5/12/2019
1965 کے صدرارتی انتخابات
12/27/2017
شاہ رخ جتوئی کی رہائی کیوں ممکن ہوئی؟؟؟
پاکستان میں کچھ جرائم نا قابل راضی نامہ ہیں اور کچھ قابل راضی نامہ ہیں۔ قتل کا مقدمہ دفعہ 309 اور 310 تعزیرات پاکستان اور ضابطہ فوجداری دفعہ 345 ذیلی دفعہ 2 کے تحت عدالت مجاز کے اجازت سے قابل راضی نامہ ہوتا ہے ۔ مگر چونکہ اس قتل سے عام لوگوں میں خوف و ہراس پھیلا تھا (جو دراصل میڈیا کوریج کا نتیجہ تھا) اس لیے مقدمہ میں دہشت گردی کی دفعات بھی شامل کی گئیں جو کہ ناقابل راضی نامہ ہے ۔شاہ رخ کو ٹرائل کورٹ سے سزا ہو گئی مگر اپیل کے دوران شاہ زیب کے وارثان سے راضی نامہ ہوگیا، مگر اس کے باوجود شاہ رخ کی رہائی ممکن نہ تھی۔ اس کی دو وجوہات تھیں. 1 ۔دہشت گردی کی دفعہ کی موجودگی میں راضی نامہ ممکن نہ تھا۔
2۔۔دفعہ 338 ای (2) تعزیرات پاکستان کے تحت اگر کسی قبل راضی نامہ کیس میں سزا ہو جائے اور اپیل میں راضی نامہ ہو تو عدالت کی صوابدید ہوگی کہ اس کو تسلیم کرے یا نہ کرے جس کے الفاظ یوں ہیں!
مزید براں دفعہ 311 تعزیرات پاکستان کے تحت قتل کے کیس میں راضی نامہ ہونے کے باوجود عدالت اصول "فساد فی الآ رض" کے تحت تعزیر میں ملزم کو سزا دےسکتی ہے۔
اس سلسلے میں ذیل کا فیصلہ ایک نظیر ہے۔
ایسا ہی ایک فیصلہ PLD 2006 Peshawar page 82 ہے باقی عموما عدالتیں فساد فی الآ رض کی تعریف میں عموما سفاکی کے جز کو دیکھی ہیں۔ . مگر سندھ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلہ میں دہشت گردی کی دفعات ختم کردی کیونکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق ذاتی دشمنی کی وجہ سے کیا گیا جرم دہشت گردی کے ذمرے میں نہیں آتا۔
اب ٹرائل کورٹ راضی نامہ کو تسلیم کرنے کی پابند تھی ۔جس سے شاہ رخ جتوئی کی رہائی کی راہ ہموار ہوگئی ۔ مگر اب بھی سرکار سندھ ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ اپیل دائر کرسکتی ہے۔ جو یقیناً وہ نہیں کریگی مگر پرائیویٹ سطح پر دائر کر دی گئی ہے۔اس مقدمہ سے ایک بار پھر اس تاثر کو تقویت ملی کہ پاکستان میں امیر آدمی کے سزا سے بچنے کے بہت سے راستے ہوتے ہی,مگر درحقیقت ایسا بالکل نہیں ہے اس قانون کے تحت ہر طبقے کے افراد فیض یاب ہوئے ہیں اور یہ قانون خاندانوں کی دشمنوں کے کے اختتام کا سبب بھی بنتا ہے. مگر اگر اس قانون سے کسی کو اختلاف ہے تب اس کی تبدیلی اسمبلی سے ہی ممکن ہے بذیعہ ترمیم کیونکہ فیڈریل شریعت کورٹ (PLD 2017 page 8 FEDERAL-SHARIAT-COURT ) سے ایسی ایک پٹیشن جس میں متعلقہ دفعات 306 (b) اور (c), 307(1) (b) اور (c), 309(1), 310(1) کوچیلنج کیا گیا تھا رد کر دی گئی ہے ۔
5/04/2017
بدمعاش ہیرو
ہمارے رویوں میں ایک خاص خامی جو داخل ہو چکی وہ یہ کہاگر ہم نے خود کو کسی گروہ سے منسلک کیا تو ہم اس کے ہر برے فعل کے لئے بھی نہ صرف جواز تلاش کرتے ہیں بلکہ اس کو درست قرار دینے کے لئے جھوٹ (پروپیگنڈے) تک کا سہارا لے لیتے ہیں۔ایسے رویے کو شخصیت کا حصہ بنانے میں ہمارے لکھاریوں و میڈیا نے بہت اہم کردار ادا کیا۔جنہوں نے ناانصافی کا خاتمہ لاقانونیت سے کرنے کا درس اپنے قصےکہانیوں سے دیا ۔
غلط راستہ درست منزل تک نہیں لے کر جا سکتا۔اونچی عمارتیں مضبوط بنیادوں کے مرہون منت ہوتی ہیں اور مضبوط بنیادیں غیرمیعاری مواد سے نہیں رکھی جاسکتی، پھر ہم غلط رویوں اور کمزور کرداروں سے ایک بہتر معاشرہ کیسے تعمیر کر سکتے ہیں۔
گزشتہ دنوں ضلع عمر کوٹ کی تحصیل کنری کے تھانے میں ایک مقامی وڈیرے کی ایس ایچ او سے بدتمیزی کی ویڈیو ایسی ہی ایک رویے کی عکاس ہے۔
محکمہ آب پاشی سے پانی کی باری پر شروع ہونے والا جھگڑا وڈیرے کے نقظہ نظر سے ظالم کا ہاتھ روکنے کی کاوش دراصل لاقانونیت کا مظاہرہ تھی۔ یہاں بھی دونوں طرف کے گروہوں نے سوشل میڈیا پر اپنے اپنے ہیرو و ولن کی حمایت میں کہیں آدھے سچ اور کہیں پورے جھوٹ کا سہارا لیا۔
واقعہ کی جزیات اور حقیقت کے بیان سے بڑھ کر اہم یہ کہ ہم خود یہ جان لیں کہ اندھیرے کو روشنی سے ہی ختم کیا جاسکتا ہے۔ ایڈونچریس اور بدمعاش ہیرو پردے کی اسکرین پر تو گلیمر بکھیر سکتے ہیں مگر حقیقی زندگی میں اس آندھی کی ماند ہے جو تباہی پھیلاتی ہے اور ان جلتے دئیوں کوبھی بجھا دیتی ہے جو کسی حد تک روشنی کی وجہ تھے۔
8/23/2015
بابے پھر بابے ہوتے ہیں
کہنے کو اس مضمون کا عنوان بزرگ بھی ہو سکتا تھا مگر بزرگی میں شرارت ہو سکتی ہے مسٹنڈاپن نہیں اس لئے بابے ہی ٹھیک لگتا ہے. ہمارے دور کے مسٹندے کچھ ذیادہ لوفر ہو گئے ہیں مگر پہلے کے لوفر بھی اتنے مسٹندے نہیں ہوتے تھے. یہ بابے اپنی جوانی کے دل لبھانے والے جھوٹے سچے قصے سنا کر جس طرح جوانوں کی چوری پکڑتے ہیں وہ ان کا کی حاصل ہے.
ایسے ہی ایک بابے کے منہ سے ایک بار سننے کو ملا کہ کیا دور آ گیا ہے ایک ہمارا دور تھا جب لڑکوں کے دوست اور لڑکیوں کی سہیلیاں ہوتی ہے اب تو لڑکوں کی سہیلیاں اور لڑکیوں کے دوست ہوتے ہیں. تب ہم کسی لڑکی کے قریب ہوتے تو وہ فٹ سے کہہ دیتی دیکھو مجھے دھوکہ نہ دینا ایسا نہ ہو کہ کل کو کسی اور سے شادی کر لو ہم لڑکیاں بہت حساس ہوتی ہیں کسی کو ایک بار اپنا کہہ دیا تو پھر ساری عمر اسی کی ہو کر رہ جاتی ہیں اور ایک آج کی چوکریاں ہیں دوستی کے دوسرے دن ہی نوٹ کروا دیتی ہیں کہ دیکھو سنجیدہ نہ ہو جانا میں بس ٹائم پاس کر رہی ہوں کل کو تو کون اور میں کون.
یہ بابے وقت کے بدلنے کے بارے میں بتاتے ہیں کہ پہلے گھر بناتے وقت گھر والوں کے ساتھ ساتھ مہمانوں کے لئے بھی ایک حصہ ہوتا تھا مہمان خانے میں مہمان کی خدمت کو ایک بندہ مختص ہوتا تھا آج کی طرح نہیں کہ صرف صوفہ سیٹ ہو بلکہ پلنگ یا چارپائی ہوتی کہ آنے والا مہمان آرام کرتا. پہلے مہمان کو رحمت تصور ہوتا تھا اور آج اپنے رویے سے رہ مت کہا جاتا ہے .
ان بابوں سے اس لئے بھی ڈر لگتا ہے کہ قصے سنا کر نصیحتیں کرتے ہیں. ان کے پاس ملا دوپیازہ ہے، ملا لٹن ہے، متایو فقیر ہے، جٹ مانا ہیں. یہ اپنے اپنے علاقوں کے کرداروں کے نام لے کر مختلف قصوں کی مدد سے مخصوص سبق سکھانے کے لئے ہنسی مذاق میں سنا ڈالتے ہیں. ہم جیسے لونڈے انہیں لاکھ کہیں کہا یہ کردار خیالی ہیں، یہ قصے جھوٹے ہیں. یہ بابے باز نہیں آتے پھر سے کسی اگلی نشست میں ان کرداروں کے قصوں کی مدد سے شخصیت کی تعمیر کرنے بیٹھ جاتے ہیں.
ایک محفل میں رشوت کی افادیت پر بحث ہو رہی تھی ایک بابا جوش میں دونوں ہاتھ ہوا میں کھڑا کر کے بولا مجھے ذیادہ نہیں معلوم بس اتنا جانتا ہوں کہ کچھ حرام کے تخم سے ہوتے ہیں کچھ کا تخم حرام کا ہوتا ہے اول ذکر جنتی ہو سکتا ہے اگرچہ اس کے ماں باپ جہنمی ہو مگر ثانی ذکر جہنم کی آگ کا ایندھن ہو گا . پوچھا بابیوں کہنا کیا چاہتے ہو کہنے لگے کچھ ماں باپ کی حرام کاری کی وجہ سے حرامی نسل ہوتے ہیں اور کچھ اپنی کمائی کی وجہ سے! یہ رشوت خور والے دوسری قسم کے حرامی ہیں جو اپنی نسل کو بھی حرامی بنا دیتے ہیں. ایسے سخت جملے سننے کے بعد ہمارے کئی دوستوں نے اس بابے سے ملنا چھوڑ دیا.
یہ بابے اپنی عمر کو اپنا تجربہ بتاتے ہیں. یہ سامنے والے کی نیت کو اس کے اعمال سے پرکھنے کے قائل معلوم ہوتے ہیں ان کے یہاں benefit of doubt بہت ذیادہ پایا جاتا ہے. ایسے ہی ایک بابا جی کہا کرتے ہیں کہ برا وہ جس کی برائی پکڑی جائے چاہے اس نے کی بھی نہ ہو اور اچھا وہ جو پکڑ میں نہ آئے. ہم نے کہا بابیوں اب تو بدنامی بھی نامور کر دیتی ہے تو کہنے لگے جیسے لوگ ویسا ان کا ہیرو ہوتا ہے ہر طبقہ و گروہ کا اپنا رول ماڈل (ہیرو) ہو گا ناں. بات پلے نہ پڑی تو ہم نے کندھے اُچکا دیئے، دھیمے سے مسکرا کر بولے وکیل ہو تم؟ ہم نے سر کی جنبش سے ہاں کی. کہنے لگے وکیلوں میں سے تمہارا آئیڈیل کوئی بڑا قانون دان یا جج ہو گا ایک ڈاکو نہیں ایسے ہی جو جس شعبے کا بندہ ہے اس کا رول ماڈل اس ہی شعبے کا بندہ ہو گا ہر فرد کسی اپنے ہم پیشہ یا ہم نظریہ و عقیدہ کو ہی ماڈل بناتے ہیں. ہم نے کہا کہ اگر کوئی کسی دوسرے شعبہ کے بندے کو اپنا رول ماڈل بنا لے تو! کہنے لگے وہ بہروپیا ہے جو ایسا کرتا ہے. ہم اس کی بات سے متفق نہیں تھے مگر کسی سخت جملے سے بچنے کے لیے خاموش رہے.
حالات و زمانے کا رونا رونے والی ایک محفل میں اہل محفل جب حاکموں کے برے کردار کو زیر بحث لائے تو ایک اور بابا جی رائےزنی کرتے ہوئے گویا ہوئے خود کو بدل لو اچھا حاکم میسر آ جائے گا چوروں کا سربراہ چوروں میں سے ہی ہو گا جیسے ہم ویسے ہمارے حاکم.
ہمارے دوست جوانی میں ہی بابا جی ہو گئے ہیں. ان کا پسندیدہ موضوع رویے ہیں. وہ لوگوں کے رویوں پر خیال آرائی کرتے رہتے ہیں؛ ہمارے علاوہ باقی سب ہی ان کے خیالات کو سراہتے ہیں. اولاد کی تربیت پر بات ہو رہی تھی کہنے لگے اگر گھر کے سربراہ کے مزاج میں سختی ہو تو اولاد باغی ہو جاتی ہے. ملک کا حاکم و خاندان کا سربراہ اگر ہر معاملہ میں اپنی مرضی مسلط کرنے لگ جائیں تو بغاوتیں جنم لیتے ہیں اور زندگی کی آخری سانسیں تنہائی میں گزرتی ہے اگر اولاد کی قربت نصیب بھی ہو تو صحبت نصیب نہیں ہوتی.
ہمارے ایک دوست ایک مشکل میں پھنس گئے تلاش ہو رہی تھی کسی اثر رسوخ والے بندے کی اسی سلسلے "غلطی" سے ایک بابا جی سے آمنا سامنا ہوا کہنے لگے جس کے پاس بھی جاؤ گے اس کے اثر رسوخ میں اضافہ کا باعث بنو گے! جو آج کام آئے گا کل کام بھی لے گا اور احسان مند تم ہی رہو گے اور جو کام کا آسرا دے گا وہ بھی کل کو کام نکلوا لے گا جو کرنا ہے خود کرو. ہمارے دوست بابے کی باتوں میں آ گئے اور اب وہ خود کافی اثر رسوخ والے بندے ہیں.
بابیوں کی کوئی عمر، نسل، عقیدہ اور تجربہ لازمی نہیں بقول ہمارے ایک بابا صفت دوست کہتے ہیں بابا وہ جو رمز کی بات کہہ دے. ہم نے تو سیکھ لیا ہے ان بابیوں کی بات کو ایسے اگنور کرو جیسے یو این او کشمیر کے مسئلہ کو اگنور کرتی ہے. ان کی قربت شخصیت میں موجود "ضروری" خامیوں کے نقصاندہ ہو سکتی ہے. کیا آپ کا کبھی کسی بابے سے واسطہ پڑا ہے؟
8/14/2015
پاک وطن چاند ستارے والا!
اس سال بارہ اگست کو بنوریہ آرگنائزیشن و اردو سورس کے تعاون سے ہونے والے ایک تقریب میں شرکت کی جس میں امانت اللہ و نورجہاں کے گائے ہوئے گانے کا اسلامی ریمکس ورژن جاری کیا گیا. شاید یہ کسی مدرسہ کی جانب سے ملی نغمہ کی پہلی پروڈکشن ہے. آپ اسے ایک عمدہ پروڈکشن تو کہہ سکتے ہیں مگر تخلیقی کام نہیں.
اس سے قبل بنوریہ آرگنائزیشن نے علامہ اقبال کے کلام لب پہ آتی ہے دعا کا بھی اسلامی ریمکس ورژن کا اجراء کیا ہے دونوں پروڈکشن میں مفتی نعیم سمیت کئی دیگر علماء و طالبات کے محبت بھرے پیغامات ہیں.
Aye Watan Payare Watan (Pak Watan) - Binoria Media
پشاور آرمی پبلک اسکول کے سانحہ کے بعد مذہبی حلقے جس مخصوص دباؤ کا شکار ہیں اس دباؤ کو کم کرنے کی کوشش معلوم ہوتی ہے. اس پلیٹ فارم پر مقررین کا ذیادہ زور اس بات پر تھا کہ ہم مدرسہ والے ہیں بندوق والے نہیں، ایسے ہی جیسے کچھ مکتبہ فکر (میں ان میں سے ہوں) والے کہتا ہے کہ ہم دم درود والے مولوی ہیں بم برود والے نہیں. ذاتی طور پر مجھے مذہبی حلقوں کا یوں پچھلے قدموں پر جا کر ایسے اقدامات کرنا اور خود کے بنیاد پرست نہ ہونے کا اظہار کرنا اچھا نہیں لگا. اس قسم کے پروڈکشن جدت سے منسلک ہونے کی بناء پر کرنا ٹھیک ہے مگر ردعمل میں کرنا کمزوری و چوری کا اظہار لگتا ہے .
ہم ایک ایسا ہجوم ہے جس کو دوسروں پر تنقید کرنے اور ان کو دیوار سے لگانے میں خوشی ملتی ہے .
اب ایسے میں اس تنقید کے ممکنہ ڈر سے اور اپنے سافٹ امیج ابھارنے کو سامنے والا جو یہ قدم اٹھائے گا اب بھی اس پرتنقید ہو گی کہنے والوں کی زبان بندی ممکن نہیں، حلال موسیقی کی اصلاح کے پیچھے چھپے طنز کو سمجھنا ذیادہ مشکل نہیں. ہم غلط کو غلط جان کر اس میں پر قائم رہنے والہیں اور نیکی کی تلقین کرنے والے کی غلطیوں کو اس پر تنقید کرنے کا جواز مانتے ہیں.
نظریات کے اختلاف کو ذاتی نفرتوں و دوریوں کو سبب بنانے سے اجتناب کریں. قائل کرنے کی کوشش کو مسلط کرنے کی جدوجہد میں نہ بدلیں. کسی کی چوری پکڑنے کی خواہش سے ذیادہ بہتر اس بات پر شکر ادا کرنا ہے کہ اپنا پردہ و بھرم قائم ہے. یقین جانے زندگی سکون میں آ جائے گی.
6/16/2015
بھائی پر لطیفہ، طنز یا خوشامد؟
اہل علم نہایت سنجیدہ ہوتے ہیں ان کا مزاح بھی سبق آموز ہوتا ہے. زندگی کے کچھ شعبہ و پیشے ایسے ہوتے ہیں جن میں سنجیدہ نوعیت کے افراد کی ضرورت ہوتی ہے مراثی طبیعت و مسخرے مزاج افراد کا وہاں ہونا بگاڑ کا سبب بنتا ہے. سیاست و صحافت ایسے ہی شعبہ ہیں.
یوں تو ہمارے ملک کی سیاست میں قابل افراد کا قحط تو ہے ہی اوپر سے اب مسخرے صفت افراد کی تعداد بھی بڑھنے لگی ہے. ایسا نہیں کہ سیاسی مسخرے پہلے نہیں ہوتے تھے مگر انہیں کبھی درجہ اول کے سیاست دان نہیں مانا جاتا تھا. جلسوں میں پارٹی قیادت کے جلسہ گاہ میں داخلے سے قبل عوام کو مصروف رکھنے کے لئے اب کی خدمات بشکل مقرر حاصل کی جاتی تھیں. پھر آہستہ آہستہ یہ کردار مقبول ہوئے اور مخالف پارٹی کی قیادت کو بے عزت کرنے کو آگے کئے جانے لگے ایک آدھ کو اس بناء پر وزارت سے بھی نوازا گیا. جب وزارت کے حصول کے لیے مسخرہ پن بھی اہلیت بنی تو کئی سیاہ ست دان اس قابلیت کو اپنانے لگے. ماشاءاللہ اب اکثریت اس خوبی کی حامل ہے.
پیر و گدی نشین حاکموں کی قربت حاصل کرنے کو الہام و خواب کے من گھڑت قصوں کا استعمال کرتے ہیں. یہ خوابی قصے حاکم کی عظمت کو بیان کرنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں. منبروں سے ہونے والی سیاست نے جہاں ایسے کئی قصوں کو جنم دیا ہے وہاں ہی ایسے کئی کرداروں کو بھی اس قصہ گوئی کی بناء پر کامیابی سے ہمکنار کیا ہے. یہ بھی ایک المیہ ہے ایسے قصے و قصہ گو بعد میں کتابوں کی زینت بن کر "مستند " تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں.
ملک کی سیاست میں ارتقاء اب اس شعبہ کو اُس مقام پر لے آیا ہے جہاں خود پارٹی سربراہ گانوں کی گونج میں تقریر کرتا ہے، گا گا کر اپنا مدعا بیان کرتا ہے، لہک لہک کر ٹی وی اسکرین پر عجیب و غریب جسمانی حرکات کے ساتھ بیان فرماتے ہیں. ایسے میں آپ کیا خیال کرتے ہیں کہ قیادت کو خوش کرنے کو کیا کیا نہیں کیا جا سکتا؟ ابتدائی کاوشوں میں کہیں ناں کہیں کچھ غلطیاں تو ہو ہی جاتی ہیں . اس بار بھی ہو گئی، غلطیاں درست کرنے کے لیے ہی ہوتی ہیں اگلی بار کسی ایسے فرد سے منسوب کر دیں گے قصہ جو حیات ہو لیاقت علی خان و قائداعظم ان کے خواب میں آ کر "ہم نہیں ہمارے بعد، الطاف الطاف" کہے. حیران و پریشان نہ ہوں ابتداء میں ایسے بیان لطیفہ کی شکل میں وارد ہوتے ہیں جنہیں مخالفین بطور طنز استعمال کرتے ہیں اور بقایا بطور خوشامد. یہ برائی سب پارٹیاں اپنا چکی ہیں کسی کی پکڑی گئی اور کوئی بچ گیا.
اس لطیفے کو سنجیدگی سے لیا جانا خود میڈیا کی غیر سنجیدگی کو ثابت کرتا ہے. یہ خبر بریکنگ نیوز کے طور پر آئی تھی وہ تو شوشل میڈیا پر اس پر طنز ہوا تو شاید اس وجہ سے خبر کا رخ بدلا. ویسے میڈیا میں بھی تو مراثی و مسخرے داخل ہو چکے ہیں ناں. لہذا ان کا بھی غلطی نہیں ہے.
6/05/2015
روہنگیا: مظلوم ترین آبادی
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ 1982 میں شہریت سے متعلق قانون پاس ہونے کے بعد قریب اٹھارہ لاکھ مسلم آبادی پر مصیبتوں کے پہاڑ اتارے گئے خاص کر روہنگیا نسل کے مسلمانوں پر کہ انہیں برما (میانمار) کا شہری ماننے کے بجائے غیر ملکی قرار دیا گیا یوں ایک شہری کو حاصل تمام بنیادی حقوق سے اِس مسلم آبادی کو محروم کر دیا گیا یہاں تک آزادانہ نقل و حمل جیسا بنیادی انسانی حق بھی سلب کر لیا گیا مگر حقیقت یہ ہے کہ اس خطے میں روہنگیا نسل سمیت دیگر مسلمان آبادی پر سولہویں صدی سے ہی سختیاں شروع ہو گئی تھی جب جانوروں کی قربانی سے روکنے کے عمل سے مظالم کا آغاز ہو گیا تھا.
دنیا میں یہ کہاجاتا ہے کہ بودھ امن پسند ہیں ان کی تعلیمات کے مطابق انسانی جان کیا جانور کو مارنا بھی ظلم ہے. مگر میانمار کے معاملات سے تو یہ فقط "پراپیگنڈہ" لگتا ہے. مسلم کشی کو لیڈ کرنے والا بودھ بھگشواء ہی تو ہے. ایک سزا یافتہ، مذہبی تعصب کا شکار. اور قاتلوں کی فوج بودھ بھگشوؤں پر مشتمل ہے.
میانمار میں جس قسم کے قوانین پاس ہو رہے ہیں اور حکومت جس طرح کا رویہ اختیار کئے ہوئے ہے اس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس ساری بربریت و غارت گری کو سرکاری سرپرستی حاصل ہے. مسلم آبادی پر دو سے ذیادہ بچے پیدا کرنے پر پابندی عائد ہے. ایک مسلم خاندان پر لازم ہے کہ وہ دو بچوں کے درمیان کم از کم تین سال کا وقفہ لازم ہے. دوسری طرف میانمار صدر صاف الفاظ میں روہنگیا آبادی کو ملک چھوڑنے کا مشورہ دے چکا ہے.
ہم نے سنا تھا کہ عورت کا دل بہت نرم ہوتا ہے، چونکہ وہ ایک جان کو جنم دیتی ہے اس لئے انسانی جان کی قدر کو مرد کے مقابلے میں بہتر سمجھتی ہے، مگر معلوم ہوا کہ جب بات اقتدار کے لالچ کی ہو انسانی جان مسلم آبادی کی ہو تو ایک بودھ مذہب کی سیاستدان عورت کی جانب سے سوال کرنے پر بھی مذمت نہیں کی جاتی. انگ سان سوچی نے بھی ایسا ہی کیا یوں اس خیال کو تقویت پہنچی کہ امن کا نوبل انعام دراصل میرٹ پر نہیں پسند پر دیا جاتا ہے.
برما میں ہونے والی اس مسلم کشی میں وہاں کی حکومت، اپوزیشن اور مذہبی طبقے تمام کے تمام ایک ہی لائن پر ہیں، جس سے یہ تاثر قائم ہوتا ہے کہ عوامی سطح پر اس انسان کشی کو قبولیت کا درجہ حاصل ہے ایسے میں اس (روہنگیا) مسلم کشی کا حل کیا ہو گا؟ بیرونی دنیا اور خاص کر مسلم دنیا کیسے انسانی جانوں کو بچا پائے گی؟ کیا بیرونی دنیا ان روہنگیا نسل کو اپنے یہاں پناہ گزیر کرے گی اور اگر ہاں تو کب تک؟
میانمار سے باہر ہونے والے احتجاج و مذمتی جلوس وہاں کے لوگوں کا ذہن نہیں بدلنے والے کم از کم اتنی جلدی نہیں کہ روہنگیا کی آبادی کی مزید بڑے نقصان سے بچ سکے. بیرونی دنیا کی پابندیاں ممکن ہے کسی حد تک بہتری کا راستہ نکال لیں مگر اصل حل یہ ہی ہے کہ کوئی ایسی قوت ہو جو قاتلوں کا ہاتھ موڑ سکے خواہ وہ مقامی آبادی سے نکلے یا بیرونی حملہ آوروں کی شکل میں! کیا مسلم دنیا ایسا ایڈوینچر کر سکی گی؟ نہیں تو بھول جائیں کہ آپ و میں میانمار کی روہنگیا آبادی کو بچا پائے گے البتہ روہنگیا مقتولین کے خاندانوں سے ایسے شدت پسندوں کی پیدائش ضرور ہو گی جو دوسروں پر رحم شاید نہ کریں.
5/27/2015
جعلی ڈگری، سچی صحافت
دھوکہ و فراڈ ایک جرم ہے، جرم قابل سزا ہوتا ہے. ملزم کے مجرم بننے تک کے درمیانی سفر میں کئی ایسے مقام آتے ہیں جب اپنے و مخلص پہچانے جاتے ہیں. ہمارے ایک دوست کہا کرتے ہیں مجرم کو اس کے جرم کی سزا دلانا اس سے دوستی و محبت کی ایک شکل بھی ہو سکتی ہے اور اس کو بچا لینا اس سے دشمنی.
ہمارے ملک میں حرام کی کمائی سے حج کرنا ہی نہیں بلکہ اس پر زکوۃ و صدقہ دینے کا بھی عام رواج ہے. جو نوکری پیشہ حلال کمانے کے دعویدار ہیں ان میں سے بھی کئی میری طرح کے ہیں جو نوکری پر آدھ گھنٹہ لیٹ جاتے ہیں اور پونے گھنٹہ پہلے نکل لیتے ہیں کہ کام ختم ہو گیا اور سرکاری گھاتوں میں ہونے والی بے قاعدگیوں سے یوں لاتعلق ہوتے ہیں جیسے کہ گونگے، بہرے و اندھے ہوں جبکہ معلوم سب ہوتا ہے.
ہر مارکیٹ کے اپنے بنائے ہوئے چند اصول ہوتے ہیں جس سے انحراف جائز ہوتا ہے مگر اس بے اصولی کا اقرار نہیں کیا جاتا یہ مارکیٹ کا سب سے بڑا و اہم قانون ہوتا ہے.
اصلی یونیورسٹی اصلی ڈگریوں کے ساتھ ساتھ "دیگر" اسناد کا بھی اجراء کر دیں تو لینے والا مجرم ہوتا ہے مگر جعلی یونیورسٹی کی ڈگری دینے والا مجرم ہوتا ہے یہ ہی اصول ہے یہ ہی قانون. اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ خریدار خود بھی دونمبر مال کی تلاش میں تھا.
صحافت ایک نوبل پروفیشن ہے صحافی کے لئے، ان کے مالکان کے لئے یہ صنعت ہے. صنعت کوئی بھی ہو مقصد پیسہ بنانا ہوتا ہے. اس صنعت میں سب سے ذیادہ بکنے والی شے جھوٹ ہے. یہاں سچ نہ بولنے پر بھی پیسہ کمایا جاتا ہے بس مرضی کی قیمت لگ جائے. میڈیا مالک صحافی کی ضرورت کی بولی لگاتا ہے، بیچارا صحافی اپنی مجبوری کی قیمت پر بک جاتا ہے.
اگر حرام کی کمائی سے بنائی گئی مسجد میں نماز پڑھنے والے نمازیوں کی نماز کی قبولیت کے سوال کرنا درست نہیں اور نماز کی قبولیت پر شک نہیں تو آنے دیا جائے ایک ایسا میڈیا گروپ جس سے صحافی کی قیمت اس کی مجبوری و ضرورت کو دیکھ کر نہیں قابلیت کو دیکھ کر ادا کی گئی ہو تاکہ سچ بولنے کی قیمت لگے چھپانے کی نہیں، جھوٹ نہ بولنا اصول ٹھہرے قیمت نہیں. ہاں حرام کی کمائی کمانے والا یا قانون شکنی کرنے والے کا معاملہ الگ ہے.
ضمیر کی آواز پر لبیک کہنے کے دعویدار اصولوں کے کتنے بڑے سوداگر ہے ہم جانتے ہیں.
(یہ میری رائے ہے اختلاف آپ کا حق ہے)
11/19/2014
تھر کا قحط، گداگری اور ہم
اس سال تھر میں کم بارشیں ہوئی ہیں، کسی حد تک فصل نہیں ہوئی پائی یہاں کاشت کاری بارش پر منصر ہے مگر معمول سے کم بارش ہونے سے نہ تو اچھی فصل ہو پائے گی اور نہ جانوروں کے لئے چارہ۔ مگر عمومی حالت قحط کی سی نہیں ہاں اگلے سال بارش نہ ہو تو خوراک کی نایابی کے امکان کو رد کرنا مشکل ہو گا۔
نومولود بچوں کی ہلاکت کی اصل وجہ زچہ کو دوران حمل اچھی خوراک کا نہ ملنا ہیں ۔ دوسرا طبعی سہولیات کا فقدان ہے۔ مٹھی شہر کے ہسپتال میں بچوں کے لئے سہولیات ضلع کے باقی ہسپتالوں کے مقابلے میں بہتر ہیں۔ اس لئے آخری کوشش کے طور پر نومود بچوں کوعموما تب اس ہسپتال میں پہنچتے ہیں جب وہ ڈاکٹر کے علاج سے بھی زندگی کی جدوجہد جیتنے کے قابل نہیں رہتے
۔ قحط سے مراد کمی یا نایابی ہے ، مگر یہاں تھر میں خوراک کی کمی یا نایابی نہیں ہے البتہ تعلیم، طبعی سہولیات ، مواصلات کی کمی یا نایابی ضرور ہے۔ ملک کے باقی حصوں کی طرح یہاں بھی کرپشن و انتظامی بد عنوانی پائی جاتی ہے۔ حکومت نے پانی کی فراہمی کے لئے مختلف جگہوں پر water plant لگائے ہیں مگر کرپشن و انتظامی بد عنوانی کی بناء پر ان پلانٹس کو چلانے کی رقم خردبرد ہو جاتی ہے یوں یہ پانی کی فراہمی کے پلانٹس یا تو بند ہے یا بہت کم کام کرتے ہیں۔
میڈیا تصویر کا اصل رُخ دیکھانے کے بجائے وہ رُخ دیکھا رہا ہے جو اصل حقیقت نہیں۔ الیکٹرونک میڈیا کی نمائندے مٹھی شہر آتے ہیں رات ریسٹ ہاوس میں گزارتے ہیں صبح ماروی کا گاوں گھومنے جاتے ہیں، ننگر کی جھیل ، مسجد و مندر کی سیر کرتے ہیں اور شام میں ایک پروگرام ریکاڑد کر کے قحط قحط کا شور مچاتے ہیں۔ کیا اچھا ہو کہ وہ بتائیں کہ تھرپارکر کے ضلعی ہیڈکواٹر کے علاوہ مقامی تحصیلوں کے دور دراز علاقوں میں طبعی سہولیات کی فراہمی نومود بچوں کو موت سے بچا سکتی ہے۔ وہ بتائیں کہ مقامی لوگوں کو آگاہ کیا جائے کہ زچہ کو دوران حمل عمدہ خوارک صحت مند بچے کی پیدائش کا سبب بنی گی ۔
مگر یوں لگتا ہے کہ ہم گداگر بنتے جا رہے ہیں ہماری مثال باحیثیت قوم اُس بندے کی سی ہوتی جا رہے ہے جو سڑک کنارے سگنل بند ہونے پر کھڑی گاڑیوں کے مسافروں کواپنا زخم دیکھا کر کہتا ہے "اللہ کے نام پر دیتا جا رے، جو دے اُس کا بھی بھلا جو نہ دے اُس کا بھی بھلا" ۔۔۔۔۔۔ قحط کا شور ہمارا ایسا ہی زخم ہے۔
7/22/2011
خبر ہوئی کیا خبر ہے؟
شہر میں افواہ چل رہی ہو تو تمام نہ سہی یار لوگ کہتے ہین کچھ تو سچ ہوتا ہے ہے۔ اب کیا کریں کہ ایک خبر کے ساتھ ہی وکلاء برادری میں بھی افواہ چل پڑی ہے! خبر کیا ہے؟
خبر یہ ہے کہ جناب سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس محترم طفیل ایچ ابراہیم صاحب نے استعفی دے دیا ہے! خبر میں "حقیقی" و "آفاقی" حوالہ تو ہے مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ محترم کے پاس "اہلیان کراچی" اور "کراچی لورز" نامی دیواری چاکنک کے اصل ماں باپ کے مخالف کے کیس کی نہ صرف تنسیخ کی درخواست دائر ہے بلکہ ضمانت بھی مانگی گئی ہے۔ "آفاق" میاں گزشتہ آٹھ دس سال سے جیل میں ہیں باقی کیسوں مین ضمانت مل چکی مگر اب ایک ہی کیس رہ گیا ہے! اب جبکہ 21 اپریل کے گزٹ میں یہ قانونی ترمیم متعارف ہو چکی کہ اگر قتل کے کیس کے مجرم کا مقدمہ دو سال مین ختم نہیں ہوتا تو اُسے ضمانت پر رہا کر دیا جائے گا۔
اب افواء عام ہے کہ محترم جسٹس صاحب کی ذاتی وجوہات دراصل "خطرہ جان ہے" کیونکہ ضمانت تو بنتی ہے مگر جو "بیان" پر مشتعل ہوتے ہیں، شہر میں مئی کے مہینے میں "عوامی طاقت" کا مظاہرہ کرتے ہیں! اُن کا پریشر جسٹس صاحب برداشت نہ کر سکے!
سچ کیا ہے یہ تو اللہ ہی جانتا ہے۔ ہم تو بس افواہ کی بات کر رہے ہیں۔
اپ ڈیٹ؛ لیں جناب ایک اور جج نے کیس کی سماعت سے انکار کر دیا۔ یہ ہے مافیا کی طاقت خاص کر جب وہ سیاست میں بھی ہو اور اقتدار کا حصہ بھی۔ مگر لوگ ہیں کہ مانتے ہی نہیں۔
7/03/2011
ہم کہیں گے تو شکایت ہو گی
امریکی اسٹیٹ ڈپاٹمنٹ کی ویب سائیڈ پر اگر "سفارت کار ہو حاصل استہقاق" والی دستاویز کے صفحہ 164 پر درج ہے
یعنی کہ امریکی حکومت کے بیان کردہ اصولوں میں یہ بات تو تسلیم کی گئی ہے کہ 'استہقاق کے حامل افراد کی یہ ذمہ داری و فرض ہے کہ وہ متعلقہ ریاست کے اصول و ضوابط اور قوانین کا احترام کریں'
اردو محفل کی اس پوسٹ سے معلوم ہوا کہ اسلام آباد میں موجود امریکی سفارت خانے میں پاکستان میں ہم جنس پرستوں کے جشن کی تقریب منعقد کی، پاکستان میں امریکی تعاون سے منعقد ہونے والی یہ پہلی ہم جنس پرستوں کی محفل تھی۔ یہ تقریب گزشتہ ماہ 26 جون کو منعقد کی گئی۔
یعنی گزشتہ ماہ کے آخری عشرے میں کم و بیش اس طرح کی دو تقریبات ہوئی اور ایک کو مقامی اخبارات میں من چاہی کوریج ملی! انگریزی و اردو دونوں اخبارات میں۔ پہلی تقریب جو نتھیا گلی مین ہوئی اُس کو بی بی سی نے کوریج دی۔
ہم جنس پرستی اور جنسی بے راروی ہمارے معاشرے میں درست طور پر غلط سمجھے جاتے ہیں اور ہمارا مذہب ان واہیاتیوں کی اجازت بھی نہیں دیتا اور اس ہی لئے ہمارے ملک میں موجود قوانین کے تحت یہ قابل گرفت عمل ہے۔ بات یہاں تک ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر ہر فورم پر پاکستان نے ایسے کسی بھی عمل و قانون کی حمایت سے انکار کیا جس سے ہم جنس پرستی کی حمایت کرنا مقصود ہو۔ اس کی تازہ ترین مثال بھی گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کے فورم پر امریکہ کی جانب سے ہم جنس پرستی کی حمایت میں پیش کردہ قرارداد کے موقع پر پاکستان کے نمائندہ ضمیر اکرام نے صاف طور پر کہا تھا یہ "ہم جنس پرستی کسی طور پر بنیادی انسانی حق نہیں ہے" اس کے باوجود امریکی سفارت خانے کا یہ عمل کہ پاکستان میں ہم جنس پرستوں کی تقریب منعقد کرنا اور امریکی سفارت کار رچرڈ ہوگلینڈ کی طرف مکمل حمایت کا یقین دلانہ ایک غیر مہذب عمل اور اپنے کی بیان کردی سفارتی آداب کے خلاف ہے۔ پریس ریلیز کا متعلقہ حصہ
جہان ہم سمجھتے ہیں کہ امریکی حکومت اور اُس کا سفارت خانہ اپنی اعمال پر خود توجہ دے اور پاکستانی عوام کے جذبات اور قوانین کا احترام کرے وہاں حکومت وقت سے بھی یہ امید رکھتے ہیں تعاون و تعلقات کو غلامی کی حدود سے باہر رکھے اور ایسے معاملات میں سخت موقف اختیار کرے۔ مگر لگتا یہ ہے کہ دونوں کام نہیں ہونے۔
6/10/2011
المیہ تو المیہ ہی ہے
سچ کو اپنی سچائی کے لئے کیا کسی کی گواہی کی ضرورت ہے؟ اگر ہاں تو یہ سچائی کے ساتھ ذیادتی ہی نہیں بلکہ ایک المیہ ہے۔
کراچی میں ہونے والی رینجر کے ہاتھوں ہونے والی دہشت گردی پر میرا وہ ہی ردعمل ہے جو سیالکوٹ والی سفاکی پر تھا!۔
دونوں واقعات کی بربریت کے گواہ اور شاہد کیمرہ مین میری نظر میں اس سفاکی و بربریت کء معاونین میں سے ایک ہیں۔
5/08/2011
ہارن آہستہ بجائیں!!
ملیر بار کے سیکٹری جنرل جو کے ایبٹ آباد سے تعلق رکھتے ہیں کل ہے اپنے شہر گئے! آج اُن کا ایک ایس ایم ایس ہمین موصول ہوا! ایس ایم ایس کیا تھا ایبٹ آباد میں موجود عوامی رائے کا اظہار تھا اُن کے بقول انہوں نے پی ایم اے ایبٹ آباد کے قریب دیوار پر لکھا ہے!
3/30/2011
کھلی چھٹی سے آدھی چھٹی تک
یار میچ ہے گھر جا رہا ہوں
“تو بھی آدھی چھٹی کما کر آ رہا ہے"
ہاں یار، ہماری تو آدھی چھٹی تھی اور تمہاری؟
“ہماری پوری چھٹی تھی"
یار سمجھ نہیں آیا وفاق نے آدھی چھٹی دی اور صوبے نے پوری کیوں؟
“سیدھی سے بات ہے جس کو جتنی چھٹی ملی ہوئی ہے اُس نے اتنی چھٹی عوام کو دی"
مطلب کیا ہے؟
“دیکھ ہار بڑے صاحب نے گیلانی صاحب کو آدھی چھٹی دے رکھی ہے اور آدھی گیلانی کے مخالفین کو تو گیلانی نے آدھی چھٹی عوام کو دی"
بات سمجھ میں نہیں آئی مگر چلو یہ بتاو پھر سندھ میں پوری چھٹی کیوں ہے؟
“لے یار پہلے تو یہ بتا سندھ میں چھٹی کس نے کی؟"
وزیراعلی و گورنر نے۔
“دیکھ اب سمجھ، سندھ میں آدھی چھٹی ملی ہوئی ہے قائم شاہ و کمپنی کو اور آدھی چھٹی ملی ہوئی ہے لندن والی سرکار و کمپنی کو، آپس کی بات ہے وہ جو ولی صاحب و کمپنی کو آدھی چھٹی ملی ہے ناں اُس کا کچھ استعمال وہ بھی سندھ میں کر لیتے ہے"
تو پھر؟
“تو پھر کیا؟ آدھی چھٹی گورنر کی اور آدھی وزیراعلی کی ہو گئی ناں کھلی چھٹی۔ جانو جس کو جتنی چھٹی ملتی ہے نا اُتنی ہی وہ آگے دیتا ہے"
کیا ہودہ وضاحت دی ہے۔
3/29/2011
پاک بھارت سیمی فائنل اور ہندوستانی چینل
دلچسپ خبروں کو جمع کیا ہے کہ کیسے انڈین میڈیا پاکستانی ٹیم کی توہین کر رہا ہے ۔ وقت ہو تو ایک نظر اس پر ڈال لیں۔
دلچسپ بات یہ کہ بھارتی میڈیا نے اپنی ٹیم کو بھی میچ فیکس کرنے کے الزام ست سرفراز کیا ہے۔ وہ کدھر ہے آئی سی سی؟
10/20/2010
زخمی کراچی
یہ لسانیت کی سیاست شہر سے انسانیت کو کھا رہی ہے، لسانیت و تشدد کے ملاپ سے پروان چھڑنے والی یہ سیاسی نفرت نے شہر میں بسنے والوں کو آپس کے خوف میں مبتلا کرنا شروع کردیا ہے، جیسے ہی میڈیا نے خوف کی اس فضاء میں کرفیو کی کی غیر مستند خبر نشر کی اہل فساد نے ساتھ ہی آپریشن کا شوشا بھی چھوڑ دیا۔اختلاف کو نفرت کے روپ میں سینوں میں پالنے والوں نے اپنی نفرت کے زیر اثر اُس پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا!
خدا خیر کرے لندن سے اسلام آباد تک سب مفاد کی جنگ میں طاقت کے حصول کے لئے لسانیت کی سیاست میں مبتلا ہیں۔ اور اُن کے اندھے پیروکار اس لڑائی میں "قوم" و "قومیت" کا تصور سمیٹ کر "بولی" تک کی طرف سفر میں گامزن ہے۔
شہر سے ناگہانی موت کا سایہ نہیں جاتا
جواں لاشے ،تھکے کاندھے،لزرتے قدم ہیں میرے
الہٰی، کرم فرما،بوجھ اب یہ اٹھایا نہیں جاتا
10/01/2010
زمانے کے انداز بدلے گئے!
“ارے مت پوچھو دورہ تو اچھا رہا مگر واپسی پر بہت تلخ تجربہ ہوا یار"
ارے ایسا کیا ہو گیا تمہارے ساتھ جو ایسے برتاؤ کر رہے ہو!
“یار واپسی میں ڈاکوؤں کے ہاتھ چڑھ گئے تھے"
ارے نہیں یار! کیسے؟ اور کیا ہوا!
“کیسے کیا بس ہو گیا ناں! اب کیا تفصیل بتاؤ!”
ہمم چلو کیا نقصان ہوا؟
“کچھ ذیادہ نہیں بس بیس پچیس ہزار ہی گیا ہے مگر کئی لوگوں کا ذیادہ بھی ہوا ہے نقصان"
چلو جان ہے تو جہان ہے زندہ بچ گئے یہ ہی کافی ہے! نقصان کو پورا ہو ہی جاتا ہے۔
“ہاں یہ تو ہے، مگر اس لوٹ مار میں ایک عجیب معاملہ دیکھنے کو ملا"
وہ کیا؟
“یار ڈاکو مسافر سے اُس کا نام و قبیلہ پوچھتے تھے! پھر اُس کے مطابق اُس سے سلوک کرتے! پہلے پہل سید مسافروں کو ایک طرف کر دیا! میں نے دیکھا کہ سیدوں کے ساتھ کچھ نرم سلوک ہے تو میں بھی سید بن گیا"
شاباش! بڑی ذہانت دیکھائی، ویسے یہ تو ہے ہمارے یہاں سیدوں کا لوگ کافی احترام کرتے ہیں۔
“ارے کہاں بھائی! جب ڈاکوؤں نے سیدوں کو چھوڑ کر سب کو لوٹ لیا تو ایک ڈاکو کو مخاطب کر کے اُن کے لیڈر نے کہا '۽ اسان پنهنجو ڪم ڪري ڇڏيو، هاڻي اوهان پنهجي رشتیدارن سان نڀايو' (ترجمہ: ہم نے اپنا کام کر لیا ہے اب تم اپنے رشیداروں سے نمٹو)"
او نہیں یار!! مطلب سید ڈاکو؟
“ہاں بھائی"
مگر یہ آئیڈیا اُن کے دماغ میں کہاں سے آیا؟
“ممکن ہے موجودہ حکومت سے! بڑا وزیر بھی تو ۔۔۔۔۔۔۔"
نوٹ: اگر کسی کو یہ تحریر پسند نہ آئے تو اس تحریر نوٹ کو معذرت کے طور پر قبول کرے۔
9/06/2010
بھارتی فریب کا جال

8/24/2010
لاقانونیت + درندگی+ تاویل= المیہ
اس کے علاوہ میں یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ چور/ڈاکو جو علاقے کے لوگ پکڑ کر پولیس کے حوالے کرتے ہیں عام طور اُس پر اہل علاقہ اپنا غصہ اُتار چکے ہوتے ہیں مارنے والوں کے ذہین میں یہ بات ہوتی کہ اس نے قانون کے شکنجے سے بچ جانا ہے لہذا ابھی اس کے ساتھ جو سلوک کرنا ہے کر لو دوئم ایک خاص سوچ جو مختلف وجوہات ہی بناء پر عام افراد میں شعوری یا لا شعوری طور میں پروان چڑ چکی ہے وہ یہ کہ یہ افراد اس ہی سلوک کے حقدار ہیں وہ کسی نا کسی نقطہ یا بحث میں ایسے افراد یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ تشدد کا یہ عمل قانون، اخلاق اور انسانیت کی رو سے غلط ہے مگر لاشعوری طور پر اس کے ہامی ہوتے ہیں ایسا کیوں؟
اس کی بہت سے وجوہات ہو سکتی ہیں!اول اول تو یہ تاثر کہ قانون کی عملداری نہیں ہے! کسی بھی جرم کے مجرم کے بارے مین عام آدمی کا یہ تاثر کہ یہ تو بچ جائے گا! اس تاثر میں مکمل سچائی نہیں! مگر چونکہ لوگ ایسا ہونا سچ مانتے ہیں اس لئے وہ عدلیہ کے بجائے خود سزا دینا ٹھیک جانتے ہیں!
اس کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ معاشرہ کا عام شہری عدالت سے ملنی والی سزا کو اپنے مخالف کے لئے نا کافی سمجھتا ہے! مثلا ایسے واقعات دیکھنے میں آئے جہاں بچوں کی لڑائی پر لوگ مخالفین کو دس دس سال سزا دلوانا چاہتے ہیں جو انتہا پسندی ہے! یا معمولی تکرار پر اگلے کو پھانسی لگوانا!
ایک اور چیز یہ کہ ہمارے معاشرے نے تشدد کو قبول کر لیا ہے! اگر معاشرہ کے ہر طبقے یا گروہ کو دیکھے تو کسی نا کسی شکل میں وہ تشدد کو اپنائے ہوئے ہے، ہم اپنے پسندیدہ مذہبی رہنماء کے قتل/ قاتلانہ حملہ میں زخمی ہونے پر ملک/شہر میں ردعمل میں دس بارہ گاڑیوں کے جل جانے، بیس تیس
تشدد پر آمادہ ہونے اور اسے قبول کرنے کی جانب گامزن ہونے میں میڈیا کا بھی رول ہے! کیسے؟ آپ گذشتہ بیس سال کی کہانیاں، ڈرامے اور فلمیں دیکھ لیں آپ کو ان مین اکثریت خاندان دشمنی یا باہمی جھگڑوں پر بنے والی وہ فلمیں ملیں گی جن میں فلم/کہانی کا نام نہاد ہیرو اپنے دشمن کو عدالت کے کہٹرے مین لانے یا عدالتی سزا دلوانے کے بجائے خود بدلہ لینے کو ترجیح دیتا ہے! اور اُس کے اس عمل کو گلیمرائز کر کے دیکھایا/لکھا جاتا ہے! نہ صرف یہ بلکہ جرم و سزا کی کہانیوں و فلموں میں کسی ایک کی جان کو مرکزی کردار کے لئے اہم بتا کر باقی کرداروں کو مارنے کو عظیم کارنامے کے طور پر دیکھایا جاتا ہے! کیا ایسے میں یہ ممکن ہے کہ معاشرہ تشدد کی طرف راغب نہ ہو؟
اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمیں مستقبل میں سیالکوٹ جیسے واقعات و المیوں کا سامنا نہ کرنا پڑے تو ضروری ہے کہ ہم ہر سطح پر لاقانونیت کو ختم کرنے کی عملی کاوش کا حصہ ہوں، اپنے اردگرد یہ آگاہی دے کہ ملزم کے گناہگار اور بے گناہی کا فیصلہ عدالت نے کرنا ہے، یہ کہ ایک بُرے کام کی تاویل دوسری بُرائی نہیں ہوسکتی! نیز یہ جانے کہ انسانی جان کی حرمت کیا ہے!
جب میں ایسے واقعات کا ٹھنڈے ذہین سے تجزیہ کرتا ہوں تو یہ محسوس ہوتا ہے اس درندگی، حیوانیت اور ظلم میں کہیں میں بھی قصور وار ہوں۔