Pages

12/25/2006

غزل

تم حقیقت نہیں ہو حسرت ہو
جو ملے خواب میں وہ دولت ہو

میں تمھارے ہی دَم سے زندہ ہو
مر ہی جاؤں جو تم سے فرصت ہو

تم ہو خوشبو کے خواب کی خوشبو
اور اتنی ہی بے مروٌت ہو

تم ہو پہلو میں پر قرار نہیں
یعنی ایسا ہے جیسے فرقت ہو

تم ہو انگڑائی رنگ و نکہت کی
کیسے انگڑائی سے شکایت ہو

کس طرح چھوڑ دوں تمھیں جاناں
تم میری زندگی کی عادت ہو

کس لیے دیکھتی ہو ۔۔۔۔ آئینہ
تم تو خود سے بھی خوب صورت ہو

داستاں ختم ہونے والی ہے
تم مِری آخری محبٌت ہو

(جون ایلیا)

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے

نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔