Pages

5/04/2017

بدمعاش ہیرو

ہمارے رویےہماری شخصیت کا آئینہ ہوتے ہیں۔ ہماری شخصیت کی تعمیر میں وہ تمام عوامل شامل ہیں جن سے ہم متاثر ہوں ۔ گزشتہ چند سالوں سے ہماری درمیان ایک ایسی نسل پروان چڑ چکی ہے جو بدمعاشی، گالی ، بدتمیزی، پگڑی اچھالنے اور اوچھے پن کو قابل ستائش جانتی ہے اگر یہ اس فرد کے بارے میں یا کے لئے ہو جو ان  کی نظر میں ظالم ، چور یا برا ہے۔
ہمارے رویوں میں ایک خاص خامی جو داخل ہو چکی وہ یہ کہاگر ہم نے خود کو کسی گروہ سے منسلک کیا تو ہم اس کے ہر برے فعل کے لئے بھی نہ صرف جواز تلاش کرتے ہیں بلکہ اس کو درست قرار دینے کے لئے جھوٹ (پروپیگنڈے) تک کا سہارا لے لیتے ہیں۔ایسے رویے کو شخصیت کا حصہ بنانے میں ہمارے لکھاریوں و میڈیا نے بہت اہم کردار ادا کیا۔جنہوں نے ناانصافی کا خاتمہ لاقانونیت سے کرنے کا درس اپنے قصےکہانیوں سے دیا ۔
غلط راستہ درست منزل تک نہیں لے کر جا سکتا۔اونچی عمارتیں مضبوط بنیادوں کے مرہون منت ہوتی ہیں اور مضبوط بنیادیں غیرمیعاری مواد سے نہیں رکھی جاسکتی، پھر ہم غلط رویوں اور کمزور کرداروں سے ایک بہتر معاشرہ کیسے تعمیر کر سکتے ہیں۔

گزشتہ دنوں ضلع عمر کوٹ کی تحصیل کنری کے تھانے میں ایک مقامی وڈیرے کی ایس ایچ او سے بدتمیزی کی ویڈیو ایسی ہی ایک رویے کی عکاس ہے۔


محکمہ آب پاشی سے پانی کی باری پر شروع ہونے والا جھگڑا وڈیرے کے نقظہ نظر سے ظالم کا ہاتھ روکنے کی کاوش دراصل لاقانونیت کا مظاہرہ تھی۔ یہاں بھی دونوں طرف کے گروہوں نے سوشل میڈیا پر اپنے اپنے ہیرو و ولن کی حمایت میں کہیں آدھے سچ اور کہیں پورے جھوٹ کا سہارا لیا۔
واقعہ کی جزیات اور حقیقت کے بیان سے بڑھ کر اہم یہ کہ ہم خود یہ جان لیں کہ اندھیرے کو روشنی سے ہی ختم کیا جاسکتا ہے۔ ایڈونچریس اور بدمعاش ہیرو پردے کی اسکرین پر تو گلیمر بکھیر سکتے ہیں مگر حقیقی زندگی میں اس آندھی کی ماند ہے جو تباہی پھیلاتی ہے اور ان جلتے دئیوں کوبھی بجھا دیتی ہے جو کسی حد تک روشنی کی وجہ تھے۔

8/14/2015

پاک وطن چاند ستارے والا!

اس سال بارہ اگست کو بنوریہ آرگنائزیشن و اردو سورس کے تعاون سے ہونے والے ایک تقریب میں شرکت کی جس میں امانت اللہ و نورجہاں کے گائے ہوئے گانے کا اسلامی ریمکس ورژن جاری کیا گیا. شاید یہ کسی مدرسہ کی جانب سے ملی نغمہ کی پہلی پروڈکشن ہے. آپ اسے ایک عمدہ پروڈکشن تو کہہ سکتے ہیں مگر تخلیقی کام نہیں.
اس سے قبل بنوریہ آرگنائزیشن نے علامہ اقبال کے کلام لب پہ آتی ہے دعا کا بھی اسلامی ریمکس ورژن کا اجراء کیا ہے دونوں پروڈکشن میں مفتی نعیم سمیت کئی دیگر علماء و طالبات کے محبت بھرے پیغامات ہیں.
Aye Watan Payare Watan (Pak Watan) - Binoria Media


پشاور آرمی پبلک اسکول کے سانحہ کے بعد مذہبی حلقے جس مخصوص دباؤ کا شکار ہیں اس دباؤ کو کم کرنے کی کوشش معلوم ہوتی ہے. اس پلیٹ فارم پر مقررین کا ذیادہ زور اس بات پر تھا کہ ہم مدرسہ والے ہیں بندوق والے نہیں، ایسے ہی جیسے کچھ مکتبہ فکر (میں ان میں سے ہوں) والے کہتا ہے کہ ہم دم درود والے مولوی ہیں بم برود والے نہیں. ذاتی طور پر مجھے مذہبی حلقوں کا یوں پچھلے قدموں پر جا کر ایسے اقدامات کرنا اور خود کے بنیاد پرست نہ ہونے کا اظہار کرنا اچھا نہیں لگا. اس قسم کے پروڈکشن جدت سے منسلک ہونے کی بناء پر کرنا ٹھیک ہے مگر ردعمل میں کرنا کمزوری و چوری کا اظہار لگتا ہے .

ہم ایک ایسا ہجوم ہے جس کو دوسروں پر تنقید کرنے اور ان کو دیوار سے لگانے میں خوشی ملتی ہے .
اب ایسے میں اس تنقید کے ممکنہ ڈر سے اور اپنے سافٹ امیج ابھارنے کو سامنے والا جو یہ قدم اٹھائے گا اب بھی اس پرتنقید ہو گی کہنے والوں کی زبان بندی ممکن نہیں، حلال موسیقی کی اصلاح کے پیچھے چھپے طنز کو سمجھنا ذیادہ مشکل نہیں. ہم غلط کو غلط جان کر اس میں پر قائم رہنے والہیں اور نیکی کی تلقین کرنے والے کی غلطیوں کو اس پر تنقید کرنے کا جواز مانتے ہیں.

نظریات کے اختلاف کو ذاتی نفرتوں و دوریوں کو سبب بنانے سے اجتناب کریں. قائل کرنے کی کوشش کو مسلط کرنے کی جدوجہد میں نہ بدلیں. کسی کی چوری پکڑنے کی خواہش سے ذیادہ بہتر اس بات پر شکر ادا کرنا ہے کہ اپنا پردہ و بھرم قائم ہے. یقین جانے زندگی سکون میں آ جائے گی.

  


6/16/2015

بھائی پر لطیفہ، طنز یا خوشامد؟

اہل علم نہایت سنجیدہ ہوتے ہیں ان کا مزاح بھی سبق آموز ہوتا ہے. زندگی کے کچھ شعبہ و پیشے ایسے ہوتے ہیں جن میں سنجیدہ نوعیت کے افراد کی ضرورت ہوتی ہے مراثی طبیعت و مسخرے مزاج افراد کا وہاں ہونا بگاڑ کا سبب بنتا ہے. سیاست و صحافت ایسے ہی شعبہ ہیں.


یوں تو ہمارے ملک کی سیاست میں قابل افراد کا قحط تو ہے ہی  اوپر سے اب مسخرے صفت افراد کی تعداد بھی بڑھنے لگی ہے. ایسا نہیں کہ سیاسی مسخرے پہلے نہیں ہوتے تھے مگر انہیں کبھی درجہ اول کے سیاست دان نہیں مانا جاتا تھا. جلسوں میں پارٹی قیادت کے جلسہ گاہ میں داخلے سے قبل عوام کو مصروف رکھنے کے لئے اب کی خدمات بشکل مقرر حاصل کی جاتی تھیں. پھر آہستہ آہستہ یہ کردار مقبول ہوئے اور مخالف پارٹی کی قیادت کو بے عزت کرنے کو آگے کئے جانے لگے ایک آدھ کو  اس بناء پر وزارت سے بھی نوازا گیا. جب وزارت کے حصول کے لیے مسخرہ پن بھی اہلیت بنی تو کئی سیاہ ست دان اس قابلیت کو اپنانے لگے. ماشاءاللہ اب اکثریت اس خوبی کی حامل ہے.


پیر و گدی نشین حاکموں کی قربت حاصل کرنے کو الہام و خواب کے من گھڑت قصوں کا استعمال کرتے ہیں. یہ خوابی قصے حاکم کی عظمت کو بیان کرنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں. منبروں سے ہونے والی سیاست نے جہاں ایسے کئی قصوں کو جنم دیا ہے وہاں ہی ایسے کئی کرداروں کو بھی اس قصہ گوئی کی بناء پر کامیابی سے ہمکنار کیا ہے. یہ بھی ایک المیہ ہے ایسے قصے و قصہ گو بعد میں کتابوں کی زینت بن کر "مستند " تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں.


ملک کی سیاست میں ارتقاء اب اس شعبہ کو اُس مقام پر لے آیا ہے جہاں خود پارٹی سربراہ گانوں کی گونج میں تقریر کرتا ہے، گا گا کر اپنا مدعا بیان کرتا ہے، لہک لہک کر ٹی وی اسکرین پر عجیب و غریب جسمانی حرکات کے ساتھ بیان فرماتے ہیں. ایسے میں آپ کیا خیال کرتے ہیں کہ قیادت کو خوش کرنے کو کیا کیا نہیں کیا جا سکتا؟ ابتدائی کاوشوں میں کہیں ناں کہیں کچھ غلطیاں تو ہو ہی جاتی ہیں . اس بار بھی ہو گئی، غلطیاں درست کرنے کے لیے ہی ہوتی ہیں اگلی بار کسی ایسے فرد سے منسوب کر دیں گے قصہ جو حیات ہو لیاقت علی خان و قائداعظم ان کے خواب میں آ کر "ہم نہیں ہمارے بعد، الطاف الطاف" کہے. حیران و پریشان نہ ہوں ابتداء میں ایسے بیان لطیفہ کی شکل میں وارد ہوتے ہیں جنہیں مخالفین بطور طنز استعمال کرتے ہیں اور بقایا بطور خوشامد. یہ برائی سب پارٹیاں اپنا چکی ہیں کسی کی پکڑی گئی اور کوئی بچ گیا.


اس لطیفے کو سنجیدگی سے لیا جانا خود میڈیا کی غیر سنجیدگی کو ثابت کرتا ہے. یہ خبر بریکنگ نیوز کے طور پر آئی تھی وہ تو شوشل میڈیا پر اس پر طنز ہوا تو شاید اس وجہ سے خبر کا رخ بدلا. ویسے میڈیا میں بھی تو مراثی و مسخرے داخل ہو چکے ہیں ناں. لہذا ان کا بھی غلطی نہیں ہے.


6/09/2015

بیہودہ غیر فرمائشی و بے ربط پوسٹ

فرمائش پر کچھ بھی نہیں ہو پاتا ہم سے بلکہ اب تو مزاج ایسا بد ہو چکا ہے کہ کوئی کام to do list میں ہو اور کوئی اسی کام کی فرمائش کر دے تو اسے کرنے کو دل نہیں چاہتا. کرنے بیٹھ جاؤ تو ہو نہیں پاتا. فرمائشی پوسٹ لکھا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن معلوم ہوتا ہے.

ہمارے ایک دوست کو زندگی میں دوسری بار محبت ہونے کا دھوکہ ہوا تو ہمارے پاس دوڑے دوڑے آئے کہنے لگے یار بچی بڑی ٹائیٹ ہے چھوڑنے کو دل نہیں کرتا اور بیوی بھی اچھی ہے بتا کیا کرو؟ ہم نے کہا انتظار کر. کہنے لگے کس بات کا؟ جواب دیا جب گود میں اپنی بچی آ جائے تو دماغ سے یہ معشوق بچی نکل جائے گی. پہلے مشکوک نظروں سے دیکھا پھر گالیاں دیتے ہوئے چلے گئے. آج کل بیوی و بچی کو سنبھال رہے ہیں. ایک. دن ملےتو کہنے لگے تیری زبان کالی ہے اس وقت اُن کی گود میں بچی تھی.

ہمارے ایک اور دوست نے جعلی فیس بک پروفائل لڑکی کے نام سے بنا رکھی تھی. کئی دوستوں کو ایڈ کر کے ان سے فلرٹ کر رہے تھے ساتھ میں شغل میں دوسرے کراچی کے رہائشی لڑکوں کو بھی پاگل بنا رہے تھے ایک ایک کر کے سب دوستوں سے بکرا بنانے کی ٹریٹ کھائی پھر دیگر لڑکوں پر بھی راز فاش کرنے لگے. اک دن دوسرے دوست نے بتایا کہ جناب نے ایک لڑکے کو یہ بتانے کو میں لڑکا ہوں لڑکی نہیں ایک ریسٹورنٹ میں بلایا تو معلوم ہوا سامنے سے آنے والا لڑکا دراصل اصل میں کوئی خاتون تھی جو لڑکیوں سے لڑکا بن کر فلرٹ کرتی ہے فیس بک پر! ہمارے دوست کی آئی ڈی تو ڈی ایکٹو ہو چکی اس بی بی کا معلوم نہیں. اس وقت دونوں میں سے کون بکرا بنا یہ فیصلہ کرنا ابھی بھی باقی ہے

اسکول کالج کے بچے و بچیاں رومانی کہانیاں و فلمیں دیکھ کر چاہے جانے کی خواہش میں مبتلا ہو جاتے ہیں. ایسے میں ان کے شرارتی دوست و سہیلیاں انہیں تنگ کرنے کو اس غلط فہمی میں مبتلا کردیتے ہیں کہ فلاں تمہیں عجیب نظروں سے دیکھتا ہے یوں یہ سلسلہ اس قدر آگے بڑھ جاتا ہے کہ وہ خود یہ خیال پال لیتے ہیں کہ محبت ہو گئی ہے. جبکہ یہ Love نہیں Lust ہوتا ہے. چاہے جانے کی خواہش کے زیراثر پیدا ہونے والی غلط فہمی ہوتی ہے.

پہلے پہلے تو ہم بھی اس معاملے سے نا سمجھ تھے مگر وکالت میں آنے کے بعد ایک تو پبلک ڈیلنگ کی بناء پر دوئم کورٹ میرج کے لئے آنے والے جوڑوں کے انٹرویو کرنے پر احساس ہوا کہ فلرٹ کرنے والا دوسرے کو ہی نہیں بلکہ خود کو بھی جھوٹی محبت کے دھوکے میں رکھتا ہے. اور وہ انتہائی قدم (بھاگ کر شادی) دراصل اپنی بےراہ روی کے غلطی پر پردہ ڈالنے کی وجہ سے کرتا ہے یا انا کی تسکین کے لیے کہ مسترد کئے جانے کا زخم اسے منظور نہیں ہوتا. معاشی طور پر کمزور مرد اس موقع پر واپسی کی طرف سفر شروع کر دیتے ہیں اور یوں کئی زندگیاں متاثر ہوتی ہیں.

صوفی شعراء نے عشق حقیقی کو عشق مجازی کی تمثیل سے سمجھایا. وقت گزرا جدید نئے دور میں وہ عشق مجازی کی تمثیل پردہ اسکرین پر نازیبا حرکات کرتے (گانوں)  مرد و زن کے روپ میں نظر آنے لگی ہیں اب وہ کلام غلط تعبیر و تشریح کی بناء پر دوا نہیں زہر بن گیا ہے. گزرتے وقت کے ساتھ نئی نسل محبت کو بستر پر وقت گزارنے کا بہانہ سمجھ بیٹھی ہے.

میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں میچور و سمجھدار افراد خاص اساتذہ کو بالغ ہوتے بچوں کو اس سلسلے میں educate کرنے کی ضرورت ہے ورنہ اس عمر میں کی گئی غلطی ان کی شخصیت کو اس انداز میں متاثر کرتی ہے کہ وہ اپنے اردگرد مزید تباہی کا سبب بنتا ہے.

اب دیکھ لیں یہ پوسٹ بیہودہ و بے ربط تھی کہ نہیں؟ جب عنوان سے ظاہر تھا تو وقت برباد کرنے کی کیا ضرورت تھی. اتنا ہی فالتو کا وقت ہے تو تبصرے کر کے دل کی بھڑاس نکال لیں اب وقت تو برباد ہو ہی چکا. جس شیطان سے آپ کو تحریر پڑھنے پر مجبور کیا وہ ہی آپ کو تبصرے سے بھی روکے گا.

5/19/2015

اردو + شوشل میڈیا سمٹ

قریب دو سال اور تین ماہ بعد پاکستان کے مختلف شہروں کے اردو بلاگرز آپس میں مل بیٹھیں جنوری 2013  کے آخری دنوں میں  اردو بلاگرز لاہور میں مل بیٹھے تھے جبکہ  اس بار میزبان کراچی کے اردو بلاگرز تھے مگر کراچی کے ہم بلاگرز نے اسے شوشل میڈیا سمٹ بنا دیا جو کئی اردو بلاگرز کے لئے وجہ شکایت بنا  مگر سمٹ کے بعد.

سوال اٹھائے جاتے ہیں یہ ہی سوچنے  کا حق ہے کہ ہر معاملے کا باریک بینی سے جائزہ لے  ایسے میں خدشات و اعتراضات بھی سامنے آتے ہیں مگر چند اعترازات کا جواب بس یہ ہوتا ہے کہ بندہ انہیں بے بنیاد قرار دے دے تاوقتکہ ان کے درست ہونے کی شہادت مثل پر موجود نہ ہو۔

میں نے خود نے گزشتہ کانفرنس کے متعلق جب لکھا تو اٹھنے والے خدشات سے متعلق یہ کہا تھا کہ جس کا جو مفاد ہو  اُسے عزیز ہمیں تو ملاقات کا ایک عمدہ بہانہ  مل گیا ساتھ میں اختتام ان الفاظ پر کیا تھا

! سو باتوں کی ایک بات اردو بلاگر پھر اردو بلاگر ہے جو اپنی دنیا آپ بناتے ہیں وہ اپنی قیمت نہیں لگاتے کیوں کہ وہ جانتے ہیں ہمارے انمول ہونے کی ایک نشانی یہ ہے کہ ہم اردو بلاگر ہیں! کوئی لاکھ کوشش کرے مگر ہم رضیہ نہیں ہیں بلکہ کچھ کے لئے “بلا” ہیں جو سچ کہنے کا “گُر” جانتے ہیں!!
باقی آپ سمجھ دار ہیں !!!


اس سمٹ سے مجھے ایک  دلچسپ مشاہدہ ہوا کہ جس طرح میرے جیسے اردو میڈیم والے انگریزی زبان سے جھجک محسوس کرتے ہیں اس ہی طرح ایک مخصوص تعداد میں انگریزی میڈیم والے اردو زبان سے خوف محسوس کرتے ہیں۔ انگریزی میڈیم اسکول کے فارغ و تحصیل انگلش بلاگرز صاف اردو بولنے کی ناکامی کی وجہ سے سمٹ میں پریزنٹیشن سے انکاری ہوتے رہے، اگرچہ متعلقہ موضوع پر انہیں کافی عبور حاصل تھا بلکل ایسے جس طرح اچھی کارکردگی دیکھانے کے بعد کھلاڑی مین آف دی میچ نہ بننے کی دعا کرتا ہے۔

سمٹ والا دن کافی ہنگامہ خیز تھا یہ ہمارا سمٹ والے دن خیال تھا مگر بعد میں معلوم ہوا ہنگامہ توابھی باقی ہے ۔ انسان خطا کا پتلا ہے غلطیاں ہوئی ہیں اور پہلی بار تھی ہونا بنتی بھی تھیں انہیں نوٹ کریں تاکہ آئندہ نہ ہوں لڑائی یا طنز نہیں۔ سوال اٹھانے اور طنز کرنے میں بڑا فرق ہے. جب طنز کرتے ہوئے یا طنز کرنے کے بعد سوال اٹھائے جاتے ہیں تو یہ خیال کیا جاتا ہے کہ سوال کا مقصد تنگ کرنا لہذا خاموشی ہی بہترین جواب  ہے.

اس سمٹ سے کیا فائدہ ہوا؟ اس کا مقصد کیا تھا؟ کچھ فوائد فوری ہوتے ہیں اور کچھ کافی عرصے کے بعد سامنے آتے ہیں. ایسے فوائد جو دیر سے حاصل ہونے ہوں ان کے لئے ایک خاص قسم کے فالو اپ کی ضرورت ہوتی ہے خدا کرے ہم اس کے لیے مطلوبہ اقدامات کر سکیں.
اہم بات یہ کہ روایتی میڈیا نے تسلیم کیا سوشل میڈیا ایک بڑا میڈیم ہے، نیز یہ کہ وہ تو روزی روٹی کما رہے ہیں اصل حق گوئی تو صرف سوشل میڈیا پر ہی ممکن ہے. بڑے اداروں میں مالکان کی دی گئی لائن پر کام کرنا ہوتا ہے اور جبکہ سوشل میڈیا پر دل و ضمیر کی. یہ بھی کہ روایتی میڈیا کے سو سال پر سوشل میڈیا کا ایک دن بھاری ہے.

ہم اردو بلاگرز کو اپنا حلقہ احباب بڑھانا ہو گا اپنے کنویں سے باہر جانا ہو گا. اب سے پہلے میرا یہ خیال تھا اردو بلاگرز  خودنمائی نہیں چاہتے مگر معلوم ہوتا ہے ایسا کوئی جذبہ ہم میں موجود ہے. جہد مسلسل ہمیں خود ہی نمایاں کر دے گی بس سفر جاری رہنا چاہئے اور ایک دوسرے سے منسلک.