Pages

6/12/2013

ڈی این اے، اسلامی نظریاتی کونسل اور ہمارا قانون!!

ہمیں شاید عادت ہو گئی ہے آسان بات کو دشوار کرنے کی اور سیدھی بات میں ابہام ڈالنے کی! گزشتہ دنوں جب اسلامی نظریاتی کونسل نے پریس ریلیز جاری کی تو جس انداز میں خبر ہم تک پہنچی یوں معلوم ہوا کہ جیسے اسلامی نظریاتی کونسل نے ڈی این اے کو بطور شہادت لینے سے ہی انکار کیا ہے! ہم بھی اول اول اس کو لے کر پریشان ہو گئے کہ یہ مولویوں نے کیا کیا!!! مگر بعد میں علم ہوا معاملہ یوں نہیں تھا!!
آپ ڈان اخبار اور دنیا پاکستان میں اس خبر کی سرخی دیکھیں تو آپ کو سمجھ آ جائے گی کہ ابہام کس نے کہاں کیا!
ڈان نے خبر یوں لگائی “جنسی زیادتی کے مقدمات میں ڈی این اے ناقابل قبول
اور دنیا پاکستان نے یوں “زنا بالجبر ، ڈی این اے ٹیسٹ بطورمددگارشہادت قبول ہے: اسلامی نظریاتی کونسل”۔
بات یہ ہے کہ زنا بالجبر کی اسلامی سزا ہے سنگسار کرنا!! جو کہ حدود لاء کی دفعہ چھ اور دفعہ 17 کے تحت ہے! اور حدود لاء کی دفعہ آٹھ کے تحت یہ سزا اُس وقت ہی دی جائے گی جب یا تو ملزم خود اعتراف جرم کر لے یا پھر اُس کے اس گناہ یا جرم کی شہادت چار عینی گواہ دیں! اسلامی نظریاتی کونسل نے یہاں یہ رائے دی کہ زنا بالجبر کے مقدمات میں صرف ڈی این اے ٹیسٹ ہی کی بناء پر حد (یعنی سنگساری کی سزا ) نافذ نہیں کی جا سکتی اسے صرف ضمنی شہادت کے طور پر قبول کیا جائے گا! یعنی یہ شرعی شہادت نہیں! اور صرف اس کی بناء پر شرعی سزا نہیں ملے گی! اس میں کوئی حرج نہیں یہ ایک درست رائے ہے! کیوں؟
ایک عام خیال یا مغالطہ یہ پایا جاتا ہے کہ اگر چار گواہ نہ ہو تین یا اس سے کم گواہ ہوں یا شرعی شہادت نہ ہو تو ملزم کو کہا جائے گا “سر غلطی ہو گئی آپ گھر جاؤ، عیاشی کرو، آپ تو شریف آدمی ہو” ایسا نہیں ہے جناب! حدود کا نفاذ نہ ہونے پر ملزم با عزت آزاد نہیں کیا جاتا بلکہ تب بھی اگر ایسے شواہد و شہادتیں ہو جن سے اُس کا جرم ثابت ہوتا ہو تو وہ قابل سزا ٹھہرتا ہے! کیسے؟
حدود لاء کی دفعہ 10 کے تحت 25 سال تک قید(جو ہر گز 4 سال سے کم نہ ہو گی) اور 30 کوڑے مارے جائیں گے مجرم کو! مزید یہاں یہ بتانا بھی اہم ہو گا کہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 376 کے تحت زنا بالجبر میں ہی عدالت ملزم کے مجرم ثابت ہونے پر موت کی سزا بھی دے سکتی ہے۔ صرف معلومات کے لئے عرض ہے کہ پڑوسی ملک بھارت میں اس جرم کی ذیادہ سے ذیادہ سزا موت نہیں ہے یعنی ہمارے یہاں سزا سخت ہے۔ اور ملتی بھی ہے یہ نہ سمجھا جائے کہ ملزم بچ جاتا ہو گا!
اسلامی نظریاتی کونسل کی اس رائے سے پہلے ہی سپریم کورٹ اور فیڈرل شریعت کورٹ مختلف فیصلوں میں ڈی این اے ٹیسٹ کو معاون شہادت کا درجہ دے چکی ہیں بلکہ اکتوبر 2012 میں سپریم کورٹ سفارشات دی چکی ہے کہ زنا بالجبر کے کیسوں میں ڈی این اے کو لازمی قرار دیا جائے مگر دونوں (سپریم کورٹ اور فیڈرل شریعت کورٹ) حد کے نفاذ کے لئے صرف ڈی این اے کو بطور شہادت قابل قبول نہیں سمجھتیں!! کیونکہ کہ صرف اور صرف ڈی این اے کی شہادت زنا بالرضا اور زنا بالجبر میں تفریق کرنے میں معاون نہیں ہے۔ اس سلسلے میں دیگر شہادتیں بھی درکار ہوتی ہیں۔
امید کرتا ہوں دوست بات کو سمجھ گئے ہو گے! یوں لگتا ہے ٹی وی میں ہونے والی مباحث لوگوں کو با علم کرنے کے بجائے گمراہ کرنے کو کیئے جاتے ہیں۔ مزید یہاں یہ بھی آگاہ کردوں کہ پاکستان میں اب تک کسی ملزم کے مجرم ثابت ہونے پر حد نافذ نہیں ہوئی نیز اسلامی نظریاتی کونسل کو آڑے ہاتھوں لینے والے ہی ان حدود کی سزاؤں کو غیر انسانی سمجھتے ہیں! یعنی نہ اُدھر خوش نہ ادھر!!

6/07/2013

خواب جنون اور تعبیر

میرے ایک دوست ہیں نام لینا مناسب نہیں لیکن کافی عرصے تک "خرچے" سے بھی تنگ تھے کافی عرصہ تنگ دستی کی زندگی گزارنے کے بعد نہ صرف ڈسٹرکٹ کورٹ کراچی سے نااہل وکیل قرار پائے بلکہ روایتی خوشامدی اور چاپلوس نہ ہونے کی وجہ سے ان کی وکالت کامیاب نہ ہوسکی کمال کے مقرر ہیں اور ایک اچھے قصہ گو ہیں اتنے اچھے کہ وہ پورا دن بولتے رہتے تھے اور ان کی پیاری باتیں ہم سنتے رہیں وکالت میں شدید ناکامی کے بعد خاموشی سے یورپ میں جابسے بعد ازاں کافی عرصے تک اس کے خوابوں کو ڈسکس کرتے رہے اس دنیا کے ناکام ترین انسان کی باتیں شیئر کرتے رہے پانچ سال کے طویل وقفے اور روپوشی کے بعد دودن قبل اس کی کال وصول ہوئی پہلے تو مجھے یقین ہی نہیں آیا کہ وہ دنیا کا ناکام ترین انسان واپس آچکا ہے بہرحال اس کے ساتھ پورا دن رہا مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ وہ ایک یورپی ملک کا ایک اہم وکیل بن چکا ہے اور اس کی لاء فرم یورپ کی مشہور لاء فرم بن چکی ہے اور اس کے پاس کامیابیوں کے بے شمار ریکارڈ تھے میں نے پوچھا کہ کیا کوئی شارٹ کٹ تو کامیاب نہیں ہوگیا اس نے کہا ایسا کچھ نہیں وہاں پر وکالت کا ایک نظام ہے ایک ماحول ہے ایک احساس زمہ داری ہے وکالت کتنا زمہ داری کا شعبہ ہے وہاں جا کر احساس ہوا اور ایک وکیل کی کتنی عزت ہوتی ہے وہاں احساس ہوا میں نے پوچھا کہ وہاں کے جج تو کافی ایماندار ہونگے میرے دوست نے کہا نہیں وہاں ایسا کوئی تصور نہیں ایماندار جج اور بے ایمان جج کیا ہوتا ہے؟ جج تو جج ہی ہوتا ہے کھلاؤ سونے کا نوالہ اور دیکھو شیر کی آنکھ سے یہ ان کا اصول ہے اگر کوئی بے ایمان ہے تو اپنے خرچے پر وہاں کا سسٹم اتنا مضبوط ہے کہ کوئی کرپشن کا سوچ بھی نہیں سکتا اچھا کیا وہاں ججز کی کرپشن کو سپورٹ کرنے کیلئے "ایم آئی ٹی" نہیں ہے بھائی یہ ایم آئی ٹی کیا بلا ہے وہاں ایک ہی "ٹی" ہے وہاں کا سسٹم خود ایماندار ہے اس لیئے یورپی ممالک میں عدلیہ کو "ایم آئی ٹی" جیسے ڈھول بجانے کی فرصت ہی نہیں نہ ان کو ایسے ڈھکوسلے ایجاد کرنے کی کوئی ضرورت ہے لیکن اتنا چیلنج ہے کوئی کرپشن کرکے تو دیکھے اچھا اگر کسی بااثر جسٹس کا جونئیر کرپشن کرے تو اس کے لیئے وہ سفارش تو کرتا ہوگا میرے دوست نے کہا ایسا کچھ نہیں وہاں ڈھکوسلوں کا کوئی سلسلہ ہے ہی نہیں وکیل اپنے کلائنٹ کے قانونی حقوق کی حفاظت کا زمہ دار ہے ہر صورت ہر قیمت پر اور اگر یہ بات ثابت ہوجائے کہ وکیل نے غفلت کا مظاہرہ کیا تو اس کو اپنے ہی منتخب نمائیندوں کی حمایت حاصل نہیں ہوتی لائسنس منسوخ کوئی رعایت ہی نہیں میرے منہ سے نکل گیا کیا وہاں بارکونسل نہیں میرے دوست نے کہا ادارے ہیں لیکن وہ زمہ دار ہیں
اب فائدے سن لو وہاں ایک عام وکیل کی بھی اتنی انکم ہے کہ وہ ایک پورے خاندان کو پال سکتا ہے ادارے مضبوط ہونے سے ادارے کا وقار بحال ہے کرپشن کے خاتمے سے ایک میرے جیسا نااہل وکیل جو پاکساتنی عدلیہ میں مس فٹ تھا آج کامیاب زندگی گزار رہا ہے بعد ازاں جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ صرف پانچ سال کے قلیل عرصے مٰیں اس نے پاکستان جو اثاثے بنائے ان اثاثوں کا سوچنا بھی مشکل ہے مجھے اس کی ایک بات ہمیشہ یاد رہی یار خواب بڑے دیکھو ایک دن آتا ہے وہ بڑے خواب تعبیر بن جاتے ہیں مٰیں نے کہا چلو آج ڈسٹرکٹ کورٹ چلتے ہیں کہا نہیں کبھی نہیں کیونکہ وہاں میرے خواب دفن ہیں وہ خوابوں کا قبرستان ہے وہاں میں نہیں جاسکتا میں نے کہا پتہ چلا کہ "مشیر"صاحب بھی چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ بن گئے ہیں وہ بھی تو ہم سے اپنے خواب شیئر کیا کرتے تھے ان کے خواب شرمندہ تعبیر کیوں نہ ہوئے میرے دوست نے کہا اپنے اپنے جنون کی بات ہواکرتی ہے میرے خوابوں کے پیچھے میرا جنون تھا اور ان کے خواب کیوں شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے ہوں وہ خود جانے ہوسکتا ہے کہ ان کا خواب صرف چیف جسٹس سندھ ہایئکورٹ بننے کا ہو تو ان کاخواب بھی شرمندہ تعبیر ہوچکا آج وہ بھی تو چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ ہیں کے سی ڈی آر میں بیٹھ کر جو خواب دیکھتے اور دکھاتے تھے جب وہ خود بھول گئے ہیں تو ہمیں بھی بھول جانے میں کیا حرج ہے
یہ کہہ کر میرا دوست واپس چلا گیا
آخر میں کچھ عرصہ قبل لکھی گئی ایک تحریر کا دوبارہ حوالہ خوش قسمتی سے سپریم کورٹ میں کام کرنے ایک اچھا ماحول موجود ہے کمرہ عدالت کا ایک بہترین ماحول ہے تمام کاروائی ریکارڈ ہوتی ہے اور اہم اداروں کے سربراہان کی کوششوں کے باوجود کیسز چیمبر میں نہیں سنے جاتے بلکہ مقدمات کی کھلی سماعت کی جاتی ہے اس حوالے سے چیف صاحب پر کوئی کبھی بھی تنقید نہیں کرے گا کہ سپریم کورٹ میں گورننس کے ایشوز ہیں یہی حال ملک بھر کی ہائکورٹس کا ہے وہاں نظام کو بہتر بنانے میں کافی کامیابیاں ہوئی ہیں ججز کی کمی ایک مسئلہ تھی وہ بھی کسی حد تک حل ہوچکا ہے
ماتحت عدلیہ جہاں ہرروزلاکھوں کی تعداد میں پیش ہوتے ہیں جہاں لوگوں کے معمولی نوعیت کے معاملات سے لیکر قتل تک کے مقدمات پیش ہورہے ہوتے ہیں وہاں پاکستان کی عدالتوں میں ہمیشہ سے مسائل اور پریشانیاں عوام کا مقدر رہی ہیں ان عدالتوں سے نہ صرف عوام بلکہ وکلاء کو بھی شکوے اور شکایات رہے ہیں اس حوالے سے متعدد بار سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کی توجہ دلائی گئی لیکن کسی کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگی حالیہ دنوں میں 2013 کی کراچی بارکی منتخب کابینہ نے شاید تنگ آمد بجنگ آمد کے تحت کاروائی کی جس کے بعد سندھ ہائی کورٹ نے سخت نوٹس بھی لیا جوابی طورپر وکلاء نے بھی ہڑتال کی اور کافی کامیاب ہڑتال کی لیکن بالآخر یہ معاملہ بھی اسی طرح ہی شاید حل ہونے جارہا ہے کہ" تھپڑ" مار کر معافی مانگ لی جائے اور یہ گھسا پٹا نعرہ بلند کردیاجائے کہ بار اور بنچ ایک ہی گاڑی کے دوپہیئے ہیں جو ایک دوسرے کے بغیر نہیں چل سکتے پھر یہی کہا جائے گا کہ" سب کچھ بھول جا" لیکن چیف صاحب کو اس بار اس کا سخت نوٹس لینا چایئے اس سارے معاملے کو ایک جسٹس کی نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے
کیا واقعی رشوت کا لین دین ہوتاہے؟
اس کو کیسے کنٹرول کیا جائے؟
ماتحت عدلیہ کے اکثر ججز مقدمات کی کھلی عدالت میں سماعت کیوں نہیں کرتے؟
کیا عدالتی اوقات کار کے دوران یا بعد ججز کا اپنے دوست وکلاء یا ملزمان کے ساتھ بیٹھ کر میٹنگ کرنا درست ہے یا غلط؟
جو نظام جو ڈسپلن سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کی سطح پر سختی سے لاگو ہوچکا ہے وہ ماتحت عدلیہ میں کیوں نہیں ہوسکتا؟
اگرسپریم کورٹ اورہائی کورٹ کی ساری کاروائی شفاف بنانے کیلئے ریکارڈ کی جاسکتی ہے تو ماتحت عدلیہ میں کیا رکاوٹ ہیش آرہی ہے ؟
کراچی میں پاکستان کی ٪10 آبادی رہتی تو اس حوالے سے کیا خصوصی اقدامات کیئے گئے ہیں؟
کراچی کے جوڈیشل کمپلیکس کے حوالے سے اہم فیصلوں میں کیا رکاوٹیں ہیں؟
ریکارڈکیپنگ کے لیئے جو پیمانہ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں اپنایا گیا ہے وہی ماتحت عدلیہ
میں کیوں نہیں؟ کراچی کی عدالتوں سے ہزاروں سنگین جرائم میں ملوث افراد کس طرح ضمانت پر رہا ہونے کے بعد لاپتہ ہوگئے ہیں؟ کون زمے دار ہے؟ اور کیا ان کی ضمانت کے طور پر جمع کروائی گئیں دستاویزات پر جرمانہ عائد کیا گیا اور کیا وہ دستاویزات اصلی تھیں؟ اور اگر جعلی دستاویزات تھیں تو پریذایڈنگ آفیسر کس حد تک ذمے دار تھے؟ اسی طرح بہت سے افراد کو زاتی ضمانت پر چھوڑا گیا کیوں؟ کیا سنگین جرائم میں ملوث افراد کو صرف زاتی ضمانت پر چھوڑا جاسکتا ہے؟ وکلاء تںظیمیں صرف ایک ہی مطالبہ کررہی ہیں کہ ان کو کام کرنے وہی ماحول میسر ہونا چاہیئے جو سپریم کورٹ ہائی کورٹ میں وکلاء کو حاصل ہے جس طرح عوام کو چیٖف صاحب سے بے شمار توقعات وابستہ ہیں اسی طرح وکلاء بھی وہی توقعات وابستہ کیئے بیٹھے ہیں
اکیسویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ ایک ایسا عدالتی نظام جس کے زریعے شہریوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے ہم ایسی عدالتی اصلاحات کا مطالبہ کرتے ہیں جن کے زریعے ایک عام شہری بھی اپنے حقوق کے تحفظ کے لیئے عدالت میں بلاجھجک آسکے جب عام شہری کو باآسانی انصاف ملے گا تو نہ صرف شہریوں کی بے چینی کا خاتمہ ہوگا بلکہ پاکستانی معاشرے میں ایسا امن قائم ہوگا جس کی تمنا ہر پاکستانی شہری کررہاہے
تحریر : صفی الدین اعوان