7/09/2005
منقسم قوم اور الیکشن
وہ سندھی،وہ بلوچی،وہ پٹھان،وہ پنجابی،وہ مہاجر،وہ کشمیری،وہ سرائیکی،وہ سنی ،وہ شعیہ،وہ دیوبند،وہ وہابی،وہ الحدیث،وہ غیر الحدیث،تقسیم در تقسیم،گروہ درگروہ،لسانی و مذہبی بنیادوں پر بٹی ہوئی یہ قوم،جوہم ایک ہیں کے بجائے ہم ایک ایک ہیں کا نعرہ لگا رہی ہے۔یہ ایک اور ایک کا سفر نہیں بلکہ ایک اور الگ یعنی تنہائی کاسفر ہے،تفریق کا پہاڑہ ہے۔ہم کے بجائے" میں" کی بات ہے اور اوپر سے یہ الیکشن جو ہر بار اُس زلزلے کا کام کرتے ہیں جو کسی عمارت کی دیوار میں چند نئی دڑاریں پیدا کر دیتا ہے اور پہلے کی دڑاروں کو مزید واضح کر دیتا ہے،فاصلوں کو بڑھا دیتا ہے۔ایسے الیکشن میں کن کی سلیکشن ہو گی اس کا حساب لگانا دشوار ہے کیا؟
انتخاب میں لوگ اپنی اپنی پسند کے امیدوار کی حمایت کرتے ہیں نیز اسے ووٹ دینے پولیگ اسٹیشن جاتے ہیں۔۔۔۔یہاں تک معاملہ ٹھیک ہیں مگر۔۔۔۔اس سیاسی اختلاف،پسند نہ پسند،حمایت کو ذاتی اختلاف بنا لیتے ہیں یہ درست نہیں،کسان کے بیٹے تو سمجھ گئے تھے کہ گٹھری سے جدا ہونے والی لکڑی کو توڑنا آسان ہے نہ معلوم قائد کی قوم کب جانے؟
ملک میں بلدیاتی انتخابات کی آمدآمدہے،کراچی میں دو پارٹیاں انتخاب کی تیاریاں بڑی زوروشور سے کر رہی ہیں ساتھ ہی شور بھی۔ایک کی رائے میں اس نےبڑے کام کئے ہیں اور دوسری کادعویٰ ہے کہ وہ اب میدان خالی نہیں چھوڑے گی۔ایک کا زور سٹی گورنمنٹ میں تھا اور دوسری کی طاقت صوبائی حکومت میں ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ شہر میں کافی ترقیاتی کام ہوئےمگرساتھ ہی اِن کے تصادم سےشہر میں کافی بدامنی رہی۔ہر منصوبہ کا آغاز دودومرتبہ ہواایک مرتبہ سٹی گورنمنٹ والے ابتداء کرتےاوردوسری مرتبہ صوبائی گورنمنٹ والے سنگ بنیاد رکھتے ۔
تصادم کا آغاز اس ہی وقت شروع ہو گیا تھا جب شہری حکومت کی سربراہی نعمت اللہ کو ملی اورگورنری عشرت العباد کے ہاتھ لگی،ایک رات ایک پارٹی دوسری کے خلاف چاکنگ کرتی تو اگلی رات دوسری پارٹی پہلی کی مخالفت میں بینر آویزا کردیتی جن کے آخر میں تحریر ہوتا منجانب "اہل کراچی" جبکہ اہل کراچی کو تو اس معاملہ سے بے خبر ہوتے
اس تصادم نے تعلیمی اداروں کو بھی کافی متاثر کیا،موقع بےموقع یہ ادارے ان پارٹیوں کی ذیلی طلبہ تنظیموں کے جھگڑوں کی وجہ سےکالج ہفتہ دس دن کے لئے بندہوئے۔
خیر اب دیکھے کیا ہوتا ہے؟ کون آتا ہے؟ جو ہو اچھا ہو ۔کوئی ایسا نہ آئے جو داغ کے متعلق ایسی رائے رکھے کہ "داغ نہیں تو سیکھنا نہیں" یا "داغ تو اچھے ہوتے ہیں" ،یہ کردار پر لگے داغ ہیں سرف ایکسل نہیں جاتے۔کیا سمجھے؟؟؟
1 تبصرے:
الطاف حسین اس کا بھی نام ہے جو لیڈر کراچی کا ہے اور سیاسی پناہ لے کر عرصہ دراز سے لندن میں مزے لوٹ رہا ہے ۔ لیکن مویں بات کرنے جا رہا ہوں ایک نیک سرشت انسان کی جو اب اس دنیا میں نہیں ہے ۔ وہ ہیں الطاف حسین حالی ۔ مشہور نثر نویس اور شاعری سے بھی شغف تھا ۔ انہوں نے ایک دعا لکھی تھی جو مجھے پوری تو یاد نہیں مگر جتنی یاد ہے وہ ملک کے حالات دیکھ کر ہر وقت دماغ میں گھومتی رہتی ہے ۔
اے خاصہء خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے
جس قوم نے تھےغیروں کےدل آپس میں ملائے
اس قوم کا اب بھائی سے بھی بھائی جدا ہے
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے
نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔