12/31/2005
آخری رابطہ
12/28/2005
گڑیا
جی!!! گڑیا ۔۔۔۔ ویسے تو یہ نک نیم (کہنے کو پیار کا لیکن اصل میں بگڑا ہوا) اکثر گھروں میں کسی نا کسی بچی کا ہوتا ہے ۔۔۔ مگر یہاں اس سے مراد وہ گڑیا ہے جو بچیوں کا کھلونا ہے۔۔۔۔ پہلے پہل ہمارے یہاں مائیں خود سے اپنی بچیوں کو گڑیا بنا کر دیا کرتی تھیں۔۔۔ چونکہ وہ ہی اس گڑیا کی خالق تھی لہذا وہ ہی اس کے متعلق کہانیاں بتاتی۔۔۔ “اس گڑیا کو وہ بچیاں اچھی نہیں لگتی جو بڑوں کا کہنا نہیں مانتی“ ، “ارے! بڑی بہن سے بدتمیزی کرنے والوں سے یہ گڑیا ناراض ہو جاتی ہے“ ، “دیکھو! رات ہو گئی ہے گڑیا کو نیند آ گئی ہو گی تم دونوں اب سو جاؤ تمہاری وجہ سے گڑیا بھی نہیں سوئے گی اور وہ بھی بیمار ہو جائے گی“۔۔۔۔ یوں جو گڑیا بچی کے لئے ایک کھلونا ہے تو ماں کے لئے بچی کی تربیت کا ذریعہ۔۔۔۔ خواہاں کوئی بات ہو گڑیا کو ایک ٹول کے طور پر استعمال کر کے تربیت کا ذریعہ تھی۔۔۔ بیمار گڑیا کی تیمارداری، اچھی گڑیا کی نشانیاں،اس کے لئے کپڑے تیار کرنے اور آخر میں اس کی شادی اور رخصتی ۔۔۔۔ بات سمجھانے کے طریقے۔۔۔۔
پھر گڑیا گھر میں تیار ہونے کے بجائے بازار سے آنے لگی۔۔۔ نئی نسل کے لئے نئی طرح کی گڑیا! ۔۔۔ جو باتیں کرنے لگی ،لیٹتے ہی آنکھ بند کر لیتی، بغیر سہارے کے کھڑی ہوتی ،بیٹھ جاتی، گانے سناتی، ہنستی، روتی غرض ہر طرح کے کام کرنے لگی۔۔۔۔ پھر ایک گڑیا آئی باربی ڈول! ۔۔۔ آئی اور چھا گئی۔۔۔ اب کوئی عام گڑیا نہیں چاہیے اب باربی چاہئے۔۔۔ اس کا گھر،لباس،اس کی ضرورت کی اشیاء خود سے بنانے کی ضرورت نہیں بلکہ دکان سے خرید لیں۔۔ اس کی دوست بھی ہیں اور اس کا دوست بھی(کین)۔۔۔
چونکہ یہ یورپین گڑیا تھی لہذا اسے علاقائی کہانیاں منسوب نہیں ہو سکتی تھی۔۔۔ اس کا حلیہ مغربی تھا! لازما غیر اسلامی بھی۔۔۔ لہذا اسلامی گڑیا تخلیق کی جانے کی کوشش کی جانے لگی! کبھی سارہ کے نام سے، کبھی لیٰلی کے نام سے اور کبھی کسی اور نام سے۔۔۔
فلا وہ گڑیا ہے جس نے باربی کو مشرقی وسطیٰ نکال باہر کیا ہے۔۔۔ ساڑھے گیارہ انچ کی اس گڑیا کی جو خوبی سب کو اچھی لگی ہے وہ یہ کہ یہ گھر سے باہر سر پر اسکاف باندھے ہوئے ہے، ایک لمبا لبادہ لے کر باہر جاتی ہے، اپنے والدین کی عزت کرتی ہے، استاد کا حکم مانتی ہے اس کے دوستوں کی فہرست میں یاسمین اور نادہ شامل ہیں اس کا کوئی بوائے فرنڈ نہیں ہے! یہ تخلیق ہے شام کی کمپنی “نیو بوائے“ کی۔۔۔۔۔
مزے کی بات ہے ہانگ کانگ کی جو کمپنی باربی بناتی ہے اسے ہی “نیو بوائے“ نے فلا بنانے کے لئے منتخب کیا ہوا ہے۔۔۔ یعنی جائے پیدائش ایک ہی۔۔۔۔
12/25/2005
قائد
ہم بھی خواب رکھتے ہیں
نیم وار دریچوں میں
ہم بھی خواب رکھتے ہیں
جاگتی نگاہوں میں
ہم بھی چاہتے ہیں کہ
ہم بھی ایک دن آئیں
بس تیری پناہوں میں
دلنشین بانہوں میں
ہم بھی پیار کرتے ہیں
سے بے پناہ جاناں
اور اس محبت کا
اعتراف کرتے ہیں
روز تیرے کوچے کا
ہم طواف کرتے ہیں
ہم تو اس محبت میں
ایسا حال رکھتے ہیں
روز رنج لمحوں کو تم سے دور رکھتے ہیں
اور اپنے سر پر ہم
دکھ کی شال رکھتے ہیں
ہم تو یوں محبت کا
اہتمام کرتے ہیں
کرب زندگانی کو اپنے نام کرتے ہیں
تجھ کو خوش رکھیں گے کیسے
یہ خیال رکھتے ہیں
بس تیری محبت کے
ماہ سال رکھتے ہیں
ہم بھی خواب رکھتے ہیں
ہم بھی خواب رکھتے ہیں
12/20/2005
دو باتیں
12/19/2005
جھولی بھر کے ذلت
12/18/2005
الفاظ
12/08/2005
خواب
12/02/2005
مت تھوکیں
11/25/2005
ہائے نی اڑیوں
11/15/2005
راستوں کی مرضی ہے
11/06/2005
11/03/2005
کرتا تے ڈیڈھ
10/28/2005
اصل امدادی۔۔۔؟؟؟؟؟
10/21/2005
بونوں کا دیس
10/17/2005
آسمانی آفت آئی تھی یا جاری ہے؟؟؟؟
10/15/2005
The blogging generation
امداد اور۔۔۔۔۔
10/13/2005
10/12/2005
10/10/2005
دردآشنا
10/08/2005
10/06/2005
یہ کیا پوسٹ ہے؟؟؟؟
10/03/2005
تجربہ
Shoiab Safdar LOVES Urdu Blogger |
12012 3213 534 87 |
Love Level: 87% |
How to make a Shoiab Safdar |
Ingredients: 1 part intelligence 1 part courage 3 parts ego |
Method: Layer ingredientes in a shot glass. Top it off with a sprinkle of caring and enjoy! |
9/30/2005
سن لو
9/28/2005
ماضی میں تبدیلی یا ترمیم
9/25/2005
پکوڑے
اجلاس کی کاروائی شروع ہوئی ۔ارکان کی تعداد اس دن اتفاق سے نو تک جا پہنچی تھی، تفصیل سے اجلاس کی اہمیت بتائی گئی اور ان سے درخواست کی گئی کہ وہ اپنی تجاویز اجلاس میں شرح صدر سے پیش کریں۔ ہم نے اجازت صدر یہ بات بھی گوش گزار کر دی کہ میس میں آلو اور مٹر کے ڈبع کے بعد صرف بیسن موجود ہے، تجاویز “میسر شدہ وسائل“ کی حدود میں ہوں۔
“بیسن سے کیا کچھ بنایا جاسکتا ہے“ ؟ وضاحت چاہی گئی۔
“پکوڑے“
“پکوڑے تو افطاری ہی میں ذیادہ لطف دیں گے اِس لیے انھیں افطاری ہی میں رکھا جائے“۔
“بجا“۔
“پہلے سات دنوں کا صرف افطارری کا مینو تیار کرلیا جائے“۔
“جیسا آپ چاہیں“۔
تو میس سیکرٹری آپ ہمیں افطاری میں کیا کچھ دے سکتے ہیں؟“۔
“جی پکوڑے“۔
“چلیں ایک دن تو پکوڑے ٹھیک ہیں۔ باقی دن ———؟“۔
“یہی سوچنے کے لئے اجلاس بلایا گیا ہے۔آپ تجاویز دیں“۔
“میس میں کیا کچھ موجود ہے؟“۔
“آلو اور مٹر“۔
“انہیں مارو گولی“۔ایک صاحب بھنائے۔
“ٹھیک ہے سر“۔
“اور کیا ہے؟“۔
“بیسن“۔
“بیسن سے کیا کچھ بن سکتا ہے؟“۔
“جی میرے علم کی حد تک تو پکوڑے بنائے جا سکتے ہیں“۔
“چلیں ایک دن تو طے ہو گیا لکھے اتوار کو پکوڑے“۔ایک صاحب نے اختلاف کیا“پکوڑے جمعرات کو کھائے جائیں اور معمولی بحث کے بعد یہ اختیار میص سیکر ٹری کو سونپ دیا گیا کہ جس دن وہ چاہیں پکوڑے بنالیا کریں۔چنانچہ ہم نے لکھا؛
مینو برائے افطار
پکوڑے برائے سوموار
“اچھا یہاں بازار میں کیا کچھ ملتا ہے؟“۔
“اول تو عصر کے بعد سے لوگ دکانیں بند کر کے اپنے اپنے گھر کو سدھار تے ہیں۔دوسرے ان کے ہاں کھانے کی اشیاء نہیں بکتیں۔ صرف ایک چھوٹی سی دوکان کھلی رہتی ہے۔ دیر سے آنے والے ڈرائیوروں کے لئے“۔
“ کیا کچھ ہوتا ہے اس کے پاس افطار کے لئے؟“۔
“جی پکوڑے“۔
وہ تو ہم میس میں بنا لیں گے“۔
“جی جی با لکل“۔
“کس دن رکھے گئے ہیں پکوڑے؟“۔
“جی سوموار کو“۔
“ویری ویل! میس میں اور کچھ نہیں مٹر آلو کے علاوہ“۔
“جی بیسن ہے نا“۔
“بیسن سے کیا کیا چیزیں بنتی ہیں“۔
“جی میں نے عرض کیا تھا نا ———- پکوڑے“۔
خاموشی کا ایک وقفہ۔
ویٹر کو آواز دی گئی۔ خانساماں کو طلب کیا گیا۔
یہ خانساماں مقامی باشندوں میں سے عارضی طور پر بھرتی کیا گیا تھا۔ اصل خانساماں چھٹی پر تھا۔ وہ ہوتا تو شائد بیسن سے بہے کچھ بنا سکتا۔لیکن عارضی خانساماں اور پی ایم سی کے درمیان مذاکرات بری طرح ناکام ہو گئے۔سنیے ذرا؛
پی ایم سی اور خانساماں کے درمیان مذاکرات ، میس ممبران گوش بر آواز،
“تم افطار کے لئے کیا کیا کچھ بنا سکتے ہو؟“۔
“سب کچھ بنا سکتا ہوں سر جی“۔
“مثلا؟“۔
“سر جی ، ہر چیز بنا سکتا ہوں لیکن یہاں کوئی چیز ملتی ہی نہیں۔میس حوالدار پنڈی سے صرف ڈھائی من بیسن لایا ہے“۔
“بیسن سے تم کیا کیا چیزیں بنا سکتے ہو“۔
“سر جی پکوڑے“۔
“شٹ اپ“۔
اور پی ایم سی میٹنگ ادھوری چھوڑ کر چلے گئے۔
9/24/2005
9/22/2005
انگوٹھا
یوں تو انسانی جسم کے تمام اعضاء بہت اہم ہیں کئی ایسے جو خود انسانی زندگی کی بقاء کے لئے ضروری نھی۔۔۔۔۔۔ان میں انگوٹھے کی ایک اپنی الگ سیاسی، معاشی(؟)،معاشرتی، اخلاقی اور ذاتی حیثیت ہے۔اختلاف؟؟ کرلو۔۔مگر ہمارے پاس بھی اپنے دلائل ہیں۔
ہر بندے کےپاس کل چار انگوٹھے ہوتے ہیں(دو پاؤں کے اور دو ہاتھوں کے) ،ان کے بڑے فائدے ہیں۔۔۔پاؤں کا انگوٹھا اگر نہ ہو تو ہوائی چپل(اس کا تعلق جزیرہ ہوائی سے نہیں) نہیں پہنی جا سکتی۔۔۔علم نجوم نے بھی پاؤں کے انگوٹھے کو اہم گردانا ہے، بتاتے ہیں کہ اس کے پڑوس کی انگلی اگر بڑی ہوتو آپ کا اپنی(یا اپنے) شریک حیات پر رعب ہوتا ہے؛ اسی وجہ سے ہمارے ایک دوست نے گھر والوں کے سامنے شرط رکھی کہ“میری کسی پر نہیں(حکمرانی) چلتی سب مجھ پر (حکم) چلاتے ہیں لہذا بہتر ہے میری بیوی وہ بنائی جائے جس کے پاؤں کے انگوٹھے کے برابر والی انگلی چھوٹی ہو کہ کہیں تو میری بھی(حکمرانی) چلے“ ، تب اُن کی امی نے بیٹے کی خواہش پر ایک رشتہ دیکھتے وقت پاؤں دیکھنے کے لئے لڑکی سے جوتا اتارنے کے لئے کہا تو بولی“آنٹی آپ امی(چبا کر) تو بنے پھر موقع بے موقع جوتی اتارا کرو گی“۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس طرح ہاتھی کے دانت دیکھانے کے اور اور کھانے کے اور ہوتے ہیں اسی طرح انسانی انگوٹھا دیکھانے میں اور ہوتا ہے اور لگانے میں اور۔۔۔اگر یہ مٹھی کے اوپر چست حالت میں ہوتا “زبردست“،“شاباش“ کے معنی میں آتا ہے مگر اگر یہ جھول رہا ہوتو چڑانے کے معنی میں اس صورت میں اسے ٹھینگا کہتے ہیں لیکن اگر اس کا رخ زمین کی طرف ہو تو اس کا مقصد نیچا دیکھانا ہوتا ہے۔۔۔(یہ اشارے اگر کوئی دوسرا آپ کے لئے بھی کر سکتا ہے اور بوقت ضرورت آپ بھی دوسروں کے خلاف)۔
نا خواندہ یا ان پڑھ افراد کا انگوٹھا پڑھا لکھا ہوتا ہے تب ہی تو مختلف قانونی دستاویزات پر دستخط کی جگہ جا بجا استعمال ہوتا ہے ان کی جانب سے۔۔۔۔۔یار لوگ ان کو انگوٹھا چھاپ کہتے ہیں ویسے اکثر موقعہ پر خواندہ خضرات بھی انگوٹھا چھاپ بن جاتے ہیں!!کبھی ووٹ ڈالنے جائے یا شناختی کارڈ بنوانے!!
آپ کے انگوٹھے کی پوزیشن میں نہیں دیکھ سکتا۔۔۔۔چلے تبصرہ میں بتا دے!!!!!!
9/20/2005
I'm.....
9/18/2005
مکالمے
9/16/2005
اسراءیل منظور یا نا منظور؟؟؟؟
9/14/2005
ڈوریTag
9/10/2005
مہنگائی کا ریلا اور اپوزیشن کا رولا
9/07/2005
9/03/2005
یہودی لڑکی سے شادی اور پاک اسرائیل تعلقات
8/28/2005
قائد کی منشاء سیکولر ریاست؟؟؟؟؟
١٩ فروری١٩٤٨ کو اسٹریلیاں کے عوام سے نشری خطاب میں لادینی اوردینی ریاست کی وضاحت کرتے ہوئے قائداعظم محمد علی جناح نے کہا“ ہماری عظیم اکثریت مسلمان ہے ، ہم رسول خدا کی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں ہم اسلامی ملت برادری کے رکن ہیں جس میں حق ، وقار اور وفاداری کے تعلق سے سب برابر ہیں ،نتیجاَ ہم میں اتحاد کا ایک خصوصی اور گہرا شعور موجود ہے لیکن غلط نہ سمجھے پاکستان میں کوئی نظام پاپائیت رائج نہیں ، اس طرح کی کوئی چیز نہیں ہے، اسلام ہم سے دیگر عقائد کو گوارا کرنے کا تقاضہ کرتا ہے اور ہم اپنے ساتھ ان لوگوں کے گہرے اشتراک کا پر تپاک خیر مقدم کرتے ہیں خود پاکستان کے سچے اور وفادار شہریوں کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرنے کے لئے آمادہ اور رضامند ہوں۔(قائداعظم تقاریر و بیابات جلد چہارم صحفہ ٤١٥)۔
جہاں تک “مذہبی حکومت“ اور “سیکولر اسٹیٹ“ کا تعلق ہے اس سلسلے میں قائداعظم کے افکار اور نظریات کیا تھے ، وہ بالکل صاف وشفاف اور واضح ہیں، غیر مبہم ہیں اور ہر قسم کے شک وشبہ سے پاک ہیں۔٢٥ رجب ١٣٦٠ھ بمطابق ١٩ اگست ١٩٤٠ کو قائداعظم محمد علی جناح نے راک لینڈ کے سرکاری گیسٹ ہاوس (حیدرآباد دکن) میں طلباء اور نوجوانوں کو یہ موقع مرحمت فرمایا کہ وہ آپ سے بے تکلفانہ بات چیت کرسکیں۔اگر چہ آپ کی طبیعت ناساز تھی لیکن اس کے باوجود آپ نے پنتالیس ٤٥ منٹ تک ان سے گفتگو فرمائی ۔ اس یاد گار اور تاریخی موقع پر نواب بہادر یار جنگ بھی موجود تھے ۔ جناب محمود علی بی اے (عثمانیہ یونیورسٹی) نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تمام گفتگو ریکارڈ کر کے اوریئنٹ پریس کو ارسال کردی۔
قائداعظم کا دوسرا خطاب دراصل وہ ہے جو انہوں نے ٢ نومبر ١٩٤١ کو مسلم یونیورسٹی یونین علی گڑھ سے فرمایا اور جس میں نہایت تفصیل کے ساتھ ہندو اخبارات کے بے بنیاد، شرارت آمیز اور مضحکہ خیز اداریوں کوکچا چٹھا بیان فرمایا جس میں انہوں نے غلط اور حقیقت سے دور پروپیگنڈہ کیا تھا کہ پاکستان ایک سیکولر اسٹیٹ ہو گی جس میں انہیں جملہ اختیارات سے محروم رکھا جائے گا۔قائداعظم نے اپنے خطاب میں واضح کیا؛“ آپ نے ہندو رہنماؤں کے بیانات اور ذمہ دار ہندواخبارات کے ادارئے پڑھے ہو گے ۔ وہ بہت شرارت آمیز اور خطرناک قسم کے دلائل دے رہے ہیں لیکن یقیناَ وہ الٹ کر انہی کے سر آن پڑیں گے ، میں صرف ایک ممتاز سابقہ کانگریسی اور ایک سابقہ وزیر داخلہ مسٹر منشی کی تقریر سے ایک اقتباس پیش کروں گا۔ اخبارات میں شائع شدہ تقریر کے مطابق انہوں نے کہاکہ تجویز پاکستان کے تحت جو حکومت قائم ہو گی وہ “سول حکومت“ نہیں ہوگی جو تمام فرقوں پر مشتمل ایک مخلوط مجلس قانون ساز کے سامنے جوابدہ ہو بلکہ وہ ایک “مذہبی ریاست“ ہو گی جس نے اپنے مذہب کی تعلیمات کے مطابق کے مطابق حکمرانی کرنے کا عہد کر رکھا ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ تمام جو اس مذہب کے پیروکار نہیں ہوں گے ان کا اس حکومت میں کوئی حصہ نہیں ہو گا۔ایک کروڑ تیرہ لاکھ سکھ اورہندو مسلمانوں کی مذہبی ریاست کے زیر سایہ اقلیت بن جائی گے۔ یہ ہندو اور سکھ پنجاب میں عاجز ہوں گے اور ہند کے لئے غیر ملکی! ۔۔۔۔کیا ہندوؤں اور سکھوں کو مشتعل نہیں کیا جا رہا ہے؟ان کو یہ بتانا کہ وہ ایک “مذہبی ریاست“ ہوگی جس میں انہیں جملہ اختیارات سے تہی دست رکھا جائے گا، یہ کلیتَا “غیر درست“ بات ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہےکہ وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں غیر مسلموں کے ساتھ اچھوتوں کا سلوک کیا جائے گا۔ میں مسٹر منشی کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ صرف ان کے مذہب اور فلسفہ کی ہی اچھوتوں سے آشنائی ہے۔ اسلام ان غیر مسلموں کے ساتھ جو ہماری حفاظت میں ہوں عدل ، مساوات، انصاف، رواداری بلکہ فیاضانہ سلاک کا قائل ہے۔ وہ ہمارے لئے بھائیوں کی طرح ہوں گے اور ریاست کے شہری ہوں گے“۔(قائداعظم تقاریر و بیانات جلد دوم صفحات ٥١٨)۔
جہاں تک سوشلزم ، کمیونزم ، نیشنل سوشلزم وغیرہ کا تعلق ہے ایسے نظام ہائے حکومت کے دلدادگان اور پرستاروں کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ قائداعظم ان کے سخت خلاف تھے اور انہیں خارج از بحث کردانتے تھے۔٩ مارچ١٩٤٤ءکو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی یونین سے خطاب کے دوران آپ نے واضح طور پر اعلان کرتے ہوئے فرمایا
۔“ایک اور پارٹی جو کچھ عرصے سے سرگرم ہو گئی ہی “کمیونسٹ پارٹی“ ہے ان کا پروپیگنڈہ مکارانہ ہے اور میں آپ کو خبردار کرتا ہوں کہ ان کے چنگل میں نہ پھنسیں۔ان کا پروپیگنڈہ ایک سراب ہے اور ایل دام۔آپ کیا چاہتے ہیں؟یہ ساشلزم،کمیونزم،نیشنل سوشلزم اور ہر دیگر “ازم“ کی باتیں خارج از بحث ہیں۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ آپ فی الفور کچھ کر سکتے ہیں؟ کب اور کس طرح؟ آپ اس امر کا فیصلہ کر سکتے ہیں کہ آپ کو پاکستان میں کون سا نظام حکومت مطلوب ہوگا؟ کوئی نہ کئی پارٹی ہم سے کہتی ہے کہ ہمیں پاکستان میں جمہوری حکومت یا سوشلٹ یا نیشنلسٹ حکومت قائم کرنی چاہئے۔ یہ سوال آپ کو فریب دینے کےلئے اٹھائے جاتے ہیں۔اس وقت تو آپ صرف پاکستان کی حمایت کیجئے۔ اس کا مطلب ہے کہ سب اے پہلے آپ کو ایک علاقہ اپنے قبصے میں لینا ہے۔پاکستان ہوا میں قائم نہیں ہو سکتا۔ جب آپ اپنے “اوطان“ کا قبصہ لے لیں گے تب یہ سوال اٹھے گا کہ آپ کون سا نظام حکومت رائج کرنا چاہتے ہیں لہذا آپ اپنے ذہن کو ان فضول خیالات سے ادھر ادھر بھٹکنے نہ دیجئے۔(قائداعظم تقاریر و بیانات جلد سوم صفحہ ٢٦٦-٢٧٢)۔
قائداعظم کے مندرجہ بالا خیالات و نظریات سے یہ بات واضح ہو گئی کہ قائداعظم پاکستان کو ایک دینی اسلامی ریاست بنانے کے حامی تھے لہذا بانی پاکستان کو سیکولرزم نظریات کا حامل قرار دینا انتہائی ظلم و زیادتی ہے۔
(تحریر= ایاز محمود رضوی بشکریہ نوائے وقت)
8/24/2005
گوگل میسنجر
8/23/2005
mis/miss
8/20/2005
دینی مدارس
8/15/2005
انتخابات غیر جماعتی؟؟؟
8/14/2005
ٓآزادی مبارک
8/09/2005
جشن آزادی
گھر میں ذرا رواج مختلف ہے ۔ ١٢ تاریخ تک ہم بہن بھائی جتنی رقم جمع کرے گے اتنی ہی رقم والد صاحب اس میں ملائے گے یہ طے ہوا تھا ایک مرتبہ مگر ہوتا یوں ہے ہم سے جس قدر رقم جمع ہوتی وہ والد ہمیں ہی دے دیتے ہیں اور جتنی رقم ہمیں جھنڈیوں کے لئے درکار ہوتی وہ الگ سے پکڑا دیتے۔۔ مگر رقم جمع کرنے کی شرط نہ ختم کرتے۔۔۔۔۔ اب اس شرط کا اطلاق ہماری چھوٹی بہنوں پر ہوتا ہے۔۔۔۔دوسری پابندی یہ ہے کہ بازار سے بنی بنائی جھنڈیاں نہ لائی جائیں گی بلکہ جھنڈیاں گھر لا کر خود سے دھاگے پر لگا کر سجائی جائیں گی۔۔۔۔ اس پر اب بھی عمل ہوتا ہے۔ ان تیاروں کے سلسلے میں ایک مرتنہ جھنڈیاں لگانے کے بعد بارش سے سب خراب ہو گئیں تو میری چھوٹی بہن بہت روئی تھی ۔۔۔ اور وہ اپنی طرف سے اللہ سے لڑی تھی۔۔۔ہم جھنڈیوں کو دھاگے سے لگانے کے لئے آٹے کی لیوی بنا کر استعمال کرتےہیں۔ یہاں میں اپنے ابو کی ایک بات ضرور بتاؤں گا جو مجھے اچھی لگی ان کا کہنا ہے“مذہب،ملک اور برادری (خاندان) کے لئے اگر کچھ کرو تو اسے احسان سمجھ کر نہ کرو اور اس کے بدلے میں بھی کچھ طلب نہ کرو“۔ اب آخر میں میری انگریزی کی تک بندی جو میری اس زبان میں واحد تک بندی ہے یہ میں نے دسویں جماعت میں کی تھی پھر مجھے پتہ چل کیا کہ میں کتنے پانی میں ہو
8/07/2005
انگریزی اردو لغت
8/05/2005
نوجوان کے نام
7/31/2005
مدارس آرڈ یننس
7/30/2005
نوبل انعام
7/25/2005
نم آنکھ
*******
ایک خبر کے مطابق برطانوی وزیراعظم اپنے میک اپ پر کافی رقم خرچ کرچکے ہیں، وہ میک اپ کا استعمال میڈیا کے سامنے آنے سے قبل کرتے ہیں،کبھی اسے خواتین کے لئے مخصوص سمجھا جاتا تھا مگر اب سربراہان بھی میک اپ کرتے ہیں،واہ بھائی! بڑی بات ہے۔
7/15/2005
7/14/2005
لطیفہ
7/13/2005
سانحه گھوٹگی
7/09/2005
منقسم قوم اور الیکشن
7/05/2005
امتحان
6/03/2005
ذاتی تک بندی
دلوں کے ملاپ کیلئے خیال ملنا ضروری ہے
سینے سے لگانے سے دوست بنا نہیں کرتے
کوئی دوست بنانے کیلئے اعتماد بھی ضروری ہے
مذاکرات کی میز پر جگڑے حل نہیں ہوتے
جھگڑے نمٹانے کیلئے نیت ہونا ضروری ہے
حقیقت کے بتلانے سے ساتھی سمجھا نہیں کرتے
بات سمجھ آنے کیلئے ٹھوکر کھانا ضروری ہے