Pages

4/21/2013

سالارجیل میں

وقت وقت کی بات ہے۔ کبھی دل میں آتا تھا تو قلم کی جنبش سے ایک نوٹیفکیشن جاری ہوتا اور قانون وجود میں آ جاتا تھا مگر آج جناب خود قلم کی جنبش کی زد میں آ کر قانون کے شکنجے میں ہے۔ جو دہشت گردوں سے جنگ لڑنے کی بات کرتا تھا آج خود دہشت گردی کے الزام کا سامنا کررہا ہے۔جناب سپا سالار ہوتے تھے اب سپاہیوں کی قید میں ہوتے ہیں۔ غلط فیصلے غلط جگہ پر پہنچا دیتے ہیں اور ایسے فیصلے کبھی درست مشوروں سے حاصل نہیں ہوتے۔
مشیر کا انتخاب حکمران کے اقتدار کا دو رانیاں طے کرتا ہے۔اور وکیل کا انتخاب ملزم کے مجرم تک کے سفر بارے قیاس کرتا ہے۔ جس کیس میں جناب کی پکڑ ہوئی اس میں جناب کا گرفت میں اتنی آسانی سے آنا نہیں بنتا تھا۔ قابل ضمانت جرائم میں ملزم کو ضمانت درخواست کے بغیر ہی مل جاتی ہے مگر جناب کے ساتھ وہ معاملہ یوں ہوا کہ نمازیں بخشو انے گئے روزے گلے پڑھ گئے والا ہوا ضمانت تو کیا ملنی تھی ATC کی دفعہ سات بھی شامل کر دی گئی۔
خود کو بڑا منوانے والے لوگوں کو تھانے جانے میں بڑی تکلیف ہوتی ہے، اس تکلیف میں وہ جیل میں چلیں جاتے ہیں۔ جناب بھی شاید اس ہی مسئلہ کا شکار ہوئے ورنہ متعلقہ تھانے جا کر اگر ایس ایچ او سے ملاقات کرتے وہاں بیٹھ کر کافی و سگار سے لطف اندوز ہو کر آتے تو اج اپنے ہی فارم ہاؤس میں قید نہ ہوتے۔ اس جرم میں جناب کی ضمانت تھانے دار یا تفتیشی آفیسر بھی لے سکتا تھا۔ اگر عدالت جانے کا اتنا ہی شوق تھا تو جناب جب کراچی میں سندھ ہائی کورٹ میں پیش ہوئے تب transit بیل لی تھی تب اسلام آباد میں ضلعی جج کے سامنے پیش ہو کر ضمانت لے لیتے وہ اگر رد بھی کرتا تو دہشت گردی کی دفعات کو اضافہ تو نہ کرتا کہ یہ اُس کے پاس ایسا کوئی اختیار نہ تھا مگر بدقسمتی جس کو یہ اختیار تھا جناب اُس کے ہی سامنے پیش ہوئے اور در لئیے گئے۔ ہم نے یہاں دیکھا ہے کہ ہمارے سینئر وکیل اکثر کلائینٹ کا معاملہ نچلی عدالتوں کے بجائے اعلی عدالتوں میں براہ راست لے جاتے ہیں جس سے ایک تو ریلیف جلدی مل جاتا ہے دوسرا فیس اچھی مل جاتی ہے۔ یہاں یقین فیس کا معاملہ نہ ہو گا مگر اس توپ سے مکھی نہ مری اور نقصان الگ ہوا۔
سچی بات تو یہ ہے کہ جناب کا اقتدار اور اس یوں ذلیل ہونا میری ذات کو بہت کچھ سکھا گیا اور سیکھا رہا ہے۔ دنیا داری کے اعتبار سے بھی اور پیشہ وارانہ زندگی کے لحاظ سے بھی۔
کہانیوں میں پڑھا تھا، تاریخ نے بتایا تھا کہ بادشاہ قید ہوتے ہیں، مارے جاتے ہیں، ذلیل ہوتے ہیں مگر یہ سب تب ہی ہوتا ہے جب اُن میں غرور ہو تکبر ہو، انسانیت نہ ہو! پھر وہ کتنے ہی عقل کُل کیوں نہ ہوں لوگوں کی بد دعائیں انہیں نالائق مشیروں اور ظالم دشمنوں سے لڑوا دیتی ہے۔ قانون قدرت سے زیادہ ظالم دشمن کون ہو گا؟ آج ایسی تاریخ کو خود بنتے دیکھ رہا ہوں!اگر ایسے کیس مین ایسی گرفت ہے تو باقی میں خدا خیر کرے۔ سالار جیل میں ہے اور یار لوگ کہہ رہے ہے سالا جیل میں ہے۔

5 تبصرے:

شازل نے لکھا ہے کہ

عبرت کا مقام ہے میں نے پہلے بھی ایک جگہ کہا ہے کہ مظلوموں کا خون رنگ لائے گا انشاءاللہ۔

محمد ریاض شاہد نے لکھا ہے کہ

مجھے یہ سب دیکھ کر اس لیئے بھی خوشی ہو رہی ہے کہ یہ پاکستان میں ایک نئے دور کی شروعات ہیں

افتخار اجمل بھوپال نے لکھا ہے کہ

تبدیلی ہمیشہ عوام لاتے ہیں اور اُنہیں ایک قیادت کی ضرورت ہوتی ہے جو اپنی جان پر تو کھیل مگر ثابت قدم رہے ۔ قیادت عدالتِ عظمٰی کے ججوں نے مہیاء کی ۔ تحریک قانون دانوں نے شروع کی اور تبدیلی کا آغاز 2007ء میں ہو گیا اور اللہ کرے یہ تبدیلی درست راستے پر آگے بڑھتی جائے ۔ پرویز مشرف کے خلاف کاروائی اسی تبدیلی کے زیرِاثر ہے ۔ مخالف قوتیں اسی تبدیلی کو روکنے کی کوشش میں ہیں

Unknown نے لکھا ہے کہ

کونسے مظلوموں کا خون بھای صاحب

افتخار راجہ نے لکھا ہے کہ

چلیں شروعات تو ہوئ، ہر خناس کا اینڈ یہی ہو تو دنیا امن کا گہوارہ بن جاوے

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے

نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔