ہم نے سنا ہے علم و آگاہی جہالت سے نکالتی ہے. دانشوری دراصل سمجھ بوجھ و عقل کا نام ہے. بے خبری کیا ہے یہ بندہ خبر ہونے سے قبل نہیں جان سکتا. کامیابی صرف اور صرف محنت کا ثمر ہے یہ وہ ہی کہتے جو اپنی جہالت سے ناواقف ہوں. جس قدر ہم معلومات تک رسائی حاصل کر رہے ہیں ہمارے علم میں اضافہ کم سے کم ہوتا جا رہا ہے.
کامیابی دراصل آگاہی کی طرف سفر ہے. اس سفر میں گمراہی کی ابتداء اپنے علم کو کامل و مکمل جاننے سے شروع ہوتی ہے اور بندہ اپنی جہالت کے باوصف باقیوں کو کمتر جانتا ہے.
معلومات میں سے علم تک اور علم سے عمل تک کا سفر بندے کے دانشور یا جاہل ہونے کا اعلان کر دیتا ہے.
ہم معلومات تک محدود رہ کر خود کو دانشور کہہ کر اپنی جہالت کا اعلان کرتے ہیں.
7 تبصرے:
بہت خوب ڈاکٹر صاحب
ان سب باتوں کو کیٹگرائز کرنا ہی اپنے آپ میں ایک زہانت ہے.
بہت خوب ڈاکٹر صاحب
ان سب باتوں کو کیٹگرائز کرنا ہی اپنے آپ میں ایک زہانت ہے.
سنا ہے کہ ارسطو کا ماننا تھا کہ ”اپنے لاعلم ہونے کا علم ہونا دراصل علم ہے۔“
بہرحال اپنے لاعلم ہونے کو تسلیم کرنے سے ہی سیکھنے کی ابتداء ہوتی ہے جبکہ ہمارے معاشرے میں اکثریت اس بات پر بضد ہے کہ وہ دانشور ہے۔
آپ نے بہت خوبصورت بات کہہ دی ہے۔ ہمارا المیہ تو یہ ہے کہ ہماری معلومات میں بھی سنگین نقائص پائے جاتے ہیں، ایسے میں ان معلومات کے ذریعے ہم جو علم حاصل کرتے ہیں اور پھر اس علم کو عمل میں لاتے ہیں تو وہ ظاہر ہے جہالت جو نتائج نکلتے ہیں اس سے بھی زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔
بہت عمدہ بات کردی جناب! لیکن معاملہ یہ ہے کہ آج کا دور ایسا ہے کہ جو دکھتا ہے وہ بکتا ہے۔ جاہل عالم بنا بیٹھا ہے اور عالم کسرنفسی کا مارا ہے
بہت عمدہ
Nida
میں وکیل ہوں ڈاکٹر نہیں، ڈاکٹر بننے کو مجھے پی ایچ ڈی کرنا پڑے گی۔
ایم بلال ایم ،خورشید آزاد،ابوعبداللہاورمحمد اسد شکریہ
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے
نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔