Pages

5/12/2019

1965 کے صدرارتی انتخابات


وہ تاریخ جو آپ کو مطالہ پاکستان کی کورس کی کتابوں میں نہیں ملے گی


تاریخ می کئی چہروں پر ایسا غلاف چڑھا رکھاہے کہ اب انکی تعریف کرنی پڑتی ہے اور ان کا ماضی ہمیں بھولنا پڑتا ہے ایسےکئی کردار صدارتی الیکشن 1965 کے ہیں جن پر اب کوئی بات بھی نہیں کرتا اور نہ انکے بارے میں کچھ لکھا جاتا ہے یہ پہلا الیکشن تھا جس میں بیورکریسی اور فوج نے ملکر دھاندلی کی۔
1965کے صدارتی الیکشن میں پہلی دھاندلی خود ایوب خان نےکی پہلے الیکشن بالغ رائے دہی کی بنیاد پر کرانے کا اعلان کیا ۔یہ اعلان 9اکتوبر1964کوہوا مگر فاطمہ جناح کے امیدوار بنے کے بعد یہ اعلان انفرادی رائے ٹھہرا اور ذمہ داری حبیب اللّہ خان پرڈالی گئی یہ پہلی پری پول دھاندلی تھی۔
1964 میں کابینہ اجلاس کے موقع پروزراء نے خوشامد کی انتہا کی حبیب خان نے فاطمہ جناح کو اغواء کرنے کی تجویز دی وحیدخان نے جووزیراطلاعات اورکنویشن لیگ کے جنرل سیکرٹری تھے تجویزدی کہ ایوب کو تاحیات صدر قرار دینے کی ترمیم کی جائے بھٹونے مس جناح کو ضدی بڑھیا کہا اگرچہ یہ تمام تجاویز مسترد ہوئیں۔ ایوب خان نے الیکشن تین طریقوں سے لڑنےکا فیصلہ کیا۔
پہلامذھبی سطح پر،انچارج ، پیرآف دیول تھے جنہوں نے مس جناح کےخلاف فتوےديئے
دوسری انتظامی سطح پرسرکاری ملازم ایوب کی مہم چلاتے رھے
تیسری عدالتی سطح پرمس جناح کےحامیوں پرجھوٹےمقدمات درج ہوئےعدالتوں سے انکے خلاف فیصلے لئے گئے۔
سندھ کے تمام جاگیردار گھرانے ایوب کےساتھ تھے۔بھٹو،جتوئی،۔محمدخان جونیجو،ٹھٹھہ کےشیرازی،خان گڑھ کے مہر،۔نواب شاہ کےسادات،بھرچونڈی،رانی پور،ہالا،کےپیران کرام ایوب خان کےساتھی تھے۔جی ایم سید ، حیدرآباد کےتالپوربرادران اور بدین کے فاضل راہو مس جناح کے حامی تھے یہی لوگ غدار تھے ۔
پنجاب کے تمام سجادہ نشین سوائے پیرمکھڈ صفی الدین کوچھوڑکر باقی سب ایوب خان کے ساتھی تھے۔سیال شریف کےپیروں نے فاطمہ جناح کےخلاف فتوی دیا پیرآف دیول نے داتادربار پر مراقبہ کیا ۔اور کہاکہ داتاصاحب نے حکم دیا ہے کہ ایوب کوکامیاب کیاجائے ورنہ خدا پاکستان سے خفا ہو جائے گا۔ آلومہار شریف کے صاحبزادہ فیض الحسن نے عورت کےحاکم ہونے کے خلاف فتوی جاری کی ۔مولاناعبدالحامدبدایونی نے فاطمہ جناح کی نامزدگی کو شریعت سے مذاق اور ناجائز قرار دیا حامدسعیدکاظمی کے والد احمدسعیدنے ایوب کو ملت اسلامیہ کی آبروقراردیا یہ لوگ دین کے خادم ہیں۔لاھورکے میاں معراج الدین نے فاطمہ جناح کےخلاف جلسہ منعقدکیا جس سےمرکزی خطاب غفارپاشا وزیربنیادی جمہوریت نے خطاب کیا معراج الدکن نے فاطمہ جناح پر اخلاقی بددیانتی کاالزام لگایا موصوف یاسمین راشدکےسسرتھے۔ میانوالی کی ضلع کونسل نے فاطمہ جناح کے خلاف قراردداد منظور کی ۔ مولانا غلام غوث ہزاروی صاحب نے ایوب خان کی حمایت کااعلان کیا اور دعا بھی کی پیرآف زکوڑی نے فاطمہ جناح کی نامزدگی کو اسلام سے مذاق قراردیکر عوامی لیگ سے استعفی دیا اور ایوب کی حمایت کااعلان کیا۔
سرحدمیں ولی خان مس جناح کےساتھ تھے ۔یہ غدارتھے۔
بلوچستان میں مری سرداروں اورجعفرجمالی کوچھوڑ کر سب فاطمہ جناح کےخلاف تھے۔ قاضی محمد عیسی مسلم لیگ کابڑ انام بھی فاطمہ جناح کےمخالف اورایوب کے حامی تھے انہوں نے کوئٹہ میں ایوب کی مہم چلائی ۔ حسن محمودنے پنجاب و سندھ کے روحانی خانوادوں کو ایوب کی حمایت پرراضی کیا۔
خطہ پوٹھوہارکے تمام بڑے گھرانے اور سیاسی لوگ ایوب خان کےساتھ تھے ۔ چودھری نثار والد برگیڈیئرسلطان , ملک اکرم جو دادا ہیں امین اسلم کے ملکان کھنڈا کوٹ فتح خان، پنڈی گھیب، تلہ گنگ ایوب کے ساتھ تھے سوائے چودھری امیر اور ملک نواب خان کےاور الیکشن کے دو دن بعد قتل ہوئے۔
شیخ مسعود صادق نے ایوب خان کیلئے وکلاہ کی حمایت کا سلسلہ شروع کیا کئ لوگوں نے انکی حمایت کی پنڈی سے راجہ ظفرالحق بھی ان میں شامل تھے اسکےعلاوہ میاں اشرف گلزار ۔بھی فاطمہ جناح کے مخالفین میں شامل تھے۔
صدارتی الیکشن 1965کے دوران گورنر امیرمحمد خان صرف چند لوگوں سےپریشان تھے ان میں شوکت حیات،۔خواجہ صفدر جو والد تھے خواجہ آصف کے، چودھری احسن جو والد تھے اعتزاز احسن کے ، خواجہ رفیق جو والد تھے سعدرفیق کے ، کرنل عابدامام جو والد تھے عابدہ حسین کے اورعلی احمد تالپورشامل تھے۔ یہ لوگ آخری وقت تک۔۔فاطمہ جناح کےساتھ رہے۔
صدارتی الکشن کےدوران فاصمہ جناح پر پاکستان توڑنےکاالزام بھی لگا یہ الزام زیڈ-اے-سلہری نے اپنی ایک رپورٹ میں لگایا جس میں مس جناح کی بھارتی سفیرسےملاقات کاحوالہ دياگیا اوریہ بیان کہ قائدتقسیم کےخلاف تھے یہ اخبار ہرجلسےمیں لہرایاگیا ایوب اس کو لہراکر مس جناح کوغدارکہتےرھے۔
پاکستان کامطلب کیا لاالہ الااللّہ جیسی نظم لکھنےوالے اصغرسودائی ایوب خان کے ترانے لکھتے تھے۔ اوکاڑہ کےایک شاعر ظفراقبال نے چاپلوسی کےریکارڈ توڑڈالے یہ وہی ظفراقبال ہیں جوآجکل اپنےکالموں میں سیاسی راہنماؤں کامذاق اڑاتےہیں۔ سرورانبالوی اور دیگرکئی شعراء اسی کام میں مصروف تھے۔ حبیب جالب، ابراھیم جلیس ، میاں بشیرفاطمہ جناح کےجلسوں کے شاعرتھے۔ جالب نے اس کام میں شہرت حاصل کی ۔ میانوالی جلسےکےدوران جب گورنرکے غنڈوں نے فائرنگ کی توفاطمہ جناح ڈٹ کرکھڑی ہوگئیں اسی حملےکی یادگا بچوں پہ چلی گولی ماں دیکھ کےیہ بولی نظم ہے۔۔فیض صاحب خاموش حمائتی تھے۔
چاغی،لورالائی ، ،سبی، ژوب، مالاکنڈ، باجوڑ، دیر، سوات، سیدو، خیرپور، نوشکی، دالبندین، ڈیرہ بگٹی، ہرنائی، مستونگ، چمن، سبزباغ سے فاطمہ جناح کو کوئی ووٹ نہیں ملا ۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ایوب ، فاطمہ کےووٹ برابرتھے مس جناح کےایجنٹ ایم خمزہ تھے اور اے سی جاویدقریشی جو بعد میں چیف سیکرٹری بنے
مس جناح کو کم ووٹوں سے شکست پنڈی گھیب میں ہوئی۔ ایوب کے82 اور مس جناح کے 67 ووٹ تھے۔اس الیکشن میں جہلم کے چودھری الطاف فاطمہ جناح کےحمائتی تھے مگر نواب کالاباغ کےڈرانےکےبعد۔ پیچھے ہٹ گئ یہاں تک کہ جہلم کےنتیجے پردستخط کیلئے ۔مس جناح کے پولنگ ایجنٹ گجرات سے آئے اسطرح کی دھونس عام رہی۔
۔حوالےکیلئےدیکھئے ڈکٹیٹرکون ایس ایم ظفرکی ، میراسیاسی سفر حسن محمود کی ، فاطمہ جناح ابراھیم جلیس کی ۔مادرملت ظفرانصاری کی ۔۔فاطمہ جناح حیات وخدمات وکیل انجم کی۔ story of a nation..allana..A nation lost it's soul..shaukat hayat..Journey to disillusion..sherbaz mazari. اورکئ پرانی اخبارات۔۔


یہ تحریر دراصل ایک سرمد سلطان کے ٹویٹ ٹھریڈ کا مجموعہ ہے جو آپ یہاں دیکھ سکتے ہیں

12/27/2017

شاہ رخ جتوئی کی رہائی کیوں ممکن ہوئی؟؟؟

شاہ رخ جتوئی ضمانت پر رہا ہوچکا ہے اس کی رہائی کے ساتھ ہی سوشل اور روایتی میڈیا پر فیصلہ پر تنقید جاری ہے ۔عام افراد پاکستانی قانون سے نا واقف ہیں سو ان کو بس یہی نظر آرہا ہے کے ہمیشہ کی طرح ایک دولت مند شخص سزا سے بچ گیا ۔
پاکستان میں کچھ جرائم نا قابل راضی نامہ ہیں اور کچھ قابل راضی نامہ ہیں۔ قتل کا مقدمہ دفعہ 309 اور 310 تعزیرات پاکستان اور ضابطہ فوجداری دفعہ 345 ذیلی دفعہ 2 کے تحت عدالت مجاز کے اجازت سے قابل راضی نامہ ہوتا ہے ۔ مگر چونکہ اس قتل سے عام لوگوں میں خوف و ہراس پھیلا تھا (جو دراصل میڈیا کوریج کا نتیجہ تھا) اس لیے مقدمہ میں دہشت گردی کی دفعات بھی شامل کی گئیں جو کہ ناقابل راضی نامہ ہے ۔شاہ رخ کو ٹرائل کورٹ سے سزا ہو گئی مگر اپیل کے دوران شاہ زیب کے وارثان سے راضی نامہ ہوگیا، مگر اس کے باوجود شاہ رخ کی رہائی ممکن نہ تھی۔ اس کی دو وجوہات تھیں. 1 ۔دہشت گردی کی دفعہ کی موجودگی میں راضی نامہ ممکن نہ تھا۔
2۔۔دفعہ 338 ای (2) تعزیرات پاکستان کے تحت اگر کسی قبل راضی نامہ کیس میں سزا ہو جائے اور اپیل میں راضی نامہ ہو تو عدالت کی صوابدید ہوگی کہ اس کو تسلیم کرے یا نہ کرے جس کے الفاظ یوں ہیں!
“All questions relating to waiver or compounding of an offence or awarding of punishment under Section 310, whether before or after the passing of any sentence, shall be determined by trial Court”

مزید براں دفعہ 311 تعزیرات پاکستان کے تحت قتل کے کیس میں راضی نامہ ہونے کے باوجود عدالت اصول "فساد فی الآ رض" کے تحت تعزیر میں ملزم کو سزا دےسکتی ہے۔
اس سلسلے میں ذیل کا فیصلہ ایک نظیر ہے۔
“Ss. 302(b)1149, 186/149, 353/149, 148/149 & 311---Anti-Terrorism Act (XXVII of 1997), S.7---Criminal Procedure Code (V of 1898), S.345(2)---Constitution of Pakistan (1973), Art.185(3)---Parties had compromised the matter and compensation had already been received by the complainants---Permission to compound the offence, therefore, was accorded under S.345(2), Cr.P.C.---Accused, however, had committed the murder of two young boys who were confined in judicial lock-up in a brutal and shocking manner, which had outraged the public conscience and they were liable for punishment on the principle of "Fasad-fil-Arz"---Accused had taken the law in their hands without caring that police stations or Court premises were the places where law protected the life of citizens---Consequently, in exercise of jurisdiction under S.311, P.P.C. death sentence of two accused was reduced to imprisonment for life under S.302(b), P.P.C. and under S.7 of the Anti-Terrorism Act, 1997 on both the counts---Similarly, sentences of imprisonment for life awarded to two other accused under S.302(b), P.P.C. was reduced to fourteen years' R.I., but their life imprisonment awarded under S.7(b) of the Anti-Terrorism Act, 1997, was maintained on both the counts with benefit of S.382-B, Cr.P.C.---Remaining sentences awarded to accused were kept intact---All sentences were directed to run concurrently. (P L D 2006 Supreme Court 182)

ایسا ہی ایک فیصلہ PLD 2006 Peshawar page 82 ہے باقی عموما عدالتیں فساد فی الآ رض کی تعریف میں عموما سفاکی کے جز کو دیکھی ہیں۔ . مگر سندھ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلہ میں دہشت گردی کی دفعات ختم کردی کیونکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق ذاتی دشمنی کی وجہ سے کیا گیا جرم دہشت گردی کے ذمرے میں نہیں آتا۔
“Ss. 6 & 7---Act of terrorism---Scope---Occurrence which resulted due to a personal motive/enmity for taking revenge did not come within the fold of "terrorism"---Mere fact that crime for personal motive was committed in a gruesome or detestable manner, by itself would not be sufficient to bring the act within the meaning of terrorism or terrorist activities---Furthermore, in certain ordinary crimes, the harm caused to human life might be devastating, gruesome and sickening, however, this by itself would be not sufficient to bring the crime within the fold of terrorism or to attract the provisions of Ss. 6 or 7 of the Anti-Terrorism Act, 1997, unless the object intended to be achieved fell within the category of crimes, clearly meant to create terror in people and/or sense of insecurity. (2017 S C M R 1572)

اب ٹرائل کورٹ راضی نامہ کو تسلیم کرنے کی پابند تھی ۔جس سے شاہ رخ جتوئی کی رہائی کی راہ ہموار ہوگئی ۔ مگر اب بھی سرکار سندھ ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ اپیل دائر کرسکتی ہے۔ جو یقیناً وہ نہیں کریگی مگر پرائیویٹ سطح پر دائر کر دی گئی ہے۔اس مقدمہ سے ایک بار پھر اس تاثر کو تقویت ملی کہ پاکستان میں امیر آدمی کے سزا سے بچنے کے بہت سے راستے ہوتے ہی,مگر درحقیقت ایسا بالکل نہیں ہے اس قانون کے تحت ہر طبقے کے افراد فیض یاب ہوئے ہیں اور یہ قانون خاندانوں کی دشمنوں کے کے اختتام کا سبب بھی بنتا ہے. مگر اگر اس قانون سے کسی کو اختلاف ہے تب اس کی تبدیلی اسمبلی سے ہی ممکن ہے بذیعہ ترمیم کیونکہ فیڈریل شریعت کورٹ (PLD 2017 page 8 FEDERAL-SHARIAT-COURT ) سے ایسی ایک پٹیشن جس میں متعلقہ دفعات 306 (b) اور (c), 307(1) (b) اور (c), 309(1), 310(1) کوچیلنج کیا گیا تھا رد کر دی گئی ہے ۔

5/04/2017

بدمعاش ہیرو

ہمارے رویےہماری شخصیت کا آئینہ ہوتے ہیں۔ ہماری شخصیت کی تعمیر میں وہ تمام عوامل شامل ہیں جن سے ہم متاثر ہوں ۔ گزشتہ چند سالوں سے ہماری درمیان ایک ایسی نسل پروان چڑ چکی ہے جو بدمعاشی، گالی ، بدتمیزی، پگڑی اچھالنے اور اوچھے پن کو قابل ستائش جانتی ہے اگر یہ اس فرد کے بارے میں یا کے لئے ہو جو ان  کی نظر میں ظالم ، چور یا برا ہے۔
ہمارے رویوں میں ایک خاص خامی جو داخل ہو چکی وہ یہ کہاگر ہم نے خود کو کسی گروہ سے منسلک کیا تو ہم اس کے ہر برے فعل کے لئے بھی نہ صرف جواز تلاش کرتے ہیں بلکہ اس کو درست قرار دینے کے لئے جھوٹ (پروپیگنڈے) تک کا سہارا لے لیتے ہیں۔ایسے رویے کو شخصیت کا حصہ بنانے میں ہمارے لکھاریوں و میڈیا نے بہت اہم کردار ادا کیا۔جنہوں نے ناانصافی کا خاتمہ لاقانونیت سے کرنے کا درس اپنے قصےکہانیوں سے دیا ۔
غلط راستہ درست منزل تک نہیں لے کر جا سکتا۔اونچی عمارتیں مضبوط بنیادوں کے مرہون منت ہوتی ہیں اور مضبوط بنیادیں غیرمیعاری مواد سے نہیں رکھی جاسکتی، پھر ہم غلط رویوں اور کمزور کرداروں سے ایک بہتر معاشرہ کیسے تعمیر کر سکتے ہیں۔

گزشتہ دنوں ضلع عمر کوٹ کی تحصیل کنری کے تھانے میں ایک مقامی وڈیرے کی ایس ایچ او سے بدتمیزی کی ویڈیو ایسی ہی ایک رویے کی عکاس ہے۔


محکمہ آب پاشی سے پانی کی باری پر شروع ہونے والا جھگڑا وڈیرے کے نقظہ نظر سے ظالم کا ہاتھ روکنے کی کاوش دراصل لاقانونیت کا مظاہرہ تھی۔ یہاں بھی دونوں طرف کے گروہوں نے سوشل میڈیا پر اپنے اپنے ہیرو و ولن کی حمایت میں کہیں آدھے سچ اور کہیں پورے جھوٹ کا سہارا لیا۔
واقعہ کی جزیات اور حقیقت کے بیان سے بڑھ کر اہم یہ کہ ہم خود یہ جان لیں کہ اندھیرے کو روشنی سے ہی ختم کیا جاسکتا ہے۔ ایڈونچریس اور بدمعاش ہیرو پردے کی اسکرین پر تو گلیمر بکھیر سکتے ہیں مگر حقیقی زندگی میں اس آندھی کی ماند ہے جو تباہی پھیلاتی ہے اور ان جلتے دئیوں کوبھی بجھا دیتی ہے جو کسی حد تک روشنی کی وجہ تھے۔

8/23/2015

بابے پھر بابے ہوتے ہیں

کہنے کو اس مضمون کا عنوان بزرگ بھی ہو سکتا تھا مگر بزرگی میں شرارت ہو سکتی ہے مسٹنڈاپن نہیں اس لئے بابے ہی ٹھیک لگتا ہے. ہمارے دور کے مسٹندے کچھ ذیادہ لوفر ہو گئے ہیں مگر پہلے کے لوفر بھی اتنے مسٹندے نہیں ہوتے تھے. یہ بابے اپنی جوانی کے دل لبھانے والے جھوٹے سچے قصے سنا کر جس طرح جوانوں کی چوری پکڑتے ہیں وہ ان کا کی حاصل ہے.


ایسے ہی ایک بابے کے منہ سے ایک بار سننے کو ملا کہ کیا دور آ گیا ہے ایک ہمارا دور تھا جب لڑکوں کے دوست اور لڑکیوں کی سہیلیاں ہوتی ہے اب تو لڑکوں کی سہیلیاں اور لڑکیوں کے دوست ہوتے ہیں. تب ہم کسی لڑکی کے قریب ہوتے تو وہ فٹ سے کہہ دیتی دیکھو مجھے دھوکہ نہ دینا ایسا نہ ہو کہ کل کو کسی اور سے شادی کر لو ہم لڑکیاں بہت حساس ہوتی ہیں کسی کو ایک بار اپنا کہہ دیا تو پھر ساری عمر اسی کی ہو کر رہ جاتی ہیں اور ایک آج کی چوکریاں ہیں دوستی کے دوسرے دن ہی نوٹ کروا دیتی ہیں کہ دیکھو سنجیدہ نہ ہو جانا میں بس ٹائم پاس کر رہی ہوں کل کو تو کون اور میں کون.


یہ بابے وقت کے بدلنے کے بارے میں بتاتے ہیں کہ پہلے گھر بناتے وقت گھر والوں کے ساتھ ساتھ مہمانوں کے لئے بھی ایک حصہ ہوتا تھا مہمان خانے میں مہمان کی خدمت کو ایک بندہ مختص ہوتا تھا آج کی طرح نہیں کہ صرف صوفہ سیٹ ہو بلکہ پلنگ یا چارپائی ہوتی کہ آنے والا مہمان آرام کرتا. پہلے مہمان کو رحمت تصور ہوتا تھا اور آج اپنے رویے سے رہ مت کہا جاتا ہے .


ان بابوں سے اس لئے بھی ڈر لگتا ہے کہ قصے سنا کر نصیحتیں کرتے ہیں. ان کے پاس ملا دوپیازہ ہے، ملا لٹن ہے، متایو فقیر ہے، جٹ مانا ہیں. یہ اپنے اپنے علاقوں کے کرداروں کے نام لے کر مختلف قصوں کی مدد سے مخصوص سبق سکھانے کے لئے ہنسی مذاق میں سنا ڈالتے ہیں. ہم جیسے لونڈے انہیں لاکھ کہیں کہا یہ کردار خیالی ہیں، یہ قصے جھوٹے ہیں. یہ بابے باز نہیں آتے پھر سے کسی اگلی نشست میں ان کرداروں کے قصوں کی مدد سے شخصیت کی تعمیر کرنے بیٹھ جاتے ہیں.


ایک محفل میں رشوت کی افادیت پر بحث ہو رہی تھی ایک بابا جوش میں دونوں ہاتھ ہوا میں کھڑا کر کے بولا مجھے ذیادہ نہیں معلوم بس اتنا جانتا ہوں کہ کچھ حرام کے تخم سے ہوتے ہیں کچھ کا تخم حرام کا ہوتا ہے اول ذکر جنتی ہو سکتا ہے اگرچہ اس کے ماں باپ جہنمی ہو مگر ثانی ذکر جہنم کی آگ کا ایندھن ہو گا . پوچھا بابیوں کہنا کیا چاہتے ہو کہنے لگے کچھ ماں باپ کی حرام کاری کی وجہ سے حرامی نسل ہوتے ہیں اور کچھ اپنی کمائی کی وجہ سے! یہ رشوت خور والے دوسری قسم کے حرامی ہیں جو اپنی نسل کو بھی حرامی بنا دیتے ہیں. ایسے سخت جملے سننے کے بعد ہمارے کئی دوستوں نے اس بابے سے ملنا چھوڑ دیا.


یہ بابے اپنی عمر کو اپنا تجربہ بتاتے ہیں. یہ سامنے والے کی نیت کو اس کے اعمال سے پرکھنے کے قائل معلوم ہوتے ہیں ان کے یہاں benefit of doubt بہت ذیادہ پایا جاتا ہے. ایسے ہی ایک بابا جی کہا کرتے ہیں کہ برا وہ جس کی برائی پکڑی جائے چاہے اس نے کی بھی نہ ہو اور اچھا وہ جو پکڑ میں نہ آئے. ہم نے کہا بابیوں اب تو بدنامی بھی نامور کر دیتی ہے تو کہنے لگے جیسے لوگ ویسا ان کا ہیرو ہوتا ہے ہر طبقہ و گروہ کا اپنا رول ماڈل (ہیرو) ہو گا ناں. بات پلے نہ پڑی تو ہم نے کندھے اُچکا دیئے، دھیمے سے مسکرا کر بولے وکیل ہو تم؟ ہم نے سر کی جنبش سے ہاں کی. کہنے لگے وکیلوں میں سے تمہارا آئیڈیل کوئی بڑا قانون دان یا جج ہو گا ایک ڈاکو نہیں ایسے ہی جو جس شعبے کا بندہ ہے اس کا رول ماڈل اس ہی شعبے کا بندہ ہو گا ہر فرد کسی اپنے ہم پیشہ یا ہم نظریہ و عقیدہ کو ہی ماڈل بناتے ہیں. ہم نے کہا کہ اگر کوئی کسی دوسرے شعبہ کے بندے کو اپنا رول ماڈل بنا لے تو! کہنے لگے وہ بہروپیا ہے جو ایسا کرتا ہے. ہم اس کی بات سے متفق نہیں تھے مگر کسی سخت جملے سے بچنے کے لیے خاموش رہے.


حالات و زمانے کا رونا رونے والی ایک محفل میں اہل محفل جب حاکموں کے برے کردار کو زیر بحث لائے تو ایک اور بابا جی رائےزنی کرتے ہوئے گویا ہوئے خود کو بدل لو اچھا حاکم میسر آ جائے گا چوروں کا سربراہ چوروں میں سے ہی ہو گا جیسے ہم ویسے ہمارے حاکم.


ہمارے دوست جوانی میں ہی بابا جی ہو گئے ہیں. ان کا پسندیدہ موضوع رویے ہیں. وہ لوگوں کے رویوں پر خیال آرائی کرتے رہتے ہیں؛ ہمارے علاوہ باقی سب ہی ان کے خیالات کو سراہتے ہیں. اولاد کی تربیت پر بات ہو رہی تھی کہنے لگے اگر گھر کے سربراہ کے مزاج میں سختی ہو تو اولاد باغی ہو جاتی ہے. ملک کا حاکم و خاندان کا سربراہ اگر ہر معاملہ میں اپنی مرضی مسلط کرنے لگ جائیں تو بغاوتیں جنم لیتے ہیں اور زندگی کی آخری سانسیں تنہائی میں گزرتی ہے اگر اولاد کی قربت نصیب بھی ہو تو صحبت نصیب نہیں ہوتی.


ہمارے ایک دوست ایک مشکل میں پھنس گئے تلاش ہو رہی تھی کسی اثر رسوخ والے بندے کی اسی سلسلے "غلطی" سے ایک بابا جی سے آمنا سامنا ہوا کہنے لگے جس کے پاس بھی جاؤ گے اس کے اثر رسوخ میں اضافہ کا باعث بنو گے! جو آج کام آئے گا کل کام بھی لے گا اور احسان مند تم ہی رہو گے اور جو کام کا آسرا دے گا وہ بھی کل کو کام نکلوا لے گا جو کرنا ہے خود کرو. ہمارے دوست بابے کی باتوں میں آ گئے اور اب وہ خود کافی اثر رسوخ والے بندے ہیں.


بابیوں کی کوئی عمر، نسل، عقیدہ اور تجربہ لازمی نہیں بقول ہمارے ایک بابا صفت دوست کہتے ہیں بابا وہ جو رمز کی بات کہہ دے. ہم نے تو سیکھ لیا ہے ان بابیوں کی بات کو ایسے اگنور کرو جیسے یو این او کشمیر کے مسئلہ کو اگنور کرتی ہے. ان کی قربت شخصیت میں موجود "ضروری" خامیوں کے نقصاندہ ہو سکتی ہے. کیا آپ کا کبھی کسی بابے سے واسطہ پڑا ہے؟


8/14/2015

پاک وطن چاند ستارے والا!

اس سال بارہ اگست کو بنوریہ آرگنائزیشن و اردو سورس کے تعاون سے ہونے والے ایک تقریب میں شرکت کی جس میں امانت اللہ و نورجہاں کے گائے ہوئے گانے کا اسلامی ریمکس ورژن جاری کیا گیا. شاید یہ کسی مدرسہ کی جانب سے ملی نغمہ کی پہلی پروڈکشن ہے. آپ اسے ایک عمدہ پروڈکشن تو کہہ سکتے ہیں مگر تخلیقی کام نہیں.
اس سے قبل بنوریہ آرگنائزیشن نے علامہ اقبال کے کلام لب پہ آتی ہے دعا کا بھی اسلامی ریمکس ورژن کا اجراء کیا ہے دونوں پروڈکشن میں مفتی نعیم سمیت کئی دیگر علماء و طالبات کے محبت بھرے پیغامات ہیں.
Aye Watan Payare Watan (Pak Watan) - Binoria Media


پشاور آرمی پبلک اسکول کے سانحہ کے بعد مذہبی حلقے جس مخصوص دباؤ کا شکار ہیں اس دباؤ کو کم کرنے کی کوشش معلوم ہوتی ہے. اس پلیٹ فارم پر مقررین کا ذیادہ زور اس بات پر تھا کہ ہم مدرسہ والے ہیں بندوق والے نہیں، ایسے ہی جیسے کچھ مکتبہ فکر (میں ان میں سے ہوں) والے کہتا ہے کہ ہم دم درود والے مولوی ہیں بم برود والے نہیں. ذاتی طور پر مجھے مذہبی حلقوں کا یوں پچھلے قدموں پر جا کر ایسے اقدامات کرنا اور خود کے بنیاد پرست نہ ہونے کا اظہار کرنا اچھا نہیں لگا. اس قسم کے پروڈکشن جدت سے منسلک ہونے کی بناء پر کرنا ٹھیک ہے مگر ردعمل میں کرنا کمزوری و چوری کا اظہار لگتا ہے .

ہم ایک ایسا ہجوم ہے جس کو دوسروں پر تنقید کرنے اور ان کو دیوار سے لگانے میں خوشی ملتی ہے .
اب ایسے میں اس تنقید کے ممکنہ ڈر سے اور اپنے سافٹ امیج ابھارنے کو سامنے والا جو یہ قدم اٹھائے گا اب بھی اس پرتنقید ہو گی کہنے والوں کی زبان بندی ممکن نہیں، حلال موسیقی کی اصلاح کے پیچھے چھپے طنز کو سمجھنا ذیادہ مشکل نہیں. ہم غلط کو غلط جان کر اس میں پر قائم رہنے والہیں اور نیکی کی تلقین کرنے والے کی غلطیوں کو اس پر تنقید کرنے کا جواز مانتے ہیں.

نظریات کے اختلاف کو ذاتی نفرتوں و دوریوں کو سبب بنانے سے اجتناب کریں. قائل کرنے کی کوشش کو مسلط کرنے کی جدوجہد میں نہ بدلیں. کسی کی چوری پکڑنے کی خواہش سے ذیادہ بہتر اس بات پر شکر ادا کرنا ہے کہ اپنا پردہ و بھرم قائم ہے. یقین جانے زندگی سکون میں آ جائے گی.

  


6/16/2015

بھائی پر لطیفہ، طنز یا خوشامد؟

اہل علم نہایت سنجیدہ ہوتے ہیں ان کا مزاح بھی سبق آموز ہوتا ہے. زندگی کے کچھ شعبہ و پیشے ایسے ہوتے ہیں جن میں سنجیدہ نوعیت کے افراد کی ضرورت ہوتی ہے مراثی طبیعت و مسخرے مزاج افراد کا وہاں ہونا بگاڑ کا سبب بنتا ہے. سیاست و صحافت ایسے ہی شعبہ ہیں.


یوں تو ہمارے ملک کی سیاست میں قابل افراد کا قحط تو ہے ہی  اوپر سے اب مسخرے صفت افراد کی تعداد بھی بڑھنے لگی ہے. ایسا نہیں کہ سیاسی مسخرے پہلے نہیں ہوتے تھے مگر انہیں کبھی درجہ اول کے سیاست دان نہیں مانا جاتا تھا. جلسوں میں پارٹی قیادت کے جلسہ گاہ میں داخلے سے قبل عوام کو مصروف رکھنے کے لئے اب کی خدمات بشکل مقرر حاصل کی جاتی تھیں. پھر آہستہ آہستہ یہ کردار مقبول ہوئے اور مخالف پارٹی کی قیادت کو بے عزت کرنے کو آگے کئے جانے لگے ایک آدھ کو  اس بناء پر وزارت سے بھی نوازا گیا. جب وزارت کے حصول کے لیے مسخرہ پن بھی اہلیت بنی تو کئی سیاہ ست دان اس قابلیت کو اپنانے لگے. ماشاءاللہ اب اکثریت اس خوبی کی حامل ہے.


پیر و گدی نشین حاکموں کی قربت حاصل کرنے کو الہام و خواب کے من گھڑت قصوں کا استعمال کرتے ہیں. یہ خوابی قصے حاکم کی عظمت کو بیان کرنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں. منبروں سے ہونے والی سیاست نے جہاں ایسے کئی قصوں کو جنم دیا ہے وہاں ہی ایسے کئی کرداروں کو بھی اس قصہ گوئی کی بناء پر کامیابی سے ہمکنار کیا ہے. یہ بھی ایک المیہ ہے ایسے قصے و قصہ گو بعد میں کتابوں کی زینت بن کر "مستند " تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں.


ملک کی سیاست میں ارتقاء اب اس شعبہ کو اُس مقام پر لے آیا ہے جہاں خود پارٹی سربراہ گانوں کی گونج میں تقریر کرتا ہے، گا گا کر اپنا مدعا بیان کرتا ہے، لہک لہک کر ٹی وی اسکرین پر عجیب و غریب جسمانی حرکات کے ساتھ بیان فرماتے ہیں. ایسے میں آپ کیا خیال کرتے ہیں کہ قیادت کو خوش کرنے کو کیا کیا نہیں کیا جا سکتا؟ ابتدائی کاوشوں میں کہیں ناں کہیں کچھ غلطیاں تو ہو ہی جاتی ہیں . اس بار بھی ہو گئی، غلطیاں درست کرنے کے لیے ہی ہوتی ہیں اگلی بار کسی ایسے فرد سے منسوب کر دیں گے قصہ جو حیات ہو لیاقت علی خان و قائداعظم ان کے خواب میں آ کر "ہم نہیں ہمارے بعد، الطاف الطاف" کہے. حیران و پریشان نہ ہوں ابتداء میں ایسے بیان لطیفہ کی شکل میں وارد ہوتے ہیں جنہیں مخالفین بطور طنز استعمال کرتے ہیں اور بقایا بطور خوشامد. یہ برائی سب پارٹیاں اپنا چکی ہیں کسی کی پکڑی گئی اور کوئی بچ گیا.


اس لطیفے کو سنجیدگی سے لیا جانا خود میڈیا کی غیر سنجیدگی کو ثابت کرتا ہے. یہ خبر بریکنگ نیوز کے طور پر آئی تھی وہ تو شوشل میڈیا پر اس پر طنز ہوا تو شاید اس وجہ سے خبر کا رخ بدلا. ویسے میڈیا میں بھی تو مراثی و مسخرے داخل ہو چکے ہیں ناں. لہذا ان کا بھی غلطی نہیں ہے.


6/05/2015

روہنگیا: مظلوم ترین آبادی

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ 1982 میں شہریت سے متعلق قانون پاس ہونے کے بعد قریب اٹھارہ لاکھ مسلم آبادی پر مصیبتوں کے پہاڑ اتارے گئے خاص کر روہنگیا نسل کے مسلمانوں پر کہ انہیں برما (میانمار) کا شہری ماننے کے بجائے غیر ملکی قرار دیا گیا یوں ایک شہری کو حاصل تمام بنیادی حقوق سے اِس مسلم آبادی کو محروم کر دیا گیا یہاں تک آزادانہ نقل و حمل جیسا بنیادی انسانی حق بھی سلب کر لیا گیا مگر حقیقت یہ ہے کہ اس خطے میں روہنگیا نسل سمیت دیگر مسلمان آبادی پر سولہویں صدی سے ہی سختیاں شروع ہو گئی تھی جب جانوروں کی قربانی سے روکنے کے عمل سے مظالم کا آغاز ہو گیا تھا.
دنیا میں یہ کہاجاتا ہے کہ بودھ امن پسند ہیں ان کی تعلیمات کے مطابق انسانی جان کیا جانور کو مارنا بھی ظلم ہے. مگر میانمار کے معاملات سے تو یہ فقط "پراپیگنڈہ" لگتا ہے. مسلم کشی کو لیڈ کرنے والا بودھ بھگشواء ہی تو ہے. ایک سزا یافتہ، مذہبی تعصب کا شکار. اور قاتلوں کی فوج بودھ بھگشوؤں پر مشتمل ہے.
میانمار میں جس قسم کے قوانین پاس ہو رہے ہیں اور حکومت جس طرح کا رویہ اختیار کئے ہوئے ہے اس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس ساری بربریت و غارت گری کو سرکاری سرپرستی حاصل ہے. مسلم آبادی پر دو سے ذیادہ بچے پیدا کرنے پر پابندی عائد ہے. ایک مسلم خاندان پر لازم ہے کہ وہ دو بچوں کے درمیان کم از کم تین سال کا وقفہ لازم ہے. دوسری طرف میانمار صدر صاف الفاظ میں روہنگیا آبادی کو ملک چھوڑنے کا مشورہ دے چکا ہے.
ہم نے سنا تھا کہ عورت کا دل بہت نرم ہوتا ہے، چونکہ وہ ایک جان کو جنم دیتی ہے اس لئے انسانی جان کی قدر کو مرد کے مقابلے میں بہتر سمجھتی ہے، مگر معلوم ہوا کہ جب بات اقتدار کے لالچ کی ہو انسانی جان مسلم آبادی کی ہو تو ایک بودھ مذہب کی سیاستدان عورت کی جانب سے سوال کرنے پر بھی مذمت نہیں کی جاتی. انگ سان سوچی نے بھی ایسا ہی کیا یوں اس خیال کو تقویت پہنچی کہ امن کا نوبل انعام دراصل میرٹ پر نہیں پسند پر دیا جاتا ہے.
برما میں ہونے والی اس مسلم کشی میں وہاں کی حکومت، اپوزیشن اور مذہبی طبقے تمام کے تمام ایک ہی لائن پر ہیں، جس سے یہ تاثر قائم ہوتا ہے کہ عوامی سطح پر اس انسان کشی کو قبولیت کا درجہ حاصل ہے ایسے میں اس (روہنگیا) مسلم کشی  کا حل کیا ہو گا؟ بیرونی دنیا اور خاص کر مسلم دنیا کیسے انسانی جانوں کو بچا پائے گی؟ کیا بیرونی دنیا ان روہنگیا نسل کو اپنے یہاں پناہ گزیر کرے گی اور اگر ہاں تو کب تک؟
میانمار سے باہر ہونے والے احتجاج و مذمتی جلوس وہاں کے لوگوں کا ذہن نہیں بدلنے والے کم از کم اتنی جلدی نہیں کہ روہنگیا کی آبادی کی مزید بڑے نقصان سے بچ سکے. بیرونی دنیا کی پابندیاں ممکن ہے کسی حد تک بہتری کا راستہ نکال لیں مگر اصل حل یہ ہی ہے کہ کوئی ایسی قوت ہو جو قاتلوں کا ہاتھ موڑ سکے خواہ وہ مقامی آبادی سے نکلے یا بیرونی حملہ آوروں کی شکل میں! کیا مسلم دنیا ایسا ایڈوینچر کر سکی گی؟ نہیں تو بھول جائیں کہ آپ و میں میانمار کی روہنگیا آبادی کو بچا پائے گے البتہ روہنگیا مقتولین کے خاندانوں سے ایسے شدت پسندوں کی پیدائش ضرور ہو گی جو دوسروں پر رحم شاید نہ کریں.

5/27/2015

جعلی ڈگری، سچی صحافت

دھوکہ و فراڈ ایک جرم ہے، جرم قابل سزا ہوتا ہے. ملزم کے مجرم بننے تک کے درمیانی سفر میں کئی ایسے مقام آتے ہیں جب اپنے و مخلص پہچانے جاتے ہیں. ہمارے ایک دوست کہا کرتے ہیں مجرم کو اس کے جرم کی سزا دلانا اس سے دوستی و محبت کی ایک شکل بھی ہو سکتی ہے اور اس کو بچا لینا اس سے دشمنی.
ہمارے ملک میں حرام کی کمائی سے حج کرنا ہی نہیں بلکہ اس پر زکوۃ و صدقہ دینے کا بھی عام رواج ہے. جو  نوکری پیشہ حلال کمانے کے دعویدار ہیں ان میں سے بھی کئی میری طرح کے ہیں جو نوکری پر آدھ گھنٹہ لیٹ جاتے ہیں اور پونے گھنٹہ پہلے نکل لیتے ہیں کہ کام ختم ہو گیا اور سرکاری گھاتوں میں ہونے والی بے قاعدگیوں سے یوں لاتعلق ہوتے ہیں جیسے کہ گونگے، بہرے و اندھے ہوں جبکہ معلوم سب ہوتا ہے.
ہر مارکیٹ کے اپنے بنائے ہوئے چند اصول ہوتے ہیں جس سے انحراف جائز ہوتا ہے مگر اس بے اصولی کا اقرار نہیں کیا جاتا یہ مارکیٹ کا سب سے بڑا و اہم قانون ہوتا ہے.
اصلی یونیورسٹی اصلی ڈگریوں کے ساتھ ساتھ "دیگر" اسناد کا بھی اجراء کر دیں تو لینے والا مجرم ہوتا ہے مگر جعلی یونیورسٹی کی ڈگری دینے والا مجرم ہوتا ہے یہ ہی اصول ہے یہ ہی قانون. اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ خریدار خود بھی دونمبر مال کی تلاش میں تھا.
صحافت ایک نوبل پروفیشن ہے صحافی کے لئے، ان کے مالکان کے لئے یہ صنعت ہے. صنعت کوئی بھی ہو مقصد پیسہ بنانا ہوتا ہے.  اس صنعت میں سب سے ذیادہ بکنے والی شے جھوٹ ہے. یہاں سچ نہ بولنے پر بھی پیسہ کمایا جاتا ہے بس مرضی کی قیمت لگ جائے. میڈیا مالک صحافی کی ضرورت کی بولی لگاتا ہے، بیچارا صحافی اپنی مجبوری کی قیمت پر بک جاتا ہے.
اگر حرام کی کمائی سے بنائی گئی مسجد میں نماز پڑھنے والے نمازیوں کی نماز کی قبولیت کے سوال کرنا درست نہیں اور نماز کی قبولیت پر شک نہیں تو آنے دیا جائے ایک ایسا میڈیا گروپ جس سے صحافی کی قیمت اس کی مجبوری و ضرورت کو دیکھ کر نہیں قابلیت کو دیکھ کر ادا کی گئی ہو تاکہ سچ بولنے کی قیمت لگے چھپانے کی نہیں، جھوٹ نہ بولنا اصول ٹھہرے قیمت نہیں. ہاں حرام کی کمائی کمانے والا یا قانون شکنی کرنے والے کا معاملہ الگ ہے.
ضمیر کی آواز پر لبیک کہنے کے دعویدار اصولوں کے کتنے بڑے سوداگر ہے ہم جانتے ہیں.
(یہ میری رائے ہے اختلاف آپ کا حق ہے)


11/19/2014

تھر کا قحط، گداگری اور ہم

آپ روزانہ میڈیا میں تھر میں مٹھی کے سول ہسپتال میں نومود بچے کی ہلاکت کی خبر سنتے ہیں اور خبر کی جزیات سے یہ تاثر لیا جاتا ہے کہ یہ اموات ضلع میں قحط کی وجہ سے ہیں۔ قحط سے مراد کم یابی یا نایابی یا کال ہے تو معذرت تھر میں قحط نہیں مگر قحط سے مراد ہم یہ لیں کہ بازار میں کھانے کو ہے مگر جیب میں خریدنے کو کچھ نہیں تو یقین جاتے یہ قحط ملک کے کئی گھروں میں ہیں ۔ ایسے گھروں کے مکینوں کو ہم غریب کہتے ہیں اور یہ غربت واقعی تھر میں ذیادہ ہے۔
اس سال تھر میں کم بارشیں ہوئی ہیں، کسی حد تک فصل نہیں ہوئی پائی یہاں کاشت کاری بارش پر منصر ہے مگر معمول سے کم بارش ہونے سے نہ تو اچھی فصل ہو پائے گی اور نہ جانوروں کے لئے چارہ۔ مگر عمومی حالت قحط کی سی نہیں ہاں اگلے سال بارش نہ ہو تو خوراک کی نایابی کے امکان کو رد کرنا مشکل ہو گا۔
نومولود بچوں کی ہلاکت کی اصل وجہ زچہ کو دوران حمل اچھی خوراک کا نہ ملنا ہیں ۔ دوسرا طبعی سہولیات کا فقدان ہے۔ مٹھی شہر کے ہسپتال میں بچوں کے لئے سہولیات ضلع کے باقی ہسپتالوں کے مقابلے میں بہتر ہیں۔ اس لئے آخری کوشش کے طور پر نومود بچوں کوعموما تب اس ہسپتال میں پہنچتے ہیں جب وہ ڈاکٹر کے علاج سے بھی زندگی کی جدوجہد جیتنے کے قابل نہیں رہتے
۔ قحط سے مراد کمی یا نایابی ہے ، مگر یہاں تھر میں خوراک کی کمی یا نایابی نہیں ہے البتہ تعلیم، طبعی سہولیات ، مواصلات کی کمی یا نایابی ضرور ہے۔ ملک کے باقی حصوں کی طرح یہاں بھی کرپشن و انتظامی بد عنوانی پائی جاتی ہے۔ حکومت نے پانی کی فراہمی کے لئے مختلف جگہوں پر water plant لگائے ہیں مگر کرپشن و انتظامی بد عنوانی کی بناء پر ان پلانٹس کو چلانے کی رقم خردبرد ہو جاتی ہے یوں یہ پانی کی فراہمی کے پلانٹس یا تو بند ہے یا بہت کم کام کرتے ہیں۔
میڈیا تصویر کا اصل رُخ دیکھانے کے بجائے وہ رُخ دیکھا رہا ہے جو اصل حقیقت نہیں۔ الیکٹرونک میڈیا کی نمائندے مٹھی شہر آتے ہیں رات ریسٹ ہاوس میں گزارتے ہیں صبح ماروی کا گاوں گھومنے جاتے ہیں، ننگر کی جھیل ، مسجد و مندر کی سیر کرتے ہیں اور شام میں ایک پروگرام ریکاڑد کر کے قحط قحط کا شور مچاتے ہیں۔ کیا اچھا ہو کہ وہ بتائیں کہ تھرپارکر کے ضلعی ہیڈکواٹر کے علاوہ مقامی تحصیلوں کے دور دراز علاقوں میں طبعی سہولیات کی فراہمی نومود بچوں کو موت سے بچا سکتی ہے۔ وہ بتائیں کہ مقامی لوگوں کو آگاہ کیا جائے کہ زچہ کو دوران حمل عمدہ خوارک صحت مند بچے کی پیدائش کا سبب بنی گی ۔
مگر یوں لگتا ہے کہ ہم گداگر بنتے جا رہے ہیں ہماری مثال باحیثیت قوم اُس بندے کی سی ہوتی جا رہے ہے جو سڑک کنارے سگنل بند ہونے پر کھڑی گاڑیوں کے مسافروں کواپنا زخم دیکھا کر کہتا ہے "اللہ کے نام پر دیتا جا رے، جو دے اُس کا بھی بھلا جو نہ دے اُس کا بھی بھلا" ۔۔۔۔۔۔ قحط کا شور ہمارا ایسا ہی زخم ہے۔

7/22/2011

خبر ہوئی کیا خبر ہے؟

شہر میں افواہ چل رہی ہو تو تمام نہ سہی یار لوگ کہتے ہین کچھ تو سچ ہوتا ہے ہے۔ اب کیا کریں کہ ایک خبر کے ساتھ ہی وکلاء برادری میں بھی افواہ چل پڑی ہے! خبر کیا ہے؟
خبر یہ ہے کہ جناب سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس محترم طفیل ایچ ابراہیم صاحب نے استعفی دے دیا ہے! خبر میں "حقیقی" و "آفاقی" حوالہ تو ہے مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ محترم کے پاس "اہلیان کراچی" اور "کراچی لورز" نامی دیواری چاکنک کے اصل ماں باپ کے مخالف کے کیس کی نہ صرف تنسیخ کی درخواست دائر ہے بلکہ ضمانت بھی مانگی گئی ہے۔ "آفاق" میاں گزشتہ آٹھ دس سال سے جیل میں ہیں باقی کیسوں مین ضمانت مل چکی مگر اب ایک ہی کیس رہ گیا ہے! اب جبکہ 21 اپریل کے گزٹ میں یہ قانونی ترمیم متعارف ہو چکی کہ اگر قتل کے کیس کے مجرم کا مقدمہ دو سال مین ختم نہیں ہوتا تو اُسے ضمانت پر رہا کر دیا جائے گا۔
اب افواء عام ہے کہ محترم جسٹس صاحب کی ذاتی وجوہات دراصل "خطرہ جان ہے" کیونکہ ضمانت تو بنتی ہے مگر جو "بیان" پر مشتعل ہوتے ہیں، شہر میں مئی کے مہینے میں "عوامی طاقت" کا مظاہرہ کرتے ہیں! اُن کا پریشر جسٹس صاحب برداشت نہ کر سکے!
سچ کیا ہے یہ تو اللہ ہی جانتا ہے۔ ہم تو بس افواہ کی بات کر رہے ہیں۔

اپ ڈیٹ؛ لیں جناب ایک اور جج نے کیس کی سماعت سے انکار کر دیا۔ یہ ہے مافیا کی طاقت خاص کر جب وہ سیاست میں بھی ہو اور اقتدار کا حصہ بھی۔ مگر لوگ ہیں کہ مانتے ہی نہیں۔

7/03/2011

ہم کہیں گے تو شکایت ہو گی

امریکی اسٹیٹ ڈپاٹمنٹ کی ویب سائیڈ پر اگر "سفارت کار ہو حاصل استہقاق" والی دستاویز کے صفحہ 164 پر درج ہے

In order to understand  that some control must be retained, one need only  recall the sense of outrage expressed by U.S. Citizens  whenever diplomatic immunity thwarts prosecution of  a serious crime by a diplomat assigned to the United  States. For this reason, the principle developed that  all persons enjoying privileges and immunities also  have the obligation and duty to respect the laws and  regulations of the receiving state. This principle is  expressly stated in both the VCDR and the VCCR

یعنی کہ امریکی حکومت کے بیان کردہ اصولوں میں یہ بات تو تسلیم کی گئی ہے کہ 'استہقاق کے حامل افراد کی یہ ذمہ داری و فرض ہے کہ وہ متعلقہ ریاست کے اصول و ضوابط اور قوانین کا احترام کریں'

اردو محفل کی اس پوسٹ سے معلوم ہوا کہ اسلام آباد میں موجود امریکی سفارت خانے میں پاکستان میں ہم جنس پرستوں کے جشن کی تقریب منعقد کی، پاکستان میں امریکی تعاون سے منعقد ہونے والی یہ پہلی ہم جنس پرستوں کی محفل تھی۔ یہ تقریب گزشتہ ماہ 26 جون کو منعقد کی گئی۔
یعنی گزشتہ ماہ کے آخری عشرے میں کم و بیش اس طرح کی دو تقریبات ہوئی اور ایک کو مقامی اخبارات میں من چاہی کوریج ملی! انگریزی و اردو دونوں اخبارات میں۔ پہلی تقریب جو نتھیا گلی مین ہوئی اُس کو بی بی سی نے کوریج دی۔
ہم جنس پرستی اور جنسی بے راروی ہمارے معاشرے میں درست طور پر غلط سمجھے جاتے ہیں اور ہمارا مذہب ان واہیاتیوں کی اجازت بھی نہیں دیتا اور اس ہی لئے ہمارے ملک میں موجود قوانین کے تحت یہ قابل گرفت عمل ہے۔ بات یہاں تک ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر ہر فورم پر پاکستان نے ایسے کسی بھی عمل و قانون کی حمایت سے انکار کیا جس سے ہم جنس پرستی کی حمایت کرنا مقصود ہو۔ اس کی تازہ ترین مثال بھی گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کے فورم پر امریکہ کی جانب سے ہم جنس پرستی کی حمایت میں پیش کردہ قرارداد کے موقع پر پاکستان کے نمائندہ ضمیر اکرام نے صاف طور پر کہا تھا یہ "ہم جنس پرستی کسی طور پر بنیادی انسانی حق نہیں ہے" اس کے باوجود امریکی سفارت خانے کا یہ عمل کہ پاکستان میں ہم جنس پرستوں کی تقریب منعقد کرنا اور  امریکی سفارت کار رچرڈ ہوگلینڈ کی طرف مکمل حمایت کا یقین دلانہ ایک غیر مہذب عمل اور اپنے کی بیان کردی سفارتی آداب کے خلاف ہے۔ پریس ریلیز کا متعلقہ حصہ

Addressing the Pakistani LGBT activists, the Chargé, while acknowledging that the struggle for GLBT rights in Pakistan is still beginning, said “I want to be clear: the U.S. Embassy is here to support you and stand by your side every step of the way.

جہان ہم سمجھتے ہیں کہ امریکی حکومت اور اُس کا سفارت خانہ اپنی اعمال پر خود توجہ دے اور پاکستانی عوام کے جذبات اور قوانین کا احترام کرے وہاں حکومت وقت سے بھی یہ امید رکھتے ہیں تعاون و تعلقات کو غلامی کی حدود سے باہر رکھے اور ایسے معاملات میں سخت موقف اختیار کرے۔ مگر لگتا یہ ہے کہ دونوں کام نہیں ہونے۔

6/10/2011

المیہ تو المیہ ہی ہے

سچ کو اپنی سچائی کے لئے کیا کسی کی گواہی کی ضرورت ہے؟ اگر ہاں تو یہ سچائی کے ساتھ ذیادتی ہی نہیں بلکہ ایک المیہ ہے۔
کراچی میں ہونے والی رینجر کے ہاتھوں ہونے والی دہشت گردی پر میرا وہ ہی ردعمل ہے جو سیالکوٹ والی سفاکی پر تھا!۔
دونوں واقعات کی بربریت کے گواہ اور شاہد کیمرہ مین میری نظر میں اس سفاکی و بربریت کء معاونین میں سے ایک ہیں۔

5/08/2011

ہارن آہستہ بجائیں!!

یوں تو ذاتی طور پر مجھے شہر کی دیواروں پر کی گئی چاکنگ ہر اچھی نہیں لگتی۔ بات بہت سادہ ہے کہ یہ شہر کے حسن کو خراب کرتی ہے۔ ہر سیاسی جماعت اپنے ممکنہ ہونے والے سیاسی جلسہ اور موقف کا اظہار ان دیواروں کو کالا کر کے دیتی ہے! اس کے علاوہ "------” کمزوری، کالے جادوں، ممکنہ جسمانی بیماریوں، آج کل چند ٹی وی پروگرام ککی تشہر بھی، مذہبی جماعتوں و گروہوں کے نعرے اور دیگر معاملات کا اظہار بھی وال چاکنگ کے ذریعہ ہوتا ہے۔
ملیر بار کے سیکٹری جنرل جو کے ایبٹ آباد سے تعلق رکھتے ہیں کل ہے اپنے شہر گئے! آج اُن کا ایک ایس ایم ایس ہمین موصول ہوا! ایس ایم ایس کیا تھا ایبٹ آباد میں موجود عوامی رائے کا اظہار تھا اُن کے بقول انہوں نے پی ایم اے ایبٹ آباد کے قریب دیوار پر لکھا ہے!
ہارن آہستہ بجائیں، آرمی سو رہی ہے"
یہ جملہ 2 مئی کے والے قصے کے بعد تحریر ہوا ہے۔


3/30/2011

کھلی چھٹی سے آدھی چھٹی تک

“اوئے بڑی جلدی میں ہے، کہاں جا رہا ہے؟"
یار میچ ہے گھر جا رہا ہوں
“تو بھی آدھی چھٹی کما کر آ رہا ہے"
ہاں یار، ہماری تو آدھی چھٹی تھی اور تمہاری؟
“ہماری پوری چھٹی تھی"
یار سمجھ نہیں آیا وفاق نے آدھی چھٹی دی اور صوبے نے پوری کیوں؟
“سیدھی سے بات ہے جس کو جتنی چھٹی ملی ہوئی ہے اُس نے اتنی چھٹی عوام کو دی"
مطلب کیا ہے؟
“دیکھ ہار بڑے صاحب نے گیلانی صاحب کو آدھی چھٹی دے رکھی ہے اور آدھی گیلانی کے مخالفین کو تو گیلانی نے آدھی چھٹی عوام کو دی"
بات سمجھ میں نہیں آئی مگر چلو یہ بتاو پھر سندھ میں پوری چھٹی کیوں ہے؟
“لے یار پہلے تو یہ بتا سندھ میں چھٹی کس نے کی؟"
وزیراعلی و گورنر نے۔
“دیکھ اب سمجھ، سندھ میں آدھی چھٹی ملی ہوئی ہے قائم شاہ و کمپنی کو اور آدھی چھٹی ملی ہوئی ہے لندن والی سرکار و کمپنی کو، آپس کی بات ہے وہ جو ولی صاحب و کمپنی کو آدھی چھٹی ملی ہے ناں اُس کا کچھ استعمال وہ بھی سندھ میں کر لیتے ہے"
تو پھر؟
“تو پھر کیا؟ آدھی چھٹی گورنر کی اور آدھی وزیراعلی کی ہو گئی ناں کھلی چھٹی۔ جانو جس کو جتنی چھٹی ملتی ہے نا اُتنی ہی وہ آگے دیتا ہے"
کیا ہودہ وضاحت دی ہے۔

3/29/2011

پاک بھارت سیمی فائنل اور ہندوستانی چینل

خرم ابن شبیر کے بلاگ پر آپ نے انڈین میڈیا کی پاک بھارت سیمی فائنل کے بارے میں خبرون کا جائزہ تو لیا ہو گا۔ ہم نے لگے ہاتھوں ذیل میں چند ایسی ہی
دلچسپ خبروں کو جمع کیا ہے کہ کیسے انڈین میڈیا پاکستانی ٹیم کی توہین کر رہا ہے ۔ وقت ہو تو ایک نظر اس پر ڈال لیں۔

























دلچسپ بات یہ کہ بھارتی میڈیا نے اپنی ٹیم کو بھی میچ فیکس کرنے کے الزام ست سرفراز کیا ہے۔ وہ کدھر ہے آئی سی سی؟




10/20/2010

زخمی کراچی

آج  کراچی بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تھا او معافی چاہتا ہوں آج یوم سوگ تھا کراچی میں۔ طاقت کی لڑائی ہے، کراچی ایک بڑا شہر ہے بڑے شہر کو ہاتھ میں رکھنا ضروری ہے، خواہ "اُن" کو اس کے لئے "کچھ" بھی کرنا پڑے۔
افواہوں کا بازار گرم ہے، اور خوف سے شہریوں کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے، شہر میں خبروں کے مطابق کوئی پاکستانی نہیں مر رہا بلکہ مرنے والوں کی گنتی اُن کرتے وقت اُن کا پنجابی، پٹھان، مہاجر، سندھی اور بلوچی ہونا دیکھا جاتا ہے مارنے والوں کی پہچان بھی اس ہی فارمولے سے کی جا رہی ہے، اور تہذیبی انداز الزام لگانے کا یہ اپنایا گیا ہے کہ آپ لسانیت کے اس جھگڑے کو سیاسی گروہوں کی بنیاد پر یوں بتائے کہ کون ANP کا ہے، کتنے MQM کے اور کو پیپلز امن کمیٹی کا!
یہ لسانیت کی سیاست شہر سے انسانیت کو کھا رہی ہے، لسانیت و تشدد کے ملاپ سے پروان چھڑنے والی یہ سیاسی نفرت نے شہر میں بسنے والوں کو آپس کے خوف میں مبتلا کرنا شروع کردیا ہے، جیسے ہی میڈیا نے خوف کی اس فضاء میں کرفیو کی کی غیر مستند خبر نشر کی اہل فساد نے ساتھ ہی آپریشن کا شوشا بھی چھوڑ دیا۔اختلاف کو نفرت کے روپ میں سینوں میں پالنے والوں نے اپنی نفرت کے زیر اثر اُس پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا!
خدا خیر کرے لندن سے اسلام آباد تک سب مفاد کی جنگ میں طاقت کے حصول کے لئے لسانیت کی سیاست میں مبتلا ہیں۔ اور اُن کے اندھے پیروکار اس لڑائی میں "قوم" و "قومیت" کا تصور سمیٹ کر "بولی" تک کی طرف سفر میں گامزن ہے۔

لہو کے رنگ سے رنگین ہیں دیوارو در میرے
شہر سے ناگہانی موت کا سایہ نہیں جاتا
جواں لاشے ،تھکے کاندھے،لزرتے قدم ہیں میرے
الہٰی، کرم فرما،بوجھ اب یہ اٹھایا نہیں جاتا


10/01/2010

زمانے کے انداز بدلے گئے!


اور ہیرو کیسا رہا آپ کا دورہ؟
“ارے مت پوچھو دورہ تو اچھا رہا مگر واپسی پر بہت تلخ تجربہ ہوا یار"
ارے ایسا کیا ہو گیا تمہارے ساتھ جو ایسے برتاؤ کر رہے ہو!
“یار واپسی میں ڈاکوؤں کے ہاتھ چڑھ گئے تھے"
ارے نہیں یار! کیسے؟ اور کیا ہوا!
“کیسے کیا بس ہو گیا ناں! اب کیا تفصیل بتاؤ!”
ہمم چلو کیا نقصان ہوا؟
“کچھ ذیادہ نہیں بس بیس پچیس ہزار ہی گیا ہے مگر کئی لوگوں کا ذیادہ بھی ہوا ہے نقصان"
چلو جان ہے تو جہان ہے زندہ بچ گئے یہ ہی کافی ہے! نقصان کو پورا ہو ہی جاتا ہے۔
“ہاں یہ تو ہے، مگر اس لوٹ مار میں ایک عجیب معاملہ دیکھنے کو ملا"
وہ کیا؟
“یار ڈاکو مسافر سے اُس کا نام و قبیلہ پوچھتے تھے! پھر اُس کے مطابق اُس سے سلوک کرتے! پہلے پہل سید مسافروں کو ایک طرف کر دیا! میں نے دیکھا کہ سیدوں کے ساتھ کچھ نرم سلوک ہے تو میں بھی سید بن گیا"
شاباش! بڑی ذہانت دیکھائی، ویسے یہ تو ہے ہمارے یہاں سیدوں کا لوگ کافی احترام کرتے ہیں۔
“ارے کہاں بھائی! جب ڈاکوؤں نے سیدوں کو چھوڑ کر سب کو لوٹ لیا تو ایک ڈاکو کو مخاطب کر کے اُن کے لیڈر نے کہا '۽ اسان پنهنجو ڪم ڪري ڇڏيو، هاڻي اوهان پنهجي رشتیدارن سان نڀايو' (ترجمہ: ہم نے اپنا کام کر لیا ہے اب تم اپنے رشیداروں سے نمٹو)"
او نہیں یار!! مطلب سید ڈاکو؟
“ہاں بھائی"
مگر یہ آئیڈیا اُن کے دماغ میں کہاں سے آیا؟
“ممکن ہے موجودہ حکومت سے! بڑا وزیر بھی تو ۔۔۔۔۔۔۔"

نوٹ: اگر کسی کو یہ تحریر پسند نہ آئے تو اس تحریر نوٹ کو معذرت کے طور پر قبول کرے۔

9/06/2010

بھارتی فریب کا جال

پروپیگنڈہ میں بھارتی مہارت اور ان ہمسایہ ملکوں کیخلاف تیزی سے حرکت میں آنا جو اسکی خواہشات کی تعمیل نہیں کرتے یقیناً حیران کن ہے۔ پاکستان درحقیقت اس سے گرانقدر سبق سیکھ سکتا ہے کہ بھارت اپنی ظاہرہ ڈپلومیسی کو آگے بڑھانے کیلئے کس طریقے سے بیرونی پروپیگنڈہ کرتا ہے اور اس میدان میں امریکہ بھی اپنے اس سٹریٹجک اتحادی سے ایک یا دو سبق سیکھ سکتا ہے۔ بہرحال اس نے 60سال سے عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے جموں و کشمیر پر غیرقانونی قبضہ برقرار رکھتے ہوئے نہ صرف کشمیری عوام پر ظلم و جبر کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے بلکہ یہ سب کچھ وہ اقوام متحدہ سے کئے گئے اپنے اس وعدے جو کسی حقیقت کے باوجود کر رہا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں کشمیریوں کو حق خودارادی کے استعمال کی اجازت دیگا۔ بعض لوگ اس پر یقین رکھتے ہیں کہ یہ عملی سیاست سے بڑھ کر تمام تر منڈیوں کا معاملہ ہے جو بھارت کی طاقت کے بجائے اسکے پروپیگنڈہ سے اندھا کرنے کا معاملہ ہے اس چیز نے عالمی طاقتوں کو اس بات سے روک رکھا ہے کہ وہ بھارت کو کشمیر پر اقوام متحدہ، سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد کرنے کیلئے مجبور کریں اگرچہ یہ بھی وضاحت کا حصہ ہو سکتی ہے تاہم اس میدان یا کسی دیگر معاملے میں بھارت کے تیزی کیساتھ اور موثر پروپیگنڈہ کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت کو سمندر پار خصوصاً مغرب میں بہت سے مبصرین کی حمایت حاصل ہے۔ کسی ایک یا دوسری وجہ کے باعث بھارتی ریاست کیلئے صلیبی جنگجو بننے کے راستے کا انتخاب کر رکھا ہے۔
محض حال ہی میں رونما ہونے والی پیشرفتوں پر نظر ڈالنے سے ہی اس کی وضاحت ہو جائیگی جسے میں اجاگر کرنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ چین نے اس بھارتی جنرل کو ویزا جاری کرنے سے انکار کر دیا جو ناردرن ایریا کا کمانڈر ہے۔ اس کمانڈ کے دائرے میں جموں و کشمیر بھی شامل ہے جسے چین متنازع علاقہ تسلیم کرتا ہے۔ چینیوں نے کہا کہ وہ جنرل جسوال کو خوش آمدید نہیں کہہ سکتے کیونکہ وہ جموں و کشمیر کے متنازع علاقے کو کنٹرول کرتے ہیں بلاشبہ بھارت نے دوٹوک انداز میں جواب دیتے ہوئے دو چینی افسروں کو نیشنل ڈیفنس کالج کے کورس میں شرکت کی اجازت دینے سے انکار کر دیا اور ایک بھارتی فوجی وفد کا دورہ بیجنگ منسوخ کر دیا لیکن زیادہ دلچسپ جواب بہت پوشیدہ اور نہ صرف چین بلکہ پاکستان کیلئے بھی کہیں زیادہ نقصان دہ تھا۔ یہ بھارت نواز اور پاگل پن کی حد تک پاکستان مخالف تجزیہ نگار سیلگ ہیریسن کا میدان عمل میں کودنا تھا۔ 80ء کے عشرے میں وہ نئی دہلی میں امریکہ کے ایک بڑے اخبار کا بیوروچیف تھا اور اس وقت سے اس نے ایشوز پر بھارتی موقف کی حمایت کا سلسلہ شروع کیا تھا‘ وہ لوگ جو افغانستان میں امریکہ کی زیرقیادت لڑی جانیوالی جنگ کو یاد کر سکتے ہیں وہ ان دنوں پاکستان کیخلاف سیلگ ہیریسن کی ہرزہ سرائیوں کو بھی یاد کرینگے۔
اب کیا یہ دلچسپ حسن اتفاق نہیں کہ وہ 26اگست کو نیویارک ٹائمز میں ایک نیا تنقید سے بھرا مضمون لکھتے ہیں جسے بہت سے پاکستانی میڈیا آئوٹ لیٹس دیکھتے ہیں لیکن بیشتر ہیریسن کے ماضی کے پیش نظر اسے محض پروپیگنڈہ خیال کرتے ہوئے نظرانداز کر رہے ہیں۔ یہ مضمون بھارتی جنرل کو ویزا دینے کے چینی انکار کے فوری بعد پاکستان اور چین کے بارے میں تحریر کیا گیا تھا۔ اچانک نیویارک میں بیٹھے ہوئے اس نے ایک انتہائی تصوراتی مضمون تحریر کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ گلگت بلتستان میں علاقے کے حقیقی کنٹرول کیلئے 7ہزار سے 11ہزار تک چینی فوج پہنچ گئی ہے۔ اس نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اس پورے علاقے میں پاکستان کے خلاف بغاوت ہو چکی ہے۔ یہ بے سروپا دعویٰ ہے کہ جس میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح علاقے کے لوگوں کو پہلی بار قومی سیاست کے دھارے میں لایا گیا ہے۔ بلاشبہ وہ دعویٰ کرتا ہے کہ دنیا کیلئے اس علاقے کو بند کر دیا گیا ہے لیکن پھر بھی وہ اس علاقے میں رونما ہونیوالے تمام واقعات تک کھلی رسائی کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان کا یہ ایک مکمل جائز ایجنڈا ہے کہ گوادر پورٹ سے شمال کی جانب چین کے اندر سڑک اور ریل کے رابطے تعمیر کئے جائیں جس سے شاہراہ قراقرم کی اہمیت بڑھے گی۔ درحقیقت متواتر پاکستانی حکومتیں کوشش کر رہی ہیں کہ بحیرہ عرب سے چین تک ریل اور سڑک کے ذریعے زیادہ روابط قائم کئے جائیں اور اب ایران سے چین تک انرجی پائپ لائن کا منصوبہ بھی ہے یہ بتاتے ہوئے کہ چینی کس طرح بھارت کے اندر اپنے ریل رابطوں کو فروغ دے رہے ہیں۔ ہیریسن آخر کیوں پاکستان چین مواصلاتی روابط پر شبہات کا اظہار کرتے ہوئے فکرمند ہیں جبکہ کوئی انکے حد سے زیادہ پاکستان مخالف ذہنی رجحان کو بخوبی سمجھتا ہے کہ اگرچہ ہیریسن تسلیم کرتا ہے کہ بعض فوجی وہاں روڈ اور ریل انفراسٹرکچر کی تعمیر کے مقصد کیلئے مقیم ہیں جیسے شاہراہ قراقرم کیلئے وہاں رہے ہیں لیکن پھر بھی وہ خود کو بھارتی پراپیگنڈہ کار کے اس نقطہ نظر سے نہیں بچا سکا کہ وہاں ضرور کوئی اور کام بھی ہو رہا ہے۔
بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی سیلگ ہیریسن اپنی سوچ کے گھوڑے کو بے لگام دوڑاتے ہوئے اعلان کرتے ہیں کہ ’’خفیہ مقام‘‘ میں 22 سرنگوں کے گرد پراسراریت چھائی ہوئی ہے جہاں جانے کی پاکستانیوں کو بھی ممانعت ہے لیکن انکے بارے میں ایک بار پھر وہ اتنی آسانی سے رازدار بنا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اگرچہ وہ تسلیم کرتا ہے کہ یہ سرنگیں براستہ گلگت قراقرم سے گزرنے والی ایران چین گیس پائپ لائن کیلئے ضروری ہو سکتی ہیں۔ انکی بھارتی غلبہ رکھنے والی سوچ میں یہ تصور ابھرتا ہے کہ یہ سرنگیں میزائل ذخیرہ کرنے کیلئے استعمال کی جا رہی ہیں۔ وہ یہ نہیں کہتا کہ آیا یہ مقامات چینی میزائلوں یا پاکستانی میزائلوں کیلئے ہیں‘ اگر یہ بعدالذکر ہے تو اس پر تشویش کیوں ہے جبکہ بھارت خود سٹریٹجک مقامات پر میزائل نصب کر رہا ہے جہاں تک چین کا معاملہ ہے تو اسے بھارت کو نشانہ بنانے کیلئے ان مقامات کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ اپنے علاقے سے بھارت تک خاصی رسائی رکھتا ہے اور چین کی یہ تاریخ ہے کہ امریکہ کے برعکس اس نے سمندر پار فوجی اڈے بنانے کی کوشش نہیں کی اپنی بھرپور قیاس آرائیوں کے بعد ہیریسن نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ چونکہ پاکستان چین کو خلیج تک رسائی کی سہولت دے رہا ہے اس لئے یہ امریکہ کا اتحادی نہیں ہے۔ یہ انتہائی بیہودہ بات ہے کہ پاکستان مخالفت میں حد سے بڑھے ہوئے تجزیہ کار کو یہ بات لکھنے سے پہلے دو بار ضرور سوچنا چاہئے۔ آخر پاکستان نے امریکہ کیلئے اسکی گمراہ کن دہشت گردی کیخلاف جنگ میں قربانیاں دی ہیں اگر امریکہ پھر بھی پاکستان کو اپنا اتحادی نہیں سمجھتا تو پھر یہ ٹھیک ہے۔ کسی بھی معاملے میں بیشتر پاکستانیوں نے امریکہ کو حقیقی طور پر کبھی اپنا اتحادی تسلیم نہیں کیا۔ پاکستان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ بے وفا امریکہ سے اتحادی تسلیم کرانے کیلئے اپنے سٹریٹجک اور دائمی اتحادی چین سے قطع تعلق کر لے ایک مضحکہ خیز مطالبہ ہے اور پاکستان میں اس وقت موجود حد سے زیادہ امریکہ نواز حکومت بھی خود کشی پر مبنی ایسا قدم اٹھانے کا حوصلہ نہیں کر سکتی۔ ہیریسن جس واحد دانشمندانہ نتیجے پر پہنچتے ہیں‘ وہ یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر حل کرنے کی ضرورت ہے لیکن وہ لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب بسنے والے کشمیریوں کے خود مختاری کے مطالبات کا حوالہ دیتے ہیں جس سے پتہ چلتا کہ وہ کتنی غلط بات کر رہے ہیں۔ جو کچھ انہیں کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ انہیں اپنی آنکھوں پر بندھی بھارتی پٹیاں اتار دینی چاہئیں تاکہ وہ دیکھ سکیں کہ مقبوضہ کشمیر میں بسنے والے کشمیری خودمختاری نہیں بلکہ آزادی چاہتے ہیں اور اس آزادی کیلئے ہی کشمیریوں کو ایک کے بعد دوسری نسل مدت کو گلے لگا رہی ہے۔ ان کا یہ دعویٰ بھی درست نہیں کہ امریکہ کشمیر میں اعتدال پسندانہ کردارادا کرنے کیلئے تیار ہے۔ درحقیقت امریکہ یہ اعلان کرنے کے بعد اپنی تمام تر ساکھ کھو چکا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں کشمیریوں کے بہیمانہ قتل بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔ بھارت کے کشمیر کو خودمختاری دینے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا کیونکہ کشمیری نوجوانوں کی نئی تحریک غضبناک دکھائی دیتی ہے۔ پاکستان کی طرح جو تحریک آزادی کا حامی ہے۔ بھارت کے پرجوش حمایتی بھی تسلیم کریں گے کہ پتھرائو کرنیوالے نوجوانوں کی حالیہ تحریک قطعی طور پر انکی اپنی ہے۔ اور یہ کسی بیرونی کنٹرول میں نہیں ہے۔ غالباً یہ وقت ہے کہ مسٹر ہیریسن اس خطے کے حقائق جانیں بجائے اسکے پاکستان اور بھارت کے بارے میں محض اپنے تخیلات کے اسیر بن کر رہیں۔ ان کا نقطہ نظر زمینی حقائق سے ہر گز میل نہیں کھاتا اور اس وقت انکی ادھوری سچائیوں اور خفیہ ایجنڈا کے تمام اطراف پول کھل چکا ہے۔ بھارت کے ماہرانہ پروپیگنڈہ کی تکمیل کیلئے ہیریسن کے مضمون کی اشاعت کے فوری بعد بھارت حرکت میں آیا اور اس نے گلگت بلتستان کے واقعات اور وہاں چین کی مداخلت پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ واقعات کا تسلسل دیکھئے! چین کی طرف سے بھارتی جنرل کو ویزا دینے سے انکار ہیریسن کے مضمون کی اشاعت، بھارت کو سفارتی طور پر معاملہ اٹھانے کا بہانہ مل جانا کیا نان ایشو ہے؟ دریں اثناء ہم جو کچھ کر رہے ہیں ہمارے اردگرد فریب کاری کے ایسے ہی جال بنے جا رہے ہیں؟


8/24/2010

لاقانونیت + درندگی+ تاویل= المیہ

یہ آج سے تین سال قبل کی بات ہے ہم گھر میں بیٹے ٹی وی دیکھ رہے تھے کہ باہر محلے میں شور کی آواز آئی وجہ جاننے کے لئے باہر گئے تو معلوم ہوا کہ اہل محلہ ایک ڈاکو/چور کو پکڑے بیٹھے ہیں! جس کا ایک ساتھی بھاگ گیا اور وہ قابو آ گیا محلے کی دوکان پر ڈاکہ ڈالنے آئے تھے، پکڑے جاننے والے کی حالت یہ تھی کہ چہرہ لہولہان تھا! سیدھے ہاتھ پر بھی چوٹ لگی ہوئی تھی جس کے بارے میں معلوم ہوا کہ اس ہاتھ میں پسٹل تھی جسے جھڑوانے کے لئے ہاتھ پر بلاک مارا گیا جس سے زخم آیا ہے، پولیس کو فون کیا گیا مگر جب تک پولیس نہیں آئی ہم نے دیکھا کہ جمع ہجوم کی اسی فیصد نے اُسے ضرور تھپڑ رسید کیا! چند ایک نے ٹھوکریں بھی ماری،چند ایک نے پتھر بھی مارے،ہر آنے والا قصہ معلوم کر کے دو چار گالیاں نکال کر اُسے مارنے کا فتوی جاری کرتا اور تھپڑ یا گونسہ کی شکل میں اپنا حصہ ڈالتا! کسی بھی ملزم کے ساتھ اہل محلہ کا یہ سلوک میرے لئے پہلا تجربہ تھا۔ بعد میں پولیس اُسے پکڑ کر لے گئی تو اہل محلہ کے اس تشدد سے اُسے نجات ملی۔ بعد میں اہل محلہ کی طرف کیس کی پیروی بطور وکیل ہم نے عدالت میں کی اور اُسے ڈھائی سال کی سزا ہوئی مگر سزا پا کر بھی وہ ہمارا ہی شکر گزار تھا کہ اُس رات ہم نے اُس کی جان بچائی پولیس کو بلوا کر۔
اس کے علاوہ میں یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ چور/ڈاکو جو علاقے کے لوگ پکڑ کر پولیس کے حوالے کرتے ہیں عام طور اُس پر اہل علاقہ اپنا غصہ اُتار چکے ہوتے ہیں مارنے والوں کے ذہین میں یہ بات ہوتی کہ اس نے قانون کے شکنجے سے بچ جانا ہے لہذا ابھی اس کے ساتھ جو سلوک کرنا ہے کر لو دوئم ایک خاص سوچ جو مختلف وجوہات ہی بناء پر عام افراد میں شعوری یا لا شعوری طور میں پروان چڑ چکی ہے وہ یہ کہ یہ افراد اس ہی سلوک کے حقدار ہیں وہ کسی نا کسی نقطہ یا بحث میں ایسے افراد یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ تشدد کا یہ عمل قانون، اخلاق اور انسانیت کی رو سے غلط ہے مگر لاشعوری طور پر اس کے ہامی ہوتے ہیں ایسا کیوں؟
اس کی بہت سے وجوہات ہو سکتی ہیں!اول اول تو یہ تاثر کہ قانون کی عملداری نہیں ہے! کسی بھی جرم کے مجرم کے بارے مین عام آدمی کا یہ تاثر کہ یہ تو بچ جائے گا! اس تاثر میں مکمل سچائی نہیں! مگر چونکہ لوگ ایسا ہونا سچ مانتے ہیں اس لئے وہ عدلیہ کے بجائے خود سزا دینا ٹھیک جانتے ہیں!
اس کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ معاشرہ کا عام شہری عدالت سے ملنی والی سزا کو اپنے مخالف کے لئے نا کافی سمجھتا ہے! مثلا ایسے واقعات دیکھنے میں آئے جہاں بچوں کی لڑائی پر لوگ مخالفین کو دس دس سال سزا دلوانا چاہتے ہیں جو انتہا پسندی ہے! یا معمولی تکرار پر اگلے کو پھانسی لگوانا!
ایک اور چیز یہ کہ ہمارے معاشرے نے تشدد کو قبول کر لیا ہے! اگر معاشرہ کے ہر طبقے یا گروہ کو دیکھے تو کسی نا کسی شکل میں وہ تشدد کو اپنائے ہوئے ہے، ہم اپنے پسندیدہ مذہبی رہنماء کے قتل/ قاتلانہ حملہ میں زخمی ہونے پر ملک/شہر میں ردعمل میں دس بارہ گاڑیوں کے جل جانے، بیس تیس کے قتل ہونے، دو چار دن شہر بند ہونے اور بدلہ لینے کا بیانات کو فطری ردعمل جاننے لگ پڑے ہیں!نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اسے غلط جان کر بھی لاشعوری طور پر اسے اپنا چکا ہے۔ معمولی یا غیر معمولی دونوں صورتوں میں!
تشدد پر آمادہ ہونے اور اسے قبول کرنے کی جانب گامزن ہونے میں میڈیا کا بھی رول ہے! کیسے؟ آپ گذشتہ بیس سال کی کہانیاں، ڈرامے اور فلمیں دیکھ لیں آپ کو ان مین اکثریت خاندان دشمنی یا باہمی جھگڑوں پر بنے والی وہ فلمیں ملیں گی جن میں فلم/کہانی کا نام نہاد ہیرو اپنے دشمن کو عدالت کے کہٹرے مین لانے یا عدالتی سزا دلوانے کے بجائے خود بدلہ لینے کو ترجیح دیتا ہے! اور اُس کے اس عمل کو گلیمرائز کر کے دیکھایا/لکھا جاتا ہے! نہ صرف یہ بلکہ جرم و سزا کی کہانیوں و فلموں میں کسی ایک کی جان کو مرکزی کردار کے لئے اہم بتا کر باقی کرداروں کو مارنے کو عظیم کارنامے کے طور پر دیکھایا جاتا ہے! کیا ایسے میں یہ ممکن ہے کہ معاشرہ تشدد کی طرف راغب نہ ہو؟
اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمیں مستقبل میں سیالکوٹ جیسے واقعات و المیوں کا سامنا نہ کرنا پڑے تو ضروری ہے کہ ہم ہر سطح پر لاقانونیت کو ختم کرنے کی عملی کاوش کا حصہ ہوں، اپنے اردگرد یہ آگاہی دے کہ ملزم کے گناہگار اور بے گناہی کا فیصلہ عدالت نے کرنا ہے، یہ کہ ایک بُرے کام کی تاویل دوسری بُرائی نہیں ہوسکتی! نیز یہ جانے کہ انسانی جان کی حرمت کیا ہے!
جب میں ایسے واقعات کا ٹھنڈے ذہین سے تجزیہ کرتا ہوں تو یہ محسوس ہوتا ہے اس درندگی، حیوانیت اور ظلم میں کہیں میں بھی قصور وار ہوں۔