آئین پاکستان کے بارے میں فروری ١٩٤٨ کو ایک امریکی اخبار نویس کو انٹرویو دیتے ہوئے آپ(قائداعظم) نے غیر مبہم الفاظ میں فرمایا“پاکستان کا آئین ابھی بنا نہیں ہے اور اور یہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی بنائے گی مجھے یقین ہے کہ یہ جمہوری انداز کا ہوگا جس میں اسلام کے اصول ہوں گے ان اصولوں کا آج بھی عملی زندگی میں وہ ہی اطلاق ہوتا ہے جیسے کہ تیرہ سو سال قبل اسلام اور اس کی مثالیت نے ہمیں جمہوریت سکھائی ہے۔اس ہمیں انسانوں کی برابری انصاف اور ہر شخص کے ساتھ حسن سلوک کا سبق سکھایا ہے۔ہم ان شاندار روایات کے وارث ہیں اور پاکستان کے آئندہ دستور کے واضعین کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے پوری طرح آگاہ ہیں۔(ملت کا پاسبان ٣٣٣ قائداعظم اکیڈمی کراچی)۔
١٩ فروری١٩٤٨ کو اسٹریلیاں کے عوام سے نشری خطاب میں لادینی اوردینی ریاست کی وضاحت کرتے ہوئے قائداعظم محمد علی جناح نے کہا“ ہماری عظیم اکثریت مسلمان ہے ، ہم رسول خدا کی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں ہم اسلامی ملت برادری کے رکن ہیں جس میں حق ، وقار اور وفاداری کے تعلق سے سب برابر ہیں ،نتیجاَ ہم میں اتحاد کا ایک خصوصی اور گہرا شعور موجود ہے لیکن غلط نہ سمجھے پاکستان میں کوئی نظام پاپائیت رائج نہیں ، اس طرح کی کوئی چیز نہیں ہے، اسلام ہم سے دیگر عقائد کو گوارا کرنے کا تقاضہ کرتا ہے اور ہم اپنے ساتھ ان لوگوں کے گہرے اشتراک کا پر تپاک خیر مقدم کرتے ہیں خود پاکستان کے سچے اور وفادار شہریوں کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرنے کے لئے آمادہ اور رضامند ہوں۔(قائداعظم تقاریر و بیابات جلد چہارم صحفہ ٤١٥)۔
جہاں تک “مذہبی حکومت“ اور “سیکولر اسٹیٹ“ کا تعلق ہے اس سلسلے میں قائداعظم کے افکار اور نظریات کیا تھے ، وہ بالکل صاف وشفاف اور واضح ہیں، غیر مبہم ہیں اور ہر قسم کے شک وشبہ سے پاک ہیں۔٢٥ رجب ١٣٦٠ھ بمطابق ١٩ اگست ١٩٤٠ کو قائداعظم محمد علی جناح نے راک لینڈ کے سرکاری گیسٹ ہاوس (حیدرآباد دکن) میں طلباء اور نوجوانوں کو یہ موقع مرحمت فرمایا کہ وہ آپ سے بے تکلفانہ بات چیت کرسکیں۔اگر چہ آپ کی طبیعت ناساز تھی لیکن اس کے باوجود آپ نے پنتالیس ٤٥ منٹ تک ان سے گفتگو فرمائی ۔ اس یاد گار اور تاریخی موقع پر نواب بہادر یار جنگ بھی موجود تھے ۔ جناب محمود علی بی اے (عثمانیہ یونیورسٹی) نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تمام گفتگو ریکارڈ کر کے اوریئنٹ پریس کو ارسال کردی۔
قائداعظم کا دوسرا خطاب دراصل وہ ہے جو انہوں نے ٢ نومبر ١٩٤١ کو مسلم یونیورسٹی یونین علی گڑھ سے فرمایا اور جس میں نہایت تفصیل کے ساتھ ہندو اخبارات کے بے بنیاد، شرارت آمیز اور مضحکہ خیز اداریوں کوکچا چٹھا بیان فرمایا جس میں انہوں نے غلط اور حقیقت سے دور پروپیگنڈہ کیا تھا کہ پاکستان ایک سیکولر اسٹیٹ ہو گی جس میں انہیں جملہ اختیارات سے محروم رکھا جائے گا۔قائداعظم نے اپنے خطاب میں واضح کیا؛“ آپ نے ہندو رہنماؤں کے بیانات اور ذمہ دار ہندواخبارات کے ادارئے پڑھے ہو گے ۔ وہ بہت شرارت آمیز اور خطرناک قسم کے دلائل دے رہے ہیں لیکن یقیناَ وہ الٹ کر انہی کے سر آن پڑیں گے ، میں صرف ایک ممتاز سابقہ کانگریسی اور ایک سابقہ وزیر داخلہ مسٹر منشی کی تقریر سے ایک اقتباس پیش کروں گا۔ اخبارات میں شائع شدہ تقریر کے مطابق انہوں نے کہاکہ تجویز پاکستان کے تحت جو حکومت قائم ہو گی وہ “سول حکومت“ نہیں ہوگی جو تمام فرقوں پر مشتمل ایک مخلوط مجلس قانون ساز کے سامنے جوابدہ ہو بلکہ وہ ایک “مذہبی ریاست“ ہو گی جس نے اپنے مذہب کی تعلیمات کے مطابق کے مطابق حکمرانی کرنے کا عہد کر رکھا ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ تمام جو اس مذہب کے پیروکار نہیں ہوں گے ان کا اس حکومت میں کوئی حصہ نہیں ہو گا۔ایک کروڑ تیرہ لاکھ سکھ اورہندو مسلمانوں کی مذہبی ریاست کے زیر سایہ اقلیت بن جائی گے۔ یہ ہندو اور سکھ پنجاب میں عاجز ہوں گے اور ہند کے لئے غیر ملکی! ۔۔۔۔کیا ہندوؤں اور سکھوں کو مشتعل نہیں کیا جا رہا ہے؟ان کو یہ بتانا کہ وہ ایک “مذہبی ریاست“ ہوگی جس میں انہیں جملہ اختیارات سے تہی دست رکھا جائے گا، یہ کلیتَا “غیر درست“ بات ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہےکہ وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں غیر مسلموں کے ساتھ اچھوتوں کا سلوک کیا جائے گا۔ میں مسٹر منشی کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ صرف ان کے مذہب اور فلسفہ کی ہی اچھوتوں سے آشنائی ہے۔ اسلام ان غیر مسلموں کے ساتھ جو ہماری حفاظت میں ہوں عدل ، مساوات، انصاف، رواداری بلکہ فیاضانہ سلاک کا قائل ہے۔ وہ ہمارے لئے بھائیوں کی طرح ہوں گے اور ریاست کے شہری ہوں گے“۔(قائداعظم تقاریر و بیانات جلد دوم صفحات ٥١٨)۔
جہاں تک سوشلزم ، کمیونزم ، نیشنل سوشلزم وغیرہ کا تعلق ہے ایسے نظام ہائے حکومت کے دلدادگان اور پرستاروں کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ قائداعظم ان کے سخت خلاف تھے اور انہیں خارج از بحث کردانتے تھے۔٩ مارچ١٩٤٤ءکو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی یونین سے خطاب کے دوران آپ نے واضح طور پر اعلان کرتے ہوئے فرمایا
۔“ایک اور پارٹی جو کچھ عرصے سے سرگرم ہو گئی ہی “کمیونسٹ پارٹی“ ہے ان کا پروپیگنڈہ مکارانہ ہے اور میں آپ کو خبردار کرتا ہوں کہ ان کے چنگل میں نہ پھنسیں۔ان کا پروپیگنڈہ ایک سراب ہے اور ایل دام۔آپ کیا چاہتے ہیں؟یہ ساشلزم،کمیونزم،نیشنل سوشلزم اور ہر دیگر “ازم“ کی باتیں خارج از بحث ہیں۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ آپ فی الفور کچھ کر سکتے ہیں؟ کب اور کس طرح؟ آپ اس امر کا فیصلہ کر سکتے ہیں کہ آپ کو پاکستان میں کون سا نظام حکومت مطلوب ہوگا؟ کوئی نہ کئی پارٹی ہم سے کہتی ہے کہ ہمیں پاکستان میں جمہوری حکومت یا سوشلٹ یا نیشنلسٹ حکومت قائم کرنی چاہئے۔ یہ سوال آپ کو فریب دینے کےلئے اٹھائے جاتے ہیں۔اس وقت تو آپ صرف پاکستان کی حمایت کیجئے۔ اس کا مطلب ہے کہ سب اے پہلے آپ کو ایک علاقہ اپنے قبصے میں لینا ہے۔پاکستان ہوا میں قائم نہیں ہو سکتا۔ جب آپ اپنے “اوطان“ کا قبصہ لے لیں گے تب یہ سوال اٹھے گا کہ آپ کون سا نظام حکومت رائج کرنا چاہتے ہیں لہذا آپ اپنے ذہن کو ان فضول خیالات سے ادھر ادھر بھٹکنے نہ دیجئے۔(قائداعظم تقاریر و بیانات جلد سوم صفحہ ٢٦٦-٢٧٢)۔
قائداعظم کے مندرجہ بالا خیالات و نظریات سے یہ بات واضح ہو گئی کہ قائداعظم پاکستان کو ایک دینی اسلامی ریاست بنانے کے حامی تھے لہذا بانی پاکستان کو سیکولرزم نظریات کا حامل قرار دینا انتہائی ظلم و زیادتی ہے۔
(تحریر= ایاز محمود رضوی بشکریہ نوائے وقت)
7 تبصرے:
بات دوست نیّتوں کی ہے باقی سب دھوکہ دینے والی حقایتیں ہیں۔ میرا خیال ہے کہ قایداعظم سمیت سب لوگ یہ چاہتے تھے کہ سب لوگ امن سے رہیں۔ معاشرہ برایوں سے پاک ہو۔ سب کو انصاف ملے۔ غریب امیر کا فرق نہ ہو۔ حکومت اپنی عوام کا خیال رکھے۔ کویی چوری نہ ہو کیی داکہ نہ پڑے۔ حکومت کرنے والے دھوکے باز نہ ہوں اور وہ اپنی قوم سے غدّیاری نہ کریں۔ دشمن کے آگے بکے ہویے نہ ہوں۔ اگر یہ چیزیں میسّر ہوں تو سارے نظام اس میں سمو جاییں گے ورنہ سب قوم کو بےوقوف بنانے والی باتیں ہیں۔ اصل مسلہ یہی ہے کہ ہم نے کرنا کرانا کچھ نہیں اور بیکار کی باتوں میں لوگوں کو الجھایے رکھنا ہو۔
""You are free;you are free to go to your temples, you are free to go
to your mosques or to any other place of worship in this State of
Pakistan...You may belong to any religion or caste or creed that has
nothing to do with the business of the State....We are starting in
the days when there is no discrimination, no distinction between one
community and another. We are starting with this fundamental
principle that we are all citizens and equal citizens of one State,
all members of the nation."
11th August, 1947 Mohammad Ali Jinnah,
دانیال بھائی آپ نے جو قائداعظم کا فرمان لکھا وہ ٹھیک ہے، مگر اس سے یہ کب ظاہر ہوتا ہے کہ اُن کا مقصد پاکستان کو اسلامی فلاحی مملکت بنانا نہ تھا۔۔۔ اسلامی مملکت میں کسی دوسرے کی ذاتی زندگی سے اس حد تک سروکار نہیں ہوتا کہ وہ کس مذہب،عقیدہ یا ذات سے تعلق رکھتا ہے۔۔۔نہ اس بنیاد پر ان میں تفریق کی جاتی ہے۔۔۔اب “اسلامی فلاحی ریاست“ کی کوئی نئی تعریف متعارف مت کروا دینا یار۔۔۔۔۔۔۔
اگر پاکستان کو اسلامی مملکت نہیں بنانا تھا تو اسکا مطالبہ مسلمانوں کی نمائندہ (اس وقت کی)جماعت نے کیوں کیا۔۔۔۔ پاکستان کا مطلب کیا! والا نعرہ کیوں وجود میں آیا؟ اس نئی ریاست کو اس بنا پر کیوں وجود میں لانے کی سعی کی گئی کہ یہ اس خطے کے مسلمانوں کے لئے اس بناء پر وجود میں آئے کہ وہ آزادانہ اپنے مذہبی اموا سر انجام دے سکے؟
اس پر میں بعد میں لکھوں گا اور دانیال اسلامی ریاست میں کیا دوسرے مذاہب کو حق نہیں دیا جاتا؟
EID MUBARAK
کیا اسلامی فلاحی ریاست کو وزیر اعظم یا صدر ہندو، عیسائی یا سکھ بن سکتا ہے؟؟
میرے وطن کے رہنماؤ
اِک ایسا آئین بناؤ
جس میں ہو صِدیق ؓکی عظمت
جس میں ہو عثمان ؓکی عقیدت
جس میں ہو فاروق ؓکی جرأت
جس میں ہو حیدر ؓکی شجاعت
مِٹ جائیں ظلمت کے گھاؤ
اِک ایسا آئین بناؤ
طارق کی تَدبیِر ہو جس میں
محجن کی زنجیر ہو جس میں
قرآن کی تا ثیر ہو جس میں
مِلّت کے جذبات جگاؤ
اِک ایسا آئین بناؤ
سر توڑے جو مغروروں کا
ساتھی ہو جو مہجوروں کا
دارِ ستم کے منصوروں کا
محکوموں کا مجبوروں کا
چل نہ سکے زردار کا داؤ
اِک ایسا آئین بناؤ
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے
نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔