Pages

8/30/2025

آسمان سے برستا پانی

 بارش سیلاب لاتی ہے تو ہریالی بھی لاتی ہے۔ مگر یہ اس پر منحصر ہے کہ بارش کس زمین پر برسی ہے۔ جب زمین نم ہوتی ہے تو اس کی زرخیزی کا در کھل جاتا ہے۔ پکی زمینیں، جن پر پتھر یا پکے مکانات ہوں، پانی میں ڈوب کر تباہ ہو جاتی ہیں لیکن جہاں پانی کو زمین میں جذب ہونے کا راستہ ملے، وہاں سے ہریالی پھوٹتی ہے اور ایک خوشگوار و دلکش منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔ تھر کے ریتیلے پہاڑ اس کی بہترین مثال ہیں جنہوں نے آسمان سے برسنے والے پانی کے بعد ایک سبز قالین بچھا لیا ہے۔ یہ مناظر تھر کی چند روز قبل کی واپسی پر بنائی گئی ایک چند سیکنڈ کی ویڈیو سے لیے گئے ہیں۔


8/21/2025

سیاست، عدالت اور تضاد

 جو لوگ پہلے سپریم کورٹ کو 'اسٹیبلشمنٹ کی عدالت' قرار دیتے تھے، وہی آج اپنے حق میں فیصلہ آنے پر اسے کسی ڈیل کا نتیجہ نہیں سمجھتے۔ یہی نہیں، وہ بیرسٹر گوہر کے اس بیان کو بھی کسی ڈیل کا حصہ ماننے کو تیار نہیں، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ: ”ہم فرشتے نہیں، 9 مئی ایک غلطی تھی جس کی ہم سب نے مذمت کی۔“ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہی لوگ جب آئی ایس پی آر کے اس بیان پر کہ سید نے وڑائچ کو کوئی انٹرویو نہیں دیا پر سینہ تان کر کہتے ہیں کہ ”دیکھا! ہمارا کپتان نہیں مانا۔“ وہ خود کو سچا اور مکمل سچائی پر یقین رکھنے والا سمجھتے ہیں۔

​ہم نے دیکھا ہے کہ فوجداری مقدمات میں، چاہے وہ ضلعی عدالت میں ہوں یا انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں، جب مدعی فریق اپنا بیان تبدیل کرتا ہے تو وہ عموماً دو میں سے ایک ہی بات کرتا ہے: یا تو یہ کہ ”یہ مجرم نہیں“ یا پھر یہ کہ ”ہم نے اللہ کی رضا کی خاطر معاف کیا“۔ حالانکہ حقیقت میں سب جانتے ہیں کہ ایک ڈیل ہو چکی ہوتی ہے، مگر اس حقیقت سے انکار کی اداکاری کی جاتی ہے اور جان بوجھ کر انجان بنا جاتا ہے۔ نہیں نہیں یہ نہیں کہا جا رہا کہ یہاں ایسا ہوا ہے۔ 

​ وڑائچ صاحب ایک قدآور صحافی ہیں، انہیں مزید شہرت کا کوئی لالچ نہیں ہونا چاہیے۔ اور نیازی صاحب ابھی تک باہر نہیں آئے، وہ آنا چاہتے ہیں مگر جن پر انہیں باہر لانے کی ذمہ داری ہے وہ لانا نہیں چاہتے شاید، وہ بونے اپنا قد لمبا ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ باقی جو لوگ اقتدار میں ہیں، ان کے بارے میں بس اتنا کہنا کافی ہے کہ:

​Power is, and will remain, in the hands of the powerful, who ultimately decide who will be its next inheritor.

​جو ٹھہرے ہیں تو شاید دل میں کچھ ہے

جو چل پڑیں گے تو یہ بھی نہ ہوگا



8/20/2025

🌊 سیلاب اور حکمرانوں کی کارکردگی

 آسمان سے برستا پانی ہر سال نئی آزمائش لے کر آتا ہے۔ کبھی پنجاب، کبھی خیبرپختونخوا اور اب سندھ کے حکمرانوں کی کارکردگی اس سیلابی ریلے میں بہہ کر رہ جاتی ہے۔ تینوں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اپنی ناقص کارکردگی کو امدادی سامان اور فوٹو سیشنز کے ذریعے کیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن حقیقت سب کے سامنے ہے۔



اصل سوال یہ ہے کہ بارش بذاتِ خود تباہی نہیں لاتی۔ پانی کی یہ بارش قدرت کا تحفہ ہے، مگر تباہی اس وقت آتی ہے جب زمین پر بیٹھے حکمران اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتے۔ وہ بروقت ان تجاوزات کو ختم نہیں کرتے جو پانی کے قدرتی بہاؤ میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ یہی رکاوٹیں بستیوں کو اجاڑ دیتی ہیں، کھیت کھلیان ڈبو دیتی ہیں اور انسانی جانیں نگل لیتی ہیں۔


مزید برآں، وہ درخت جو زمین کو مضبوطی اور توازن فراہم کرتے ہیں، ان کی حفاظت بھی نہیں کی جاتی۔ کہاوت ہے: "پانی درختوں کو نہیں مارتا، پتھروں کو بہا لے جاتا ہے۔" لیکن یہاں معاملہ الٹ


ہے—حکمرانوں کی غفلت درختوں کو کاٹ دیتی ہے اور بستیوں کو کمزور کر دیتی ہے۔


المیہ یہ بھی ہے کہ وزرائے اعلیٰ کی کارکردگی سب کے سامنے کھلنے کے باوجود سیاسی کارکن اپنی جماعت کے سربراہ پر سوال اٹھانے کے بجائے مخالف جماعت کو نشانہ بناتے ہیں۔ حالانکہ سب سے پہلا سوال اپنی قیادت سے ہونا چاہیے: آخر کیوں ہر سال بارش اور سیلاب کی تباہ کاریوں کے سامنے یہ نااہلی اور بے بسی دکھائی دیتی ہے؟


8/02/2025

نو عمر آفیسر

 آفسری ایک خطرناک بیماری ہے۔ یہ کسی کو بھی لاحق ہو سکتی ہے، لیکن اس کا سب سے تباہ کن اثر اُس وقت دیکھنے کو ملتا ہے جب ایک نو عمر افسر کے ماتحت کوئی ایسا شخص آ جائے جو عمر میں اس کے باپ کے برابر ہو اور ہر بات پر "جی سر، جی سر" کہنے پر مجبور ہو۔

ایسے میں کم عمر افسر اپنے سے کئی گنا تجربہ رکھنے والے بزرگ ماتحت کو محض ایک "چاکر" سمجھنے لگتا ہے۔ سوچیے، اس رویے کا نفسیاتی اثر اس بزرگ ملازم پر جو ہو گا سو ہو گا مگر اس نو عمر آفیسر پر جو اثر ہوتا ہے، وہ شاید زیادہ گہرا، دیرپا اور تباہ کن ہوتا ہے — جو اسے انسانیت، شائستگی اور ادارہ جاتی حکمت و احترام سے محروم کر دیتا ہے۔

اپنی زندگی میں ہم نے خود یہ منظر بارہا دیکھا — کسی کم عقل نو عمر "مالک" کے ہاتھوں اُن ملازمین کو بے توقیر ہوتے دیکھا جنہوں نے اپنی پوری عمر محنت، دیانت اور تجربے سے نظام چلایا تھا۔

آج کے دور میں عمر اور تجربہ، طاقت اور اختیار کے مقابلے میں اکثر بے وقعت نظر آتے ہیں۔

8/07/2023

شاہ دولہ کے چوہوں جیسے

مائیکرو سیفلی پیدائش کے دوران لگے والی ایک ایسی بیماری ہے جس کی بناء پر نومولود کے دماغ کی پرورش رک جاتی ہے۔ گجرات کے ایک بزرگ شاہ دولے کا مزار ایسے بچوں کی پناہ گاہ ہے۔ اس بناء پر ان بچوں کو شاہ دولہ کے چوہے کہا جاتا ہے کہ سر و دماغ چھوٹا رہ جانے سے چہرہ بہت باریک و پتلا ہوتا ہے۔ ایک قیاس والا الزام یہ بھی افواہ کی صورت میں مشہور ہے کہ یہاں اولاد کی منٹ قبول ہونے پر جو پہلی اولاد یہاں چھوڑ کر  جاتی ہے وہ مکمل تندرست ہوتی ہے مگر مکینیکل طریقے سے سر کو کسی سانچے نما شے میں قید کر کے دماغ کی پرورش روک دی جاتی ہے اور آکسیجن کی کمی سے سر و دماغ کی ساخت چھوٹی رہ جاتی ہے۔
شاہ دولہ کے چوہے اس اعتبار سے آسانی سے پہچانے جاتے ہیں کہ ان کے سر و دماغ کی ساخت چھوٹی ہوتی ہے۔ اگر دماغ کی بڑھوتی رک جائے تو دولہ شاہ کے چوہے تخلیق ہوتے ہیں تو اگر سوچ کی بڑھوتی کو کسی خاص سیاسی لیڈر کی محبت میں قید کر دیا جائے، کسی مخصوص مذہبی رنگ میں مقید کر دیا جائے، کسی لسانی تعصب کے سانچے میں باندھ دیا جائے تو کیا وہ بھی ایک طرح کے دولے شاہ کے چوہوں کے مقابلے کا گروہ نہیں بن جائے گا؟
کیا ہم ہم میں سے اکثر اپنے منفرد انداز کے دولے شاہ کے چوہے نہیں ہیں؟ غور کریں؟ کیا ہم نے اپنے شعور کی پرورش کو روک نہیں دیا؟ کیا ہم نے اپنی پسند سے متضاد سچائیوں کو نہ ماننے کے لئے تاویلیں نہیں جمع کر رکھیں؟ کیا ہمیں صرف اپنی پسند کا سچ سننے کی عادت نہیں ہو گی؟
کچھ دھیان تو دیں؟

5/24/2023

پاک بیتی

 شیری مزاری پارٹی چھوڑ گئی وجہ بیٹی، شاہ محمود قریشی اور پرویز الٰہی اب تک پارٹی کا حصہ ہیں وجہ ان کے بیٹے۔ جو پارٹی میں ہیں وہ محدود ہیں، یا تو جیل تک  یا پھر گھر تک۔

کسی نے کہاں جنہوں نے electable پارٹی کو دیئے تھے اب وہ ہی انہیں نکال رہے ہیں۔ پانچ چھ سال پہلے پی ٹی آئی کے لئے جو ن۔لیگ کے ساتھ کیا گیا تھا وہ اب پی ٹی آئی کے ساتھ ہو رہا ہے۔ فرق یہ ہے پہلے نیازی صاحب لاڈلے تھے تو گود لیئے گئے تھے جنہوں نے گود لیا یہ جب ان کے ہی سر چڑھے تو پہلے انہوں نے عاق کیا اب در بدر کرنے کا ارادہ ہے۔ اول اول دربدر کرنے کا ارادہ نہ تھا مگر اس گھمنڈ نے ہی مروایا جس کی بنا پر یہ بد تمیزی کا شکار تھے۔

اچھے بچے بنو تو تحت عطا کرنے والے بد تمیزی کرنے پر تختہ دار پر بھی چڑھا دیتے ہیں۔ پہلے بھی ایک کو وزیراعظم بنانے کو ملک دولخت کیا تھا مگر پھر بگڑنے پر سزا موت سنا دی۔ پہلے بھی ایک کو شہر کا بھائی بنایا تھا پھر آوارہ ہونے پر اسے اپنی ہی بنائی پارٹی سے بے دخل کر کے عبرت کا نشان بنا دیا۔ پہلے بھی ایک کو اہل بتاتے تھا مگر ڈسنے کی تیاری دیکھ کر نااہل قرار دیا۔ اب والا کیسے بچے گا؟

طاقتور اس وقت تک طاقتور ہیں جب تک اقتدار میں رہنے والا اس کا احسان مند رہے۔ صاحب اقتدار ہونے کا احساس اصل اقتدار ملنے سے ذیادہ پرفریب ہوتا ہے۔ احساس میں مبتلا احسان کی گرفت میں رہتا ہے۔ بادشاہ گر ہونا بادشاہ ہونے سے ذیادہ بہتر ہیں۔ وہ بادشاہ گر ہیں اب تک۔ آپ مانے یا نہ مانے وہ ثابت کر رہے ہیں۔

کوفے والے ہر جگہ آباد ہیں۔ مشکل وقت  آئے تو پہچانے جاتے ہیں۔ اقتدار میں شریک ہی بعد میں ملزم ٹھہرنے پر سلطانی گواہ بنتے ہیں۔  ان کا سلطانی گواہ بنانا تو ان کی فطرت ہے جیسے اقتدار ملتے ہی  اپنا اصل چہرہ آشکار کرنا جناب کا ایک فطری عمل تھا۔ اگر جناب اقتدار کو پانے و اقتدار میں  رہنے کو سب کچھ کر سکتے ہیں تو مخالف کو ایسا کرنے پر  اب طعنہ دینا بھی منافقت ہے۔


4/10/2023

انصاف یا رعایت

اپنے کام کی وجہ سے عدا لت کے فیصلے ا ور جج کا رویہ دونو ں مدنظر رہتے ہیں۔ میرا یہ خیال پختہ ہو چکا ہے کہ ججز کی اکثریت میں گناہ گار کو سزا سنائے جانے کے لئے جو قوت و حوصلہ درکار ہے وہ ناپید ہے۔ جورسپروڈنس (علم قانون )کی روح سے عدالتیں فوجداری مقدمات میں انصاف کرنے کی پابند ہیں، مگر ملکی عدالتوں میں بیٹھے ججز اور ان کے سامنے پیش ہونے والوں وکلاء انصاف نہیں relief (رعایت) کے شوقین ہیں۔ ایک لمحے کو سوچیں! ملزم جو شواہد سے مجرم ثابت ہوتا ہو کو اگر مقدمہ کے آخر میں رعایت کے تحت بریت ملے تو ملنے والی رعایت کیا معاشر ے و عام آدمی سے دشمنی نہیں؟ سزا کی ججمنٹ لکھنا صرف جج کے حوصلہ و قو ت کی ہی نہیں قابلیت کی بھی محتاج ہے۔ 
 سندھ ہائی کو رٹ نے مقدمات کے جلد ٹرائل کو یقینی بنانے کو ایک point system بنایا ہے جس کا دباو ججز پر ہوتا ہے۔ ممکن ہے میری رائے غلط ہو مگر محسوس ہوتا ہے مہینے کے اختتام پر آنے والے فیّصلے انصاف کم اور “رعایت “ کا سبب ذیادہ بنتے ہیں۔ ججز کی خود کو بھی رعا یت دیتے ہیں اور “مجرم” کو بھی۔ مگرکیا یہ رعایت معاشرے کے لئے سود مند ہے؟ منصف دنیا کے کسی کونے کا ہو وہ ملزم کو حاصل قانونی حقوق اور عام آدمی کی حفاظت کی ذمہ داری کے درمیان توازن رکھنے کے د رمیان دباو کا شکار رہتا ہے اور اس ہی دباو کی وجہ سے ججز کی اکثریت فیصلے سنانے کے بعد افسوس کا شکار ضرور ہوتے ہے۔بے انصافی کا بوجھ بڑا بھاری بوجھ ہے۔ ناانصافی صرف یہ نہیں کہ ملزم کو “ رعایت” کے تحت بری کر دیا جائے بلکہ اس کی بنتی ممکنہ سزا سے ذیادہ سزا دینا بھی ناانصافی ہے جو یقینا ذیادہ سنگین ہے۔
منصف کا توازن قائم رکھنا ہی اصل عدل ہے۔ میزان عدل کے دونوں پلڑے برابر ہو تو ہی نتیجہ انصاف پر مبنی ہوتا ہے۔

7/26/2022

ملزم ظہیر، یوتھیاپا اور لبرلز

ہمیں اپنے زمانہ طالب علمی اور پھر دور وکالت میں کبھی یہ خیال ہی نہیں آیا کہ نوکری کی جائے شادی کے بعد ہم میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ جج بنا جائے مگر وہ نہ بنے سکے البتہ سرکاری وکیل بن گئے۔ نوکری لگنے کے بعد معلوم ہوا وکالت میں آزادی و انکم نوکری سے ذیادہ ہے کہ مئی 2014 میں جتنی ہماری اوسط انکم تھی اگست 2020 کو ہماری تنخواہ اتنی ہوئی، کل ملا کرچھ سال بعد!!
جج کے امتحانات کی تیاری ہم ملیر کورٹ (کراچی) کی لائبریری میں یا پھر اپنے آفس میں کرتے تھے۔ لائبریری میں آٹھ سے بارہ افراد کا گروپ تھا جن میں ایک فرد ابھی وکالت کر رہا ہے ، ایک سرکاری وکیل یعنی کہ میں و باقی سب ججز ہیں۔ ہمیں سب سے خوش قسمت وہ وکلالت والا لگتا ہے ۔
دوران اسٹیڈی مختلف نوعیت کے قانونی معاملات کو بشکل کہانی ان پر تبادلہ خیال کرتے تھے۔ تبہی ایک بار نیا نیا سندھ میں پاس ہونے والا کم عمری کی شادی والا قانون بھی زیر بحث آیا دوران بحث یہ دلچسپ نقطہ سامنے رکھا گیا کہ کیا ہو اگر ایک سولہ اور آٹھارہ سال کے درمیانی عمر کی لڑکی سندھ سے نکل کے پنجاب میں جا کے کورٹ میرج کر لے، کیونکہ یہ عمل یہاں سندھ میں نکاح خواہ اور دولہے کے لئے تو قابل گرفت ہے مگر پنجاب میں یہ جرم ہی نہیں ہے کہ وہاں سولہ سال سے اوپر کی لڑکی کی شادی قانونًا درست ہے۔ اس وقت اندازہ نہیں تھا نو سال بعد اس طرح کا ایک اصل مقدمہ ملک میں اس قدر مشہور ہو گا کہ ہر فرد اس کیس کے تمام کرداروں کے نام تک واقف ہو گا۔ یہ کیس اس کی کم عمر مبینہ مغویہ کے نام سے ہی مشہور ہے ہر یو ٹیوبر، شوشل میڈیا صارف اور روایتی میڈیا اس کیس کا ذکر کرتے ہوئے اس کم عمر مغویہ کا نام لیتے ہیں جبکہ قانون ایسے کیسوں میں “مظلومہ" یعنی victim کا نام پریس میں لینے سے منع کرتا ہے اور اسے قابل سزا عمل بتاتا ہے مطلب کہ جرم۔ اس بات پر بحث ممکن ہے کہ آیا واقعی کم عمر مبینہ مغویہ "مظلومہ" ہے یا نہیں اور اول اول اس نے خود جب میڈیا پر انٹرویو دیئے اب اس کے بعد بھی یہ قانون لاگو ہو گا یا نہیں۔ میری ذاتی رائے ہے قانون تو لاگو ہوتا ہے کیونکہ اس سلسلے میں کسی قسم کی چونکہ چونانچے والی کوئی شرط نہیں ہے قانون میں۔
جب کم عمری کی شادی کے اس قانون کے سلسلے میں مشاورت اور ورکشاپ ہو رہی تھیں تو ایک ایسی ہی ورکشاپ میں ہم نے سوال کیا آج آپ قانون تو پاس کروا رہے ہیں کہ کم عمر دلہن کے والدین، دولہے اور نکاح خواح کو سزا دی جائے گی مگر وہ جو نکاح ہوا ہے اسے تو آئینی و قانونی تحفظ حاصل ہے اس کا کیا کریں گے دولہا سزا کاٹ کر واپس آتا ہے تو وہ خاندان کی مرضی یا عدالت میں حق زناشوئی کا کیس کرے گا تب متعلقہ عدالت کیا کرے گی اس پر بھی اسی قانون سازی میں حل نکالیں نیز یہ بھی کہا تھا کہ چلیں والدین کم عمر لڑکی کی شادی کرتے ہیں تو سزاوار ہوئے مگر ایک کم عمر لڑکی اپنی مرضی سے کورٹ میرج کرتی ہے تو کیا ہو گا اس کا بھی قانونی حل نکالیں۔ مگر کسی نے اس طرف توجہ نہ دی۔ دوسری تجویز تو چند منتظمین کوبری لگی خاص ایک ظاہری لبرل کو ان سے ورکشاپ کے بعد کی ہائی ٹی پر خوشگوار انداز میں تلخ باتیں بھی ہوئیں تھیں اس تجویز کی بناء پر کیونکہ وہ اسی ہفتے ایک کورٹ میرج کی پٹیشن میں سندھ ہائی کورٹ میں پیش ہوئیں تھیں کم عمر جوڑے کی حمایت میں۔
یہ قوم یا ہجوم کسی سیاسی ، لسانی، مذہبی، مسلکی اور سوشل ایشو پر جذباتی بھی بہت ہے اور سخت بھی۔ کسی بھی موقف پر جذباتی انداز میں ڈٹ جانے کا نتیجہ عدم برداشت اور بدتمیزی ہی نکلتا ہے۔ جو رویوں میں پختہ ہوتا جا رہا ہے خاص کر جب یہ خیال ہو کہ پکڑ نہیں ہو گی۔ ایسا ہی اس کیس میں بھی ہے اس کیس کو رپورٹ کرنے والے اور اس رپورٹ کو فالو کرنے والے دونوں اخلاقیات سے عاری رپورٹنگ کرتے ہیں ۔ ساتھ ہی دونوں طرف کے احباب جھوٹ کی آمیزش بھی کرتے ہیں جانے انجانے میں۔ فرد کو اپنے موقف پر ڈٹ جانا چاہئے اول جب وہ درست ہو دوئم جب اس سے کسی فرد کو اور خاص کر پورے معاشرے کو نقصان نہ پہنچتا ہو مگر ہم اپنی انا کی تسکین کے لئے یہ سب کرتے ہیں تو یہ تباہی ہے۔
لڑکی کے باپ یا فیملی کی سختی کی تو سمجھ آتی ہے اپنے مسلکی و سوشل بیک گراونڈ کی وجہ سے۔ وکالت کے دوران ہر پانچ میں سے ایک کورٹ میرج میں ہمیں لڑکی کی ایسی ہی فیملی سے واسطہ پڑتا تھا اور نتیجہ لڑکی اپنے خاندان سے مزید دور ہو جاتی تھی یوں راوبط دوبارہ بننے کے امکانات خاتم ہو جاتے ہیں۔ سو فیصد کیسوں میں جو لڑکی کورٹ میرج کے لئے گھر چھوڑتی ہے اس کی فیملی کی کسی ناں کسی خاتون (فیمیل ممبر) کو معاملات کا پہلے سے علم ہوتا ہے وہ کوئی بھی رشتہ ہو سکتا ہے۔ ہم نے ایک کورٹ میرج کروائی جس میں لڑکی کی فیملی لڑکے کی فیملی سے کئی گناہ طاقتور تھی اور معاشی طور پر مضبوط بھی۔ ابتداء میں باپ اور دیگر فیملی ممبر نے مخالفت کی مگر ملک سے باہر رہنے والے لڑکی کے بھائی نے ہم سے رابطہ کیا ملاقات ہوئی ، جوڑے کی ملاقات اپنے دفتر میں کروائی طے پایا لڑکی واپس آئے چونکہ خاندان کے باہر کے لوگوں کو علم نہیں لہذا ہم اس سلسلے میں ابتداء سے رخصتی تک کے تمام لوازمات کرتے ہیں کہ معاشرے میں عزت قائم رہے لڑکی لڑکا خوفزدہ تھے۔ ان کی ویڈیو بیانات و دیگر کاروائی کر کے واپس اپنے خاندانوں میں بھیجا گیا۔ پھر رشتہ مانگنے سے لے کر نکاح و رخصتی تک کے تمام ضروریات انہوں نے مکمل کی یہ دونوں خاندانوں و جوڑے کے لئے اچھا ہوا۔ شادی کے لئے یقینًا ہمارے معاشرے میں خاندانوں کا رضامند ہونا لازم ہے مگر وہ جو الگ خاندان بنانے کی بنیاد بنے گے انہیں بھی اہمیت دی جائے تو بہتر نتائج آئیں گے۔
عدالتی و قانونی نقطہ نظر سے دیکھیں تو بات سیدھی سی ہے میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی۔ یہاں قاضی نکاح والا سمجھ لیں یا انصاف کرنے والا دونوں ٹھیک ہیں۔ لڑکی جس کے حق میں بیان دے گی وہ ہی کامیاب ہو گا۔ لڑکی کو کراچی لانے کا مقصد اسے ظہیر سے دور کرنا ہے مگر کیا ایسے میں وہ اپنے باپ کاظمی صاحب کے قریب ہو جائے گی؟
ہم اپنی خواہش و مرضی کو درست و ٹھیک بات پر فوقیت دیتے ہیں ۔ خواہش، مرضی و مفاد تو بدلتا رہتا ہے مگر حق و سچ دائمی ہے۔ انا کی جیت میں رشتے کچلے جاتے ہیں کچلے جا رہے ہیں اور ایسے معاملات میں ہم پارٹی بن کر کسی ایک کا ساتھ نہیں دے رہے بلکہ ان کے درمیان جو خونی رشتہ رکھتے ہیں میں مزید دوریاں پیدا کر رہے ہیں۔ قانون میں ایسے کیسوں کی "مظلومہ" کے نام کی پریس میں ممانعت کافی نہیں بلکہ خاندانوں کے نام اور مقدمات کی کوریج پر بھی پابندی ہونی چاہئے۔ تب ہی انصاف ہو پائے گا ورنہ سیاسی کیسوں کی طرح ایسے معاملات میں بھی پہلا قتل سچ و انصاف کا ہو گا۔

5/17/2022

فیصلہ

عدالتیں سائلین کی مرضی کے فیصلے کرنے کو نہیں بلکہ جو انہیں عین انصاف لگے اپنی قانونی سمجھ بوجھ کے تحت آزادانہ فیصلے دینے کو ہیں۔ 
 جج کی مرضی و خواہش ممکن ہے کبھی انصاف کے متضاد ہو مگر وہ پابند ہے کہ قانون و حقائق (جو عدالت کے سامنے ہوں) کے مطابق فیصلہ دے۔ تاریخ بہت ظالم ہے یہ آگاہ کر دیتی ہے کون سا فیصلہ انصاف کے مطابق تھا اور کون سا خواہش کے زیر اثر۔ یوں پردہ فاش ہوتا ہے کون سا منصف ایماندار تھا اور کون سا قاضی بے ایمان۔ 
کسی سائل کا فیصلے کو ناانصافی کہنا اسے غلط فیصلہ نہیں بناتا۔

8/16/2021

اقتدار کا نشہ

نشہ فرد کی عقل کو ماند ہی نہیں کرتا بلکہ اکثر اس کی سمجھ بوجھ کو بھی مکمل طور پر "متاثر" کرتا ہے۔ مدہوشی میں کیئے گئے فیصلے کبھی بھی ہوش مندی میں کئے گئے فیصلوں جیسے بہتر نہیں ہوتے۔ اقتدار کی غلام گردشوں کا حصہ ہنا بھی ایک قسم کا نشہ ہے جوالگ ہی مدہوشی کا سبب بنتا ہے۔ تخت سے جڑے رہنے کی خواہش اور اپنی طاقت کو بڑھانے کا شوق! فرد کو قانون کی لاقانونیت کے لئے پر اکساتا ہے۔ تاریخ ایسے افراد کو ولن بتاتی ہے جبکہ وہ جو بنتی تاریخ میں جی رہے ہوتے ہیں اس وقٹ خود کو مسیحا سمجھ رہے ہوتے ہیں۔

5/02/2021

متواسط طبقہ اور مہنگا ازاربند


ہم میں سے ہر ایک ہر معاملے کو اپنے نقطہ نظر سے دیکھنے کا عادی ہے اس کی وجہ اس کا اپنا خاص ماحول جس میں اس نے نشوونما پائی یا وہ طبقہ جس سے وہ تعلق رکھتا ہے۔ فرد کی معاشی حیثیت بھی اس کے ماحول و تعلق کو ظاہر کرتی ہے۔ کسی کے لئے پچاس ہزار ایک ماہ کے لئے کافی ہیں اور کوئی اس میں بمشکل ایک ہفتہ "گزارا" کر پاتا ہے۔

جب ہم نے اپنی وکالت شروع کی یعنی اپنے سینئر سے الگ ہوئے تو ایک پہلا مسئلہ جس سے ہمارا واسطہ پڑا وہ سائل سے معاوضے کا تعین تھا۔ جس لاء فرم سے ہم نے وکالت سیکھنے کی ابتداء کی تھی وہ ایک اونچے طبقے سے تعلق رکھتی تھی لہذا میرے ریفرنس کے افراد کے لئے اس حیثیت کی فیس ادا کرنا ممکن نہ تھا۔ وکالت کے آغاز میں اس بات کی تو سمجھ آ گئی کہ معاوضہ طلب کرتے وقت صرف مسئلہ کی پچیدگی ہی نہیں بلکہ سائل کی قوت خرید کو بھی مد نظر رکھنا ہوتا ہے۔

متواسط طبقے کے سائل سے جس ضمانت کے ہم چالیس ہزار طلب کرتے تھے چند ہمارے دوست وہ کام بیس ہزار میں اور کچھ سینئر وکلاء اسے طرز کی ضمانت کے ڈیڑھ سے تین لاکھ روپے فیس کی مد میں لیتے تھے۔ فرق ٹریٹمنٹ کا ہوتا تھا بس۔ قانون و دلائل میں کیا فرق ہونا ہے بشرطیکہ وکیل محنتی ہو۔ وہ کہتے ہے ناں ایک امیرزادے کے ہاتھوں قتل ہو گیا تو اس کا باپ ایک وکیل کے پاس اپنا کیس لے کر گیا معاملات طے ہو رہے تھے تو امیرزادے کا باپ وکیل کی "کم" فیس کی بناء پر بددل ہو گیا کہ جو اس قدر کم معاوضہ مانگ رہا ہے اس نے کیا مقدمہ لڑنا ہے لہذا وہ ایک دوسرے وکیل کے پاس کیس لے گیا بھاری معاوضہ دینے کے بعد بھی اس کے بیٹے کو سزا ہو گئی۔ کچھ عرصے بعد باپ کی ملاقات پہلے والے وکیل سے ہوئی تو اس نے بچے کے مقدمے بارے پوچھا تو باپ نے آگاہ کیا کہ اسےسزا ہو گئی ہے جس پر وکیل صاحب بولے " دیکھ لیں جو کام آپ نے پندرہ لاکھ میں کروایا وہ میں تین میں کردیتا"۔

یہ قیمت یا معاوضہ کا فرق وکالت ہی نہیں بلکہ ہر شعبہ زندگی میں نام (جسے آپ برانڈ کہہ لیں) اور ٹریٹمنٹ (اسے آپ پریزنٹیشن یا سہولت کہہ لیں) کی وجہ سے ہوتا ہے۔ میرے والد جب اپنی نوکری سے ریٹائر ہوئے تو باقی پاکستانیوں کی طرح انہوں نے بھی ریٹائزمنٹ کے بعد حج کا رادہ کر رکھا تھا۔ حج ایک مشقت والی عبادت ہے لہذا اس مشقت کو کم کرنے کے لئے انہوں نے سرکاری کے بجائے پرائیویٹ سیکٹر سے حج پر جانے کا پروگرام بنایا 2016 میں جب سرکار پونے چار لاکھ کا حج کروا رہی ی میرے والدین نے جو پیکج لیا وہ ساڑھے سات لاکھ فی کس والا تھا حرم و مدینہ میں قریب رہائش و دیگر سہولیات کی بنا پر ان کا حج با آسانی ہوا۔ تب ہمیں معلوم ہوا کہ مولانا طارق جمیل صاحب پندرہ لاکھ فی کس کے حساب سے حج کا پیکج دے رہے ہیں۔


ہر طبقے کے اپنے برانڈ ہوتے ہیں ہر شعبہ میں۔ ان کی اپنی شرائط ہوتی ہیں۔ میرے جیسے متواسط طبقے کے بندے کو کبھی بھی بڑے نام (برانڈ) کی خریداری بارے میں نہیں سوچنا چاہئے۔ ایم ٹی جے برانڈ ابھی کا نہیں ہے شروع سے ہی اوپری طبقے کا برانڈ ہے۔ ان کے پیروکار ابتداء سے ہی "بڑے نام" رہے ہیں۔ بڑے برانڈ آہستہ آہستہ ہر شعبہ میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں ان پر تنقید یا ان کی حمایت کرتے واقت احتیاط کریں کیونکہ کہیں آپ کے اپنے  نظریات اور کہیں آُپ کا اپنا طبقہ اس تنقید یا حمایت کا نشانہ بن سکتا ہے۔ چالیس والا آزار بند سو روپے میں یا چار سو والی ٹوپی پندرہ سو میں ہرگز مہنگی نہیں بس وہ آپ کے لئے نہیں ہے کیونکہ آپ کی کلاس دوسری ہے۔

7/19/2020

گورک ہل کا سفر

کورونا سیزن یا لاک ڈاؤن میں جہاں سارا پاکستان کرونا سے لڑنے کو گھر میں بیٹھ کر “کرونا خلاف” جنگ میں مصرو ف تھا وہاں دوسری طرف ہم روازنہ کی بنیاد پر نوکری پر موجود ہوتےتھے۔ ایسے میں دوستوں کا گورک ہل کا پروگرام تازہ ہوا کا جھونکا لگا۔
کراچی سے چار سو کلومیٹر دور یہ علاقہ سندھ کا “مری” و “ناردن ایریا” کہلاتا ہے۔ ہم نے اب تک اصل مری و ناردن ایریا نہیں دیکھا لہذا ہمارے جیسے کے لئے یہ “شارٹ کورس” تھا کہ تھوڑا تھوڑا جان لیں سب بارے اور پھر بھی معلوم کچھ بھی نہ ہو۔

کراچی سے دادو تین گھنٹے میں اور پھر دادو شہر سے واہی پاندی قریب چالیس منٹ کا سفر طے کرنے کے بعد معلوم ہوا گورک ہل (پہاڑی) تک مزید تین گھنٹے درکار ہونگے۔
واہی پاندی، ضلع دادو کے تعلقہ جوہی کا وہ مقام ہے جہاں سے آگے ہم اپنی گاڑی میں سفر نہیں کرسکتے تھے یہاں سے جیپ اوپر جانے و آنے کے لئے پانچ سے چھ ہزار میں ملتی ہے اور ڈرائیور رات اوپر رکنے کو راضی ہوتے ہیں۔
واہی پاندی کو واہی پاندی کہنے کی کیا وجہ ہے؟ ہم نے یہ جانا کہ کسی پاندی نام کے فرد نے کھیتی باڑی کے لئے ایک نہر بنائی اور کاشت کاری شروع کی ۔ واہی مطلب کھیتی کا کام بھی ہے۔ یوں پاندی صاحب کا نام تاریخ میں زندہ رہا اپنی کاشت کاری کے لئے کی گئی جدوجہد کی وجہ سے۔ ویسے کراچی میں ایک جگہ لالوکھیت ہے شہر کی ترقی نے کھیت ختم کر دیا اور لالو کا علم نہیں کہاں چلا گیا مگر لالو کے کھیتوں نے اسے اب تک زندہ رکھا ہوا ہے۔ 
جوہی تعلقہ کا نام یاد رکھنا ہمارے لئے یوں مشکل نہ تھا کہ جوہی چاولہ ہمارے کئی جاننے والوں کی پسندیدہ اداکارہ رہی ہے اگرچہ اس کا اس تعلقہ سے کوئی لینا دینا نہیں۔ جوہی کسی دور میں (مطلب انگریزی دور حکومت میں) ضلع کراچی کا حصہ رہا ہے اور بدھ ازم کا اسٹوپا (عبادت گاہ) بھی یہاں ہے۔ تھر کے بعد شاید یہ ہی بدھ عقیدے

کے لوگوں کے اثر میں رہنے والا ایک اہم علاقہ رہا ہے سندھ میں۔
بہرحال واہی پاندی سے ستر کلومیٹر کا سفر ہے طے کر کے گورک کی پہاڑی کی چوٹی پر پہنچنا ایک الگ ہی ایڈوانچر تھا۔یہ ایک دس سال سے زیرتعمیر روڈ ہے۔اس پرخطر راستے پر گاڑی چلانا ایک مہارت ہے جو ان جیپ ڈرائیوروں کا ہی خاصا ہے۔ ایک غلطی آُپ کو اوپر سے نیچے ہی نہیں لاتی بلکہ نیچے سے اوپر بھی پہنچا سکتی ہے۔راستہ پر خطر ہی نہیں تھا بلکہ سحرانگیز بھی ہے۔ “حسن سحرانگیز ہو تو پر خطر بن جاتا ہے” ممکن ہے یہ جملہ صرف کسی دوشیزہ کے حسن کی تعریف کے لئے استعمال کیا گیا ہو مگر ہمیں اس سفر میں نظر آنے والے فطری حسن پر بھی سچا معلوم ہوتا ہے۔

زمین (واہی پاندی) پر 44 دگڑی کے بعد اوپر (کورک ہل) پر بارہ سے پندرہ درجہ حرارت ایک حیران کر دینے والا مامعلہ ہے۔ سمندر سے قریب چھ ہزار فٹ پر واقعہ یہ مقام جولائی میں ہم کراچی والوں کو دسمبر کی سردی کا لطف دیتا محسوس ہوتا ہے۔ کوہ کیر تھر کے پہاڑی سلسلے پر یہ مقام ایک عمدہ تفریح مرکز بن سکتا ہے۔ سندھ سرکار نے اوپر اچھے انتظامات کر رکھے ہیں یہاں تمام سہولیات و انتظامات سرکار کے ہیں اگر کوئی پرائیویٹ پارٹی منتظم بھی ہے تو اس کے پاس ٹھیکہ ہے کیونکہ یہاں تمام املاک سرکاری ہیں۔اگرچہ راستہ زیرتعمیر ہے اور اوپر تک کا سفر دشوار ہے مگر چوٹی پر رہائش و کے اچھےانتظامات ہیں ، کیمپنگ بھی کی جا سکتی ہے۔ موٹرسائیکل پر دل والے اوپر پہنچے ہوئے تھے۔ کورونا سیزن کی وجہ سے لوگوں کی کم تعداد تھِی۔

کوہ کیرتھر کا پہاڑی سلسلہ سندھ و بلوچستان کی سرحدی لکیر بھی ہے۔گورک ہل کو گورک ہل کہنے کی دو ممکنہ وجوہات بیان کی جاتی ہیں ، ایک یہ کہ کورک کے معنی چیتے و خطرناک جانور کے ہیں اور یہاں کسی دور میں کافی خطرناک جانور ہوتے تھے دوسری وجہ کورک ناتھ نامی بدھ مذہب کا پیروکار بتایا جاتا ہے جو یہاں اپنی عبادت کرتا تھا۔

سورج غروب ہونے سے پندرہ منٹ قبل ہم اوپر زیروپوائنٹ پر پہنچ ےاو ر ہم نے یوں سورج غروب ہوتا دیکھا کہ سورج کسی پہاڑی کے پیچھے نہیں چھپا بلکہ آسمان پر ایک لال داری سی سطح چھوڑتا ہوا مدہم ہوتا ہوا غائب ہو ا اور بعد میں وہ لالی بھی آہستہ آہستہ غائب ہو گئی۔ رات ہم نے استادامیرخان کی گائیکی کے سرور میں مدہوش ہوئے اور صبح کراچی واپس روانہ ہوئے۔ 
 ایک یادگار سفر تھا یہ!!! ہمارا شارٹ کورس فطرت کی حسن بارے آگاہی کا۔

5/12/2019

1965 کے صدرارتی انتخابات


وہ تاریخ جو آپ کو مطالہ پاکستان کی کورس کی کتابوں میں نہیں ملے گی


تاریخ می کئی چہروں پر ایسا غلاف چڑھا رکھاہے کہ اب انکی تعریف کرنی پڑتی ہے اور ان کا ماضی ہمیں بھولنا پڑتا ہے ایسےکئی کردار صدارتی الیکشن 1965 کے ہیں جن پر اب کوئی بات بھی نہیں کرتا اور نہ انکے بارے میں کچھ لکھا جاتا ہے یہ پہلا الیکشن تھا جس میں بیورکریسی اور فوج نے ملکر دھاندلی کی۔
1965کے صدارتی الیکشن میں پہلی دھاندلی خود ایوب خان نےکی پہلے الیکشن بالغ رائے دہی کی بنیاد پر کرانے کا اعلان کیا ۔یہ اعلان 9اکتوبر1964کوہوا مگر فاطمہ جناح کے امیدوار بنے کے بعد یہ اعلان انفرادی رائے ٹھہرا اور ذمہ داری حبیب اللّہ خان پرڈالی گئی یہ پہلی پری پول دھاندلی تھی۔
1964 میں کابینہ اجلاس کے موقع پروزراء نے خوشامد کی انتہا کی حبیب خان نے فاطمہ جناح کو اغواء کرنے کی تجویز دی وحیدخان نے جووزیراطلاعات اورکنویشن لیگ کے جنرل سیکرٹری تھے تجویزدی کہ ایوب کو تاحیات صدر قرار دینے کی ترمیم کی جائے بھٹونے مس جناح کو ضدی بڑھیا کہا اگرچہ یہ تمام تجاویز مسترد ہوئیں۔ ایوب خان نے الیکشن تین طریقوں سے لڑنےکا فیصلہ کیا۔
پہلامذھبی سطح پر،انچارج ، پیرآف دیول تھے جنہوں نے مس جناح کےخلاف فتوےديئے
دوسری انتظامی سطح پرسرکاری ملازم ایوب کی مہم چلاتے رھے
تیسری عدالتی سطح پرمس جناح کےحامیوں پرجھوٹےمقدمات درج ہوئےعدالتوں سے انکے خلاف فیصلے لئے گئے۔
سندھ کے تمام جاگیردار گھرانے ایوب کےساتھ تھے۔بھٹو،جتوئی،۔محمدخان جونیجو،ٹھٹھہ کےشیرازی،خان گڑھ کے مہر،۔نواب شاہ کےسادات،بھرچونڈی،رانی پور،ہالا،کےپیران کرام ایوب خان کےساتھی تھے۔جی ایم سید ، حیدرآباد کےتالپوربرادران اور بدین کے فاضل راہو مس جناح کے حامی تھے یہی لوگ غدار تھے ۔
پنجاب کے تمام سجادہ نشین سوائے پیرمکھڈ صفی الدین کوچھوڑکر باقی سب ایوب خان کے ساتھی تھے۔سیال شریف کےپیروں نے فاطمہ جناح کےخلاف فتوی دیا پیرآف دیول نے داتادربار پر مراقبہ کیا ۔اور کہاکہ داتاصاحب نے حکم دیا ہے کہ ایوب کوکامیاب کیاجائے ورنہ خدا پاکستان سے خفا ہو جائے گا۔ آلومہار شریف کے صاحبزادہ فیض الحسن نے عورت کےحاکم ہونے کے خلاف فتوی جاری کی ۔مولاناعبدالحامدبدایونی نے فاطمہ جناح کی نامزدگی کو شریعت سے مذاق اور ناجائز قرار دیا حامدسعیدکاظمی کے والد احمدسعیدنے ایوب کو ملت اسلامیہ کی آبروقراردیا یہ لوگ دین کے خادم ہیں۔لاھورکے میاں معراج الدین نے فاطمہ جناح کےخلاف جلسہ منعقدکیا جس سےمرکزی خطاب غفارپاشا وزیربنیادی جمہوریت نے خطاب کیا معراج الدکن نے فاطمہ جناح پر اخلاقی بددیانتی کاالزام لگایا موصوف یاسمین راشدکےسسرتھے۔ میانوالی کی ضلع کونسل نے فاطمہ جناح کے خلاف قراردداد منظور کی ۔ مولانا غلام غوث ہزاروی صاحب نے ایوب خان کی حمایت کااعلان کیا اور دعا بھی کی پیرآف زکوڑی نے فاطمہ جناح کی نامزدگی کو اسلام سے مذاق قراردیکر عوامی لیگ سے استعفی دیا اور ایوب کی حمایت کااعلان کیا۔
سرحدمیں ولی خان مس جناح کےساتھ تھے ۔یہ غدارتھے۔
بلوچستان میں مری سرداروں اورجعفرجمالی کوچھوڑ کر سب فاطمہ جناح کےخلاف تھے۔ قاضی محمد عیسی مسلم لیگ کابڑ انام بھی فاطمہ جناح کےمخالف اورایوب کے حامی تھے انہوں نے کوئٹہ میں ایوب کی مہم چلائی ۔ حسن محمودنے پنجاب و سندھ کے روحانی خانوادوں کو ایوب کی حمایت پرراضی کیا۔
خطہ پوٹھوہارکے تمام بڑے گھرانے اور سیاسی لوگ ایوب خان کےساتھ تھے ۔ چودھری نثار والد برگیڈیئرسلطان , ملک اکرم جو دادا ہیں امین اسلم کے ملکان کھنڈا کوٹ فتح خان، پنڈی گھیب، تلہ گنگ ایوب کے ساتھ تھے سوائے چودھری امیر اور ملک نواب خان کےاور الیکشن کے دو دن بعد قتل ہوئے۔
شیخ مسعود صادق نے ایوب خان کیلئے وکلاہ کی حمایت کا سلسلہ شروع کیا کئ لوگوں نے انکی حمایت کی پنڈی سے راجہ ظفرالحق بھی ان میں شامل تھے اسکےعلاوہ میاں اشرف گلزار ۔بھی فاطمہ جناح کے مخالفین میں شامل تھے۔
صدارتی الیکشن 1965کے دوران گورنر امیرمحمد خان صرف چند لوگوں سےپریشان تھے ان میں شوکت حیات،۔خواجہ صفدر جو والد تھے خواجہ آصف کے، چودھری احسن جو والد تھے اعتزاز احسن کے ، خواجہ رفیق جو والد تھے سعدرفیق کے ، کرنل عابدامام جو والد تھے عابدہ حسین کے اورعلی احمد تالپورشامل تھے۔ یہ لوگ آخری وقت تک۔۔فاطمہ جناح کےساتھ رہے۔
صدارتی الکشن کےدوران فاصمہ جناح پر پاکستان توڑنےکاالزام بھی لگا یہ الزام زیڈ-اے-سلہری نے اپنی ایک رپورٹ میں لگایا جس میں مس جناح کی بھارتی سفیرسےملاقات کاحوالہ دياگیا اوریہ بیان کہ قائدتقسیم کےخلاف تھے یہ اخبار ہرجلسےمیں لہرایاگیا ایوب اس کو لہراکر مس جناح کوغدارکہتےرھے۔
پاکستان کامطلب کیا لاالہ الااللّہ جیسی نظم لکھنےوالے اصغرسودائی ایوب خان کے ترانے لکھتے تھے۔ اوکاڑہ کےایک شاعر ظفراقبال نے چاپلوسی کےریکارڈ توڑڈالے یہ وہی ظفراقبال ہیں جوآجکل اپنےکالموں میں سیاسی راہنماؤں کامذاق اڑاتےہیں۔ سرورانبالوی اور دیگرکئی شعراء اسی کام میں مصروف تھے۔ حبیب جالب، ابراھیم جلیس ، میاں بشیرفاطمہ جناح کےجلسوں کے شاعرتھے۔ جالب نے اس کام میں شہرت حاصل کی ۔ میانوالی جلسےکےدوران جب گورنرکے غنڈوں نے فائرنگ کی توفاطمہ جناح ڈٹ کرکھڑی ہوگئیں اسی حملےکی یادگا بچوں پہ چلی گولی ماں دیکھ کےیہ بولی نظم ہے۔۔فیض صاحب خاموش حمائتی تھے۔
چاغی،لورالائی ، ،سبی، ژوب، مالاکنڈ، باجوڑ، دیر، سوات، سیدو، خیرپور، نوشکی، دالبندین، ڈیرہ بگٹی، ہرنائی، مستونگ، چمن، سبزباغ سے فاطمہ جناح کو کوئی ووٹ نہیں ملا ۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ایوب ، فاطمہ کےووٹ برابرتھے مس جناح کےایجنٹ ایم خمزہ تھے اور اے سی جاویدقریشی جو بعد میں چیف سیکرٹری بنے
مس جناح کو کم ووٹوں سے شکست پنڈی گھیب میں ہوئی۔ ایوب کے82 اور مس جناح کے 67 ووٹ تھے۔اس الیکشن میں جہلم کے چودھری الطاف فاطمہ جناح کےحمائتی تھے مگر نواب کالاباغ کےڈرانےکےبعد۔ پیچھے ہٹ گئ یہاں تک کہ جہلم کےنتیجے پردستخط کیلئے ۔مس جناح کے پولنگ ایجنٹ گجرات سے آئے اسطرح کی دھونس عام رہی۔
۔حوالےکیلئےدیکھئے ڈکٹیٹرکون ایس ایم ظفرکی ، میراسیاسی سفر حسن محمود کی ، فاطمہ جناح ابراھیم جلیس کی ۔مادرملت ظفرانصاری کی ۔۔فاطمہ جناح حیات وخدمات وکیل انجم کی۔ story of a nation..allana..A nation lost it's soul..shaukat hayat..Journey to disillusion..sherbaz mazari. اورکئ پرانی اخبارات۔۔


یہ تحریر دراصل ایک سرمد سلطان کے ٹویٹ ٹھریڈ کا مجموعہ ہے جو آپ یہاں دیکھ سکتے ہیں

12/21/2018

موٹیویشنل اسپیکر

ابے آج کل کیا کر رہا ہے
"کچھ نہیں بس فارغ ہو وقت برباد کر رہا ہوں"
اچھا! ایسا کر پھر یو ٹیوب پر ڈاکومینٹری دیکھا کر یا کسی اچھے موٹیویشنل اسپیکر کو سنا کر
"کوئی اچھا نام بتا بتا اس سلسلے میں"
یار ایک لاہور کا ہے قاسم علی شاہ یا کراچی کا ہے عاطف احمد اچھے ہیں ویسے
"ٹھیک ایک ہندوستانی کا نام بھی سنا ہے سندیپ کر کے نام ہے وہ کیسا ہے"
وہ بھی ٹھیک ہے اسے بھی سنا جا سکتا ہے
"ویسے ان کو سننے سے موٹیویشن ملتی ہے کیا؟"
ابے موٹیویشن ان اسپیکروں سے نہیں ملتی بس باتیں کرنا آ جاتی ہے یہ فائدہ ہے سننے کا

11/01/2018

آسیہ ملعونہ پر سپریم کورٹ کا فیصلہ

قانونی اعتبار سے آسیہ بری ہو چکی ، ریویو داخل بھی ہوا تو بھی سزا بحال ہونا ممکن نہیں اب قانونی طور پر۔
اس کیس میں سزا برقرار رکھنے کے لئے بھی کافی مواد تھا اور یاد رہے ہائی کورٹ نے سزا کو برقرار رکھتے وقت عدالت سے باہر عوامی جرگہ میں ملزمہ کے اقبال جرم کو قانون کی روشنی میں پہلے ہی رد کر دیا تھا یوں اس فیصلے میں باقی تضادات کے مقابلے میں دو ہی تضاد ایسے ہیں جنہیں بریت کی وجہ بیان کیا جا سکتا ہے ایک مدعی (قاری ) تک اس توہین کی خبر کس طرح پہنچی؟ اس سلسلے میں مثل پر دو بیان ہیں ایک میں قاری کی بہن نے اسے بتا کہ اس کی شاگرد خواتین  کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا دوسرا وہ خواتین خود قاری صاحب کے سامنے پیش ہوئیں۔ دوسرا خواتین نے دوران جرح عدالت میں فالسے کے باغ میں پانی پینے والی بات پر ہونے والے جھگڑے کی صحت یا واقعی سے انکار کیا مگر باقی دیگر گواہان نے اس جھگڑے سے متعلق گواہی دی۔
باقی تضادات عوامی جرگہ کے گرد گھومتے ہیں۔

جسٹیس کھوسہ صاحب کو فوجداری مقدمات میں پاکستان میں سند مانا جاتا ہے۔ ان کے فیصلے بہت بہترین ہوتے ہیں ، جس قدر محنت سے انہوں نے اپنا اضافی نوٹ فیصلے کے حق میں لگایا ہے یقین جانے اس سے آدھی محنت وہ اختلافی نوٹ بھی لگا سکتے تھے یہ ہی نہیں اس سے بھی کم محنت میں وہ ممتاز قادری والے کیس میں سزائے موت کو عمرقید میں بدل سکتے تھے۔ (آسیہ اور عاصیہ کو ایک سمجھنا بھی عجب غلطی ہے معلوم ہوتا ہے صرف انگریزی کتاب سے ریفرنس لیا گیا ہے جو تلفظ ملنے سے یہ غلطی کر لی)

اور جس قدر محنت اور باریک بینی سے چیف صاحب نے آسیہ والی ججمنٹ لکھی ہے اس سے آدھی محنت سے بھی کم محنت میں شاہزیب والے کیس میں جبران ناصر کی پٹیشن/درخواست رد ہو سکتی تھی (فوجداری مقدمات میں تیسرے فریق کی درخواست پر فیصلہ بدلنے کی اس سے قبل کوئی مثال میری نظر سے نہیں گزری نہ کوئی سینئر ایسی کوئی مثال بیان کرتا ہے)۔

مختصر قانون یقین اہم ہے مگر جج کی منشاء بھی کہیں کہیں غالب ہوتی ہے۔ یہ منشاء ہی دلیل و تاویل کا فرق ہوتی ہے۔ اس ججمنٹ پر کسی جج نے اختلافی نوٹ نہیں لکھا ججمنٹ کے حق میں یہ ایک بہت بڑا آرگومنٹ ہے جس کا جواب ممکن نہیں۔
مذہبی حلقوں میں ملک کی بڑی عدالت اپنا وقار اس ہی مقام پر لے آئی ہے جس مقام پر نظریہ ضرورت کو متعارف کروانے اور پی سی او حلف کے بعد سیاسی حلقوں میں پہنچ گئی تھی۔
اکتیس اکتوبر کو اب ہر سال انگریز دور کے غازی علیم الدین  شہید کے ذکر کے ساتھ ملک پاکستان کے ایوان اقتدار و عدلیہ بارے کیسے خطاب ہوا کرے گے گلی گلی کیا آپ انہیں آج ہی بیان کر سکتے ہیں۔

10/23/2018

برا تو عوام ہے!!!

ہمارے ایک دوست نے آپریشن "رد الفساد" کے دوران کا ایک قصہ سنایا۔ جن علاقوں میں پاک فوج نے کارروائیاں کیں، وہاں طالبان کو کسی حد تک مقامی حمایت حاصل تھی۔ اس لیے، فوج کے اہلکار وہاں سے نکلتے ہوئے مقامی افراد سے گفتگو کرتے تاکہ کوئی ایسی معلومات مل سکے جو آپریشن میں مددگار ثابت ہو۔ دوسری طرف، مقامی آبادی بھی ایک عجیب خوف میں مبتلا تھی؛ وہ نہ کھل کر فوج کے خلاف بات کر سکتے تھے اور نہ ہی طالبان کی کھلم کھلا مخالفت کر سکتے تھے، کیونکہ وہ تذبذب کا شکار تھے۔

ایسے ہی ایک موقع پر، ایک مقامی بزرگ سے پوچھا گیا کہ ان کی طالبان کے بارے میں کیا رائے ہے؟ انہوں نے جواب دیا، "سنا ہے اچھے لوگ ہیں، اللہ کے قانون کی بات کرتے ہیں، قرآن و سنت کا نفاذ چاہتے ہیں اس زمین پر۔"

اس کے بعد پاک فوج کے بارے میں سوال کیا گیا تو جواب آیا، "وہ بھی اچھے لوگ ہیں، پاکستان کی بات کرتے ہیں اور پاکستان ہمارا ملک ہے، مسلمانوں کا ملک ہے، اللہ اور رسول کے نام پر بنا ہے، اور اس کی سالمیت چاہتے ہیں۔"

اگلا سوال ہوا کہ "طالبان بھی اچھے اور فوج بھی اچھی، یہ کیا بات ہوئی؟ برا تو کوئی نہ کوئی ہوگا؟"

بزرگ گویا ہوئے، "برا تو ہم ہیں، ہم عوام! جو نہ مذہب کا سوچتے ہیں نہ ملک کا۔ سب کی تعریف کرتے ہیں، سب کی برائی کرتے ہیں۔ ہمیں اس کی سزا بھی ملتی ہے اور ملنی بھی چاہیے۔"

گزشتہ دو ماہ سے ملک میں انتخابات کے بعد تو یوں لگتا ہے جیسے اس بزرگ کی بات درست تھی: "برا تو ہم عوام ہیں!" کیا پٹواری، کیا یوتھیا، کیا جیالا، کیا جماعتی یا کسی اور سیاسی جماعت یا گروہ کا حمایتی۔ سب اپنی اپنی جگہ ٹھیک ہیں، ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے نظریے اور مؤقف پر قائم ہے۔ اصل میں، عوام ہی ہیں جو تذبذب کا شکار رہتے ہیں اور بظاہر ہر ایک کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔ یہی ہمارا تضاد اور دوغلا پن ہے جس کی وجہ سے ہم سب کی تعریف بھی کرتے ہیں اور سب کو برا بھلا بھی کہتے ہیں۔

9/16/2018

فوجی ڈیم

ایک سینئر بتا رہے تھے ماضی میں جب بھی فوجی حکومت آئی یعنی فوجی حکمران آیا اس نے ڈیم بنانے پر زور دیا یا اس کا سوشہ چھوڑا۔
پوچھا فوجی حکمران مطلب فوج کا حکمران
بے دھیانی سے بولے "ہاں"
تو پوچھا ڈیم کے نعرہ کا مطلب فوجی حکومت ہوتا ہے ؟
بولے خاموش بیٹا تیری عمر ابھی میری عمر جتنی نہیں ہوئی کوئی دوسری بات کر۔

6/20/2018

ایلیکٹیبل

ایک عجیب معاملہ ہے بڑی پارٹیوں  کے نامرذ امیدوار کردار میں بڑے نہیں اور جو امیدوار  کردار میں اچھے ہیں وہ بڑی پارٹی میں نہیں۔ ہمارے ملک کی جمہوریت میں یوں لگتا ہے بڑے و بُرے  اور اچھے و نکے آپس میں ایک دوسرے سے جڑے ہیں۔ دلچسپ بات جو پارٹی جس قدر کم عوام میں مقبول ہوتی ہے اس قدر بہترین کردار کا امیدوار نامزد کرتی ہے اور جو جو عوامی حمایت بڑھتی جاتی ہے اس کا ممکنہ امیدوار اس قدر کمزور کردار کا حامل ہوتا ہے۔ اس اعلی درجے کے پست کردار امیدوار کو ایلیکٹیبل کا نام دیا جا رہا ہے۔
ایسا کیوں ہے؟ کیا یہ منتخب امیدوار ہمارے معاشرے کا آئینہ نہیں ہیں؟ اگر جمہوریت واقعی ہی عوام کی حکومت کی ایک شکل ہے تو اس سے یہ اخذ کیا جائے کہ بحیثیت قوم ہم  پست کردار ہیں؟ یا ابھی ہم قوم کی تعریف سے بھی دور ایک ہجوم یا گروہ ہیں؟

12/27/2017

شاہ رخ جتوئی کی رہائی کیوں ممکن ہوئی؟؟؟

شاہ رخ جتوئی ضمانت پر رہا ہوچکا ہے اس کی رہائی کے ساتھ ہی سوشل اور روایتی میڈیا پر فیصلہ پر تنقید جاری ہے ۔عام افراد پاکستانی قانون سے نا واقف ہیں سو ان کو بس یہی نظر آرہا ہے کے ہمیشہ کی طرح ایک دولت مند شخص سزا سے بچ گیا ۔
پاکستان میں کچھ جرائم نا قابل راضی نامہ ہیں اور کچھ قابل راضی نامہ ہیں۔ قتل کا مقدمہ دفعہ 309 اور 310 تعزیرات پاکستان اور ضابطہ فوجداری دفعہ 345 ذیلی دفعہ 2 کے تحت عدالت مجاز کے اجازت سے قابل راضی نامہ ہوتا ہے ۔ مگر چونکہ اس قتل سے عام لوگوں میں خوف و ہراس پھیلا تھا (جو دراصل میڈیا کوریج کا نتیجہ تھا) اس لیے مقدمہ میں دہشت گردی کی دفعات بھی شامل کی گئیں جو کہ ناقابل راضی نامہ ہے ۔شاہ رخ کو ٹرائل کورٹ سے سزا ہو گئی مگر اپیل کے دوران شاہ زیب کے وارثان سے راضی نامہ ہوگیا، مگر اس کے باوجود شاہ رخ کی رہائی ممکن نہ تھی۔ اس کی دو وجوہات تھیں. 1 ۔دہشت گردی کی دفعہ کی موجودگی میں راضی نامہ ممکن نہ تھا۔
2۔۔دفعہ 338 ای (2) تعزیرات پاکستان کے تحت اگر کسی قبل راضی نامہ کیس میں سزا ہو جائے اور اپیل میں راضی نامہ ہو تو عدالت کی صوابدید ہوگی کہ اس کو تسلیم کرے یا نہ کرے جس کے الفاظ یوں ہیں!
“All questions relating to waiver or compounding of an offence or awarding of punishment under Section 310, whether before or after the passing of any sentence, shall be determined by trial Court”

مزید براں دفعہ 311 تعزیرات پاکستان کے تحت قتل کے کیس میں راضی نامہ ہونے کے باوجود عدالت اصول "فساد فی الآ رض" کے تحت تعزیر میں ملزم کو سزا دےسکتی ہے۔
اس سلسلے میں ذیل کا فیصلہ ایک نظیر ہے۔
“Ss. 302(b)1149, 186/149, 353/149, 148/149 & 311---Anti-Terrorism Act (XXVII of 1997), S.7---Criminal Procedure Code (V of 1898), S.345(2)---Constitution of Pakistan (1973), Art.185(3)---Parties had compromised the matter and compensation had already been received by the complainants---Permission to compound the offence, therefore, was accorded under S.345(2), Cr.P.C.---Accused, however, had committed the murder of two young boys who were confined in judicial lock-up in a brutal and shocking manner, which had outraged the public conscience and they were liable for punishment on the principle of "Fasad-fil-Arz"---Accused had taken the law in their hands without caring that police stations or Court premises were the places where law protected the life of citizens---Consequently, in exercise of jurisdiction under S.311, P.P.C. death sentence of two accused was reduced to imprisonment for life under S.302(b), P.P.C. and under S.7 of the Anti-Terrorism Act, 1997 on both the counts---Similarly, sentences of imprisonment for life awarded to two other accused under S.302(b), P.P.C. was reduced to fourteen years' R.I., but their life imprisonment awarded under S.7(b) of the Anti-Terrorism Act, 1997, was maintained on both the counts with benefit of S.382-B, Cr.P.C.---Remaining sentences awarded to accused were kept intact---All sentences were directed to run concurrently. (P L D 2006 Supreme Court 182)

ایسا ہی ایک فیصلہ PLD 2006 Peshawar page 82 ہے باقی عموما عدالتیں فساد فی الآ رض کی تعریف میں عموما سفاکی کے جز کو دیکھی ہیں۔ . مگر سندھ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلہ میں دہشت گردی کی دفعات ختم کردی کیونکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق ذاتی دشمنی کی وجہ سے کیا گیا جرم دہشت گردی کے ذمرے میں نہیں آتا۔
“Ss. 6 & 7---Act of terrorism---Scope---Occurrence which resulted due to a personal motive/enmity for taking revenge did not come within the fold of "terrorism"---Mere fact that crime for personal motive was committed in a gruesome or detestable manner, by itself would not be sufficient to bring the act within the meaning of terrorism or terrorist activities---Furthermore, in certain ordinary crimes, the harm caused to human life might be devastating, gruesome and sickening, however, this by itself would be not sufficient to bring the crime within the fold of terrorism or to attract the provisions of Ss. 6 or 7 of the Anti-Terrorism Act, 1997, unless the object intended to be achieved fell within the category of crimes, clearly meant to create terror in people and/or sense of insecurity. (2017 S C M R 1572)

اب ٹرائل کورٹ راضی نامہ کو تسلیم کرنے کی پابند تھی ۔جس سے شاہ رخ جتوئی کی رہائی کی راہ ہموار ہوگئی ۔ مگر اب بھی سرکار سندھ ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ اپیل دائر کرسکتی ہے۔ جو یقیناً وہ نہیں کریگی مگر پرائیویٹ سطح پر دائر کر دی گئی ہے۔اس مقدمہ سے ایک بار پھر اس تاثر کو تقویت ملی کہ پاکستان میں امیر آدمی کے سزا سے بچنے کے بہت سے راستے ہوتے ہی,مگر درحقیقت ایسا بالکل نہیں ہے اس قانون کے تحت ہر طبقے کے افراد فیض یاب ہوئے ہیں اور یہ قانون خاندانوں کی دشمنوں کے کے اختتام کا سبب بھی بنتا ہے. مگر اگر اس قانون سے کسی کو اختلاف ہے تب اس کی تبدیلی اسمبلی سے ہی ممکن ہے بذیعہ ترمیم کیونکہ فیڈریل شریعت کورٹ (PLD 2017 page 8 FEDERAL-SHARIAT-COURT ) سے ایسی ایک پٹیشن جس میں متعلقہ دفعات 306 (b) اور (c), 307(1) (b) اور (c), 309(1), 310(1) کوچیلنج کیا گیا تھا رد کر دی گئی ہے ۔

※※※اقسام وکیل با زبان وکیل ※※※

(نوٹ یہ تحریر مجھے بذریعہ وٹس اپ موصول ہوئی لکھاری کا علم نہیں مگر حسب حال ہے)

‎ہم پر یہ راز کھلا کہ دیگر مخلوقات کی طرح وکیلوں کی بھی کئی اقسام پائ جاتی ہیں ۔

‎جن کی حتمی تفصیلات بارکونسل کے مستقل  افسران کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ۔کچھ ناکام وکیلوں کی مدد سے ہم تاحال وکیلوں کی جن اقسام کو دریافت کر پا ۓ وہ درج زیل ھیں

اصلی وکیل:

‎سب سے پہلے تو اصلی وکیل، یہ وکیلوں کی وہ کمیاب قسم ہے جو شاذ شاذ ہی نظر آتے ھیں۔یہ ھر نۓ قانون سے واقفیت کی کوشش میں سرگرداں نظر آتے ھیں۔ عموماََ ان کے جلو میں دو نہایت تابع فرماں قسم کے ننھے وکیل یعنی جونیئر ہوتے ہیں، جن میں سے ایک کے ہاتھ می مقدموں کی فائلیں اور دوسرے کے ہاتھوں میں کوئی پی ایل ڈی کی موٹی سی کتاب یا اصل وکیل کی ڈائری ہوتی ہے ، جو اس کے لئے کسی کتاب سے کم نہیں ہوتی یہ دونوں اصل وکیل کے دائیں بائیں چلتے ہوئے انتہائی ہنر مندی سے ایک ایسی مثلث تشکیل دے لیتے ہیں جس میں اصلی وکیل اور انکے درمیان شرقاََ غرباََ ڈیڑھ قدم کا فاصلہ اور آپس میں شمالََ جنوباََ ٹھیک تین قدم کا فاصلہ برقرار رہتا ہے ۔

‎اصلی وکیل اپنے مقدمات کی پیروی خود کریں یا کسی جونیئر کو بھیجیں ہر دو صورت میں انہیں مقدمے کی ٹھیک ٹھیک صورتحال معلوم ہوتی ہے ۔ اور یہ مقابلے کے وکیل سے ایک قدم آگے کی سوچ میں ڈوبے رہتے ہیں گفتگو کم کرتے ہیں سوچتے زیادہ ہیں ان کے منہ سے نکلنے والا ایک ایک جملہ آئین کی پُر پیچ ندیوں میں نہایا ہوا، اور قانون کی موٹی موٹی کتابوں کی ہوا سے سکھایا ہوا ہوتا ہے ۔ اس پہلی قسم کے وکیلوں کو انسانوں کے بجائے کتابوں کے درمیان رہنا زیادہ پسند ہوتا ہے۔۔۔دفتر ان کا وقت زیادہ گزرتا ھے ۔سوائے جج حضرات کے ، یہ عام زندگی میں کسی سے نہیں الجھتے ، چونکہ یہ قسم شاذ و نادر نظر آتی ہے لہذا ان کے بارے میں زیادہ معلومات حاصل نہیں۔

قبلی وکیل:

یہ عموماً میرون ٹائ میں ملبوس نظر آئیں گے اور اس تکلیف کے پیش نظر کے ان کو مقدمہ میں پیش ھو نے کی ابھی اجازت نہ ھے ان کا خیال ھوتا ھے کہ اگر موصوف استاد کی جگہ یہ ھوتے تو ان کی شعلہ بیانی قابل سماعت ھوتی جبکہ مستقبل میں اس کے بالکل برعکس ھوتا ھے اور دوران بحث اپنی آواز بمشکل سنائ دیتی ھے۔

منتھلی وکیل:

یہ قسم سرکاری دفاتر میں پائ جاتی ھے جن کو منتھلی تنخواہ کی ترسیل ان کے بینک اکاونٹ میں مل جاتی ھی اور ان کا کام صرف عدالتوں کے باھر کھڑے  ھو کر اس وکیل کا انتظار کرنا ھوتا ھے جس کو اس سرکاری ادارے نے متعین کیا ھوتا ھے۔  ان کے پاس ایک سرکاری گاڑی ھوتی ھے جس میں پیٹرول ڈلتا ھی رھتا ھے۔ ان کا قوانین کی تشریح سے کوئ واسطہ نہیں ھوتا اور الیکشن کے دن بھی وارد ھوتے ھیں۔

الیکشنلی وکیل:

یہ جوائنٹ سیکرٹری سے لے کر صدر تک کا الیکشن لڑتا ھے اور  وہ کچھ کرتا ھے جو ساری اقسام کے وکیل مل کر بھی نہیں کر سکتے۔۔۔۔  میرا مطلب بار کی خدمت۔۔۔۔۔ کرتا ھے۔۔۔

جبلی وکیل:

جبل عربی میں پہاڑ کو کہتے ھیں ۔۔۔تو شاھیں ھے بسیرا کر لا فرموں کی چٹانوں پر۔۔۔۔ اس وکیل کو اس کے علم کے عوض دس گنازیادہ  ڈالر ملتے ھیں۔ اس کی زندگی پرتعیش اور اکثر رنگین ھوتی ھے۔۔۔ فکر معاش اس کا مسلۂ نہیں ھوتا بلکہ مزید تر معاش از خود اس کی تلاش میں ھوتا ھے۔۔۔۔ویک اینڈ پر اس کا خرچہ ایک سول جج کی ماہانہ تنخواہ کے برابر ھو جایا کرتا ھے۔۔۔ یہ اکثر سوال کرتا پایا جاتا ھے کہ آجکل ھائ کورٹ کی عمارت کہاں واقع ھے۔۔۔وجود زن سے ان کی تصویر کائنات میں رنگ سنبھالے نہیں سنبھلتے۔۔۔۔۔پردہ پوشی درست است

نسلی وکیل:

‎ان کے علاوہ وکیلوں کی ایک قسم نسلی وکیل بھی ہے ، یہ وکیلوں کی وہ قسم ہے جو نسل در نسل
‎وکالت سے وابستہ ہے ان میں کچھ صرف ددیال کی طرف سے واکالت ورثے میں پاتے ہیں اور کچھ نجیب الطرفین وکیل ہوتے ہیں ادھر ابا اور دادا وکیل اور ادھر اماں اور نانا وکیل ۔ وکالت ان کی رگوں میں دوڑ تی ہے ۔ اور اگر انہیں وکالت سے دلچسپی نہ بھی ہو تب بھی یہ کامیاب وکیل ثابت ہوتے ہیں ۔ گھرانے کا گھرانا وکیل ہوتا ہے نہار منہ مقدموں کی باتیں شروع ہوجاتی ہیں۔ خاندان میں کوئی جج بھی ہوجائے تو سونے پہ سہاگہ ۔ نسلی وکیلوں کو زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی، انہیں بچپن ہی سے وکالت کے داؤ پیچ سکھائے جاتے ہیں جس سے یہ اسکول میں اساتذہ اور ساتھ پڑھنے والے بچوں کی زندگی مشکل کردیتے ہیں بعد کو یہی مشق شدہ تربیت جج صاحبان کے لئے دردِ سر بنتی ہے ۔ ایسے واقعات بھی سننے میں آئے ہیں کہ بھر ی عدالت میں مقدمے کی پیروی کے دوران دلائل دیتے ہوئے وکیل صاحب نے "آئی آبجیکٹ مائی لارڈ" کے بجائے روانی میں " آئی آبجیکٹ بڑے ماموں" کہہ دیا۔

‎ایک اعتبار سے یہ مظلوم بھی ہوتے ہیں کہ کسی مقدمے کی بیروری میں تاخیر سے پہنچنے پر جو ڈانٹ جج صاحب سے کمرہِ عدالت میں پڑتی ہے وہی ڈانٹ رات کو کھانے کی میز پر انہیں جج صاحب سے بحثیت والدِ محترم دوبار سننے کو ملتی ھے

کسلی وکیل:

‎نسلی وکیلوں کو جہاں بہت سے فوائد ہیں وہیں بہت سے نقصانات بھی ہیں ، ان کے مقابلے میں وکیلوں کی ایک دوسری قسم جسے "کسلی وکیل" کہا جاتا ہے ہمیشہ آرام سے رہتی ہے ۔ ان کی نسبت ان کی کسل مندی کی بنیاد پر ہے ۔ یہ انتہائی سست اور کاہل قسم کے وکیل ہوتے ہیں ، ایک تو عدالتی نظام کی رفتار پر پہلے ہی تنقید کی جاتی ہے ، کسلی وکیل اس رفتار کو اور سست کردیتے ہیں ، ذرا ذرا سی بات بلکہ بات بے بات پیروئی کی نئی تاریخ لینا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ " تاریخ پہ تاریخ ۔۔۔ تاریخ پہ تاریخ"جیسے مشہور فلمی ڈائیلاگ انہیں کسلی وکیلوں کی مرہونِ منت ہیں ۔ یہ زیادہ تر وقت اپنے دفاتر میں گزارتے ہیں بار کونسل میں کم آتے ہیں ۔ عدالتوں میں اس سے بھی کم جاتے ہیں ۔ یہ کبھی کبھی بار کونسل کے سوفوں میں یوں دھنس کے بیٹھے نظر آتے ہیں کہ کوٹ پشت سے اٹھ کر گدی سے ہوتا ہوا سر کے اوپر آکر ایک موکلہ سا بنا لیتا ہے جس سے منہ نکال کر یہ بے دلی اور نفرت سے چاک و چوبند وکیلوں کو گھورتے ہیں ۔ ویسے تو یہ تمام لوگوں کو گھورتے ہیں مگر ان کےغضب کا سب سے زیادہ شکار ، "پسلی وکیل " ہوتے ہیں ۔

پسلی وکیل:

‎جی ہاں ، "پسلی وکیل"یہ وہ وکیل ہیں جن کیلئے محاورے کا ڈیڑھ پسلی بھی زیادہ معلوم ہوتا ہے ۔ معصوم معصوم چہروں والے یہ ننھے وکیل ، اپنی خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے پڑھائی میں بہت آگے ہوتے ہیں ۔ یہ بچپن میں غذا سے حاصل ہونے والی توانائی کا بڑا حصہ، اپنی ذہنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں استعمال کرتے ہیں لہذا جسمانی نشونما کی رفتار سست پڑجاتی ہے ۔ اگر ایسے چار چھ پسلی وکیل ایک جگہ جمع ہوں اور پس منظر سے عدالت کی عمارت ہٹا دی جائے ، تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اسکول کے بچے سالانہ ٹیبلو کی تیاری کررہے ہیں ۔

‎ایسے وکیل عموماََ جرائم کے مقدموں سے دور رہتے ہیں ، عموماََ ایسے مقدمات کا انتخاب کرتے ہیں جس میں کسی زور آور موکل سے واسطہ نہ پڑےمثلاََ مالی بے ضابتگی، نام کی تبدیلی ، ملکیت کی منتقلی، اور صلاح نامہ وغیرہ

ٹسلی وکیل:

‎ ۔ان کے بالکل مخالف ، وکیلوں کی ایک سب سے خطرناک قسم پائی جاتی ہے جسے "ٹسلی وکیل " کہا جاتا ہے ۔ یہ "ٹسلی" لفظ ٹسل سے ہے ۔ بمعنی اڑ جانا، ضد کرنا، کینہ رکھنا، جھگڑا کرنا ، دشمنی رکھنا، اس لفظ میں یہ تمام کیفیات یکجا ہیں ۔ اس نوع کے وکلا ء کے پاس زیادہ تر مقدمات اپنے ہی قائم کردہ ہوتے ہیں ۔جو انہوں نے اپنے قرب و جوار کے لوگوں پر مختلف اوقات اور مختلف کیفیات میں دائر کئے ہوتے ہیں ۔جن میں عام طور سے محلے کا دھوبی ، حجام، گاڑی کا مکینک، بچوں کے اسکول کا ہیڈ ماسٹر، سسرالی رشتہ دار، الغرض جہاں جہاں ان کی ٹسل ہوجائے یہ وہیں مقدمہ داغ دیتے ہیں ۔ یہ وکیل اپنی وکالت کی سند کا بے دریغ استعمال اپنا بنیادی حق سمجھتے ہیں ۔ بعض اوقات تو مقدمہ ہارنے کے بعد مقابلے کے وکیل تک پر مقدمہ داغ دیتے ہیں ۔

وصلی وکیل:
‎البتہ وکیلوں کی سب سے زرخیز قسم وصلی وکیل ہوتے ہیں ۔ یہ صرف عدالتی شادیاں یعنی کورٹ میرج کرواتے ہیں۔ ان کے پاس کبھی مقدمات کی کمی نہیں ہوتی ۔ بلکہ عدالتی شادیوں کے نتیجے میں عداوتی مقدمات کا ایسا بیج بو تے ہیں جس سے دوسرے وکیلوں کا دال دلیہ بھی جاری ہوجاتا ہے ۔ حالانکہ بارکونسل میں ان کی زیادہ آؤ بھگت نہیں ہوتی مگر اعداد و شمار سے ثابت کرنا مشکل نہیں کہ یہی طبقہء وکیلاں ساٹھ فیصد وکیلوں کیلئے معاشی راہیں ہموار کرتا ہے ۔