وہ بزرگ دفتر میں داخل ہوئے تو اُس وقت میں اور میرا دوست ایک کیس کے بارے میں آپس میں مختلف زاویوں سے تبادلہ خیال کر رہے تھے۔ انہیں کوٹ میں سے کسی نے ہماری طرف refer کیا تھا، ہم نے اُن سے اُن کے کیس کے بارے میں سوال کیا تو اُن کے کہانی سے معلوم ہوا کہ جوان بیٹے پر چار مختلف کیس بنے ہیں جن کی بناء پر وہ جیل میں ہے اور اُن کی پہلی خواہش اُس کی ضمانت کروانا ہے وہ بھی جلد از جلد۔ ہم نے اس سلسلے میں اُن کے بیٹے کے خلاف بننے والے کیسوں کی کاپیاں مانگی جو اُن کے پاس نہیں تھیں لہذا وہ لانے کا کہا جواب میں انہوں نے پوچھا کہاں سے ملیں گی؟
ہم نے اس سلسلے میں اُنہیں دو طریقے بتائے اول قانونی دوئم غیر قانونی (بمعہ رشوت)، یہ بھی وضاحت کردی کہ جناب قانونی طریقہ اول تو طویل ہے دوسرا کئی کاغذات کی کاپیاں نہیں مل سکے گی۔
بزرگ نے قانونی طریقے سے کاغذات نکالنے کو بہتر جانا۔اس کے بعد بات آگے بڑھی تو ہم نے اُن کے بیٹے کے کیس کی وہ تفصیلات جاننا چاہی جو ابتدائی طور پر ہمیں معاملات کو جاننے کے لئے درکار تھی۔
آخر میں جب وہ جانے لگے تو ہم نے ایک بار پھر اُنہیں تلقین کی کہ قانونی طور پر ہم درست راہ تب ہی متعین کر سکتے ہیں جب کیس کے کاغذات موجود ہوں لہذا آپ جلد از جلد اُن کا بندوبست کردیں۔ وہ جاتے جاتے رُک گئے اور دوبارہ بیٹھ گئے۔
کہنے لگے “آج کل کے یہ جو تم نوجوان ہو ناں تم لوگوں نے بہت مایوسی کیا ہم بوڑھوں کو، تم ہر آنے والے کو دونمبری کا طریقہ ہی بتاتے ہو یا یہ کہہ لو بھی بتاتے ہو؟”
ہم، میں اور میرے ساتھی، نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور نہ سمجھنے والے انداز میں دوبارہ اُن بزرگ کی طرف سوالیہ انداز میں دیکھنے لگے۔
اب اُن بزرگ نے باقاعدہ ایک کلاس (بے عزتی)لینے کے انداز میں معاشرے کی برائیوں کا تذکرہ کرنا شروع کیا اور اُس کا اصل محرک آج کے نوجوان کو بتایا، خاص کر سرکاری دفاتر (جن میں بلخصوص عدلیہ میں کلرک و پیشکار وغیرہ) میں موجود رشوت کلچر ہے، ابھی اُن بزرگ کی گفتگو(لیکچر) زور و شور سے جاری تھی کہ ہمارے دوست نے اُن سے الٹا سوال کر ڈالا کہ “آپ کی عمر کتنی ہے”
اول تو اس سوال پر سٹپٹا گئے پھر گویا ہوئے “72 سال”
پھر دوسرا سوال تھا”عدالتوں کے چکر میں کب سے پڑے؟”
کہنے لگے” کوئی لگ بھگ چار پانچ سال ہو گئے ہیں جب سے میرا چھوٹا بیٹا پکڑا گیا ہے”
ہمارے دوست نے کہا “انکل ابتدائی عمر کے بیس سال اور یہ پانچ سال کُل ہو گئے پچس سال، ان پچس سالوں کو اگر آپ کی عمر سے نکال دیا جائے تو کُل تقریبا 47 سال شعور کے آپ نے اس معاشرے کے درمیان گزارے ہیں، کیا اس دوران آپ نے کبھی کوئی احتجاج کیا؟ کوئی جلوس نکالا؟ کوئی تحریک نکالی؟ کوئی اور ایسی کوشش کہ یہ جو معاشرے میں مختلف بُرائیاں موجود ہیں یا جنم لے رہی ہیں اُس کو روکا جائے! کبھی کوئی بھوک ہرتال کی ہو پریس کلب میں؟ کیا آپ نے ایسا کیا؟”
بزرگ کا کہنا تھا “بھائی میں شریف آدمی ہوں ساری عمر خاموشی سے نوکری کی ہے۔ میری تو آدھی عمر تو آپریشن ٹھیٹر میں گزری ہے نوکری کی اور سیدھا گھر! مجھے کیا معلوم تھا معاشرے میں کیا ہو رہا ہے”
ہمارے دوسرے دوست جو اس گفتگو کے دوران آ گئے تھے مخاطب ہوئے “یہ ہی تو ! آپ نے کوئی کوشش نہیں کی ناں، اچھا یہ بتائے کہ آپ نے کتنے سال آپریشن ٹھیٹر میں گزرے”
بزرگ گویا ہوئے “کوئی 36 سال”
دوسرے دوست نے اب اُن سے کہا “ساری عمر آپ نے آپریشن ٹھیٹر میں گزار دی، میں خود شاہد ہوں، یہ اسپتال والے کسی کا بیٹا، کسی کا باپ، کسی کا شوہر، کسی کی بیٹی، ماں یا کوئی اور پیارا اگر مر جائے تو میت کو اُس وقت تک اُس کے ورثا کے حوالے نہیں کرتے جب تک کہ وہ ہسپتال کے تمام واجبات ادا نہیں کرتا، اور ایسے بل کئی مرتبہ لاکھوں میں بھی چلے جاتے ہے، اب وہ شخص اپنے پیارے کو دفن کرنے کا بندوبست کرے یا ہسپتال والوں کے بل اُتارنے کے لئے بھاگ ڈور کرے؟ کیا آپ نے وہاں کبھی اس پر آواز اُٹھائی؟”
بزرگ کچھ دیر خامو ش رہنے کے بعد گویا ہوئے “بھائی میں مزدور ، نوکر بندہ تھا کیا بولتا ایک نوکری تھی اگر وہ بھی چلی جاتی تو بھوکھا مرتا میں کون سا ڈاکٹر تھا کہ اپنا کلینک کھول کر بیٹھ جاتا”
دوست بولا “آپ اپنی مثال لے لیں ہر ایک جب خود پرپڑتی ہے تو ہی بولتا ہے ورنہ خاموش رہتا ہے، اس سے ہی بگاڑ پیدا ہوتا ہے، آپ بھی عدالتی معاملات میں خود پھنسے تو سب برائیاں نظر آنے لگی ورنہ سب اچھا تھا۔ وہ کیا ایک لطیفہ ہےکہ ایک سیاست دان ایک جلسے میں تقریر کررہا تھا کہ میں آپ سب کی تمام پریشانیاں دور کر دوں گا مگر آپ مجھ سے عوام کی بات مت کریں وہ تو بے وقوف ہے، جاہل ہے اور جلسے میں تمام حاضرین یہ سوچ کر تالیاں بجانے لگ پڑے کہ میں تو عوام نہیں یہ جو میرے دائیں بائیں ہیں یہ ہیں عوام۔”
بزرگ یہ کہتے ہوئے اُٹھ کھڑے ہوئے “یار تم لوگ تو مجھ بوڑھے پر ہی وکالت جھاڑنے لگ پڑے ہو، یہ کام عدالت میں کرنا، میں تمہیں کل پرسوں تمام کیسوں کے کاغذات لا دوں گا”
اور میں سوچ رہا تھا کہ یہ بھی سچ ہے شاید کہ ایک شریف آدمی دامن بچانے کے چکر میں پورے معاشرے کو گندہ کر دیتا ہے! یا نہیں ؟
16 تبصرے:
اٍنٹریسٹنگ ۔۔ اٍس کیس کے بارے میں مزید کیا ہوا وہ بھی جان نا چاہوگا ۔۔ آپ ضرور لکھیے گا
یہ مشکل ہے۔ یہ تو ہمیشہ راز رہتا ہے سائل و وکیل کے درمیان۔۔
عمدہ لکھا ہے آپ نے
بات تو دل کو لگتی ہے کہ خود ہم کسی برائی کے خلاف اس وقت تک نہیں بولتے جب تک ہم خود اس سے متاثر نہیں ہوتے
بہت عمدہ۔۔۔
جناب ۔ میری عمر بھی 72 سال ہے جس میں سے میں نے 30 سال سرکاری ملازمت میں گذارے ہیں ۔ یہ 30 سال میں نے بُرائی اور غیرقانونی احکامات کے خلاف عمل اور ہر قسم کے احتجاج میں گذارے ۔ ایسے مواقع بھی آئے کے مجھے مزا چکھانے کی بھرپور کوشش کی گئی ۔ ان 30 سالوں میں کم از کم 10 سال "اب مرا اور اب مرا" کے مصداق گذرے ۔ صرف اللہ ہی نے بچائے رکھا ۔ مالی اور ذہنی تکالیف بہت اُٹھائیں ۔ بجائے اس کے کہ کوئی میرا ساتھ دیتا سب مجھے بیوقوف کہتے اور کمال تو یہ تھا کہ جو لوگ میرے ساتھ خود انہی برائیوں کا رونا روتے تھے وہی میرے خلاف افسرانِ بالا کو من گھڑت کہانیاں سناتے تھے اور ترقیاں پاتے تھے ۔ آخر تنگ آ کر میں نے پونے 52 سال کی عمر میں ریٹارمنٹ کیلئے درخواست دے دی ۔ رہا معاشرہ تو وہ درست ہونے کی بجائے پہلے سے زیادہ خراب ہوا ۔ میں تو افسر تھا اور جب میں نے ریٹائرمنٹ مانگی اس وقت میں گریڈ 20 کے میکسیمم پر تھا ۔ وہ بیچارہ چھوٹا سا ملازم کیا کرتا
میں نے پوری 72 سالہ زندگی میں صرف دو تحاریک کامیاب ہوتے دیکھی ہیں ۔ ایک ۔ تحریکِ پاکستان ۔ اور دوسری ججوں کی بحالی کی ۔ دوسری تحریک کو کامیابی کا سہرا مسلم لیگ نواز بلکہ یوں کہیئے کہ اہالیانِ لاہور نے پہنایا
وکیل صاحب
ہمارے معاشرے کی انہی رویوں کی وجہ سے ہی تو پورا پاکستان تنزلی اور بحرانوں کا شکار ہے۔ ہم لوگ اس وقت شور کرتے ہیں جب کوئی ہماری دم پرپاؤں رکھے۔ ہمارے ارد گرد کے دیگر افراد اگر کسی مصیبت سے دوچار ہوں تو ہم چپ چاپ ڈیک بجاتے رہتے ہیں، گڈیاں اڑاتے رہتے ہیں۔ ہمارا کوئی جاننے والا اگر کسی جرم میں اندر ہو جاتا ہے تو ہم ہر ممکن درست یا غلط کوشش کر کے اس چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے عزیز کو تو سزا نہ ملے لیکن جب کوئی ایسا جرم کرے جس کا اثر ہم پر بھی پڑے تو اسے ضرور سزا ملے۔ جب تک ہم اس نقطہ نظر کو درست نہیں کریں گے ہمارا معاشرہ ٹھیک نہیں ہو گا۔
آپ نے عوامی عدالت میں ایک اچھا کیس پیش کیا ہے۔ امید ہے پڑھنے والے ضرور اس سے معاشی بگاڑ کی وجہ جان جائیں گے۔
ایک شریف آدمی کی تو آپنے کلاس لے ڈالی پر اپنی وکلاء برادری کے سیاہ کارناموں کے بارے میں کچھ نہیں بتاتے ہیں یہ کوئی انصاف تو نہ ہوا،
چلیں آج میں ایک وکیل کا سچا واقعہ بتاتا ہوں ،مہر آپی نے بچوں کے یونیورسٹی پہنچنے کے بعدانہیں پاکستان شفٹ کیا تو ذاتی گھر نہ ہونے کی وجہ سے ایک فلیٹ کرائے پر لیا جس کا مالک ایک کشمیری پنجابی وکیل تھا اور عدلیہ کی آذادی کی تحریک میں گڈے گوٹوں دھنسا ہوا بھی تھا ،اس نے صاف کہ دیا کہ گھر میں آپ اپنی سہولت کے لیئے جو بھی کروائیں گے میں ایک پیسہ بھی ادا نہین کروں گا انہوں نے وہاں کافی پیسہ خرچ کر کے جالیاں مچھروں سے بچاؤ کی دینگی وائرس کے خدشے کی وجہ سے لگوائیں اور بھی کافی کام کروائے اور اس گھر کو بلکل ایسے ہی رکھا جیسے کوئی اپنے گھر کو رکھتا ہے،کرایہ بھی وہ لاٹ صاحب لینے نہیں آتا تھا بلکہ اس کے آفس کی سیڑھیاں چڑھ کر جوکہ تیسری چوتھی منزل پر ہے اسے وہاں پہنچایا جاتا رہا ہر سال وہ کرایہ میں بھی اضافہ کرتا رہا یہ سلسلہ ڈھائی سال چلا اب جب مہر آپی نے وہاں سے شفٹ ہونا چاہا اور اس سے ایڈوانس واپس مانگا ،اس نے فلیٹ اکر دیکھا اور اسے گھر میں کوئی خرابی نہ ملی سوائی ایک کھڑکی کا شیشہ ٹوٹنے کے جو وہ بدلوا کر دینے کو تیار ہیں تو کہتا ہے کہ کیونکہ مینے آپکو اپنا بلکل نیا گھر دیا تھا اور قانون یہ ہے کہ اگر کوئی کرایہ دار نیا گھر پانچ سال سے پہلے خالی کرے تو وہ پینٹ خود کروا کر واپس کرے گا اور مینے گیارہ ہزار میں پینٹ کروایا تھا اور اب میں اپنے بندے سے معلوم کر کے آپکو بتاؤں گا کہ اب کتنے میں پینٹ ہوگا اور اتنے پیسے میں ایڈوانس میں سے کاٹ لوں گا،آپی نے اپنے جاننے والے ایک وکیل سے معلومات کیں تو انہون نے بتایا کہ ایسا کوئی قانون نہیں ہے یہ جھوٹ بول رہا ہے ہاں اگر تم نے کوئی ایسا ایگریمینٹ کیا ہے تو الگ بات ہے اور انہوں نے ایسا کوئی ایگریمینٹ نہیں کیا ہے خیر رفع شر کے لیئے آپی نے ایک اور بندے سے پینٹ کے حوالے سے معلوم کیا تو اس نے کہا کہ چار ساڑھے چار ہزار میں پورے گھر کا پینٹ ہوجائے گا،اب صورت حال یہ ہے کہ ابھی تک اس نے ایڈوانس کا ایک پیسہ بھی واپس نہیں کیا ہے اور پرسوں یعنی 3 نومبر کو جناب نے یوم سیاہ بھی منایا اور اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور دبا کر نعرے بازی بھی کی !
http://www.jang-group.com/jang/nov2009-daily/05-11-2009/col2.htm
السلام علیکم۔
جو شخص ساری عمر برائی ہوتے ہوئے دیکھتا ہے اور اسے دور کرنے کے لیے کبھی اپنی طرف سے تھوڑی سی بھی کوشش نہیں کرتا، وہ شریف آدمی تو نہ ہوا۔
شعیب صاحب دلچسپ لکھا ہے اور یہ درست ہے کہ جب تک ہم اپنے معاشرے میں پھیلی برائیوں کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہوں گے ان کی اصلاح بھی ممکن نہیں۔ ہر شخص کی نظر میں اس کا ہر عمل جائز ہے اور معاملہ یہ ہے کہ معاشرہ مکمل طور پر اخلاقی پستی کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے اب دیکھیں کب ہم اپنی خرابیوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر ماننے کے لیے تیار ہوتے ہیں تاکہ ان کی اصلاح کا عمل شروع ہوسکے
محمد سعد آپنے تو سارے شریفوں کو کرمنل بتادیا بھائی شریف آدمی بزدل بھی ہوتا ہے اس لیئے وہ اپنی شرافت بچانے کے لیئے پتلی گلی سے نکل لیتا ہے ہاں مومن کسی سے نہیں ڈرتا مگر وہ اب اس معاشرے میں خال خال ہی رہ گئے ہیں اللہ ہم سب کو مومن بننے کی توفیق عطا فرمائے آمین
راشد میری بات کی اپنے انداز میں تائید کرنے کا شکریہ!:)
اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ صاحب جن کا مینے اوپر ذکر کیا ہے، لائرز ایسوسی ایشن میں ایک اہم عہدہ بھی رکھتے ہیں!
عبداللہ جو بھی غلط کام کرے وہ غلط ہی ہے۔ کسی بھی شخص کے ایک عمل سے اُس شخص کو تو برا کہا جا سکتا ہے پوری برادری کو نہیں۔
ہر سال کرایہ بڑھانے کا قانون تو ہے باقی رنگ والا معاملہ وہ ہی ہے جو دوسرے وکیل نے بتایا۔
کرایہ وہ خود آکر لے کر جائے یا آپ جا کر دے کر آئے اس میں اعتراض والی یا شکایت والی تو کوئی بات نہیں۔ دونوں صورتوں میں یہ فرض ہے۔
اگر اس بات پر دونوں راضی تھے کہ اپنی مرضی سے جو ترمیم یا اضافی کیا جائے وہ فلاں پارٹی کی ذمہ داری ہو گی تو بھی اعتراض نہیں بنتا۔
کیا یہ قصہ کراچی کا ہے؟ اگر ہاں تو ممکن ہے کہ میں آپ کی مدد کر سکو مگر صرف اُس صورت میں جب آپ نے کسی بھی قسم کا زبانی و تحریری شکل میں معاملات کو پہلے سے طے نہیں کیا تھآ۔
شعیب ان صاحب کو ایک عدد ایگریمینٹ تیار کر کے دیا گیا تھاان کے دستخط کے لیئے جو ان جناب نے یہ کہ کر رکھ لیا کہ میں اس سے مطمئن ہوں اور دستخط کر کے آپکو اس کی ایک کاپی دے دوں گا مگر ڈھائی سال تک نہ تو اس بندے نے دستخط کیئے اور نہ ہی ایگریمینٹ کی کاپی دی ہر بار بہانے بنا کر ٹالدیتا تھا،
میرا تفصیل بتانے کا یہی مقصد تھا کہ اس کی ہر بات کو مانا گیا اس پر ان جناب کی فرعونیت کا یہ حال ہے اور صرف اس لیئے کہ وہ ایک عدد وکیل ہیں بقول ان کے کہ وہ ہم سے ذیادہ قانون جانتے ہیں اور ان سے پنگا لے کر بندہ مال اور عزت دونوں ہی سے جائے!
باقی اپکا اوپر دیا گیا فارمولہ تو بلکل ٹھیک ہے مگرافسوس کہ آپ لوگ اسے سب پر اپلائی نہیں کرتے صرف اپنے بات میں وزن پیدا کرنے کے لیئے اس کا استعمال ہو تا ہے اور بس!
آپکی پیشکش کابہت بہت شکریہ!
میں مہر آپی سے بات کروں گا اگر معاملہ خوش اسلوبی سے نہ نپٹا تو پھر دیکھیں کیا کرتے ہیں حالانکہ ان کے میاں صاحب تو یہی کہ رہے ہیں کہ اگر وہ پینٹ کے زمرے میں پانچزار رکھ کر باقی واپس کردے تو تم اسے اپنا اور بچوں کی جان کا صدقہ سمجھ کر دے دو اور اس مصیبت سے اپنی جان چھڑاؤ،
اگر اس فرعون وکیل کی ایک عدد ٹھکای ہو جاے تو کیسا رہے گا ؟؟؟
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے
نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔