ترے صوفے ہیں افرنگی ، تیرے قالین ہیں ایرانی
لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی
امارت کیا ،شکوہ خسروی بھی ہو تو کیا حاصل
نہ زورِ حیدری تجھ میں نہ استغناے سلمانی
نہ ڈھونڈ اس چیز کو تہذیب حاضر کی تجلی میں
کہ پایا میں نے استغنا میں معراج مسلمانی
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے اس کو اپنی منزل آسمانوں میں
نہ ہو نومید، نومیدی زوال علم و عرفاں ہے
امید مرد مومن ہے خدا کے راز دانوں میں
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
(کیا مجھے شاعر کا نام لکھنے کی ضرورت ہے؟)۔
2 تبصرے:
آج میرا دل بے تکی باتیں کرنے کو چاہ رہا ہے ۔ میں نے بے طقی نہیں کہا ۔
شاعر کا نام لکھ دیں کیونکہ 1972 سے ہمیں ترقی کی خاطر صرف پاپ نظمیں پڑھنے کی ہدائت کی جا رہی ہے
آپ کیوں پرانے زمانے کی باتیں نوجوانوں کو کہتے ہیں ان سے ترقی نہ صرف رک جائے گی بلکہ قوم چودہ سو سال پیچھے چلی جائے گی ۔
اچھی ہے ۔۔۔
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے
نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔