Pages

12/03/2013

گناہ کی حسرت و پچھتاوا

سُنا ہے بُرائی میں کشش ہوتی ہے مگر کیا کیا جائے زندگی میں ہم ایک دو معاملات میں "حسرت گناہ" کا شکار رہے. گناہ یا بُرائی سے بچنے کو کوشش نہیں کی مگر اس کی طرف قدم بڑھا نہیں پایا اگر کبھی اس جانب گیا تو ناکامی کا سامنا ہوا.
یوں لگا جیسے کوئی طاقت اس طرف جانے سے روکنے پر مامور ہو ہم پر. اس وقت احساس ہوا کہ ناکامی کا غم ایک سا ہوتا ہے خواہ اچھائی پر ہو یا گناہ پر.

گمراہی یا بہکنے سے بچنے کو فقط یہ لازم نہیں کہ بندہ نہ صرف خود نیکی کرے یا نیکی کی تلقین کرے بلکہ گمراہ لوگوں کی صحبت سے دور رہنا بھی اہم ہے. دعا صرف گناہ سے بچنے تک محدود نہ ہو بلکہ شیطان صفت لوگوں سے پناہ بھی دعا کا حصہ ہو.
اب زندگی کے اس موڑ پر احساس ہوتا ہے خوش قسمت وہ بھی ہوں گے جو نیک اعمال کو زندگی کا حصہ بنائے رکھے اور تمام عمر گناہ سے باز رہیں. مگر وہ لوگ جو بُرائی کی دنیا سے نکل کر نیکی کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں وہ اصل میں نہایت ہی قسمت والے ہوتے ہیں. وہ نہ صرف روحانی منازل تیزی سے طے کرتے ہیں بلکہ مالک کی پسندیدگی کی لسٹ میں ٹاپ پوزیشن پر ہوتے ہیں. جیسے پیچھے رہ جانے کا احساس جدوجہد کو تیز کر دیتا ہے اور مقابلہ کرنے کی خواہش کے زیر اثر امیدوار سب سے آگے نکل جاتا ہے.
میرے جیسے "حسرت گناہ"  رکھنے والے نیکی میں سب سے پیچھے رہتے ہیں مگر گناہ سے توبہ کرنے والے نیکوں کی لسٹ میں خود سے آگے نظر آتے ہیں.
پچھتاوا گناہ ایک بڑا عمل ہے.
.

9/29/2013

گوگل ڈرائیو اور میرا منٹ

اس سے بہتر اس موضوع پر آپ کو تحریر یقین آئی ٹی نامہ یا کمپیوٹنگ پر مل سکتی ہے مگر ہم پر چونکہ کوئی پابندی نہیں لہذا ہم اس پر اپنی رائے دینے جا رہے ہیں!
2008 سے ہم ونڈو سے لینکس کے صارف ہو چکے ہیں اوبنٹو میں جب Unityکی آمد ہوئی تو ہمارے پرسنل کمپیوٹر پر اوبنٹو نے چلنے سے انکار کر دیا لہذا ہم لینکس منٹ پر منتقل ہو گئے! اپنی پیشہ وارانہ ضرورت کے لئے اپنا ڈیٹا ایک جگہ کے بجائے کئی جگہ درکار ہوتا ہے لہذا اپنے تمام سسٹم پر ڈراپ باکس کا استعمال کرتا ہوں کوئی شک نہیں یہ ایک بہتر ٹول ہے مگر گوگل ایک بڑا نام ہے اور ان کی طرف سے گوگل ڈرائیو کی آمد کے بعد سے اس کی طرف مائل رہا مگر نہ تو گوگل خود کسی ایسے ٹول کو میدان میں لایا جو لینکس پر چل سکے نہ ہی ابتدا میں ہمیں تلاش پر نصیب ہوا!!
مگر چند دن پہلے ہمیں Insync نامی ٹول کے بارے میں علم ہوا یہ گوگل ڈرائیو کا Third Party ٹول ہے۔ یہ ایک کمرشل ٹول ہے جو دس ڈالر یعنی قریب ہزار روپے میں پڑتا ہے مگر میرے لئے ایک اچھا ڈراپ باکس کا متبادل ہے، 15 دن کے ٹرائل پریڈ میں اس نے میرے 25 ہزار ڈرافٹ گوگل پر منتقل کر دیئے دوسرا ایک عمدہ کام یہ کہ اب میں آن لائن کہیں بھی بیٹھ کر اپنا دیٹا اپ ڈیٹ کر سکتا ہوں جو کہ میرے سسٹم پر بھی اپڈیٹ ہو جائے گا!! کہ گوگل ڈرائیو میں گوگل آفس کی سہولت بھی یہ جو کہ ڈراپ باکس میں نہیں!
اگر آپ لینکس کے صارف ہیں تو آزما کر دیکھے! ونڈو پر ہم نے اسے نہیں آزمایا!!

8/28/2013

کورٹ محرر کا ایک غیر سنجیدہ انٹرویو

آج ہم نے جس شخصیت کو انٹرویو کیلئے منتخب کیا ہے اگرچہ بظاہر وہ ایک چھوٹی شخصیت ہے لیکن درحقیقت وہ عدلیہ کی سب سے اہم ترین شخصیت ہے وہ ایک اہم ترین شخصیت اس وقت ہمارے ساتھ موجود ہیں اگرچہ وہ کسی تعارف کی محتاج نہیں لیکن انٹرویو شروع کرنے سے پہلے ہم چاہیں گے کہ وہ اپنا تعارف خود کروائیں
جناب زرہ نوازی ہے آپ کی اس خاکسار کو بہت سے لوگ " کورٹ کی دائی" کے نام سے پکارتے ہیں کچھ لوگ مجھے کورٹ کا پٹواری کہتے ہیں جب کے سرکاری طورپر مجھے "کورٹ محرر" کہا جاتا ہے میں کورٹ کی دائی بھی ہوں پٹواری بھی ہوں اور کورٹ محرر بھی میرا سرکاری کام تھانے کی ڈاک کورٹ سے لیکر تھانے تک پہنچانا ہے اور تھانے سے ڈاک لیکر کورٹ تک پہنچانا ہے تھانے کے کیسز کی نگرانی کرنا ہے افسران تک عدالتی احکام پہنچانا ہے کورٹ کی جانب سے گواہ کو جب گواہی کیلئے طلب کیا جاتا ہے تو ہم ہی گواہ کے پاس کورٹ کے اور احکامات لیکر جاتے ہیں کورٹ میں چلنے والے تھانے کے کیسز میری جایئداد بھی ہیں اور اثاثہ بھی اور میرا کاروبار بھی میں کورٹ میں جو بھی رپورٹ جمع کروادوں وہ حتمی تصور ہوتی ہے اور اسی رپورٹ ہی کی بنیاد پر کیس کا فیصلہ ہوتا ہے
سوال: کورٹ محرر صاحب آپ اپنے کاروبار اور اپنی شخصیت پر مزید کچھ روشنی ڈالیں؟
کورٹ محرر: جناب کیا روشنی ڈالوں میرے بغیر عدالتی کاروائی چل نہیں سکتی اگرچہ میں ایک چھوٹا موٹا پرزہ نظر آتا ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں پاکستانی عدلیہ کا سب سے اہم ترین مہرہ ہوں مجسٹریٹوں کو نفع بخش تھانے میری مرضی سے ملتے ہیں سیشن جج میرے مریدوں میں شامل ہوتا ہے عدالت میں میری مرضی کے بغیر کوئی کاروائی نہیں ہوسکتی اور بعض معاملات میں میری طاقت آئی جی سندھ سے بھی زیادہ ہے اگر ہم نہ ہوں تو کیس ڈسپوزل مشینیں خود ڈسپوزل ہوجائیں
سوال: حد ادب گستاخ کس قسم کی باتیں کررہے ہیں آپ کا علاقہ مجسٹریٹ آپ کے پینل پر کس طرح کام کرسکتا ہے اور آپ کی مرضی سے تھانے کس طرح تقسیم ہوسکتے ہیں اور کیس ڈسپوزل مشین سے کیا مراد ہے؟ آپ جانتے ہیں کہ آپ کیا غلط قسم کی باتیں کررہے ہیں ڈھنگ کے کپڑے آپ پہن نہیں سکتے اور باتیں کررہے ہو بڑی بڑی کہاں آئی جی سندھ اور کہاں تم جیسے تیس مارخان
کورٹ محرر: اصل بات یہ ہے کہ لوگوں سے سچ برداشت نہیں ہوتا میں آپ کو اپنی طاقت بتاتا ہوں میں ایک پولیس کا سپاہی بھی ہوں اور میرے لیئے لازم قرار دیا گیا ہے کہ میں ہمیشہ عدالت میں یونیفارم میں پیش ہوا کروں گا- عدالت کے سامنے آئی جی سندھ سے لیکر ڈی جی رینجرز تک یونیفارم میں پیش ہوتے ہیں بڑے سے بڑا فوجی افسر خفیہ ایجنسیوں کے افسران تک عدالت میں یونیفارم کی پابندی کرتے ہیں جبکہ میں ایک عام سپاہی جس کو کورٹ محرر کا عہدہ دیا گیا ہے کس طریقے سے سیشن جج کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہوتا ہوں وہ بھی بغیر یونیفارم کے کبھی آپ نے مجھے یونیفارم میں دیکھا ہے میں نے تو یونیفارم تک نہیں سلوایا اور کس علاقہ مجسٹریٹ کی بات کررہے ہیں میں جب سیشن جج کو خاطر میں نہیں لاتا تو یہ مجسٹریٹ میرے سامنے کیا بیچتے ہیں
آپ بات کررہے ہیں "کیس ڈسہوزل مشین" کی آپ کو نہیں پتا کہ کیس ڈسپوزل مشین کیا ہوتی ہے میں آپ کو بتاتا ہوں تفتیشی افسر جب تفتیش مکمل کرکے "ردی کاغذ" جو کوئی کباڑیا بھی خریدنے پر راضی نہ ہو عدالت میں چالان کی صورت میں جمع کروادیتا ہے تو عدالت ان ردی پیپرز پر بغیر دیکھے بغیر پڑھے بغیر سمجھے انتظامی حکم جاری کردیتی ہے تو اس کے بعد میرااور عدالت کام شروع ہوجاتا ہے عدالتی پیش کار ملزم میرے ساتھ مل کر جعلی رپورٹیں لگواتے ہیں کہ گواہان دستیاب نہیں میں اپنے کارندوں کے ساتھ مل کر گواہان کو ایسا ہراساں کرتا ہوں کہ وہ خواب میں بھی کورٹ کا رخ نہیں کرتا میری جعلی رپورٹوں پر ملزمان ایسے باعزت بری نہیں ہوتے جناب اس کے پیچھے پورا گیم ہوتا ہے اور اس گیم کا کپتان میں ہوں میرے تعاون کے بغیر کوئی بھی ملزم باعزت بری ہو نہیں سکتا جب میری جعلی فرضی رپورٹوں پر ملزم باعزت بری ہوتے ہیں تو نہ صرف وہ ملزمان سب کی مٹھی گرم کرکے جاتے ہیں بلکہ کیس زندہ دفن کرنے کی خوشی میں جج کو "پوایئنٹس " بھی ملتے ہیں جتنا زیادہ ڈسپوزل اتنے ہی زیادہ پوایئنٹس زیادہ سے زیادہ پوایئٹ حاصل کرنے والے کو ہماری زبان میں کیس ڈسپوزل مشین کہاجاتا ہے اسے کہتے ہیں ڈبل مزا آپ میری طاقت کو کبھی نہ آزمانا میری اجازت کے بغیر جج ضمانت منظور نہیں کرسکتا مجھے کورٹ کا پٹواری ایسے نہیں کہتے میں پورے کیس کی جزیات اور کلیات سے واقف ہوتا ہوں جو وکیل زیادہ قانون جھاڑے میرے ساتھ تعاون نہ کرے ان کے ملزمان کو جب تک میں پھانسی کے پھندے تک نہ لے جاؤں مجھے اور میری پوری ٹیم کو چین نہیں آتا
سوال: ایک تو آپ کو گھٹیا اور بے ہودہ قسم کے الزام لگانے کی بری عادت ہے کل آپ سیشن جج کے سامنے جائیں گے بغیر یونیفارم کے مت جانا وہ بڑے ایماندار لوگ ہیں اصول پسند لوگ ہیں دیکھتا ہوں آپ کو کیسے جیل نہیں بھیجتے
جب آئی جی سندھ یونیفارم کے بغیر عدالت میں پیش نہیں ہوتا تو تم اتنے طاقتور کب سے ہوگئے؟ اور آپ کی اجازت کے بغیر ضمانت کیسے نہیں ہوسکتی؟ اور آپ کی ٹیم سے کیا مراد ہے؟
جواب: میں ادنی سا کورٹ محرر اس چیلنج کو قبول کرتا ہوں جو عدلیہ گزشتہ 67 برسوں میں مجھ حقیر، فقیر بے توقیر کو یونیفارم نہیں پہنا سکی میں دیکھتا ہوں مجھے کیسے یونیفارم پہنائے گی اور جو جج وکیل کورٹ اسٹاف پورا دن مجھ سے دو نمبر کام کرواتے ہوں وہ کیسے میرے خلاف کاروائی کرسکتے ہیں لیکن میرا بھی ایک چیلنج ہے اگر کسی جج نے مجھے جیل بھیجا صرف اس وجہ سے کہ میں یونیفارم کے بغیر پیش ہوتا ہوں تو 7دن میں اس کا ٹرانسفر تھر کے علاقے مٹھی میں نہ کروایا تو میرا نام بدل دینا میں اکیلا نہیں ڈوبوں گا پورے سسٹم کو ساتھ لیکر ڈوبوں گا ہزاروں راز اس سینے میں دفن ہیں سب کے سب کھول دوں گا اگر کورٹ محرر کے ساتھ چھیڑا گیا تو پورا سسٹم بیٹھ جائے گا جہاں تک ضمانت کا تعلق ہے تو نہ ہی میں تھانے سے پولیس فائل لیکر آؤں گا نہ ہی جج ضمانت دے گا صرف اسی گراؤنڈ پر ہی کیس لٹکا رہے گا آپ نے پوچھا کہ میری ٹیم سے کیا مراد ہے یہ سوال رہنے دیں اب تو میری ٹیم پورا "گینگ بلکہ مافیا" بن چکی ہے
سوال: دوروپے کے کورٹ محرر حد ادب گستاخ اب تم اپنے قد سے بہت اونچی اونچی باتیں کررہے ہو ایسا نہ ہو کہ تمہاری بے لگام زبان اور بڑی بڑی باتیں چیف جسٹس سندھ ہایئکورٹ تک پہنچ جایئں اور تمہاری ساری اکڑخانیاں ایک منٹ میں نکل جائیں یاد رکھنا کہ غرور کا سر ہمیشہ نیچا ہوتا ہے حقیقت تو یہ کہ تم ایک نمبر کے جھوٹے انسان ہو تمہاری سب باتیں جھوٹ پر مبنی ہیں تم جیسا جھوٹا انسان کبھی زندگی میں نہیں دیکھا
کورٹ محرر: چیف جسٹس سندھ ہایئکورٹ کو میں اچھی طرح جانتا ہوں ان کا نام مشیر عالم ہے وہ پہلے کراچی کی ڈسٹرکٹ کورٹس میں پریکٹس کرتے تھے ان کو "سب" پتا ہے ان کو وہ سب باتیں پتہ ہیں جو ایک پریکٹسنگ ایڈووکیٹ کو پتا ہوتی ہیں جسٹس وہ بہت بعد میں بنے ہیں وہ آپ سے زیادہ علم رکھتے ہیں میں بڑی باتیں نہیں کرتا ہوں عاجز حقیر فقیر بے توقیر ہوں ایک حقیقت بات بتا رہا ہوں کہ جو عدلیہ اتنی بے بس ہو کہ گزشتہ 67 سالوں میں ایک میرے جیسے ایک دوروپے کے کورٹ محرر کو یونیفارم تک نہ پہنا سکے وہ اور کیا تیر مارے گی
سوال: آپ کو سب سے زیادہ خوشی کب ہوتی ہے؟
مجھے سب سے زیادہ خوشی اس وقت ہوتی ہے جس دن وکلاء عدالتوں کا بائیکاٹ کردیتے ہیں وہ دن ہمارے لیئے عید کا دن ہوتا اس دن میدان خالی ہوتا ہے ہم خوب مال بناتے ہیں
عدالتی بائیکاٹ کے دوران بھی کام ہوتا ہے؟ کورٹ محرر: چھوڑیں جی لگتا ہے آپ کو کچھ بھی نہیں پتا اصل کام تو ہوتا ہی عدالتی ہڑتال کے دن ہے ہڑتال کے دن تو ہم مال بنانے میں اتنا مصروف ہوتے ہیں کہ سرکھجانے کی فرصت نہیں ملتی اور بائیکاٹ کے دوران تو ایسا ایسا کام ہوتا ہے کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا
سوال: آپ نے اپنے پورے کئرئیر میں اپنے آپ کو کب بے بس محسوس کیا؟
کورٹ محرر: کیا یاد کروادیا یہ کہہ کر کورٹ محرر نے سسکیاں لے لے کر رونا شروع کردیا جسٹس صبیح الدین احمد کا دور جب وہ سندھ ہایئکورٹ کے چیف جسٹس تھے میری زندگی کا بدترین دور تھا میں نے اپنی پوری زندگی میں اپنے آپ کو اسقدر بے بس محسوس نہیں کیا جتنا اس دور میں محسوس کیا ہم جعلی رپورٹیں لگا لگا کر تھک جاتے تھے کہ گواہ دستیاب نہیں مکان چھوڑ کر چلا گیا لیکن عدالتیں کسی بھی صورت میں میں کیس ختم ہی نہیں کرتی تھیں ایک کیس میں پورے تین سال تک رپورٹ دیتا رہا کہ گواہ علاقہ چھوڑ گیا دستیاب نہیں لیکن جج کہتا تھا میں مجبور ہوں 249 اے کے تحت ملزم کو باعزت بری نہیں کرسکتا بالآخر تین سال بعد مجبوری کے عالم میں میں نے گواہان پیش کرہی دیئے لیکن ظالم جج نے ملزم کو ان کی گواہی پر سزا بھی لگا دی اتنا ظلم تھا اس دور میں جو گواہ تفتیش میں پیش ہوگیا اس کو ہرصورت کورٹ لیکر آؤ عدالتیں گواہان کو ہر صورت میں لانے کا حکم دیتی تھیں اور ہمیں حکم ملتے تھے کہ گواہ کو ہرصورت لیکر آؤ چاہے ہتھکڑی لگا کر لانا پڑے ایسا ظلم میں نے پاکستان کی تاریخ میں نہیں دیکھا میری رپورٹ اٹھا کر پھینک دی جاتی تھی مجھے جج صاف صاف کہتے تھے کہ تم نے یہ رپورٹ گھر بیٹھ کر بنائی ہے اور ملزم سے پیسے لیکر بنائی ہے مجھے گالیاں دی جاتی تھیں مجھے جھوٹا کہاجاتا تھا
ایک جج نے میری رپورٹ پر 249 اے کے تحت ملزمان کو باعزت بری کیا تو مجسٹریٹ کی نوکری تیل ہوتے ہوتے رہ گئی صبیح صاحب نے مجسٹریٹ کو طلب کرکے کہا کہ 249 اے کے تحت رہا کرنے سے محسوس ہورہا ہے کہ آپ نے پولیس کی تفتیش کا مطالعہ کیئے بغیر ہی چالان پر انتظامی حکم کیا ہے اس کے بعد اس مجسٹریٹ نے قسم کھائی کہ وہ ہمیشہ "ججمنٹ" کرے گا باقی نوکری اس نے ججمنٹ پاس کرکے گزاری گواہان کو طلب کرتے میری رپورٹ کو ردی کی ٹوکری میں پھینکتے اور کہتے کہ ہر صورت میں گواہ پیدا کرکے لاؤ ان کے بیان قلمبند کرتے جس کے بعد گواہان کے بیانات کی روشنی میں مقدمے کا فیصلہ کرتے تھے اور کبھی بھی ہمارے تفتیشی افسران کی تفتیش کا مطالعہ کیئے بغیر انتظامی حکم جاری نہیں کیا اور تفتیش میں ایسے ایسے کیڑے نکالتے تھے کہ تفتیشی افسران نوکری سے تنگ ہوگئے تھے ہماری پوری تنخوا خرچ ہوجاتی تھی ایسا مشکل وقت ایسے مشکل حالات خدا کبھی دشمن کو نہ دکھائے
آپ نے اپنی زندگی میں سب سے اچھا دور کب دیکھا؟
کورٹ محرر:دوہزار سات میں جب وکلاء تحریک شروع ہوئی تھی اس دور میں ہڑتالوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا وہی میری زندگی کے عروج کا دور تھا اس کے بعد تو عروج ہی عروج ہے ایسی مارا ماری شروع ہوئی کہ "تو مار تے میں مار ، میں مار تے تو مار" روز، روز کی ہڑتالوں نے عدلیہ کی بنیادیں ہی ہلا کر رکھ دی ہیں پورا نظام ہی تباہ و برباد ہوچکا ڈسٹرکٹ کورٹس کے وکلاء گزشتہ چھ سال کے دوران ہڑتالیں کرکرکے معاشی طور پر اتنے تباہ و برباد ہوگئے کہ اب ان میں ہڑتال کی سکت ہی نہیں رہی اسی دوران عدلیہ بطور ادارہ تباہ ہوا اور ہماری سوئی ہوئی قسمت جاگ گئی وکلاء کو ہڑتالوں کا مشورہ دینے والے عظیم انسان کو ہمارے بیوی بچے جھولی پھیلا پھیلا کر دعا دیتے ہیں ہماری حکومت سے اپیل ہے کہ پاکستان میں عدالتی بائیکاٹ کے خالق کو ہمارے محسن کو فوری طور پر تلاش کرنے کا حکم دے قومی تمغہ دے یعنی کوئی نشان امتیاز دے بدقسمتی سے ہم اپنے محسن کا نام تک نہیں جانتے جس نے ہمارے گھروں میں معاشی خوشحالی کی بنیاد رکھی ہم وکلاء کے اس بے مثال لیڈر کو اپنا قائد اپنا پیرومرشد تسلیم کرتے ہیں جس نے ہڑتالوں کے زریعے وکلاء کے معاشی قتل کی بنیاد رکھی
آج وکلاء میں بھی بلاوجہ کے ایسے لوگ پیدا ہورہے ہیں کہ جو وکلاء کو ورغلا رہے ہیں کہ وہ کسی بھی معاملے پر پرامن احتجاج کیلئے عدالتی بائیکاٹ کے علاوہ کوئی اور پرامن طریقہ تلاش کریں یاللہ ایسے لوگوں کی سازشوں سے ہمیں محفوظ فرما اور ان کو نیست ونابود فرما عدلیہ پر ہمارا احسان ہے
وکلاء تحریک کے دوران جب پورا نظام بند گلی میں کھڑا تھا اس دوران ہم کورٹ محرر ہی تھے جنہوں نے اپنے تجربے کی روشنی میں عدلیہ کو "بند گلیوں " سے نکلنے کے ایسے ایسے راستے دکھائے جس کے زریعے عدلیہ اس دور میں بند گلی سے ایسا نکلی کہ لوگ سوچ بھی نہیں سکتے اس کے بعد ہمارا تجربہ ہے اور عدلیہ کی طاقت ہے اور کورٹ اسٹاف کی پبلک ڈیلنگ ہے ہم نے مل جل کر ایک ایسی مضبوط بااعتماد پایئدار اور نفع بخش پارٹنرشپ کی بنیاد رکھ دی ہے جس کو توڑنا وکلاء کیلئے اب ناممکن ہی ہوگا
کورٹ محرر کی مسلسل بکواس سن کر ہماری قوت برداشت دے گئی اور غصے سے کہا کورٹ محرر بدمعاش تم عزت کے قابل ہی نہیں اپنی بکواس بند کرو اور دفع ہوجاؤ جھوٹے بدمعاش کہیں کے تم ایک نمبر کے جھوٹے انسان ہو تم نے اپنے قد سے بڑی جتنی بھی باتیں کی ہیں وہ سب جھوٹ ہیں
کورٹ محرر یہ سن کر برا مانے بغیر چلا گیا
تحریر : صفی الدہن ایڈوکیٹ

8/22/2013

عنوان تجویر کریں!

دنیاوی زندگی یا آپ صرف اسے زندگی ہی کہہ لیں یہ روح و جسم کےملاپ کے بعد ہی وجود میں آئی!جہاں روح مکمل طور پر سمجھ سے باہر ہے تو میرے جیسوں کو تو اس جسم کے بارے میں بھی کچھ علم نہیں!ان دونوں یعنی جسم و روح کی بیماری کی تشخیص و علاج کے معالج بھی مختلف ہیں!کیونکہ ان کی اپنی اپنی بیماریاں اور اُن بیماریوں کے اپنے اپنے علاج ہیں! اور اپنی اپنی خوراک! ایک کی بیماری جہاں دوسرے کو زخمی کرتی ہے تو وہاں ہی اُس بیماری کا علاج دونوں کو ہی توانا کرتا ہے! ان میں سے اگر ایک کا وجود میں رہنا ممکن نہ ہو تو دوسرا بھی عموما اپنی بقاء کی جنگ ہار جاتا ہے!ایک کا خمیر اس دنیا سے ہے تو دوسرے کا بیرون دنیا سے!تبھی خیال آتا ہے دونوں کو یکجا رکھنے کو دنیاوبیرون دنیا کو ساتھ لےکرچلنا پڑے گا! ایک کو خوراک دنیا سے ملتی ہے تو دوسرے کو طاقت بیرون دنیا سے اور جو توازن خراب ہوا تو تب دنیا و بیرون دنیا میں سے ایک گیا یا دونوں ہی!

8/20/2013

قابض فوج بمقابلہ محافظ فوج

فوج جب سرحدوں کی حفاظت کے بجائے اپنی عوام کو بندوق کے روز پر فتح کرنے نکلے تو تاریخ بتاتی ہے کہ ملک کی فاتح بیرونی طاقتیں ہوتی ہیں! ایسے ملکوں کی عوام عموما بیرونی حملہ آوروں کی آمد پر اگر قوم نہ بنے تو اُن کی رخصتی کے بعد اقوام میں بدل جاتی ہیں! حملہ آور ایسے موقعوں پر "لوٹ کا مال" جسے مال غنیمت مانا جاتا ہے سے آگے اگر حاصل کرنا چاہے تو اتنا کہ اپنے ملک کے مفادات کی حفاظت اُن نئی آزاد "اقوام" سےایسے کرواتے ہیں جیسے مالک نوکر سےاپنے کام!
قابض کا قبضہ اگر لمبا ہو تو آزادی کی جدوجہد بغاوت ہوتی ہے۔ حملہ آور جب حاکم کا روپ اپنا لے تو عموما مقامی کارندے اپنوں سے غداری کو حاکموں سے وفاداری جان کر اپنی پہچان کو داغدار کر کے اپنوں کی محکومی کو طوالت بخشتے ہیں! بہادری کی داستانیں صرف بغاوتوں سے ہی جنم نہیں لیتی بلکہ آزادی کی داستانوں کو کچلنے والوں کی بہادریاں بھی بطور مثال پذیرائی پاتی ہیں!بہادر جان پر ہی نہیں کھیلتا بلکہ جانوں سے بھی کھیل جاتا ہے۔!
اچھائی و برائی کا فیصلہ عام طور پر اعمال سے نہیں نیتوں سے ہوتا ہے! کاوش سے نہیں مقصد سے ہوتا ہے! مگر منزل کے تعین کو منتخب راستہ کامیابی کا ہو تو تب بھی راستے اہم ہیں! صرف نتائج ہی نہیں طریقہ کار بھی بتاتا ہے قابض کون ہے اور محافظ کون۔ !
(لکھا تو میں نے ہی ہے مگر اگر آپ کو سمجھ آ جائے تو مجھے بھی سمجھا دینا)

8/10/2013

کمرشلائز رمضان اور ڈسکو عید

کہتے ہیں اپنے شہر کے کسی گھر والے ایک دودھ والے سے لڑ رہے تھے کہ تو نے کل کیسا دودھ دیا جسے پی کر گھر کے سارے بچے و بڑے بیمار پڑ گئے تھے یوں خراب و ملاوٹ والا دودھ دے کر کیوں حرام کھاتے ہوں؟ گوالے نے معذرت کی کہ کل غلطی سے یاد نہ رہا اور میں آپ لوگوں کے گھر خالص دودھ دے گیا تھا! مستقبل میں یہ غلطی نہیں کروں گا! بات سادہ سی ہے یہ حال اب معاشرے کا ہے کہ خالص شے ہضم ہی نہیں ہوتی ہمیں ہر شے میں ملاوٹ درکار ہے خواہ خواہش خالص کی ہو۔
مذہب یقین شے نہیں مگر معاشرے کا رجحان بتاتا ہے کہ ہمیں دین اسلام کا خالص پن بھی تنگ کرتا ہے! ہمارے ایک دوست مقامی مسجد میں امام و خطیب تھے انہوں نے اپنی مسجد انتظامیہ سے کئی بار کہا کہ مجھے تنظیم کی دوسری مسجد میں بھیج دیا جائے مگر اُن کی خطابت (جمعہ کا خطبہ) کا علاقہ دیوانہ تھا لہذا انتظامیہ اُن کی درخواست کو ایک طرف کر دیتی لہذا اُنہوں نے اپنے ایک دوست سے اس سلسلےمشورہ کیاکیا کرو دوست نے مشورہ دیا کہ اپنی خوبی کو ہی خامی بنا لو علاقے میں ذیادہ تر بینک کے ملازمین رہتے ہیں لہذا اس جمعے کو "سود" کی "افادیت" پر روشنی ڈال دو پھر دیکھوکیا ہوتا ہے لہذا جب اُس نے اہل علاقہ پر اپنے زور خطابت کا ایسا اثر چھوڑا کہ ہفتے کی نماز فجر کی امامت وہ دوسری مسجد میں کر رہے تھے۔
یار لوگوں رمضان پر ہونے والے ٹی وی افطار پر نقطہ چینی اس انداز میں کرتے جیسے ملک کی اکثریت امریکی ویزہ کے لئے اپلائی کر کے امریکہ کو گالیاں دیتی ہےغصہ امریکہ کی پالیسی پر نہیں ویزہ نہ دینے پر ہوتا ہے۔ ہر کسی کو آمر کی لیاقت پر شبہ ہے مگر اُس کی کی گئی ملاوٹ سے سب ہی محظوظ ہوتے ہیں۔ یہ نئی نسل کے مولوی ہیں! اللہ کو مانتے ہیں مگر اللہ کی پوری طرح نہیں مانتے۔ جتنی مان سکتے ہیں اُس ہی کومکمل اسلام قرار دیتے ہیں۔
دونمبری کرتے ہیں! دونمبر ہیں! ایک نمبر اسلام کیسے اپنا سکتے ہیں؟ اور کیسے ایک نمبر اسلام والوں کو اپنائیں گے؟ ہماری نانی کا جب انتقال ہوا تو قیاس لگانے والوں نے کہا کہ بڑی نیک بندی تھی جس کا جنازہ "حافظ صابر علی" نے پڑھا! پوچھا یہ کون صاحب ہیں؟ کہنے لگے اللہ والے ہیں ۔ کہا کیا ثبوت؟ بتانے والے نے بتایا یہ کم ثبوت ہے کہ لوگ دل سے عزت کرتے ہیں! ہم نے کہا یہ کافی نہیں کوئی اور ثبوت! سامنے والا بولا گھر کی معاشی حالت اچھی نہیں ، اگر یہ بندہ چاہتا تو دین فروشی سے مال بنا سکتا تھا مگر ایسا نہیں کیا!خود کو پیر نہیں بناتا ورنہ لوگ مریدوں کی طرح چاہتے ہیں۔بات سن کردل نہیں مانا کہ جس کی بیٹیوں کا رشتہ لینے سے لوگ اس بناء پر راضی نہ ہوں کہ کچھ ذیادہ ہی نیک ہیں ایسی دیندار لڑکیوں کے ساتھ گزارہ کون کرے!! ایسے ایک نمبر بندے سے بندہ دور ہی اچھا ہے۔
رہبر کہہ گیا ہے میری امت کا فتنہ مال ہے! اُس کا کہا کیسے غلط ہو؟ ٹی وی پر مال بانٹا ہی مال بنانے واسطے بنایا جاتا ہے۔ یہ مال بانٹ پر مال بنانا ہی تو کمرشلزم ہے! رمضان تو کمرشلزم کی نظر ہوا ہی ہے مگر اس سے قبل ہی جو حال ہم نے عید کر دیا تھا کیا وہ دینی پیغامات کی مطابق تھا؟ نہیں ناں!! خرابی ایک دم نہیں آتی! مگر ابھی وقت ہی کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ خرابی ہے یوں اس کے دور ہونے کا امکان زندہ ہے کیا ہو جو یہ احساس بھی نہ رہے؟

7/27/2013

سیاست کا دل اور دماغ

یار لوگوں کو اعتراض ہے! یہ کیا ہو گیا؟ وہ گئے اُن کے در پر جن کو وہ دُھتکارتے تھے! وقت وقت کی بات ہے! اور ہر بات کا ایک وقت ہوتا ہے۔
چوہدری کو مزارعوں پر حکومت کرنے کو علاقے کے بدمعاشوں و غنڈوں کا ساتھ چاہئے ہوتا ہے! اب یہ ساتھ وہ چاہے اُن کو اپنے ڈیرے کر بلا کر حاصل کرے یا خود اپنے بندے اُن کے ٹھکانے پر بھیج کر!! اور بدمعاش کو تو اپنی جان بچانی ہوتی ہے کل کو وہ اپنے فائدہ و قانون کے شکنجے سے بچنے کو جس کے لئے بدمعاشی کرتا تھا ،آج خود اپنے لئے کسی اور کا اتحادی بن کر پہلے کے خلاف کام کرتا ہے!! کیا کرے ،جان کی امان اور روزی روٹی کا معاملہ ہے۔ سیاست کے سینے میںایسا دل ہوتا ہے جو صرف اپنے لئے دھڑکتا ہے اور دماغ وہ جو اپنے بارے میں سوچتا!!
اصول زندگی کا حصہ ہوتے ہے اور اصول یہ ہے کہ اپنے فائدہ کا سوچوں !

6/12/2013

ڈی این اے، اسلامی نظریاتی کونسل اور ہمارا قانون!!

ہمیں شاید عادت ہو گئی ہے آسان بات کو دشوار کرنے کی اور سیدھی بات میں ابہام ڈالنے کی! گزشتہ دنوں جب اسلامی نظریاتی کونسل نے پریس ریلیز جاری کی تو جس انداز میں خبر ہم تک پہنچی یوں معلوم ہوا کہ جیسے اسلامی نظریاتی کونسل نے ڈی این اے کو بطور شہادت لینے سے ہی انکار کیا ہے! ہم بھی اول اول اس کو لے کر پریشان ہو گئے کہ یہ مولویوں نے کیا کیا!!! مگر بعد میں علم ہوا معاملہ یوں نہیں تھا!!
آپ ڈان اخبار اور دنیا پاکستان میں اس خبر کی سرخی دیکھیں تو آپ کو سمجھ آ جائے گی کہ ابہام کس نے کہاں کیا!
ڈان نے خبر یوں لگائی “جنسی زیادتی کے مقدمات میں ڈی این اے ناقابل قبول
اور دنیا پاکستان نے یوں “زنا بالجبر ، ڈی این اے ٹیسٹ بطورمددگارشہادت قبول ہے: اسلامی نظریاتی کونسل”۔
بات یہ ہے کہ زنا بالجبر کی اسلامی سزا ہے سنگسار کرنا!! جو کہ حدود لاء کی دفعہ چھ اور دفعہ 17 کے تحت ہے! اور حدود لاء کی دفعہ آٹھ کے تحت یہ سزا اُس وقت ہی دی جائے گی جب یا تو ملزم خود اعتراف جرم کر لے یا پھر اُس کے اس گناہ یا جرم کی شہادت چار عینی گواہ دیں! اسلامی نظریاتی کونسل نے یہاں یہ رائے دی کہ زنا بالجبر کے مقدمات میں صرف ڈی این اے ٹیسٹ ہی کی بناء پر حد (یعنی سنگساری کی سزا ) نافذ نہیں کی جا سکتی اسے صرف ضمنی شہادت کے طور پر قبول کیا جائے گا! یعنی یہ شرعی شہادت نہیں! اور صرف اس کی بناء پر شرعی سزا نہیں ملے گی! اس میں کوئی حرج نہیں یہ ایک درست رائے ہے! کیوں؟
ایک عام خیال یا مغالطہ یہ پایا جاتا ہے کہ اگر چار گواہ نہ ہو تین یا اس سے کم گواہ ہوں یا شرعی شہادت نہ ہو تو ملزم کو کہا جائے گا “سر غلطی ہو گئی آپ گھر جاؤ، عیاشی کرو، آپ تو شریف آدمی ہو” ایسا نہیں ہے جناب! حدود کا نفاذ نہ ہونے پر ملزم با عزت آزاد نہیں کیا جاتا بلکہ تب بھی اگر ایسے شواہد و شہادتیں ہو جن سے اُس کا جرم ثابت ہوتا ہو تو وہ قابل سزا ٹھہرتا ہے! کیسے؟
حدود لاء کی دفعہ 10 کے تحت 25 سال تک قید(جو ہر گز 4 سال سے کم نہ ہو گی) اور 30 کوڑے مارے جائیں گے مجرم کو! مزید یہاں یہ بتانا بھی اہم ہو گا کہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 376 کے تحت زنا بالجبر میں ہی عدالت ملزم کے مجرم ثابت ہونے پر موت کی سزا بھی دے سکتی ہے۔ صرف معلومات کے لئے عرض ہے کہ پڑوسی ملک بھارت میں اس جرم کی ذیادہ سے ذیادہ سزا موت نہیں ہے یعنی ہمارے یہاں سزا سخت ہے۔ اور ملتی بھی ہے یہ نہ سمجھا جائے کہ ملزم بچ جاتا ہو گا!
اسلامی نظریاتی کونسل کی اس رائے سے پہلے ہی سپریم کورٹ اور فیڈرل شریعت کورٹ مختلف فیصلوں میں ڈی این اے ٹیسٹ کو معاون شہادت کا درجہ دے چکی ہیں بلکہ اکتوبر 2012 میں سپریم کورٹ سفارشات دی چکی ہے کہ زنا بالجبر کے کیسوں میں ڈی این اے کو لازمی قرار دیا جائے مگر دونوں (سپریم کورٹ اور فیڈرل شریعت کورٹ) حد کے نفاذ کے لئے صرف ڈی این اے کو بطور شہادت قابل قبول نہیں سمجھتیں!! کیونکہ کہ صرف اور صرف ڈی این اے کی شہادت زنا بالرضا اور زنا بالجبر میں تفریق کرنے میں معاون نہیں ہے۔ اس سلسلے میں دیگر شہادتیں بھی درکار ہوتی ہیں۔
امید کرتا ہوں دوست بات کو سمجھ گئے ہو گے! یوں لگتا ہے ٹی وی میں ہونے والی مباحث لوگوں کو با علم کرنے کے بجائے گمراہ کرنے کو کیئے جاتے ہیں۔ مزید یہاں یہ بھی آگاہ کردوں کہ پاکستان میں اب تک کسی ملزم کے مجرم ثابت ہونے پر حد نافذ نہیں ہوئی نیز اسلامی نظریاتی کونسل کو آڑے ہاتھوں لینے والے ہی ان حدود کی سزاؤں کو غیر انسانی سمجھتے ہیں! یعنی نہ اُدھر خوش نہ ادھر!!

6/07/2013

خواب جنون اور تعبیر

میرے ایک دوست ہیں نام لینا مناسب نہیں لیکن کافی عرصے تک "خرچے" سے بھی تنگ تھے کافی عرصہ تنگ دستی کی زندگی گزارنے کے بعد نہ صرف ڈسٹرکٹ کورٹ کراچی سے نااہل وکیل قرار پائے بلکہ روایتی خوشامدی اور چاپلوس نہ ہونے کی وجہ سے ان کی وکالت کامیاب نہ ہوسکی کمال کے مقرر ہیں اور ایک اچھے قصہ گو ہیں اتنے اچھے کہ وہ پورا دن بولتے رہتے تھے اور ان کی پیاری باتیں ہم سنتے رہیں وکالت میں شدید ناکامی کے بعد خاموشی سے یورپ میں جابسے بعد ازاں کافی عرصے تک اس کے خوابوں کو ڈسکس کرتے رہے اس دنیا کے ناکام ترین انسان کی باتیں شیئر کرتے رہے پانچ سال کے طویل وقفے اور روپوشی کے بعد دودن قبل اس کی کال وصول ہوئی پہلے تو مجھے یقین ہی نہیں آیا کہ وہ دنیا کا ناکام ترین انسان واپس آچکا ہے بہرحال اس کے ساتھ پورا دن رہا مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ وہ ایک یورپی ملک کا ایک اہم وکیل بن چکا ہے اور اس کی لاء فرم یورپ کی مشہور لاء فرم بن چکی ہے اور اس کے پاس کامیابیوں کے بے شمار ریکارڈ تھے میں نے پوچھا کہ کیا کوئی شارٹ کٹ تو کامیاب نہیں ہوگیا اس نے کہا ایسا کچھ نہیں وہاں پر وکالت کا ایک نظام ہے ایک ماحول ہے ایک احساس زمہ داری ہے وکالت کتنا زمہ داری کا شعبہ ہے وہاں جا کر احساس ہوا اور ایک وکیل کی کتنی عزت ہوتی ہے وہاں احساس ہوا میں نے پوچھا کہ وہاں کے جج تو کافی ایماندار ہونگے میرے دوست نے کہا نہیں وہاں ایسا کوئی تصور نہیں ایماندار جج اور بے ایمان جج کیا ہوتا ہے؟ جج تو جج ہی ہوتا ہے کھلاؤ سونے کا نوالہ اور دیکھو شیر کی آنکھ سے یہ ان کا اصول ہے اگر کوئی بے ایمان ہے تو اپنے خرچے پر وہاں کا سسٹم اتنا مضبوط ہے کہ کوئی کرپشن کا سوچ بھی نہیں سکتا اچھا کیا وہاں ججز کی کرپشن کو سپورٹ کرنے کیلئے "ایم آئی ٹی" نہیں ہے بھائی یہ ایم آئی ٹی کیا بلا ہے وہاں ایک ہی "ٹی" ہے وہاں کا سسٹم خود ایماندار ہے اس لیئے یورپی ممالک میں عدلیہ کو "ایم آئی ٹی" جیسے ڈھول بجانے کی فرصت ہی نہیں نہ ان کو ایسے ڈھکوسلے ایجاد کرنے کی کوئی ضرورت ہے لیکن اتنا چیلنج ہے کوئی کرپشن کرکے تو دیکھے اچھا اگر کسی بااثر جسٹس کا جونئیر کرپشن کرے تو اس کے لیئے وہ سفارش تو کرتا ہوگا میرے دوست نے کہا ایسا کچھ نہیں وہاں ڈھکوسلوں کا کوئی سلسلہ ہے ہی نہیں وکیل اپنے کلائنٹ کے قانونی حقوق کی حفاظت کا زمہ دار ہے ہر صورت ہر قیمت پر اور اگر یہ بات ثابت ہوجائے کہ وکیل نے غفلت کا مظاہرہ کیا تو اس کو اپنے ہی منتخب نمائیندوں کی حمایت حاصل نہیں ہوتی لائسنس منسوخ کوئی رعایت ہی نہیں میرے منہ سے نکل گیا کیا وہاں بارکونسل نہیں میرے دوست نے کہا ادارے ہیں لیکن وہ زمہ دار ہیں
اب فائدے سن لو وہاں ایک عام وکیل کی بھی اتنی انکم ہے کہ وہ ایک پورے خاندان کو پال سکتا ہے ادارے مضبوط ہونے سے ادارے کا وقار بحال ہے کرپشن کے خاتمے سے ایک میرے جیسا نااہل وکیل جو پاکساتنی عدلیہ میں مس فٹ تھا آج کامیاب زندگی گزار رہا ہے بعد ازاں جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ صرف پانچ سال کے قلیل عرصے مٰیں اس نے پاکستان جو اثاثے بنائے ان اثاثوں کا سوچنا بھی مشکل ہے مجھے اس کی ایک بات ہمیشہ یاد رہی یار خواب بڑے دیکھو ایک دن آتا ہے وہ بڑے خواب تعبیر بن جاتے ہیں مٰیں نے کہا چلو آج ڈسٹرکٹ کورٹ چلتے ہیں کہا نہیں کبھی نہیں کیونکہ وہاں میرے خواب دفن ہیں وہ خوابوں کا قبرستان ہے وہاں میں نہیں جاسکتا میں نے کہا پتہ چلا کہ "مشیر"صاحب بھی چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ بن گئے ہیں وہ بھی تو ہم سے اپنے خواب شیئر کیا کرتے تھے ان کے خواب شرمندہ تعبیر کیوں نہ ہوئے میرے دوست نے کہا اپنے اپنے جنون کی بات ہواکرتی ہے میرے خوابوں کے پیچھے میرا جنون تھا اور ان کے خواب کیوں شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے ہوں وہ خود جانے ہوسکتا ہے کہ ان کا خواب صرف چیف جسٹس سندھ ہایئکورٹ بننے کا ہو تو ان کاخواب بھی شرمندہ تعبیر ہوچکا آج وہ بھی تو چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ ہیں کے سی ڈی آر میں بیٹھ کر جو خواب دیکھتے اور دکھاتے تھے جب وہ خود بھول گئے ہیں تو ہمیں بھی بھول جانے میں کیا حرج ہے
یہ کہہ کر میرا دوست واپس چلا گیا
آخر میں کچھ عرصہ قبل لکھی گئی ایک تحریر کا دوبارہ حوالہ خوش قسمتی سے سپریم کورٹ میں کام کرنے ایک اچھا ماحول موجود ہے کمرہ عدالت کا ایک بہترین ماحول ہے تمام کاروائی ریکارڈ ہوتی ہے اور اہم اداروں کے سربراہان کی کوششوں کے باوجود کیسز چیمبر میں نہیں سنے جاتے بلکہ مقدمات کی کھلی سماعت کی جاتی ہے اس حوالے سے چیف صاحب پر کوئی کبھی بھی تنقید نہیں کرے گا کہ سپریم کورٹ میں گورننس کے ایشوز ہیں یہی حال ملک بھر کی ہائکورٹس کا ہے وہاں نظام کو بہتر بنانے میں کافی کامیابیاں ہوئی ہیں ججز کی کمی ایک مسئلہ تھی وہ بھی کسی حد تک حل ہوچکا ہے
ماتحت عدلیہ جہاں ہرروزلاکھوں کی تعداد میں پیش ہوتے ہیں جہاں لوگوں کے معمولی نوعیت کے معاملات سے لیکر قتل تک کے مقدمات پیش ہورہے ہوتے ہیں وہاں پاکستان کی عدالتوں میں ہمیشہ سے مسائل اور پریشانیاں عوام کا مقدر رہی ہیں ان عدالتوں سے نہ صرف عوام بلکہ وکلاء کو بھی شکوے اور شکایات رہے ہیں اس حوالے سے متعدد بار سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کی توجہ دلائی گئی لیکن کسی کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگی حالیہ دنوں میں 2013 کی کراچی بارکی منتخب کابینہ نے شاید تنگ آمد بجنگ آمد کے تحت کاروائی کی جس کے بعد سندھ ہائی کورٹ نے سخت نوٹس بھی لیا جوابی طورپر وکلاء نے بھی ہڑتال کی اور کافی کامیاب ہڑتال کی لیکن بالآخر یہ معاملہ بھی اسی طرح ہی شاید حل ہونے جارہا ہے کہ" تھپڑ" مار کر معافی مانگ لی جائے اور یہ گھسا پٹا نعرہ بلند کردیاجائے کہ بار اور بنچ ایک ہی گاڑی کے دوپہیئے ہیں جو ایک دوسرے کے بغیر نہیں چل سکتے پھر یہی کہا جائے گا کہ" سب کچھ بھول جا" لیکن چیف صاحب کو اس بار اس کا سخت نوٹس لینا چایئے اس سارے معاملے کو ایک جسٹس کی نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے
کیا واقعی رشوت کا لین دین ہوتاہے؟
اس کو کیسے کنٹرول کیا جائے؟
ماتحت عدلیہ کے اکثر ججز مقدمات کی کھلی عدالت میں سماعت کیوں نہیں کرتے؟
کیا عدالتی اوقات کار کے دوران یا بعد ججز کا اپنے دوست وکلاء یا ملزمان کے ساتھ بیٹھ کر میٹنگ کرنا درست ہے یا غلط؟
جو نظام جو ڈسپلن سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کی سطح پر سختی سے لاگو ہوچکا ہے وہ ماتحت عدلیہ میں کیوں نہیں ہوسکتا؟
اگرسپریم کورٹ اورہائی کورٹ کی ساری کاروائی شفاف بنانے کیلئے ریکارڈ کی جاسکتی ہے تو ماتحت عدلیہ میں کیا رکاوٹ ہیش آرہی ہے ؟
کراچی میں پاکستان کی ٪10 آبادی رہتی تو اس حوالے سے کیا خصوصی اقدامات کیئے گئے ہیں؟
کراچی کے جوڈیشل کمپلیکس کے حوالے سے اہم فیصلوں میں کیا رکاوٹیں ہیں؟
ریکارڈکیپنگ کے لیئے جو پیمانہ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں اپنایا گیا ہے وہی ماتحت عدلیہ
میں کیوں نہیں؟ کراچی کی عدالتوں سے ہزاروں سنگین جرائم میں ملوث افراد کس طرح ضمانت پر رہا ہونے کے بعد لاپتہ ہوگئے ہیں؟ کون زمے دار ہے؟ اور کیا ان کی ضمانت کے طور پر جمع کروائی گئیں دستاویزات پر جرمانہ عائد کیا گیا اور کیا وہ دستاویزات اصلی تھیں؟ اور اگر جعلی دستاویزات تھیں تو پریذایڈنگ آفیسر کس حد تک ذمے دار تھے؟ اسی طرح بہت سے افراد کو زاتی ضمانت پر چھوڑا گیا کیوں؟ کیا سنگین جرائم میں ملوث افراد کو صرف زاتی ضمانت پر چھوڑا جاسکتا ہے؟ وکلاء تںظیمیں صرف ایک ہی مطالبہ کررہی ہیں کہ ان کو کام کرنے وہی ماحول میسر ہونا چاہیئے جو سپریم کورٹ ہائی کورٹ میں وکلاء کو حاصل ہے جس طرح عوام کو چیٖف صاحب سے بے شمار توقعات وابستہ ہیں اسی طرح وکلاء بھی وہی توقعات وابستہ کیئے بیٹھے ہیں
اکیسویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ ایک ایسا عدالتی نظام جس کے زریعے شہریوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے ہم ایسی عدالتی اصلاحات کا مطالبہ کرتے ہیں جن کے زریعے ایک عام شہری بھی اپنے حقوق کے تحفظ کے لیئے عدالت میں بلاجھجک آسکے جب عام شہری کو باآسانی انصاف ملے گا تو نہ صرف شہریوں کی بے چینی کا خاتمہ ہوگا بلکہ پاکستانی معاشرے میں ایسا امن قائم ہوگا جس کی تمنا ہر پاکستانی شہری کررہاہے
تحریر : صفی الدین اعوان

5/12/2013

دھاندلی کی کارکردگی!

ہیلو یار کہاں تک کام پہنچا!
“سر کام جاری ہے”
جلدی کرو آگے نتیجہ بھی دینا ہے بھائی بے چین ہے!
“سر ساتھی لگے ہوئے ہے”
اچھا ٹھیک ہے چلو یہ بتاؤ کتنے کا عدد آگے دو! کچھ تو کارکردگی دیکھاؤ آگے
“سر میرے پاس سوا لاکھ پرچی ہے! بارہ بجے تک ہم سب ساتھ ضرور کام مکمل کر لیں گے!”
تو میں آگے یہ پھر سوا لاکھ کا نمبر دے دوں؟
“سر دوسروں کا خیال نہیں کرنا کیا، کہیں عجیب سا رزلٹ نہ لگے؟”
ت کیا چاہتا ہے! کیا منہ دیکھائے گا تو بھائی کو ! اچھا یار میں آگے یہ فیگر دے رہا ہوں! لوگوں نے گھر جانا بھی ہے! اور اتنی پرچیاں میں یہاں سے الگ کروا دیتا ہوں، اپنی پرچی جتنی جلدی ہو بھیجو”
“ٹھیک ہے!”

(یہ ایک خیالی تحریر ہے! اس سے کسی بھی قسم کی مماصلت دراصل الہام ہو گا)

4/28/2013

ہرتال سے سوگ تک؟

ایک دور تھا شہر میں زندگی مفلوج کرنے کو شام پانچ چھ بجے کے بعد ہر علاقے میں ایک دو دکانیں یا بس جلا دی جاتی! یوں یہ حکمت عملی اگلے دن زندگی مفلوج کر دیتی اور سیاسی جماعت اپنے “زور بازو” سے شہر کی نمائندہ جماعت بن کر اپنا سیاسی قد بھی اونچا کر لیتی اور عوام کے خوف کو وہ “عوامی حمایت” بتا شہر کی نمائندہ جماعت بتاتے ! فارمولا ا س قدر کامیاب ہوا کے بعد میں آنے والوں میں نہ صرف اس کو اپنایا بلکہ پرانے نمائندہ نے شہر میں اپنی کم ہوتی “مقبولیت” کو اس ہی فارمولے سے بچانے کی کوشش کی! یوں جمہوریت کا یہ حُسن بھی اہل شہر کے سامنے آیا کہ بدمعاشوں کا خوف ہی مینڈیٹ ٹھہرا!اور یوں کامیاب ہرتال کے ذریعے اپنے مطالبات حکومت وقت سے منظور ہو جاتے تھے۔
اب خود حاکم ہو کر آئے ہیں! اب میڈیا کا دور ہے! میڈیا والوں سے یاری بھی پکی ہو گئی ہے! پہچان میں آ کر بھی نا معلوم ہوتے ہیں۔ حاکم ہرتال نہیں کرتے مگر کیا کرے مینڈیٹ تو زندگی مفلوج ہوتا ہے لہذا سوگ کا اعلان کر کے مینڈیٹ حاصل کیا جاتا ہے۔ خوف کی تشہیر کو میڈیا جو ہے ، جان کی امان کو سب گھروں میں مقید ہو جاتے ہیں۔
سوگ کا اعلان کرنے والے مانے یا نہ مانے یہ سوگ دراصل خود ان کی زبانی اپنی نا اہلیت کا ثبوت ہے۔ آپ پانچ سال حکومت میں رہے جب سندھ کی حکومت میں آپ کو حصہ نہیں مل رہا تھا تو آپ نے شہر کو آگ لگا کر بلیک میل کر کے حصہ لیا۔ ہمارا کراچی جیسا نعرہ لگایا! شہر آپ کی جاگیر رہا اب اگر جل رہا ہے تو آپ مانے کہ یہ آپکی نا اہلی ہے یا پھر یہ ہی آپ کی اہلیت ہے۔ بڑوں سے سنا ہے اپنی نالائقی پر افسوس کرنا واجب ہے مگر یہ افسوس خود تک محدود ہونا چاہئے نہ کہ سوگ کو پورے شہر پر مسلط کیا جائے۔
گیارہ مئی فیصلے کا دن ہے خدا کرے بارہ مئی کا سورج کراچی کے اعتبار سے کراچی کے دشمنوں کے لئے ایسا ہی ہو جیسا کبھی اُن کے ہاتھوں اہل شہر نے بھگتا تھا!

4/24/2013

درمیانہ اُمیدوار!

یار الیکشن کی تیاری کیسی ہے؟
“ہم نے کیا تیاری کرنی ہے، ملک میں چھٹی ہو گی اور ہم جا کر ووٹ ڈال آئیں گے”
اچھا جی تو پھر انتخاب کر لیا اُمیدوار کا؟
“ہاں یار جب ووٹ ڈالنا ہے تو کسی نہ کسی کا انتخاب تو کرنا پڑے گا ناں”
تو کس پارٹی کو ووٹ ڈال رہے ہو؟
“یار آزاد امیدوار کو ڈالوں گا کسی سیاسی پارٹی کو ووٹ نہیں ڈال رہا”
اچھا! لگتا ہے کوئی جاننے والا تمھارا کھڑا ہے انتخاب میں؟
“نہیں نہیں!یار میں تو اُسے جانتا بھی نہیں! چھ مہینے پہلے ہمارے گھر آیا تھا جب امجد کے ہاں بچی ہوئی تھی بس اُس کے بعد اب ووٹ مانگنے آیا ہے”
اوہ خیر تیرے گھر آتا جاتا ہے اور تو کہہ رہا ہے تو جانتا بھی نہیں ہے اُسے ! بڑا ڈرامے باز ہے تو! کون ہے وہ؟
“ابے میرا کوئی رشتے داری نہیں ہے بندیا رانا سے”
اوئے تو کھسرے کو ووٹ دے گا؟
“ہاں! کیوں کیا مسئلہ ہے؟”
ابے کسی مرد کو نہ سہی کسی عورت کو ہی ڈال دے یہ کیا کہ تو ہجڑے کو ووٹ دینے لگا ہے! کیسا لگے گا ایک ہجڑا اسمبلی میں؟
“اور میاں تمہارا مطلب ہے پچھلی اسمبلی میں کوئی ہجڑا نہیں تھا؟”
ہاں نہیں تھا ناں!
“ اچھا جی! تمھارے ملک میں ڈرون حملے ہوئے، دوسرے ملک کی فوج اندر آ کر آپریشن کر کے چلی گئی، وہ اپنے بندے کو قاتل ہونے کے باوجود بچا کر لے گئے، تمہاری فوج سے وہ اپنے مفادات کا تحفظ کروا رہے ہیں، اور کسی پارلیمنٹیرین کو اس پر منافقت سے پاک بات کرنے کی توفیق نہیں ہوئی، تم کہتے ہو سابقین ہجڑے نہیں تھے.”
حد ہوتی ہے تم کسی اور کو موقع دو اور بھی کئی جماعتیں ہیں، ہجڑا منتخب کرنا کیا ضروری ہے؟
" اب رہنے دو! شیر بلٹ پروف شیشے کے پیچھے سے دھارتا ہے اور بلا جو ہے وہ بیبیوں سے میک اپ کر کے سونامی لانے کو نکلتا ہے باقی رہ گئے ترازوں والے تو اُن کی مردانگی یہاں سے نظر آتی ہے کہ جس قوم کی بیٹی کے نام پر کئی ماہ سے سیاست ہو رہی تھی اُس کی بہن کے مقابلے بندہ اُتارا ہوا ہے. اور باقی تو ہیں ہی سابقہ حکمران. اس لئے ایک خواجہ سرا ہی بہتر انتخاب کہ اُس میں کچھ نا کچھ مردانگی ہے اور مردانگی جن میں ہو مسئلہ وہ ہی نظر آتی ہے، ذہنی ہجڑوں سے بہتر ہے جسمانی ہجڑا منتخب کر لیا جائے!”
جا یار تو جس کو مرضی ووٹ ڈال! میرے سے غلطی ہوئی جو تجھ سے پوچھ لیا!

4/21/2013

سالارجیل میں

وقت وقت کی بات ہے۔ کبھی دل میں آتا تھا تو قلم کی جنبش سے ایک نوٹیفکیشن جاری ہوتا اور قانون وجود میں آ جاتا تھا مگر آج جناب خود قلم کی جنبش کی زد میں آ کر قانون کے شکنجے میں ہے۔ جو دہشت گردوں سے جنگ لڑنے کی بات کرتا تھا آج خود دہشت گردی کے الزام کا سامنا کررہا ہے۔جناب سپا سالار ہوتے تھے اب سپاہیوں کی قید میں ہوتے ہیں۔ غلط فیصلے غلط جگہ پر پہنچا دیتے ہیں اور ایسے فیصلے کبھی درست مشوروں سے حاصل نہیں ہوتے۔
مشیر کا انتخاب حکمران کے اقتدار کا دو رانیاں طے کرتا ہے۔اور وکیل کا انتخاب ملزم کے مجرم تک کے سفر بارے قیاس کرتا ہے۔ جس کیس میں جناب کی پکڑ ہوئی اس میں جناب کا گرفت میں اتنی آسانی سے آنا نہیں بنتا تھا۔ قابل ضمانت جرائم میں ملزم کو ضمانت درخواست کے بغیر ہی مل جاتی ہے مگر جناب کے ساتھ وہ معاملہ یوں ہوا کہ نمازیں بخشو انے گئے روزے گلے پڑھ گئے والا ہوا ضمانت تو کیا ملنی تھی ATC کی دفعہ سات بھی شامل کر دی گئی۔
خود کو بڑا منوانے والے لوگوں کو تھانے جانے میں بڑی تکلیف ہوتی ہے، اس تکلیف میں وہ جیل میں چلیں جاتے ہیں۔ جناب بھی شاید اس ہی مسئلہ کا شکار ہوئے ورنہ متعلقہ تھانے جا کر اگر ایس ایچ او سے ملاقات کرتے وہاں بیٹھ کر کافی و سگار سے لطف اندوز ہو کر آتے تو اج اپنے ہی فارم ہاؤس میں قید نہ ہوتے۔ اس جرم میں جناب کی ضمانت تھانے دار یا تفتیشی آفیسر بھی لے سکتا تھا۔ اگر عدالت جانے کا اتنا ہی شوق تھا تو جناب جب کراچی میں سندھ ہائی کورٹ میں پیش ہوئے تب transit بیل لی تھی تب اسلام آباد میں ضلعی جج کے سامنے پیش ہو کر ضمانت لے لیتے وہ اگر رد بھی کرتا تو دہشت گردی کی دفعات کو اضافہ تو نہ کرتا کہ یہ اُس کے پاس ایسا کوئی اختیار نہ تھا مگر بدقسمتی جس کو یہ اختیار تھا جناب اُس کے ہی سامنے پیش ہوئے اور در لئیے گئے۔ ہم نے یہاں دیکھا ہے کہ ہمارے سینئر وکیل اکثر کلائینٹ کا معاملہ نچلی عدالتوں کے بجائے اعلی عدالتوں میں براہ راست لے جاتے ہیں جس سے ایک تو ریلیف جلدی مل جاتا ہے دوسرا فیس اچھی مل جاتی ہے۔ یہاں یقین فیس کا معاملہ نہ ہو گا مگر اس توپ سے مکھی نہ مری اور نقصان الگ ہوا۔
سچی بات تو یہ ہے کہ جناب کا اقتدار اور اس یوں ذلیل ہونا میری ذات کو بہت کچھ سکھا گیا اور سیکھا رہا ہے۔ دنیا داری کے اعتبار سے بھی اور پیشہ وارانہ زندگی کے لحاظ سے بھی۔
کہانیوں میں پڑھا تھا، تاریخ نے بتایا تھا کہ بادشاہ قید ہوتے ہیں، مارے جاتے ہیں، ذلیل ہوتے ہیں مگر یہ سب تب ہی ہوتا ہے جب اُن میں غرور ہو تکبر ہو، انسانیت نہ ہو! پھر وہ کتنے ہی عقل کُل کیوں نہ ہوں لوگوں کی بد دعائیں انہیں نالائق مشیروں اور ظالم دشمنوں سے لڑوا دیتی ہے۔ قانون قدرت سے زیادہ ظالم دشمن کون ہو گا؟ آج ایسی تاریخ کو خود بنتے دیکھ رہا ہوں!اگر ایسے کیس مین ایسی گرفت ہے تو باقی میں خدا خیر کرے۔ سالار جیل میں ہے اور یار لوگ کہہ رہے ہے سالا جیل میں ہے۔

4/16/2013

صرف پندرہ سیکنڈ!!

سنا ہے زمین سے توانائی کا اخراج ہو تو زلزلہ آتا ہے! آج یہ بھی تماشا دیکھا کہ جب زلزلہ آتا ہے تو یار لوگوں کی توانائی بھی خارج ہو جاتی ہے اور جان کی امان کو جو گھر لوگوں نے بنا رکھے ہیں اُن سے ہی باہر نکل کھڑے ہوئے جان کی امان کو!! اونچی اونچی عمارتوں کی تعریف کرنے والے کھلے میدانوں کو بھاگے! بہادروں پر خوف کا سایہ دیکھ کر ہنسی آئی کہ واہ کیا بے بسی پائی ہے حضرت انسان نے۔
پندرہ سیکنڈ میں اوقات کا اندزہ ہو گیا! مگر پھر کہاں اعمال میں درستگی آ سکتی ہے کرسی پر سوار جان بچانے کو آیۃ کرسی کا ورد کرتے جب سڑک پر پہنچے تو علاقے کی عورتوں کی بے پردگی میں دیکھ کر پھر سے شیطان کے ہمنواہ ہو کر آنکھوں کی گمراہی کا شکار ہوئے تب احساس ہوا کہ اللہ کی یاد موت سے جڑی ہے یہاں موت ٹلی وہاں پھر وہی پرانی روش۔
زلزلہ زمین ہی نہیں ہلاتا بندے بھی ہلا دیتا ہے اور یہ جھٹکے اُن ہی کو زمین پر لاتے ہیں جو اندر سے اس قدر کمزور ہو چکے ہوں کہ زمین پر جا گریں! خاک کی اصل تو زمین ہی ہے مگر کوئی اصل کو خود سے لوٹنا نہیں چاہتا۔

4/14/2013

ووٹ کس کو؟

الیکشن کا زور ہے! میڈیا ہو یا شوشل میڈیا، گھر ہو یا گلی، دفتر ہو یا بازار، ہر طرف سیاسی سرگرمیاں عروج پر ہیں! ہر ایک کا لیڈر عمدہ و با کمال ہے۔ اُس سے اچھا و اصولوں والا کوئی اور نہیں ہے۔ جس سے پوچھو وہ اپنے رہنما کو ہی قابل بتاتا ہے۔ اگر کسی وجہ سے کسی جگہ ہونے والی کسی بچث میں یہ ثابت ہو جائے کہ اُس کی چنے گئے لیڈر میں کوئی خامی یا کمزوری ہے یا ماضی میں وہ کوئی غلط کام کر چکا ہے تو جواب میں سامنے والا آپ کے ممکنہ انتخاب میں کیڑے نکالے گا یا کیڑے ڈالنے کی کوشش کرے گا!
ہم میں سے اکثر ایسے ہیں جو ووٹ ڈالتے ہوئے شخصیت پسندی کے شکار ہیں! انتخاب یقین شخصیت کے نام پر کیا جانا ہے مگر شخصیت ہی کا انتخاب کیوں؟
الیکشن ہم میں سے کتنے جانتے ہیں کہ منشور واقعی اہم ہے؟ اور ہم میں سے کتنے آگاہ ہیں کہ سابق حکمرانوں نے پہلے کیا منشور دیا تھا؟ اور اُس میں سے انہوں نے کون سا منشوری نقطہ یا وعدہ پورا کیا؟
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آپ کی سیاسی جماعت کا تعلیم ، صحت، مواصلات، و دیگر شعبہ زندگی سے متعلق کیا منشور ہے؟ مجھے یقین ہے اکثریت نا واقف ہو گی! بلکہ سچ کہو تو سابقہ تجربہ سے تو یہ معلوم ہوتا ہے منشور پیش کرنے والے خوداُسے ایک کاغذ کے ٹکڑے سے ذیادہ اہمیت نہیں دیتے۔
ایسے میں میں اب تک کم از کم ووٹ دینے سے متعلق کوئی فیصلہ کرنے میں دشواری محسوس کر رہا ہوں!

4/09/2013

اظہار رائے کو پابند کرنے کی آزادی

جن اردو بلاگرز نے لاہور میں ہونے والی اردو بلاگرز کانفرنس میں شرکت کی وہ مسرت اللہ جان سے واقفیت رکھتے ہوں گے ! جناب مختلف ویب سائیٹ پر کالم یا تحریرں لکھتے رہتے ہیں! آج صبح معلوم ہوا جناب نے ایک کالم سچ ٹی وی پر لکھا جس کی بناء پر جناب کو امیریکن کونسلیٹ کی جانب سے دھمکیاں موصول ہوئی جس کے خلاف انہیں ابتدا میں ایف آئی آر کٹوانے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا مگر بعد میں ہائی کورٹ کی مداخلت سے وہ ابتدائی رپورٹ درج کروانے میں کامیاب ہوئے۔
نہ معلوم ہم کب آزاد ہو گے! اپنے ملک میں ہم یوں غلام ہیں کہ بعض دفعہ احساس ہوتا ہے کہ آزادی کی ایک جدوجہد اور درکار ہے ابھی!

4/06/2013

ہائے اوئے کہاں جا پھنسا!!

نظریاتی اختلاف ہو تو الگ بات ہے! مگر کیا کریں وہ تو شخصیت پسندی کی بیماری میں مبتلا فرد ہے! برداشت اُس میں یوں بھی نہیں کہ وہ خود سے متضاد نظریات رکھنے والوں کو جہالت کی ڈگری عطا کرنے کا ہنر جانتا ہے!شخصیت پسندی ایک ایسی بیماری جو انتخاب کو آسان مگر درست انتخاب کو ناممکن بنا دیتی ہے! جو ایسا سمجھتیں ہیں وہ دراصل اُس کی نظر میں اُس کی پسندیدہ شخصیت سے نا واقف ہیں۔ اُس کی پسندیدہ شخصیت میں کوئی بُرائی ہو ہی نہیں سکتی!وہ سمجھتا ہے ہر بُرے آدمی کو اچھا آدمی بُرا لگتا ہے اور اس ہی لئے اُس کی پسندیدہ شخصیت میں کوئی خرابی نہیں!اُسے بُرا سمجھنے والے دراصل خود اچھے نہیں ہیں! اُس کی شعوری سوچ کی ترقی کے ساتھ ساتھ اُس کی پسندیدہ شخصیت اگرچہ تبدیل ہوتی رہی مگر اسے حسن اتفاق ہی کہا جاتا ہے ہے ہر بار اُس کی پسندیدہ شخصیت اقتدار میں ہوتی جس کا اظہار وہ اُس شخصیت سے ضرور کرتا کہ وہ سچ کے پرچار کرنے کا عادی تھا مگر اس حق گوئی کو اُس کے حاسدین نے خوشامد کانام دیا۔
جعلی ڈگری
وہ نظریاتی اختلاف کو اس طرح بیان کرتا ہے کہ جو اختلاف نظر آئے وہ ہی نظریاتی ( یعنی نظر +آتی) اختلاف ہے لہذا وہ مخالفین سے اپنا اختلاف اس حد تک کرتا ہے کہ نظر آئے چاہے کہیں بھی لہذا یہ اختلاف مختلف وجوہات کی بناء پر کبھی گلی محلے اور کبھی تھانہ کچہری میں نظر آتا ہے۔وہ جانتا تھا حق کی جنگ میں بندے کو مشکلات برداشت کرنا پڑتی ہیں، اپنی اس حق سچ کی لڑائی میں اُسے بھی جیل کی ہوا کھانی پڑی! مگر اُس نے ہمت نہ ہاری اور باطل کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھی ، چونکہ محبت و جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا ہے لہذا اُس نے سب ہی کیا اگر کچھ رہ گیا ہو تو اُس کی کسر وہ بعد میں پوری کر دیتا مگر!!! خدمت کی راہ میں وہ ہی بندہ آ گیا جس کے سامنے وہ باطل کی ہار کی جدوجہد کے سلسلے میں پیش ہوتا رہا تھا!
تب وہ جج تھا تب بھی اُس سے اُسے آزاد نہ رہنے دیا تھا اب بھی وہ اُسے عوام کی خدمت سے روکنے پر بضد ہے! وہ جو حق کی جیت کے لئے ہر ڈگری کو استعمال کرتا تھا آج ڈگری اُس ہی کو اُس کے خلاف استعمال کیا گیا ہے۔

4/01/2013

ہم بھی امیدوار ہیں!!

گزشتہ سات سال سے ہم آپ کے سامنے ہیں! آپ ہمارے کردار سے واقف ہیں۔ ہر شخص میں کوئی نہ کوئی خامی ہوتی ہیں ممکن ہے ہم میں بھی کچھ خامیاں ہوں۔ سیاست کے بارے ہمارےنظریات یقین اچھے نہیں مگر آج کے جمہوری دور میں ہم ووٹ کی طاقت سے ہی تبدیلی لا سکتے ہیں!
ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ اچھی و عمدہ قیادت کا ملک میں فقدان ہے لہذا اس بات کا اظہار ہم اکثر و بیشتر کرتے رہے ہیں ۔ جب الیکشن کے فارم پُر ہونا شروع ہوئے تو عدالت میں بھی ہم نے اپنے ان خیالات کا اظہار اپنے دوستوں سے کیا لہذا پرسوں دوستوں سے مشورے کے بعد ہم نے اپنے حلقہ PS-121 سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کر کے فارم جمع کروا دیئے تھے جو آج منظور ہو گئے ہیں!۔
آزاد امیدوار کی حیثیت سے فارم جمع کروائے تھے، مگر پھر APML نے ٹکٹ کا کہا ہے!ایم کو ایم کے امیدوار سے ہماری بات چیت چل رہی ہے دیکھے کیا رزلٹ نکلتا ہے!
آپ میں سے کون کون الیکشن کے سلسلے میں ہمارا ساتھ دے گا؟ جو حلقے میں رہتے ہیں وہ ووٹ ڈال دیں اور جو حلقے سے باہر ہے وہ نوٹ ڈال دے تاکہ الیکشن کے اخراجات میں آسانی ہو۔
اس طرح کا اپریل فول تو منایا جا سکتا ہے. اللہ اس جھوٹ کو معاف کرے.

3/29/2013

خرچہ الیکشن!

آؤ جی جناب کیسے ہیں جناب!
“یار الیکشن کے سلسلے میں آیا ہوں”
سر ہم حاضر ہیں ہم آپ کو ہی ووٹ ڈالیں گے پریشان نہ ہوں
“ابھی ووٹ کے لئے نہیں آیا کسی اور کام سے آیا ہوں”
جی جی بھائی حکم!
“دیکھو گزشتہ تین سال سے میرا آپ سے ایک تعلق بن گیا ہے جو کام آپ تین سال سے کرتے آ رہے ہو ناں اُس کا اُلٹ آپ نے ان تین ماہ میں کرنا ہے”
مطلب کیا کرنا ہے؟
“یار پہلے سرکاری تقریبات کے اخراجات میں آپ ہر چیز و معاملے کی رسید اصل خرچے سے ذیادہ کی دیتے تھے ناں”
جی بھائ
“ہم نے آپ کا خیال کیا تھا تب بھی اب بھی کرے گے”
بھائی آپ حکم کرے
“بس اب کے رسیدوں میں چیزوں کی قیمت آدھی اور کبھی اُس سے بھی کم لکھ دینا”
بھائی وہ تو ٹھیک ہے مگر ۔۔۔۔
“یاراصل قیمت سمیت تیرا کمیشن تجھے مل جائے گاا بس اُس کی تصدیق کر دینا کر دینا کہ رسید والے چارجز درست ہیں جب الیکشن کمیشن والے آئیں! ویسے وہ نہیں آئیں گے! “
جو حکم بھائی کوئی مسئلہ نہیں!

3/24/2013

اردو بلاگرز ہینگ آؤٹ

اردو بلاگرز کا یہ دوسرا ہینگ آؤٹ تھا! اس سے قبل ہونے والی آن لائن ملاقات کی داستان آپ بلال بھائی کے بلاگ پر پڑھ سکتے ہیں! گزشتہ رات ہونے والی ایک اور ایسی ملاقات کی ریکارڈنگ ذیل میں موجود ہے۔ کئی سابقہ بلاگرز کوشش کے باوجوداس ہینگ آؤٹ میں جگہ نہ بنا سکے جن میں جہانزیب اشرف نمایاں ہیں نیز قدیر جنجوعہ اس کے آن ایئر ہونے کی وجہ سے شرکت سے انکاری تھے۔ جناب خرم شبیر و ڈاکٹر منیر سے ایس ایم ایس پر اپنی مصروفات کی وجہ سے معذرت کی۔ اس بار عثمان لطیف جو کہ SEO ہیں نے اس آئن لائن ملاقات میں خصوصی شرکت کی ! اردو بلاگرز نے انہیں آئندہ آئن لائن ملاقات میں اردو بلاگرز کے حوالے سے SEO یعنی سرچ انجن (گوگل) میں عمدہ رینک کے حوالے سے ایک کلاس یا لیکچر کا وعدہ لیا ہے۔ اس آئن لائن ملاقات میں کس کس پہلو پر بات ہوئی اس کا ایک اندازہ آپ ویڈیوز سُن کر لگا سکتے ہیں!!! کل باری باری کُل تین سیشن ہوئے جن میں سے دو کی ریکارڈنگ ذیل میں ہے! جو احباب ویڈیوز نہیں دیکھ سکتے وہ آئی ٹی نامہ والے سے اس سلسلے میں کسی ٹوٹکے کی فرمائش کر لیں!! یا پھر بلال بھائی کو کہہ دے ایک مختصر پچھلی بار کی طرح عمدہ تحریر عنایت کریں۔

3/21/2013

انتخاب

انتخاب کرنا آسان عمل نہیں ہے! یہ اُس وقت مزید دشوار معلوم ہوتا ہے جب اِس مرحلہ پر اپنے فائدے سے زیادہ اجتماعی فائدے کو مدنظر رکھنا ہوتا ہے. ہمارے معاشرے و خاندانی نظام کی ساخت نے ہمیں بڑوں کی موجودگی میں فیصلہ کرنے سے باز رہنے جیسا رواج تخلیق کیا ہے کہ زندگی میں ہم ہر دوسرے تیسرے معاملہ میں جہاں انتخاب کا موقع ملتا ہے بڑوں کو یہ اختیار دے کر خود کو سعادتمند ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں.
انتخاب سعادتمند مندی فیصلہ کے اختیار سے گریز کرنا نہیں بلکہ فیصلہ کو اُس صورت میں قبول کرنا ہے جب آپ کی مرضی بڑوں سے مختلف ہو جس کا اظہار آپ اُن کے سامنے اس انداز میں کر چکے ہوں کہ وہ آپ کی بات کو تسلیم کریں یا آپ کو ویسا کرنے کی اجازت دے. سعادتمندی کا اصل امتحان اُس وقت شروع ہوتا ہے جب بڑوں کا فیصلہ آپ کے حق میں نقصان کا باعث بن جائے تب آپ کا رویہ یہ بتاتا ہے کہ آپ سعادتمند ہیں یا سعادتمندی کا ڈرامہ کرتے ہیں۔
زندگی میں ملنے والے کتنے فیصلے ایسے ہیں جو ہم اپنی ذات سے بلند ہو کر کرتے ہیں؟
لہذا جناب انتخابات آنے والے ہیں ایسی سعادت مندی سے باز آئیں کہ جہاں بڑوں نے کہا وہاں ووٹ ڈال دیا، یا بے فائدہ سمجھ کر ڈالا ہی نہیں یا یہ کہ ذاتی مفاد کو اجتماعی فائدے کے مقابلے میں اہم جان کر ووٹ بیچ دیا! جس کو آپ مخلص جانے تمام میں بہتر جانے اُسے منتخب کرے۔

3/17/2013

مادر کراچی

گزشتہ دنوں کراچی میں ایک سماجی کارکن محترمہ پروین رحمان کا قتل ہوا ، محترمہ اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کی پراجیکٹ ڈائریکٹرتھیں! اُن کی خدمات کی بناء پر انہیں “مادر کراچی” کہا جاتا تھا۔ ذیل میں اُن کا ایک انٹرویو ہے جس سے' وجہ قتل' کا جہاں اندزہ لگایا جا سکتا ہے وہاں ہی یہ بات بھی جاننا اہل سمجھ کے لئے دشوار نہ ہو گا کہ کراچی کا اصل لسانی جھگڑا یہاں کی سیاسی جماعتوں کے معاشی و سیاسی زندگی کے بقاہ کے لئے ضروری ہے ، اپنی اس ضرورت ہی کی بناء پر یہ اس ایشو کو زندہ رکھتے ہیں اور جیسے یہ آئندہ الیکشن میں ووٹ کے حصول کو نفرتوں کی کاشت سے نوگو ایریا پیدا کرے گے!لہذا یہ لوگوں کیونکر اس مسئلہ لو حل چاہے گےا!!
انٹرویو انگریزی میں ہے ۔

3/15/2013

اگلے کی باری کے لئے عدت

اوئے کن سوچوں میں گم ہے
“یار ایک ٹینشن میں ہوں مگر جواب نہیں مل رہا؟”
کیسی ٹینشن؟
“یہ نگران حکومت کا عرصہ تین ماہ کیوں ہوتا ہے؟
یار یہ تو آئین میں درج ہے اس لئے
“ابے یہ تو مجھے بھی معلوم مگر یہ مدت ہی کیوں؟؟؟”
وہ اس لئے کہ ہم مسلمان ہیں!
“مطلب؟”
اچھا سمجھاتا ہوں پہلے یہ بتا کہ عوام اسم مذکر ہے یا مونث؟
“قاعدے کے مطابق تو یہ مونث ہی ہے”
اور حکمران کیا ہیں؟
“حکمران چور ہیں”
ابے میں حکمران بطور اسم پوچھ رہا ہوں!
“تو کیا مجھ سے اردو کا پرچہ حل کروانے آیا ہے جو تذکیر و تانیث کھیل رہا ہے؟ چلو وہ مذکر ہے پھر”
تو سمجھ لے ناں تین حیض قریب تین ماہ ہی بنتے ہیں ناں
“لعنت ہے یار تیری منتق پر تیرا مطلب ہے وہ ہماری _____________________ ۔ تجھ سے تو کچھ پوچھنا ہی بے کار ہے”

3/03/2013

ناکامی کا جواز

یہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ یار لوگ کسی امتحان، مقابلے یا انتخاب کے سلسلے میں اپنی جدوجہد و تیاری کی کوتاہی کو چھپانے کے لئے عموماً ناکامی کی ایسی وجوہات کو تخلیق کرتے ہیں جس میں حقیقت نہیں ہوتی مگر سامنے والے اِس لئے اُسے قبول کر لیتے ہیں کہ انہوں نے بھی زندگی میں ایسے ہی کسی بہانے کو اپنی یا اپنے کسی اپنے کی ناکامی کے جواز کے طور پر پیش کیا تھا۔
کامیابی یقین جانے ایک قابل و ذہین شخص سامنے والی کی صرف ضرورت ہی نہیں ہوتا بلکہ اُس کی مجبوری ہوتا ہے۔ اور مسلسل جدوجہد ہی کسی فرد کو سامنے والے کی مجبوری کے قابل بناتا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ جواز ناکام ہونے والا صرف دوسرے کو مطمئین بھرا جواب دینے کے لئے ہی نہیں تراشتا بلکہ بیشتر خود کو تسلی دینے کے لئے استعمال کرتا ہے۔
کامیاب ہونا اور کامیاب رہنا دو مختلف چیزیں یا باتیں ہیں۔ کامیاب ہونے والے لازمی نہیں سدا کامیاب رہے مگر وہ ہمیشہ ناکام نہیں ہوتا جو ناکامی کا جواز تراش کر پیش کرنے کے بجائے اُس وجہ کو ختم کرنے یا مدھم کرنے کی سہی کرے۔
میں نے اپنے اردگرد ایسے لوگوں کو جو جہد مسلسل پر یقین رکھتے ہیں اخلاقیات کے تمام قاعدوں کی پاسداری کرتے ہوئے کامیاب دیکھا ہے اور اخلاقی اصولوں کو کامیابی کی خاطر پامال کرنے کے باوجود ناکام دیکھا ہے، یہ ہی وہ افراد ہیں جنہیں ناکامی کا جواز چاہئے ہوتا ہے۔

2/22/2013

ہر گھر سے بھٹو نکلے گا!!

اڑے سنا کچھ تم نے کیا؟
“کیا کچھ نیا ہو گیا ہے؟”
نہیں کچھ نیا تو نہیں ہے مگر نئے نئے جیسا ہی سمجھو!!
“اچھا! کیا ہوا اب کے “
سنا ہے کہ ایوان صدر سے قائداعظم کی تصویر اُتارنے کی ناکام کوشش کی بعد سرکار نے اب پمز اسپتال کا نام بھٹو کے نام پر رکھنے کا ارادہ کیا ہے
“اوہ! اس معاملے کی بات کر رہے ہو”
تو تمہارے لئے یہ کوئی بات ہی نہیں؟
“بات تو ہے مگر ٹیشن کیو ں لیتا ہے”
کیوں نہ لو؟
har gar say bhutto nikly ga
“ابے نام تبدیل کرنے والوں نے یہ کام اپنے گھر سے شروع کیا ہے اور اس کا کوئی مقصد ہے جناب!”
کیا کہہ رہا ہے؟ گھر سے کیسے شروع کیا اُنہوں نے؟
“یار سب سے پہلے ایوان صدر والوں نے اپنی سب سے اہم شے پر بھٹو کا لیبل لگایا تھا”
کیا شے؟
“اوہ! اللہ کے بندے اولاد کی بات کر رہا ہوں! اُس کا نام بھی بدل کر بھٹو کیا تھا ناں”
اور مقصد؟
“یار تجھے ان کا نعرہ نہیں یاد کیا؟”
کون سا وہ روٹی کپڑا اور مکان والا؟
“نہیں یار وہ ہر گھر سے بھٹو نکلے گا والا”
اچھا!! ویسے یہ اولاد سے لے کر اداروں اور اداروں سے عمارتوں تک کے نام بھٹو کرنے والے اپنے روش بندل لےتو اچھا ہے کہیں ایسا نہ ہو ہر گھر سے واقعی بھٹو نکل باہر ہو!!

2/19/2013

ہائے اوئے تیری سیاست!!

آئینی پٹیشن کے لئے ضروری ہے کہ وہ کسی ایسے معاملے پر ہو جس سے متعلق ملک میں رائج قوانین میں کوئی حل موجود نہ ہو دوئم یہ کہ اُس معاملے سے آپ کے بنیادی حقوق متاثر ہوتے ہوں!یعنی یہ کہ آپ متاثرہ فریق (aggrieved person) ہوں!اور جب بھی آپ عدالت میں کوئی آئینی درخواست لے کر جاتے ہیں تو آُپ کو یہ چند ایک باتیں ثابت کرنی ہوتی ہیں! اول یہ کہ اس پٹیشن کے علاوہ کوئی اور راستہ نہ تھا قانون کو حرکت لانے کا یا اگر تھا تو ایسا کہ اُس کو اپنانے سے متاثرہ فریق کو ممکنہ انصاف ملنا ممکن نہ تھا! دوئم یہ کہ عدالت کو آنے والا شخص متاثرہ فریق ہے یعنی اُس کے بنیادی حقوق متاثر ہوئے ہیں یا ہو رہے ہیں! اس کے علاوہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ متاثرہ فریق کی بدنیتی اُس معاملے میں نہ ہو، اور اس کے علاوہ یہ کہ فریق ہی کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اگر عدالت سوال کرے تو وہ عدالت کوبتائے کہ کیسے درخواست پرعدالت کو Jurisdiction حاصل ہے اس کے علاوہ چند دیگر کسوٹیاں بھی ہیں ۔ ان تمام امتحانوں کو پاس کرنے کے بعد عدالت معاملے کی جانچ کی طرف جاتی ہیں آیا اُس کا کیا ممکنہ حل ہو گا اور کیسے؟ اور متاثرہ فریق کی کیسے دادرسی کی جائے ورنہ کیس یا درخواست خارج ہو جاتی ہے۔
سپریم کورٹ اور طاہر القادری
گزشتہ دنوں ہمارے ایک دھرنے والی شخصیت نے سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن سے متعلق ایک ایک درخوست پیش کی اور وہ یہ ثابت کرنے میں ناکام رہے کہ وہ کیسے متاثرہ فریق ہیں؟ خود کو متاثرہ فریق بتانے کے لئے یہ ثابت کرنا تھا کہ وہ ممکنہ امیدوار ہو سکتے ہیں آئندہ الیکشن کے, واقعی الیکشن لڑنا ضروری نہیں تھا خود کو متاثرہ فریق بنانے کو! یہ درخواست جناب ذاتی حیثیت میں دی تھی ۔ جناب کی دوہری شہریت ہے پاکستانی ہونے کے ساتھ ساتھ وہ کینیڈا کے شہری بھی ہے اس بنا پر وہ الیکشن لڑنے کے اہل نہیں کیونکہ آئین کے آرٹیکل 63 (1) (c) میں اس کی ممانعت ہے۔ قانونی نقطہ نظر سے الیکشن کا ممکنہ امیدوار ہی الیکشن کمیشن کی تشکیل پر سوال اُٹھا سکتا ہے ووٹر نہیں!لہذا درخواست خارج کردی گئی! اگر محترم واقعی اپنے مقصد کے حصول کے لئے مخلص ہیں تو دوہری شہریت کو چھوڑ پر خالص پاکستانی شہریت پر بھروسہ کرتے ہوئے دوبارہ میدان میں اُتر جائیں! مگر قانونی اعتبار سے تب بھی اُن کو اپنی نیت نیتی ثابت کرنا ہو گی! جس پر اُن کے اُس بیان سے شبہ پیدا ہوجاتا ہے جسے مصطفے ملک صاحب نے “”ساڈا ایہہ حال اے تے ساڈی امت دا کی حال ہووے دا“ والی مثال سے دیا۔
درخواست خارج ہونے پر ان صاحب نے یہ پروپیگنڈہ شروع کر دیا کہ دوہری شہریت والے پاکستانی کے حقوق سلب کئے جا رہے ہیں اور چند میڈیا پرسنز اور تجریہ نگار بھی کچھ ایسا ہی تاثر دے یا لے رہے ہیں۔ یہ ایک غلط بات ہے جیسا اوپر بیان کیا ہے۔ مختصر فیصلہ اور اخباری رپورٹ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نہ صرف محترم نے نہ صرف عدالت میں ایسے برتاؤ کے مرتکب ہوئے جو توہین عدالت کے ذمرے میں آتا ہے بلکہ باہر میڈیا کے سامنے اب تک ایسا اقدام اُٹھا رہے ہیں! معلوم ہوتا یہ دوہری شہریت کے ہی نہیں بلکہ دوہری شخصیت کے بھی مالک ہیں!

2/17/2013

اسلامی جمہوریہ پاکستان – مگر کونسا اسلام ؟

اب تو بنیاد پرست ہونا ہی نہیں مسلمانوں میں رہتے ہوئے بھی اسلام کو اپنی زندگی میں شامل کرنے کی سہی کرنا یا ایسی کسی خواہش کا پورے معاشرے کے لئے کرنا ایک مخصوص طبقے میں طعنہ سمجھا جاتا ہے۔ یار دوست اسلام کے نفاذ کو فرقوں کے نفاذ کی طرف دھکیل دیتے ہیں اور سوال کرتے ہیں کس کا اسلام نافذ کرو گے؟
یہ طبقہ ہر فورم، پروگرام، جگہ ایک عام پاکستانی کو یہ ہی کہہ کر زچ کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ “اس ملک میں درجنوں فرقوں کے لوگ آباد ہیں نہ صرف سنی شیعہ بلکہ انکے درمیان بیشمار فرقے ہیں.بریلوی، اہل حدیث وہابی، دیوبندی، اسماعیلی شیعہ، اثنا عشری شیعہ وغیرہ وغیرہ. تو تم کس کا اسلام نافذ کرو گے؟”
پاکستان میں کون سا اسلام نافذ ہو گا؟
“ملا” یا “مولوی” نامی ذات سے اسے اس قدر چڑ ہوتی ہے کہ یہ ان کی مخالفت میں وہ جہالت دیکھاتے ہیں کہ خیال آتا ہے کہ یہ لفظ جہالت ان کی اس حالت کو مکمل طور پر بیان کرنے سے قاصر ہے۔ اس طبقے کو عموما پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 2 (الف) کے ان الفاظ سے خاص چڑ ہے.
The principles and provisions set out in the Objectives Resolution reproduced in the Annex are hereby made substantive part of the Constitution and shall have effect accordingly.
یعنی “ضمیمہ میں نقل کردہ قرارداد مقاصد میں بیان کردہ اصول اور احکام کو مذیعہ ہذا دستور کا مستقل حصہ قرار دیا جاتا ہے اور وہ باقاعدہ موثر ہوں گے” اب سوال یہ ہے کہ آخر اس “قراردار مقاصد” کے مقاصد کیا ہے۔ مقاصد جاننے کے لئے اس پر ایک نظر ڈال لیں! اس کے الفاظ یہ ہیں!!
”ہرگاہ کے اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کل کائنات کا بلا شرکت غیر حاکم مطلق ہے اور اسی نے جمہور کی وساطت سے مملکت پاکستان کو اختیار حکمرانی اپنے مقررکردہ حدود کے اندر نیابتاً عطا فرمائی اور یہ اختیار حکمرانی مقدس امانت ہے۔
”جمہور پاکستان کی نمائندہ یہ مجلس دستور سازفیصلہ کرتی ہے کہ آزاد خود مختار مملکت پاکستان کے لئے ایک دستور مرتب کیا جائے۔“
”جس کی رو سے مملکت جمہور کے منتخب کردہ نمائندوں کے ذریعے جملہ اختیارات و حقوق حکمرانی استعمال کرے۔“
”جس میں جمہوریت آزادی مساوات رواداری اور معاشرتی انصاف کے اصولوں کو جس طرح کہ اسلام نے ان کی تشریح کی پورے طور پر ملحوظ رکھا جائے“
”جس کی رو سے مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ انفرادی و اجتماعی طور پر اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات کے مطابق جو قرآن و سنت نبوی میں متعین ہیں ڈھال سکیں۔“
”جس کی رو سے اس امر کا قرار واقعی انتظام کیا جائے کہ اقلیتیں آزادی کے ساتھ اپنے مذہب پر عقیدہ رکھ سکیں اور ان پر عمل کر سکیں اور اپنی ثقافتوں کو ترقی دے سکیں۔“
”جس کی رو سے وہ علاقے جو پاکستان میں شامل یا ملحق ہیں اور ایسے دیگر علاقے جو آئندہ پاکستان میں شامل یا اس سے الحاق کریں گے مل کر ایک وفاقیہ بنائیں جس کی وحدتیں مقررہ حدود اربعہ متعینہ اختیارات کے تحت خود مختار ہوں۔“
”جس کی رو سے بنیادی حقوق کا تحفظ ہو جن میں مرتبہ مواقع کی برابری اور قانون کے روبرو معاشرتی اقتصادی اور سیاسی انصاف اور قانون اخلاق عامہ کے تحت خیال، بیان، عقیدے، ایمان ، عبادت اور اجتماع کی آزادی شامل ہو جس کی رو سے اقلیتوں اور پسماندہ و پست طبقوں کے جائز مفادات کے تحفظ کا قرار واقعی انتظام کیا جائے۔“
”جس کی رو سے عدلیہ کی آزادی کامل طور پر محفوظ ہو۔“
”جس کی رو سے وفاقیہ کے علاقوں کی سلامتی، اس کی آزادی ، اس کے جملہ حقوق کا ، میں برو بحر اور فضا پر حقوق اقتدار شامل ہیں، تحفظ کیاجائے ۔“
اس قرارداد کے کس لفظ، جملے، پیراگراف یا مقصد سے کسی صاحب شعور شخص کو اختلاف ہو سکتا ہے۔ اس میں اسلامی ریاست کے بنیادی مقاصد کو بہت عمدہ الفاظ میں بیان کیا گیا ہے ۔ اگر ہم بغور جائزہ لیں تو اسلام کی بنیادی تعلیمات کی بنیاد اس قدر قوی اور مضبوط ہے کہ ملک میں پائے جانے والے تمام مکاتبہ فکر کا ان پرمکمل اتفاق ہے اور جو اختلافات ہے وہ صرف انفرادی معاملات پر ہے۔لہذا اجتماعی سطح پر اس کا نفاذ ممکن ہے۔ اور انفرادی سطح پر اس کے نفاذ کا حل بھی پاکستان کے آئین کی دفعہ 227 کی وضاحت میں موجود ہے۔
All existing laws shall be brought in conformity with the Injunctions of Islam as laid down in the Holy Quran and Sunnah, in this Part referred to as the Injunctions of Islam, and no law shall be enacted which is repugnant to such Injunctions. [Explanation:- In the application of this clause to the personal law of any Muslim sect, the expression "Quran and Sunnah" shall mean the Quran and Sunnah as interpreted by that sect.]
یعنی یہ کہ ملک میں موجود کوئی قانون قرآن و سنت سے متصادم نہیں ہو گا! نیز یہ کہ عام زندگی میں اس قانون کا نفاذ کسی بھی فرد پر اُس مکتبہ فکر کے مطابق ہو گا جس سے اُس کا تعلق ہے! مگر کیا کریں جھگڑا کرنے والے ، سوال کرنے والے تو جھگڑے گے سمجھے گے نہیں!۔ ویسے قوانین کا بنانا اور اُن کا اس طرح نفاذ کہ ہر مکتبہ فکر اُس سے مطمئن ہو ہز گز نا ممکن نہیں۔ مگر یہ ہماری بدنیتی ہے جو معاملات کو اس قدر گھمبیر و دشوار بنا دیتی ہے اور یہ ہماری ذاتی خواہش ہے جو موجود و نافذعمل قوانین کو متنازع بناتی ہے۔ ہم دین و دنیا کے قوانین کو ایسا نہیں چاہتے جو ہماری ذات کے لئے بے فائدہ اور ہماری مرضی کے خلاف ہوں، ہمیں ایسے قوانین چاہئے جو صرف ہماری ذات کے لئے فائدہ مند ہوں!

2/15/2013

فاصلہ رکھیں ورنہ!!!!

باقی شہروں کا تو ہمیں علم نہیں مگر شہر کراچی میں تنظیم اسلامی نے ویلنٹائن ڈے کے خلاف انگریزی زبان میں BillBoard پر اشتہارات لگائے ہیں اس سے قبل یہ شہر میں خواتین کے لباس سے متعلق بھی ایسی اشتہاری مہم چلا چکے مگر اُس وقت چونکہ یہ اصل نام سے سامنے نہیں آئے تھے اس لئے ایک مخصوص طبقہ نے اسے نوٹس کیا اور دونوں طرح کے رد عمل سامنے آئے تھے مگر اس کی کاوش سے یوں بے خبر رہا کہ یہ کون ہے جس سے اصل مقاصد پس پشت چلے گئے۔
BillBoard پر درج قرآنی آیات و احادیث ایسی ہیں جو صاحب شعور کو یہ سمجھا دیتی ہیں کہ دینی تعلیمات سے کی رو سے یہ دن ہمارے معاشرتی اقدار سے ٹکراؤ کا سبب بنتا ہے ۔ جیسے سورۃ النور میں بیان ہے “اور جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی پھیلے اُن کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے” اور یہ فرمان رسول اللہ “جب تم حیا نہ کرو تو جو جہ چاہئے کرو”۔
بات یہ ہے جیسے ہدایت منتخب لوگوں کو نصیب ہوتی ہے ایسی ہی کچھ ایسے بھی ہوں گے جہیں گمراہی کے لئے آزاد چھوڑ دیا گیا ہو گا۔
جن لوگوں کے دلوں پر قفل لگ جائیں انہیں ہدایت نصیب نہیں ہوتی اور ایسے لوگ نہ صرف یہ کہ احکامات ماننے سے انکاری ہوتے ہیں بلکہ اُن کا مذاق بناتے ہیں اُن کا یہ مذاق اُڑانا اُن کے باطل کو پہچاننےمیں مدد دیتا ہے ایسے لوگوں پر غصہ نہیں کرنا چاہئے یہ قابل رحم لوگ ہوتے ہیں کہ اللہ انہیں ہدایت دے۔
سبین محمود اینڈ کمپنی نے ان آیات و احادیث والے BillBoards کے ساتھ کھڑے ہو کر ٹرک آرٹ بنانے والا حیدر علی کے بنائے بینر کے ساتھ کُل آٹھ سے دس تصاویر اُتار کر اپنی فیس بک وال پر یہ تصاویر چپسا کی جہاں سے بلال لکھانی نے انہیں ایکسپریس ٹریبون کے فیس بک اکاؤنٹ پر لگایا۔

قرآنی آیات و احادیث کی غلط تشریح کر کے لوگوں کو گمراہ کرنے والے اور ان آیات کا مذاق اُڑانے والے دونوں ایک ہی صف میں ہیں دونوں کے اسپانسر و آقا بھی ایک ہی ہیں!ایک دین دار بن کر اور دوسرے دین سے بیزار ہو کر خود کو گمراہی کے راستے پر ڈالتے ہیں۔ روشنی کے نام پر اندھیرے پھیلانے والے اور آگاہی کے نام پر بھکانے والےیہ لوگ اس قابل نہیں کہ ان پر اپنا وقت برباد کیا جائے ہاں یہ ضرور ہے کہ ان سے فاصلہ رکھا جائے ورنہ دل بیمار ہو جائے گا! اور یہ بیماری پیار نہیں کرواتی گمراہی لاتی ہے!!
فاصلہ رکھیں ورنہ !!!! دل گمراہ ہو جائے گا
ہمیں تو یہ ہی لگتا ہے آپ کو نہیں لگتا کیا؟

2/08/2013

یہ میرے شہر کو کیا ہوا!!!

لاہور کی ایک میں نماز ظہر کی فرض رکعاتیں کے بعد نمازی بقایا نماز کی ادائیگی کر رہے تھے کہ مسجد کےء باہر اچانک فائرنگ شروع ہو گئی! تمام نمازی جان بچانے کو مسجد میں لیٹ گئے۔ چند ایک راہ گیر جان بچانے کو مسجد کے اندر کو دوڑے۔ مگر ایک قریب چالیس سے اوپر عمر کا بندہ مکمل طور پر نماز کی ادائیگی میں مصروف رہا تمام افراد اُس کی اس حالت پر رشک کر رہے تھے کہ کیا اللہ کا بندہ ہے اس حالت میں بھی اپنی نماز میں مگن ہے!! جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو ایک بندے نے نہایت عقیدت سے دریافت کیا محترم کیا آپ کو معلوم ہے کہ مسجد سے باہر ابھی فائرنگ ہو رہی تھی!! نمازی نے مسکراتے ہوئے اطمینان بخش لہجے میں کہا جی ہاں! بندے نے بات آگے بڑھائی تو جناب ایسا کیا کہ آپ بلاخوف نماز میں مگن رہے!! وہ بولا “میں کراچی والا ہوں”.
فیس بک پر یہ لطیفہ کچھ دنوں سے گردش میں ہے جوبنیادی طور پر دو باتوں کی طرف اشارہ کرتا یا سے آگاہ کرتا ہے اول دین اور عبادات کی طرف ہمارا رجحان واجبی سا رہ گیا ہے دوئم کراچی کے لوگوں کی نفسیات کہ اب یہاں کے افراد ایسے حالات کے عادی ہوتے جا رہے ہیں ایسے کسی بھی واقعہ کے بارے اب عام سا رد عمل ظاہر کرتے ہیں یوں تو پوری قوم میں ہی اب احساس کا مرتا جا رہا ہے مگر چونکہ ہم کراچی شہر کے باسی ہیں اس لئے یہاں ہمیں اپنے اردگرد موجود دوستوں، ساتھیوں اور لوگوں کے احساسات و نفسیات ذیادہ متاثر کرتی ہے۔
اس شہر کا مزاج ایسا ہو گیا ہے کہ اگر کہیں کسی جگہ کوئی قتل ہو جائے یا بڑا حادثہ ہو جائے تو یار لوگ اُس پر افسوس چند سیکنڈ سے ذیادہ نہیں کرتے! بلکہ اگر ایسا واقعہ اُن کے گھر جانے کے راستے میں ہوا ہو تو وہ عموما اس پر غصہ کرتے ہیں کہ میں نے گھر جانا تھا اور یہ حادثہ پیش آ گیا یا یوں کہ اب دوسرے راستے سے گھر جانا پڑے گا! یا اگر کوئی ممکنہ دوسرا راستہ گھر کو نہیں جاتا تو وہ ایسا تاثر دیتے ہیں جیسے وہ عذاب میں پھس گئے ہوں “یار یہ کیا! اب دس پندرہ منٹ اور انتظار کرنا پڑے گا چلو چائے پہتے ہیں پھر نکلے گے” ایسے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
گزشتہ ساڑھے چار سال میں اس شہر کے قریب پانچ ہزار کے قریب شہری ٹارگٹ کلینگ میں جان سے گئے گزشتہ ماہ یہ تعداد ڈھاسی سو کے لگ بھگ تھی یہ تعداد اس ہی عرصہ میں ڈرون حملوں میں مرنے والے ہم وطنوں سے ذیادہ ہے!
کراچی شہر میں ہونے والی قتل و غارت نے یہاں کے شہریوں پر ایک الگ طرح سے اثر کیا ہے۔ مجھے رہ رہ کر احساس ہوتا ہے کہ میرے شہر کے لوگ کس طرف جا رہے ہیں۔ ہم کس طرح کے ہوتے جا رہے ہیں! اور ڈر لگتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ابھی ہم میں جو کچھ “ہم” والا احساس ہے وہ ختم ہی نہ ہو جائے!

2/05/2013

سنسرسپ اور خاموشی!!

تخلیق کا کتنا تعلق سنسر شپ سے ہے؟ کیا سنسرشپ کسی عمدہ نظم، غزل، شعر، افسانے، کہانی، مضمون، گیت، تصویر، یا فنون لطیفہ کیسی اور شکل کی تخلیق کو وجود میں آنے سے روک سکتی ہے؟ میرا نہیں خیال ایسا ممکن ہو!
پابندی اظہار! اظہار کو تخلیق ہونے سے نہیں روک سکتی۔اظہار شکل بدل کر دوسرے راستے سے سامنے آ جاتا ہے! زبان پر پہرے سوچ کو پابند نہیں کرسکتے۔
ہاں اگر کوئی خود سے اپنے گرد ایک دائرہ بنا لے تو ممکن ہے کہ اُس کی تخلیق کی طاقت پرواز کی قوت سے محروم ہو جائے اور وہ کوئیں کا مینڈک ہو کر رہ جائے! مگر حکومت و معاشرے جب اظہار پر پابندی لگاتے ہیں تو تخلیق اہل سمجھ کو وہ دھچکا دیتی ہے جو سیدھی بات بھی نہیں دے سکتی.

2/02/2013

اردو بلاگر پھر اردو بلاگر ہے!!

یار لوگوں نے تو قسط وار کہانیاں شروع کر رکھی ہیں!لاہور میں ہونے والی اردو بلاگرز کے اجتماع عام پر!! اردو بلاگرز جنہوں نے اس میں شرکت کی وہ اس اجتماع کو کانفرنس کے نام سے یاد کرتے ہوں گے مگر ہم اسے ساتھی اردو بلاگرز سے ملاقات کا سبب یا بہانہ مانتے ہیں!
یہ کانفرنس ایشین کینڈین جرنلسٹس ایسوسی ایشن (ACJA) کے صدر محسن عباس صاحب نے کروائی تھی! یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ جنوری کی 26 اور 27 کو یہ کانفرنس منعقد ہوئی اور ٹھیک جب تمام اردو بلاگرز اپنے گھروں کو پہنچے ایشین کینڈین جرنلسٹس ایسوسی ایشن (ACJA) کی ویب سائیٹ انٹرنیٹ کی دنیا سے غائب ہو گئی!! البتہ ڈائیورسٹی رپورٹر یہ صفحہ ایشین کینڈین جرنلسٹس ایسوسی ایشن (ACJA) کے لئے مختص ہے!
اس کانفرنس یا اجتماع میں ہماری ملاقات چند عمدہ دوستوں سے ہوئی! اردو بلاگر جتنا نیٹ پر بے باک ہے اتنا ہی محفل میں ہو سکتا ہے یہ تاثر مکمل طور پر سچ نہ ثابت ہوا! م بلال م جتنی عمدہ اردو لکھتا ہے اتنا ہی اعلی بندہ ہے، نہایت مخلص و سادہ! مگر لہجہ میری طرح دیسی ہے! لاہور دیس میں بسے پردیسی صاحب لاہوریوں کی طرح بڑی دل اور عمدہ اخلاق والے بندے ہیں۔ شاکر عزیز کی شخصیت اُس کے بلاگ سے مختلف سنجیدہ لکھنے والا یہ شخص بظاہر نہایت ہنس مکھ بندہ ہیں، اس کی جھگتیں اس کے فیصلا آبادی ہونے کی دلیل دیتی ہیں! فیصل آباد سے دوسری آنے والی شخصیت جناب مصطفےٰ ملک تھے ہم ابتدا میں اُن کے سامنے ایسے پیش آنے کی کوشش کرتے رہے جیسے بچے بڑوں کے سامنے دبے دبے رہتے ہیں مگر وہ تو ہم سے ذیادہ زندہ دل و جواں نکلے! پھر کیا محفل لگی ہو گی آپ کو اندازہ ہوگا!! جس بندے کی شخصیت نے مجھے سب سے ذیادہ متاثر کیا وہ ریاض صاحب کی شخصیت تھی جسے گفتگو کا سلیقہ آتا ہے، دلیل سے بات دل میں اُتارنی آتی ہے۔ جو دوسرے کو سُن کر سمجھنا جانتا ہے! فخر نوید کے کیا کہنے بندہ اُس کی صحبت کو بھول نہیں سکتا یہ شخص واقعی ایسا ہے جس پر فخر کیا جا سکے اس سے دوستی کسی نوید سے کم نہیں۔ خرم ابن شبیر!!! کیا بات ہے اس بندے ہیں دل کا صاف آدمی اور محبت کرنے والا۔ کانفرنس میں موجود تین پپو بچو میں سے ایک یہ تھا باقی دو تو میں ایک نو وارد نعیم خان جن کا تعلق سوات سے ہے مگر رہتے وہ پشاور میں ہیں!اور دوسرے حسن معراج ڈان نیوز کے “خوب است خوب است” کرتے پائے گئے۔ زھیر چوھان ممکن ہے کئی دوستوں کو شرمیلا لگا ہو مگر یہ بندہ جس انداز میں مجھ سے آکر ملا دل باغ باغ ہو گیا! لگا ہی نہیں کہ پہلے ملاقات ہے یوں لگا جیسے ہم کئی بار مل چلے ہیں! حیرت تو مجھے محمد سعد سے پر ہوئی نیٹ پر جتنی بے تکلفی سے بات کرتا ہے اتنا ہے تعارف کروانے سے اجتناب کرتا محسوس ہوا ابتدا میں۔ بنیادی طور پر یہ بندہ ریکٹ لیٹ کرتا ہے جیسے ربورٹ نہیں کرتے! ویسے “مولبی ربورٹ” کہہ لیں! مجموعی طور پر ایک اچھے اخلاق کا مالک! عباس میاں کے کیا کہنے ایک دن ہی ہمارے ساتھ رہے مگر اپنی شخصیت کا اثر چھوڑ گئے اور جاتے جاتے اپنے دوستوں عبدالستاراور عاطف مرزا کو بھی لے گئے!!! راجہ اکرام یہ مکمل پاکستانی کسی بھی قسم کے خوف اور پریشانی سے پاک نظر آنے والا!! سادہ۔ ساجد امجد ساجد سے مل کر بھی اچھا لگا اور اُن سے ہمیں جو شکایتیں اردو وکیپیڈیا سے تھی یا ہیں بیان کر دیں۔ اس کے علاوہ مذثر لندی کوتل سے، جن کا لندی کوتل سے ہونا دوستو کے چہرے پر پر مسکراہت کی وجہ بنا اور محترم مسرت اللہ جان پشاور سے تھے ایک کھلے دل کے!! اور فرحت عباس شاہ صاحب کے بارے کون نہیں جانتا! خادم اعلی کے لئے نادم اعلی کا اصلاح استعمال کرنے والا کتنا بے باک بندہ ہو گا !مہتاب عزیز بھی اسلام آباد سے آنے والا ایک نہایت اچھا انسان ہے۔
آخر میں محسن صاحب جو اس کانفرنس کے اسپانسر بھی تھے اور میرے آبائی شہر لاہور کے!!
کانفرنس اردو بلاگرز کے لئے مجموعی طور پر اچھی رہی ہے اگر کسی کے اپنے مقاصد ہو تو ہوں مگر اردو بلاگرز کے مفاد میں جو اچھا ہو گا ہم اُسے اچھا کہیں گے! یہ کانفرنس اتنی اہم تھی کہ اس کے مخالف بھی اس میں خود کو اس میں شرکت سے نہ روک سکے! سو باتوں کی ایک بات اردو بلاگر پھر اردو بلاگر ہے جو اہنی دنیا آپ بناتے ہیں وہ اپنی قیمت نہیں لگاتے کیوں کہ وہ جانتے ہیں ہمارے انمول ہونے کی ایک نشانی یہ ہے کہ ہم اردو بلاگر ہیں! کوئی لاکھ کوشش کرے مگر ہم رضیہ نہیں ہیں بلکہ کچھ کے لئے “بلا” ہیں جو سچ کہنے کا “گُر” جانتے ہیں!!
باقی آپ سمجھ دار ہیں !!!
پہلے دن کی کاروائی کی کچھ ویڈیو جھلکیاں یہاں موجود ہیں!

1/18/2013

مقاصد ڈی چوک انقلاب؟

اکثر دوستوں کا خیال ہے کہ قادری کو آسان فرار مل گیا! انقلاب جس بند گلی تک جا پہنچا تھا وہاں ایسا راہ فرار ایک نعمت ہے مگر کیا یہ سچ ہے؟ کیا طاہر القادری اپنے مقصد کے حصول میں ناکام رہا ہے؟
اخباری اطلاعات بمعہ شوشل میڈیا کی افواہوں سمیت پاکستان واپسی سے لے کر انقلاب کے اختتام تک کے کُل اخراجات قریب تین ارب روپے پاکستانی تھے رقم ممکن ہے اتنی ذیادہ نہ ہو مگر سرمایہ گارکو کیا اُس کے سرمائے کا اجر ملا کیا؟
طاہر القادری نے اسلام آباد آنے والے لوگوں کو چار دن ایسے ڈیل کیا جیسے ایک پیر اپنے مریدوں کو ڈیل کرتا ہے اپنے ہُجرے سے ہی پیغام اور درس!بڑے دعوے کرنا اور اور کچھ بھی ایسا ہونا جو اپنے فائدہ کا ہو اُسےمعجزہ بتانا! آدھی تقریر میں آدھا کام ہو گیا جیسے دعوے۔ مقصد انقلاب نہیں تھا! انقلاب لانے والے حاکموں سے مکالمہ نہیں کرتے! انہیں باہر کی دنیا کو خطاب سنانے کی فکر نہیں ہوتی! انقلاب رہنماؤں کے مرہون منت نہیں آتا بلکہ عوام کی خواہشوں پر ہوتا ہے۔
ہمیں پہلے دن کی جناب کی تقریر سے شک ہوا کہ جناب ممکنہ طور پر نگران سیٹ اپ میں حصہ چاہتے ہیں! اب یہ جناب ہی چاہتے ہیں یا اُن کا سرمایہ کا یہ تو کنفرم نہیں مگر یہ گول ڈی-چوک پر لوگوں کو بیٹھا کر انہوں نے وقتی طور پر بظاہر حاصل کر لیا ہے! کہ معاہدے کی دوسری شرط یہ ہی ہے۔
The treasury benches in complete consensus with Pakistan Awami Tehreek (PAT) will propose namesof two honest and impartial persons for appointment as Caretaker Prime Minister.

لہذاجناب کا بنیادی مقصد حاصل ہوا اب دیکھنا یہ ہے کہ آگے کھیل کس طرف جاتا ہے؟

1/10/2013

تیری مرشد کی تو!!!!

گزشتہ دنوں ہم نے آپ سے سانجہ پیر کا ذکر کیا تھا!! آج لندنی ڈارون حملے میں حقائق کو نشانہ بنانے کے کاوش کی خبر ملی مگر حیرت نہیں ہوئی کہ ایسا کیا جانا ایک خاص قماش کے لوگوں کا وطیرہ ہے۔ِ
کیا آپ نے کبھی یہ نہیں دیکھا کہ جو جس پیر کامرید ہوتا ہے وہ نہ صرف اُس کی کرامات کا ذکر کرتا ہے بلکہ سامنے والے کو اپنے پیر کے اعلٰی مرتبے کا احساس دلانے کے لئے اکثر محفل میں بڑے لوگوں کا حوالہ دے کر احساس دلانے کی کوشش کرتا ہے کہ میرا پیر اتنا پہنچا ہوا ہے کہ فلاں فلاں بڑا آدمی بھی اُس کے ہاتھ پر بیعت کیئے ہوئے ہے اور اکثر اُس کے در پر حاضری دیتا ہے، مقصد یہ ہوتا ہے کہ شاید اُس بڑے آدمی کے مرید ہونے کی جھوٹی خبر سے ہی حاضرین محفل بیان کنندہ کے پیر کی عظمت کے قائل ہو جائے !!!
کوئی جا کر انہیں بتائیں کہ ہمارا “بڑا آدمی” (قائداعظم) تمہارے پیر کا مرید نہیں تھا بلکہ اُس نے اپنی قوم کو تمہارے پیروں کی بیعت سے بچانے کے لئے کامیاب جدوجہد کی تھی یہ تم جیسے ہیں جو ہمیں دوبارہ اُس کی جہالت کی طرف لے جانا چاہتے ہیں