Pages

8/21/2025

سیاست، عدالت اور تضاد

 جو لوگ پہلے سپریم کورٹ کو 'اسٹیبلشمنٹ کی عدالت' قرار دیتے تھے، وہی آج اپنے حق میں فیصلہ آنے پر اسے کسی ڈیل کا نتیجہ نہیں سمجھتے۔ یہی نہیں، وہ بیرسٹر گوہر کے اس بیان کو بھی کسی ڈیل کا حصہ ماننے کو تیار نہیں، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ: ”ہم فرشتے نہیں، 9 مئی ایک غلطی تھی جس کی ہم سب نے مذمت کی۔“ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہی لوگ جب آئی ایس پی آر کے اس بیان پر کہ سید نے وڑائچ کو کوئی انٹرویو نہیں دیا پر سینہ تان کر کہتے ہیں کہ ”دیکھا! ہمارا کپتان نہیں مانا۔“ وہ خود کو سچا اور مکمل سچائی پر یقین رکھنے والا سمجھتے ہیں۔

​ہم نے دیکھا ہے کہ فوجداری مقدمات میں، چاہے وہ ضلعی عدالت میں ہوں یا انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں، جب مدعی فریق اپنا بیان تبدیل کرتا ہے تو وہ عموماً دو میں سے ایک ہی بات کرتا ہے: یا تو یہ کہ ”یہ مجرم نہیں“ یا پھر یہ کہ ”ہم نے اللہ کی رضا کی خاطر معاف کیا“۔ حالانکہ حقیقت میں سب جانتے ہیں کہ ایک ڈیل ہو چکی ہوتی ہے، مگر اس حقیقت سے انکار کی اداکاری کی جاتی ہے اور جان بوجھ کر انجان بنا جاتا ہے۔ نہیں نہیں یہ نہیں کہا جا رہا کہ یہاں ایسا ہوا ہے۔ 

​ وڑائچ صاحب ایک قدآور صحافی ہیں، انہیں مزید شہرت کا کوئی لالچ نہیں ہونا چاہیے۔ اور نیازی صاحب ابھی تک باہر نہیں آئے، وہ آنا چاہتے ہیں مگر جن پر انہیں باہر لانے کی ذمہ داری ہے وہ لانا نہیں چاہتے شاید، وہ بونے اپنا قد لمبا ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ باقی جو لوگ اقتدار میں ہیں، ان کے بارے میں بس اتنا کہنا کافی ہے کہ:

​Power is, and will remain, in the hands of the powerful, who ultimately decide who will be its next inheritor.

​جو ٹھہرے ہیں تو شاید دل میں کچھ ہے

جو چل پڑیں گے تو یہ بھی نہ ہوگا



5/17/2022

فیصلہ

عدالتیں سائلین کی مرضی کے فیصلے کرنے کو نہیں بلکہ جو انہیں عین انصاف لگے اپنی قانونی سمجھ بوجھ کے تحت آزادانہ فیصلے دینے کو ہیں۔ 
 جج کی مرضی و خواہش ممکن ہے کبھی انصاف کے متضاد ہو مگر وہ پابند ہے کہ قانون و حقائق (جو عدالت کے سامنے ہوں) کے مطابق فیصلہ دے۔ تاریخ بہت ظالم ہے یہ آگاہ کر دیتی ہے کون سا فیصلہ انصاف کے مطابق تھا اور کون سا خواہش کے زیر اثر۔ یوں پردہ فاش ہوتا ہے کون سا منصف ایماندار تھا اور کون سا قاضی بے ایمان۔ 
کسی سائل کا فیصلے کو ناانصافی کہنا اسے غلط فیصلہ نہیں بناتا۔

5/12/2019

1965 کے صدرارتی انتخابات


وہ تاریخ جو آپ کو مطالہ پاکستان کی کورس کی کتابوں میں نہیں ملے گی


تاریخ می کئی چہروں پر ایسا غلاف چڑھا رکھاہے کہ اب انکی تعریف کرنی پڑتی ہے اور ان کا ماضی ہمیں بھولنا پڑتا ہے ایسےکئی کردار صدارتی الیکشن 1965 کے ہیں جن پر اب کوئی بات بھی نہیں کرتا اور نہ انکے بارے میں کچھ لکھا جاتا ہے یہ پہلا الیکشن تھا جس میں بیورکریسی اور فوج نے ملکر دھاندلی کی۔
1965کے صدارتی الیکشن میں پہلی دھاندلی خود ایوب خان نےکی پہلے الیکشن بالغ رائے دہی کی بنیاد پر کرانے کا اعلان کیا ۔یہ اعلان 9اکتوبر1964کوہوا مگر فاطمہ جناح کے امیدوار بنے کے بعد یہ اعلان انفرادی رائے ٹھہرا اور ذمہ داری حبیب اللّہ خان پرڈالی گئی یہ پہلی پری پول دھاندلی تھی۔
1964 میں کابینہ اجلاس کے موقع پروزراء نے خوشامد کی انتہا کی حبیب خان نے فاطمہ جناح کو اغواء کرنے کی تجویز دی وحیدخان نے جووزیراطلاعات اورکنویشن لیگ کے جنرل سیکرٹری تھے تجویزدی کہ ایوب کو تاحیات صدر قرار دینے کی ترمیم کی جائے بھٹونے مس جناح کو ضدی بڑھیا کہا اگرچہ یہ تمام تجاویز مسترد ہوئیں۔ ایوب خان نے الیکشن تین طریقوں سے لڑنےکا فیصلہ کیا۔
پہلامذھبی سطح پر،انچارج ، پیرآف دیول تھے جنہوں نے مس جناح کےخلاف فتوےديئے
دوسری انتظامی سطح پرسرکاری ملازم ایوب کی مہم چلاتے رھے
تیسری عدالتی سطح پرمس جناح کےحامیوں پرجھوٹےمقدمات درج ہوئےعدالتوں سے انکے خلاف فیصلے لئے گئے۔
سندھ کے تمام جاگیردار گھرانے ایوب کےساتھ تھے۔بھٹو،جتوئی،۔محمدخان جونیجو،ٹھٹھہ کےشیرازی،خان گڑھ کے مہر،۔نواب شاہ کےسادات،بھرچونڈی،رانی پور،ہالا،کےپیران کرام ایوب خان کےساتھی تھے۔جی ایم سید ، حیدرآباد کےتالپوربرادران اور بدین کے فاضل راہو مس جناح کے حامی تھے یہی لوگ غدار تھے ۔
پنجاب کے تمام سجادہ نشین سوائے پیرمکھڈ صفی الدین کوچھوڑکر باقی سب ایوب خان کے ساتھی تھے۔سیال شریف کےپیروں نے فاطمہ جناح کےخلاف فتوی دیا پیرآف دیول نے داتادربار پر مراقبہ کیا ۔اور کہاکہ داتاصاحب نے حکم دیا ہے کہ ایوب کوکامیاب کیاجائے ورنہ خدا پاکستان سے خفا ہو جائے گا۔ آلومہار شریف کے صاحبزادہ فیض الحسن نے عورت کےحاکم ہونے کے خلاف فتوی جاری کی ۔مولاناعبدالحامدبدایونی نے فاطمہ جناح کی نامزدگی کو شریعت سے مذاق اور ناجائز قرار دیا حامدسعیدکاظمی کے والد احمدسعیدنے ایوب کو ملت اسلامیہ کی آبروقراردیا یہ لوگ دین کے خادم ہیں۔لاھورکے میاں معراج الدین نے فاطمہ جناح کےخلاف جلسہ منعقدکیا جس سےمرکزی خطاب غفارپاشا وزیربنیادی جمہوریت نے خطاب کیا معراج الدکن نے فاطمہ جناح پر اخلاقی بددیانتی کاالزام لگایا موصوف یاسمین راشدکےسسرتھے۔ میانوالی کی ضلع کونسل نے فاطمہ جناح کے خلاف قراردداد منظور کی ۔ مولانا غلام غوث ہزاروی صاحب نے ایوب خان کی حمایت کااعلان کیا اور دعا بھی کی پیرآف زکوڑی نے فاطمہ جناح کی نامزدگی کو اسلام سے مذاق قراردیکر عوامی لیگ سے استعفی دیا اور ایوب کی حمایت کااعلان کیا۔
سرحدمیں ولی خان مس جناح کےساتھ تھے ۔یہ غدارتھے۔
بلوچستان میں مری سرداروں اورجعفرجمالی کوچھوڑ کر سب فاطمہ جناح کےخلاف تھے۔ قاضی محمد عیسی مسلم لیگ کابڑ انام بھی فاطمہ جناح کےمخالف اورایوب کے حامی تھے انہوں نے کوئٹہ میں ایوب کی مہم چلائی ۔ حسن محمودنے پنجاب و سندھ کے روحانی خانوادوں کو ایوب کی حمایت پرراضی کیا۔
خطہ پوٹھوہارکے تمام بڑے گھرانے اور سیاسی لوگ ایوب خان کےساتھ تھے ۔ چودھری نثار والد برگیڈیئرسلطان , ملک اکرم جو دادا ہیں امین اسلم کے ملکان کھنڈا کوٹ فتح خان، پنڈی گھیب، تلہ گنگ ایوب کے ساتھ تھے سوائے چودھری امیر اور ملک نواب خان کےاور الیکشن کے دو دن بعد قتل ہوئے۔
شیخ مسعود صادق نے ایوب خان کیلئے وکلاہ کی حمایت کا سلسلہ شروع کیا کئ لوگوں نے انکی حمایت کی پنڈی سے راجہ ظفرالحق بھی ان میں شامل تھے اسکےعلاوہ میاں اشرف گلزار ۔بھی فاطمہ جناح کے مخالفین میں شامل تھے۔
صدارتی الیکشن 1965کے دوران گورنر امیرمحمد خان صرف چند لوگوں سےپریشان تھے ان میں شوکت حیات،۔خواجہ صفدر جو والد تھے خواجہ آصف کے، چودھری احسن جو والد تھے اعتزاز احسن کے ، خواجہ رفیق جو والد تھے سعدرفیق کے ، کرنل عابدامام جو والد تھے عابدہ حسین کے اورعلی احمد تالپورشامل تھے۔ یہ لوگ آخری وقت تک۔۔فاطمہ جناح کےساتھ رہے۔
صدارتی الکشن کےدوران فاصمہ جناح پر پاکستان توڑنےکاالزام بھی لگا یہ الزام زیڈ-اے-سلہری نے اپنی ایک رپورٹ میں لگایا جس میں مس جناح کی بھارتی سفیرسےملاقات کاحوالہ دياگیا اوریہ بیان کہ قائدتقسیم کےخلاف تھے یہ اخبار ہرجلسےمیں لہرایاگیا ایوب اس کو لہراکر مس جناح کوغدارکہتےرھے۔
پاکستان کامطلب کیا لاالہ الااللّہ جیسی نظم لکھنےوالے اصغرسودائی ایوب خان کے ترانے لکھتے تھے۔ اوکاڑہ کےایک شاعر ظفراقبال نے چاپلوسی کےریکارڈ توڑڈالے یہ وہی ظفراقبال ہیں جوآجکل اپنےکالموں میں سیاسی راہنماؤں کامذاق اڑاتےہیں۔ سرورانبالوی اور دیگرکئی شعراء اسی کام میں مصروف تھے۔ حبیب جالب، ابراھیم جلیس ، میاں بشیرفاطمہ جناح کےجلسوں کے شاعرتھے۔ جالب نے اس کام میں شہرت حاصل کی ۔ میانوالی جلسےکےدوران جب گورنرکے غنڈوں نے فائرنگ کی توفاطمہ جناح ڈٹ کرکھڑی ہوگئیں اسی حملےکی یادگا بچوں پہ چلی گولی ماں دیکھ کےیہ بولی نظم ہے۔۔فیض صاحب خاموش حمائتی تھے۔
چاغی،لورالائی ، ،سبی، ژوب، مالاکنڈ، باجوڑ، دیر، سوات، سیدو، خیرپور، نوشکی، دالبندین، ڈیرہ بگٹی، ہرنائی، مستونگ، چمن، سبزباغ سے فاطمہ جناح کو کوئی ووٹ نہیں ملا ۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ایوب ، فاطمہ کےووٹ برابرتھے مس جناح کےایجنٹ ایم خمزہ تھے اور اے سی جاویدقریشی جو بعد میں چیف سیکرٹری بنے
مس جناح کو کم ووٹوں سے شکست پنڈی گھیب میں ہوئی۔ ایوب کے82 اور مس جناح کے 67 ووٹ تھے۔اس الیکشن میں جہلم کے چودھری الطاف فاطمہ جناح کےحمائتی تھے مگر نواب کالاباغ کےڈرانےکےبعد۔ پیچھے ہٹ گئ یہاں تک کہ جہلم کےنتیجے پردستخط کیلئے ۔مس جناح کے پولنگ ایجنٹ گجرات سے آئے اسطرح کی دھونس عام رہی۔
۔حوالےکیلئےدیکھئے ڈکٹیٹرکون ایس ایم ظفرکی ، میراسیاسی سفر حسن محمود کی ، فاطمہ جناح ابراھیم جلیس کی ۔مادرملت ظفرانصاری کی ۔۔فاطمہ جناح حیات وخدمات وکیل انجم کی۔ story of a nation..allana..A nation lost it's soul..shaukat hayat..Journey to disillusion..sherbaz mazari. اورکئ پرانی اخبارات۔۔


یہ تحریر دراصل ایک سرمد سلطان کے ٹویٹ ٹھریڈ کا مجموعہ ہے جو آپ یہاں دیکھ سکتے ہیں

4/30/2019

اپنی ایک لا علمی کا اعتراف!!

آج 2016 میں پارلمنٹ میں زنا سے متعلق ہونے ترامیم کا مطالعہ کرتے وقت "علم" ہوا (اور افسوس بھی کہ پروسیکیوٹر اور وکیل ہونے کی بناء پر مجھے اس بارے میں آگاہ ہونا چاہئے تھا نہ جانے پہلے اس ترمیم کو یوں کیوں نہ دیکھا) کہ اس میں ایسی ترامیم بھی ہیں جن کا اطلاق صرف "زنا" سے متعلقہ جرائم تک نہیں ہے بلکہ ان کے اثرات بڑے گہرے اور در رس ہیں اگر عدالتیں اس کو استعمال کریں اگرچہ اب تک اس کا استعمال ہوتے دیکھا نہیں پہلی ترمیم تعزیرات پاکستان کی دفعہ 166 میں ذیلی دفعہ 2 میں اس انداز میں ہوا 

Whoever being a public servant, entrusted with the investigation of a case, fails to carry out the investigation properly or diligently or fails to pursue the case in any court of law properly and in breach of his duties, shall be punished with imprisonment of either description for a term which may extend to three years, or with fine, or with both.
 یعنی کہ ناقص تفتیش پر تفتیشی آفیسر کو تین سال تک کی سزا ہو سکتی ہے 
پہلے پہلے یہ ترمیم دفعہ 218 اے کے طور پر صرف زنا سے متعلق تفتیش تک محدود کر کے شامل کرنے کی تجویز تھی، اگر تفتیشی آفیسرز کو ناقص تفتیش پر سزا کا رجحان پیدا ہو تو ممکن ہے کہ "انصاف" کے اسباب پیدا ہوں مگر دہشت گردی سے متعلق قانون کی دفعہ 27 کا استعمال(جو اسی مقصد کے تحت موجود ہے) بھی ججز کی نرم دلی کے باعث بے اثر ہوئے پڑی ہے۔ اسی طرح اسی ترمیم میں دفعہ 186 کی ذیلی دفعہ 2 میں شامل کیا گیا کہ
 Whoever intentionally hampers, misleads, jeopardizes or defeats an investigation, inquiry or prosecution, or issues a false or defective report in a case under any law for the time being in force, shall be punished with imprisonment for a term which may extend to three years or with fine or with both.
 یعنی کہ تفتیش و استغاثہ کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے، گمراہ کرنے یا خراب کرنے میں شامل ہوا یا جھوٹی یا غلط رپورٹ کسی مقدمہ میں جاری کرے وہ بھی تین سال کی سزا کا مستعحق ہو گا۔ پہلے شاید زنابلجبر سے متعلق ترامیم کو پڑھتے ہوئے لاشعور میں یہ تھا کہ یہ ترامیم زنا جیسے جرم تک محدود ہے مگر اب اسے دوبارہ اتنے وعرصے بعد ایک نظر دیکھنے سے یہ آگاہی ہوئی کہ اس کے اثرات دور رس ہیں۔
ایک بار ایک ریٹائر جسٹس جو بعد میں قانون کی تدریس سے جڑ گئی تھے سے ایک محفل میں سنا تھا "قوانین کی اس دفعات کا اطلاق میں عمر کے بڑے حصے عدالت میں کرتا رہا ہو مگر اب جب پڑھانے کی نیت سے پڑھتا ہوں تو ان کے نئے معنی مجھ پر آشکار ہوتے ہیں" آج کچھ ایسا ہی میرے ساتھ ہوا ہے۔

9/14/2015

فیصلے و انصاف

کام نہیں ذمہ داری بندے کو مارتی ہے. جب دوسری کی عزت، مال و زندگی کا دارومدار آپ کی قابلیت و فیصلہ کا منتظر ہو تو ذمہ داری فیصلہ کرنا نہیں انصاف کرنا ہوتا ہے. عدالتوں سے فیصلے ذیادہ آ رہے ہیں انصاف کم!


جب جب ہم نے جج کے امتحان کی تیاری کی تب تب ہمیں اپنے ایک  دوست کی بات یاد آئی کہ حاکم و قاضی بننے کی خواہش ہی نااہلیت کی سند ہے امتحان میں کامیابی حاصل کرنے والا جج کی کرسی پر بیٹھ کر فیصلے تو کر سکتا ہے انصاف کرنے کا اہل ہو اس کی کوئی ضمانت نہیں. ایسی باتیں ان کو سمجھ آئیں جنہوں نے سمجھنی ہوں ہمارا ان سے کیا لینا دینا. ہمارے والد نے ایک رات سو جانے کا حکم صادر کرتے ہوئے پوچھا جج بن کر کیا کرو گے ہم نے فورا ججز کی تنخواہ، مراعات اور معاشرتی مقام پر روشنی ڈالی بجائے خوش ہونے کے چہرے پر پریشانی نظر آئی. اگلے دن والدہ نے ہم سے پوچھا کیا کہا تھا رات کو تم نے اپنے ابو کو؟ ہمیں نہ سوال سمجھ آیا نہ رات کی گفتگو کی طرف دھیان گیا! لہذا سوال کر ڈالا "کیوں کیا ہوا؟" کہنے لگی کہہ رہے تھے یہ عام سا ہی نکلا لگتا ہے کسر رہ گئی تربیت میں!


اکثر سرکاری ملازمین کا بڑھاپا تب شروع ہوتا ہے جب وہ نوکری سے ریٹائر ہو جاتے ہیں عمر کی گنتی نہیں وقت اہم ہے . تب ہی ان کے پاس سنانے کو زندگی کے کئی قصے ہوتے ہیں. جج بھی سرکاری ملازم ہی ہوتا ہے. ریٹائرمنٹ کے بعد وکالت کمانے کے لیے کم اور قصے سنانے کے لیے ذیادہ کرتا ہے. یہ قصے ان کے لئے ستائش جیتے کا ذریعہ ہوں گے مگر نئی نسل کے لئے سیکھنے کا راستہ ہوتے ہیں، ایسے قصوں سے سیکھا ہوا ہمیشہ کام آتا ہے عدالت میں بھی اور زندگی میں بھی.


عدالتوں میں فیصلوں کے لئے ہونی والی مباحث میں حقائق و قانون دونوں زیر بحث آتے ہیں مگر جب بھی سابقہ ججز سے ان کے اہم فیصلوں کی روداد سنے تو وہ معاملے سے متعلق حقائق و اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ کیسے ان کا فیصلہ انصاف کے مطابق تھا قانونی نقاط قصے کا حصہ نہیں ہوتے . اس سے ہم نے یہ تاثر لیا نیت انصاف کرنا ہو تو ٹیڑھا قانون بھی رکاوٹ نہیں بنتا.

کوئی خود کو برا نہیں کہتا مگر جو سچ دوسرے آپ کے بارے میں کہتے ہیں اس کا کوئی متبادل نہیں. سابقہ ججز کے ساتھ کام کرنے والے کلرک، پٹے والے، ان کے ڈرائیور،  گارڈ اور باورچی جو قصے سناتے ہیں ان سے محسوس ہوتا ہے جج صاحبان کی اکثریت بس نوکری کرتی ہے، فیصلے سناتی ہیں. کہنے کو تو کہا جاتا ہے ایک بے گناہ کو سزا دینے سے بہتر ہے کہ سو گناہ گار کو چھوڑ دیا جائے مگر گناہ گار کو سزا سنائے جانے کے جو قوت و حوصلہ درکار ہے وہ بھی کسی حد تک ناپید ہے. یہ ڈر کہ اوپر والی عدالت اگر میرا فیصلہ بدل دے اور ایسے بدلے ہوئے فیصلوں کی اکثریت نوکری میں ترقی کے امکان کم دیتے ہیں کا خوف ملزمان کو چھوڑنے کا سبب بنتے ہیں. یوں فیصلے ہوتے ہیں انصاف نہیں.


عمومی طور پر قتل و زنا کے مقدمات کے علاوہ باقی جرائم میں ملزم کو بری کرنے کا رجحان قریب قریب سو فیصد ہی ہے. صرف جج صاحبان ہی رعایت نہیں کرتے بلکہ خود مدعی، پولیس اور پراسیکیوٹر بھی ملزمان کے ساتھ نرمی رکھتے ہیں. مدعی و گواہان تو عدالت سے باہر ملزمان سے صلح کر کے کٹہرے میں بیان بدلتے ہیں یوں ملزمان باعزت بری ہوتے ہیں (یہ بات کسی حد تک دیوانی و خانگی تنازعات کے بارے میں بھی ہے) . تھانے میں لکھوائی گئی ابتدائی رپورٹ میں شامل جھوٹ سچ کو بھی کھا جاتا ہے. عدالت کے کٹہرے میں انصاف کے حصول کے لئے کم اور دوسرے کو سزا دلوانے کو ذیادہ پیش ہونے والوں کا جھوٹ ملزم کو تو گناہ گار نہیں کرتا البتہ اس کی غلطیوں و جرائم کو دھندلا ضرور کر دیتا ہے. عدالت کے کٹہرے میں صرف ملزم و مجرم ہی نہیں فریادی و گواہ بھی پیش ہوتے ہیں. مجرمان کو صرف عدالت کے کٹہرے میں لانا ہی کافی نہیں ہوتا کٹہرے میں خود مدعی کو بھی کھڑا ہونا ہوتا ہے. برائی اور گناہ کی شہادت دینا اصل امتحان ہے جس میں بہت کم لوگ ہی کامیاب ہوتے ہیں کچھ بیان سے مکر جاتے ہیں اور کچھ جرم کی ہیت بڑھانے کو اس میں جھوٹ کی آمیزش کرتے ہیں، جھوٹ پکڑا جاتا ہے یوں  سچ بھی مشکوک ہو جاتا ہے اور ملزم بری. ایسے میں فیصلہ آتا ہے شاید تب حالات کے تحت یہ ہی انصاف ہے.


عدالت کے کٹہرے میں گواہی سے پہلے حلف لیا جاتا ہے. ہر فرد کو اس کے عقیدے کے مطابق کلمہ پڑھایا جاتا ہے اس کے رب کا خوف دلوا کر سچ بولنے کا کہا جاتا ہے اور جھوٹ کی صورت میں رب العزت کے عذاب و کہر کا حقدار.  ہمارے ایک سینئر دوست کہتے ہیں یہ عدالتوں کے کٹہرے میں خدا کو حاضر ناضر جان کر بولا گیا جھوٹ ہی تو ہماری تباہی کی وجہ ہے. لوگ اپنے اپنے خداؤں کے نام پر جھوٹی گواہی دینے سے نہیں ڈرتے مگر بیوی و بچوں کے نام پر قسم کھا کر گواہی دینے سے انکار کر دیتے ہیں اندازہ لگایا جا سکتا ہے کیونکہ فیصلے آتے ہیں انصاف نہیں.


ایسا بھی نہیں کہ سب جھوٹ کی دلالی کریں کئی کٹہرے میں سچ کے سوا کچھ بھی نہیں گواہی میں کہتے اور ہم نے دیکھا وہ انصاف پر مبنی فیصلے جیت کر جاتے ہیں. انصاف یہ ہی نہیں کہ ملزم کو سزا ہو انصاف یہ ہے کہ اسے احساس ہو وہ پچھتائے، وہ توبہ کرے اور معافی کا طالب ہو.


عدالتیں نہیں، جج نہیں، وکیل نہیں، گواہ نہیں بلکہ صرف سچ ہی انصاف کے حصول کو ممکن بناتا ہے آٹے میں نمک کے برابر جھوٹ بھی انصاف کو کھا جاتا ہے پھر بس فیصلہ ہی آتا ہے. یہ مشاہدہ ہے یہ تجربہ ہے مگر یہ سمجھ کسی کسی کو آتی ہے یہ نظر ہر کسی کو نہیں آتا.
ہماری عدالتوں سے واقعی اب فیصلے آ رہے ہیں انصاف نہیں اور قصور وار ہم سب ہیں کوئی ایک نہیں. 


8/28/2013

کورٹ محرر کا ایک غیر سنجیدہ انٹرویو

آج ہم نے جس شخصیت کو انٹرویو کیلئے منتخب کیا ہے اگرچہ بظاہر وہ ایک چھوٹی شخصیت ہے لیکن درحقیقت وہ عدلیہ کی سب سے اہم ترین شخصیت ہے وہ ایک اہم ترین شخصیت اس وقت ہمارے ساتھ موجود ہیں اگرچہ وہ کسی تعارف کی محتاج نہیں لیکن انٹرویو شروع کرنے سے پہلے ہم چاہیں گے کہ وہ اپنا تعارف خود کروائیں
جناب زرہ نوازی ہے آپ کی اس خاکسار کو بہت سے لوگ " کورٹ کی دائی" کے نام سے پکارتے ہیں کچھ لوگ مجھے کورٹ کا پٹواری کہتے ہیں جب کے سرکاری طورپر مجھے "کورٹ محرر" کہا جاتا ہے میں کورٹ کی دائی بھی ہوں پٹواری بھی ہوں اور کورٹ محرر بھی میرا سرکاری کام تھانے کی ڈاک کورٹ سے لیکر تھانے تک پہنچانا ہے اور تھانے سے ڈاک لیکر کورٹ تک پہنچانا ہے تھانے کے کیسز کی نگرانی کرنا ہے افسران تک عدالتی احکام پہنچانا ہے کورٹ کی جانب سے گواہ کو جب گواہی کیلئے طلب کیا جاتا ہے تو ہم ہی گواہ کے پاس کورٹ کے اور احکامات لیکر جاتے ہیں کورٹ میں چلنے والے تھانے کے کیسز میری جایئداد بھی ہیں اور اثاثہ بھی اور میرا کاروبار بھی میں کورٹ میں جو بھی رپورٹ جمع کروادوں وہ حتمی تصور ہوتی ہے اور اسی رپورٹ ہی کی بنیاد پر کیس کا فیصلہ ہوتا ہے
سوال: کورٹ محرر صاحب آپ اپنے کاروبار اور اپنی شخصیت پر مزید کچھ روشنی ڈالیں؟
کورٹ محرر: جناب کیا روشنی ڈالوں میرے بغیر عدالتی کاروائی چل نہیں سکتی اگرچہ میں ایک چھوٹا موٹا پرزہ نظر آتا ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں پاکستانی عدلیہ کا سب سے اہم ترین مہرہ ہوں مجسٹریٹوں کو نفع بخش تھانے میری مرضی سے ملتے ہیں سیشن جج میرے مریدوں میں شامل ہوتا ہے عدالت میں میری مرضی کے بغیر کوئی کاروائی نہیں ہوسکتی اور بعض معاملات میں میری طاقت آئی جی سندھ سے بھی زیادہ ہے اگر ہم نہ ہوں تو کیس ڈسپوزل مشینیں خود ڈسپوزل ہوجائیں
سوال: حد ادب گستاخ کس قسم کی باتیں کررہے ہیں آپ کا علاقہ مجسٹریٹ آپ کے پینل پر کس طرح کام کرسکتا ہے اور آپ کی مرضی سے تھانے کس طرح تقسیم ہوسکتے ہیں اور کیس ڈسپوزل مشین سے کیا مراد ہے؟ آپ جانتے ہیں کہ آپ کیا غلط قسم کی باتیں کررہے ہیں ڈھنگ کے کپڑے آپ پہن نہیں سکتے اور باتیں کررہے ہو بڑی بڑی کہاں آئی جی سندھ اور کہاں تم جیسے تیس مارخان
کورٹ محرر: اصل بات یہ ہے کہ لوگوں سے سچ برداشت نہیں ہوتا میں آپ کو اپنی طاقت بتاتا ہوں میں ایک پولیس کا سپاہی بھی ہوں اور میرے لیئے لازم قرار دیا گیا ہے کہ میں ہمیشہ عدالت میں یونیفارم میں پیش ہوا کروں گا- عدالت کے سامنے آئی جی سندھ سے لیکر ڈی جی رینجرز تک یونیفارم میں پیش ہوتے ہیں بڑے سے بڑا فوجی افسر خفیہ ایجنسیوں کے افسران تک عدالت میں یونیفارم کی پابندی کرتے ہیں جبکہ میں ایک عام سپاہی جس کو کورٹ محرر کا عہدہ دیا گیا ہے کس طریقے سے سیشن جج کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہوتا ہوں وہ بھی بغیر یونیفارم کے کبھی آپ نے مجھے یونیفارم میں دیکھا ہے میں نے تو یونیفارم تک نہیں سلوایا اور کس علاقہ مجسٹریٹ کی بات کررہے ہیں میں جب سیشن جج کو خاطر میں نہیں لاتا تو یہ مجسٹریٹ میرے سامنے کیا بیچتے ہیں
آپ بات کررہے ہیں "کیس ڈسہوزل مشین" کی آپ کو نہیں پتا کہ کیس ڈسپوزل مشین کیا ہوتی ہے میں آپ کو بتاتا ہوں تفتیشی افسر جب تفتیش مکمل کرکے "ردی کاغذ" جو کوئی کباڑیا بھی خریدنے پر راضی نہ ہو عدالت میں چالان کی صورت میں جمع کروادیتا ہے تو عدالت ان ردی پیپرز پر بغیر دیکھے بغیر پڑھے بغیر سمجھے انتظامی حکم جاری کردیتی ہے تو اس کے بعد میرااور عدالت کام شروع ہوجاتا ہے عدالتی پیش کار ملزم میرے ساتھ مل کر جعلی رپورٹیں لگواتے ہیں کہ گواہان دستیاب نہیں میں اپنے کارندوں کے ساتھ مل کر گواہان کو ایسا ہراساں کرتا ہوں کہ وہ خواب میں بھی کورٹ کا رخ نہیں کرتا میری جعلی رپورٹوں پر ملزمان ایسے باعزت بری نہیں ہوتے جناب اس کے پیچھے پورا گیم ہوتا ہے اور اس گیم کا کپتان میں ہوں میرے تعاون کے بغیر کوئی بھی ملزم باعزت بری ہو نہیں سکتا جب میری جعلی فرضی رپورٹوں پر ملزم باعزت بری ہوتے ہیں تو نہ صرف وہ ملزمان سب کی مٹھی گرم کرکے جاتے ہیں بلکہ کیس زندہ دفن کرنے کی خوشی میں جج کو "پوایئنٹس " بھی ملتے ہیں جتنا زیادہ ڈسپوزل اتنے ہی زیادہ پوایئنٹس زیادہ سے زیادہ پوایئٹ حاصل کرنے والے کو ہماری زبان میں کیس ڈسپوزل مشین کہاجاتا ہے اسے کہتے ہیں ڈبل مزا آپ میری طاقت کو کبھی نہ آزمانا میری اجازت کے بغیر جج ضمانت منظور نہیں کرسکتا مجھے کورٹ کا پٹواری ایسے نہیں کہتے میں پورے کیس کی جزیات اور کلیات سے واقف ہوتا ہوں جو وکیل زیادہ قانون جھاڑے میرے ساتھ تعاون نہ کرے ان کے ملزمان کو جب تک میں پھانسی کے پھندے تک نہ لے جاؤں مجھے اور میری پوری ٹیم کو چین نہیں آتا
سوال: ایک تو آپ کو گھٹیا اور بے ہودہ قسم کے الزام لگانے کی بری عادت ہے کل آپ سیشن جج کے سامنے جائیں گے بغیر یونیفارم کے مت جانا وہ بڑے ایماندار لوگ ہیں اصول پسند لوگ ہیں دیکھتا ہوں آپ کو کیسے جیل نہیں بھیجتے
جب آئی جی سندھ یونیفارم کے بغیر عدالت میں پیش نہیں ہوتا تو تم اتنے طاقتور کب سے ہوگئے؟ اور آپ کی اجازت کے بغیر ضمانت کیسے نہیں ہوسکتی؟ اور آپ کی ٹیم سے کیا مراد ہے؟
جواب: میں ادنی سا کورٹ محرر اس چیلنج کو قبول کرتا ہوں جو عدلیہ گزشتہ 67 برسوں میں مجھ حقیر، فقیر بے توقیر کو یونیفارم نہیں پہنا سکی میں دیکھتا ہوں مجھے کیسے یونیفارم پہنائے گی اور جو جج وکیل کورٹ اسٹاف پورا دن مجھ سے دو نمبر کام کرواتے ہوں وہ کیسے میرے خلاف کاروائی کرسکتے ہیں لیکن میرا بھی ایک چیلنج ہے اگر کسی جج نے مجھے جیل بھیجا صرف اس وجہ سے کہ میں یونیفارم کے بغیر پیش ہوتا ہوں تو 7دن میں اس کا ٹرانسفر تھر کے علاقے مٹھی میں نہ کروایا تو میرا نام بدل دینا میں اکیلا نہیں ڈوبوں گا پورے سسٹم کو ساتھ لیکر ڈوبوں گا ہزاروں راز اس سینے میں دفن ہیں سب کے سب کھول دوں گا اگر کورٹ محرر کے ساتھ چھیڑا گیا تو پورا سسٹم بیٹھ جائے گا جہاں تک ضمانت کا تعلق ہے تو نہ ہی میں تھانے سے پولیس فائل لیکر آؤں گا نہ ہی جج ضمانت دے گا صرف اسی گراؤنڈ پر ہی کیس لٹکا رہے گا آپ نے پوچھا کہ میری ٹیم سے کیا مراد ہے یہ سوال رہنے دیں اب تو میری ٹیم پورا "گینگ بلکہ مافیا" بن چکی ہے
سوال: دوروپے کے کورٹ محرر حد ادب گستاخ اب تم اپنے قد سے بہت اونچی اونچی باتیں کررہے ہو ایسا نہ ہو کہ تمہاری بے لگام زبان اور بڑی بڑی باتیں چیف جسٹس سندھ ہایئکورٹ تک پہنچ جایئں اور تمہاری ساری اکڑخانیاں ایک منٹ میں نکل جائیں یاد رکھنا کہ غرور کا سر ہمیشہ نیچا ہوتا ہے حقیقت تو یہ کہ تم ایک نمبر کے جھوٹے انسان ہو تمہاری سب باتیں جھوٹ پر مبنی ہیں تم جیسا جھوٹا انسان کبھی زندگی میں نہیں دیکھا
کورٹ محرر: چیف جسٹس سندھ ہایئکورٹ کو میں اچھی طرح جانتا ہوں ان کا نام مشیر عالم ہے وہ پہلے کراچی کی ڈسٹرکٹ کورٹس میں پریکٹس کرتے تھے ان کو "سب" پتا ہے ان کو وہ سب باتیں پتہ ہیں جو ایک پریکٹسنگ ایڈووکیٹ کو پتا ہوتی ہیں جسٹس وہ بہت بعد میں بنے ہیں وہ آپ سے زیادہ علم رکھتے ہیں میں بڑی باتیں نہیں کرتا ہوں عاجز حقیر فقیر بے توقیر ہوں ایک حقیقت بات بتا رہا ہوں کہ جو عدلیہ اتنی بے بس ہو کہ گزشتہ 67 سالوں میں ایک میرے جیسے ایک دوروپے کے کورٹ محرر کو یونیفارم تک نہ پہنا سکے وہ اور کیا تیر مارے گی
سوال: آپ کو سب سے زیادہ خوشی کب ہوتی ہے؟
مجھے سب سے زیادہ خوشی اس وقت ہوتی ہے جس دن وکلاء عدالتوں کا بائیکاٹ کردیتے ہیں وہ دن ہمارے لیئے عید کا دن ہوتا اس دن میدان خالی ہوتا ہے ہم خوب مال بناتے ہیں
عدالتی بائیکاٹ کے دوران بھی کام ہوتا ہے؟ کورٹ محرر: چھوڑیں جی لگتا ہے آپ کو کچھ بھی نہیں پتا اصل کام تو ہوتا ہی عدالتی ہڑتال کے دن ہے ہڑتال کے دن تو ہم مال بنانے میں اتنا مصروف ہوتے ہیں کہ سرکھجانے کی فرصت نہیں ملتی اور بائیکاٹ کے دوران تو ایسا ایسا کام ہوتا ہے کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا
سوال: آپ نے اپنے پورے کئرئیر میں اپنے آپ کو کب بے بس محسوس کیا؟
کورٹ محرر: کیا یاد کروادیا یہ کہہ کر کورٹ محرر نے سسکیاں لے لے کر رونا شروع کردیا جسٹس صبیح الدین احمد کا دور جب وہ سندھ ہایئکورٹ کے چیف جسٹس تھے میری زندگی کا بدترین دور تھا میں نے اپنی پوری زندگی میں اپنے آپ کو اسقدر بے بس محسوس نہیں کیا جتنا اس دور میں محسوس کیا ہم جعلی رپورٹیں لگا لگا کر تھک جاتے تھے کہ گواہ دستیاب نہیں مکان چھوڑ کر چلا گیا لیکن عدالتیں کسی بھی صورت میں میں کیس ختم ہی نہیں کرتی تھیں ایک کیس میں پورے تین سال تک رپورٹ دیتا رہا کہ گواہ علاقہ چھوڑ گیا دستیاب نہیں لیکن جج کہتا تھا میں مجبور ہوں 249 اے کے تحت ملزم کو باعزت بری نہیں کرسکتا بالآخر تین سال بعد مجبوری کے عالم میں میں نے گواہان پیش کرہی دیئے لیکن ظالم جج نے ملزم کو ان کی گواہی پر سزا بھی لگا دی اتنا ظلم تھا اس دور میں جو گواہ تفتیش میں پیش ہوگیا اس کو ہرصورت کورٹ لیکر آؤ عدالتیں گواہان کو ہر صورت میں لانے کا حکم دیتی تھیں اور ہمیں حکم ملتے تھے کہ گواہ کو ہرصورت لیکر آؤ چاہے ہتھکڑی لگا کر لانا پڑے ایسا ظلم میں نے پاکستان کی تاریخ میں نہیں دیکھا میری رپورٹ اٹھا کر پھینک دی جاتی تھی مجھے جج صاف صاف کہتے تھے کہ تم نے یہ رپورٹ گھر بیٹھ کر بنائی ہے اور ملزم سے پیسے لیکر بنائی ہے مجھے گالیاں دی جاتی تھیں مجھے جھوٹا کہاجاتا تھا
ایک جج نے میری رپورٹ پر 249 اے کے تحت ملزمان کو باعزت بری کیا تو مجسٹریٹ کی نوکری تیل ہوتے ہوتے رہ گئی صبیح صاحب نے مجسٹریٹ کو طلب کرکے کہا کہ 249 اے کے تحت رہا کرنے سے محسوس ہورہا ہے کہ آپ نے پولیس کی تفتیش کا مطالعہ کیئے بغیر ہی چالان پر انتظامی حکم کیا ہے اس کے بعد اس مجسٹریٹ نے قسم کھائی کہ وہ ہمیشہ "ججمنٹ" کرے گا باقی نوکری اس نے ججمنٹ پاس کرکے گزاری گواہان کو طلب کرتے میری رپورٹ کو ردی کی ٹوکری میں پھینکتے اور کہتے کہ ہر صورت میں گواہ پیدا کرکے لاؤ ان کے بیان قلمبند کرتے جس کے بعد گواہان کے بیانات کی روشنی میں مقدمے کا فیصلہ کرتے تھے اور کبھی بھی ہمارے تفتیشی افسران کی تفتیش کا مطالعہ کیئے بغیر انتظامی حکم جاری نہیں کیا اور تفتیش میں ایسے ایسے کیڑے نکالتے تھے کہ تفتیشی افسران نوکری سے تنگ ہوگئے تھے ہماری پوری تنخوا خرچ ہوجاتی تھی ایسا مشکل وقت ایسے مشکل حالات خدا کبھی دشمن کو نہ دکھائے
آپ نے اپنی زندگی میں سب سے اچھا دور کب دیکھا؟
کورٹ محرر:دوہزار سات میں جب وکلاء تحریک شروع ہوئی تھی اس دور میں ہڑتالوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا وہی میری زندگی کے عروج کا دور تھا اس کے بعد تو عروج ہی عروج ہے ایسی مارا ماری شروع ہوئی کہ "تو مار تے میں مار ، میں مار تے تو مار" روز، روز کی ہڑتالوں نے عدلیہ کی بنیادیں ہی ہلا کر رکھ دی ہیں پورا نظام ہی تباہ و برباد ہوچکا ڈسٹرکٹ کورٹس کے وکلاء گزشتہ چھ سال کے دوران ہڑتالیں کرکرکے معاشی طور پر اتنے تباہ و برباد ہوگئے کہ اب ان میں ہڑتال کی سکت ہی نہیں رہی اسی دوران عدلیہ بطور ادارہ تباہ ہوا اور ہماری سوئی ہوئی قسمت جاگ گئی وکلاء کو ہڑتالوں کا مشورہ دینے والے عظیم انسان کو ہمارے بیوی بچے جھولی پھیلا پھیلا کر دعا دیتے ہیں ہماری حکومت سے اپیل ہے کہ پاکستان میں عدالتی بائیکاٹ کے خالق کو ہمارے محسن کو فوری طور پر تلاش کرنے کا حکم دے قومی تمغہ دے یعنی کوئی نشان امتیاز دے بدقسمتی سے ہم اپنے محسن کا نام تک نہیں جانتے جس نے ہمارے گھروں میں معاشی خوشحالی کی بنیاد رکھی ہم وکلاء کے اس بے مثال لیڈر کو اپنا قائد اپنا پیرومرشد تسلیم کرتے ہیں جس نے ہڑتالوں کے زریعے وکلاء کے معاشی قتل کی بنیاد رکھی
آج وکلاء میں بھی بلاوجہ کے ایسے لوگ پیدا ہورہے ہیں کہ جو وکلاء کو ورغلا رہے ہیں کہ وہ کسی بھی معاملے پر پرامن احتجاج کیلئے عدالتی بائیکاٹ کے علاوہ کوئی اور پرامن طریقہ تلاش کریں یاللہ ایسے لوگوں کی سازشوں سے ہمیں محفوظ فرما اور ان کو نیست ونابود فرما عدلیہ پر ہمارا احسان ہے
وکلاء تحریک کے دوران جب پورا نظام بند گلی میں کھڑا تھا اس دوران ہم کورٹ محرر ہی تھے جنہوں نے اپنے تجربے کی روشنی میں عدلیہ کو "بند گلیوں " سے نکلنے کے ایسے ایسے راستے دکھائے جس کے زریعے عدلیہ اس دور میں بند گلی سے ایسا نکلی کہ لوگ سوچ بھی نہیں سکتے اس کے بعد ہمارا تجربہ ہے اور عدلیہ کی طاقت ہے اور کورٹ اسٹاف کی پبلک ڈیلنگ ہے ہم نے مل جل کر ایک ایسی مضبوط بااعتماد پایئدار اور نفع بخش پارٹنرشپ کی بنیاد رکھ دی ہے جس کو توڑنا وکلاء کیلئے اب ناممکن ہی ہوگا
کورٹ محرر کی مسلسل بکواس سن کر ہماری قوت برداشت دے گئی اور غصے سے کہا کورٹ محرر بدمعاش تم عزت کے قابل ہی نہیں اپنی بکواس بند کرو اور دفع ہوجاؤ جھوٹے بدمعاش کہیں کے تم ایک نمبر کے جھوٹے انسان ہو تم نے اپنے قد سے بڑی جتنی بھی باتیں کی ہیں وہ سب جھوٹ ہیں
کورٹ محرر یہ سن کر برا مانے بغیر چلا گیا
تحریر : صفی الدہن ایڈوکیٹ

6/07/2013

خواب جنون اور تعبیر

میرے ایک دوست ہیں نام لینا مناسب نہیں لیکن کافی عرصے تک "خرچے" سے بھی تنگ تھے کافی عرصہ تنگ دستی کی زندگی گزارنے کے بعد نہ صرف ڈسٹرکٹ کورٹ کراچی سے نااہل وکیل قرار پائے بلکہ روایتی خوشامدی اور چاپلوس نہ ہونے کی وجہ سے ان کی وکالت کامیاب نہ ہوسکی کمال کے مقرر ہیں اور ایک اچھے قصہ گو ہیں اتنے اچھے کہ وہ پورا دن بولتے رہتے تھے اور ان کی پیاری باتیں ہم سنتے رہیں وکالت میں شدید ناکامی کے بعد خاموشی سے یورپ میں جابسے بعد ازاں کافی عرصے تک اس کے خوابوں کو ڈسکس کرتے رہے اس دنیا کے ناکام ترین انسان کی باتیں شیئر کرتے رہے پانچ سال کے طویل وقفے اور روپوشی کے بعد دودن قبل اس کی کال وصول ہوئی پہلے تو مجھے یقین ہی نہیں آیا کہ وہ دنیا کا ناکام ترین انسان واپس آچکا ہے بہرحال اس کے ساتھ پورا دن رہا مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ وہ ایک یورپی ملک کا ایک اہم وکیل بن چکا ہے اور اس کی لاء فرم یورپ کی مشہور لاء فرم بن چکی ہے اور اس کے پاس کامیابیوں کے بے شمار ریکارڈ تھے میں نے پوچھا کہ کیا کوئی شارٹ کٹ تو کامیاب نہیں ہوگیا اس نے کہا ایسا کچھ نہیں وہاں پر وکالت کا ایک نظام ہے ایک ماحول ہے ایک احساس زمہ داری ہے وکالت کتنا زمہ داری کا شعبہ ہے وہاں جا کر احساس ہوا اور ایک وکیل کی کتنی عزت ہوتی ہے وہاں احساس ہوا میں نے پوچھا کہ وہاں کے جج تو کافی ایماندار ہونگے میرے دوست نے کہا نہیں وہاں ایسا کوئی تصور نہیں ایماندار جج اور بے ایمان جج کیا ہوتا ہے؟ جج تو جج ہی ہوتا ہے کھلاؤ سونے کا نوالہ اور دیکھو شیر کی آنکھ سے یہ ان کا اصول ہے اگر کوئی بے ایمان ہے تو اپنے خرچے پر وہاں کا سسٹم اتنا مضبوط ہے کہ کوئی کرپشن کا سوچ بھی نہیں سکتا اچھا کیا وہاں ججز کی کرپشن کو سپورٹ کرنے کیلئے "ایم آئی ٹی" نہیں ہے بھائی یہ ایم آئی ٹی کیا بلا ہے وہاں ایک ہی "ٹی" ہے وہاں کا سسٹم خود ایماندار ہے اس لیئے یورپی ممالک میں عدلیہ کو "ایم آئی ٹی" جیسے ڈھول بجانے کی فرصت ہی نہیں نہ ان کو ایسے ڈھکوسلے ایجاد کرنے کی کوئی ضرورت ہے لیکن اتنا چیلنج ہے کوئی کرپشن کرکے تو دیکھے اچھا اگر کسی بااثر جسٹس کا جونئیر کرپشن کرے تو اس کے لیئے وہ سفارش تو کرتا ہوگا میرے دوست نے کہا ایسا کچھ نہیں وہاں ڈھکوسلوں کا کوئی سلسلہ ہے ہی نہیں وکیل اپنے کلائنٹ کے قانونی حقوق کی حفاظت کا زمہ دار ہے ہر صورت ہر قیمت پر اور اگر یہ بات ثابت ہوجائے کہ وکیل نے غفلت کا مظاہرہ کیا تو اس کو اپنے ہی منتخب نمائیندوں کی حمایت حاصل نہیں ہوتی لائسنس منسوخ کوئی رعایت ہی نہیں میرے منہ سے نکل گیا کیا وہاں بارکونسل نہیں میرے دوست نے کہا ادارے ہیں لیکن وہ زمہ دار ہیں
اب فائدے سن لو وہاں ایک عام وکیل کی بھی اتنی انکم ہے کہ وہ ایک پورے خاندان کو پال سکتا ہے ادارے مضبوط ہونے سے ادارے کا وقار بحال ہے کرپشن کے خاتمے سے ایک میرے جیسا نااہل وکیل جو پاکساتنی عدلیہ میں مس فٹ تھا آج کامیاب زندگی گزار رہا ہے بعد ازاں جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ صرف پانچ سال کے قلیل عرصے مٰیں اس نے پاکستان جو اثاثے بنائے ان اثاثوں کا سوچنا بھی مشکل ہے مجھے اس کی ایک بات ہمیشہ یاد رہی یار خواب بڑے دیکھو ایک دن آتا ہے وہ بڑے خواب تعبیر بن جاتے ہیں مٰیں نے کہا چلو آج ڈسٹرکٹ کورٹ چلتے ہیں کہا نہیں کبھی نہیں کیونکہ وہاں میرے خواب دفن ہیں وہ خوابوں کا قبرستان ہے وہاں میں نہیں جاسکتا میں نے کہا پتہ چلا کہ "مشیر"صاحب بھی چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ بن گئے ہیں وہ بھی تو ہم سے اپنے خواب شیئر کیا کرتے تھے ان کے خواب شرمندہ تعبیر کیوں نہ ہوئے میرے دوست نے کہا اپنے اپنے جنون کی بات ہواکرتی ہے میرے خوابوں کے پیچھے میرا جنون تھا اور ان کے خواب کیوں شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے ہوں وہ خود جانے ہوسکتا ہے کہ ان کا خواب صرف چیف جسٹس سندھ ہایئکورٹ بننے کا ہو تو ان کاخواب بھی شرمندہ تعبیر ہوچکا آج وہ بھی تو چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ ہیں کے سی ڈی آر میں بیٹھ کر جو خواب دیکھتے اور دکھاتے تھے جب وہ خود بھول گئے ہیں تو ہمیں بھی بھول جانے میں کیا حرج ہے
یہ کہہ کر میرا دوست واپس چلا گیا
آخر میں کچھ عرصہ قبل لکھی گئی ایک تحریر کا دوبارہ حوالہ خوش قسمتی سے سپریم کورٹ میں کام کرنے ایک اچھا ماحول موجود ہے کمرہ عدالت کا ایک بہترین ماحول ہے تمام کاروائی ریکارڈ ہوتی ہے اور اہم اداروں کے سربراہان کی کوششوں کے باوجود کیسز چیمبر میں نہیں سنے جاتے بلکہ مقدمات کی کھلی سماعت کی جاتی ہے اس حوالے سے چیف صاحب پر کوئی کبھی بھی تنقید نہیں کرے گا کہ سپریم کورٹ میں گورننس کے ایشوز ہیں یہی حال ملک بھر کی ہائکورٹس کا ہے وہاں نظام کو بہتر بنانے میں کافی کامیابیاں ہوئی ہیں ججز کی کمی ایک مسئلہ تھی وہ بھی کسی حد تک حل ہوچکا ہے
ماتحت عدلیہ جہاں ہرروزلاکھوں کی تعداد میں پیش ہوتے ہیں جہاں لوگوں کے معمولی نوعیت کے معاملات سے لیکر قتل تک کے مقدمات پیش ہورہے ہوتے ہیں وہاں پاکستان کی عدالتوں میں ہمیشہ سے مسائل اور پریشانیاں عوام کا مقدر رہی ہیں ان عدالتوں سے نہ صرف عوام بلکہ وکلاء کو بھی شکوے اور شکایات رہے ہیں اس حوالے سے متعدد بار سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کی توجہ دلائی گئی لیکن کسی کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگی حالیہ دنوں میں 2013 کی کراچی بارکی منتخب کابینہ نے شاید تنگ آمد بجنگ آمد کے تحت کاروائی کی جس کے بعد سندھ ہائی کورٹ نے سخت نوٹس بھی لیا جوابی طورپر وکلاء نے بھی ہڑتال کی اور کافی کامیاب ہڑتال کی لیکن بالآخر یہ معاملہ بھی اسی طرح ہی شاید حل ہونے جارہا ہے کہ" تھپڑ" مار کر معافی مانگ لی جائے اور یہ گھسا پٹا نعرہ بلند کردیاجائے کہ بار اور بنچ ایک ہی گاڑی کے دوپہیئے ہیں جو ایک دوسرے کے بغیر نہیں چل سکتے پھر یہی کہا جائے گا کہ" سب کچھ بھول جا" لیکن چیف صاحب کو اس بار اس کا سخت نوٹس لینا چایئے اس سارے معاملے کو ایک جسٹس کی نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے
کیا واقعی رشوت کا لین دین ہوتاہے؟
اس کو کیسے کنٹرول کیا جائے؟
ماتحت عدلیہ کے اکثر ججز مقدمات کی کھلی عدالت میں سماعت کیوں نہیں کرتے؟
کیا عدالتی اوقات کار کے دوران یا بعد ججز کا اپنے دوست وکلاء یا ملزمان کے ساتھ بیٹھ کر میٹنگ کرنا درست ہے یا غلط؟
جو نظام جو ڈسپلن سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کی سطح پر سختی سے لاگو ہوچکا ہے وہ ماتحت عدلیہ میں کیوں نہیں ہوسکتا؟
اگرسپریم کورٹ اورہائی کورٹ کی ساری کاروائی شفاف بنانے کیلئے ریکارڈ کی جاسکتی ہے تو ماتحت عدلیہ میں کیا رکاوٹ ہیش آرہی ہے ؟
کراچی میں پاکستان کی ٪10 آبادی رہتی تو اس حوالے سے کیا خصوصی اقدامات کیئے گئے ہیں؟
کراچی کے جوڈیشل کمپلیکس کے حوالے سے اہم فیصلوں میں کیا رکاوٹیں ہیں؟
ریکارڈکیپنگ کے لیئے جو پیمانہ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں اپنایا گیا ہے وہی ماتحت عدلیہ
میں کیوں نہیں؟ کراچی کی عدالتوں سے ہزاروں سنگین جرائم میں ملوث افراد کس طرح ضمانت پر رہا ہونے کے بعد لاپتہ ہوگئے ہیں؟ کون زمے دار ہے؟ اور کیا ان کی ضمانت کے طور پر جمع کروائی گئیں دستاویزات پر جرمانہ عائد کیا گیا اور کیا وہ دستاویزات اصلی تھیں؟ اور اگر جعلی دستاویزات تھیں تو پریذایڈنگ آفیسر کس حد تک ذمے دار تھے؟ اسی طرح بہت سے افراد کو زاتی ضمانت پر چھوڑا گیا کیوں؟ کیا سنگین جرائم میں ملوث افراد کو صرف زاتی ضمانت پر چھوڑا جاسکتا ہے؟ وکلاء تںظیمیں صرف ایک ہی مطالبہ کررہی ہیں کہ ان کو کام کرنے وہی ماحول میسر ہونا چاہیئے جو سپریم کورٹ ہائی کورٹ میں وکلاء کو حاصل ہے جس طرح عوام کو چیٖف صاحب سے بے شمار توقعات وابستہ ہیں اسی طرح وکلاء بھی وہی توقعات وابستہ کیئے بیٹھے ہیں
اکیسویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ ایک ایسا عدالتی نظام جس کے زریعے شہریوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے ہم ایسی عدالتی اصلاحات کا مطالبہ کرتے ہیں جن کے زریعے ایک عام شہری بھی اپنے حقوق کے تحفظ کے لیئے عدالت میں بلاجھجک آسکے جب عام شہری کو باآسانی انصاف ملے گا تو نہ صرف شہریوں کی بے چینی کا خاتمہ ہوگا بلکہ پاکستانی معاشرے میں ایسا امن قائم ہوگا جس کی تمنا ہر پاکستانی شہری کررہاہے
تحریر : صفی الدین اعوان

4/09/2013

اظہار رائے کو پابند کرنے کی آزادی

جن اردو بلاگرز نے لاہور میں ہونے والی اردو بلاگرز کانفرنس میں شرکت کی وہ مسرت اللہ جان سے واقفیت رکھتے ہوں گے ! جناب مختلف ویب سائیٹ پر کالم یا تحریرں لکھتے رہتے ہیں! آج صبح معلوم ہوا جناب نے ایک کالم سچ ٹی وی پر لکھا جس کی بناء پر جناب کو امیریکن کونسلیٹ کی جانب سے دھمکیاں موصول ہوئی جس کے خلاف انہیں ابتدا میں ایف آئی آر کٹوانے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا مگر بعد میں ہائی کورٹ کی مداخلت سے وہ ابتدائی رپورٹ درج کروانے میں کامیاب ہوئے۔
نہ معلوم ہم کب آزاد ہو گے! اپنے ملک میں ہم یوں غلام ہیں کہ بعض دفعہ احساس ہوتا ہے کہ آزادی کی ایک جدوجہد اور درکار ہے ابھی!

4/06/2013

ہائے اوئے کہاں جا پھنسا!!

نظریاتی اختلاف ہو تو الگ بات ہے! مگر کیا کریں وہ تو شخصیت پسندی کی بیماری میں مبتلا فرد ہے! برداشت اُس میں یوں بھی نہیں کہ وہ خود سے متضاد نظریات رکھنے والوں کو جہالت کی ڈگری عطا کرنے کا ہنر جانتا ہے!شخصیت پسندی ایک ایسی بیماری جو انتخاب کو آسان مگر درست انتخاب کو ناممکن بنا دیتی ہے! جو ایسا سمجھتیں ہیں وہ دراصل اُس کی نظر میں اُس کی پسندیدہ شخصیت سے نا واقف ہیں۔ اُس کی پسندیدہ شخصیت میں کوئی بُرائی ہو ہی نہیں سکتی!وہ سمجھتا ہے ہر بُرے آدمی کو اچھا آدمی بُرا لگتا ہے اور اس ہی لئے اُس کی پسندیدہ شخصیت میں کوئی خرابی نہیں!اُسے بُرا سمجھنے والے دراصل خود اچھے نہیں ہیں! اُس کی شعوری سوچ کی ترقی کے ساتھ ساتھ اُس کی پسندیدہ شخصیت اگرچہ تبدیل ہوتی رہی مگر اسے حسن اتفاق ہی کہا جاتا ہے ہے ہر بار اُس کی پسندیدہ شخصیت اقتدار میں ہوتی جس کا اظہار وہ اُس شخصیت سے ضرور کرتا کہ وہ سچ کے پرچار کرنے کا عادی تھا مگر اس حق گوئی کو اُس کے حاسدین نے خوشامد کانام دیا۔
جعلی ڈگری
وہ نظریاتی اختلاف کو اس طرح بیان کرتا ہے کہ جو اختلاف نظر آئے وہ ہی نظریاتی ( یعنی نظر +آتی) اختلاف ہے لہذا وہ مخالفین سے اپنا اختلاف اس حد تک کرتا ہے کہ نظر آئے چاہے کہیں بھی لہذا یہ اختلاف مختلف وجوہات کی بناء پر کبھی گلی محلے اور کبھی تھانہ کچہری میں نظر آتا ہے۔وہ جانتا تھا حق کی جنگ میں بندے کو مشکلات برداشت کرنا پڑتی ہیں، اپنی اس حق سچ کی لڑائی میں اُسے بھی جیل کی ہوا کھانی پڑی! مگر اُس نے ہمت نہ ہاری اور باطل کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھی ، چونکہ محبت و جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا ہے لہذا اُس نے سب ہی کیا اگر کچھ رہ گیا ہو تو اُس کی کسر وہ بعد میں پوری کر دیتا مگر!!! خدمت کی راہ میں وہ ہی بندہ آ گیا جس کے سامنے وہ باطل کی ہار کی جدوجہد کے سلسلے میں پیش ہوتا رہا تھا!
تب وہ جج تھا تب بھی اُس سے اُسے آزاد نہ رہنے دیا تھا اب بھی وہ اُسے عوام کی خدمت سے روکنے پر بضد ہے! وہ جو حق کی جیت کے لئے ہر ڈگری کو استعمال کرتا تھا آج ڈگری اُس ہی کو اُس کے خلاف استعمال کیا گیا ہے۔

3/29/2013

خرچہ الیکشن!

آؤ جی جناب کیسے ہیں جناب!
“یار الیکشن کے سلسلے میں آیا ہوں”
سر ہم حاضر ہیں ہم آپ کو ہی ووٹ ڈالیں گے پریشان نہ ہوں
“ابھی ووٹ کے لئے نہیں آیا کسی اور کام سے آیا ہوں”
جی جی بھائی حکم!
“دیکھو گزشتہ تین سال سے میرا آپ سے ایک تعلق بن گیا ہے جو کام آپ تین سال سے کرتے آ رہے ہو ناں اُس کا اُلٹ آپ نے ان تین ماہ میں کرنا ہے”
مطلب کیا کرنا ہے؟
“یار پہلے سرکاری تقریبات کے اخراجات میں آپ ہر چیز و معاملے کی رسید اصل خرچے سے ذیادہ کی دیتے تھے ناں”
جی بھائ
“ہم نے آپ کا خیال کیا تھا تب بھی اب بھی کرے گے”
بھائی آپ حکم کرے
“بس اب کے رسیدوں میں چیزوں کی قیمت آدھی اور کبھی اُس سے بھی کم لکھ دینا”
بھائی وہ تو ٹھیک ہے مگر ۔۔۔۔
“یاراصل قیمت سمیت تیرا کمیشن تجھے مل جائے گاا بس اُس کی تصدیق کر دینا کر دینا کہ رسید والے چارجز درست ہیں جب الیکشن کمیشن والے آئیں! ویسے وہ نہیں آئیں گے! “
جو حکم بھائی کوئی مسئلہ نہیں!

2/19/2013

ہائے اوئے تیری سیاست!!

آئینی پٹیشن کے لئے ضروری ہے کہ وہ کسی ایسے معاملے پر ہو جس سے متعلق ملک میں رائج قوانین میں کوئی حل موجود نہ ہو دوئم یہ کہ اُس معاملے سے آپ کے بنیادی حقوق متاثر ہوتے ہوں!یعنی یہ کہ آپ متاثرہ فریق (aggrieved person) ہوں!اور جب بھی آپ عدالت میں کوئی آئینی درخواست لے کر جاتے ہیں تو آُپ کو یہ چند ایک باتیں ثابت کرنی ہوتی ہیں! اول یہ کہ اس پٹیشن کے علاوہ کوئی اور راستہ نہ تھا قانون کو حرکت لانے کا یا اگر تھا تو ایسا کہ اُس کو اپنانے سے متاثرہ فریق کو ممکنہ انصاف ملنا ممکن نہ تھا! دوئم یہ کہ عدالت کو آنے والا شخص متاثرہ فریق ہے یعنی اُس کے بنیادی حقوق متاثر ہوئے ہیں یا ہو رہے ہیں! اس کے علاوہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ متاثرہ فریق کی بدنیتی اُس معاملے میں نہ ہو، اور اس کے علاوہ یہ کہ فریق ہی کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اگر عدالت سوال کرے تو وہ عدالت کوبتائے کہ کیسے درخواست پرعدالت کو Jurisdiction حاصل ہے اس کے علاوہ چند دیگر کسوٹیاں بھی ہیں ۔ ان تمام امتحانوں کو پاس کرنے کے بعد عدالت معاملے کی جانچ کی طرف جاتی ہیں آیا اُس کا کیا ممکنہ حل ہو گا اور کیسے؟ اور متاثرہ فریق کی کیسے دادرسی کی جائے ورنہ کیس یا درخواست خارج ہو جاتی ہے۔
سپریم کورٹ اور طاہر القادری
گزشتہ دنوں ہمارے ایک دھرنے والی شخصیت نے سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن سے متعلق ایک ایک درخوست پیش کی اور وہ یہ ثابت کرنے میں ناکام رہے کہ وہ کیسے متاثرہ فریق ہیں؟ خود کو متاثرہ فریق بتانے کے لئے یہ ثابت کرنا تھا کہ وہ ممکنہ امیدوار ہو سکتے ہیں آئندہ الیکشن کے, واقعی الیکشن لڑنا ضروری نہیں تھا خود کو متاثرہ فریق بنانے کو! یہ درخواست جناب ذاتی حیثیت میں دی تھی ۔ جناب کی دوہری شہریت ہے پاکستانی ہونے کے ساتھ ساتھ وہ کینیڈا کے شہری بھی ہے اس بنا پر وہ الیکشن لڑنے کے اہل نہیں کیونکہ آئین کے آرٹیکل 63 (1) (c) میں اس کی ممانعت ہے۔ قانونی نقطہ نظر سے الیکشن کا ممکنہ امیدوار ہی الیکشن کمیشن کی تشکیل پر سوال اُٹھا سکتا ہے ووٹر نہیں!لہذا درخواست خارج کردی گئی! اگر محترم واقعی اپنے مقصد کے حصول کے لئے مخلص ہیں تو دوہری شہریت کو چھوڑ پر خالص پاکستانی شہریت پر بھروسہ کرتے ہوئے دوبارہ میدان میں اُتر جائیں! مگر قانونی اعتبار سے تب بھی اُن کو اپنی نیت نیتی ثابت کرنا ہو گی! جس پر اُن کے اُس بیان سے شبہ پیدا ہوجاتا ہے جسے مصطفے ملک صاحب نے “”ساڈا ایہہ حال اے تے ساڈی امت دا کی حال ہووے دا“ والی مثال سے دیا۔
درخواست خارج ہونے پر ان صاحب نے یہ پروپیگنڈہ شروع کر دیا کہ دوہری شہریت والے پاکستانی کے حقوق سلب کئے جا رہے ہیں اور چند میڈیا پرسنز اور تجریہ نگار بھی کچھ ایسا ہی تاثر دے یا لے رہے ہیں۔ یہ ایک غلط بات ہے جیسا اوپر بیان کیا ہے۔ مختصر فیصلہ اور اخباری رپورٹ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نہ صرف محترم نے نہ صرف عدالت میں ایسے برتاؤ کے مرتکب ہوئے جو توہین عدالت کے ذمرے میں آتا ہے بلکہ باہر میڈیا کے سامنے اب تک ایسا اقدام اُٹھا رہے ہیں! معلوم ہوتا یہ دوہری شہریت کے ہی نہیں بلکہ دوہری شخصیت کے بھی مالک ہیں!

1/18/2013

مقاصد ڈی چوک انقلاب؟

اکثر دوستوں کا خیال ہے کہ قادری کو آسان فرار مل گیا! انقلاب جس بند گلی تک جا پہنچا تھا وہاں ایسا راہ فرار ایک نعمت ہے مگر کیا یہ سچ ہے؟ کیا طاہر القادری اپنے مقصد کے حصول میں ناکام رہا ہے؟
اخباری اطلاعات بمعہ شوشل میڈیا کی افواہوں سمیت پاکستان واپسی سے لے کر انقلاب کے اختتام تک کے کُل اخراجات قریب تین ارب روپے پاکستانی تھے رقم ممکن ہے اتنی ذیادہ نہ ہو مگر سرمایہ گارکو کیا اُس کے سرمائے کا اجر ملا کیا؟
طاہر القادری نے اسلام آباد آنے والے لوگوں کو چار دن ایسے ڈیل کیا جیسے ایک پیر اپنے مریدوں کو ڈیل کرتا ہے اپنے ہُجرے سے ہی پیغام اور درس!بڑے دعوے کرنا اور اور کچھ بھی ایسا ہونا جو اپنے فائدہ کا ہو اُسےمعجزہ بتانا! آدھی تقریر میں آدھا کام ہو گیا جیسے دعوے۔ مقصد انقلاب نہیں تھا! انقلاب لانے والے حاکموں سے مکالمہ نہیں کرتے! انہیں باہر کی دنیا کو خطاب سنانے کی فکر نہیں ہوتی! انقلاب رہنماؤں کے مرہون منت نہیں آتا بلکہ عوام کی خواہشوں پر ہوتا ہے۔
ہمیں پہلے دن کی جناب کی تقریر سے شک ہوا کہ جناب ممکنہ طور پر نگران سیٹ اپ میں حصہ چاہتے ہیں! اب یہ جناب ہی چاہتے ہیں یا اُن کا سرمایہ کا یہ تو کنفرم نہیں مگر یہ گول ڈی-چوک پر لوگوں کو بیٹھا کر انہوں نے وقتی طور پر بظاہر حاصل کر لیا ہے! کہ معاہدے کی دوسری شرط یہ ہی ہے۔
The treasury benches in complete consensus with Pakistan Awami Tehreek (PAT) will propose namesof two honest and impartial persons for appointment as Caretaker Prime Minister.

لہذاجناب کا بنیادی مقصد حاصل ہوا اب دیکھنا یہ ہے کہ آگے کھیل کس طرف جاتا ہے؟

12/14/2012

نوٹس ملیا تے کراچی ہلیا

کون نہیں جانتا کہ سیاست دان جو کہتا ہے وہ نہیں کرتا!! اور بدمعاش اپنے “کارکنان” کو جب صبر کی تلقین کرنے کو کہے تو مطلب جو ہوتا ہے اُس کو اہل شہر پندرہ منٹ میں جان جاتے ہیں اور باقی ملک اُس کا گواہ بن جاتا ہے۔ِ
اہل علم نے بتایا ہے کہ امن دو جنگوں کا درمیانی وقفہ ہوتا ہے اِن اہل دانش کے دور میں “ہمارا کراچی” جیسا شہر نہ تھا تو ایسے شہر میں ٹیلیفوں پر خطاب بھی نہیں ہوتا تھا ، سائنس نے اتنی ترقی جو نہ کی تھی، ورنہ تو ماہرین بتا دیتے کہ امن کی ایک قسم وہ ہے جو ٹیلیفونک خطاب سے صبر کی تلقین سے پہلے پائی جاتی ہے۔
طاقت کا حصول طاقت ہی کے مرہون منت ہوتا ہے؟
طاقت دیکھانے والا سامنے والے کو خوف میں مبتلا کرتا ہے! خوف میں مبتلا ہونے والا کوئی بھی ہو ڈھیر تو ہو سکتا ہے، ہار تو مان سکتا ہے مگر یہ ممکن نہیں ہے کہ خوف جان و مال میں مبتلا کرنے والے کو چاہے۔ عوام کو خوف سے آزاد کرنا اور رکھنا منتخب نمائندوں کا کام ہے اور جو انہیں اس خوف جان و مال میں ڈال دیں وہ حاکم نہیں قابض ہوتے ہیں۔
خود دیکھیں کون قابض ہے!
قابصین عدالتوں کا احترام نہیں کرتے بلکہ عوام کو حراساں کر کے منصفوں کو بلیک میل کرنے کی کاوش کرتے ہیں!

11/02/2012

اوطاق جو قانون

کیا کسی کو سندھی آتی ہے اگر ہاں تو اس کا ترجمہ کر دے جو یہ خاتون کہہ رہی ہے گالیوں کے علاوہ یعنی اس مرد کا منہ کیونکہ کالا کیا جا رہا ہے؟ اور کیوں سزا دی جا رہی ہے وجہ عنایت کریں!! اور آپ کی کیا رائے ہے کیا اِس کا یہ عمل درست ہے؟ بتانے والے کہتے ہیں کہ یہ میر نادر مگسی (صوبائی ۔اسمبلی کے ممبر) کی بیوی ہے اور اس کا نام راحیلہ ہے مگر ابھی یہ کنفرم نہیں

7/11/2012

بلا عنوان

میں ملک کے لئے اپنی جان تک دے سکتا ہوں! یہ جھوٹ نہیں سچ ہے ایسے دعوی وہ کرتے رہے ہیں جو عمل سے ایسا نہیں کر سکتے۔ دوسرے کو یہ تاثر دینے کے لئے کہ میں سچا ہو بات کے آغاز میں کلمہ پڑھنے والے اکثر جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ جو کہتے ہیں اخلاقیات بہت اہم ہیں وہ خود اس کی تردید اکثر اپنے عمل سے کرتے ہیں اور سوال کرنے پر اپنے اشارے، عمل اور کئی بار زبان سےہی کہہ دیتے ہے کتابی باتیں کتابوں میں اچھی لگتی ہے۔
اُوپر سے منظور شدہ “میرٹ” لیسٹ میں سے اب چناؤ اہلیت و قابلیت کا نہیں ہوتا جہالت کا ہوتا ہے جو کم جاہل ہو گا نوکر ہو جائے گا البتہ کم جہاہل کے چناؤ کے عمل میں کئی اہل و قابل افراد کو اس لئے مدعو کر لیا جاتا ہے کہ اُن میں مایوسی کے بیج کو بو کر اُن کو کسی قابل نہ رہنے دیا جائے۔
قانون معاشرتی اخلاقیات و رواجات سے جنم لیتے ہیں، جب اخلاقیات و رواجات بہتر تھے تو جو قانون بنے وہ اب اہل اقتدار کے راہ میں دشواریاں پیدا کرتے ہیں لہذا نئے “میعار” کی روشنی میں ترمیمات کی جائیں گی کہ کوئی “گرفت” میں نہ آئے۔

7/05/2012

قانون کو بدل دیتے ہیں!

کیا کریں طاقت ہاتھ میں ہیں! اہل اقتدار ہیں! جو چاہے آپ کی کابینہ کرے! آپ نہیں ہوں گے تو آپ کے بچے ہوں یہ ملک بنا ہی آپ کی حکمرانی کے لئے ہے انگریز نہ سہی انگریز کے ملک کی شہریت ہی سہی!! ایسے ہی تو نہیں ہم کہتے کالے انگریز!! آپ میں اور اُن میں ایک ہی فرق ہے وہ باہر سے گورے ہیں اندر سے تو دونوں کا حال ایک سا ہی لگتا ہے! جی بلکل ایسا جیسا ہمارا باہر سے ہے، کالا!! اندر کا رنگ دیکھنے کے لئے کوئی خاص ٹوٹکا نہیں کرنا پڑتا بس سامنے والے کے قول و فعل کو دیکھا و پرکھا جاتا ہے۔
اب آپ سے کیا پردہ! بلکہ یہ کہہ لیں آپ کا کیا پردہ سب صاف صاف نظر آ رہا ہے مگر کوئی نا سمجھ بچہ ہجوم میں نظر نہیں آ رہا جو کہہ سکے “بادشاہ بے لباس ہے” ہم تو یہ ہی کہیں گے نہایت عمدہ لباس ہے جو آپ نے پہن رکھا ہے، واہ واہ سرکار واہ واہ۔
قانون کا شکنجہ سب کے لئے ہوتا ہے یہ سب میں سب ہی تھوڑا شامل ہیں۔ سب سے مراد تو عوام ہے عوام! عوام یعنی ہے عام۔
وہ قانون جو اپنی گردن پر فٹ ہوتا ہو جو تو نظام میں فٹ نہیں لہذا قانون بدل دو لہذا فیصلہ ہوا بدل دیا جائے گا!
دوسری ملک کے شہری یہاں کی شہریت لے کر اور یہاں کے "اہل وفا" اُن سے عہد وفا کر کے بھی حکمرانی کا حق رکھیں گے اور وہ عدلیہ کی حکم عدولی پر قابل سزا نہ ہو گے!

11/26/2011

یادداشت یعنی memo

اؤئے یہ میمو گیٹ والا کیا معاملہ ہے؟
“کیوں؟ تجھے اس سے کیا لینا ہے؟”
یار ویسے ہی پوچھ رہا ہوں ہر بندہ ہی اس کی بات کرتا ہے، اس لئے پوچھ رہا تھا۔
“کچھ نہیں ہے بس ذرا فوج و حاکم مل کر 'مخول' کر رہے ہیں”
کیا مطلب ہے تمھارا؟ حسین حقانی کو سفارت سے ہٹا دیا، فوج کی مرضی کا سفیر بھیجنے کے بجائے وہ شیری رحمان کو اسمبلی سے استعفیٰ لے کر سفیر بنا کر بھیج دیا، اس مراسلے پر تفتیش ہو رہی ہے اور تمہیں یہ مخول لگتا ہے؟
“اُس میمو یا مراسلے کو چھوڑ، یہ دیکھ جہاں فوجی جرنیل و حاکم ملک میں ہونے والے ڈراؤن حملے نہ روک سکیں، دوسرے ملک کے کی فوج ملک میں داخل ہو کر فوجی کاروائی کر جائے انہیں خبر نہ ہو، دوسری فوج کے طیارے سرحدی چوکیوں پر حملہ کر کےاپنے فوجی مار جائے اور اپنی فوج کا سربراہ صرف مذمتی بیان جاری کرے۔ ابے وہاں ایک مراسلے پر تماشہ لگےیہ مخول ہی تو ہے”
تمہارا مطلب ہے کہ جرنیل و حاکم آپس میں مخول کر رہے ہیں؟
“نہیں تو”
یہ کیا مذاق ہے آپس میں تو کس سے؟ تو نے مجھے پاگل سمجھ رکھا ہے کیا؟
“ابے مخول تو یہ تیرے و میرے سے کر رہے ہیں، یعنی عوام سے۔ آپس میں تو ان کی یہ لڑائی سوکنوں والی ہے جو پیا من کو بھانے کو لڑتی ہیں، بس پیا کو یقین آ جائے میں اُس کی سکی ہوں دوسری تو ڈرامے باز۔کام ہو جائے آج جو یاداشت دجہ تنازعہ ہے وہ کل کسی کی یاداشت میں نہ ہو گی”

7/22/2011

خبر ہوئی کیا خبر ہے؟

شہر میں افواہ چل رہی ہو تو تمام نہ سہی یار لوگ کہتے ہین کچھ تو سچ ہوتا ہے ہے۔ اب کیا کریں کہ ایک خبر کے ساتھ ہی وکلاء برادری میں بھی افواہ چل پڑی ہے! خبر کیا ہے؟
خبر یہ ہے کہ جناب سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس محترم طفیل ایچ ابراہیم صاحب نے استعفی دے دیا ہے! خبر میں "حقیقی" و "آفاقی" حوالہ تو ہے مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ محترم کے پاس "اہلیان کراچی" اور "کراچی لورز" نامی دیواری چاکنک کے اصل ماں باپ کے مخالف کے کیس کی نہ صرف تنسیخ کی درخواست دائر ہے بلکہ ضمانت بھی مانگی گئی ہے۔ "آفاق" میاں گزشتہ آٹھ دس سال سے جیل میں ہیں باقی کیسوں مین ضمانت مل چکی مگر اب ایک ہی کیس رہ گیا ہے! اب جبکہ 21 اپریل کے گزٹ میں یہ قانونی ترمیم متعارف ہو چکی کہ اگر قتل کے کیس کے مجرم کا مقدمہ دو سال مین ختم نہیں ہوتا تو اُسے ضمانت پر رہا کر دیا جائے گا۔
اب افواء عام ہے کہ محترم جسٹس صاحب کی ذاتی وجوہات دراصل "خطرہ جان ہے" کیونکہ ضمانت تو بنتی ہے مگر جو "بیان" پر مشتعل ہوتے ہیں، شہر میں مئی کے مہینے میں "عوامی طاقت" کا مظاہرہ کرتے ہیں! اُن کا پریشر جسٹس صاحب برداشت نہ کر سکے!
سچ کیا ہے یہ تو اللہ ہی جانتا ہے۔ ہم تو بس افواہ کی بات کر رہے ہیں۔

اپ ڈیٹ؛ لیں جناب ایک اور جج نے کیس کی سماعت سے انکار کر دیا۔ یہ ہے مافیا کی طاقت خاص کر جب وہ سیاست میں بھی ہو اور اقتدار کا حصہ بھی۔ مگر لوگ ہیں کہ مانتے ہی نہیں۔

7/03/2011

ہم کہیں گے تو شکایت ہو گی

امریکی اسٹیٹ ڈپاٹمنٹ کی ویب سائیڈ پر اگر "سفارت کار ہو حاصل استہقاق" والی دستاویز کے صفحہ 164 پر درج ہے

In order to understand  that some control must be retained, one need only  recall the sense of outrage expressed by U.S. Citizens  whenever diplomatic immunity thwarts prosecution of  a serious crime by a diplomat assigned to the United  States. For this reason, the principle developed that  all persons enjoying privileges and immunities also  have the obligation and duty to respect the laws and  regulations of the receiving state. This principle is  expressly stated in both the VCDR and the VCCR

یعنی کہ امریکی حکومت کے بیان کردہ اصولوں میں یہ بات تو تسلیم کی گئی ہے کہ 'استہقاق کے حامل افراد کی یہ ذمہ داری و فرض ہے کہ وہ متعلقہ ریاست کے اصول و ضوابط اور قوانین کا احترام کریں'

اردو محفل کی اس پوسٹ سے معلوم ہوا کہ اسلام آباد میں موجود امریکی سفارت خانے میں پاکستان میں ہم جنس پرستوں کے جشن کی تقریب منعقد کی، پاکستان میں امریکی تعاون سے منعقد ہونے والی یہ پہلی ہم جنس پرستوں کی محفل تھی۔ یہ تقریب گزشتہ ماہ 26 جون کو منعقد کی گئی۔
یعنی گزشتہ ماہ کے آخری عشرے میں کم و بیش اس طرح کی دو تقریبات ہوئی اور ایک کو مقامی اخبارات میں من چاہی کوریج ملی! انگریزی و اردو دونوں اخبارات میں۔ پہلی تقریب جو نتھیا گلی مین ہوئی اُس کو بی بی سی نے کوریج دی۔
ہم جنس پرستی اور جنسی بے راروی ہمارے معاشرے میں درست طور پر غلط سمجھے جاتے ہیں اور ہمارا مذہب ان واہیاتیوں کی اجازت بھی نہیں دیتا اور اس ہی لئے ہمارے ملک میں موجود قوانین کے تحت یہ قابل گرفت عمل ہے۔ بات یہاں تک ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر ہر فورم پر پاکستان نے ایسے کسی بھی عمل و قانون کی حمایت سے انکار کیا جس سے ہم جنس پرستی کی حمایت کرنا مقصود ہو۔ اس کی تازہ ترین مثال بھی گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کے فورم پر امریکہ کی جانب سے ہم جنس پرستی کی حمایت میں پیش کردہ قرارداد کے موقع پر پاکستان کے نمائندہ ضمیر اکرام نے صاف طور پر کہا تھا یہ "ہم جنس پرستی کسی طور پر بنیادی انسانی حق نہیں ہے" اس کے باوجود امریکی سفارت خانے کا یہ عمل کہ پاکستان میں ہم جنس پرستوں کی تقریب منعقد کرنا اور  امریکی سفارت کار رچرڈ ہوگلینڈ کی طرف مکمل حمایت کا یقین دلانہ ایک غیر مہذب عمل اور اپنے کی بیان کردی سفارتی آداب کے خلاف ہے۔ پریس ریلیز کا متعلقہ حصہ

Addressing the Pakistani LGBT activists, the Chargé, while acknowledging that the struggle for GLBT rights in Pakistan is still beginning, said “I want to be clear: the U.S. Embassy is here to support you and stand by your side every step of the way.

جہان ہم سمجھتے ہیں کہ امریکی حکومت اور اُس کا سفارت خانہ اپنی اعمال پر خود توجہ دے اور پاکستانی عوام کے جذبات اور قوانین کا احترام کرے وہاں حکومت وقت سے بھی یہ امید رکھتے ہیں تعاون و تعلقات کو غلامی کی حدود سے باہر رکھے اور ایسے معاملات میں سخت موقف اختیار کرے۔ مگر لگتا یہ ہے کہ دونوں کام نہیں ہونے۔

6/10/2011

المیہ تو المیہ ہی ہے

سچ کو اپنی سچائی کے لئے کیا کسی کی گواہی کی ضرورت ہے؟ اگر ہاں تو یہ سچائی کے ساتھ ذیادتی ہی نہیں بلکہ ایک المیہ ہے۔
کراچی میں ہونے والی رینجر کے ہاتھوں ہونے والی دہشت گردی پر میرا وہ ہی ردعمل ہے جو سیالکوٹ والی سفاکی پر تھا!۔
دونوں واقعات کی بربریت کے گواہ اور شاہد کیمرہ مین میری نظر میں اس سفاکی و بربریت کء معاونین میں سے ایک ہیں۔