا ۓ وہ درج زیل ھیں
اصلی وکیل:
سب سے پہلے تو اصلی وکیل، یہ وکیلوں کی وہ کمیاب قسم ہے جو شاذ شاذ ہی نظر آتے ھیں۔یہ ھر نۓ قانون سے واقفیت کی کوشش میں سرگرداں نظر آتے ھیں۔ عموماََ ان کے جلو میں دو نہایت تابع فرماں قسم کے ننھے وکیل یعنی جونیئر ہوتے ہیں، جن میں سے ایک کے ہاتھ می مقدموں کی فائلیں اور دوسرے کے ہاتھوں میں کوئی پی ایل ڈی کی موٹی سی کتاب یا اصل وکیل کی ڈائری ہوتی ہے ، جو اس کے لئے کسی کتاب سے کم نہیں ہوتی یہ دونوں اصل وکیل کے دائیں بائیں چلتے ہوئے انتہائی ہنر مندی سے ایک ایسی مثلث تشکیل دے لیتے ہیں جس میں اصلی وکیل اور انکے درمیان شرقاََ غرباََ ڈیڑھ قدم کا فاصلہ اور آپس میں شمالََ جنوباََ ٹھیک تین قدم کا فاصلہ برقرار رہتا ہے ۔
اصلی وکیل اپنے مقدمات کی پیروی خود کریں یا کسی جونیئر کو بھیجیں ہر دو صورت میں انہیں مقدمے کی ٹھیک ٹھیک صورتحال معلوم ہوتی ہے ۔ اور یہ مقابلے کے وکیل سے ایک قدم آگے کی سوچ میں ڈوبے رہتے ہیں گفتگو کم کرتے ہیں سوچتے زیادہ ہیں ان کے منہ سے نکلنے والا ایک ایک جملہ آئین کی پُر پیچ ندیوں میں نہایا ہوا، اور قانون کی موٹی موٹی کتابوں کی ہوا سے سکھایا ہوا ہوتا ہے ۔ اس پہلی قسم کے وکیلوں کو انسانوں کے بجائے کتابوں کے درمیان رہنا زیادہ پسند ہوتا ہے۔۔۔دفتر ان کا وقت زیادہ گزرتا ھے ۔سوائے جج حضرات کے ، یہ عام زندگی میں کسی سے نہیں الجھتے ، چونکہ یہ قسم شاذ و نادر نظر آتی ہے لہذا ان کے بارے میں زیادہ معلومات حاصل نہیں۔
قبلی وکیل:
یہ عموماً میرون ٹائ میں ملبوس نظر آئیں گے اور اس تکلیف کے پیش نظر کے ان کو مقدمہ میں پیش ھو نے کی ابھی اجازت نہ ھے ان کا خیال ھوتا ھے کہ اگر موصوف استاد کی جگہ یہ ھوتے تو ان کی شعلہ بیانی قابل سماعت ھوتی جبکہ مستقبل میں اس کے بالکل برعکس ھوتا ھے اور دوران بحث اپنی آواز بمشکل سنائ دیتی ھے۔
منتھلی وکیل:
یہ قسم سرکاری دفاتر میں پائ جاتی ھے جن کو منتھلی تنخواہ کی ترسیل ان کے بینک اکاونٹ میں مل جاتی ھی اور ان کا کام صرف عدالتوں کے باھر کھڑے ھو کر اس وکیل کا انتظار کرنا ھوتا ھے جس کو اس سرکاری ادارے نے متعین کیا ھوتا ھے۔ ان کے پاس ایک سرکاری گاڑی ھوتی ھے جس میں پیٹرول ڈلتا ھی رھتا ھے۔ ان کا قوانین کی تشریح سے کوئ واسطہ نہیں ھوتا اور الیکشن کے دن بھی وارد ھوتے ھیں۔
الیکشنلی وکیل:
یہ جوائنٹ سیکرٹری سے لے کر صدر تک کا الیکشن لڑتا ھے اور وہ کچھ کرتا ھے جو ساری اقسام کے وکیل مل کر بھی نہیں کر سکتے۔۔۔۔ میرا مطلب بار کی خدمت۔۔۔۔۔ کرتا ھے۔۔۔
جبلی وکیل:
جبل عربی میں پہاڑ کو کہتے ھیں ۔۔۔تو شاھیں ھے بسیرا کر لا فرموں کی چٹانوں پر۔۔۔۔ اس وکیل کو اس کے علم کے عوض دس گنازیادہ ڈالر ملتے ھیں۔ اس کی زندگی پرتعیش اور اکثر رنگین ھوتی ھے۔۔۔ فکر معاش اس کا مسلۂ نہیں ھوتا بلکہ مزید تر معاش از خود اس کی تلاش میں ھوتا ھے۔۔۔۔ویک اینڈ پر اس کا خرچہ ایک سول جج کی ماہانہ تنخواہ کے برابر ھو جایا کرتا ھے۔۔۔ یہ اکثر سوال کرتا پایا جاتا ھے کہ آجکل ھائ کورٹ کی عمارت کہاں واقع ھے۔۔۔وجود زن سے ان کی تصویر کائنات میں رنگ سنبھالے نہیں سنبھلتے۔۔۔۔۔پردہ پوشی درست است
نسلی وکیل:
ان کے علاوہ وکیلوں کی ایک قسم نسلی وکیل بھی ہے ، یہ وکیلوں کی وہ قسم ہے جو نسل در نسل
وکالت سے وابستہ ہے ان میں کچھ صرف ددیال کی طرف سے واکالت ورثے میں پاتے ہیں اور کچھ نجیب الطرفین وکیل ہوتے ہیں ادھر ابا اور دادا وکیل اور ادھر اماں اور نانا وکیل ۔ وکالت ان کی رگوں میں دوڑ تی ہے ۔ اور اگر انہیں وکالت سے دلچسپی نہ بھی ہو تب بھی یہ کامیاب وکیل ثابت ہوتے ہیں ۔ گھرانے کا گھرانا وکیل ہوتا ہے نہار منہ مقدموں کی باتیں شروع ہوجاتی ہیں۔ خاندان میں کوئی جج بھی ہوجائے تو سونے پہ سہاگہ ۔ نسلی وکیلوں کو زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی، انہیں بچپن ہی سے وکالت کے داؤ پیچ سکھائے جاتے ہیں جس سے یہ اسکول میں اساتذہ اور ساتھ پڑھنے والے بچوں کی زندگی مشکل کردیتے ہیں بعد کو یہی مشق شدہ تربیت جج صاحبان کے لئے دردِ سر بنتی ہے ۔ ایسے واقعات بھی سننے میں آئے ہیں کہ بھر ی عدالت میں مقدمے کی پیروی کے دوران دلائل دیتے ہوئے وکیل صاحب نے "آئی آبجیکٹ مائی لارڈ" کے بجائے روانی میں " آئی آبجیکٹ بڑے ماموں" کہہ دیا۔
ایک اعتبار سے یہ مظلوم بھی ہوتے ہیں کہ کسی مقدمے کی بیروری میں تاخیر سے پہنچنے پر جو ڈانٹ جج صاحب سے کمرہِ عدالت میں پڑتی ہے وہی ڈانٹ رات کو کھانے کی میز پر انہیں جج صاحب سے بحثیت والدِ محترم دوبار سننے کو ملتی ھے
کسلی وکیل:
نسلی وکیلوں کو جہاں بہت سے فوائد ہیں وہیں بہت سے نقصانات بھی ہیں ، ان کے مقابلے میں وکیلوں کی ایک دوسری قسم جسے "کسلی وکیل" کہا جاتا ہے ہمیشہ آرام سے رہتی ہے ۔ ان کی نسبت ان کی کسل مندی کی بنیاد پر ہے ۔ یہ انتہائی سست اور کاہل قسم کے وکیل ہوتے ہیں ، ایک تو عدالتی نظام کی رفتار پر پہلے ہی تنقید کی جاتی ہے ، کسلی وکیل اس رفتار کو اور سست کردیتے ہیں ، ذرا ذرا سی بات بلکہ بات بے بات پیروئی کی نئی تاریخ لینا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ " تاریخ پہ تاریخ ۔۔۔ تاریخ پہ تاریخ"جیسے مشہور فلمی ڈائیلاگ انہیں کسلی وکیلوں کی مرہونِ منت ہیں ۔ یہ زیادہ تر وقت اپنے دفاتر میں گزارتے ہیں بار کونسل میں کم آتے ہیں ۔ عدالتوں میں اس سے بھی کم جاتے ہیں ۔ یہ کبھی کبھی بار کونسل کے سوفوں میں یوں دھنس کے بیٹھے نظر آتے ہیں کہ کوٹ پشت سے اٹھ کر گدی سے ہوتا ہوا سر کے اوپر آکر ایک موکلہ سا بنا لیتا ہے جس سے منہ نکال کر یہ بے دلی اور نفرت سے چاک و چوبند وکیلوں کو گھورتے ہیں ۔ ویسے تو یہ تمام لوگوں کو گھورتے ہیں مگر ان کےغضب کا سب سے زیادہ شکار ، "پسلی وکیل " ہوتے ہیں ۔
پسلی وکیل:
جی ہاں ، "پسلی وکیل"یہ وہ وکیل ہیں جن کیلئے محاورے کا ڈیڑھ پسلی بھی زیادہ معلوم ہوتا ہے ۔ معصوم معصوم چہروں والے یہ ننھے وکیل ، اپنی خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے پڑھائی میں بہت آگے ہوتے ہیں ۔ یہ بچپن میں غذا سے حاصل ہونے والی توانائی کا بڑا حصہ، اپنی ذہنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں استعمال کرتے ہیں لہذا جسمانی نشونما کی رفتار سست پڑجاتی ہے ۔ اگر ایسے چار چھ پسلی وکیل ایک جگہ جمع ہوں اور پس منظر سے عدالت کی عمارت ہٹا دی جائے ، تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اسکول کے بچے سالانہ ٹیبلو کی تیاری کررہے ہیں ۔
ایسے وکیل عموماََ جرائم کے مقدموں سے دور رہتے ہیں ، عموماََ ایسے مقدمات کا انتخاب کرتے ہیں جس میں کسی زور آور موکل سے واسطہ نہ پڑےمثلاََ مالی بے ضابتگی، نام کی تبدیلی ، ملکیت کی منتقلی، اور صلاح نامہ وغیرہ
ٹسلی وکیل:
۔ان کے بالکل مخالف ، وکیلوں کی ایک سب سے خطرناک قسم پائی جاتی ہے جسے "ٹسلی وکیل " کہا جاتا ہے ۔ یہ "ٹسلی" لفظ ٹسل سے ہے ۔ بمعنی اڑ جانا، ضد کرنا، کینہ رکھنا، جھگڑا کرنا ، دشمنی رکھنا، اس لفظ میں یہ تمام کیفیات یکجا ہیں ۔ اس نوع کے وکلا ء کے پاس زیادہ تر مقدمات اپنے ہی قائم کردہ ہوتے ہیں ۔جو انہوں نے اپنے قرب و جوار کے لوگوں پر مختلف اوقات اور مختلف کیفیات میں دائر کئے ہوتے ہیں ۔جن میں عام طور سے محلے کا دھوبی ، حجام، گاڑی کا مکینک، بچوں کے اسکول کا ہیڈ ماسٹر، سسرالی رشتہ دار، الغرض جہاں جہاں ان کی ٹسل ہوجائے یہ وہیں مقدمہ داغ دیتے ہیں ۔ یہ وکیل اپنی وکالت کی سند کا بے دریغ استعمال اپنا بنیادی حق سمجھتے ہیں ۔ بعض اوقات تو مقدمہ ہارنے کے بعد مقابلے کے وکیل تک پر مقدمہ داغ دیتے ہیں ۔
وصلی وکیل:
البتہ وکیلوں کی سب سے زرخیز قسم وصلی وکیل ہوتے ہیں ۔ یہ صرف عدالتی شادیاں یعنی کورٹ میرج کرواتے ہیں۔ ان کے پاس کبھی مقدمات کی کمی نہیں ہوتی ۔ بلکہ عدالتی شادیوں کے نتیجے میں عداوتی مقدمات کا ایسا بیج بو تے ہیں جس سے دوسرے وکیلوں کا دال دلیہ بھی جاری ہوجاتا ہے ۔ حالانکہ بارکونسل میں ان کی زیادہ آؤ بھگت نہیں ہوتی مگر اعداد و شمار سے ثابت کرنا مشکل نہیں کہ یہی طبقہء وکیلاں ساٹھ فیصد وکیلوں کیلئے معاشی راہیں ہموار کرتا ہے ۔