لاہور کی ایک میں نماز ظہر کی فرض رکعاتیں کے بعد نمازی بقایا نماز کی ادائیگی کر رہے تھے کہ مسجد کےء باہر اچانک فائرنگ شروع ہو گئی! تمام نمازی جان بچانے کو مسجد میں لیٹ گئے۔ چند ایک راہ گیر جان بچانے کو مسجد کے اندر کو دوڑے۔ مگر ایک قریب چالیس سے اوپر عمر کا بندہ مکمل طور پر نماز کی ادائیگی میں مصروف رہا تمام افراد اُس کی اس حالت پر رشک کر رہے تھے کہ کیا اللہ کا بندہ ہے اس حالت میں بھی اپنی نماز میں مگن ہے!! جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو ایک بندے نے نہایت عقیدت سے دریافت کیا محترم کیا آپ کو معلوم ہے کہ مسجد سے باہر ابھی فائرنگ ہو رہی تھی!! نمازی نے مسکراتے ہوئے اطمینان بخش لہجے میں کہا جی ہاں! بندے نے بات آگے بڑھائی تو جناب ایسا کیا کہ آپ بلاخوف نماز میں مگن رہے!! وہ بولا “میں کراچی والا ہوں”.
فیس بک پر یہ لطیفہ کچھ دنوں سے گردش میں ہے جوبنیادی طور پر دو باتوں کی طرف اشارہ کرتا یا سے آگاہ کرتا ہے اول دین اور عبادات کی طرف ہمارا رجحان واجبی سا رہ گیا ہے دوئم کراچی کے لوگوں کی نفسیات کہ اب یہاں کے افراد ایسے حالات کے عادی ہوتے جا رہے ہیں ایسے کسی بھی واقعہ کے بارے اب عام سا رد عمل ظاہر کرتے ہیں یوں تو پوری قوم میں ہی اب احساس کا مرتا جا رہا ہے مگر چونکہ ہم کراچی شہر کے باسی ہیں اس لئے یہاں ہمیں اپنے اردگرد موجود دوستوں، ساتھیوں اور لوگوں کے احساسات و نفسیات ذیادہ متاثر کرتی ہے۔
اس شہر کا مزاج ایسا ہو گیا ہے کہ اگر کہیں کسی جگہ کوئی قتل ہو جائے یا بڑا حادثہ ہو جائے تو یار لوگ اُس پر افسوس چند سیکنڈ سے ذیادہ نہیں کرتے! بلکہ اگر ایسا واقعہ اُن کے گھر جانے کے راستے میں ہوا ہو تو وہ عموما اس پر غصہ کرتے ہیں کہ میں نے گھر جانا تھا اور یہ حادثہ پیش آ گیا یا یوں کہ اب دوسرے راستے سے گھر جانا پڑے گا! یا اگر کوئی ممکنہ دوسرا راستہ گھر کو نہیں جاتا تو وہ ایسا تاثر دیتے ہیں جیسے وہ عذاب میں پھس گئے ہوں “یار یہ کیا! اب دس پندرہ منٹ اور انتظار کرنا پڑے گا چلو چائے پہتے ہیں پھر نکلے گے” ایسے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
گزشتہ ساڑھے چار سال میں اس شہر کے قریب پانچ ہزار کے قریب شہری ٹارگٹ کلینگ میں جان سے گئے گزشتہ ماہ یہ تعداد ڈھاسی سو کے لگ بھگ تھی یہ تعداد اس ہی عرصہ میں ڈرون حملوں میں مرنے والے ہم وطنوں سے ذیادہ ہے!
کراچی شہر میں ہونے والی قتل و غارت نے یہاں کے شہریوں پر ایک الگ طرح سے اثر کیا ہے۔ مجھے رہ رہ کر احساس ہوتا ہے کہ میرے شہر کے لوگ کس طرف جا رہے ہیں۔ ہم کس طرح کے ہوتے جا رہے ہیں! اور ڈر لگتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ابھی ہم میں جو کچھ “ہم” والا احساس ہے وہ ختم ہی نہ ہو جائے!
4 تبصرے:
بالکل غلط ہے جناب، لاہور والے تو ایسے واقعات پر اسطرح امڈے چلے آتے ہیں جیسے ٹافی پر مکھیاں۔ کوئی لڑائی جھگڑا، مارکٹائی یا فائرنگ ہوجائے تو وہاں دو منٹوں میں لوگوں کی بھیڑ جمع ہوجاتی ہے۔ ریمنڈ ڈیوس والا واقعہ بھول گئے؟
بجا فرمایا لیکن کراچی والے اب اس صورتحال تک پہنچ چکے ہیں کہ جہاں بندہ یہ کہتا ہے کہ اگر گورکن ہر لاش پر آنسو بہانے بیٹھ جائے تو اندھا ہو جائے ۔ یہ دور بھی دیکھنا تھا۔ انگریز دور میں جب کسی علاقے میں اول تو قتل کی واردات ہوتی کم تھی لیکن اگر کہیں ہو جاتی تھی تو علاقہ ایس پی اس واردات کو تاج برطانیہ کی توہین سمجھ کر متعلقہ ایس ایچ او کو اس وقت تک جائے واردات پر رہنے کا حکم دیتا تھا بلکہ خود بھی تفتیش میں شامل ہو جاتا تھا جب تک کہ اصل قاتل پکڑے نہیں جاتے تھے یا پھر ان کا حتمی سراغ کا ثبوت نہیں مل جاتا تھا ۔ شاید ائیندہ الیکشن میں کوئی معجزہ ہو جائے ۔ لیکن امید ہے کہ دم توڑتی جا رہی ہے
کیا یہ کراچی اور پاکستان ایسے ہی چلتے رہیں گے؟
اللہ ہی رحم کرے کوئی ہم سے کچھ نہیں ہونے لگا
بجا فرمایا شعیب صاحب، کراچی کرچی کرچی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ حالات دگرگوں ہیں اور زندہ دلان کراچی اپنی خو نا چھوڑیں گے کے مصداق اس دہشت و خون کو بھی معمول کا حصہ بنا بیٹھے ہیں۔
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
کہتے ہیں اسطرح کے حالات میں رہنے سے انسانی نفسیات پر پی ٹی ایس ڈی کے اثرات ہو جاتے ہیں، شائد اسکی یہی سائنسی توجیح ہو۔ اللہ رحم کرے۔
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے
نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔