9/16/2005
اسراءیل منظور یا نا منظور؟؟؟؟
پاکستان اور اسرائیل کے مابین تعلقات پر “پی آر کمار“ کی کتاب“پردہ کے دوسری طرف“ پڑھی۔۔۔ پڑھ کر احساس ہوا پاک اسرائیل تعلقات کے ہامی شائد یہ ہی کتاب پڑھ کر اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کرتے ہیں۔۔۔ اس میں شبہ نہیں کہ اس کتاب کے کئی واقعات حرف بہ حرف درست ہیں۔۔۔ مگر کمار نے اسے اپنے انداز میں دیکھا ہے۔۔۔ اس کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کے تسلیم کرنے سے متعلق تمام دلائل کو اس کتاب میں یکجا کردیا گیا ہے۔۔۔میں چاہو گا کہ آپ (اگر وقت ہو تو) اسے ضرور پڑھے۔۔۔۔
مگر ساتھ ہی میں یہاں ان دلائل اور تاریخی واقعات کو بیان کر دو جو اسرائیل مخالف پیش کرتے ہیں (غلط وہ بھی نہیں)
عالمی صیہونی کانگریس کے صدر وائزمین نے ١٩١٤ء میں فلسطین کے بارے میں کہا؛“ایک ملک جس کی کوئی قوم نہیں،ایسی قوم جس کا کوئی ملک نہیں“
١٩١٧ میں برطانیہ کے اس وقت کے وزیر خارجہ الفور نے جب فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کی حمایت کا اعلان کیا (یہ اعلان الفور کے نام سے منسوب ہے) تو قائد اعظم نے اس کی مخالفت سخت الفاظ میں کی تھی ، ان کی رائے میں اسرائیل کا قیام عالمی سازش ہے،یہ ریاست دراصل عربوں کے سینے میں ایک خنجر ہے جس سے ہمیشہ عربوں کا سینہ زخمی رہےگا۔۔۔
کہتے ہیں عالمی صیہونی تحریک نے ١٩١٩ میں ورسائی امن کانفرنس مے موقع پر اپنی مجوزہ یہودی ریاست کا جو نقشہ پیش کیا تھا اس کی رو سےاسرائیم مشتمل ہو گا مصر دریائے نیل تک، پورا شام، پورا لبنان، عراق کا بڑا حصہ، ترکی کا ضنوی حصہ اور مدینہ منورہ تک حجاز کا پورا علاقہ۔
١٩٢٢ سے ١٩١٤٧ تک یہودی پوری دنیا سے آ کر فلسطین میں اس ریاست کے قیام کی غرض سے جمع ہوتے رہے،وہ مکانات کرائے پر لیتے اور اگر کوئی کرائے پر نہ دیتا تو منہ مانگی قیمت یا اصل سے کئی ذیادہ کئی ذیادہ قیمت لگا کر مکان خرید لیتے۔۔۔
١٩٣٨ میں ڈیوڈ بن گوریاں نے یہودی لیڈروں کے سامنے کہا؛“ ہم باہر کی دنیا میں الفاظ کی جنگ کے ذریعے عربوں کی مخالفت کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ہمیں اس حقیقت کو نہیں بھولنا چاہئے کہ ہم ظالم اور جارح ہیں عرب صرف اپنا دفاع کر رہے ہیں“۔
جرمنی کا مشہور رہنما ہٹلر کی ان کے بارے میں رائے تھی کہ دنیا میں ہر بیماری کے جراثیم ہونے ہیں اور برائی دنیا کی سب سے بڑی بیماری ہے۔اس بیماری کے جراثیم یہودی ہیں وہ سمجتا تھا کہ دینا کی لسی برائی کی جڑ تک پہنچا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس کا آغاز کسی یہودی دماغ سے ہوا ہے(اختلاف آپ کا اور میرا حق ہے)
ہٹلر کے ہولوکاسٹ کے بعد جولائی ١٩٣٩ میں فرانس میں ٣٢ ممالک کے نمائیدے اس بات پر غور کرنے جمع ہوئے کہ کون کتنے یہودیوں کو پناہ دے گا یا دے سکتا ہے تب فرانس، ہالینڈ، ڈنمارک، امریکہ، یوروگوئے اور ونیزویلا نے کسی بھی یہودی کو پناہ دینے سے انکار کردیا۔۔۔یہ بیس ہراز یہودی فلسطین میں لا کر بسائے گئے۔۔۔ہٹلر سے ان بیس ہزار یہودیوں کو نجات دلانے والے سویڈش صلیب احمر کے سربراہ کاونٹ فوک برناڈاٹ کو انتہا پسند صیہونی تنظیم “سٹرن کینگ“ کے سربراہ اساق شیمر کے حکم پر اہل فلسطین کے حق میں اہم بیان دینے کے جرم میں قتل کردیا جس میں اس نے فلسطینوں کے حقوق اور ملکیت جائیداد کے متعلق کہا تھا۔۔۔
نومبر ١٩٤٧ میں امریکی دباؤ کے تحت اقوام متحدہ نے فلسطین کو “عارضی“ طور پر دو حصوں میں تقسیم کرنے کی سفارش کی تو پاکستان سمیت تمام عرب ممالک نے اس کی مخالفت کی۔۔۔۔اس سے پہلے ٢٥ اکتوبر کو رائٹر کو انٹرویوں دیتے ہوئے قائداعظم نے کہا تھا؛“ فلسطین کے بارے میں ہمارے موقف کی وضاحت ہمارے نمائندے نے اقوام متحدہ میں کردی ہے۔مجھے اب بھی امید ہے کہ تقسیم فلسطین کا منصوبہ مسترد کردیا جائے گاورنہ ایک خوفناک کشمکش محض عربوں اور تقسیم کا منصوبہ نافذ کرنے والوں کے درمیان نہ ہو گا بلکہ پوری اسلامی دنیا کے خلاف بغاوت کرے گی کیوں کہ ایسے فیصلے(اسرائیل کے قیام) کی حمایت نہ تو تاریخی اعتبار سے کی جا سکتی اور نہ سیاسی اور اخلاقی طور پر۔ایسے حالات میں پاکستان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا کہ عربوں کی مکمل اور غیر مشروط حمایت کرے“۔
اسرائیل کے قیام کے بعد یہود نے اس علاقے پر اپنا تسلط مضبوط کرنے کے لئے ہر غیر اخلاقی اقدام روا رکھا، زور،زبردستی۔۔۔حد دیکھے کہ اپنی عدالتیں قائم کی جن میں جائداد سے متعلق دعوہ کیا جاتا کہ یہ جائیداد آج سے قریب بارہ سو سال پہلے میرے اس جدامجد کے پاس تھی اس بنیاد پر مقدمہ جیت کر مکان اپنا اور مسلمان باہر۔۔۔۔
١٩٦٧ء میں عربوں کئ ٤٥٠ مربع کلومیٹر کےعلاقے پرقابص ہو گئے۔۔۔۔اقوام متحدہ کو جنگ بندی کی قرارداد منظور کرنے میں دو دن کی تاخیر اس بناء پر ہوئی کہ امریکی سفیر آرتھر گولڈ برگ نے مخالفت کی تھی بلا کس بات کی؟۔۔۔بھائی سادہ کہ اسرائیل کو جارح نہ قرار دو دوسرا یہ کہ اسرائیل کی فوجیں ٤ جون ١٩٦٧ کی سرحد پر واپس جانا پسند نہیں کرتی لہذا انہیں ایسا کرنے کا نہ کہا جائے۔۔۔
میری رائے؛
قیام پاکستان سے پہلے مسلم لیگ کے رہنماؤں نے اور پاکستان بننے کے بعد حکمرانوں نے اوپن فورم میں ہمیشہ عربوں کا ساتھ دیا ہے اس معاملہ میں۔۔۔۔اندرون خانہ اور چند ایک مواقع پر غیر سرکاری سطح پر دونوں ممالک کے نمائیدگان اور سفیروں کے مابین ملاقات ہوئی جن میں کئی معاملات نمٹائے گئے مگر اس کے باوجود پاکستان نے کبھی اسرائیل کی حمایت نہ کی۔۔۔۔۔۔نہ ان کے کسی اقدام کو درست کہا۔۔سرکاری سطح پر اسرائیل سے تعلقات سے اجتناب کی وجہ؟ اس سے کسی ملک کو تسلیم کرنا مراد لیا جاتا ہے،آپ مانتے ہیں کہ وہ ایک ریاست ہے۔۔۔ابھی اگر قومی اسمبلی میں وزیراعظم صاحب یہ نہ کہتے کہ اس ملاقات سے یہ نہ سمجھا جائے کہ ہم نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے تو بین الاقوامی قانون کے مطابق یہ اخذ کر لا جاتا کہ پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا ہے۔۔۔تشکیلی نظریہ۔۔۔۔اسرائیل پاکستان سے تعلقات کا اس لئے خواہش مند ہے کہ وہ پاکستان کے ہاتھ سے عرب کارڈ لینا چاہتا ہے جسے پاکستان ترپ کے پتے کے طور پر استعمال کرتا آ رہا ہے۔۔۔پاکستان نے اگر اسے مان لیا تو اسلامی ممالک کی طرف سے اسے کم مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا کیوں کہ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ او آئی سی کے قیام میں پاکستان کے ہاتھ اور اب ایٹمی طاقت ہونے کی بناء پر سعودی عرب کے بعد پاکستان کو اسلامی دنیا میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔۔۔جبکہ پاکستان کے لئے اس کی طرف سے دو لالچ دیئے جا رہے ہیں (جس کا اسرائیلی میڈیا اس وقت ذکر کر رہا ہے) ایک ایٹمی معاملے میں مدد دوسرا معاشی معاملے میں سپورٹ۔۔۔۔۔کیا ایسا ممکن ہے؟ اسرائیلی میڈیا نے ہی پاکستان کے ایٹم بم کو سب سے پہلے “اسلامی بم“ قرار دیا اور وہاں سے مغرب نے یہ اصلاح اٹھا لی! چند ایک بار وہ کہوٹہ لیب پر حملے کا پروگرام بنا چکے ہیں اب اس پر یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اس سلسلے میں کوئی رہنمائی کرے؟؟؟؟؟؟معاشی معاملے میں مدد کرے گے لیکن اپنی ! یہ منڈی تو اب بھی اُن کے پاس ہے۔۔۔۔
جو دعوی ان کا فلسطین پر ہے(یہ ہمارے آباؤ اجداد کی زمین ہے ) اس پر اقبال کا ایک شعر
ہے خاک فلسطین پر یہودی کا اگر حق
ہپسانیہ پہ حق نہیں کیوں اہل عرب کا
3 تبصرے:
ہٹلر کا ذکر کر کے
اسرائيل نامنظور
آپ نے کافي عرق ريزي کر کے ايک مضبوط کيس پيش کيا ہے۔ ميں آپ کے خيال سي سو فيصد متفق ہوں .
کام کي بات يہي ہے کہ سب سے پہلے ہميں اپنے آپ کو سيدھا کرنا ہوگا اور اپنے آپ کو مضبوط بنانا ہوگا۔ اس کے بعد ہم اپنے زور پر بہت ساري باتيں منوا سکتے ہيں۔ جب تک مسلمان اکٹھے نہيں ہوں گے ان کو مار پڑتي رہے گي اور يہ يہودي کي مکّاري سے بچ نھيں سکيں گے۔۔۔۔۔۔۔۔
its a nice post.... in north america the jewish r the owner/involve in most big business. American and Canadian govt. listen them. if israel said he will give the economical support then it make sence . Plz don't take this as that i want pakistani govt. to accept Isreal as a country .
HE IS NEVER BEEN OUR FRIEND
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے
نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔