Pages

12/03/2006

حدودآرڈنینس کا مقدمہ

یہ ایک عدالت کا منظر ہے۔ حدود آرڈنینس عدالت کے کٹہرے میں موجود ہے۔ مطالبہ ہے کہ اس قانون کو منسوخ کر دیا جائے۔ مدعی کی وکیل کچھ خواتین این جی اوز ہیں اور چند ریٹائیرڈ جج صاحبان بھی ان کی قانونی مشاورت کے لئے موجود ہیں۔ حدود آرڈنینس کی صفائی پیش کرنے کے لئے کچھ مذہبی جماعتوں کی خواتین وکلاء موجود ہیں۔ ان کی مشاورت کے لئے کچھ علماء اکرام موجود بھی ہیں۔ چشم تصور میں سارا منظر نگاہوں کے سامنے موجود ہے۔
جج صاحبان کے کمرہ عدالت میں داخل ہونے پر تمام لوگ کھڑے ہوجاتے ہیں۔ وکیل استغاثہ اپنے مقدمے کے حق میں دلائل کے لئے اُٹھتی ہیں۔ ان کاکہنا ہے کہ قانون مارشل لاء کے دور میں نافذ ہوا ہے۔ اس کے اجرا سے قبل کسی قسم کا مباحثہ نہیں ہوا۔ یہ وہ دور تھا جناب والا جب ملک میں پارلیمنٹ موجود نہ تھی۔ کسی اسمبلی یا سینٹ نے اس قانون پر غور نہیں کیا۔ وکیل صفائی نے تردید کرتے ہوئے کہا کہ اس قانون پر چودہ ماہ تک غوروخوص ہوا تھا اور بیرون ملک سے بھی ماہرین کو بلوایا گیا۔ اگر فوجی حکومت کے دور میں کسی قانون کا نفاذ اس کی منسوخی کی وجہ ہے تو ملک میں نصف عرصہ باوردی اداروں نے حکومت کی ہے۔ اس طرح تو 1958 کے بعد سے آدھے قوانین منسوخ کرنے پڑ جائیں گے جس میں ایوبی آمریت میں نافذ ہونے والا مسلم فیلمی لاء آرڈنینس بھی شامل ہے۔ اگر حکمرانوں کی غیر قانونی حکومت کسی قانون کی منسوخی کی وجہ بن رہی ہے تو انگریزوں سے بڑھ کر کس کی حکومت غیر قانونی ہو گی۔ سات سمندر پار سے حکومت کرنے والے گوروں کے تعزرات پاکستان اور ضابطہ فوجداری کو یہ عدالت کس گنتی میں شمار کرے گی؟
وکیل استغاثہ اپنے نئے دلائل پیش کریں۔ ایک جج صاحب نے حکم دیا۔ جناب والا! زنا آرڈنینس کے تحت عموما زنابالجبر کے مقدمات زنابالرضا میں بدل جاتے ہیں۔ آپ کیا کہتی ہیں۔ جج صاحب نے صفائی کی وکیل کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔ جناب والا! جب کوئی مقدمہ پولیس کے روبرو پیش ہوتا ہے تو صورتحال واضح نہیں ہوتی کہ معامل جبر کا ہے یا رضامندی کا۔ حدودآردنینس میں زنا کو دفعہ 10 میں شامل کرکے اس لئے دو ذیلی دفعات میں علیحدہ علیحدہ پیش کیا گیا ہے۔ جب پسند کی شادی کرنے والا جوڑا گرفتار ہوجاتا ہے یا لڑکی کے ماں باپ لڑکے کے خلاف اغواء کا مقدمہ درج کرواتے ہیں تو وہ اس صورت حال کو زبردستی کی شادی شکل میں پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ کبھی کبھار سترہ اٹھارہ سالہ بالغ لڑکی کو 13/14 سال کی نابالغ بچی بھی ظاہر کیا جاتا ہے۔ جب پو لیس لڑکے اور لڑکی کا بیان لیتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ دونون کا یہ عمل رضامندی کے ساتھ ہوا تھا۔ جناب والا! ایسے مقدمات قانونی رسالوں میں جابجا ملتے ہیں کے لڑکی نے لڑکے کے ساتھ ریل میں سفر کیا ہوٹل میں قوت گزارا، فیلمی دیکھیں اور تصویریں بھی کھنچوائیں لہذا حدود آردنینس اس بات کا تعین عدالت پر چھوڑتا ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ معاملہ زبردستی ہوا تھا یا رضامندی کے ساتھ۔
یہ خوتین کے ساتھ سراسر ذیادتی اور الزام تراشی ہے یہاں استغاثہ کی وکیل کا احتجاج بھی تھا اور صفائی کی وضاحت بھی۔ می لارڈ! میری فاضل دوست کا یہ مقدمہ اس بنیاد پر ہے کہ مرد ہمیشہ ظالم ہوتا ہے اور عورت ہمیشہ مظلوم، مرد ہمیشہ برا ہوتا ہے اور عورت ہمیشہ اچھی۔ حقیقت یہ ہے کہ مرد بھی اچھا یا برا ہو بھی ہوسکتا ہے اور عورت بھی اچھی یا بری ہو سکتی ہے۔ وکیل صفائی تشریف رکھیں۔ استغاثہ مقدمے کو آگے بڑھائے۔ جناب والا!اگر کسی مرد کو ذیادتی کرتے ہوئے کچھ عورتیں دیکھیں تو مرد کو حد کی سزا نہیں دی جاسکتی۔ وکیل صفائی بتانا پسند کریں گی کہ کیا ایسے مرد کو رہا کر دیا جائے جیسے لڑکیوں کے ہاسٹل میں ذیادتی کرتے صرف عوتوں نے دیکھا ہو؟ عدالت نے سوال اٹھایا۔ اس نقطے پر دو دلائل پیش کروں گی۔ پہلا یہ کہ حد لاگو نہ ہونے کی صورت میں تعزیر کا قانون موجود ہے۔ کسی ظالم مرد کو بری کرنے سے پہلے کسی بھی جج کو دس مرتبہ سوچنا پڑے گا۔ دوسری دلیل یہ کہ یہ بات صرف کہنے کی حد تک ہے۔ اگر چند عورتیں بھی جمع ہو جائیں تو ذیادتی کرنا تو بڑی بات ہے آوازیں کسنے والے مرد کے لئے ہڈیاں اور بال بچانا ممکن نہیں ہوتا یسا مرد نہ عورتوں کے ہاتھوں سے بچ سکتا ہے اور نہ کسی اسلامی عدالت کی سزا سے۔
وکیل استغاثہ نے حدود آرڈنینس کی دفعہ 8 کا حوالا دیتے ہوئے کہا کہ مجرم کو حد کی سزا اس وقت سنائی جا سکتی ہے جب اسے چار عاقل، بالغ اور صاحب کردار مسلمانوں نے ذیادتی کرتے ہوئے دیکھا ہو۔ جو کبھی ممکن نہیں ہوسکتا۔ اس اہم معاملہ پر آپ کیاکہتی ہیں۔ جج صاحب نے وکیل صفائی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔ جناب والا! میری فاضل دوست دو باتوں کو ایک بار پھر نظر انداز کر رہی ہیں۔ ایک طرف تعزیر کو بالکل بھلا دیتی ہیں جبکہ دوسری طرف واقعاتی شہادت اور جج کے کردار کو بھی نظرانداز کر دیتی ہیں۔ حدود آردنینس صرف قانون کی کتاب کا نام نہیں بلکہ اس کے ساتھ ایک عدالت بھی موجود ہوتی ہے جو حالات۔ واقعات اور شہادت کی بنیاد پر فیصلہ کرتی ہے۔
زنا بالجبر کا ذکر قرآن میں کہیں نہیں لہذا اسے زنا شمار نہیں کرنا چاہئے۔ یہ وکیل استغاثہ کی دلیل ہے یہ بالکل غلط ہے جناب والا! احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم، تفاسیر صحابہ اور فقہ کے قوانین میں واضح طور پر زنابالجبر کے احکامات موجود ہیں اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ عورت کے ساتھ ذیادتی کی گئی سزا مرد کو ملتی ہے عورت کو نہیں۔ وکیل استغاثہ نے نقطہ اٹھایا کہ مظلومہ عورت کی گواہی تسلیم نہیں کی جاتی۔ وکیل صفائی نے کہا جناب والا! مظلومہ عدالت کے روبرو مدعی بن کر آتی ہے وہ مرد پر الزام عائد کر رہی ہوتی ہے لہذا صرف اس کی گواہی کی بنیاد پر مرد کو اس وقت تک سزا نہیں دی جاسکتی جب تک حالات، واقعات اور دوسرے گواہ عورت کے حق میں بیان نہ دیں ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ کوئی فاحشہ عورت کسی شرف مرد پر الزام لگا کر اس کی زندگی تباہ کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔
طلاق یافتہ عورت اگر دوسری شادی کرلے تو سابقہ شوہر اغواہ کا کیس بنا دیتا ہے۔ وہ کیسے؟ جج نے پوچھا۔ اگر عورت طلاق کا تصدیق نامہ یونین کونسل کے چیئرمین سے حاصل نہ کرے۔ کیا جواب ہے آپ کے پاس۔ جج صاحب نے وکیل صفائی سے پوچھا۔ جناب والا! یہ شرط تو مسلم لاء آرڈنینس لاگو کرتا ہے۔ اس خامی کو حدود آرڈنینس کے کھاتے میں ڈالنا ذیادتی ہے۔ مزید یہ کہ فیڈرل شریعت کورٹ نے ایسی ذیادتی کو تقریبا ناممکن بنا دیا ہے۔
وکیل استغاثہ نے کہا جناب والا! میں آپ کی توجہ جسٹس ناصر اسلم زاہد کی رپورٹ کی طرف دلاؤں گی جو انہوں نے 1997ء میں ویمن کمیشن کے سربراہ کی حیثیت سے جاری کی تھی وہ کہتے ہیں کہ حدود آرڈنینس کے نفاذ کے بعد کیسوں کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے۔ جو خواتین جیلوں میں مختلف جرائم میں قید ہیں ان کی تعداد 40 فیصد ہے۔ جبکہ ایک سروے کے مطابق 85 فیصد عورتیں حدودآردنینس کے سبب قید ہیں۔ وکیل صفائی نے تردید کرتے ہوئے کہا میرے پاس فیڈریل شریعت کورٹ کی تین سالہ رپورٹ ہے جو وکیل استغاثہ کے دعوٰی کی تردید کرتی ہے۔ انہوں نے جج صاحب کی طرف رپورٹ کی فوٹو کاپی بڑھاتے ہوئے کہا کہ قیدی عورتوں کی 14فیصد تعداد حدود کے مقدمات میں گرفتار ہے جبکہ 86فیصد عورتیں دیگر جرائم کے سبب قید ہیں۔ جناب والا! کہ ایسے مقدمات میں سزا پانے والے مرد 300 ہیں جبکہ عورتیں 50 ہیں۔ یہ ایک اور چھ کا تناسب ہے۔ جج صاحب نے کہا عدالت آدھے گھنٹے کے وقفے کے بعد فریقین کا تفصیلی موقف سنے گی۔
جج صاحبان عدالت میں آئے۔ حدود آرڈنینس کے مقدمات کی فائل ان کی جانب بڑھائی گئی۔ تفصیلی اور حتمی دلائل کے لئے استغاثہ اور صفائی کی خواتین وکلاء حاضر تھیں۔ استغاثے کی جانب سے خوتون وکیل نے اپنی گفتگو کو آگے بڑھائے ہوئے کہا۔ جناب والا! صدیوں سے محروم و مظلوم خواتین کو رعایت دینے کے بجائے ان پر حدودآردنینس کی شکل میں ایک اور طلم کیا گیا ہے۔ مردوں کے معاشرے میں عورت کو امتیازی قانون کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ وہ 10 فروری 1979 کا المناک دن تھا جب اس قانون کو نا فذ کیا گیا- اس قانون کے تحت عورت کو سنگسار کرنے کی سزائیں بھی سنائی گئیں اور کوڑے مارنے کا احکامات بھی دیئے گئے۔ نابینا عورت صفیہ بی بی کے ساتھ بھی نچلی عدالت نے کوئی رعایت نہ کی۔ ملزمان کو شہادت نہ ہونے کے سبب رہا کردیا گیا اور آنکھوں کی نعمت سے محروم عورت رسوائی کی اندھی قبر میں دفن کردی گئی۔ اگر یہ اچھا قانون ہوتا اور معاشرے میں بہتری آتی تو مقدمات اور سزاؤں کی تعداد میں کمی ہونی چاہئے تھی۔ جناب والا! اس قانون کے نفاذ کے بعد زنا کے مقدمات میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا ہے۔ معاشرہ ترقی کے بجائے تنزلی کی جانب بڑھ رہا ہے۔ مختلف حکومتوں کے نصف درجن کے لگ بھگ کمیشن اس کی منسوخی کا مطالبہ کرچکے ہیں۔ کوئی قانون دان کسی اچھے قانون کی منسوخی کا مطالبہ نہیں کرتا۔ اگر ہر طرف سے دھواں اٹھ رہا ہے تو ضرور آگ لگی ہوئی ہے۔
جناب والا! جاگیردارانہ معاشرے مین یہ قانون ظالم کو ایک اور ہتھار فراہم کرتا ہے۔ میں ایک بار پھر کہوں گی کہ ایک تہائی عورتیں اس آرڈنینس کی زد میں ہیں میری فاضل دوست ابتدائی سماعت کے دوران اس میں جزوی ترمیم کی ضرارت کو تسلیم کر چکی ہیں۔ جناب والا! یہ ایسے کپڑے کی مانند ہو چکا ہے جو کہیں سے ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ اسی اگر ایک جگہ سے سینے کی کوشش کی جائے تو وہ دو جگہ سے پھٹ جائے گا۔ مین اس عدالت کی توجہ ایک اہم نکتے کی جانب مبذول کروانا چاہوں گی کہ اب تک حدود آرڈنینس کا شکار ہونے والی خواتین کے مقدمات کے فیصلوں کی کیا صورت حال ہے۔ یہ سن کر حیرانی ہوتی ہے کہ نوے فیصد خواتین ایسے مقدمات میں باعزت بری ہو جاتی ہیں۔ ایک طرف انہیں رہا کر دیا جاتا ہے لیکن کیا مقدمات کی رسوائی کے بعد کوئی عورت باعزت با عزت رہ سکتی ہے۔ معاشرہ اسے پہلے کی طرح قبول کر لیتا ہے؟ غیروں کو تو چھوڑیں جناب والا! اس کے اپنے ماں باپ بھائی اور بیٹے تک اسے قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔
وکیل استغاثہ اپنے دلائل کے اختتام پر تھیں۔ انہوں نے آئین کے آرٹیکل پچیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ دفعہ جنس کی بنیاد پر کسی قسم کی تفریق کی ممانعت کرتی ہے۔ حدود آردنینس آئین کے عطا کردہ بنیادی حق کی نفی کرتا ہے صنف کی بنیاد پر امتیاز برتنے والا یہ قانون اس قابل ہے کہ اسے منسوخ کردیا جائے تاکہ انے والی نسل کی بچیاں اس کے بھیانک اثرات سے محفوظ رہ سکیں۔
Thats all your Honour
وکیل صفائی اٹھیں اور اپنے دلائل کا آغاز کیا۔ جناب والا! حدودآردنینس کو منسوخ کرنے کا مطالبہ غلط ہے۔ کسی بھی قانون میں جزوی خامیوں یا اس کے نفاذ میں تکالیف کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہوتا کہ قانون منسوخ کردیا جائے۔ ٹریفک کے قوانین کی خلاف ورزی کا یہ مطلب نہیں کہ قانون غلط ہے۔ قتل کے مجرموں کو پھانسی کی سزا دیئے جانے کے باوجود قتل ہو رہے ہیں۔
جناب والا! حدودآردنینس سے قبل زنا کوئی جرم نہ تھا۔ فحاشی کے برے اثرات کو روکنے کا کوئی ذریعہ نہ تھا۔ اگر کوئی عورت اور مرد باہمی رضامندی سے زنا جیسے برے فعل کے مرتلب ہوتے تو اسے تعزیرات پاکستان افراد کا ذاتی معاملہ قرار دے کر چشم پوشی کرتا تھا۔ جناب والا! جرائم 1979 سے پہلے بھی ہوتے تھے لیکن گرفت میں نہ اتے تھے۔ جب قانون نافذ ہوا اور معاشرے کے برے افراد کی رنگ رلیوں پر گرفت کی گئی تو اعدادو شمار بڑھ گئے۔ یہ جرائم میں اچانک اضافہ نہیں بلکہ جرم کے مرتکب افراد کو قانون کے دائرے میں لانے اور معاشرتی تالاب سے گندی مچھلیوں کا نکال باہر کرنے کی کوشش ہے۔ کیا 200 سال قبل کینسر، ٹی بی اور ایڈز کے امراض نہ تھے؟ بیماریاں تو اس وقت بھی تھیں لیکن ان کی تشخیص نہیں ہوئی تھی۔ معاشرے میں فحاشی پہلے بھی تھی لیکن اسے جانچنے کا کوئی آلہ نہ تھا۔ حدودآرڈنینس الٹراساونڈ اور ایکسرے مشین ہے جس نے معاشرے کے فاسدمادوں اور برے عناصر کو اہنی گرفت میں لے لیا ہے۔ اتنا شور اسی لئے ہے کہ آزادانہ ماحول میں رکاوٹ نہ ڈالی جائے اور گل چھڑے اڑانے کی راہ میں کوئی قانون دیوار نہ بنے۔
عورتوں کی ہمدردی کے نام پر حدود آرڈنینس کا منسوخی کا مطالبہ صنف نازک پر ظلم کی ایک شکل ہے۔ اگر کوئی معاشرہ ایک شادی سدہ مرد کو چراہگاہ فراہم کردے کہ جہاں اس کا دل چاہے وہ جگالی کرتا پھرے تو بیعی کا کیا ہو گا جناب والا! جو اس مرد کے گھر کی دیکھ بھال بھی کرتی ہے اور اس کے بچوں کی پرورش بھی۔ یہ قانون رنگین مزاج مردوں اور شمع محفل بننے والے عورتوں کے دماغ کو درست کر کت باوفا بیویوں کو تحفظ دینے کا قانون ہے۔ تعزیرات پاکستان صرف کسی کی بیوی سے ناجائز تعلقات کو جرم قرار دیتا ہے۔ اس کی وجہ جرم زنا کی شدت نہیں بلکہ مرد کے ساتھ ہونے والی دھوکہ دہی ہے۔اگر عورت کسی کے بیوی نہ ہو یعنی کوئی کنواری، بیوہ یا طلاق یافتہ کسی مرد کے ساتھ زنا کی مرتکب ہوتو تعزیرات پاکستان حرکت میں نہیں آتا۔ انگریزی قانون کسی شادی شدہ مرد پر پابندی نہیں لگاتا کہ وہ کسی بھی عورت سے ناجائز تعلقات استوار کرکے اپنی بیوی کے ساتھ بیوفائی کے جرم کا مرتکب نہ ہو۔
اسلامی قانان زنا کو بدکاعی اور بدکاری کو زنا قرار دیتا ہے۔ انگریزی قانون زنابالجبر یعنیRape کو تو سنجیدگی سے لیتا ہے لیکن ایک مرد و عورت کو باہمی رضامندی سے بدکاری یعنی Adultery اس کے نزدیک گراں نہیں۔ وہ اسے فرد کا ذاتی معاملہ قراد دے کر کم تر سزا مقرر کرتا ہے۔ اس کی یہی قانون سازی اس کے معاشرے میں لاولد اور وناجائز بچوں کی بہتات کی وجہ ہے۔ کیامیری فاضل دوست اور مختلف این جی اوز مغرب کے اس ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں کہ پاکستان میں بھی یہی کچھ ہو جائے۔ جناب والا! گنتی کے چند اسلامی ممالک ہیں جس کا بالائی طنقہ مغرب سے کچھ مختلف نظر آتا ہے۔ پاکستان ان میں سے ایک ہے۔ ایران، افغانستان اور سعودی عرب کے علاوہ دیگر اسلامی ممالک کی ایلیٹ کلاس اور مغرب کے عام معاشرے میں کوئی فرق نظر نہیں۔ مغربی دنیا کروڑوں کے فنڈز اسی لئے این جی اوز کو دے رہی ہے کہ وہ ان کے ایجنڈے کو پورا کر سکیں اور اسلامی ممالک کو مغرب کت رنگ میں رنگ سکیں۔
جناب والا! آخر میں میں کچھ ایسے معاملات پر دلائل پیش کرو ں گی جنہیں تسلیم کر لیا جائے تو بڑی حد تک خوتین کی تکالیف کا ازالہ ہو سکتا ہے۔ زنا کے مقدمات میں گرفتاری کا تصور نہیں لہذا ایسے مقدمات میں خواتین کی ضمانت کو مزید آسان کیا جانا چاہئے۔ عورت کے خلاف بدکاری کا الزام عائد کرنے والے کو اسی وقت قذف کا نوٹس جاری کیا جائے۔ الزام ثابت نہ ہونے کی صورت میں بغیر کس تاخیر کے قذف کی کاروائی شروگ کردی جائے تاکہ پاک دامن عورتوں پر جھوٹا الزام لگانے والا اپنی پیٹھ کی طاقت بھی جانچ سکے اور اپنی ہڈیوں کی مضبوطی بھی دیکھ سکے۔ جاگیردارانہ خرابیوں کا ملبہ حدودآرڈنینس پر نہیں ڈالا جاسکتا۔ اسلام وٹےسٹے کی شادیوں، لڑکیوں کے گھر سے بھاگ کر شادی کرنے، قران سے شادی کرنے یا کاراکاری کے سخت خلاف ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ حدودآرڈنینس کی جزعی خامیوں کو دور کرکے اسے خوتین کے دکھ دور کرنے کا ذریعہ بیایا جائے۔ ہماری خواہش ہے کہ سادہ و گھریلوں عوتوں کے عاشق مزاج شوہروں کو بھی لگام دی جائے اور شریف شوہروں کی رنگین مزاج بیویوں کی نکیل بھی کس دی جائے تا کہ کوئی بھی مردیاعورت اپنے شریک زندگی سے بے وفائی کا مرتکب نہ ہو۔
That all your honour
جج صاحب نے ریماکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ دونوں جن مکاتب فکر کی نمائندگی کرتی ہیں اگر وہ ایک دوسرے سے الجھنے کے بجائے یہ قوت، توانائی اور پیسہ ان خواتین کو رہا کروانے کی جانب مبذول کروائیں تو بہتر ہو جو شخصی ضمانت اور وکیل نہ ہونے کے سبب جیلوں میں سڑ رہی ہیں۔ تصوراتی عدالت نے فیصلہ آئندہ تاریخ تک محفوظ کر لیا۔

(ماخذ؛ عدلیہ تاریخ کے کٹہرے میں۔۔۔اشاعت؛2004۔۔۔۔تحریر؛ محمد براہیم عزمی ایڈوکیٹ)

نئے قانون پر صدر کے دستخط ہو چکے لہذا ممکن ہے کہ اگلے دس بارہ دنوں میں اس کا مسودہ سندھ ہائی کورٹبار کی لائبریری میں آجائے ہاتھ لگتے ہیں اس پر اپنی رائے دوں گا ویسے زنا اور زنا بالجبر والے معاملے میں مولوی سچے لگتے ہیں۔

2 تبصرے:

گمنام نے لکھا ہے کہ

شعیب بھائی۔۔۔مضمون اچھا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے ملک میں قانون کا خیال کون کرتا ہے؟ ایسے ہزاروں قوانین ہیں جو ہمارے ہاں رائج ہیں لیکن عمل ندارد۔ اس قانون کا قضیہ بھی محض سیاست چمکانے کیلیے چھیڑا گیا۔

گمنام نے لکھا ہے کہ

معذرت خواہ ہوں کہ اپنے بلاگ پر آپ کے 27 نومبر کے تبصرہ کا جواب آج دے سکا ۔ ميں لاہور گيا ہوا تھا ۔ مجھے سب پروکسيز ياد نہ تھيں اور پی کے بلاگ سے ميں تبصرہ والا حصہ کھول نہ پا رہا تھا ۔ ميں نے آپ کی اس تحرير پر بھی کچھ لکھنا چاہا مگر ناکام رہا ۔ اب کسی اور پراکسی سے اپنے بلاگ پر سب جواب ديئے ہيں اور يہاں بھی لکھ رہا ہوں ۔

محمد ابراہیم عزمی ایڈوکیٹ نے دو سال پہلے اچھا نقشہ کھينچا ۔ ميں نئے قانون کی نقل حاصل کرنے ميں ابھی تک ناکام ہوں ۔ اگر آپ کو مل جائے تو اس کی صرف دفعات کے مندرجات نقل کر ديں تو نوازش ہو گی ۔ مجھے اسمبلی کے رکن سے کچھ دفعات کا پتہ چلا ہے جو شريف عورتوں کے خلاف ہيں البتہ اوباش عورتوں کے کام آ سکتی ہيں ۔ اللہ ہميں اور ہماری ماؤں بہنوں کو محفوظ رکھے ۔

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے

نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔