ناواقفیت کی بناء پر معاشرے میں کئی مرتبہ کچھ ایسی روایات جنم لے لیتی ہے جو نقصان کا باعث بنتی ہیں، اور عمومی طور پر ہم میں عام معاملات سے متعلق جستجو کی عادت نہیں ہے اس لئے بہتر تبدیلی کافی دشوار ہوتی ہے۔
ایک عمدہ حل اس سلسلے میں قانون سازی کا ہے مگر قانون سازی بھی ایسی ہو جس میں اول نہ تو کوئی سقم ہو کہ عملدرآمد مشکل ہو اور نہ ہی کچھ ایسا کہ نئی خرابی کو جنم دے۔ فرض کریں کہ قانون سازی میں کوئی خامی رہ گئی ہو تو پھر عدالت کا فرض بنتا ہے کہ اپنے فیصلوں سے کچھ ایسے اصول واضح کرے کہ وہ نقص دور ہو جائے۔
ایسی ہی ایک خامی جو ہم میں داخل ہو گئی تھی وہ کسی زخمی کی مدد نہ کرنا تھا۔ دلچسپ معاملہ یہ کہ کسی فرد کو جس قدر سخت چوٹ یا زخم لگتا اُس قدر دشوار اُس کے لئے ڈاکٹر کی سہولت حاصل کرنے میں پیش آتی یوں حادثہ کا شکار ہونے والا ایک اور حادثے سے روشناس ہوتا۔ جائے وقوع سے اسپتال تک اور پھر اسپتال میں ڈاکٹر تک ہر ایک پولیس کی تفتیش کے خوف سے مدد کو نہ آتا۔
اس لئے 2004 میں پارلیمنٹ نےInjured Person (Medical Aid) Act پاس کیا اس قانون کے ابتدائیہ میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ چونکہ طبی امداد(medical aid ) کے سلسلہ میں طبی قانون ( medico-legal ) کے بابت عمومی غلط فہمی ہے جس کی وجہ سے کئی جانوں کا نقصان ہو چکا ہے لہذا طبی امداد کے سلسلے میں یہ قانون پاس کیا جا رہا ہے۔ یہ قانون 14 دفعات پر مشتمل ہے۔
اس قانون کے تحت ایک(رجسٹر) ڈاکٹر جو کسی (رجسٹر) اسپتال میں ڈیوٹی پر ہو پابند ہے کہ کسی زخمی کو ابتدائی طبی امداد دینے کا پابند ہوگا کسی بھی قسم کی قانونی کاروائی کا انتظار کئے بغیر۔
قانون کی دفعہ 2 (d) کے تحت زخمی سے مراد کوئی بھی ایسا فرد جو کسی ٹریفک حادثے، حملے یا کسی بھی دیگر وجہ سے زخمی ہو ہو اور جسے فوری علاج کی ضرورت ہو۔
قانون کی دفعہ 7 کے تحت حکومت نوٹس گزٹ کرے گی جس میں آگاہ کیا جائے گا کہ کون سے ہسپتالوں میں ایمرجنسی کی سہولت ہے کہ وہ زخمی افراد کو طبی سہولت فراہم کر سکتے ہیں۔
قانون کی دفعہ تین کے تحت اسپتال میں لائے گئے فرد کو کسی بھی قسم کی قانونی پیچیدگیوں میں پڑے بغیر ترجیحی بنیاد پر طبی مدد فراہم کی جائے گی۔
قانون کی دفعہ چار کے تحت پابند کیا گیا ہے کہ جب تک زخمی فرد زیر علاج ہو کوئی پولیس افسر اسپتال کے انچارج کی تحریری اجازت کے بغیر مداخلت نہیں کر سکتا ایسی اجازت بھی تب ہی مل سکتی ہے جبکہ زخمی سے تفتیش اسپتال ہی میں ممکن ہو۔
قانون کی دفعہ پانچ کے تحت جب کوئی زخمی ایمرجنسی میں لایا جائے اور ڈاکٹر کے لئے زخمی کے عزیز کا انتظار ممکن نہ ہو تو وہ بلا اجازت اُسے طبی سہولت فراہم کرے یا آپریشن کر سکتا ہے، زخمی کے رشتہ دار کی موجودگی کی صورت میں اُس کی اجازت لے لینا بہتر ہے۔
دفعہ چھ کے تحت جب تک زخمی کی حالت سنبھل نہ جائے اُسے دوسرے اسپتال میں منتقل نہیں کیا جائے گا تاوقتیکہ اُس ہسپتال میں متعلقہ سہولت نہ ہو منتقل کرنے سے قبل متعلقہ ڈاکٹر تمام کاغذی کاروائی مکمل کرے گا اور تمام دستاویزات مریض کے ساتھ منتقل ہوں گی اگر ضروری ہو تو دوران سفر ایک ڈاکٹر مریض کے ساتھ رہے۔
دفعہ آٹھ کے تحت پابند کیا گیا ہے کہ کوئی پولیس والا کسی بھی حالت میں مریض کو پولیس اسٹیشن نہیں لے جا سکتا اور نہ ہی ڈاکٹر پر دباؤ ڈال سکتا ہے۔
دفعہ نو کے تحت زخمی کو انسانی ہمدردی کے تحت اسپتال میں لانے والے کو ڈرایا نہیں جا سکتا اُسے اُن کا نام پتہ پوچھ کر اگر مناسب ہو تو شناختی کارڈ کی کاپی لے کے جانے دیا جائے ساتھ ہی وضاحت کر دی گئی اس بناء پر اُسے چھوٹ حاصل نہ ہو گی اگر وہ وجہ حادثہ ہوا تو۔
قانون کی دفعہ گیارہ کے تحت اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والا کو دو سال تک کی سزا و دس ہزار روپے جرمانے یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں مزید یہ کہ عدالت ڈاکٹر کے لائسنس کو منسوخ بھی کر سکتی ہے۔
یہ تحریر مفاد عام تحت لکھی گئی ہے ایک پرانے سلسلے کی کڑی کے طور پر
2 تبصرے:
بہت زبردست میں کافی دنوں سے سوچ رہا تھا کہ آپ ایسی باتوں کو کیوں نہیں لکھتے۔۔۔ لیکن اب لگ رہا ہے کہ میں ہی نہیں پڑھتا آپ تو لکھ رہے ہیں
دیرآئے درست آئے۔ شکر ہے یہ قانون بن گیا ہے۔
سن ١٩٨٣ میں میرے والد روڈ ایکسڈنٹ میں شدید ذخمی ہو گئے تھے۔ جائے حادثہ پر موجود کسی شخص نے والدکو اسپتال پہنچانے کی زحمت نہ کی بڑی مشکل سے اسپتال پہنچایا گیا۔ اسپتال پہنچانے کے بعد والد صاحب کی جیب سے نیوی کا کارڈ برآمد ہونے پرڈاکٹروں نے یہ کہہ کر طبی امداد فراہم کرنے سے انکار کردیا یہ کہ فوج کا آدمی ہے جب تک نیوی کی طرف سے علاج کی اجازت نہیں مل جاتی ہم علاج نہیں کر سکتے۔ اسی دوران میرے والد زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ڈاکٹروں کی بے حسی کی وجہ سے میں اپنی پیدائش سے پہلے ہی ییتم ہو گیا۔۔
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے
نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔