سنا ہے ایک دور تھا کہ جب کسی علاقے میں کوئی معصوم یا بے قصور مارا جاتا تھا تو ماحول ایسا افسردہ ہو جاتا تھا کہ کوئی ناواقف بھی محسوس کر لیتا تھا کہ کچھ بُرا ہو گیا ہے۔ ہم نے تو کبھی نہیں دیکھا مگر بزرگ تو یہاں تک بتاتے ہیں کہ آسمان پر لالی آ جاتی تھی اور ہواوں کے جکڑ چلا کرتے تھے۔ اور قریب کے دیہات کے رہائشیوں کو بھی ظلم ہونے کی خبر ہو جاتی تھی۔ ہم نے ایک ایسا ہی قصہ سنا کہ ایک عورت کو قتل کیا گیا تھا اُس کی لاش کئی دن کے بعد ملی اُس کی موت کا اندازہ لوگوں نے ایک ایسی سی آندھی کے گزرے دن سے منسوب کر کے کیا اور بعد میں پکڑے جانے والے قاتل نے بھی اقرار کیا کہ وہ ہی دن دراصل اُس کی بربریت کا دن تھا۔ اب یہ تو اللہ ہی جانتا ہے کہ آیا واقعی معصوم کے قتل پر ہواوں کے جکڑ چلا کرتے تھے یا قاتل ہی اُس دن جوش میں آجاتے تھے مگر جو حقیقت ہے وہ یہ کہ انسان کی زندگی کی درحقیقت بہت تھی انسان ہی کی نظر میں۔
اب کیا حال ہے؟ اب سب کو اپنی جان ہی صرف عزیز معلوم ہوتی ہے۔ گزشتہ کئی دنوں سے میڈیا پر آنے والی خود کش بمبار اور حملہ آوروں کی خبروں اور دیگر اس طرح کی خبروں پر عام افراد کے تبصرے نہایت حیرت انگیز ہیں۔
جیسے ایک مرتبہ ہم گلی میں لڑکوں کو کرکٹ کھیلتے دیکھ رہے تھے کہ ایک اور لڑکا جو ابھی گھر سے آیا تھا نےآتے ہی اپنے ساتھوں کو ایک خود کش حملے کی خبر سنائی۔
جو لڑکا بیٹنگ کر رہا تھا اُس نے پوچھا "کتنے مرے؟"
جواب آیا "27 ہیں اب تک کی خبروں کے مطابق"
تو اُن کا تبصرہ تھا " لگتا ہے آج نصف سینچری ہو جائے گی، چلو چھوڑو یار چلو آو کرکٹ کھیلوں ماجد یہ تمھاری ٹیم میں ہے اب دونوں ٹیمیں برابر ہو گئی ہیں اور تمہاری ٹیم کا کوئی بندہ دو باریاں نہیں لے گا" اور کرکٹ کا میچ شروع ہو گیا۔
یہ ایک ہی مثال نہیں ہے ایسی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں روز بروز ایسے حملوں پر ہمارا رد عمل واجبی سا ہوتا جارہا ہے ہم اپنے حکمرانوں پت تنقید کرتے ہیں کہ انہیں احساس ہی نہیں بس وہ ایک مذمتی بیان جاری کرنے سے ذیادہ کچھ نہیں کرتی مگر سچ تو یہ ہے کہ اب عام آدمی بھی اس کو المیہ سمجھنے کے بجائے صرف حادثہ سمجھنے لگ پڑے ہیں۔
یہ کیوں ہے؟ ہم شعور کی کس راہ پر گامزن ہیں یا کس سطح کے گمراہ؟
5 تبصرے:
ہاں بات سہی ہے ، مگر یہ بات بھی سہی ہے جب تک ہمارا کوئی بہت ہی پیارا اس دھشت گردی کا شکار نہیں ہوتا، ہمیں کسی بھی موت کا دکھ نہیں ہوتا ، رہی بات آندھی چلنے کی ، تو اللہ تو روز ہی زلزلے اور موسمی تغیر اور بیماریوں سے ہمیں متنبہ کر رہا ہے مگر شاید ۔ ۔ ۔ ہم بہت زیادہ پڑھ لکھ چکے ہیں اور ان سب باتوں کی سائنسی توجیہات تلاش کرتے ہیں مگر قدرت کی نشانی نہیں سمجھتے ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ ہم پر اپنا رحم کرے - آمین
آج سے چار دہائیاں پيچھے چلے جائیں تو صورتِ حال کچھ ایسی تھی کہ کسی بچے کے رونے کی آواز کان پڑے تو لوگ پریشان ہو کر دریافت کرتے کہ بچہ کیوں رو رہا ہے اور اسے چُپ کرانے کیلئے چل پڑتے ۔ جب کبھی لال آندھی اُٹھے یا زلزلے کے جھٹکے محسوس ہوں یا اچانک کوئی وباء پھیل جائے تو کہا جاتا تھا کہ یہ ہمارے کسی بڑے گناہ کا نتیجہ ہے اور لوگ اللہ سے معافي مانگنے لگ جاتے خواہ نماز بھی نہ پڑھتے ہوں ۔ اس تصوّر کے بعض اوقات اس کے شواہد بھی مل جاتے تھے ۔ اصول صرف اپنوں کے ظلم سے منسلک سمجھا جاتا تھا ۔ ویسے تو انگریزوں نے بہت ظلم کئے پھر ہندوؤں اور سکھوں نے بہت ظلم کئے ۔ لیکن یہ آندھی یا زلزلہ یا وباء کبھی کبھار ہی آتے تھے ۔
اسی طرح کا واقعہ تاریخ میں منقول ہے کہ عرب کے دور دراز علاقے میں ایک چرواہے کا بیٹا بھاگتا ہوا آیا اور باپ کو بتایا کہ بھیڑیئے نے ایک بھیڑ کو پھاڑ ڈالا اور وہ جان بچا کر بھاگ آیا ہے ۔ اس کا باپ رونے لگ گیا تو بیٹے نے کہا "بابا ۔ تیرا بیٹا بچ گیا تجھے خوشی نہیں ہوئی اور تو ایک بھیڑ کیلئے رو رہا ہے"۔ اس کا باپ بولا "میں اسلئے رو رہا ہوں کہ ہو نہ ہو آج امیر المؤمنین اس دنیا میں نہیں ہیں ورنہ بھیڑیئے کی مجال کہ بھیڑ کو پھاڑ کھائے"۔ تیرہ دن بعد یہ بات شہر تک پہنچی تو لوگوں نے حساب لگایا کہ واقعی خلیفہ عمر بن عبدالعزیر اسی صبح فوت ہوئے تھے جس دن بھیڑیئے نے بھیڑ کو کھایا تھا ۔ خلیفہ عمر بن عبدالعزیز پانچویں اور آخری خلیفہ راشد ہیں
دورِ حاضر میں تو اتنی نشانیاں آ رہی ہیں کہ گننا مشکل ہے مگر لوگ نہیں سمجھتے ۔ اللہ سے یقین اُٹھ چکا ہے اور سائنس ذرائع ابلاغ اور بڑی طاقتوں کو اپنا سب کچھ سمجھ لیا گیا ہے ۔ ان سے جو کچھ ملتا ہے وہ سامنے ہے
احساس۔۔۔۔ یہ سب پرانے وقتوں کی باتیں ہیں
شاید یہی وجہ ہے کہ اب رشتے بھی بے لوث نہیں رہے اور لوگ بہت زیادہ خودغرض ہو چکے ہیں۔
سلام علیکم
اتفاق سے ابھی چند دن پہلے، میرے ساتھ بھی ایسا ہی واقعہ ہوا، ابھی تک جس پر مجھے افسوس ہے۔ کہ قوم کدھر جا رہی ہے؟
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے
نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔