7/19/2020
گورک ہل کا سفر
6/09/2015
بیہودہ غیر فرمائشی و بے ربط پوسٹ
فرمائش پر کچھ بھی نہیں ہو پاتا ہم سے بلکہ اب تو مزاج ایسا بد ہو چکا ہے کہ کوئی کام to do list میں ہو اور کوئی اسی کام کی فرمائش کر دے تو اسے کرنے کو دل نہیں چاہتا. کرنے بیٹھ جاؤ تو ہو نہیں پاتا. فرمائشی پوسٹ لکھا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن معلوم ہوتا ہے.
ہمارے ایک دوست کو زندگی میں دوسری بار محبت ہونے کا دھوکہ ہوا تو ہمارے پاس دوڑے دوڑے آئے کہنے لگے یار بچی بڑی ٹائیٹ ہے چھوڑنے کو دل نہیں کرتا اور بیوی بھی اچھی ہے بتا کیا کرو؟ ہم نے کہا انتظار کر. کہنے لگے کس بات کا؟ جواب دیا جب گود میں اپنی بچی آ جائے تو دماغ سے یہ معشوق بچی نکل جائے گی. پہلے مشکوک نظروں سے دیکھا پھر گالیاں دیتے ہوئے چلے گئے. آج کل بیوی و بچی کو سنبھال رہے ہیں. ایک. دن ملےتو کہنے لگے تیری زبان کالی ہے اس وقت اُن کی گود میں بچی تھی.
ہمارے ایک اور دوست نے جعلی فیس بک پروفائل لڑکی کے نام سے بنا رکھی تھی. کئی دوستوں کو ایڈ کر کے ان سے فلرٹ کر رہے تھے ساتھ میں شغل میں دوسرے کراچی کے رہائشی لڑکوں کو بھی پاگل بنا رہے تھے ایک ایک کر کے سب دوستوں سے بکرا بنانے کی ٹریٹ کھائی پھر دیگر لڑکوں پر بھی راز فاش کرنے لگے. اک دن دوسرے دوست نے بتایا کہ جناب نے ایک لڑکے کو یہ بتانے کو میں لڑکا ہوں لڑکی نہیں ایک ریسٹورنٹ میں بلایا تو معلوم ہوا سامنے سے آنے والا لڑکا دراصل اصل میں کوئی خاتون تھی جو لڑکیوں سے لڑکا بن کر فلرٹ کرتی ہے فیس بک پر! ہمارے دوست کی آئی ڈی تو ڈی ایکٹو ہو چکی اس بی بی کا معلوم نہیں. اس وقت دونوں میں سے کون بکرا بنا یہ فیصلہ کرنا ابھی بھی باقی ہے
اسکول کالج کے بچے و بچیاں رومانی کہانیاں و فلمیں دیکھ کر چاہے جانے کی خواہش میں مبتلا ہو جاتے ہیں. ایسے میں ان کے شرارتی دوست و سہیلیاں انہیں تنگ کرنے کو اس غلط فہمی میں مبتلا کردیتے ہیں کہ فلاں تمہیں عجیب نظروں سے دیکھتا ہے یوں یہ سلسلہ اس قدر آگے بڑھ جاتا ہے کہ وہ خود یہ خیال پال لیتے ہیں کہ محبت ہو گئی ہے. جبکہ یہ Love نہیں Lust ہوتا ہے. چاہے جانے کی خواہش کے زیراثر پیدا ہونے والی غلط فہمی ہوتی ہے.
پہلے پہلے تو ہم بھی اس معاملے سے نا سمجھ تھے مگر وکالت میں آنے کے بعد ایک تو پبلک ڈیلنگ کی بناء پر دوئم کورٹ میرج کے لئے آنے والے جوڑوں کے انٹرویو کرنے پر احساس ہوا کہ فلرٹ کرنے والا دوسرے کو ہی نہیں بلکہ خود کو بھی جھوٹی محبت کے دھوکے میں رکھتا ہے. اور وہ انتہائی قدم (بھاگ کر شادی) دراصل اپنی بےراہ روی کے غلطی پر پردہ ڈالنے کی وجہ سے کرتا ہے یا انا کی تسکین کے لیے کہ مسترد کئے جانے کا زخم اسے منظور نہیں ہوتا. معاشی طور پر کمزور مرد اس موقع پر واپسی کی طرف سفر شروع کر دیتے ہیں اور یوں کئی زندگیاں متاثر ہوتی ہیں.
صوفی شعراء نے عشق حقیقی کو عشق مجازی کی تمثیل سے سمجھایا. وقت گزرا جدید نئے دور میں وہ عشق مجازی کی تمثیل پردہ اسکرین پر نازیبا حرکات کرتے (گانوں) مرد و زن کے روپ میں نظر آنے لگی ہیں اب وہ کلام غلط تعبیر و تشریح کی بناء پر دوا نہیں زہر بن گیا ہے. گزرتے وقت کے ساتھ نئی نسل محبت کو بستر پر وقت گزارنے کا بہانہ سمجھ بیٹھی ہے.
میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں میچور و سمجھدار افراد خاص اساتذہ کو بالغ ہوتے بچوں کو اس سلسلے میں educate کرنے کی ضرورت ہے ورنہ اس عمر میں کی گئی غلطی ان کی شخصیت کو اس انداز میں متاثر کرتی ہے کہ وہ اپنے اردگرد مزید تباہی کا سبب بنتا ہے.
اب دیکھ لیں یہ پوسٹ بیہودہ و بے ربط تھی کہ نہیں؟ جب عنوان سے ظاہر تھا تو وقت برباد کرنے کی کیا ضرورت تھی. اتنا ہی فالتو کا وقت ہے تو تبصرے کر کے دل کی بھڑاس نکال لیں اب وقت تو برباد ہو ہی چکا. جس شیطان سے آپ کو تحریر پڑھنے پر مجبور کیا وہ ہی آپ کو تبصرے سے بھی روکے گا.
5/27/2015
جعلی ڈگری، سچی صحافت
دھوکہ و فراڈ ایک جرم ہے، جرم قابل سزا ہوتا ہے. ملزم کے مجرم بننے تک کے درمیانی سفر میں کئی ایسے مقام آتے ہیں جب اپنے و مخلص پہچانے جاتے ہیں. ہمارے ایک دوست کہا کرتے ہیں مجرم کو اس کے جرم کی سزا دلانا اس سے دوستی و محبت کی ایک شکل بھی ہو سکتی ہے اور اس کو بچا لینا اس سے دشمنی.
ہمارے ملک میں حرام کی کمائی سے حج کرنا ہی نہیں بلکہ اس پر زکوۃ و صدقہ دینے کا بھی عام رواج ہے. جو نوکری پیشہ حلال کمانے کے دعویدار ہیں ان میں سے بھی کئی میری طرح کے ہیں جو نوکری پر آدھ گھنٹہ لیٹ جاتے ہیں اور پونے گھنٹہ پہلے نکل لیتے ہیں کہ کام ختم ہو گیا اور سرکاری گھاتوں میں ہونے والی بے قاعدگیوں سے یوں لاتعلق ہوتے ہیں جیسے کہ گونگے، بہرے و اندھے ہوں جبکہ معلوم سب ہوتا ہے.
ہر مارکیٹ کے اپنے بنائے ہوئے چند اصول ہوتے ہیں جس سے انحراف جائز ہوتا ہے مگر اس بے اصولی کا اقرار نہیں کیا جاتا یہ مارکیٹ کا سب سے بڑا و اہم قانون ہوتا ہے.
اصلی یونیورسٹی اصلی ڈگریوں کے ساتھ ساتھ "دیگر" اسناد کا بھی اجراء کر دیں تو لینے والا مجرم ہوتا ہے مگر جعلی یونیورسٹی کی ڈگری دینے والا مجرم ہوتا ہے یہ ہی اصول ہے یہ ہی قانون. اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ خریدار خود بھی دونمبر مال کی تلاش میں تھا.
صحافت ایک نوبل پروفیشن ہے صحافی کے لئے، ان کے مالکان کے لئے یہ صنعت ہے. صنعت کوئی بھی ہو مقصد پیسہ بنانا ہوتا ہے. اس صنعت میں سب سے ذیادہ بکنے والی شے جھوٹ ہے. یہاں سچ نہ بولنے پر بھی پیسہ کمایا جاتا ہے بس مرضی کی قیمت لگ جائے. میڈیا مالک صحافی کی ضرورت کی بولی لگاتا ہے، بیچارا صحافی اپنی مجبوری کی قیمت پر بک جاتا ہے.
اگر حرام کی کمائی سے بنائی گئی مسجد میں نماز پڑھنے والے نمازیوں کی نماز کی قبولیت کے سوال کرنا درست نہیں اور نماز کی قبولیت پر شک نہیں تو آنے دیا جائے ایک ایسا میڈیا گروپ جس سے صحافی کی قیمت اس کی مجبوری و ضرورت کو دیکھ کر نہیں قابلیت کو دیکھ کر ادا کی گئی ہو تاکہ سچ بولنے کی قیمت لگے چھپانے کی نہیں، جھوٹ نہ بولنا اصول ٹھہرے قیمت نہیں. ہاں حرام کی کمائی کمانے والا یا قانون شکنی کرنے والے کا معاملہ الگ ہے.
ضمیر کی آواز پر لبیک کہنے کے دعویدار اصولوں کے کتنے بڑے سوداگر ہے ہم جانتے ہیں.
(یہ میری رائے ہے اختلاف آپ کا حق ہے)
5/19/2015
اردو + شوشل میڈیا سمٹ
قریب دو سال اور تین ماہ بعد پاکستان کے مختلف شہروں کے اردو بلاگرز آپس میں مل بیٹھیں جنوری 2013 کے آخری دنوں میں اردو بلاگرز لاہور میں مل بیٹھے تھے جبکہ اس بار میزبان کراچی کے اردو بلاگرز تھے مگر کراچی کے ہم بلاگرز نے اسے شوشل میڈیا سمٹ بنا دیا جو کئی اردو بلاگرز کے لئے وجہ شکایت بنا مگر سمٹ کے بعد.
سوال اٹھائے جاتے ہیں یہ ہی سوچنے کا حق ہے کہ ہر معاملے کا باریک بینی سے جائزہ لے ایسے میں خدشات و اعتراضات بھی سامنے آتے ہیں مگر چند اعترازات کا جواب بس یہ ہوتا ہے کہ بندہ انہیں بے بنیاد قرار دے دے تاوقتکہ ان کے درست ہونے کی شہادت مثل پر موجود نہ ہو۔
میں نے خود نے گزشتہ کانفرنس کے متعلق جب لکھا تو اٹھنے والے خدشات سے متعلق یہ کہا تھا کہ جس کا جو مفاد ہو اُسے عزیز ہمیں تو ملاقات کا ایک عمدہ بہانہ مل گیا ساتھ میں اختتام ان الفاظ پر کیا تھا
! سو باتوں کی ایک بات اردو بلاگر پھر اردو بلاگر ہے جو اپنی دنیا آپ بناتے ہیں وہ اپنی قیمت نہیں لگاتے کیوں کہ وہ جانتے ہیں ہمارے انمول ہونے کی ایک نشانی یہ ہے کہ ہم اردو بلاگر ہیں! کوئی لاکھ کوشش کرے مگر ہم رضیہ نہیں ہیں بلکہ کچھ کے لئے “بلا” ہیں جو سچ کہنے کا “گُر” جانتے ہیں!!
باقی آپ سمجھ دار ہیں !!!
اس سمٹ سے مجھے ایک دلچسپ مشاہدہ ہوا کہ جس طرح میرے جیسے اردو میڈیم والے انگریزی زبان سے جھجک محسوس کرتے ہیں اس ہی طرح ایک مخصوص تعداد میں انگریزی میڈیم والے اردو زبان سے خوف محسوس کرتے ہیں۔ انگریزی میڈیم اسکول کے فارغ و تحصیل انگلش بلاگرز صاف اردو بولنے کی ناکامی کی وجہ سے سمٹ میں پریزنٹیشن سے انکاری ہوتے رہے، اگرچہ متعلقہ موضوع پر انہیں کافی عبور حاصل تھا بلکل ایسے جس طرح اچھی کارکردگی دیکھانے کے بعد کھلاڑی مین آف دی میچ نہ بننے کی دعا کرتا ہے۔
سمٹ والا دن کافی ہنگامہ خیز تھا یہ ہمارا سمٹ والے دن خیال تھا مگر بعد میں معلوم ہوا ہنگامہ توابھی باقی ہے ۔ انسان خطا کا پتلا ہے غلطیاں ہوئی ہیں اور پہلی بار تھی ہونا بنتی بھی تھیں انہیں نوٹ کریں تاکہ آئندہ نہ ہوں لڑائی یا طنز نہیں۔ سوال اٹھانے اور طنز کرنے میں بڑا فرق ہے. جب طنز کرتے ہوئے یا طنز کرنے کے بعد سوال اٹھائے جاتے ہیں تو یہ خیال کیا جاتا ہے کہ سوال کا مقصد تنگ کرنا لہذا خاموشی ہی بہترین جواب ہے.
اس سمٹ سے کیا فائدہ ہوا؟ اس کا مقصد کیا تھا؟ کچھ فوائد فوری ہوتے ہیں اور کچھ کافی عرصے کے بعد سامنے آتے ہیں. ایسے فوائد جو دیر سے حاصل ہونے ہوں ان کے لئے ایک خاص قسم کے فالو اپ کی ضرورت ہوتی ہے خدا کرے ہم اس کے لیے مطلوبہ اقدامات کر سکیں.
اہم بات یہ کہ روایتی میڈیا نے تسلیم کیا سوشل میڈیا ایک بڑا میڈیم ہے، نیز یہ کہ وہ تو روزی روٹی کما رہے ہیں اصل حق گوئی تو صرف سوشل میڈیا پر ہی ممکن ہے. بڑے اداروں میں مالکان کی دی گئی لائن پر کام کرنا ہوتا ہے اور جبکہ سوشل میڈیا پر دل و ضمیر کی. یہ بھی کہ روایتی میڈیا کے سو سال پر سوشل میڈیا کا ایک دن بھاری ہے.
ہم اردو بلاگرز کو اپنا حلقہ احباب بڑھانا ہو گا اپنے کنویں سے باہر جانا ہو گا. اب سے پہلے میرا یہ خیال تھا اردو بلاگرز خودنمائی نہیں چاہتے مگر معلوم ہوتا ہے ایسا کوئی جذبہ ہم میں موجود ہے. جہد مسلسل ہمیں خود ہی نمایاں کر دے گی بس سفر جاری رہنا چاہئے اور ایک دوسرے سے منسلک.
4/09/2013
اظہار رائے کو پابند کرنے کی آزادی
نہ معلوم ہم کب آزاد ہو گے! اپنے ملک میں ہم یوں غلام ہیں کہ بعض دفعہ احساس ہوتا ہے کہ آزادی کی ایک جدوجہد اور درکار ہے ابھی!
3/24/2013
اردو بلاگرز ہینگ آؤٹ
2/05/2013
سنسرسپ اور خاموشی!!
تخلیق کا کتنا تعلق سنسر شپ سے ہے؟ کیا سنسرشپ کسی عمدہ نظم، غزل، شعر، افسانے، کہانی، مضمون، گیت، تصویر، یا فنون لطیفہ کیسی اور شکل کی تخلیق کو وجود میں آنے سے روک سکتی ہے؟ میرا نہیں خیال ایسا ممکن ہو!
پابندی اظہار! اظہار کو تخلیق ہونے سے نہیں روک سکتی۔اظہار شکل بدل کر دوسرے راستے سے سامنے آ جاتا ہے! زبان پر پہرے سوچ کو پابند نہیں کرسکتے۔
ہاں اگر کوئی خود سے اپنے گرد ایک دائرہ بنا لے تو ممکن ہے کہ اُس کی تخلیق کی طاقت پرواز کی قوت سے محروم ہو جائے اور وہ کوئیں کا مینڈک ہو کر رہ جائے! مگر حکومت و معاشرے جب اظہار پر پابندی لگاتے ہیں تو تخلیق اہل سمجھ کو وہ دھچکا دیتی ہے جو سیدھی بات بھی نہیں دے سکتی.
2/02/2013
اردو بلاگر پھر اردو بلاگر ہے!!
یہ کانفرنس ایشین کینڈین جرنلسٹس ایسوسی ایشن (ACJA) کے صدر محسن عباس صاحب نے کروائی تھی! یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ جنوری کی 26 اور 27 کو یہ کانفرنس منعقد ہوئی اور ٹھیک جب تمام اردو بلاگرز اپنے گھروں کو پہنچے ایشین کینڈین جرنلسٹس ایسوسی ایشن (ACJA) کی ویب سائیٹ انٹرنیٹ کی دنیا سے غائب ہو گئی!! البتہ ڈائیورسٹی رپورٹر یہ صفحہ ایشین کینڈین جرنلسٹس ایسوسی ایشن (ACJA) کے لئے مختص ہے!
اس کانفرنس یا اجتماع میں ہماری ملاقات چند عمدہ دوستوں سے ہوئی! اردو بلاگر جتنا نیٹ پر بے باک ہے اتنا ہی محفل میں ہو سکتا ہے یہ تاثر مکمل طور پر سچ نہ ثابت ہوا! م بلال م جتنی عمدہ اردو لکھتا ہے اتنا ہی اعلی بندہ ہے، نہایت مخلص و سادہ! مگر لہجہ میری طرح دیسی ہے! لاہور دیس میں بسے پردیسی صاحب لاہوریوں کی طرح بڑی دل اور عمدہ اخلاق والے بندے ہیں۔ شاکر عزیز کی شخصیت اُس کے بلاگ سے مختلف سنجیدہ لکھنے والا یہ شخص بظاہر نہایت ہنس مکھ بندہ ہیں، اس کی جھگتیں اس کے فیصلا آبادی ہونے کی دلیل دیتی ہیں! فیصل آباد سے دوسری آنے والی شخصیت جناب مصطفےٰ ملک تھے ہم ابتدا میں اُن کے سامنے ایسے پیش آنے کی کوشش کرتے رہے جیسے بچے بڑوں کے سامنے دبے دبے رہتے ہیں مگر وہ تو ہم سے ذیادہ زندہ دل و جواں نکلے! پھر کیا محفل لگی ہو گی آپ کو اندازہ ہوگا!! جس بندے کی شخصیت نے مجھے سب سے ذیادہ متاثر کیا وہ ریاض صاحب کی شخصیت تھی جسے گفتگو کا سلیقہ آتا ہے، دلیل سے بات دل میں اُتارنی آتی ہے۔ جو دوسرے کو سُن کر سمجھنا جانتا ہے! فخر نوید کے کیا کہنے بندہ اُس کی صحبت کو بھول نہیں سکتا یہ شخص واقعی ایسا ہے جس پر فخر کیا جا سکے اس سے دوستی کسی نوید سے کم نہیں۔ خرم ابن شبیر!!! کیا بات ہے اس بندے ہیں دل کا صاف آدمی اور محبت کرنے والا۔ کانفرنس میں موجود تین پپو بچو میں سے ایک یہ تھا باقی دو تو میں ایک نو وارد نعیم خان جن کا تعلق سوات سے ہے مگر رہتے وہ پشاور میں ہیں!اور دوسرے حسن معراج ڈان نیوز کے “خوب است خوب است” کرتے پائے گئے۔ زھیر چوھان ممکن ہے کئی دوستوں کو شرمیلا لگا ہو مگر یہ بندہ جس انداز میں مجھ سے آکر ملا دل باغ باغ ہو گیا! لگا ہی نہیں کہ پہلے ملاقات ہے یوں لگا جیسے ہم کئی بار مل چلے ہیں! حیرت تو مجھے محمد سعد سے پر ہوئی نیٹ پر جتنی بے تکلفی سے بات کرتا ہے اتنا ہے تعارف کروانے سے اجتناب کرتا محسوس ہوا ابتدا میں۔ بنیادی طور پر یہ بندہ ریکٹ لیٹ کرتا ہے جیسے ربورٹ نہیں کرتے! ویسے “مولبی ربورٹ” کہہ لیں! مجموعی طور پر ایک اچھے اخلاق کا مالک! عباس میاں کے کیا کہنے ایک دن ہی ہمارے ساتھ رہے مگر اپنی شخصیت کا اثر چھوڑ گئے اور جاتے جاتے اپنے دوستوں عبدالستاراور عاطف مرزا کو بھی لے گئے!!! راجہ اکرام یہ مکمل پاکستانی کسی بھی قسم کے خوف اور پریشانی سے پاک نظر آنے والا!! سادہ۔ ساجد امجد ساجد سے مل کر بھی اچھا لگا اور اُن سے ہمیں جو شکایتیں اردو وکیپیڈیا سے تھی یا ہیں بیان کر دیں۔ اس کے علاوہ مذثر لندی کوتل سے، جن کا لندی کوتل سے ہونا دوستو کے چہرے پر پر مسکراہت کی وجہ بنا اور محترم مسرت اللہ جان پشاور سے تھے ایک کھلے دل کے!! اور فرحت عباس شاہ صاحب کے بارے کون نہیں جانتا! خادم اعلی کے لئے نادم اعلی کا اصلاح استعمال کرنے والا کتنا بے باک بندہ ہو گا !مہتاب عزیز بھی اسلام آباد سے آنے والا ایک نہایت اچھا انسان ہے۔
آخر میں محسن صاحب جو اس کانفرنس کے اسپانسر بھی تھے اور میرے آبائی شہر لاہور کے!!
کانفرنس اردو بلاگرز کے لئے مجموعی طور پر اچھی رہی ہے اگر کسی کے اپنے مقاصد ہو تو ہوں مگر اردو بلاگرز کے مفاد میں جو اچھا ہو گا ہم اُسے اچھا کہیں گے! یہ کانفرنس اتنی اہم تھی کہ اس کے مخالف بھی اس میں خود کو اس میں شرکت سے نہ روک سکے! سو باتوں کی ایک بات اردو بلاگر پھر اردو بلاگر ہے جو اہنی دنیا آپ بناتے ہیں وہ اپنی قیمت نہیں لگاتے کیوں کہ وہ جانتے ہیں ہمارے انمول ہونے کی ایک نشانی یہ ہے کہ ہم اردو بلاگر ہیں! کوئی لاکھ کوشش کرے مگر ہم رضیہ نہیں ہیں بلکہ کچھ کے لئے “بلا” ہیں جو سچ کہنے کا “گُر” جانتے ہیں!!
باقی آپ سمجھ دار ہیں !!!
پہلے دن کی کاروائی کی کچھ ویڈیو جھلکیاں یہاں موجود ہیں!
2/19/2012
بے تکی باتوں کو چھ سال ہوئے!
تب سے اب تک چھ سال ہو گئے بلاگنگ کے۔ اب چھ سالوں میں پانچ سو سے اوپر تحریریں لکھی جن پر قریب دو ہزار تبصرے ہوئے جن میں سے ساٹھ کے قریب تبصرے ہم نے سنسر کئے ۔
اکثر دوست اب بھی پوچھتے ہیں کہ بلاگ کا نام بے طقی کیوں ہے وجہ ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں آپ دوبارہ پڑھ لیں اور جس قدر تھوڑی بہت ہمیں انگریزی آتی ہے ہم نے یہ ہی جان پائے ہیں کہ Pensive کا مطلب سنجیدہ و گہری و اُداس سوچ و خیال ہوتا ہے اس مناسبت سے Pensive Man سے مراد ایک فکر میں ڈوبا ہوا فرد ہونا چاہئے۔
اس عرصہ میں ایک بار ہم بلاگ اسپاٹ سے ورڈ پریس کی طرف گئے اور اپنا کافی سارا ڈیٹا ضائع کر کے پھر بلاگ اسپاٹ کی طرف لوٹ آئے اور اب اس ہی کے ہو کر رہ گئے ہیں۔
اس عرصہ میں کئی ساتھی بلاگر نہایت عمدہ انداز تحریر و خیالات کے ہمراہ اردو بلاگنگ کا حصہ بنے اور غائب ہوئے۔ اس ہی سفر کی یادوں پر مشتمل “اردو بلاگرز” سے متعلق سوال جواب کا سلسلہ فیس بک کے اردو بلاگرز گروپ میں شروع کیا گیا ہے کیا بھی اس کھیل میں شریک ہو سکتے ہیں۔
2/02/2012
Have a nice Date
ہماری با حیثیت مجموعی کچھ ایسی عادت بن گئی ہے کہ ہم عمل کی مخالفت نہیں کرتے بلکہ فرد کے دشمن ہو جاتے ہیں۔ معاشرتی طور پر کچھ ایسا مزاج بنا چکے ہیں کہ کسی کو غلط سے روکنے کے لئے غلط رستے کا انتخاب کرتے ہیں یا شاید ہم جو کرنا چاہتے ہیں وہ ظاہر نہیں کرتے۔
جب ہم ایل ایل بی میں پڑھتے تھے تو ایس ایم لاء کالج کے قریب ہی جیو چینل کا دفتر کھلا، اُن کے چند ایک پروگرام کی ریکارڈنگ وہاں ہوتی تھی، ہم ایک دو پروگرام کی ریکارڈنگ میں بطور ناظرین جاتے ان میں ایک پروگرام تھا “اُلجھن سلُجھن” عوامی مسائل پر گفتگو ہوتی تھی، ایک مرتبہ گئے تو ٹرک ڈرائیوروں کے “دلبروں” کی بات ہو رہی تھی۔ یہ ٹاپت نہایت واہیات لگا لہذا واپس کالج چلے گئے ایک مرتبہ پھر گئے تو خواتین کی آپسی کشش سے پیدا ہونے والے ممکنہ مسائل پر روشنی ڈالی جا رہی تھی گفتگو سن کر ہتھیلی تک میں پسینہ آ گیا جبکہ اسٹو دیو فل ایسی تھا۔ ٹاک شو میں ایسے ٹاپک پر ہونے والی گفتگو پر ہم نے جانے سے توبہ کر لی۔
جب کبھی ایسے افراد سے جو میڈیا میں ان ٹاپک پر بات کرتے سے بات ہوت کہ کیا ایسے پروگرام ہونے چاہئے یا یہ کہ ان ٹائمنگ میں ٹی وی پر چلنے چاہئے جس میں چلتے ہیں تو وہ بہت زور دار انداز میں اس کی حمایت کرتے اور انوکھا جواب یہ ہوتا کہ جب ہم نے اس مسئلے پر کام شروع کیا تو مولویوں نے بہت شور کیا ہمیں بہت مشکل پیش آئی مگر اب تو لوگوں میں “شعور” آ گیا ہے۔ میں اس argument سے کبھی بھی مطمئین نہیں ہوا۔
ان تمام باتوں کے باوجود ہمیں کبھی اُن افراد سے ذاتی نفرت نہیں ہوئی میرے چند ایک دوست (جو جانتے ہیں) حیران ہوتے ہیں کہ میری حلقہ احباب میں چند ایک ایسے افراد بھی رہے ہیں اور اب بھی ہیں جو ایسی سرگرمیوں میں مبتلا ہیں جو معاشرتی و اخلاقی اعتبار سے درست نہیں اور میرا اُن سے تعلق اُس وقت تک رہا جب تک کہ انہوں نے مجھے اُن عمل میں شریک کرنے کی کوشش نہ کی جب دعوت گناہ ہوا جو یا تو دعوت واپس لی گئی یا تعلق اختتام کو پہنچا۔ مگر کبھی کسی محفل میں ملاقات ہوئی تو ہیلو ہائے کر لی۔ اس بات پر ہم خود کو منافق بھی کہتے ہیں۔
بین الاقوامی سطح پر یار لوگ International Covenant on Civil and Political Rights کی دفعہ 17 کا حوالہ دیتے ہے جو کچھ یوں ہے:
یوں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پرائیویسی کسی فرد کی زندگی کے وہ پہلو و تعلقات ہیں جو وہ نہ صرف عوام کی نظروں سے چھپا کر رکھنا چاہتا ہے بلکہ جس میں مداخلت اُس فرد کو قبول نہیں۔ اسے ایک بنیادی حق تسلیم کیا جا چکا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ پہلوو تعلقات جو کوئی فرد عوام سے چھپا کر رکھنا چاہتا ہے کیا عوام کے درمیان یا عوامی مقامات پر ظاہر کرے گا خواہ اُس کی کوئی بھی صورت ہو؟ ممکنہ جواب ہاں نہیں ہوسکتا مگر مباحث میں یہ ایک متنازعہ موضوع رہا ہے اور ممکن رہے مگر اکثریت مقامات پر جواب باں نہیں ہوتا، اگر مگر کے ساتھ چند احباب اسے ہاں کہہ دیتے ہیں۔
چار دیواری کے اندر ہونے والی حرکات تسلیم شدہ طور پر پرائیویسی کے ذمرہ میں آتی ہے اخلاقی، مذہبی، قانونی اور معاشرتی طور پر اسے تسلیم کیا جا چکا ہے۔ ملکی آئین کی دفعہ 14 اس ضمن میں قابل توجہ ہے۔
اس ہی لئے جب پولیس کسی چاردیواری کے اندر سے “جوڑے” پکڑ کر ایف آئی آر کاٹتی ہے تو آغاز ایف آئی آر میں گھر میں داخل ہونے کی وجہ اُس عمارت میں مفرور ملزم کے موجود ہونا قرار دیتی ہے۔ مذہبی نقطہ نظر سے گھر کی چار دیواری میں کسی کی پرائیویسی میں دخل اندازی کی ممانعت کو سمجھنے کے لئے حضرت عمر کا وہ واقعہ ہی کافی میں جس میں رات کے پہر میں ایک گھر سے اس لئے معذرت کر کے باہر نکل گئے کہ اُن کا گھر کی چار دیواری میں تجسس کے زیر اثر بلا اجازت داخل ہونا غلط تھا جبکہ صاحب مکان کے پاس اُس وقت شراب و شباب موجود تھا۔
مایا خان پر ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ انہیں یوں اپنی ممکنہ اپنی اخلاقی اقدار کی تبلیغ کرنے کا اختیار نہیں یا نافذ کرنے کا۔ تبلیغ تو انسان کی فطرت بھی ہے اور بلا شک و شبہ جز ایمان بھی اور جن نظریات و اقدار کو آپ حق تسلیم کرتے ہو وہ خود با خود آپ پر لاگو ہو جاتی ہے۔ تبلیغ فطرت یوں ہے کہ اگر میں کہو کہ آپ اپنی اخلاقی اقدار کسی پر لاگو نہیں کو سکتے تو بنیادی طور پر میں اپنی اخلاقی اقدار کی تبلیغ کر رہا ہو اور چاہتا ہون کہ آپ اس” اخلاقی” اصول کو خود پر لاگو کریں۔
اس پورے معاملے میں ایک عنصر ایسا ہے تو قابل گرفت ہے اور وہ یہ کہ آیا کسی فریق کی عزت نفس مجروح ہوئی ہے؟ اگر ہاں تو مایا خان اس سلسلے مین قابل گرفت ہو گی مگر اس کا فیصلہ کرنے کا اختیار ملکی عدالت کے پاس ہے عدالت کا دروازہ متاثرہ فریق ہی کھٹکا سکتا ہے آپ یا میں نہیں!
آخری بات یہ کہ اگر آپ چار دیواری میں اپنے پریمی کے ساتھ وقت گزارنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو ہم آپ کو کہیں گے “Have a nice Date”.
1/27/2012
اللہ جانے کون بشر ہے؟
یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جیت حق و سچ کی ہوتی ہے مگر تاریخ بتاتی ہے کئی بار باطل کی حکمرانی کئی تہذییوں و نسلوں کو برداشت کرنی پڑتی ہے اور جب تک حق سچ کا پلڑا بھاری ہوتا ہے آبادی میں موجود بہروپئے ایک مخصوص تعداد کو گمراہ کر کے یہ باور کروا چکے ہوتے ہیں کہ دراصل باطل ہی حق ہے۔
یہ ہی تباہی کا نقطہ عروج کہ ایک گروہ گمراہی کی اُس نہج پر ہو کہ خود کو درست جان کر باطل کی کامیابی کے لئے ایک مخلص جدوجہد کرے۔
1/25/2012
فیس بک کا like بٹن
آج جب ہم حقیقی زندگی کے ساتھ ساتھ virtual زندگی کے بھی باسی ہو چکے ہیں اور سوشل میڈیا کی قید میں یوں جکڑے جا چکے ہیں کہ اپنی ہر بات یا حرکت یا احساس و خبر اپنے سوشل میڈیا کی نیٹ ورک پر share کرتے ہیں ایسے میں اس سوشل میڈیا کا ایک بڑا کردار فیس بک یا کتاب چہرہ ہے۔
فیس بک والوں نے کسی کے اسٹیٹس پر تبصرہ کرنی کی سہولت کے ساتھ ساتھ اُسے پسند کرنے کو اپنے صارف کو like کرنے کی سہولت بھی دی ہے مگر dislike کرنے کا کوئی طریقہ نہیں رکھا، آپ unlike کر سکتے ہیں مگر like کرنے کے بعد۔
کئی احباب اس سہولت کا بہت عجیب استعمال کرے ہیں میری سمجھ سے باہر ہے کہ کسی افسوس ناک خبر یا اطلاع کو یار دوست کیوں like کرتے ہیں؟ یقین جانے دل کو ایک ضرب سی لگتی ہے اس عمل سے۔
1/14/2012
نشان زدہ
سوال نمبر 1- ۲۰۱۲ میں کیا خاص یا نیا کرنا چاہتے ہیں؟
وہ سب کچھ جو گزشتہ سال کرنا چاہتا تھا مگر کچھ حالات و واقعات و مجبوریوں کی بناء پر نہیں کرسکا۔
سوال نمبر 2- ۲۰۱۲ میں کس واقعے کا انتظار ہے؟
ایسا کچھ نہیں جس کا انتظار ہو مگر یہ دعا ضرور ہی کچھ بُرا نہ ہو۔
سوال نمبر 3- ۲۰۱۱ میں کوئی کامیابی ؟
زندگی آگے بڑھ رہی ہے اور جہاں چند خواہشات حسرت کا روپ دھار لیتی ہیں وہاں ہی کئی خواہشات و تمنائیں پوری ہو جاتی ہیں مگر گزشتہ برس ایسی کو کئی کامیابیاں تھی جن پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں مگر یہاں بیان کرنا درست معلوم نہیں ہوتا۔
سوال نمبر 4- سال ۲۰۱۱ کی کوئی ناکامی ؟
جو ہوتا ہے اچھے کے لئے ہوتا ہے اور جو اچھے کے لئے ہو وہ ناکامی نہیں ہوتی۔
سوال نمبر 5- سال ۲۰۱۱ کی کوئی ایسی بات جو بہت دلچسپ اور یادگار ہو؟
ناقابل بیاں
سوال نمبر 6- سال کے شروع میں کیسا محسوس کر رہے ہیں؟
ایک لفظ میں!!! بُرا۔ سال کا آغاز اچھا نہیں رہا پہلے ماہ کے پہلے عشرے میں اوپر نیچے دو تین بُرے واقعات و حادثات سے دوچار ہونا پڑا!
سوال نمبر 7- کوئی چیز یا کام جو ۲۰۱۲ میں سیکھنا چاہتے ہیں؟
“اللہ کی رضا میں راضی ہونا”
تو جی جناب اب ہم کس کس کو اس کھیل میں شامل کریں؟؟ چلیں جناب بلال میاں،محترم شاکر عزیز، محترم عمیر ملک،محترم فہد میاں، عدنان مسعود اور راشد کامران!!!! بات روایت کی ہے اردو بلاگرز کی روایت۔
12/27/2011
انٹرویو !!!
کم بخت جتنے فائنل انٹرویو ہم نے نوکری کے لئے دیئے سب میں فیل ہوئے!! اول اول ہم فوجیوں کے ہاتھ لگے ہوا یوں کہ پی ایف کالج میں پاکستان فضائیہ والوں کی ٹیم آئی انہوں نے فضائی فوج سے متعلق ایک معلوماتی لیکچر دیا پھر طالب علموں کو پاک فورس کی طرف راغب کرنے کو پریزینٹیشن دی اور بعد میں چند ایک کا ٹیسٹ لیا! نتیجہ چند ایک طالب علموں کو بتایا آپ بارہ جماعتیں پڑھ لینے کے بعد کس پوسٹ کے لئے قسمت آزمائی کرنا!! ہمیں کہا کہ Aeronautical engineer کے لئے جانا!! ہم گئے ISSB کے بعد ہمیں منہ ہی نہیں لگایا!! وجہ ذومعنی سوچ!!!
پھر جب کریجویشن میں تھے پی آئی اے میں flight steward کے لئے اپلائی کیا تو فائنل انٹرویو میں دیسی لہجے میں ولایتی زبان بولنے اور رنگ سانولا ہونے کی وجہ سے انہوں نے بھی چونی اٹھوا دی!!!
جب ہم قانون کے طالب علم تھے تو پولیس میں ASI کی نوکری کے لئے اپلائی کیا!! وہاں بھی فائنل انٹرویو میں کامیابی نہ مل سکی!!
آج کل سرکاری وکیل کے لئے انٹرویو دیا ہوا ہے امید ہے سابقہ ریکارڈ نہیں توڑ پاؤں گا!! اس کے علاوہ ایک اور بار جج کے لئے اپلائی کیا تھا مگر تحریری امتحان میں ہی فیل ہو گیا!!! اب تک یہ پانچ جگہیں ہی ایسی ہے جہاں ہم نوکر ہونے گئے مگر ناکام رہے اوریوں تین میں انٹرویو میں اور ایک بار تحریری امتحان میں نامراد لوئے!!! ایک کا ابھی انتظار ہے!!! اس کے علاوہ ہم نے جب بھی انٹرویو دیا کامیاب ہوئے!!دو تین مرتبہ انٹرویو میں کامیاب ہونے کے باوجود اس لئے نوکری جو تنخواہ وہ دے رہے تھے وہ کم تھی یا جانے والوں کی طرف سے ہمیں یہ باور کروایا کہ اس انٹرویوں میں کامیابی اُن کے مرہون منت ہوئی ہے۔
میز کے اُس طرف انٹرویو دینے کے ایسے تجربے سے ہم اب تک گھبراتے ہیں!!! مگر گزشتہ دنوں ہم میز کی دوسری طرف جا بیٹھے یعنی انٹرویو لینے والوں میں!!! وہ بھی صنف نازک یعنی خواتین کا!! جو ایک الگ کی تجربہ تھا!!!تین ناکام انٹرویوز میں فیل ہونے کے بعد انٹرویو کرنے کا تجربہ درحقیقت نہایت انوکھا تھا!! انٹرویو والے پینل میں شامل دیگر دونوں احباب ہمارے استاد تھا!!ایک سابقہ وفاقی وزیر قانون پروفیسر شاہدہ جمیل اور دوسرے سابقہ جنرل سکرٹیری کراچی بار ایسوسی ایشن و موجودہ ممبر سندھ بار کونسل محترم ندیم قریشی (میں نے اپنی وکالت کا آغاز ان ہی کے چیمبر سے کیا تھا) اُن کے ساتھ یوں بیٹھنا جہاں ایک اعزاز تھا وہاں اُن کے تجربوں سے مجھے اپنی کی گئی تمام غلطیوں کا ادراک بھی ہوا!
باقی لوگوں کو پرکھنا جتنا آسان لگتا ہے اُتنا ہے نہیں امتحان لینے والا انتخاب کے وقت خود ایک امتحان میں ہوتا ہے، بہت مشکل ہے یہ امتحان جب ایسے افراد بھی آپ کو پرکھنے ہو جو کہ آپ کے جاننے والوں میں شامل ہوں! تعلق بد دیانتی و نا انصافی کی طرف مائل کرتی ہے تب دراصل دوسروں کو پرکھنے کے بجائے منصف خود کو پرکھنے لگتا ہے !!! یہ بات تجربے سے معلوم ہوئے!! اور اپنی نظروں میں کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ انصاف ہو۔
11/26/2011
مانگ ووٹ کہ تجھے ووٹ ڈالو
بلاگ ایوارڈ میں کل 33 زمروں میں 350 بلاگ نامزد ہوئے ہیں۔ بہترین اردو بلاگ میں 16 اور اردو زبان کے بہترین استعمال میں 3 بلاگ۔ اس کے علاوہ 2 اردو بلاگ عمدہ مزاح کے زمرے میں اور ایک اردو بلاگ سیاسی بلاگ کے ذ مرے میں شامل ہے۔ یوں کل 22 اردو بلاگ مقابلے میں شامل 350 بلاگ میں موجود ہیں۔ جو کہ 6 انگریزی بلاگ کے مقابلے میں ایک اردو بلاگ کے بنتی ہے۔ اردو بلاگ کے ووٹ مانگنے کء لئے انگریزی زبان کا بینر دستیاب ہے۔
کچھ ایسے ذمرے تھے جن میں مزید اردو دنیا کا حصہ ہو سکتا تھا جیسے بہترین بلاگ ایگریگیٹر میں اردو سیارہ، ماروائی فیڈ ، اردو بلاگرز اور اردو کے سب رنگ شامل ہو سکتے تھے۔
اسی طرح چند ایک
ہم قریب سب ہی اردو بلاگرز کو میرٹ پر ووٹ دے چکے جو مقابلے میں ہیں۔ مگر اگر بھی بھی کوئی یہ خیال کرے کہ وہ رہ گیا ہو شاید تو ضرور آگاہ کر دے۔ ہم نے انگریزی بلاگ کو بھی ووٹ کیا ہے کیا آپ کی پسند کا بلاگ مقابلے میں ہے؟ اگر ہاں تو ضرور ووٹ مانگے۔
وہ احباب جو مقابلے میں نامزد ہیں ووٹ مانگنے میں شرم محسوس نہ کریں کیونکہ اہل دانش کا کہنا ہے ووٹ مانگنے اور بھیک مانگنے کے اصول و قواعد ایک سے ہے۔ یعنی کہ ہر کسی سے مانگو، ہر وقت مانگو، ہر طرح سے مانگو اور بار بار مانگو۔۔
11/16/2011
ابے تو بھی بڑا “زرداری” ہے
گزشتہ چند ماہ سے بلکہ یوں کہہ لیں ڈھائی سال سے موبائل پر اسپیم ایس ایم ایس آتے ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ابتدا ہفتہ مین ایک دو ایس ایم ایس سے ہوئی مگر اب تو روزانہ درجن بھر آنے لگ گئے ہیں۔ اول اول تو ہم اس قدر اس سے بیزار نہیں تھے مگر اب دیکھ کر غصہ چھڑ جاتا ہے اگر ہم مصروف ہوں۔
آج کل ہمارے (وکلاء) کے الیکشن ہو رہے ہیں سپریم کورٹ کے الیکشن میں تو ہمیں تنگ نہیں کیا گیا تھا کہ ہم اُس مقابلہ میں ہماری ضرورت نہیں تھی وجہ صاف ہے ہم سپریم کورٹ کے وکیل تو نہیں ہیں ناں اب تک ! مگر ہائی کورٹ اور ضلعی عدالتوں کی الیکشن میں تو بذریعہ ایس ایم ایس ووٹ مانگنے والوں نے مت مار دی ہے، وہ الگ بات ہے ان ایس ایم ایس میں بھیجے جانے والے اقوال نہایے عمدہ ہوتے ہیں۔ اپنے وکلاء کے الیکشن تک تو بات ٹھیک تھی مگر نامعلوم کس نے ہمارا فون نمبر پریس کلب کراچی اور آرٹ کونسل والوں کو دے دیا؟ ممبر نہ ہونے کے باوجود وہاں سے الیکشن لڑنے والوں کے ووٹ کی درخواست کے ایس ایم ایس آتے ہیں اُن کے الیکشن کے دنوں میں۔
پہلے پہل آنے والے پیغامات میں کراچی میں فروخت ہونے والے مکان، فلیٹ،دفتر، گاڑی، کار، موٹر سائیکل اور دیگر قابل فروخت اشیاء کےنقد و آسان اقساظ پر دستیابی کے پیغامات آتے تھے۔ مگر اب زیر تعمیر مسجد و مدرسے کے چندے، یتیم بچیوں کی شادی میں مدد، استخارہ کرنے والے کا پتہ، رشتوں کی تلاش، ٹیوٹر (ٹیوشن سینٹر) کی دستیابی، پرائیویٹ اسکولوں و سینٹروں میں ڈاخلے کا اعلانات، پلمبر، مستری، رنگ والا، موٹر مکینک و بورنگ والے کی دستیابی بمعہ موبائل نمبر، ریسٹورینٹ و ہوٹل کا پتہ بمعہ مینو بلکہ یہاں تک کہ ایک بار ہمین ایک ایس ایم ایس آیا جس میں ڈلیوری کے وقت لیڈی ڈاکٹر کی دستیابی سے آگاہ کیا گیا تھا اور ساتھ یہ بتایا گیا تھا کہ ختنے کرنے کا معقول انتظام ہے۔ جبکہ اُس وقت ہم کنوارے تھے اور دوسری آفر بھی ہمارے لئے کار آمد نہیں تھی کہ وہ کام مین نمٹ گیا تھا۔ اس سلسلے میں 2009 میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن نے ایک ضابطہ اخلاق جاری کر دیا تھا جس کا نام “تحفظِ صارفین ریگولیشن 2009” ہے۔
اس ہی کی روشنی میں 14 نومبر کو پی ٹی اے نے تمام موبائل کمپنیوں کو ایک لیٹر یا سرکولر جاری کیا جس کے تحت “اسپیم فلٹر” پالیسی کے تحت اُن الفاظ کی لسٹ جاری کی گئی جن پر پابندی لگائی ہے۔ رومن اردو اور انگریزی الفاط کی یہ لسٹ نہ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے اور انگریزی تو خیر ہماری ویسے بھی ملکی کی اکثریتی آبادی کی طرح نہایت “عمدہ” ہے مگر جاری کردہ رومن اردو کے الفاظ کو دیکھ کر معلوم ہوا کہ ہم تو اردو زبان سے بھی قریب “نابلد” ہی ہیں۔
دیگر سرکاری کاموں کی طرح ان جاری کردی بین الفاظ کی فہرستوں نے بھی عوام کو ہنسنے کا موقعہ فراہم کیا ہے۔ کل 586 اردو کے الفاظ اور 1109 انگریزی کے الفاظ پر پابندی لگائی گئی ہے۔ اردو الفاظ کی بین لسٹ کے مطابق سیریل نمبر 13 پر “Mangaithar”(یعنی منگیتر) ، سیریل نمبر 35 پر “kutta”(یعنی کتا), سیریل نمبر 205 پر “mango” (جو آم کی انگریزی) , سیریل نمبر 214 پر لفظ “taxi”، سیریل نمبر 197 پر “kuti”(یعنی کتی) اور سیریل نمبر 195 پر “kuta”(یعنی کتا) جیسے الفاظ موجود ہے۔
اگر آپ رومن اردو میں ایس ایم ایس نہیں کرتے تو آپ اردو کی فہرست سے گالیوں کے تازے نمونے کسی کو ایس ایم ایم کرنے کے لئے استعمال کر سکتے ہیں اور ہاں بوقت ضرورت غصہ آنے پر اس پوسٹ کے “عنوان” کو لکھ کر جسے چاہے بھیج دیں۔ ٹھیک ہے ناں؟ کیونکہ اس لفظ پر تو بین نہیں لگ سکتا۔ ویسے اگر آپ کو عنوان کی سمجھ نہین آئی تو آپ علم کے آضافے کے لئے "اس ڈکشنری/لغت" پر نظر ڈالیں۔
11/04/2011
وال چاکنگ سے آرٹ تک
10/16/2011
جدت میں یاد ماضی
یوں ہی ایک مرتبہ ہم اپنے اسکول سے آ رہے تھے تو ہمارے آگے آگے ایک تنہا آدمی خود میں مگن جا رہا تھا۔ اور وہ خود ہی باتین کرتا جاتا، گفتگو سے اندازہ ہوتا کہ جیسے وہ کسی سے جھگڑا کر رہا ہواور اُس شخص کی حرکات سے یہ لگتا کہ وہ جس شخص لڑ رہا ہے وہ اُس کے سامنے ہے۔ ہمارے ساتھ جاتے ہم سے سینئر کلاس کی لڑکی نے ہماری حیرت کو دیکھے ہوئےاشارے سے اُس شخص کے پاگل ہونے کا اشارہ کیا۔ اور ہم اپنے طور پر مطمین ہو گئے۔
اپنی نوعیت میں انوکھے ہونے کی بناء پر یہ دونوں واقعات ہمیں یاد ہیں۔ نامعلوم کیا وجہ ہے جب بھی آج میں کسی یار دوست یا بندے کو ہینڈ فری کی مدد سے گانے سنتا یا فون پر بات کرتا دیکھتا ہو یا کسی منچلے کو bluetooth لگا دیکھتا ہو تو مجھے یہ دونوں باتیں یاد جاتی ہیں۔
9/20/2011
ہتھیار اور بچے
یار لوگ کہتے ہیں میڈیا ہی آج کے دور میں معاشرے کی آنکھ، کان اور زبان ہے، یار لوگون کو کیا جھوٹا کہنا مگر ہم تو یہ دیکھ رہے ہیں کہ میڈیا تو معاشرے پر ہی نہیں بلکہ ممکنہ اگلی نسل پر بھی نہایت عجب انداز میں اثر انداز ہوتا ہے ایسے میں اُن تحقیقات اور تجربات کا کیا حوالہ دوں جو اس ملک سے باہر موجود مختلف درسگاہوں و تجربہ گاہوں میں اُن معاشروں کے ماہرین نے کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ایک بچی اسکرین پر موجود کرداروں سے بہت کچھ اپناتا ہے خواہ وہ اسکرین ٹی وی کی ہو، کمپیوٹر مانیٹر (اب ایل سی دی کہہ لیں) یا موبائل کی۔ اور خواہ وہ کردار فلم کا ہیرو یا ولن کر رہا ہو یا گیم کا کوئی کردار۔
آج کل فلم و گیم سے ذیادہ گھر میں ٹی وی پر کوئی نا کوئی نیوز چینل چل رہا ہوتا ہے۔ کئی مرتبہ تشدد کے ایسے مناظر دن مین کئی مرتبہ بار بار دیکھائے جاتے ہیں۔/p>
ایسے میں آپ اپنے گلی کے بچوں کو یوں نقلی ہتھیاروں سے کھیلتا دیکھے تو اندازہ کر لیں مستقبل کیا ہو گا؟
6/19/2011
یہ کیا بات ہوئی؟
دنیا میں اب تک تمام کمپنیاں اپنی پروڈکٹ کی مشہوری کرتی ہی وہ بتاتی ہے کہ ہماری اس پروڈکٹ میں یہ خوبی ہے آپ اسے ضرور استعمال کریں اور اگر آپ اس کو وافر مقدار میں استعمال کریں گے تو آپ کو یہ یہ رعاتیں دی جائِں گی۔ صارف تک پہنچنے کے لئے وہ باقاعدہ تشہیر کے لئے الگ بجٹ مختص کتی ہیں مگر۔۔۔۔۔ اس کے بر عکس اپنے پیپکو والے اپنی پروڈکٹ کے بارے میں کہتے ہیں کم سے کم استعمال کرو، لوگوں کو یہ بتانے کے لئے کہ کم سے کم بجلی استعمال کرو اور وافر استعمال کرع گے تو اور مہنگی ملی گی باقاعدہ تشہیر کرتے ہیں اور اپنے اس پیغام کو بذریعہ تشہیر عوام تک پہنچانے کے لئے باقاعدہ رقم مختص کرتے ہیں مگر عوام ہے کہ مانتی ہی نہیں!! یہ کیا بات ہوئی؟ چلیں رہنے دیں اشتہار دیکھے!
;
اور یہ گانا بھی
++++++++++++
ماہرین نے بلاتحقیق یہ بات ثابت ہونا تسلیم کر لی ہے کہ دنیا میں ہونے والی تمام طلاقوں کی پہلی اہم وجہ دراصل کوئی اور نہیں بلکہ خود شادی ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بات درست ہے کہ تمام شادیوں کا انجام طلاق نہیں ہوتا مگر اس حقیقت سے انکار کیا جانا نہ ممکن ہے کہ بغیر شادی ہے طلاق دی جا سکے، اس ہی سلسلے میں پروفیسر نا معلوم نمبر 1 نے تحقیق کئے بغیر زبان کھولی کہ شادی طلاق کی واحد وجہ نہیں مگر اولین وجہ ضرور ہے اُن کا کہنا تھا کہ ہم جو طلاق پر بلا تحقیق یہ بات کہہ رہے ہیں اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ہم خود شادی شدہ ہیں یا ہم میں سے اکثر کے نہایت قریبی رشتہ دار یا دوست وغیرہ، ماہر نامعلوم نمبر 2 کا کہنا تھا کہ طلاق کی تعداد میں ہم دوسری و تیسری وجہ یا دیگر وجوہات کو دور کر کے ہی کیا جاسکتا ہے کیوں کہ طلاق پہلی وجہ یعنی شادی کے اختتام کا موجب بنتی ہے یوں پھر باقی وجوہات ثانوی ہو جاتی ہیں پروفیسر نامعلوم نمبر 3 نے پروفیسر نامعلوم نمبر 2 کی بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ہان یہ بات درست ہے کہ اول وجہ شادی ہی ہے طلاق کی لہذا اگر اس سلسلے میں شادی کا نہ ہونا طلاق کے نہ ہونے کی اولین گارنٹی ہے!! جب اس رپورٹ پر ملک کے مشہور ماہر نامعلوم نمبر 4 سے پوچھا گیا تو انہون نے ماہرین کے ناموں کے بارے میں جاننا چاہا جب بتایا گیا کہ وہ اپنی بیویوں کے خوف سے نام بتانے سے گریذہ ہیں تو پروفیسر نامعلوم نمبر 4 نے کہا یہ کیا بات ہوئی؟ بعدازہ انہوں نے ہمارے رپوٹر نامعلوم کو فون کر کے اپنا نام شائع نہ کرنے کو کہا کہ دراصل میری بیوی کہیں یہ رپورٹ نہ پڑھ لے ویسے بات ٹھیک ہی ہے۔