Pages

11/15/2025

تین دوست لاء فرم سے عدلیہ تک

 آفریدی، شاہ اینڈ من اللہ‘‘ وہ  لا فرم  جس کے تین پارٹنر پشاور، لاہور اور اسلام آباد میں اپنے اپنے ہنر کا سکہ منواتے تھے۔ قسمت نے ایسی کروٹ لی کہ تینوں پہلے ہائی کورٹ کے جج بنے، پھر سپریم کورٹ تک جا پہنچے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے دو شاہ اور اللہ عہدے سے سبکدوشی کا راستہ اختیار کر چکے ہیں، جبکہ تیسرے ساتھی آفریدی، اس وقت ملک کے چیف جسٹس ہیں۔ جن کا وزیراعظم نے موجودہ ترمیم کے سلسلے میں شکریہ بھی ادا کیا ہے۔

اصل نام تو ظاہر ہے آپ کے ذہن میں پہلے ہی موجود ہوں گے۔


بس نجانے کیوں اس موقع پر فلم تھری ایڈیٹس کا راجو یاد آ رہا ہے اس نے کہا تھا:

“جب دوست فیل ہوتا ہے تو دکھ ہوتا ہے… لیکن جب دوست ٹاپ کرتا ہے تو اور زیادہ دکھ ہوتا ہے!”


نوٹ: اب یہ فرم نہیں رہی کیونکہ یہ Zia & Shah Legal Consultants بن گئی تھی۔

ویسے اگر پرانی فرم کے ناموں کی ترتیب مختلف ہوتی جیسے من اللہ یا شاہ کا نام شروع میں ہوتا تو کیا وہ چیف جسٹس ہوتا؟


9/09/2025

اسرائیل، قطر و حماس

 


​قطر سمیت مشرقِ وسطیٰ کے بیشتر ممالک نے اپنی حفاظت کی ذمہ داری امریکہ کے کاندھوں پر ڈال رکھی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں موجود تقریباً پچاس ہزار امریکی فوجیوں میں سے دس ہزار کے قریب قطر میں تعینات ہیں۔ اس ضمن میں قطر سالانہ تقریباً تین سو ملین ڈالر کے اخراجات برداشت کرتا ہے، اور یہ رقم دیگر دفاعی معاہدوں، جن کی مالیت 38 ارب ڈالر ہے، کے علاوہ ہے۔

​آج کا اسرائیلی حملہ قطر اور دیگر خلیجی ممالک کی اس تلخ حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ کرائے کا محافظ صرف اپنی اجرت تک ہی وفادار رہتا ہے۔ کسی ملک، ملت اور اس کی عزت و ناموس کی حفاظت اس کا مقصد نہیں ہوتی۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ 

"جنديٌّ بالأجرة لا يموت في سبيلك"

"کرائے کا سپاہی تمہاری خاطر جان نہیں دیتا"۔

​اگر یہ حملہ قطر کی مرضی سے ہوا تھا، تو اس کا مطلب ہے کہ قطر اپنی خودمختاری گروی رکھ چکا ہے۔ اس ہزیمت کا احساس بحیثیت پاکستانی ہم تب محسوس کر چکے ہیں جب امریکہ اسامہ بن لادن کے تعاقب میں ایبٹ آباد تک آ پہنچا تھا۔ اور اگر یہ حملہ قطر کی مرضی کے بغیر صرف امریکہ کی آشیرباد سے ہوا ہے، تو اہلِ قطر اور دیگر ممالک جہاں امریکی فوج "تحفظ" کے نام پر موجود ہے، انہیں سوچنا چاہیے کہ وہ محفوظ ہیں یا قید؟ اور حفاظت کے نام پر وہ کب تک مقید رہنا چاہتے ہیں؟


9/02/2025

شکاری

 


شکاری کو محافظ سمجھنا سب سے بڑی نادانی ہے؛ وہ آپ پر قربان نہیں جاتا، بلکہ آپ کو قربان کر جاتا ہے۔

دیر یا انکار؟

 

کوئی کہتا ہے کہ دیر سویر تو ہوتی رہتی ہے، انکار نہیں ہونا چاہیے، دیر آید درست آید۔ اس کے برعکس ایک وکیل کہتا ہے کہ اگر دیر ہو گئی تو پھر کوئی فائدہ نہیں، کیونکہ 'انصاف میں تاخیر، انصاف کا قتل ہے۔' یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی بات کا اثر اُس کے سیاق و سباق سے ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ وقت اور موقع کی اہمیت اپنی جگہ ہے۔

​مثال کے طور پر، اگر ایک ڈاکٹر مریض سے کہے کہ 'آپ نے دیر کر دی'، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا، یعنی علاج سے انکار ہو گیا اور یہ انکار دیر کی وجہ سے ہوا۔ اسی طرح، اگر آپ کی ٹرین یا گاڑی نکل جائے، تو سفر تو نہیں رکتا اور نہ منزل کا فاصلہ بڑھتا ہے، بس آپ کا وقت بڑھ جاتا ہے۔ اب اگلی سواری پر مزید فاصلہ طے ہو گا، اور اگلی سواری ملنے میں دیر لگے گی۔ یہ انتظار ہے، انکار نہیں۔

8/30/2025

آسمان سے برستا پانی

 بارش سیلاب لاتی ہے تو ہریالی بھی لاتی ہے۔ مگر یہ اس پر منحصر ہے کہ بارش کس زمین پر برسی ہے۔ جب زمین نم ہوتی ہے تو اس کی زرخیزی کا در کھل جاتا ہے۔ پکی زمینیں، جن پر پتھر یا پکے مکانات ہوں، پانی میں ڈوب کر تباہ ہو جاتی ہیں لیکن جہاں پانی کو زمین میں جذب ہونے کا راستہ ملے، وہاں سے ہریالی پھوٹتی ہے اور ایک خوشگوار و دلکش منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔ تھر کے ریتیلے پہاڑ اس کی بہترین مثال ہیں جنہوں نے آسمان سے برسنے والے پانی کے بعد ایک سبز قالین بچھا لیا ہے۔ یہ مناظر تھر کی چند روز قبل کی واپسی پر بنائی گئی ایک چند سیکنڈ کی ویڈیو سے لیے گئے ہیں۔