ہماری با حیثیت مجموعی کچھ ایسی عادت بن گئی ہے کہ ہم عمل کی مخالفت نہیں کرتے بلکہ فرد کے دشمن ہو جاتے ہیں۔ معاشرتی طور پر کچھ ایسا مزاج بنا چکے ہیں کہ کسی کو غلط سے روکنے کے لئے غلط رستے کا انتخاب کرتے ہیں یا شاید ہم جو کرنا چاہتے ہیں وہ ظاہر نہیں کرتے۔
جب ہم ایل ایل بی میں پڑھتے تھے تو ایس ایم لاء کالج کے قریب ہی جیو چینل کا دفتر کھلا، اُن کے چند ایک پروگرام کی ریکارڈنگ وہاں ہوتی تھی، ہم ایک دو پروگرام کی ریکارڈنگ میں بطور ناظرین جاتے ان میں ایک پروگرام تھا “اُلجھن سلُجھن” عوامی مسائل پر گفتگو ہوتی تھی، ایک مرتبہ گئے تو ٹرک ڈرائیوروں کے “دلبروں” کی بات ہو رہی تھی۔ یہ ٹاپت نہایت واہیات لگا لہذا واپس کالج چلے گئے ایک مرتبہ پھر گئے تو خواتین کی آپسی کشش سے پیدا ہونے والے ممکنہ مسائل پر روشنی ڈالی جا رہی تھی گفتگو سن کر ہتھیلی تک میں پسینہ آ گیا جبکہ اسٹو دیو فل ایسی تھا۔ ٹاک شو میں ایسے ٹاپک پر ہونے والی گفتگو پر ہم نے جانے سے توبہ کر لی۔
جب کبھی ایسے افراد سے جو میڈیا میں ان ٹاپک پر بات کرتے سے بات ہوت کہ کیا ایسے پروگرام ہونے چاہئے یا یہ کہ ان ٹائمنگ میں ٹی وی پر چلنے چاہئے جس میں چلتے ہیں تو وہ بہت زور دار انداز میں اس کی حمایت کرتے اور انوکھا جواب یہ ہوتا کہ جب ہم نے اس مسئلے پر کام شروع کیا تو مولویوں نے بہت شور کیا ہمیں بہت مشکل پیش آئی مگر اب تو لوگوں میں “شعور” آ گیا ہے۔ میں اس argument سے کبھی بھی مطمئین نہیں ہوا۔
ان تمام باتوں کے باوجود ہمیں کبھی اُن افراد سے ذاتی نفرت نہیں ہوئی میرے چند ایک دوست (جو جانتے ہیں) حیران ہوتے ہیں کہ میری حلقہ احباب میں چند ایک ایسے افراد بھی رہے ہیں اور اب بھی ہیں جو ایسی سرگرمیوں میں مبتلا ہیں جو معاشرتی و اخلاقی اعتبار سے درست نہیں اور میرا اُن سے تعلق اُس وقت تک رہا جب تک کہ انہوں نے مجھے اُن عمل میں شریک کرنے کی کوشش نہ کی جب دعوت گناہ ہوا جو یا تو دعوت واپس لی گئی یا تعلق اختتام کو پہنچا۔ مگر کبھی کسی محفل میں ملاقات ہوئی تو ہیلو ہائے کر لی۔ اس بات پر ہم خود کو منافق بھی کہتے ہیں۔
گزشتہ دنوں سوشل میڈیا میں مایا خان ہر طرف چھائی ہوئی تھی۔ معاملہ پارکوں میں چھاپے تھے۔ یار لوگ چھاپہ مارنے سے ذیادہ مایا خان کو ننگی گالیاں دینے میں ذیادہ دلچسپی لیتے نظر آئے۔ دوسری بات جو مجھے سمجھ میں نہیں آئی وہ یہ کہ عوامی مقامات پر کیا گیا کوئی عمل یا حرکت کسی کا ذاتی معاملہ ہوسکتی ہے؟ اگر ہاں تو کیسے؟ اور کس حد تک؟ خواہ وہ اُن کا لباس کا انتخاب ہو! ! گھر کی چار دیواری میں تو آپ کی privacy ہو سکتی ہے مگر گھر سے باہر اور عوامی مقامات پر اس کا تعین کرنا ایک متنازعہ معاملہ ہے۔ کچھ احباب اس سلسلے میں ملکی قانون تک اپنے رائے کا اظہار کرتے ہیں اور چند “انتہا پسند” مذہبی نقطہ نظر سے اس معاملے کو سُلجھانے کی کوشش کریں گے اور کچھ تو بین الاقوامی قوانین کو بھی اس سلسلے میں کھینچ لاتے ہیں۔بین الاقوامی سطح پر یار لوگ International Covenant on Civil and Political Rights کی دفعہ 17 کا حوالہ دیتے ہے جو کچھ یوں ہے:
یوں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پرائیویسی کسی فرد کی زندگی کے وہ پہلو و تعلقات ہیں جو وہ نہ صرف عوام کی نظروں سے چھپا کر رکھنا چاہتا ہے بلکہ جس میں مداخلت اُس فرد کو قبول نہیں۔ اسے ایک بنیادی حق تسلیم کیا جا چکا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ پہلوو تعلقات جو کوئی فرد عوام سے چھپا کر رکھنا چاہتا ہے کیا عوام کے درمیان یا عوامی مقامات پر ظاہر کرے گا خواہ اُس کی کوئی بھی صورت ہو؟ ممکنہ جواب ہاں نہیں ہوسکتا مگر مباحث میں یہ ایک متنازعہ موضوع رہا ہے اور ممکن رہے مگر اکثریت مقامات پر جواب باں نہیں ہوتا، اگر مگر کے ساتھ چند احباب اسے ہاں کہہ دیتے ہیں۔
چار دیواری کے اندر ہونے والی حرکات تسلیم شدہ طور پر پرائیویسی کے ذمرہ میں آتی ہے اخلاقی، مذہبی، قانونی اور معاشرتی طور پر اسے تسلیم کیا جا چکا ہے۔ ملکی آئین کی دفعہ 14 اس ضمن میں قابل توجہ ہے۔
اس ہی لئے جب پولیس کسی چاردیواری کے اندر سے “جوڑے” پکڑ کر ایف آئی آر کاٹتی ہے تو آغاز ایف آئی آر میں گھر میں داخل ہونے کی وجہ اُس عمارت میں مفرور ملزم کے موجود ہونا قرار دیتی ہے۔ مذہبی نقطہ نظر سے گھر کی چار دیواری میں کسی کی پرائیویسی میں دخل اندازی کی ممانعت کو سمجھنے کے لئے حضرت عمر کا وہ واقعہ ہی کافی میں جس میں رات کے پہر میں ایک گھر سے اس لئے معذرت کر کے باہر نکل گئے کہ اُن کا گھر کی چار دیواری میں تجسس کے زیر اثر بلا اجازت داخل ہونا غلط تھا جبکہ صاحب مکان کے پاس اُس وقت شراب و شباب موجود تھا۔
مایا خان پر ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ انہیں یوں اپنی ممکنہ اپنی اخلاقی اقدار کی تبلیغ کرنے کا اختیار نہیں یا نافذ کرنے کا۔ تبلیغ تو انسان کی فطرت بھی ہے اور بلا شک و شبہ جز ایمان بھی اور جن نظریات و اقدار کو آپ حق تسلیم کرتے ہو وہ خود با خود آپ پر لاگو ہو جاتی ہے۔ تبلیغ فطرت یوں ہے کہ اگر میں کہو کہ آپ اپنی اخلاقی اقدار کسی پر لاگو نہیں کو سکتے تو بنیادی طور پر میں اپنی اخلاقی اقدار کی تبلیغ کر رہا ہو اور چاہتا ہون کہ آپ اس” اخلاقی” اصول کو خود پر لاگو کریں۔
اس پورے معاملے میں ایک عنصر ایسا ہے تو قابل گرفت ہے اور وہ یہ کہ آیا کسی فریق کی عزت نفس مجروح ہوئی ہے؟ اگر ہاں تو مایا خان اس سلسلے مین قابل گرفت ہو گی مگر اس کا فیصلہ کرنے کا اختیار ملکی عدالت کے پاس ہے عدالت کا دروازہ متاثرہ فریق ہی کھٹکا سکتا ہے آپ یا میں نہیں!
آخری بات یہ کہ اگر آپ چار دیواری میں اپنے پریمی کے ساتھ وقت گزارنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو ہم آپ کو کہیں گے “Have a nice Date”.
10 تبصرے:
تبصرہ کرنے قابل چھوڑا ہو تو بندہ تبصرہ بھی کرے۔
میرا ایک سوال ہے کہ اگر میں خود کسی نیک یا اچھے کام پر عمل نہیں کرتا تو کیا میرا دوسروں کو اس کی دعوت دینا اور اس پر مجبور کرنا کیسا فعل ہے؟
جزبات اور ذاتیات سے اوپر اٹھ کر لکھی گئی ایک منطقی تحریر۔
محترمali
سر شاید اسے منافقت کہتے ہیں۔ اب آپ بتا دیں منافقت کے بارے مین آپ کی کیا رائے ہے>
شعیب بھائی کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اگر ایک بندہ نماز نہیں پڑھتا پر دوسروں کی اس کی تلقین کرتا ہے تو وہ بھی ثواب کا مستحق ہے پر جہاں تک میری بات ہے میرے حلق سے یہ بات نہیں اترتی کہ میں خود تو فلمیں دیکھوں اور دوسروں کو سینما بینی کے نقصانات سے آگاہ کرتا پھروں۔ باقی مایا خان تو بس ٹی وی اسٹنٹ تھا اور ٹی وی والے کچھ بھی کر سکتے ہیں قصور مایا خان کا نہیں اس پروگرام کو اپروو کرنے والے کا ہے۔
علی آپ ٹھیک ہیں مگر میں نے تیہ تحریر اس نقطہ سے نہیں لکھی
سر ہم نے بھی اویں ہی بیچ میں چول مار دی۔
اگنور کریں۔
مجھے ایک صاحب سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ بعض وجوہات کی بناء پہ نہ میں انکے گھر جا سکتی ہوں نہ انہیں گفتگو کے پس منظر کی وجہ سے اپنے گھر بلا سکتی ہوں۔ خیال آیا کہ کسی پارک میں ملنے کا کہہ دینا چاہئیے۔ پھر فورا ہی خیال آیا کہ نہیں ہمارے یہاں کی ذہنیت یہ ہے کہ ایک مرد اور ایک عورت اگر پارک میں بیٹھے ہیں تو یقیناً ڈیٹ پہ ہونگے کیونکہ مرد اور عورت کے درمیان بس ایسے ہی رشتے ہو سکتے ہیں۔
ایک بات جو آپ نے بتائ نہیں کہ اگر ایک جوڑا ایک پارک میں بیٹھ کر کوئ غیر قانونی حرکت نہیں کر رہا تو کسی بھی شخص کو یا میڈیا کے کس شخص کو کیا یہ حق حاصل ہے کہ وہ اسے ڈسٹرب کرے اسکا جواب ہے کہ نہیں ہے۔
جہاں تک اخلاقی بنیادوں کا تعلق ہے وہ لوگوں کی مختلف ہوتی ہیں ایک شخص یہ سمجھتا ہے کہ اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ راہ چلتی کسی بھی خاتون کو کہے کہ دوپٹہ سر سے اوڑھو اور میں سمجھتی ہوں کہ ایسا کہنے والے کو وہی دھن کر رکھ دینا چاہئیے۔ اسکی وجہ میرے اور اسکے درمیان اخلاقی قدروں کا فرق ہے۔ ایک ایسے گاءوں میں جہاں عورتوں کو گھر سے باہر نکلنے کی آزادی نہ ہو شہر کے بازاروں میں پردے دار خاتون کا پھرنا بھی اخلاقی قدروں کی پائمالی ہوتی ہے۔ ایک ایسے خاندان میں جہاں کسی لڑکی نے اپنی شادی کے سلسلے میں کبھی اپنا حق استعمال نہ کیا ہو وہاں کسی لڑکی کا پسند کی شادی کر لینا اسے قتل کرنے کی وجہ بن جاتا ہے جو ان کی ثقافت میں بالکل درست ٹہرتا ہے۔
سوال پھر وہی ہے کہ اگر ڈیٹ پہ موجود جوڑے پارک میں بیٹھے کوئ غیر قانونی حرکت نہیں کر رہے تو اس میں مداخلت کن بنیادوں پہ درست ہوگی۔
جناب منطقی تحریر ہے ۔
ویسے جناب پرائیویسی تو انسانی معاشروں میں ہوتی ہے۔
مذہبی معاشروں میں ایسی عیاشی ناقابل قبول ہوتی ہے۔
ہمارے مذہبی معاشرے میں تو عورت کا مسجد جانا ممنوعع ہے۔۔۔۔اگر نہیں تو کسی محلے کی مسجد میں خواتین باجماعت نماز پڑھتی ہیں؟
بس جناب عرض یہی کرنا تھا۔پاکستانی معاشرہ مذہبی ہے۔۔ہمارے کیسے نجی اور ذاتی حقوق۔۔۔۔ہمارے حقوق صرف مذہبی ہی ہوسکتے ہیں۔
Have a Nice Date.......
يہ تحرير ايک اچھی کاوش ہے ۔ گاہے بگاہے روزمرہ کے عوامل سے متعلق قانونی بنياد پر اظہارِ خيال کرتے رہيں تو قابلِ تحسين ہو گا ۔
آپ نے دو بنيادی نقطے رکھے ہيں ۔ " ذاتی راز داری " اور " قانونی تحفظ"۔ آپ نے پاکستان اور دنيا ميں متعلقہ قانون نقل کر ديا ہے جو واضح ہے ۔ سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ عصرِ جديد اور آزادیءِ اظہار کے علمبر دار کيا اس قانون کے مطابق عمل کرتے ہيں ؟ جواب ہو گا " نہيں"۔ تو کيا وہ خوش خلق جماعت [جسے انگريزی ميں سول سوسائٹی کہتے ہيں] ہيں ؟
ہمارے ہاں "الفاظ" يا " بات" پيسنا عام شغل بن چکا ہے جس ميں نہ قانون کا لحاظ رکھا جاتا ہے نہ اقدار کا ۔ دين کا نام آ جائے تو جاہليت کا فتوٰی نہ لگے تو کم از کم دقيانوسيت کا لگ جاتا ہے باوجويکہ مسلمانی کا دعوٰی پکا ہوتا ہے ۔ قانون کسی ملک کے آئين کے تابع ہوتا ہے اور اُس ملک ميں بسنے والے قانون و آئين دونوں کے تابع ہوتے ہيں ۔ ہمارے ہاں دين سے آزاد لوگوں نے وطيرہ بنا رکھا ہے کہ مفروضہ صورتيں بيان کر کے حقائق کو جھٹلانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اگر کسی لڑکی نے کسی لڑکے کو يا عورت نے کسی مرد کو کوئی وضاحت دينا ہے اور اُس کيلئے اُس کا اپنا گھر يا دفتر محفوظ نہيں ہے تو شارع عام يا باغ کس طرح محفوظ ہے ؟
ايک قباہت يہ بھی ہے کہ اسلام اُس عمل کو سمجھ ليا جاتا ہے جو کوئی اپنے آپ کو مسلمان کہنے والا کرتا ہے ۔ اللہ يا رسول کا کيا فرمان ہے اُسے يکسر نظر انداز کر ديا جاتا ہے ۔ اللہ اور اُس کے رسول نے نامحرم مرد اور عورت کے اختلاط سے منع کيا ہے اور ذاتی راز داری کی يہاں تک تلقين ہے کہ بيٹا جو جنس کی سمجھ کو پہنچ گيا ہو وہ والدين کے کمرے ميں اُن کے آرام کے وقت بغير اجازت داخل نہيں ہو سکتا ۔ اس ميں رات اور بعد دوپہر کا خاص طور سے ذکر ہے ۔ ليکن عورت کے مسجد ميں نماز پڑھنے پر کوئی پابندی نہيں البتہ وہ مرد کے ساتھ مخلوط ہو کر نماز ادا نہيں کر سکتيں
چلئے دين کو الگ رکھ ديتے ہيں ۔ عصرِ جديد کا دلدادہ قانون اور آئين کو تو مانتا ہے ۔ ہمارے ملک کے آئين يا قانون کی کونسی شق ہے جو مرد اور عورت کے اختلاط کی اجازت ديتی ہے ؟ اور کيا دين اسلام ہمارے ملک کے آئين کی اساس نہيں ؟ کيا مندرجہ ذيل شق ہمارے ملک کے قانون کا ايسا حصہ نہيں جو حذف نہيں جا سکتا ؟
Whereas sovereignty over the entire universe belongs to Allah Almighty alone and the authority which He has delegated to the State of Pakistan, through its people for being exercised within the limits prescribed by Him is a sacred trust;
This Constituent Assembly representing the people of Pakistan resolves to frame a Constitution for the sovereign independent State of Pakistan;
Whereas sovereignty over the entire universe belongs to Allah Almighty alone and the authority which He has delegated to the State of Pakistan, through its people for being exercised within the limits prescribed by Him is a sacred trust;
Wherein the Muslims shall be enabled to order their lives in the individual and collective spheres in accordance with the teachings and requirements of Islam as set out in the Holy Quran and the Sunnah;
جب اقدار يا آزادی کی بات کی بات کی جاتی ہے تو کيا اس کا مطلب يہ ہوتا ہے کہ نہ صرف اپنے دين بلکہ ملک کے آئين اور قانون کی بھی خلاف ورزی کی جائے
محترمہعنیقہ ناز
میں پہلے ہی اپنی تحریر میں عرض کع دیا مجھے کسی کی کسی حرکت پر کوئی اعتراض نہیں تاوقتکہ میں اُمیں متاثرہ فریق نہ ہو۔
ڈیٹ ایک قانونی حرکت ہے ایک الگ بحث ہے ہم اس کے لئے تیار ہے مگر پہلے ہمیں ڈیٹ کت لوازمات سے آگاہ کریں تب
محترمیاسر خوامخواہ جاپانی
مجھے اس خیال سے اتفاق نہیں کہ ہمارا معاشرہ ایک مذہبی معاشرہ ہیں ہمارے معاشرے کے کئی ایک پہلو درحْیقت مذہب سے ٹکراو رکھتے ہیں
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے
نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔