Pages

8/20/2025

🌊 سیلاب اور حکمرانوں کی کارکردگی

 آسمان سے برستا پانی ہر سال نئی آزمائش لے کر آتا ہے۔ کبھی پنجاب، کبھی خیبرپختونخوا اور اب سندھ کے حکمرانوں کی کارکردگی اس سیلابی ریلے میں بہہ کر رہ جاتی ہے۔ تینوں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اپنی ناقص کارکردگی کو امدادی سامان اور فوٹو سیشنز کے ذریعے کیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن حقیقت سب کے سامنے ہے۔



اصل سوال یہ ہے کہ بارش بذاتِ خود تباہی نہیں لاتی۔ پانی کی یہ بارش قدرت کا تحفہ ہے، مگر تباہی اس وقت آتی ہے جب زمین پر بیٹھے حکمران اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتے۔ وہ بروقت ان تجاوزات کو ختم نہیں کرتے جو پانی کے قدرتی بہاؤ میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ یہی رکاوٹیں بستیوں کو اجاڑ دیتی ہیں، کھیت کھلیان ڈبو دیتی ہیں اور انسانی جانیں نگل لیتی ہیں۔


مزید برآں، وہ درخت جو زمین کو مضبوطی اور توازن فراہم کرتے ہیں، ان کی حفاظت بھی نہیں کی جاتی۔ کہاوت ہے: "پانی درختوں کو نہیں مارتا، پتھروں کو بہا لے جاتا ہے۔" لیکن یہاں معاملہ الٹ


ہے—حکمرانوں کی غفلت درختوں کو کاٹ دیتی ہے اور بستیوں کو کمزور کر دیتی ہے۔


المیہ یہ بھی ہے کہ وزرائے اعلیٰ کی کارکردگی سب کے سامنے کھلنے کے باوجود سیاسی کارکن اپنی جماعت کے سربراہ پر سوال اٹھانے کے بجائے مخالف جماعت کو نشانہ بناتے ہیں۔ حالانکہ سب سے پہلا سوال اپنی قیادت سے ہونا چاہیے: آخر کیوں ہر سال بارش اور سیلاب کی تباہ کاریوں کے سامنے یہ نااہلی اور بے بسی دکھائی دیتی ہے؟


7/26/2022

ملزم ظہیر، یوتھیاپا اور لبرلز

ہمیں اپنے زمانہ طالب علمی اور پھر دور وکالت میں کبھی یہ خیال ہی نہیں آیا کہ نوکری کی جائے شادی کے بعد ہم میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ جج بنا جائے مگر وہ نہ بنے سکے البتہ سرکاری وکیل بن گئے۔ نوکری لگنے کے بعد معلوم ہوا وکالت میں آزادی و انکم نوکری سے ذیادہ ہے کہ مئی 2014 میں جتنی ہماری اوسط انکم تھی اگست 2020 کو ہماری تنخواہ اتنی ہوئی، کل ملا کرچھ سال بعد!!
جج کے امتحانات کی تیاری ہم ملیر کورٹ (کراچی) کی لائبریری میں یا پھر اپنے آفس میں کرتے تھے۔ لائبریری میں آٹھ سے بارہ افراد کا گروپ تھا جن میں ایک فرد ابھی وکالت کر رہا ہے ، ایک سرکاری وکیل یعنی کہ میں و باقی سب ججز ہیں۔ ہمیں سب سے خوش قسمت وہ وکلالت والا لگتا ہے ۔
دوران اسٹیڈی مختلف نوعیت کے قانونی معاملات کو بشکل کہانی ان پر تبادلہ خیال کرتے تھے۔ تبہی ایک بار نیا نیا سندھ میں پاس ہونے والا کم عمری کی شادی والا قانون بھی زیر بحث آیا دوران بحث یہ دلچسپ نقطہ سامنے رکھا گیا کہ کیا ہو اگر ایک سولہ اور آٹھارہ سال کے درمیانی عمر کی لڑکی سندھ سے نکل کے پنجاب میں جا کے کورٹ میرج کر لے، کیونکہ یہ عمل یہاں سندھ میں نکاح خواہ اور دولہے کے لئے تو قابل گرفت ہے مگر پنجاب میں یہ جرم ہی نہیں ہے کہ وہاں سولہ سال سے اوپر کی لڑکی کی شادی قانونًا درست ہے۔ اس وقت اندازہ نہیں تھا نو سال بعد اس طرح کا ایک اصل مقدمہ ملک میں اس قدر مشہور ہو گا کہ ہر فرد اس کیس کے تمام کرداروں کے نام تک واقف ہو گا۔ یہ کیس اس کی کم عمر مبینہ مغویہ کے نام سے ہی مشہور ہے ہر یو ٹیوبر، شوشل میڈیا صارف اور روایتی میڈیا اس کیس کا ذکر کرتے ہوئے اس کم عمر مغویہ کا نام لیتے ہیں جبکہ قانون ایسے کیسوں میں “مظلومہ" یعنی victim کا نام پریس میں لینے سے منع کرتا ہے اور اسے قابل سزا عمل بتاتا ہے مطلب کہ جرم۔ اس بات پر بحث ممکن ہے کہ آیا واقعی کم عمر مبینہ مغویہ "مظلومہ" ہے یا نہیں اور اول اول اس نے خود جب میڈیا پر انٹرویو دیئے اب اس کے بعد بھی یہ قانون لاگو ہو گا یا نہیں۔ میری ذاتی رائے ہے قانون تو لاگو ہوتا ہے کیونکہ اس سلسلے میں کسی قسم کی چونکہ چونانچے والی کوئی شرط نہیں ہے قانون میں۔
جب کم عمری کی شادی کے اس قانون کے سلسلے میں مشاورت اور ورکشاپ ہو رہی تھیں تو ایک ایسی ہی ورکشاپ میں ہم نے سوال کیا آج آپ قانون تو پاس کروا رہے ہیں کہ کم عمر دلہن کے والدین، دولہے اور نکاح خواح کو سزا دی جائے گی مگر وہ جو نکاح ہوا ہے اسے تو آئینی و قانونی تحفظ حاصل ہے اس کا کیا کریں گے دولہا سزا کاٹ کر واپس آتا ہے تو وہ خاندان کی مرضی یا عدالت میں حق زناشوئی کا کیس کرے گا تب متعلقہ عدالت کیا کرے گی اس پر بھی اسی قانون سازی میں حل نکالیں نیز یہ بھی کہا تھا کہ چلیں والدین کم عمر لڑکی کی شادی کرتے ہیں تو سزاوار ہوئے مگر ایک کم عمر لڑکی اپنی مرضی سے کورٹ میرج کرتی ہے تو کیا ہو گا اس کا بھی قانونی حل نکالیں۔ مگر کسی نے اس طرف توجہ نہ دی۔ دوسری تجویز تو چند منتظمین کوبری لگی خاص ایک ظاہری لبرل کو ان سے ورکشاپ کے بعد کی ہائی ٹی پر خوشگوار انداز میں تلخ باتیں بھی ہوئیں تھیں اس تجویز کی بناء پر کیونکہ وہ اسی ہفتے ایک کورٹ میرج کی پٹیشن میں سندھ ہائی کورٹ میں پیش ہوئیں تھیں کم عمر جوڑے کی حمایت میں۔
یہ قوم یا ہجوم کسی سیاسی ، لسانی، مذہبی، مسلکی اور سوشل ایشو پر جذباتی بھی بہت ہے اور سخت بھی۔ کسی بھی موقف پر جذباتی انداز میں ڈٹ جانے کا نتیجہ عدم برداشت اور بدتمیزی ہی نکلتا ہے۔ جو رویوں میں پختہ ہوتا جا رہا ہے خاص کر جب یہ خیال ہو کہ پکڑ نہیں ہو گی۔ ایسا ہی اس کیس میں بھی ہے اس کیس کو رپورٹ کرنے والے اور اس رپورٹ کو فالو کرنے والے دونوں اخلاقیات سے عاری رپورٹنگ کرتے ہیں ۔ ساتھ ہی دونوں طرف کے احباب جھوٹ کی آمیزش بھی کرتے ہیں جانے انجانے میں۔ فرد کو اپنے موقف پر ڈٹ جانا چاہئے اول جب وہ درست ہو دوئم جب اس سے کسی فرد کو اور خاص کر پورے معاشرے کو نقصان نہ پہنچتا ہو مگر ہم اپنی انا کی تسکین کے لئے یہ سب کرتے ہیں تو یہ تباہی ہے۔
لڑکی کے باپ یا فیملی کی سختی کی تو سمجھ آتی ہے اپنے مسلکی و سوشل بیک گراونڈ کی وجہ سے۔ وکالت کے دوران ہر پانچ میں سے ایک کورٹ میرج میں ہمیں لڑکی کی ایسی ہی فیملی سے واسطہ پڑتا تھا اور نتیجہ لڑکی اپنے خاندان سے مزید دور ہو جاتی تھی یوں راوبط دوبارہ بننے کے امکانات خاتم ہو جاتے ہیں۔ سو فیصد کیسوں میں جو لڑکی کورٹ میرج کے لئے گھر چھوڑتی ہے اس کی فیملی کی کسی ناں کسی خاتون (فیمیل ممبر) کو معاملات کا پہلے سے علم ہوتا ہے وہ کوئی بھی رشتہ ہو سکتا ہے۔ ہم نے ایک کورٹ میرج کروائی جس میں لڑکی کی فیملی لڑکے کی فیملی سے کئی گناہ طاقتور تھی اور معاشی طور پر مضبوط بھی۔ ابتداء میں باپ اور دیگر فیملی ممبر نے مخالفت کی مگر ملک سے باہر رہنے والے لڑکی کے بھائی نے ہم سے رابطہ کیا ملاقات ہوئی ، جوڑے کی ملاقات اپنے دفتر میں کروائی طے پایا لڑکی واپس آئے چونکہ خاندان کے باہر کے لوگوں کو علم نہیں لہذا ہم اس سلسلے میں ابتداء سے رخصتی تک کے تمام لوازمات کرتے ہیں کہ معاشرے میں عزت قائم رہے لڑکی لڑکا خوفزدہ تھے۔ ان کی ویڈیو بیانات و دیگر کاروائی کر کے واپس اپنے خاندانوں میں بھیجا گیا۔ پھر رشتہ مانگنے سے لے کر نکاح و رخصتی تک کے تمام ضروریات انہوں نے مکمل کی یہ دونوں خاندانوں و جوڑے کے لئے اچھا ہوا۔ شادی کے لئے یقینًا ہمارے معاشرے میں خاندانوں کا رضامند ہونا لازم ہے مگر وہ جو الگ خاندان بنانے کی بنیاد بنے گے انہیں بھی اہمیت دی جائے تو بہتر نتائج آئیں گے۔
عدالتی و قانونی نقطہ نظر سے دیکھیں تو بات سیدھی سی ہے میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی۔ یہاں قاضی نکاح والا سمجھ لیں یا انصاف کرنے والا دونوں ٹھیک ہیں۔ لڑکی جس کے حق میں بیان دے گی وہ ہی کامیاب ہو گا۔ لڑکی کو کراچی لانے کا مقصد اسے ظہیر سے دور کرنا ہے مگر کیا ایسے میں وہ اپنے باپ کاظمی صاحب کے قریب ہو جائے گی؟
ہم اپنی خواہش و مرضی کو درست و ٹھیک بات پر فوقیت دیتے ہیں ۔ خواہش، مرضی و مفاد تو بدلتا رہتا ہے مگر حق و سچ دائمی ہے۔ انا کی جیت میں رشتے کچلے جاتے ہیں کچلے جا رہے ہیں اور ایسے معاملات میں ہم پارٹی بن کر کسی ایک کا ساتھ نہیں دے رہے بلکہ ان کے درمیان جو خونی رشتہ رکھتے ہیں میں مزید دوریاں پیدا کر رہے ہیں۔ قانون میں ایسے کیسوں کی "مظلومہ" کے نام کی پریس میں ممانعت کافی نہیں بلکہ خاندانوں کے نام اور مقدمات کی کوریج پر بھی پابندی ہونی چاہئے۔ تب ہی انصاف ہو پائے گا ورنہ سیاسی کیسوں کی طرح ایسے معاملات میں بھی پہلا قتل سچ و انصاف کا ہو گا۔

7/10/2019

جج کا ملاقی فرد

آج کل ایک منصف کی ویڈیو کا بہت شور ہے ویڈیو میں گفتگو کے مواد سے قطع نظر ایک معاملہ یہ بھی ہے کہ جج صاحب اپنی رہائش گاہ پر کس فرد سے ملاقی ہو رہے ہیں ایک ایسا فرد جس کا اپنا ایک کریمنل ریکارڈ ہے او رجو ایک ایسے فرد کا سیاسی سپوٹرجس کے مقدمہ کا فیصلہ ان جج صاحب نے کیا ۔ جج کے لئے سوشل ہونا کبھی بھی درست نہیں سمجھا گیا اور جن چند ایک سے ممکنہ طور ملنا لازم ٹہرے اس سلسلے میں بھی انہیں ملاقاتی کے کردار اور شہرت کو بھی دیکھنا ہوتا ہے۔
قریب آٹھ دس سال قبل ایک ایسے ہی معاملے پر دوران گفتگو بیرسٹر شاہدہ جمیل نے ہمیں اس سلسلے میں بطور مثال اپنے دادا سر شاہ محمد سلیمان (یہ الہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہے ہیں 1932 سے 1937 تک) کا ایک قصہ سنایا تھا کہ او ل تو وہ عوامی تقریبات میں جاتے نہ تھے تاہم انہیں ایک بار اس علاقے کے ایک ایسے کاروباری فرد کی جانب سے شادی کی تقریب کی دعوت موصول ہوئی جسے نظرانداز کرنا ان کے لئے ممکن نہ ہو پا رہا تھا۔ ایسے میں انہوں نے اپنی ہائی کورٹ کی رجسٹرار کی ذمہ داری لگائی کہ وہ معلوم کر کے آگاہ کرے آیا اس دعوت دینے والے محترم یا ان کے خاندان کے کسی فرد کا کو ئی مقدمہ ان کی عدالت میں تو نہیں ، طے یہ پایا کہ اگر مقدمہ ہوا تو وہ اس تقریب میں شرکت سے معذرت کر لیں گے۔ رجسٹرار نے رپورٹ کی کہ اس کا کوئی مقدمہ یا تنازعہ اس عدالت کے روبرو نہیں ہے لہذا دعوت قبول کی گئی۔ پروگرام کے مطابق جب دعوت میں شرکت کے لئے پہنچے تو عدالت کا رجسٹرار بھی ہمراہ تھا تقریب میں شریک افراد کو دروازے پر ریسیو کرنے والوں میں ایک فرد ایسا تھا جو اگرچہ مدعو کرنے والے کا رشتہ دار نہ تھا مگر اس کا ایک مقدمہ عدالت میں زیرالتواء تھا چیف جسٹس صاحب تقریب کے دروازے سے واپس ہو لئے۔ یہ کردار اب میسر نہیں ہیں۔
منصف کے لئے انصاف کی پہلی سیڑھی یہ کہ وہ ہر اس تعلق سے کنارا (نظر انداز) کرے جو کسی بھی طرح اس کے فیصلے پر اثر انداز ہو سکتا ہو۔ ہمارے ایک دوست ایڈیشنل سیشن جج نے تو نوکری جوائن کرنے سے ایک دن قبل اپنی فیملی کے افراد کو جمع کر کے کہا وکالت کے دور میں اور اب میں فرق ہے یاد رکھنا کل سے میں ایک بہت بڑی ذمہ داری پر ہو گا لہذا کبھی یہ مت سمجھنا کہ تم لوگوں کی وجہ (سفارش) سے میں انصاف میں کسی قسم کی کوتاہی کا مرتکب ہو کر اپنی آخرت کا سودا کروں۔ یہ بات انہوں نے شاید ہمیں بھی (دوستوں کی ایک محفل میں) اس نیت سے سنائی کہ مستقبل میں انہیں دوستوں سے اور دوستوں کو ان سے کوئی غلط امید یا شکایت نہ ہو۔
کچھ فرائض سخت احتیاط اور احساس ذمہ داری سے منسلک ہوتے ہیں۔

10/23/2018

برا تو عوام ہے!!!

ہمارے ایک دوست نے آپریشن "رد الفساد" کے دوران کا ایک قصہ سنایا۔ جن علاقوں میں پاک فوج نے کارروائیاں کیں، وہاں طالبان کو کسی حد تک مقامی حمایت حاصل تھی۔ اس لیے، فوج کے اہلکار وہاں سے نکلتے ہوئے مقامی افراد سے گفتگو کرتے تاکہ کوئی ایسی معلومات مل سکے جو آپریشن میں مددگار ثابت ہو۔ دوسری طرف، مقامی آبادی بھی ایک عجیب خوف میں مبتلا تھی؛ وہ نہ کھل کر فوج کے خلاف بات کر سکتے تھے اور نہ ہی طالبان کی کھلم کھلا مخالفت کر سکتے تھے، کیونکہ وہ تذبذب کا شکار تھے۔

ایسے ہی ایک موقع پر، ایک مقامی بزرگ سے پوچھا گیا کہ ان کی طالبان کے بارے میں کیا رائے ہے؟ انہوں نے جواب دیا، "سنا ہے اچھے لوگ ہیں، اللہ کے قانون کی بات کرتے ہیں، قرآن و سنت کا نفاذ چاہتے ہیں اس زمین پر۔"

اس کے بعد پاک فوج کے بارے میں سوال کیا گیا تو جواب آیا، "وہ بھی اچھے لوگ ہیں، پاکستان کی بات کرتے ہیں اور پاکستان ہمارا ملک ہے، مسلمانوں کا ملک ہے، اللہ اور رسول کے نام پر بنا ہے، اور اس کی سالمیت چاہتے ہیں۔"

اگلا سوال ہوا کہ "طالبان بھی اچھے اور فوج بھی اچھی، یہ کیا بات ہوئی؟ برا تو کوئی نہ کوئی ہوگا؟"

بزرگ گویا ہوئے، "برا تو ہم ہیں، ہم عوام! جو نہ مذہب کا سوچتے ہیں نہ ملک کا۔ سب کی تعریف کرتے ہیں، سب کی برائی کرتے ہیں۔ ہمیں اس کی سزا بھی ملتی ہے اور ملنی بھی چاہیے۔"

گزشتہ دو ماہ سے ملک میں انتخابات کے بعد تو یوں لگتا ہے جیسے اس بزرگ کی بات درست تھی: "برا تو ہم عوام ہیں!" کیا پٹواری، کیا یوتھیا، کیا جیالا، کیا جماعتی یا کسی اور سیاسی جماعت یا گروہ کا حمایتی۔ سب اپنی اپنی جگہ ٹھیک ہیں، ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے نظریے اور مؤقف پر قائم ہے۔ اصل میں، عوام ہی ہیں جو تذبذب کا شکار رہتے ہیں اور بظاہر ہر ایک کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔ یہی ہمارا تضاد اور دوغلا پن ہے جس کی وجہ سے ہم سب کی تعریف بھی کرتے ہیں اور سب کو برا بھلا بھی کہتے ہیں۔

6/20/2018

ایلیکٹیبل

ایک عجیب معاملہ ہے بڑی پارٹیوں  کے نامرذ امیدوار کردار میں بڑے نہیں اور جو امیدوار  کردار میں اچھے ہیں وہ بڑی پارٹی میں نہیں۔ ہمارے ملک کی جمہوریت میں یوں لگتا ہے بڑے و بُرے  اور اچھے و نکے آپس میں ایک دوسرے سے جڑے ہیں۔ دلچسپ بات جو پارٹی جس قدر کم عوام میں مقبول ہوتی ہے اس قدر بہترین کردار کا امیدوار نامزد کرتی ہے اور جو جو عوامی حمایت بڑھتی جاتی ہے اس کا ممکنہ امیدوار اس قدر کمزور کردار کا حامل ہوتا ہے۔ اس اعلی درجے کے پست کردار امیدوار کو ایلیکٹیبل کا نام دیا جا رہا ہے۔
ایسا کیوں ہے؟ کیا یہ منتخب امیدوار ہمارے معاشرے کا آئینہ نہیں ہیں؟ اگر جمہوریت واقعی ہی عوام کی حکومت کی ایک شکل ہے تو اس سے یہ اخذ کیا جائے کہ بحیثیت قوم ہم  پست کردار ہیں؟ یا ابھی ہم قوم کی تعریف سے بھی دور ایک ہجوم یا گروہ ہیں؟