تحریر= اوریا مقبول جان
9/07/2009
5/28/2009
ہو گا کیا؟؟
ہم تو اُس دور میں پیدا نہیں ہوئے تھے! مگر اپنے بڑوں سے سنا اور کتابوں میں پڑھا ہے کہ جب 1965 میں پاک بھارت جنگ شروع ہوئی تو جتنے دن ملک میں جنگ ہوتی رہی! اتنے دن نہ تو کوئی ملک میں کوئی چوری ہوئی نہ ڈاکا پڑا لاہور جیسے بڑے شہر پر دشمن قبصہ کرنا چاہتا تھا مگر لاہور راتوں کو جاگ اور دن میں کاروبار زندگی چل رہا تھا! باقی ملک کا کیا حال ہو گا؟ پنجاب صوبے کا گورنر نواب آف کالا باغ تھا جس نے تمام تاجروں کو اپنے بلا کر کہہ دیا تھا کسی چیز کی کوئی کمی نہیں ہونے چاہئے! لہذا بازار کھلے تھے اوراشیاء خردونوش کی کوئی کمی نہیں تھی! اور پاکستان اُس وقت جنگ جیت گیا (یہ الگ بات ہے کئی کی رائے ہے کہ پاکستان وہ جنگ ہارا تھا!)
اب سوال یہ ہے کہ آج جب پاکستانی فوجیں حالت جنگ میں ہیں! جن علاقوں میں جنگ ہورہی ہے وہاں سے جان بچا کر بھاگنے والے ہم وطنوں کو وہ اپنے علاقوں میں قبول کرنے کو تیار نہیں جن کے نبی نے ہجرت کی، اور اُس نبی کے پیروکاروں نے ایک ہجرت کے بعد انصار و مہاجرین کی محبت کی عظیم داستانیں رقم کی اُس ملک کے باسی اپنے ہم وطنوں کی میزبانی سے انکاری ہے جن کی میزبانی ایک نئی مملکت کے شہریوں نے کی۔ اس بات ہر اختجاج کر رہے ہیں! ہرتال کر رہے ہیں! اپنے لوگوں کو مار رہے ہیں! اپنی املاک کو جلا رہے ہے! آپس میں نفرت کا بیج بو رہے ہیں! سیاست چمکا رہے ہیں! ملک میں لسانیت، عصبیت، فرقہ واریت، صوبائیت عروج پر ہے۔ ملک میں مرنے والوں کو یہ نہیں معلوم کہ اُن کا قاتل کون ہے؟ کیوں ہے؟ اس ملک میں جب پوری قوم کو ایک ہو جانا چاہئے! قوم منقسم ہے!
حکمرانوں کا یہ حال ہے کہ وہ بیرونی دوروں میں مصروف ہیں! وہ اہل بننے کے بجائے قرار دئے جانے پر جشن مناتے ہیں! وہ ملک کو بھیک میں قرضہ ملنے کو کامیابی بتاتے ہیں! وہ کروڑوں کا فائدہ بتا کا اربوں کا نقصان پنچاتے ہیں! وہ نجکاری کے نام پر ملکی املاک فروخت کرتے ہیں! وہ جدیدیت کے نام پر نظریات گروی رکھتے ہیں! وہ سفر کے نام پر عیاشی کرتے ہیں!
یہ معاملات امن میں ملکوں کو تباہ کر دیتے ہیں اور ہم تو حالت جنگ میں ہیں!
سوچیں!
یوم تکبیر پرکہ
آخر ان حالات میں اس ملک کا ہو گا کیا!!
5/21/2009
یہ حفاظت کو بنایا ہے
یہ اُس دور کی بات ہے جب ہم نے تازہ تازہ پی اے ایف انٹر کالج ملیر میں داخلہ لیا تھا! ہم اُن چند طالب علموں میں سے تھے جن کے والد فوجی میں نہیں تھے، کلاس فیلوز کی اکثریت فوجی پس منظر رکھتی تھی۔ ایسے ہی ایک دن گفتگو مختلف انداز میں جاری تھی، ہم اُس میں کوئی حصہ نہیں ڈال رہے تھے ساتھ بیٹھے دوست سے کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں سے متعلق خیالات کا تبادلہ کر رہے تھے۔
تب اتنے میں محفل کے دوسرے حصے میں ایک لڑکے نے اپنی علمیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ اگر ایک ٹینک کی رقم جو فوج اُس کی خریداری پر لگاتی ہے کو تعلیم پر خرچ کریں تو قریب تین سو افراد ماسٹر تک اپنی تعلیم مکمل کر لیں! اس ہی طرح اُس نے ایک کلاشنکوف سے لے کر ہوائی جہاز ااور ایک فوجی کی تنخواہ سے لے کر پوری بٹالین کے اخراجات کا موازنہ تعلیمی اخراجات تک کرتے ہوئے یہ باور کروانے کی ہر ممکن کوشش کی کہ اگر فوج نہ ہوتی تو ملک میں خواندگی کی شرح سو فیصد نہیں تو نوے فیصد ضرور ہوتی، ایٹم بم کا دھماکا اُس وقت نہیں کیا تھا پاکستان نے ورنہ اُس بارے میں بھی وہ کچھ نا کچھ روشنی ڈالتے جبکہ اُس کے والد خود افواج پاکستان کا حصہ تھے۔ ہم اپنی کرکٹ کی گفتگو چھوڑ کر اُس کی گفتگو سننے لگ پڑے تھے اپنے دلائل کے اختتام پر اُس نے داد طلب نگاہوں سے سب کی جانب دیکھا۔ ہم نے اُس سے جزوی اتفاق کیا کہ تعلیم قوم کے ہر فرد کے لئے ضروری ہے اور یہ سب سے بہترین دفاع ہے مگر یہ کہنا کہ فوج کا ہونا ناخوادگی کی وجہ ہے یا یہ کہ فوج کم کی جائے، اس سے ہمیں اختلاف ہے ہاں جس ملک کی عوام تعلیم یافتہ ہو جائے تو اُس ملک کی فوج بھی اُس پوزیشن میں آ جاتی ہے کہ معاشی لحاظ سے خود کمانے لگ پڑے۔ لیکن بہرحال ایسی قسم کی بحث کا جو انجام ہوتا ہے ہو ہی ہوا کہ نہ وہ میری بات کا قائل ہوا اور نہ مجھے اُس کا فلسفہ سمجھ میں آیا۔
اب جب کہ پاکستان ایٹمی قوت بن چکا ہے، جہاں قوم کا ایک بڑا حصہ ایٹمی قوت ہونے پر فخر کرتا ہے، اسے کارنامہ مانتے ہوئے مختلف شکلوں میں اس کا کریڈٹ اپنی اپنی جماعت کے سر ڈالتا ہے کوئی اپنے لیڈر کو اس کے شروع کرنے پر ہیرو بتاتا ہے اور کوئی اپنے لیڈر کو دھماکے کرنے کا فیصلہ کرنے کی بناء پر اُسے قوم کا مسیحا بتاتا ہے تو ایک طرف کئی ایسے احباب ہیں جو اسے ایک غلطی قرار دیتے ہیں! نہ صرف غلطی بتاتے ہیں بلکہ یہ دعٰوی بھی کرتے ہیں کہ یہ ایٹمی قوت ہونا ہی دراصل تمام مصیبتوں کی جڑ ہے، اس سلسلے میں ایسی ہی ایک کالمی بحث کا آغاز بزرگ کالم نگار حقانی صاحب نے اپنے کالم کے ذریعہ ہوا جناب نے اپنے فیصلے کو درست قرار دیا جس میں انہوں نے ایٹمی دھماکا کرنے کی مخالفت کی تھی، جواب میں مجید نظامی نے ایک کالم لکھ دیا۔
دشمن پر قابو پانے کے لئے ضروری ہوتا ہے اُس کی طاقت کو ختم کیا جائے! اُس کی جس قوت سے ڈر لگتا ہو اُس کو اُس سے جدا کرنے یا چھین لینے کو سہی کی جائے۔ اُسے اپنا محتاج بنانا ہو، اُسے اپنے رحم و کرم پر رکھنا ہو، اُسے فتح کرنا ہو، اُسے زیر کرنا ہو تو لازم ہے کہ اُسے اُس خصوصیت، اہلیت، قابلیت و ہنر سے محروم کر دیا جائے جس کی بنیاد پر ایسا کرنا دشوار و ناممکن ہو۔ آج ہمارا ایٹمی طاقت ہونا ہماری بقا کی کنجی ہے۔ اگر کبھی یہ شور اُٹھتا ہے کہ یہ “مذہبی انتہا پسندوں“ کے ہاتھ لگ سکتا ہے اس کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم ہمارے حوالے کر دو تو یہ وہ طاقت ختم کرنے کی ہی کوشش ہے، یہ جو خبر آتی ہے ناں کہ امریکی فوج کا ایک دستہ افغانستان پہنچ گیا ہے پاکستان کے ایٹمی پلانٹ پر قبصہ کرنے (یہ خبر فوسک بیوز نے چلائی تھی) یا کہ پاکستان امدادی رقم ایٹمی اسلحہ کی پیداوار پر خرچ کرے گا لہذا نظر رکھی جائے یہ وہ نفسیاتی حملہ ہیں جو کسی کو اپنے قابو میں لانے کے لئے کئے جاتے ہیں ورنہ سچ تو یہ ہے انہیں یہ بھی علم نہیں کہ کہ پاکستان کا ایٹمی پلان کیسے چل رہا ہے! کہاں کہاں ہے! کون سی یا کس قسم کی پروسیسنگ کہاں ہو رہی ہے، البتہ یہ اُن کے علم میں ہے کہ ہم نے اپنے ایٹمی پلانٹ کی موبائل یونٹیں بنا رکھی ہیں! اور مختلف کام مختلف مقامات پر ہوتے ہیں! لہذا اب اسے کسی بھی حملے سے تباہ اور فوجی کاروائی سے اپنے قبصہ میں نہیں لیا جا سکتا۔
شکر ہے ہم نے یہ بنا لیا اور ہمیں فخر ہے کہ ہم دنیا کا جدید ترین و سستا ترین طریقہ یورینیم کی افزائش کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ دشمن یہاں سے ہی ہماری طاقت کا اندازہ لگا چکا ہے اور وہ جانتا ہے ایٹم بم ہم نے اپنی حفاظت کے لئے بنایا ہے! اور ہم جانتے ہیں حفاظت کس طرح کی جاتی ہے!