Pages

9/02/2025

دیر یا انکار؟

 

کوئی کہتا ہے کہ دیر سویر تو ہوتی رہتی ہے، انکار نہیں ہونا چاہیے، دیر آید درست آید۔ اس کے برعکس ایک وکیل کہتا ہے کہ اگر دیر ہو گئی تو پھر کوئی فائدہ نہیں، کیونکہ 'انصاف میں تاخیر، انصاف کا قتل ہے۔' یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی بات کا اثر اُس کے سیاق و سباق سے ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ وقت اور موقع کی اہمیت اپنی جگہ ہے۔

​مثال کے طور پر، اگر ایک ڈاکٹر مریض سے کہے کہ 'آپ نے دیر کر دی'، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا، یعنی علاج سے انکار ہو گیا اور یہ انکار دیر کی وجہ سے ہوا۔ اسی طرح، اگر آپ کی ٹرین یا گاڑی نکل جائے، تو سفر تو نہیں رکتا اور نہ منزل کا فاصلہ بڑھتا ہے، بس آپ کا وقت بڑھ جاتا ہے۔ اب اگلی سواری پر مزید فاصلہ طے ہو گا، اور اگلی سواری ملنے میں دیر لگے گی۔ یہ انتظار ہے، انکار نہیں۔

8/30/2025

آسمان سے برستا پانی

 بارش سیلاب لاتی ہے تو ہریالی بھی لاتی ہے۔ مگر یہ اس پر منحصر ہے کہ بارش کس زمین پر برسی ہے۔ جب زمین نم ہوتی ہے تو اس کی زرخیزی کا در کھل جاتا ہے۔ پکی زمینیں، جن پر پتھر یا پکے مکانات ہوں، پانی میں ڈوب کر تباہ ہو جاتی ہیں لیکن جہاں پانی کو زمین میں جذب ہونے کا راستہ ملے، وہاں سے ہریالی پھوٹتی ہے اور ایک خوشگوار و دلکش منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔ تھر کے ریتیلے پہاڑ اس کی بہترین مثال ہیں جنہوں نے آسمان سے برسنے والے پانی کے بعد ایک سبز قالین بچھا لیا ہے۔ یہ مناظر تھر کی چند روز قبل کی واپسی پر بنائی گئی ایک چند سیکنڈ کی ویڈیو سے لیے گئے ہیں۔


8/24/2025

میٹرک کے دوستوں کے ساتھ ایک بیٹھک


لڑکپن کی یاری اور جوانی کا پیار—دونوں ساری عمر نہیں بھولتے، یہ ہم نے ہمیشہ سنا ہے۔ جوانی میں تو کبھی پیار نہ ہوا، البتہ لڑکپن کے دوست آج بھی رابطے میں ہیں، اور ایک آدھ سال بعد بیٹھک بھی ہو جاتی ہے۔



اسکول اور کالج کی دوستی کی سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ اُس وقت کا تعلق ہوتا ہے جب زندگی کی جدوجہد ابھی شروع نہیں ہوئی ہوتی، اور نہ ہی دنیاداری کا کوئی خاص علم یا فہم ہوتا ہے۔ اسی لیے یہ رشتہ خالص اور اصل ہوتا ہے، بے غرضی کا۔


اُس دور کے دوست آج زندگی کے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ ہیں—انگریزی میں کہیں تو بالکل "Diversified"۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اُس وقت کا دوست صرف دوست ہوتا ہے: نہ کامیاب نہ ناکام، نہ اچھا نہ برا۔ اُسے پرکھا نہیں جاتا، آزمایا نہیں جاتا، بس دل میں سنبھال کر رکھا جاتا ہے۔

8/21/2025

سیاست، عدالت اور تضاد

 جو لوگ پہلے سپریم کورٹ کو 'اسٹیبلشمنٹ کی عدالت' قرار دیتے تھے، وہی آج اپنے حق میں فیصلہ آنے پر اسے کسی ڈیل کا نتیجہ نہیں سمجھتے۔ یہی نہیں، وہ بیرسٹر گوہر کے اس بیان کو بھی کسی ڈیل کا حصہ ماننے کو تیار نہیں، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ: ”ہم فرشتے نہیں، 9 مئی ایک غلطی تھی جس کی ہم سب نے مذمت کی۔“ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہی لوگ جب آئی ایس پی آر کے اس بیان پر کہ سید نے وڑائچ کو کوئی انٹرویو نہیں دیا پر سینہ تان کر کہتے ہیں کہ ”دیکھا! ہمارا کپتان نہیں مانا۔“ وہ خود کو سچا اور مکمل سچائی پر یقین رکھنے والا سمجھتے ہیں۔

​ہم نے دیکھا ہے کہ فوجداری مقدمات میں، چاہے وہ ضلعی عدالت میں ہوں یا انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں، جب مدعی فریق اپنا بیان تبدیل کرتا ہے تو وہ عموماً دو میں سے ایک ہی بات کرتا ہے: یا تو یہ کہ ”یہ مجرم نہیں“ یا پھر یہ کہ ”ہم نے اللہ کی رضا کی خاطر معاف کیا“۔ حالانکہ حقیقت میں سب جانتے ہیں کہ ایک ڈیل ہو چکی ہوتی ہے، مگر اس حقیقت سے انکار کی اداکاری کی جاتی ہے اور جان بوجھ کر انجان بنا جاتا ہے۔ نہیں نہیں یہ نہیں کہا جا رہا کہ یہاں ایسا ہوا ہے۔ 

​ وڑائچ صاحب ایک قدآور صحافی ہیں، انہیں مزید شہرت کا کوئی لالچ نہیں ہونا چاہیے۔ اور نیازی صاحب ابھی تک باہر نہیں آئے، وہ آنا چاہتے ہیں مگر جن پر انہیں باہر لانے کی ذمہ داری ہے وہ لانا نہیں چاہتے شاید، وہ بونے اپنا قد لمبا ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ باقی جو لوگ اقتدار میں ہیں، ان کے بارے میں بس اتنا کہنا کافی ہے کہ:

​Power is, and will remain, in the hands of the powerful, who ultimately decide who will be its next inheritor.

​جو ٹھہرے ہیں تو شاید دل میں کچھ ہے

جو چل پڑیں گے تو یہ بھی نہ ہوگا



8/20/2025

برسات کے کیڑے

 "برسات کا یہ کیڑا، جو دیمک سے دیملی بنتا ہے، شاید یہ گمان کرتا ہے کہ اندھیروں میں لکڑیاں چاٹ کر بہت جی لیا… اب پر نکل آئے ہیں تو کیوں نہ پروانے کہلائیں، اور شمع پر نثار ہو کر اپنے انجام کو امر کر جائیں!"


کتنے پروانے جلے راز یہ پانے کےلیے
شمع جلنے کے لئیے ہے یا جلانے کے