12/31/2006
12/27/2006
مکالمہ
“ہاں بھائی! چلو اچھا ہے“
“مگر میں اسے دوسری طرح دیکھتا ہوں“
“کس طرح؟“
“تم نے دیکھا ہو گا جب کبھی بل وغیرہ جمع کروانے کی قطار لگی ہو تو کچھ مرد حضرات یہ دیکھ کر کہ مردوں کی قطار لمبی اور خواتین کی قطار چھوٹی ہے تو گھر سہ اپنی ماں یا بہن یا بیوی یا بیٹی کو اس بنا پر کہ جلدی فارغ ہو جائیں گے لے آتے ہیں! جب وہ عورتوں کی قطار میں لگ کر بل جمع کروا رہی ہوتی ہیں تو یہ صاحب کسی دیوار کی چھاؤں میں کھڑے ہو کر یا تو سیگریٹ کے کش لگا رہے ہوتے ہیںیا کسی سے گپ“
“بات کچھ پلے نہیں پڑی!! کیا کہنا چاہ رہے ہو“
“بھائی وہ اپنے آرام کے لئے عورتوں کو گھر سے نکالتے ہیں یہاں بھی خود کو لبرل و روشن خیال ظاہر کرنے کے لئے عورت کو استعمال کیا جا رہا ہے“
“کیا بکواس ہے!! تم لوگ کیسی کیسی باتیں سوچتے رہتے ہو“
12/25/2006
غزل
جو ملے خواب میں وہ دولت ہو
میں تمھارے ہی دَم سے زندہ ہو
مر ہی جاؤں جو تم سے فرصت ہو
تم ہو خوشبو کے خواب کی خوشبو
اور اتنی ہی بے مروٌت ہو
تم ہو پہلو میں پر قرار نہیں
یعنی ایسا ہے جیسے فرقت ہو
تم ہو انگڑائی رنگ و نکہت کی
کیسے انگڑائی سے شکایت ہو
کس طرح چھوڑ دوں تمھیں جاناں
تم میری زندگی کی عادت ہو
کس لیے دیکھتی ہو ۔۔۔۔ آئینہ
تم تو خود سے بھی خوب صورت ہو
داستاں ختم ہونے والی ہے
تم مِری آخری محبٌت ہو
(جون ایلیا)
12/24/2006
12/23/2006
یہ مردود کیوں؟؟؟ ہیرو!!!
12/03/2006
حدودآرڈنینس کا مقدمہ
جج صاحبان کے کمرہ عدالت میں داخل ہونے پر تمام لوگ کھڑے ہوجاتے ہیں۔ وکیل استغاثہ اپنے مقدمے کے حق میں دلائل کے لئے اُٹھتی ہیں۔ ان کاکہنا ہے کہ قانون مارشل لاء کے دور میں نافذ ہوا ہے۔ اس کے اجرا سے قبل کسی قسم کا مباحثہ نہیں ہوا۔ یہ وہ دور تھا جناب والا جب ملک میں پارلیمنٹ موجود نہ تھی۔ کسی اسمبلی یا سینٹ نے اس قانون پر غور نہیں کیا۔ وکیل صفائی نے تردید کرتے ہوئے کہا کہ اس قانون پر چودہ ماہ تک غوروخوص ہوا تھا اور بیرون ملک سے بھی ماہرین کو بلوایا گیا۔ اگر فوجی حکومت کے دور میں کسی قانون کا نفاذ اس کی منسوخی کی وجہ ہے تو ملک میں نصف عرصہ باوردی اداروں نے حکومت کی ہے۔ اس طرح تو 1958 کے بعد سے آدھے قوانین منسوخ کرنے پڑ جائیں گے جس میں ایوبی آمریت میں نافذ ہونے والا مسلم فیلمی لاء آرڈنینس بھی شامل ہے۔ اگر حکمرانوں کی غیر قانونی حکومت کسی قانون کی منسوخی کی وجہ بن رہی ہے تو انگریزوں سے بڑھ کر کس کی حکومت غیر قانونی ہو گی۔ سات سمندر پار سے حکومت کرنے والے گوروں کے تعزرات پاکستان اور ضابطہ فوجداری کو یہ عدالت کس گنتی میں شمار کرے گی؟
وکیل استغاثہ اپنے نئے دلائل پیش کریں۔ ایک جج صاحب نے حکم دیا۔ جناب والا! زنا آرڈنینس کے تحت عموما زنابالجبر کے مقدمات زنابالرضا میں بدل جاتے ہیں۔ آپ کیا کہتی ہیں۔ جج صاحب نے صفائی کی وکیل کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔ جناب والا! جب کوئی مقدمہ پولیس کے روبرو پیش ہوتا ہے تو صورتحال واضح نہیں ہوتی کہ معامل جبر کا ہے یا رضامندی کا۔ حدودآردنینس میں زنا کو دفعہ 10 میں شامل کرکے اس لئے دو ذیلی دفعات میں علیحدہ علیحدہ پیش کیا گیا ہے۔ جب پسند کی شادی کرنے والا جوڑا گرفتار ہوجاتا ہے یا لڑکی کے ماں باپ لڑکے کے خلاف اغواء کا مقدمہ درج کرواتے ہیں تو وہ اس صورت حال کو زبردستی کی شادی شکل میں پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ کبھی کبھار سترہ اٹھارہ سالہ بالغ لڑکی کو 13/14 سال کی نابالغ بچی بھی ظاہر کیا جاتا ہے۔ جب پو لیس لڑکے اور لڑکی کا بیان لیتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ دونون کا یہ عمل رضامندی کے ساتھ ہوا تھا۔ جناب والا! ایسے مقدمات قانونی رسالوں میں جابجا ملتے ہیں کے لڑکی نے لڑکے کے ساتھ ریل میں سفر کیا ہوٹل میں قوت گزارا، فیلمی دیکھیں اور تصویریں بھی کھنچوائیں لہذا حدود آردنینس اس بات کا تعین عدالت پر چھوڑتا ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ معاملہ زبردستی ہوا تھا یا رضامندی کے ساتھ۔
یہ خوتین کے ساتھ سراسر ذیادتی اور الزام تراشی ہے یہاں استغاثہ کی وکیل کا احتجاج بھی تھا اور صفائی کی وضاحت بھی۔ می لارڈ! میری فاضل دوست کا یہ مقدمہ اس بنیاد پر ہے کہ مرد ہمیشہ ظالم ہوتا ہے اور عورت ہمیشہ مظلوم، مرد ہمیشہ برا ہوتا ہے اور عورت ہمیشہ اچھی۔ حقیقت یہ ہے کہ مرد بھی اچھا یا برا ہو بھی ہوسکتا ہے اور عورت بھی اچھی یا بری ہو سکتی ہے۔ وکیل صفائی تشریف رکھیں۔ استغاثہ مقدمے کو آگے بڑھائے۔ جناب والا!اگر کسی مرد کو ذیادتی کرتے ہوئے کچھ عورتیں دیکھیں تو مرد کو حد کی سزا نہیں دی جاسکتی۔ وکیل صفائی بتانا پسند کریں گی کہ کیا ایسے مرد کو رہا کر دیا جائے جیسے لڑکیوں کے ہاسٹل میں ذیادتی کرتے صرف عوتوں نے دیکھا ہو؟ عدالت نے سوال اٹھایا۔ اس نقطے پر دو دلائل پیش کروں گی۔ پہلا یہ کہ حد لاگو نہ ہونے کی صورت میں تعزیر کا قانون موجود ہے۔ کسی ظالم مرد کو بری کرنے سے پہلے کسی بھی جج کو دس مرتبہ سوچنا پڑے گا۔ دوسری دلیل یہ کہ یہ بات صرف کہنے کی حد تک ہے۔ اگر چند عورتیں بھی جمع ہو جائیں تو ذیادتی کرنا تو بڑی بات ہے آوازیں کسنے والے مرد کے لئے ہڈیاں اور بال بچانا ممکن نہیں ہوتا یسا مرد نہ عورتوں کے ہاتھوں سے بچ سکتا ہے اور نہ کسی اسلامی عدالت کی سزا سے۔
وکیل استغاثہ نے حدود آرڈنینس کی دفعہ 8 کا حوالا دیتے ہوئے کہا کہ مجرم کو حد کی سزا اس وقت سنائی جا سکتی ہے جب اسے چار عاقل، بالغ اور صاحب کردار مسلمانوں نے ذیادتی کرتے ہوئے دیکھا ہو۔ جو کبھی ممکن نہیں ہوسکتا۔ اس اہم معاملہ پر آپ کیاکہتی ہیں۔ جج صاحب نے وکیل صفائی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔ جناب والا! میری فاضل دوست دو باتوں کو ایک بار پھر نظر انداز کر رہی ہیں۔ ایک طرف تعزیر کو بالکل بھلا دیتی ہیں جبکہ دوسری طرف واقعاتی شہادت اور جج کے کردار کو بھی نظرانداز کر دیتی ہیں۔ حدود آردنینس صرف قانون کی کتاب کا نام نہیں بلکہ اس کے ساتھ ایک عدالت بھی موجود ہوتی ہے جو حالات۔ واقعات اور شہادت کی بنیاد پر فیصلہ کرتی ہے۔
زنا بالجبر کا ذکر قرآن میں کہیں نہیں لہذا اسے زنا شمار نہیں کرنا چاہئے۔ یہ وکیل استغاثہ کی دلیل ہے یہ بالکل غلط ہے جناب والا! احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم، تفاسیر صحابہ اور فقہ کے قوانین میں واضح طور پر زنابالجبر کے احکامات موجود ہیں اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ عورت کے ساتھ ذیادتی کی گئی سزا مرد کو ملتی ہے عورت کو نہیں۔ وکیل استغاثہ نے نقطہ اٹھایا کہ مظلومہ عورت کی گواہی تسلیم نہیں کی جاتی۔ وکیل صفائی نے کہا جناب والا! مظلومہ عدالت کے روبرو مدعی بن کر آتی ہے وہ مرد پر الزام عائد کر رہی ہوتی ہے لہذا صرف اس کی گواہی کی بنیاد پر مرد کو اس وقت تک سزا نہیں دی جاسکتی جب تک حالات، واقعات اور دوسرے گواہ عورت کے حق میں بیان نہ دیں ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ کوئی فاحشہ عورت کسی شرف مرد پر الزام لگا کر اس کی زندگی تباہ کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔
طلاق یافتہ عورت اگر دوسری شادی کرلے تو سابقہ شوہر اغواہ کا کیس بنا دیتا ہے۔ وہ کیسے؟ جج نے پوچھا۔ اگر عورت طلاق کا تصدیق نامہ یونین کونسل کے چیئرمین سے حاصل نہ کرے۔ کیا جواب ہے آپ کے پاس۔ جج صاحب نے وکیل صفائی سے پوچھا۔ جناب والا! یہ شرط تو مسلم لاء آرڈنینس لاگو کرتا ہے۔ اس خامی کو حدود آرڈنینس کے کھاتے میں ڈالنا ذیادتی ہے۔ مزید یہ کہ فیڈرل شریعت کورٹ نے ایسی ذیادتی کو تقریبا ناممکن بنا دیا ہے۔
وکیل استغاثہ نے کہا جناب والا! میں آپ کی توجہ جسٹس ناصر اسلم زاہد کی رپورٹ کی طرف دلاؤں گی جو انہوں نے 1997ء میں ویمن کمیشن کے سربراہ کی حیثیت سے جاری کی تھی وہ کہتے ہیں کہ حدود آرڈنینس کے نفاذ کے بعد کیسوں کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے۔ جو خواتین جیلوں میں مختلف جرائم میں قید ہیں ان کی تعداد 40 فیصد ہے۔ جبکہ ایک سروے کے مطابق 85 فیصد عورتیں حدودآردنینس کے سبب قید ہیں۔ وکیل صفائی نے تردید کرتے ہوئے کہا میرے پاس فیڈریل شریعت کورٹ کی تین سالہ رپورٹ ہے جو وکیل استغاثہ کے دعوٰی کی تردید کرتی ہے۔ انہوں نے جج صاحب کی طرف رپورٹ کی فوٹو کاپی بڑھاتے ہوئے کہا کہ قیدی عورتوں کی 14فیصد تعداد حدود کے مقدمات میں گرفتار ہے جبکہ 86فیصد عورتیں دیگر جرائم کے سبب قید ہیں۔ جناب والا! کہ ایسے مقدمات میں سزا پانے والے مرد 300 ہیں جبکہ عورتیں 50 ہیں۔ یہ ایک اور چھ کا تناسب ہے۔ جج صاحب نے کہا عدالت آدھے گھنٹے کے وقفے کے بعد فریقین کا تفصیلی موقف سنے گی۔
جج صاحبان عدالت میں آئے۔ حدود آرڈنینس کے مقدمات کی فائل ان کی جانب بڑھائی گئی۔ تفصیلی اور حتمی دلائل کے لئے استغاثہ اور صفائی کی خواتین وکلاء حاضر تھیں۔ استغاثے کی جانب سے خوتون وکیل نے اپنی گفتگو کو آگے بڑھائے ہوئے کہا۔ جناب والا! صدیوں سے محروم و مظلوم خواتین کو رعایت دینے کے بجائے ان پر حدودآردنینس کی شکل میں ایک اور طلم کیا گیا ہے۔ مردوں کے معاشرے میں عورت کو امتیازی قانون کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ وہ 10 فروری 1979 کا المناک دن تھا جب اس قانون کو نا فذ کیا گیا- اس قانون کے تحت عورت کو سنگسار کرنے کی سزائیں بھی سنائی گئیں اور کوڑے مارنے کا احکامات بھی دیئے گئے۔ نابینا عورت صفیہ بی بی کے ساتھ بھی نچلی عدالت نے کوئی رعایت نہ کی۔ ملزمان کو شہادت نہ ہونے کے سبب رہا کردیا گیا اور آنکھوں کی نعمت سے محروم عورت رسوائی کی اندھی قبر میں دفن کردی گئی۔ اگر یہ اچھا قانون ہوتا اور معاشرے میں بہتری آتی تو مقدمات اور سزاؤں کی تعداد میں کمی ہونی چاہئے تھی۔ جناب والا! اس قانون کے نفاذ کے بعد زنا کے مقدمات میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا ہے۔ معاشرہ ترقی کے بجائے تنزلی کی جانب بڑھ رہا ہے۔ مختلف حکومتوں کے نصف درجن کے لگ بھگ کمیشن اس کی منسوخی کا مطالبہ کرچکے ہیں۔ کوئی قانون دان کسی اچھے قانون کی منسوخی کا مطالبہ نہیں کرتا۔ اگر ہر طرف سے دھواں اٹھ رہا ہے تو ضرور آگ لگی ہوئی ہے۔
جناب والا! جاگیردارانہ معاشرے مین یہ قانون ظالم کو ایک اور ہتھار فراہم کرتا ہے۔ میں ایک بار پھر کہوں گی کہ ایک تہائی عورتیں اس آرڈنینس کی زد میں ہیں میری فاضل دوست ابتدائی سماعت کے دوران اس میں جزوی ترمیم کی ضرارت کو تسلیم کر چکی ہیں۔ جناب والا! یہ ایسے کپڑے کی مانند ہو چکا ہے جو کہیں سے ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ اسی اگر ایک جگہ سے سینے کی کوشش کی جائے تو وہ دو جگہ سے پھٹ جائے گا۔ مین اس عدالت کی توجہ ایک اہم نکتے کی جانب مبذول کروانا چاہوں گی کہ اب تک حدود آرڈنینس کا شکار ہونے والی خواتین کے مقدمات کے فیصلوں کی کیا صورت حال ہے۔ یہ سن کر حیرانی ہوتی ہے کہ نوے فیصد خواتین ایسے مقدمات میں باعزت بری ہو جاتی ہیں۔ ایک طرف انہیں رہا کر دیا جاتا ہے لیکن کیا مقدمات کی رسوائی کے بعد کوئی عورت باعزت با عزت رہ سکتی ہے۔ معاشرہ اسے پہلے کی طرح قبول کر لیتا ہے؟ غیروں کو تو چھوڑیں جناب والا! اس کے اپنے ماں باپ بھائی اور بیٹے تک اسے قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔
وکیل استغاثہ اپنے دلائل کے اختتام پر تھیں۔ انہوں نے آئین کے آرٹیکل پچیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ دفعہ جنس کی بنیاد پر کسی قسم کی تفریق کی ممانعت کرتی ہے۔ حدود آردنینس آئین کے عطا کردہ بنیادی حق کی نفی کرتا ہے صنف کی بنیاد پر امتیاز برتنے والا یہ قانون اس قابل ہے کہ اسے منسوخ کردیا جائے تاکہ انے والی نسل کی بچیاں اس کے بھیانک اثرات سے محفوظ رہ سکیں۔
Thats all your Honour
وکیل صفائی اٹھیں اور اپنے دلائل کا آغاز کیا۔ جناب والا! حدودآردنینس کو منسوخ کرنے کا مطالبہ غلط ہے۔ کسی بھی قانون میں جزوی خامیوں یا اس کے نفاذ میں تکالیف کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہوتا کہ قانون منسوخ کردیا جائے۔ ٹریفک کے قوانین کی خلاف ورزی کا یہ مطلب نہیں کہ قانون غلط ہے۔ قتل کے مجرموں کو پھانسی کی سزا دیئے جانے کے باوجود قتل ہو رہے ہیں۔
جناب والا! حدودآردنینس سے قبل زنا کوئی جرم نہ تھا۔ فحاشی کے برے اثرات کو روکنے کا کوئی ذریعہ نہ تھا۔ اگر کوئی عورت اور مرد باہمی رضامندی سے زنا جیسے برے فعل کے مرتلب ہوتے تو اسے تعزیرات پاکستان افراد کا ذاتی معاملہ قرار دے کر چشم پوشی کرتا تھا۔ جناب والا! جرائم 1979 سے پہلے بھی ہوتے تھے لیکن گرفت میں نہ اتے تھے۔ جب قانون نافذ ہوا اور معاشرے کے برے افراد کی رنگ رلیوں پر گرفت کی گئی تو اعدادو شمار بڑھ گئے۔ یہ جرائم میں اچانک اضافہ نہیں بلکہ جرم کے مرتکب افراد کو قانون کے دائرے میں لانے اور معاشرتی تالاب سے گندی مچھلیوں کا نکال باہر کرنے کی کوشش ہے۔ کیا 200 سال قبل کینسر، ٹی بی اور ایڈز کے امراض نہ تھے؟ بیماریاں تو اس وقت بھی تھیں لیکن ان کی تشخیص نہیں ہوئی تھی۔ معاشرے میں فحاشی پہلے بھی تھی لیکن اسے جانچنے کا کوئی آلہ نہ تھا۔ حدودآرڈنینس الٹراساونڈ اور ایکسرے مشین ہے جس نے معاشرے کے فاسدمادوں اور برے عناصر کو اہنی گرفت میں لے لیا ہے۔ اتنا شور اسی لئے ہے کہ آزادانہ ماحول میں رکاوٹ نہ ڈالی جائے اور گل چھڑے اڑانے کی راہ میں کوئی قانون دیوار نہ بنے۔
عورتوں کی ہمدردی کے نام پر حدود آرڈنینس کا منسوخی کا مطالبہ صنف نازک پر ظلم کی ایک شکل ہے۔ اگر کوئی معاشرہ ایک شادی سدہ مرد کو چراہگاہ فراہم کردے کہ جہاں اس کا دل چاہے وہ جگالی کرتا پھرے تو بیعی کا کیا ہو گا جناب والا! جو اس مرد کے گھر کی دیکھ بھال بھی کرتی ہے اور اس کے بچوں کی پرورش بھی۔ یہ قانون رنگین مزاج مردوں اور شمع محفل بننے والے عورتوں کے دماغ کو درست کر کت باوفا بیویوں کو تحفظ دینے کا قانون ہے۔ تعزیرات پاکستان صرف کسی کی بیوی سے ناجائز تعلقات کو جرم قرار دیتا ہے۔ اس کی وجہ جرم زنا کی شدت نہیں بلکہ مرد کے ساتھ ہونے والی دھوکہ دہی ہے۔اگر عورت کسی کے بیوی نہ ہو یعنی کوئی کنواری، بیوہ یا طلاق یافتہ کسی مرد کے ساتھ زنا کی مرتکب ہوتو تعزیرات پاکستان حرکت میں نہیں آتا۔ انگریزی قانون کسی شادی شدہ مرد پر پابندی نہیں لگاتا کہ وہ کسی بھی عورت سے ناجائز تعلقات استوار کرکے اپنی بیوی کے ساتھ بیوفائی کے جرم کا مرتکب نہ ہو۔
اسلامی قانان زنا کو بدکاعی اور بدکاری کو زنا قرار دیتا ہے۔ انگریزی قانون زنابالجبر یعنیRape کو تو سنجیدگی سے لیتا ہے لیکن ایک مرد و عورت کو باہمی رضامندی سے بدکاری یعنی Adultery اس کے نزدیک گراں نہیں۔ وہ اسے فرد کا ذاتی معاملہ قراد دے کر کم تر سزا مقرر کرتا ہے۔ اس کی یہی قانون سازی اس کے معاشرے میں لاولد اور وناجائز بچوں کی بہتات کی وجہ ہے۔ کیامیری فاضل دوست اور مختلف این جی اوز مغرب کے اس ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں کہ پاکستان میں بھی یہی کچھ ہو جائے۔ جناب والا! گنتی کے چند اسلامی ممالک ہیں جس کا بالائی طنقہ مغرب سے کچھ مختلف نظر آتا ہے۔ پاکستان ان میں سے ایک ہے۔ ایران، افغانستان اور سعودی عرب کے علاوہ دیگر اسلامی ممالک کی ایلیٹ کلاس اور مغرب کے عام معاشرے میں کوئی فرق نظر نہیں۔ مغربی دنیا کروڑوں کے فنڈز اسی لئے این جی اوز کو دے رہی ہے کہ وہ ان کے ایجنڈے کو پورا کر سکیں اور اسلامی ممالک کو مغرب کت رنگ میں رنگ سکیں۔
جناب والا! آخر میں میں کچھ ایسے معاملات پر دلائل پیش کرو ں گی جنہیں تسلیم کر لیا جائے تو بڑی حد تک خوتین کی تکالیف کا ازالہ ہو سکتا ہے۔ زنا کے مقدمات میں گرفتاری کا تصور نہیں لہذا ایسے مقدمات میں خواتین کی ضمانت کو مزید آسان کیا جانا چاہئے۔ عورت کے خلاف بدکاری کا الزام عائد کرنے والے کو اسی وقت قذف کا نوٹس جاری کیا جائے۔ الزام ثابت نہ ہونے کی صورت میں بغیر کس تاخیر کے قذف کی کاروائی شروگ کردی جائے تاکہ پاک دامن عورتوں پر جھوٹا الزام لگانے والا اپنی پیٹھ کی طاقت بھی جانچ سکے اور اپنی ہڈیوں کی مضبوطی بھی دیکھ سکے۔ جاگیردارانہ خرابیوں کا ملبہ حدودآرڈنینس پر نہیں ڈالا جاسکتا۔ اسلام وٹےسٹے کی شادیوں، لڑکیوں کے گھر سے بھاگ کر شادی کرنے، قران سے شادی کرنے یا کاراکاری کے سخت خلاف ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ حدودآرڈنینس کی جزعی خامیوں کو دور کرکے اسے خوتین کے دکھ دور کرنے کا ذریعہ بیایا جائے۔ ہماری خواہش ہے کہ سادہ و گھریلوں عوتوں کے عاشق مزاج شوہروں کو بھی لگام دی جائے اور شریف شوہروں کی رنگین مزاج بیویوں کی نکیل بھی کس دی جائے تا کہ کوئی بھی مردیاعورت اپنے شریک زندگی سے بے وفائی کا مرتکب نہ ہو۔
That all your honour
جج صاحب نے ریماکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ دونوں جن مکاتب فکر کی نمائندگی کرتی ہیں اگر وہ ایک دوسرے سے الجھنے کے بجائے یہ قوت، توانائی اور پیسہ ان خواتین کو رہا کروانے کی جانب مبذول کروائیں تو بہتر ہو جو شخصی ضمانت اور وکیل نہ ہونے کے سبب جیلوں میں سڑ رہی ہیں۔ تصوراتی عدالت نے فیصلہ آئندہ تاریخ تک محفوظ کر لیا۔
(ماخذ؛ عدلیہ تاریخ کے کٹہرے میں۔۔۔اشاعت؛2004۔۔۔۔تحریر؛ محمد براہیم عزمی ایڈوکیٹ)
نئے قانون پر صدر کے دستخط ہو چکے لہذا ممکن ہے کہ اگلے دس بارہ دنوں میں اس کا مسودہ سندھ ہائی کورٹبار کی لائبریری میں آجائے ہاتھ لگتے ہیں اس پر اپنی رائے دوں گا ویسے زنا اور زنا بالجبر والے معاملے میں مولوی سچے لگتے ہیں۔
12/02/2006
جرنل جی
پکے پَیر جما نہ لینا جرنل جی
لمے ڈیرے لا نہ رہنا جرنل جی
وِچ مدانے عیب اُچھالے جیہاں دے
بُکّل وِچ لُکا نہ لینا جرنل جی
گند مُکا کے گھر دی چابی موڑ دیو
گھرنوں جپّھاپا نہ لینا جرنل جی
بچیا کھچیا جیہڑا گھر دے چوراں توں
کِدھرے تُسیں اُڑا نہ لینا جرنل جی
دِتّیاں نیں بندوقاں اپنے دشمن لئی
ساڈے ول گُھما نی نہ لینا جرنل جی
جتّھوں تِیکر حد تہاڈی ٹھیک تُسیں
حّدوں پَیرودھیانہ لینا جرنل جی
آنہ جائیے سڑکاں اُتّے منگن لئی
ساڈا حق دبا نہ لینا جرنل جی
مارن دے لئی اپنے گھر دے سچّیاں نوں
پتّھر جھولی پا نہ لینا جرنل جی
چڑھدی بڑی خُماری سِرنوں چودھردی
کِدھرے رَب بُھلا نہ لینا جرنل جی
کالی وِچ کتابے اوہناں وانگ تُسیں
اپنا ناں لکھوا نہ لینا جرنل جی
خود غرضی دی مل سیاہی شیشے تے
ساڈے مونہہ کُھلوا نہ لینا جرنل جی
وگدے ساڈے زخماں اُتّے دُھوڑن لئی
لُون کِتے منگوا نہ لینا جرنل جی
سولی چاہڑن ویلے بھیڑے لوکاں چوں
اپنے یار بچا نہ لینا جرنل جی
یہ نظم مشرف کے دور کے ابتدائی سالوں میں چھپی تھی!!! شاعر کوئی “بابا نجمی“ ہے!!!
11/28/2006
یہاں ہر چیز بکتی ہے
رسیلے ہونٹ، شرمیلی نگائیں، مرمریں باہیں
یہاں ہر چیز بکتی ہے
خریدارو! بتاؤ کیا خریدو گے
بھرے بازو، گٹھیلے جسم، چوڑے آہنی سینے
بلکتے پیٹ، روتی غیرتیں، سہمی ہوئی آہیں
یہاں ہر چیز بکتی ہے
خریدارو! بتاؤ کیا خریدو گے
زبانیں، دل، ارادے، فیصلے، جانبازیاں، نعرے
یہ آئے دن کے ہنگامے، یہ نگا رنگ تقریریں
یہاں ہر چیز بکتی ہے
خریدارو! بتاؤ کیا خریدو گے
صحافت، شاعری، تنقید، علم و فن، کتب خانے
قلم کے معجزے، فکر و نظر کی شوخ تصویریں
یہاں ہر چیز بکتی ہے
خریدارو! بتاؤ کیا خریدو گے
اذانیں، سنکھ، حجرے، پاٹھ شالے، داڑھیاں، قسقے
یہ لمبی لمبی تسبیحیں، یہ موٹی موٹی مالائیں
یہاں ہر چیز بکتی ہے
خریدارو! بتاؤ کیا خریدو گے
علی الاعلان ہوتے ہیں یہاں سودے ضمیروں کے
یہ وہ بازار ہے جس میں فرشتے آ کے بک جائیں
یہاں ہر چیز بکتی ہے
خریدارو! بتاؤ کیا خریدو گے
قتیل شفائی
11/22/2006
رپورٹیں
پہلی رپورٹ جسے شیرل بینرڈ نے نے مرتب کیا، اسے مرتب کرنے میں نیشنل سیکورٹی ریسرچ ڈویژن نے تعاون کیا!!! “دی سمتھ رچرڈ فانڈیشن“ نے اسے اسپانسر کیا!!! اور اس کی تیاری کے سلسلے میں مرتب کنندہ نے دیگر آٹھ افراد کا شکریہ ادا کیا ہے!!! تین ابواب میں مشتمل ہے یہ!!!! ریسرچ رپورٹ ابتدائیہ ، رپورٹ کا ایک مختصر خلاصہ، استعمال ہونے والے ایسے الفاظ جو ان کے مطابق نئے ہیں کے معنٰی!!! اور پھر رپورٹ ہے!!!!
رپورٹ کے پہلے باب میں ان معاملات کو دیکھا گیا یا اکٹھا کیا گیا ہے جن کے متعلق ان کا خیال ہے کہ ان معاملات میں ہمارا ان سے اختلاف ہے!!! یہاں یہ وضاحت بھی کر دوں کہ ساتھ ہی ساتھ مسلم دنیا کو نظریات کی بنیاد پر چار گروہوں میں تقسیم کر کے ان کا مطالعہ کیا گیا ہے!! ایک بنیاد پرست (جس سے وہ خوف کھاتے ہیں!!! پیٹ بھر کر)، دوسرے “روایت پرست“، تیسرے “جدت پسند“ اور چوتھے “سیکولرز“!!! پھر ان گروہوں کو مزید دو دو حصوں میں رکھا ہے!!! اختلافی معاملات کی فہرست میں “جمہوریت اور انسانی حقوق“، “کثرت ازواج“، “جرائم کی سزا اور اسلامی نظام انصاف“، “اقلیتی آبادی“، “جہاد““۔ “خواتین سے متعلق عمومی قوانین( جیسے لباس، شوہر کا ان پر ہاتھ اٹھانا اور ان کی آزادی“ جیسے معاملات سے متعلق ان مسلمان گروہوں (ان کی تقسیم کے مطابق) کے خیالات ان خاص وجوہات یا دلائل (اسلامی نقطہ نظر سے) کی روشنی میں جو یہ گروہوں رکھتے ہیں درج کئے ہیں۔
دوسرے باب میں انہوں نے مسلمانوں کے ان گروہوں (اپنے طور پر جنہیں انہوں نے نظریاتی اور فکری طور پرتقسیم کیا ہے) کا مطالعہ کیا!!! اس میں “سیکولرز“ کو انہوں نے اپنا فطری ساتھی قرار دیا ہے، ان کی رائے ہے کہ ان کی ایک ہی کمزوری ہے کہ یہ لوگ مالی طور پر کمزور ہیں لہذا ان کی مدد کی جائے!!! اس کے علاوہ یہ ہی لوگ بنیاد پرستی (شائد اس سے مراد راسخ العقیدہ لوگ ہے) کے خاتمہ میں مدد ملے گی لہذا ان کے افکار کو فروغ کرنے میں ان کی مدد و تعاون کی جائے ہر سطح پر!!! جہاں تک بنیاد پرستوں کا تعلق ہے تو وہ ان کے نزدیک جدید جمہوریت کے دشمن ہیں!!! یہ لوگ مغربی اقدار اور مقاصد اور خاص کر امریکہ کے لئے خطرناک ہیں (یقین جانیں یہ ہی لکھا ہے)، لہذا یہ ہمارے اور ہم ان کے دشمن ( یہ بھی کہا ہے)!!! ساتھ ہی انہیں افسوس ہے کہ یہ لوگ تمام تر (جدید) وسائل کو استعمال کرتے ہیں!!! جیسے ٹی وی، انٹرنیٹ ، کتب ، بلکہ ان کے اپنے اشاعتی ادارے ہیں!!! (جدید ذرائعہ کا استعمال اور پھر بھی بنیاد پرست؟؟) اپنے پیغام کو آسانی سے پھیلالیتے ہیں!!!! روایت پسندوں کو وہ بنیاد پرستوں کے قریبی سمجھتے ہیں اور جدت پسندوں کو ان کے جنہیں وہ اپنا فطری ساتھی سمجھتے ہیں اس رپورٹ یا ریسرچ کے مطابق!!!! لیکن پھر بھی ان کو الگ الگ ہی سمجھتے ہیں!!! بہرحال ان کی خوبیوں اور خامیوں کا جائزہ لیا ہے!!! کہ کون کس طرح ان کے قریب اور کتنا؟؟ اور کون دور!!!
تیسرے باب میں وہ حکمت عملی واضح کی جس کی مدد سے وہ اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں!!! کہ ان گروہوں میں کس کی مدد کرنی ہے کب اور کس طرح!!! اور کتنی!!! احادیث کی جنگ، حجاب پر نقطہ نظر!!! دیگر اگر قوت ہو تو یہ رپورٹ پڑھے کچھ سمجھ ناں تو سمجھ آتی ہے کیا یہ بھی بتانا!!! “نظریات کی جنگ“ بھی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے !!! اس میں ان باتوں پر غور کیا گیا ہے کہ القاعدہ سے نظریات کی جنگ کیسے جیتی جائے!!! نوجوان کو اس سے کیسے متنفر کیا جائے!! وہ کیا باتیں ہے جن کی وجہ سے ایک کم عمر ان سے دور ہوسکتا ہے!!! مجھے کچھ یوں لگا اسے پڑھ کر کہ مسلم نوجوان میں سے جہاد (کچھ لوگ اسے دہشت گردی کہہ لیں) کا جذبہ ختم کرنے کے لئے ان کے خیال میں صوفی ازم، جنسی بھوک، بےراروی اور زندگی سے محبت اہم کردار ادا کرسکتے ہیں!!!
پہلی رپورٹ قرین 90 صحفات اور دوسری بیس صحفات پر مشتعمل ہے!!! اگر وقت و قوت ہو تو ضرور پڑھے!!! اور رائے بھی دیں کہ آپ کیا کہتے ہیں
11/19/2006
غزل
قدم انسان کا راہ دہر میں تھرا ہی جاتا ہے
چکے کتنا ہی کوئی بچ کے ٹھوکر کھا ہی جاتا ہے
نظر ہو خواہ کتنی ہی حقائق آشنا پھر بھی
ہجوم کش مکش میں آدمی گھبرا ہی جاتا ہے
خلاف مصلحت میں بھی سمجھتا ہوں مگر ناصح
وہ آتے ہیں تو چہرے پر تغیر آ ہی جاتا ہے
ہوائیں زور کتنا ہی لگا یا آندھیاں بن کر
مگر جو گِھر کے آتا ہے وہ بادل چھا ہی جاتا ہے
شکاہت کیوں اسے کہتے ہو یہ فطرت ہے انسان کی
مصیبت میں خیال عہدِ رفتہ آ ہی جاتا ہے
شگوفوں پر بھی آتی ہیں بلائیں یوں تو کہنے کو
مگر جو پھول بن جاتا ہے وہ کمھلا ہی جاتا ہے
سمجھتی ہیں مآلِ گل مگر کیا زور فطرت ہے
سحر ہوتے ہی کلیوں پر تبسم آ ہی جاتا ہے
جوش ,,,,,,,,,11/17/2006
اچانک موت!!!!
کیا ایسا ہے؟؟؟؟
11/13/2006
یہ کیا!!!!!
“جاٹ کے لغوى معنى ہیں گنوار یا غیر تہذیب یافتہ !جاٹوں کی کئی گوتیں اور قبیلے ہیں وارث شاہ صاحب نے ہیر میں جاٹوں کی تقریبا 50 گوتوں کا ذکر کیا ہے!! گجر اور آرایں لوگوں کو جاٹ خود میں شامل نہیں کرتے! یہ لوگ انتھائی تعصب کرنے والے مغرور ہوتے ہیں!! تعلیم ان کا کچھ بھى نہیں بگاڑ سکتى! ہنر مند لوگوں سے حقارت کا سلوک کرتے ہیں اور ان کو کمى اور کمینہ کہہ کر پکارتے ہیں خود سے طاقتور کے سامنے انتہائی فرمانبردار اور کمزور پر ظلم کرنے والے ہوتے ہیں زمانہ جاہلیت کے عربوں کى طرح سالہا سال دشمنیاں پالتے رہتے ہیں! قاتل اور اشتہ دارى رشتہ دار باعث فخر ہوتا ہے پاکستان میں ان کى اکثریت ہونے کى وجہ سےبہت سے ہنر مند لوگ دوسرے ملکوں کو ہجرت کر گیے ہیں بے ہنر جاٹوں کے زیر انتظام ملک پاکستان کے کاروبارى حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ اب جاٹوں کے لڑکے یورپ میں موچى نائی اور راج مزدور لوگوں کى کام کے لیے منتیں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔“۔
کافی تعصب سے بھرپور تحریر ہے!!! کمال ہے بھائی!!! لازمً کسی ایسے اللہ کے بندے نے لکھی جو جاٹوں کو اچھا نہیں سمجھتا!!! بلکہ شائد نفرت کرتا ہے!!! چلو ٹھیک ہے کرتا رہے !!! جاٹ یا جٹ (چونکہ میری گوت گھمن ہے) ہونے اور کراچی میں “انجمن بہبود جٹاں“ کا ایک ایکٹو ممبر کی وجہ سے یہ تحریر اور بھی بُری لگی!!! باقی ذاتوں کے بارے میں ان ہی اصولوں کی روشنی میں لکھا گیا تو خوب کام ہوا!!!! تیار ہو گیا انسائکلوپیڈیا!!! غیر جانبداری ضروری ہے!!! ذاتی آراء کو الگ رکھنا مشکل ہے مگر بڑے کام کے لئے یہ کرنا پڑتا ہے!!!
یوں تو جاٹ قوم کے متعلق کتابوں کی صورت میں اور خود نیٹ پر( سرچ انجن یا کسی بھی انسائکلوپیڈیا میں jatt یا jat لکھ کر تلاش کر نے پر ) کافی سارا مواد موجود ہے!!! مگر یہاں میرا مقصد یہ نہیں کہ میں وضاحتیں پیش کرو!!! بس اتنا کہ مطالعہ بھی تعصب سے پاک ہی ہو تو اچھا ہے!!!! ۔
11/12/2006
اِدھر اُدھر کی
بات اپنے مضمون کی کر رہا تھا تو اس مضمون کے لئے دو لطیفے سوچ رکھے تھے (جو کہیں سنے تھے) اب نہیں لکھ رہا اس پر!!!! جو کچھ یوں تھے!!!!
ایک خاتون ایک سو منزلہ عمارت سے گر جاتی ہے جب وہ 80 ویں منزل پر پہنچی تو ایک امریکن مرد نے اسے گرتے میں تھام لیا۔۔۔۔ ابھی وہ لٹکی ہوئی ہی تھی کہ وہ شکر گزار ہوئی کہ آپ نے میری جان بچائی!!! ا،ریکن نے کہا وہ تو ٹھیک ہے کہ مگر آج رات کہاں گزانے کا ارادہ ہے؟؟؟؟ عورت فورًا بھڑک اٹھی امریکن نے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا وہ گرتی ہوئی جب 60ویں منزل پر پہنچی تو ایک اور سیکولر مرد نے اسے ہاتھ دے کر پکڑ لیا !!!!۔۔۔ وہ شکر گزار ہوئی تو اِس مرد نے بھی وہ ہی آفر کر دی!!! اس نے انکار کیا تو اس نے بھی اس کا ہاتھ چھوڑ دیا !!! نیچے گرتے ہوئے اس عورت کو خیال آیا کہ اگر میں ان مردوں میں سی کسی ایک کی بھی بات مان لیتی تو میری جان بچ جاتی اور ایک رات ہی کی تو بات تھی!!! کیا فرق پڑتا!!!۔۔۔ اس ہی دوران 30 ویں منزل پر ایک مرد نے اس کا ہاتھ تھام لیا!!! اور اسے اوپر کھینچ لیا اس عورت نے فورًا اس کا شکریہ ادا کیا اور کہا کیا ارادہ ہے؟؟؟ آج رات کیا ہو رہا ہے!!! اس مرد نے فورًا اسے دوبارہ نیچےدھکا دے دیا اور کہنے لگا “لاحول ولاقوۃ“۔
دوسرا لطیفہ کچھ یوں تھا!!!
ایک ہوٹل میں تین عورتیں بیٹھی باتیں کر رہی ہوتی ہیں، ایک جاپانی، دوسری مغربی، تیسری مشرقی۔ اتنے میں خبر ہوتی ہے کہ ہوٹل میں چند بدمعاش گھس آئے ہیں اور وہ خوبصورت عورتوں کو بری نیت سے اٹھا کر لے جارہے ہیں!!!
جاپانی عورت کہتی ہے “اگر مجھے ان میں سے کسی مرد نے پکڑنے کی کوشش کی تو میں لڑوں گی یا وہ زندہ نہیں رہے گا یا میں“
مشرقی عورت یوں گویا ہوئی “اگر مجھے کسی مرد نے ہاتھ بھی لگایا تو میں اپنی جان لے لو گی“
مغربی عورت کا جواب تھا “مجھے سمجھ نہیں آتی اس میں حرج ہی کیا ہے ذرا تفریح ہی رہے گی“
ان کو اس وجہ سے کوڈ کرنا تھا کہ جب ایسی بحثوں کے نتیجے میں اوپر والے لطیفے لطیفے نہ رہے یعنی مسلم مرد اور عورت بھی مکمل طور پر مغربی سوچ اپنا لیں تو یہ افسوس اور دکھ کی بات ہو گی!!! مثبت باتوں کو اپنانے میں کوئی حرج نہیں!!!
کل کورٹ میں ایک نہایت دلچسپ بات سنے کو ملی ہوا یوں کہ جج صاحب اپنے چیمبر میں گئے ہوئے تھے لہذا تمام وکیل بیٹھے گفتگو کرنے لگ پڑے ایک سینیر خواجہ نوید کو کہنے لگے یار تم نے ہم وکیلوں کی روزی خراب کرنی ہے کہ ایک عورت جس کا میں نے ایک فیملی کیس لڑا تھا اس سی دس ہزار فیس کی مد میں اور دس ہزار کورٹ فیس کی مد میں مانگے تھے!! یوں تو اب اس کا کیس ختم ہو چکا ہے اور میں اپنی فیس بھی لے چکا ہو!!! مگر اس کا فون آیا کہ جناب آپ نے مجھ سے کورٹ فیس کی مد میں دس ہزار لیئے تھے جبکہ کورٹ فیس تو پندرہ روپے ہے!!!!! میں نے پوچھا یہ تم سے کس نے کہا ہے ؟ بتانے لگی کہ ابھی ٹی وی میں “خواجہ کی عدالت“ میں بتایا ہے!!!خواجہ صاحب نے ہنستے ہوئے پوچھا تم نے کیا کہا؟پہلے وکیل کہنے لگے میں نے کہہ دیا “ بی بی کیا مشرف کو پتہ ہے کہ بازار میں آٹے دال کا کیا باؤ ہے؟ کہنے لگی نہیں!! تو میں نے کہہ دیا بی بی یہ بھی سپریم کورٹ کے وکیل ہیں ان کو کیا پتا کہ چھوٹی عدالتوں میں کیا فیس ہے!!!! خواجہ صاحب مسکراتے ہوئے بولے خوب! ٹھیک ہے اب اس عورت کا فون آئے تو مجھ سے بات کروا دینا میں کہہ دوں گا کہ “اگر فیس واپس لو گی تو طلاق بھی واپس ہو جائے گی!!! اور کورٹ میں اپنے خادند کو پیش کرنا پڑے کا اگر پہلا نہیں ملا تو کوئی اور تلاش کر کے لانا پڑے گا“مجھے ان کے اس جواب پر بہت ہنسی آئی قیب قریب قہقہ لگانے کے قریب!!!کہ دوسرا مرد شوہر کے طور پر تلاش کر کے لانا پڑے گا!!!
جاتے جاتے ایک لطیفہ اور سن لیں جو خواجہ نوید (یہ لطیفے بہت سناتے ہیں محفل میں) نے فارمیلٹی پوری کرنے کے حوالے سے سنایا!!!! اوپر کے دو لطیفوں کی طرح یہ بھی کچھ آزاد خیال ہے لہذااچھا نہ لگے تو معذرت!!!
ایک لڑکا ایک لڑکی دھوکے سے کو ایک ویرانے میں لے جاتا ہے!! لڑکی اسے کہتی ہے کہ اگر تم نے مجھے چھونے کی بھی کوشش کی تو میں شور مچا دوں گی!!! لڑکا کہتا ہے مگر یہاں تو دور دور تک کوئی بھی نہیں!! جواب میں وہ کہتی ہے “تو کیا ہوا فارمیلٹی تو پوری کرنی ہے
11/10/2006
11/08/2006
نفسیات غلامی
شاعر بھی ہیں پیدا، علما بھی، حکما بھی
خالی نہیں قوموں کی غلامی کا زمانہ
مقصد ہے ان اللہ کے بندوں کا مگر ایک
ہر ایک ہے گو شرِح معافی میں یگانہ
بہتر ہے کہ شیروں کو سکھا دیں رم آہو
باقی نہ رہے شیر کی شیری کا فسانہ ،
کرتے ہیں غلاموں کو غلامی پہ رضا مند
تاویل مسائل کو بناتے ہیں بہانہ
علامہ اقبال
11/06/2006
آنکھوں کا تارا
اس کی دہائی میں ایک شخض پورے مغرب اور امریکہ کی آنکھوں کا تارا تھا۔ وہ ایک ایسے ملک کا سربراہ تھا جس کے ساتھ وہ گزشتتہ تین دہائیوں سے سرد جنگ لڑ رہے تھے۔ اس ملک کے نظام کو وہ لوگ مغرب کے لائف سٹائل کیلئے ایک بہت بڑا خطرہ تصور کرتے تھے۔
ہالی ووڈ ان کے بارے میں جیمز بانڈ فلمیں بنا کر ڈائجسٹوں میں لطیفے چھپوا کر اور آزادی رائے اور اظہار پر پابندی کی کہانیاں بیان کرکے اس ملک کو پوری دنیا میں بدنام کیا گیا۔ یہ ملک دوسری بڑی عالمی طاقت تھا اور دنیا بھر میں کیمونسٹ تحریکوں کا سرپرست جسے لوگ عرف عام میں سوویت یونین کہا کرتے تھے۔ اس ملک پر مارچ 1985 میں مغرب کا یاک منظور نظر برسر اقتدار آ گیا۔ گورباچوف جو 1931 میں ایک کسان کے گھر میں پیدا ہوا۔ اس کے آباؤاجداد امیر زمیندار تھے لیکن کیمونسٹ انقلاب کے بعد عام انسانوں کی صف میں آ کھڑے ہوئے۔ گورباچوف زندگی بھر مزدور رہنما اور کیمونسٹ خیالات کی ترویج اور سیاسی سرگرمیوں میں مگن رہا۔ اکیس سال کی عمر سے لیکر ملک کا سربراہ بننے تک اس کی زندگی سیاسی زمینے چڑھتی نظر آتی ہے، اس دوران اس نے مغرب کے بے شمار دورے کئے اور ان حکمرانوں سے اس کے تعلقات دوستانہ سطح پر آ گئے۔
لیکن اس آنکھوں کے تارے کے کے اقتدار میں آنے کی کہانی کا پندرہ سال پہلے آغاز ہوتا ہے۔ 1970 سے لیکر 1985 تک امریکی سی آئی اے ہر چھ ماہ بعد ایک معاشی سروے جاری کرتی جس میں سوویت معیشت کو تباہ حال، اس کے حکمرانوں کی کریشن اور اس کے معاشرے کی بد حالی کا تذکرہ ہوتا اور پھر یہ رپوٹیں کھی کسی تجزیہ کار اور کبھی کسی دوسرے کے نام سے دنیا بھر کے اخباروں، رسالوں اور ٹی وی چینلوں پر جاری ہو جاتیں۔ یہ تمام رپوٹیں جو ایک خاص مقصد سے مرتب ہوتی تھیں اور آج ان “کلاسیفائیڈ“ مواد کے طور پر میسر ہیں۔ یہ سب اس زمانے میں کیا جارہا تھا جب روس ایک عالمی طاقت کی حیثیت رکھتا تھا۔
لیکن 1985 میں گورباچوف کے برسراقتدار آتے ہی ان سب لکھنے والوں کے انداز تحریر ایسے بدلے کہ اس روس کو ابھرتی ہوئی مضبوط معیشتوں میں شمار کیا جانے لگا۔ اس معیشت کو روشن اور مستحکم اور عوامی فلاح سے مزین کیا جاتا تھا۔ جب اس طرح دادو تحسین کے ڈونگرے برسائے جارہے تھے اس وقت امریکہ اور مغرب کا یہ منظور نظر اپنے مضبوط اور مستحکم ملک کے ساتھ ایک اور کھیل کھیل رہا تھا۔ برسراقتدار آتے ہی اس نے کہا کہ میں اس جامد اور غیر متحرک معیشت کو مضبوط بناؤں گا اور اس نے ملک کی 75 سالہ تاریخ میں نیا نعرہ دہا “پیراسڑائیکا“ میڈیا کو آزادی دی تاکہ لوگوں کا غبار نکلے۔ ایک ایسے طنقے کو جنم دیا جس کے کاروبار، گاڑیوں اور تعیش کو دیکھ کر لوگوں کو غصہ آنے لگا۔ مغرب ان تمام تبدیلیوں کو خوش آمدید کہہ رہا تھا۔
امریکی صدر رونالڈریکن نے کہا وہ میرا بھائی ہے۔ برطانیہ کی مارگریٹ تھیچر نے کہا میں اس سی متاثر ہوں، جرمنی کے بلمٹ کوبل نے اسے اپنا محسن قراردیا اور یوں اس معیشت سے نکل کر سیاسی تبدیلیوں کا نعرہ بلند کیا اور اسے گلاس نوسٹ کا نام دیا۔ اس نے اپنے تمام محاذوں کو ختم کرنے کا اعلان کیا جو مغرب کے ساتھ سالوں سے موجود تھے۔ اسے موجودہ تاریخ کا اسب سے بڑا یو ٹرن کہا جاتا ہے۔
1988 میں اسے ٹائم میگزین کے کور پر مین آف دی ایئر کا اعزاز ملا لیکن اس وقت جب اس کی معاشی اور سیاسی پالیسیوں کی دھوم دنیا بھر میں مچی ہوئی تھی۔ روس کا خسارہ صفر سے 109 بلین روبل، سونے کے ذخائر2000 ٹن سے دوسو ٹن اور بیرونی قرضے صفر سے 120 بلین ڈالر تک پہنچ گئے۔ صرف پانچ سالوں میں خودکفیل روس چینی کے سب سے بڑے بحران کا شکار ہوا اور پھر گوشت اور روٹی یعنی گندم بھی لوگوں کی دسترس سے دور ہو گئی۔ یوٹیلیٹی سٹوروں کی طرح ذرا سستے سٹور بنائے گئے لیکن آخر بات جنگ کے زمانے کی طرح راشن کاڈو پر آ پہنچی اور لوگ لمبی لمبی لائنوں میں لگ کر خوراک حاصل کرنے لگے۔
ادھر اسی مغرب کے ممالک جن کی آنکھوں کا وہ تارا تھا اس کے ملک میں علیحدگی کی تحریکوں کی حمایت کرنے لگے۔ بھوک، افلاس اور غربت نے حکومت کا اعتماد ختم کردیا اور سیاسی بد امنی علیحدگی کو ہوا دی۔ اس کا پیراسٹرائیکا اور گلاس نوسٹ کسی کو تو متحد نہ کرسکا یہاں تک کہ ایک ایک کر کے سب علیحدہ ہوتے گئے اور جب آخر میں بالٹک ریاستوں کو اس نے زبردستی اپنے ساتھ رکھنے کی کوشش کی تو پورا مغرب جو اس کا حلیف تھا اس کے مدمقابل آ کھڑا ہوا۔
صرف سات سال کے عرصے میں ایک عالمی طاقت ستر سال سے مغرب کا سب سے بڑا دشمن سوویت روس بدنام ترین شکستوں ذہنوں اور رسوائیوں کے ساتھ بکھر گیا۔
حیرت ہے کہ جب وہ اپنی کتاب پیراسٹرائیکا شائع کر رہا تھا تو پوری مغربی دنیا اسی ترجمہ کر رہی تھی خرید رہی تھی۔ اسے عالمی خبروں کا موضوع بنایا ہواتھا۔ اسے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا اور آج نہ اس کا ذکر کئی ملتا ہے اورع نہ اس کی کتابیں کسی بک اسٹال پر میسر ہیں البتہ کسی ریسرچ میگزین میں کوئی تحقیقی رپورٹ آجاتی ہے کہ سی آئی اے نے کتنی محنت کے ساتھ ایک شخض کو تیار کیا اسے اپنے ہی اندر ایک سپر مین کا غرور دیا، اسے غلط تبصروں سے گمراہ کیا اور اس کو ایسے خیالات دیئے جو ملک توڑ سکتے تھے لیکن وہ اسے نیک نیتی کے ساتھ ملکی مفاد میں نافذ کرتا گیا۔ سی آئی اے کا یہ اتنا بڑا اور کامیاب تجربہ ہے جس کی گونج بھی اگر کسی ملک میں سنائی دے یا تاثر بھی ملے تو اس ملک سے محبت کرنے والے گھبرا جاتے، ڈر جاتے ہیں، انہیں خوف سے راتوں کو نیند نہیں آتی۔
تحریر؛ اوریا مقبول جان
11/05/2006
سو افراد اور دو حملے
باجوڑ پر اب تک امریکہ دو بار حملہ کر چکا ہے!!! سو افراد اس میں شہید (جس کا دل کرے وہ ہلاک پڑھ لے) ہوئے!!! سارے پاکستانی تھے!! سارے کلمہ گو!!! دونوں مرتبہ پریڈیٹر جہاز میزائل مار گیا!!! ہم دیکھتے رہ گئے!!! یوں بھی نہیں بلکہ لوگ ہمیں دیکھتے رہ گئے!! یہ کیا کر رہے ہیں کہ کچھ بھی نہیں کر رہے!!! پہلا حملہ اسی سال جنوری میں!!! جس نے 17 افراد کی جان لی!!! اس حملہ پر شوکت سلطان پہلے تو یہ ہی معلوم کرتے رہے کہ یہ کیا ہوا!!!! کہتے تھے کچھ تو ہوا ہے کیا یہ معلوم نہیں؟؟؟ پھر جو ہوا تھا اس پر احتجاج کرنا پڑ گیا!!! کہ جن پر دباؤ ہے ان کا دباؤ تھا بھائی عوام!!! ادھر سے جواب آیا (سینیٹر جان مکین اور کنڈولیزا رائس کی زبانی) کہ بھائی!!! بلکہ بھائی نہیں کہا تھا اتحادی کہا ہو گا!!! معافی کے طالب ہیں مگر ایسا پھر ہوسکتا ہے!!!! اور پھر ہو گیا!!!
30 اکتوبر کو دوسرا حملہ ہوا!! علاقے کے لوگ بتاتے ہیں کہ پہلے دھماکے ہوئے پھر ہیلی کاپٹر پہنچے !!!بتانے والے بتاتے ہیں امریکی جہاز کافی دنوں سے علاقے کی پرواز کر رہے تھے!!! کیوں؟؟ کس کی اجازت سے؟؟؟ کیا حکومت نے اجازت دی تھی؟؟ اگر دی تھی تو کیوں؟؟؟ بین الاقوامی فضائی حدود کے قوانین کے مطابق تو سول جہاز بھی کسی ریاست کی اجازت کے بغیر اس کی فضائی حدود میں داخل نہیں ہو سکتا!!! پھر یہ جاسوس طیارے کیسے آتے جاتے رہے؟؟؟؟
سلطان صاحب کہتے ہیں کہ حملہ ہوا نہیں ہے ہم نے بندے (دہشت گرد) مارے ہیں!!! چلو مان لو وہ جو کم عمر تھے!!! وہ جو جن کی اکثریت پاکستانی قانون کے لحاظ سے ابھی نا بالغ تھی!! کہ 17 سال سے کم عمر تھے!!! جن کے سینوں میں قرآنی آیات اور زبان پر قال قال رسول اللہ تھا!!! وہ جن کی راتیں اللہ کی یاد میں گزرتی تھی!! وہ جو تہجد گزار تھے!! وہ جن کی موت کے بعد بھی ان کے اسکول (مدرسے) سے اس کے جسم کے ٹکڑوں اور درسی کتابوں (وہ بھی جو قرآن پاک ، حدیث و فقہ پر مشتمل تھی) کے علاوہ کچھ نہیں ملا!!! وہ جن پر پچھلے چار ماہ (جولائی) سے نظر رکھے جانے کا دعویٰ کیا پھر بھی ایک دھندلی سی بچوں کی پی ٹی کی ویڈیو کے علاوہ کوئی ثبوت نہیں پیش کیا جا سکا!!! وہ دہشت گرد ہی ہوں گے!!! کہ اگر آپ انکاری ہوئے تو بقول اپنے صدر اعلٰی مقام کے آپ جاہل و جھوٹے ہو!!! اور ایسا تو آپ نہیں چاہو گے کہ انہیں معصوم اور بچہ کہہ کر خواہ مخواہ جھوٹے بن جاؤ!!!! چوں کہ وہ دہشت گرد تھے لہذا ان کے تین ساتھی جو بچ گئے تھے ان کا سرکاری علاج بھی نہیں کیا گیا کہ کون دہشت گردوں کا ساتھی بنے!!!
ہمارے ایک دوست کہنے لگے یار جنوری کے حملے پر احتجاج کا جب کوئی فائدہ نہیں ہوا تو بہتر یہ معلوم ہوا کہ اس سے پہلے کہ ریاستی اقتداراعلٰی کا سوال اٹھے یار لوگ اسے ملکی خودمختاری اور آزادی کے بارے میں استفسار کریں!!! حکومت نے اسے اپنا کارنامہ بتادے!!!! جو مر گئے اب وہ تو نہیں بتانے والے کہ وہ گناہ گار تھے کہ نہیں!!!
چند نقاد کا یہ بھی دعوٰی ہے کہ یہ کام امریکہ کا یوں بھی ہے کہ امریکہ نہیں چاہتا کہ پاکستانی فوج و حکومت کا قبائلی علاقوں میں دینی گروہوں سے کوئی وزیرستان کی طرز کا معاہدہ ہو!!! جب سرحد کے گورنر جنرل اورک زئی کی کوشش سے ایسا معاہدہ ہونے جا رہا تھا!!! جب سرکاری اور قبائلی سطح پر اس کی قریب تمام تیاریاں مکمل ہو چکی تھی 29 اکتوبر کے اخبار اس بات کے گواہ ہیں کہ اگلے دن اس پر دونوں کی جانب سے دستخط ہونے تھے!!! تو اتحادی دشمن نے وہاں پر میزائل داغ دیا!!! سوال کرنے والے سوال کرتے ہیں کہ اگر حکومت کو کیا ضرورت تھی کہ وہ ایسے ہونے والے معاہدہ کو خراب کرتی جس طرز کے ایک معاہدہ کی وکالت وہ نیویارک تک کر آئی!!! یہ ان ہی کا کام ہے جن کی نظروں میں پہلا والا معاہدہ قابل اعتراض ہے!!!`````---```
قصوری صاحب کا اب یہ بیان کہ اگر ہم خود اگر ملک میں کاروائی نہیں کریں گے تو امریکہ خود کرلے گا حکمران ٹولے کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے!!! افسوس صد افسوس!!!!
tag
11/03/2006
ہالوکاسٹ پر مبنی کارٹونوں
ایران کارٹون کی طرف سے ہالوکاسٹ پر مبنی کارٹونوں کے مقابلے کااعلان یہ کارٹون پہلے نمبر پر آیا!!!,,,,,,,,,
10/28/2006
No Dates, No Dancing
ذاتی طور پر میں کسی بھی سیاسی یا مذہبی گروہ کے تعلیمی اداروں میں وجود کا مخالف ہوں!!!!
,,,,,,,,,
10/23/2006
مسلم علماء کا پوپ کے نام خط
مسلم علماء کی جانب سے پوپ کے نام لکھے گئے خط کو پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں
ایک ماہ کے مسلمان
اس ماہ کئی افراد عملاَ بھی مسلمان ہوئے اور کئی زبانی جمع خرچ کرتے رہے میری طرح!!! شہر میں افطار پاڑٹیاں بھی کافی ہوئیں آخری عشرے میں تو دو دو جگہ سے دعوتیں موصول ہو رہیں تھیں!!! سمجھ نہ آتا تھا کہ کہاں جائیں کہاں نہ جائیں!! افطار پارٹی کا ایک فائدہ ہے کہ پرانے دوستوں سے ملاقات ہو جاتی ہے!! افطار پارٹی میں شرکت کرنے والوں میں کئی احباب ایسے بھی تھے جو سارا دن افطار کرتے رہتے تھے اور شام کو صرف پارٹی اٹینڈ کرنے آ جاتے!!! ان کی خوش خوراکی معاملے کی وضاحت کر دیتی تھی!!!
اکثر نیک لوگوں نے روزے داروں کی افطاری کا انتظام راستے میں ہی کررکھا ہوتا تھا کہ جو لوگ گھر نہ پہنچ پائیں وہ وہاں ہی رُک کر روزہ افطار کرلیں!!! کچھ حقیقت میں مجبوراَ وہاں روزہ افطار کرتے اور بعض نیتَ وہاں پہنچ جاتے تھے!!! اعمال کا دارومدار نیت پر ہے!! خیر سڑک کے کنارے ایسا افطاری کا انتظام ایک مسلم معاشرے ہی میں ممکن ہے!!!
رمضان میں اللہ کے گھر میں حاضری دینے والوں کی تعداد میں بھی کافی اضافہ ہوا ،مساجد میں نمازیوں کی تعداد دوگنی سے بھی ذیادہ ہو گئی!!!! بلکہ علاقے کی مسجد کے مولوی صاحب تو تلقین کرنے لگے کہ بھائی رمضان کے علاوہ بھی مسجد میں حاضری قائم رکھی جائے!!! تراویح کا معاملے میں البتہ گھر سے مسجد کے لئے نکلنے والوں کی تعداد مسجد میں حاضر ہونے والوں کے مقابلے میں ذیادہ ہوتی تھی!!!! باقی مسجد سے باہر ہوتے!!!
امید ہے کہ آج ساحلی علاقوں میں چاند نطر آجائے گا!! لہذا کل یہاں پاکستان میں عید ہو!!! ممکن ہے کہ جس لمحے آپ یہ پڑھ رہے ہو عید کا اعلان ہو چکا ہو!!! ویسے پاکستان میں کئی مقامات پر بھی آج عید منائی گئی اور عید کے اجتمات میں ملی یکجہتی کو فروغ دینے کا درس دیا گیا!!! ملت یکجا ہو کر عید تو مناتی نہیں ملی یکجہتی کیسے فروغ پائے؟؟؟؟
پاکستان میں تین دن کی سرکاری چھٹی دی گئی ہے!!! پیر، منگل اور بدھ!!! پیر کی چھٹی کس تُک میں دی گئی یہ بات سمجھ سے بالا ہے!!! فرض کیا کہ آج چاند نظر نہیں آتا تو عید کے دوسرے دن کام پر جانا کیسا لگے گا؟؟؟؟
خیر عید مبارک ہو !!! وہ بھی بہت بہت!!!!! اور عیدی!!! یار !! چھڈ اوے!!! نہ منگ یار!!!!
اپ ڈیٹ؛- عید بدھ کو ہے!!! اور جمعرات کو بھی چھٹی!!! کیا بات ہے بھائی!
10/06/2006
لطیفہ
یہ لطیفہ چند دن پہلے ایک کالم میں پڑھا تھا!!!!!
ایک بازار سے ایک سرکاری افسر کا گزر ہوا، اس نے وہاں موجود ایک لڑکی پر آواز کَسی!!! لڑکی کا بھائی وہاں موجود تھا اُس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اس افسر کو مارنا شروع کردیا!!! لڑکی کا باپ وہاں سے گزرا اسے اصل بات کا علم ہوا تو اس نے بھی بیٹے کا ساتھ دیا!!! لڑکی کا منگیتر بھی اتفاق سے آ پہنچا!!! حالات کا علم ہوا تو وہ بھی افسر کو پیٹنے لگا!!! اہل بازار بھی کچھ دیر بعد افسر کو مارنے والوں میں شامل ہو گئے!
اب افسر کی مدد کو تھانیدار بمعہ سپاہیوں کو آگیا!! افسر صاحب کو ان سے بچا لیا گیا!!! اور تمام لوگوں کو ایک قطار نے کھڑا کردیا گیا!!!
سرکاری افسر نے لڑکی کے بھائی سے سوال کیا “تم نے کیوں مارا مجھے“
اس نے بتایا کہ میں لڑکی کا بھائی ہو، باپ سے پوچھا تو اس نے بتایا کی میں لڑکی کا باپ ہو!!! منگیتر کا جواب بھی یہ ہی تھا کہ لڑکی کا منگیتر ہونے کی وجہ سے میری غیرت نے مجھے مجبور کیا!!!!
اس کے بعد سرکاری افسر نے باقی لوگوں سے پوچھا تو ان کا جواب تھا!!
“ہم سمجھے کہ حکومت چلی گئی ہے“
10/05/2006
اسلامُ گیمنگ
اس خبر کے بارے میں آپ کی رائے!!!! کیا ہے!!! ایران و امریکہ!!! سیاسی جنگ !!!! اور ایک ویڈیو گیم!!!!کیا یہ واقعی مسلمانوں کا ویڈیو گیم ہو گا؟؟؟؟؟
10/03/2006
“ان کی دھمکیاں،رپورٹیں اور ہماری پالیسی“
کمزوری جب بھی دیکھائی جائے بری ثابت ہوتی ہے۔ یہ باریک سوراخ سے شگاف کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اُن کی ہر دھمکی ہر رپورٹ پر ہم کمزوری ظاہر کر کے پالیسی بدلنے کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں!!!! پھر تاویل یہ پیش کی جاتی ہے کہ یہ قومی و ملکی مفاد میں میں کیا ہم نے!!!! ملک کا مفاد کیا ہے یہ قوم نہیں جاتی ہے!!!! یہ لوگ جانتے ہیں!!!! پتھر کے دور میں دھکیل دینے کی دھمکی کی وجہ سے افغانستان پر حملے کی اجازت پیش کی!!! اور نعرہ لگایا “سب سے پہلے پاکستان“ اب یوں لگ رہا ہے کہ جن کے ہم اتحادی بنے ہوئے ہیں ان کا بھی یہ ہی نعرہ ہے“سب سے پہلے پاکستان“ کو پکڑو باقیوں کو بعد میں دیکھ لیں گے!!!!! افغان پالیسی میں تبدیلی نے ہمارا ایک باڈر کمزور کیا!!!! پھر اتحادی کی نظر ایٹمی ٹیکنالوجی پر پڑی!!!! لہذا جو قوم کا ہیرو تھا اسی کے پیچھے پڑ گئے!!!! ہم پہلے تو ٹھیک رہے کہ یہ الزام غلط ہے پھر آہستہ آہستہ کمزور پڑتے گئے اور آخر میں بات یہاں تک آ پہنچی کہ نہ صرف اُٰس سے اعتراف جرم کروایا! نظر بند کیا! بلکہ صاحب بہادر نے اپنی کتاب میں اسے اس رنگ میں پیش کیا کہ لگتا ہے کہ وہ ہیرو نہیں غدار ہو!!! یارو(اتحادی) کی نظر پھر شہ رگ (کشمیر) کی طرف اٹھی ہماری پالیسی فلمی ہیروئین کی کمر کی طرح کافی لچکدار ہو چکی تھی!!! یا شائد موم کی ناک کی طرح!! جہاں دک کیا موڑ دی!!! لہذا ہم مذاکرات کی میز پر بیٹھ گئے!!! تنہا ہی تھے لہذا خود ہی اکیلے بیٹھے ہم کلامی کرتے رہے کبھی ایک تجویر پیش کرتے کبھی دوسری!!! اصل بات سے ہی ہٹ گئے!!!! یہ تو ماضی تھا!!!!
حال میں اب یہ حال ہے کہ اب یارو کی فرینڈلی فائرنگ کی زد میں اپنی خفیہ ایجنسی “آئی ایس آئی“ ہے!!!! برطانوی وزارت دفاع کی ایک رپورٹ لیک ہوئی ہےیا کی گئی ، جو اس کی خفیہ ایجنسی کے کسی فرد نے تیار کی ہے کہ ایسی رپورٹوں کا مقصد صرف لیک کرنا ہوتا ہے ایک بار خبر کی زینت بن جائے تو بس کافی ہے وہ کیا ہے کہ آئی ایس آئی اسلامی جہادیوں کے پیچھے کے !!!! اُن کی مدد کو!!! لہذا اس ایجنسی کو ختم ہو جانا چاہئے!!!!! بی بی سی کے پروگرام نیوز نائیٹ میں جب صدر صاحب نے اس رپورٹ کے حوالے سے پوچھے گئے سوال میں اسے مسترد کیا اور ساتھ کی برطانوی وزارت دفاع کے بند کرنے کا مشورہ دیا تو ہم سمجھے کہ شائد بات بن گئی مگر “ٹوٹ گئی تڑک کر کے“ جب جناب نے ایک ٹی وی چینل کے پروگرام “میٹ دی پریس“ میں ماضی میں آئی ایس آئی کے چند سابق افسران کے تعلق کا اظہار کیا یون تو اب تک بیان اس قدر خطرناک نہیں مگر یہ باریک سی لچک کیا رنگ لاتی ہے یہ کون جانتا ہے۔
اس ایجنسی کے کچھ کاموں سے لاکھ اختلاف ہو!!! مگر پھر بھی یہ ایجنسی دنیا کی بڑی اہم ایجنسیوں میں ہے!!!!
9/28/2006
مصنف اور منصف
اپنے صدر صاحب مصنف ہو گئے ہیں!!!! جناب نے پوری کتاب لکھ ڈالی ہے!!! کہتے ہیں کہ میری اپنی خودنوشت ہے!!!ٹائم اسے شائد قسط وار چھاپ رہا ہےابھی تو چند ٹکڑے ہی لکھے ہوئے ہیں!!!!!!! 368صفحات اور 32ابوب پر مشتمل یہ کتاب انگریزی زبان میں ہے!!! 1245 روپے میں اردو بازار کراچی سے مل رہی ہے!!!! سنا ہے قریب ایک ماہ بعد اس کا اردو ترجمہ پاکستانی مارکیٹ میں موجود ہو گا جو انگریزی کتاب کی قیمت کے چوتھائی کے برابر ہوگا!!! کتاب کی اشاعت سے قبل ہی صدر صاحب نے “سی بی ایس “ چینل کے پروگرام “ساٹھ منٹ“ میں امریکی دھمکی کا ذکر کر کے کتاب کی تشہیر کا آغار کر دیا تھا!!! بعد میں یعنی اب یہ کہہ رہے ہیں کہ مجھے کیا معلوم کیا کہا تھا مجھے تو جنرل محمود نے یہ ہی بتایا تھا!!! اور جنرل صاحب تبلیغ پر نکلے ہوئے ہیں کسی کے ہاتھ ہی نہیں لگ رہے کہ بندہ پوچھ لے بھائی اصل ماجرا کیا ہے؟؟؟؟؟ میں صدقے جاؤ!!! فوجی بندہ اور اتنا سیاسی!!! کیا بات ہے!!! کسی کتاب کی مشہوری کا اس سے بہتر اور کیا طریقہ ہے کہ اسے جس قدر ممکن ہو متنازع بنایا جائے!!!! لہذا اس میں موجود اکثر باتوں کے متعلق یہ رائے عام ہے کہ اس بات پر کوئی تنازع نہیں کہ فلاں بات متنازع ہے!!!! جن احباب نے یہ کتاب پڑھی ہی ان کی رائے میں صدر صاحب نے کمال کیا ہے!!! جو زبان اس کتاب میں استعمال ہوئے لگتا ہی نہیں کہ یہ کسی جنرل کہ کتاب ہے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی نہایت اعلی لکھاری ہے!!! تو بھائی ٹھیک ہے کوئی لکھاری ہو گا!!! مگر کون ؟؟ یہ ایک پہلی ہے!!! جو بوجھ لے اس کی خیر نہیں!!! جناب نے اس کتاب میں ڈاکٹر قدیر کے بارے میں بھی اظہار خیال کیا ہے !!! انہیں انا پرست، دولت اور شہرت کا لالچی کہا ہے!!! ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہے کہ ان کا اپنا نیٹ ورک تھا جہاں سے وہ دنیا میں یہ ایٹمی ٹیکنالوجی پھلا رہے تھے!!! بھارت نے بھی اس سے فائدہ اٹھایا اور کوریا سے بھی ڈیل کی تھی!!! نوار شریف ، شہبار شریف اور ان کے ابا جی کے بارے میں بھی اظہار خیال کیا کہ یہ شریف نہیں !!!! بھٹو کو آمر اور فاشٹ قرار دیا!!!! ضیاء کو ظالم کہا!!! خود کو کارکل کو ہیرو کہا ہے!!! اور نواز شریف کو زیرو!!!! برطانوی پولیس اور خفیہ اداروں سے بھی ناراضگی جاہر کی اور امریکہ سے بھی!!!!اور القاعدہ کے بندوں کے بدلے پیسہ لینے کی بھی بات کی. یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ جناب صرف مصنف بنے یا منصف بھی اور ہر بات انصاف کے ترازوں پر تول کر سچ سچ بیان کی یا نہیں!!! مگر بہر حال میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہو کہ کتاب لکھنے میں برائی نہیں مگر ہر کام کا ایک وقت ہوتا ہے!!!! صدر جی کو کتاب لکھنے یا لکھوانے کا اتنا ہی شوق تھا تو وہ اس کرسی صدارت و فوجی وردی اتارنے کے بعد یہ کام کرتے!!! جب آپ اس سیٹ پر ہوں تو آپ کوئی کئے معاملات میں خاموشی اختیار کرنا پڑتی کہ یہ ملکی مفاد میں ہوتا ہے!!!! اب کوئی آپ کی بات پر کیا یقین کرے گا کہ آپ آس کی بات کو راز میں رکھے گے!!!!
9/24/2006
مبارک!!!!!!
رمضان مبارک، رمضان کی مہنگائی مبارک، سحری مبارک، افطاری مبارک، تراویح مبارک، روزے مبارک، نیکیوں کی اضافی قیمت مبارک!!!!!!!!
8/27/2006
ڈیرل ہیئر کا خط
ڈگ ہم نے آج شروع شام جس بات پر تبادلہ خیال کیا تھا یہ ای میل اسی کی کی توثیق کے سلسلے میں ہے، میں سمجھتا ہوں کہ آئی سی سی مستقبل میں میری تقرری کے حوالے سے مشکل صورتحال سے دوچار ہو گی میں اس بارے میں سوچ بچار کے بعد یہ پیشکش کر رہا ہوں-
منجانب ڈیرل ہیئر
منگل 22 اگست 2006ء
بنام:- ڈگ کووئی
مضمون:- سامنے کا راستہ (اگلہ راستہ)
میں درج آیل شرائط پر 31 اگست 2006 سے امپائروں کی ایلیٹ پینل سے مستعفی ہونے کے لئے تیار ہوں۔
اول۔ آئندہ چار سال میں متوقع آمدنی کے ازالے کے طور ایک ساتھ تمام رقم کی ادائیگی کی جائے، میرا خیال ہے کہ اگلے چار سال میں میں آئی سی سی اور عالمی امپائرنگ کو بہت کچھ دے سکتا تھا، یہ رقم پانچ لاکھ ڈالر ہوگی ، جس کی تفصیلات دونوں فریق خفیہ رکھے گے۔ یہ رقم 31 اگست 2006 تک براہ راست میرے اکاؤنٹ میں منتقل کی جائے گی۔
دوئم۔ آئی سی سی مجھے ہٹانے کا اعلان جیسے بھی چاہے کر سکتی ہے لیکن میری ترجیح یہ ہو گی کہ اسے میری اپنی پسند سے زندگی کا انتخاب قرار دیا جائے کیونکہ تین سال قبل میری آسٹریلیا سی منتقلی کی وجہ یہی تھی۔
سوئم۔ میں اپنے فیصلے کی پر کھلے عام تبصرہ نہیں کروں گا۔
چہارم۔ یہ پیشکش مجھے ماضی میں یا مستقبل میں میڈیا پر کئے گئے تبصروں کے خلاف قانونی کاروائی سے نہیں روکے گی۔
پنجم۔ یہ پیشکش مجھے کسی بھی صورت میں آئی سی سی کی کسی تنظیم یا رکن خاض طور پر پاکستانی کرکٹ ٹیم کے ارکان اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے خلاف سول کیس نہ کرنے کا پابند نہیں کرے گی او نہ ہی برطانوی شہری کی حیثیت سے کسی عدالت یا کسی اور فورم پر اپنے حقوق کے تحفظ سے نہیں روکے گی، میں واضح کر دوں کہ یہ آفر صرف ایک مرتبہ ہی کیلئے ہے اور اسے قبول نہ کرنے کی صورت میں میں موجودہ معاہدہ کے مطابق 31 مارچ 2008 تک امپائر کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دینے کو تیار رہو گا۔
ڈیرل ہیئر کا وہ خط جس نے اس کے ہمدردوں کو بھی مشکل میں ڈال دیا۔ ہیئر اچھا ہے کہ پاکستان میں نہیں ورنہ یار لوگوں نے کہنا تھا!!! “ابے ہیئر کے سر پر اتنے جوتے ماروں کہ ایک ہیئر نہ بچے سر پر“!!! ویسے کسی کی ذات کی اس قدر بے عزتی بھی اچھی نہیں!!!! جتنی اس کی ہو گئی اور ہو رہی ہے!!!
8/26/2006
8/14/2006
خدا کرے
خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو
یہاں سے جو پھول کھلے، کھلا رہے صدیوں
یہاں سے خزاں کو گزرنے کی مجال نہ ہو
یہاں جو سبزا اُگے ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو
خدا کرے کہ نہ خم ہو سر وقار وطن
اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو
ہر ایک فرد ہو، تہذیب و فن کا اوج کمال
کوئی ملول نہ ہو، کوئی خستہ حال نہ ہو
خدا کرے میرے ایک بھی ہم وطن کے لئے
حیات جرم نہ ہو، زندگی وبال نہ ہو
8/10/2006
بوکھلاہٹ
چوبیس تک بندے گرفتار ہو گئے ہیں!!!! پاکستان نزاد بھی شامل ہیں!!!! جہاز سے دھماکہ خیز مواد برآمد ہوا!!! لہذا احتیاط کے طور پر چند (ہنگامی)اقدامات کر رہے ہیں!ہیتھرو ہوائی اڈے کی تمام پروازوں کو منسوخ کر دیا ہے!!! کسی قسم کا مائع جہاز پرنہیں جائے گا!!! جو اقدامات کر رہے ہیں ان کو دیکھ کر نہیں لگتا کہ اس منصوبے کا ان لوگوں کو پہلے سے علم تھا!!! یا وہ لوگ کسی ایسے معاملے پر نظر رکھے ہوئے تھے!!! بلکہ مجھے تو اس میں کچھ بوکھلاہٹ سی نظر آتی ہے!!! ایسی ایمرجینسی کیوں نافذ ہوتی!!! پرانے قاعدے کے مطابق ہاتھ القاعدہ کا ہی بتا رہے ہیں!!! اس سے ایک تو مسلمانوں کا امیج مزید خراب کرنے کا موقع مل گیا ہے ان کو!!! دوسرا اسرائیل و لبنان کو معاملہ بھی میڈیا میں پس پردہ چلا جائے گا!!!!
8/02/2006
ہم یہ سمجھتے ہیں
جاوید چوہدری میرا پسندیدہ کالم نویس ہے!!! جنگ سے وہ ایکسپرس میں چلا گیا تو میں سمجھا کہ اب نیٹ پر اس کا کالم پڑھنا ممکن نہیں مگر شکر ہے کہ کہ ایکسپرس بھی اب نیٹ پر آگیا ہے!!!!! البتہ جنگ والوں نے ان کے تمام کالم (شاید) اپنی ویب سائیٹ سے ہٹا دیئے ہیں!! جاوید چوہدری کا پچھلا کالم “ہم یہ سمجھتے ہیں“ یہ رہا!!!
8/01/2006
لفافوں کی ترسیل
لفافہ بہت اہم شے ہے۔۔ ان سے پوچھے جو اس پر گزارہ کرتے ہیں اس کا کھاتے ہیں اس پر جیتے ہیں!!! تنخواہ کے لفافے کے علاوہ دیگر لفافے بھی عام زندگی میں اہم ہیں اپنی قومی سیاست بھی لفافے کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے بلکہ آج کل کر رہی ہے!!!!
لفافہ خط کی ترسیل کا کام بھی کرتا ہے!!! خط کوئی بھی لکھ سکتا کسی کو بھی!! یہ تو پڑ ھنے والے پر ہے نا! کہ وہ اسے اہم سمجھے یا نہیں!!! لہذا یاروں نے ایک خط جناب وردی والے صدر کے نام بھی لکھ دیا !!! سنا ایک سے ڈیرھ سال کی مدت صرف ہوا ہے اس کام میں!!! خط کا متن اٹھارہ افراد نے مل کر ترتیب دیا!!! بھائی اٹھارہ افراد نے لکھا تو مل کر ہی لکھا ہو گا نا!!!! یہ مت پوچھے کہاں ملے!!! کس سے ملے!!! خط کے لکھاریوں میں صدر کے ایک کلاس فیلو بھی شامل ہیں!!! فوجی یار بھی!!! وہ بھی جو ابتدا میں جناب کے ساتھ تھے!! وہ بھی جو شروع سے ساتھ نہ تھے!!! وہ جو جانتے تھے کہ ان کے لفافے نیب کے پاس ہیں اور ان کی جیب میں موجود لفافے ان کی ضرورت کو پورا کر رہے ہیں لہذاانہوں نے اس خط کو بے کار قرار دیا!!! اور کہہ دیا کہ ان کے خط کی وجہ وہ لفافہ ہے جو سپید محل سے سفید لوگ ارسال کرتے ہیں!!!
خط میں موجود وردی والے مشورے کو اپنے ارباب رحیم نے رد کرتے ہوئے واضح کیا کہ بھائی کسی کے “مفت مشورہ“ کی ضرورت نہیں ہے!!!! “مشورہ“ اپنے پاس رکھو!!! صدر ان کی اس بات سے خوش ہوئے لہذا اپنے لفافے میں لکھا پڑھ کر سنا دیا کہ سب جان لو سندھ میں “سیٹ اپ“ سیٹ ہے لہذا تبدیل نہیں ہوگا!!! وزارت اعلی کے امید وار اس وار کو برداشت نہ کرسکے!!! ارباب رحیم کے ارباب اختیار قرار دینے پر لندن سے نیا ٹیلی فونک سُر چھیڑا گیا اور نائن زیرو میں اسلام آباد والوں کے لئے الگ طرح کے لفافے تیار کئے گئے!!! سندھ کے “سیٹ اپ“ میں ایسا “اپ سیٹ“، نائن زیرو والوں کے لفافے واپس کر دیئے گئے ہیں اور کہا گیا ہے کہ آپ کا مطلوبہ لفافہ تلاش کیا جارہا ہے !! دیکھیں ملتا ہے کہ نہیں!! ویسے شیر اور گیدڑ کا فرق معلوم کرنا باقی ہے ابھی!!!
7/31/2006
بارش!!!
بارش ہو رہی ہے کیا بات ہے بھائی!!!
کل کی بارش سے گھر کا فون مر گیا ہے!!! یہ ہی کہے گے نا بھائی!!!!!
ایک پوسٹ بھی لکھی تھی مگر فون ڈیڈ ہونی کی وجہ سے نہیں پوسٹ کر سکا!!!
خیر ابھی تو بارش انجوئے کر رہا ہوں!!! آفس میں!!!عدالت نہیں جا سکتا ناں اس بارش میں!!! کیا کرو نوابوں والی سب حرکتیں ہیں!!!
کراچی والوں بارش مبارک ہو!!! اب اسے برداشت بھی کرنا!! کیوں کہ انتظامیہ کی نااہلی سے اب یہ بارش رحمت سے زحمت بن جائے گی!!!
7/29/2006
7/28/2006
تیرے آنسو
موتی سے بھی قیمتی ہوتے تیرے آنسو
جو میرے دامن میں گرتے تیرے آنسو
میرے خوابوں کو آنکھوں میں بسا لیتی جو تو
زمانے کی آنکھوں میں پھرتے تیرے آنسو
ان کو دنیا کی آنکھوں سے بچا کر رکھنا
کہیں کوئی چرا کے نہ لے جائے تیرے آنسو
اِسی کو شاید اُجلا جل کہتے ہیں لوگ
جب اُس جل میں ہیں ملتے ہیں تیرے آنسو
جو لوگ مےکشی میں بھی خدا کو پا گئے
ان کے پیمانوں میں ہم نے دیکھے ہیں تیرے آنسو
ان موتیوں کا جگ میں کوئی دام نہ ہوتا
جو سیپ کے منہ میں جا گرتے تیرے انسو
سرد موسم کی بارش کی تپتی بوندو سے
ہم کو جلنے سے ہیں بچاتے تیرے آنسو
7/27/2006
شہد کی سرزمین میں بارود کی کڑواہٹ
پندرہ دن کے بعد بھی کچھ نہیں ہوا!!! حالات مزید سنگین ہو گئے ہیں!!! اب تو یہ بھی نہیں معلوم کتنے گھر بچ گئے ہیں!!! جہاں روزانہ بائیس ٹن بارود مزائل کی شکل میں داغے گئے ہوں!!! جہاں روزانہ کم سے کم بھی سو کے قریب ہوائی حملہ ہوتے ہوں وہاں بھلا کچھ بچ سکتا ہے کیا!!!! ہاں ہو گا تو صرف کھنڈر!!!!
لبنان کو زمانہ قدیم میں کنعان کہا جاتا تھا!!! کنعان یعنی شہد کی سرزمین!!! اب اس زمین کے شہد میں بارود کا ذائقہ آ گیا ہو گا!! ملک کی آبادی چالیس سے پنتالیس لاکھ ہے!!! سنا ہے کہ پچس سے تیس لاکھ کے قریب آبادی اب مہاجر بن چکی ہے ان پندرہ دنوں میں!!! ملک کی ساٹھ فیصد آبادی مسلمان اور چالیس فیصد آبادی عیسائی ہے!! یہ عیسائی یہاں صلیبی جنگوں کے زمانے سے آباد ہیں!!!
حملہ آور اسرائیل جو انکل سام کا ناجائز بچہ ہے!!!۔ حملہ کرنے کے لئے بہانہ یہ تھا کہ حزب اللہ نے دو اسرائیلی فوجی اغواء کر لئے ہیں!!! لو اس بات کو وجہ وہ ملک بنا رہا ہے جو ہر دوسرے دن ایک ملک میں گھس کر نہ صرف بندوں کو گرفتار یا اغواء کرلیتا ہے بلکہ شہید بھی کرتا رہتا ہے!!! اگر لبنان کے معاملہ میں اس عمل کر دیکھا جائے تو بھی یہ اسرائیلی بہانہ یوں درست نہیں کہ پچھلے برس مئی میں اسرائیلی فوج نے لبنان میں داخل ہو کر دو فلسطینی افراد کو گرفتار یا اغواء کیا تھا مگر لبنان نے تو اسرائیل پر حملہ نہیں کیا تھا !!! چلو مان لیا کہ لبنان کی نہ تو کوئی بحریہ ہے نہ فضائیہ، رہ دے کر زمینی فوج ہے وہ بھی مری ہوئی جب ہی تو اب تک کے اسرائیلی حملوں میں نظر نہیں آئی!!! تو یہ کہاں کا انصاف ہے کہ “اغواء“ تو “حزب اللہ“ کرے فوجیوں کو مگر نشانہ بنایا جائے عام شہریوں کو!!!! شائد مارنے کا مقصد “حزب اللہ“ ہی ہے اور اللہ کی جماعت میں تو سب کلمہ گو ہی شامل ہیں نا بھائی!!!
حزب اللہ جو ایرانی انقلاب سے متاثر جماعت ہے اس کا سربراہ “حسن نصر اللہ“ اب عرب میڈیا کا ہیرو بنتا جا رہا ہے!!! اس ہی جماعت کی وجہ سے اسرائیل کو چھ سال پہلے جنوبی لبنان سے اپنا بائیس سالہ غاصبانہ قبصہ چھوڑنا پڑا!!! اس ہی جماعت کے ایک خود کش حملہ نے قریب 243 امیریکی میرین 1983 میں مارے جس کے بعد پھر امریکہ لبنان میں نہیں گیا!!! یہ جماعت نہ صرف فلاحی کاموں میں شریک ہے بلکہ سیاسی طور پر بھی کافی مضبوط ہے کہ لبنان کی پارلیمنٹ میں اٹھارہ فیصد نمائیدگی بھی رکھتی ہے!! اپنا ٹی وی چینل چلا رہی ہے!!!
اس ہی کی سخت مزاحمت کی وجہ سے اسرائیل کو لبنان پر قبصہ کرنا مشکل ہو گیاہے جتنا بھی اس نے کرنا ہے!!! اسرائیل کو انتظار ہے کہ کب اس جماعت کے پاس راکٹ ختم ہوتے ہیں!!!
یہ نہایت عجیب بات ہے کہ 9/11 کے بعد ہونے والی تمام جنگیں کسی مخصوص گروہ کے خلاف لڑنے یا اس کا قلع قمع کرنے کا کہا جاتا ہے اور تباہ ملک کئے جاتے ہیں القاعدہ اور طالبان کے خلاف امریکہ کی کاروائی اور تباہی افغانستان کی!!! صدام کے خلاف کاروائی اور تباہی مکمل عراق کا مقدر ، اسرائیل کی فوجی لڑائی “حزب اللہ“ کے ساتھ اور نشانہ پورا لبنان!!! مرنے والا ہر جگہ مسلمان اور مارنے والا غیر مسلم ہی ہوتا ہے!!!
عالمی سطح پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی اب تک!!! نہ ہوتی نظر آتی ہے!!! بش صاحب نے تو صاف صاف الفاط میں اسرائیل کو وقت دے دیا کہ بھائی یہ دس بارہ دنوں میں یہ “حزب اللہ“ کا کام ختم کرو ساتھ ہی لبنانیوں کا بھی!!!!
مسلم دنیا کی تقسیم بھی وہ ہی پرانی والی حکمران لکیر کے اِس طرف اور عوام اُس طرف!!! ایک بے حس اور دوسرے بے بس!!! ایک مفاد پرست اور دوسرے خدا پرست!!!
7/17/2006
لب آزاد نہیں اب وہاں بھی!!!! شاید
چلو پاکستان میں تو جمہوریت نہیں!!! آزادی رائے نہیں!!!!! اس لئے کہہ لو کہ بلاگ اسپاٹ پر پابندی لگی!!! مگر معلوم ہوتا ہے کہ اس کا فائدہ دوراِن مذاکرات ہمارے حکمرانوں نے پڑوسیوں کو بھی سمجھا دیا ہے تب ہی تو ایسا ہوا ہے!!!!.اب وہاں بھی یار لوگ اس راستے کو اپنا رہے ہیں!!!! کیا بات ہے بھائی
ہون آرام ایں
Tags : blogspot، Free Speech, blog، technology ، Asia، pakistan, Pakistani,india, freedom،gateway, pkblogs, proxy
7/16/2006
طلب
طلب پیاس کی طرح ہوتی ہے لگتی ہے تو بے تحاشا لگتی ہے، شروع شروع میں بہت بے چین کرتی ہے۔ پوری ہو جائے تو تشنگی اور بڑھ جاتی ہے اگر حد سے بڑھ جائے تو خود ہی سیرابی ہو جاتی ہے جیسے پانی کا قطرہ سیپ کے اندر موتی بن جاتا ہے ۔اسی طرح طلب انسان کے اندر سیرابی بن جاتی ہے۔
7/15/2006
آج اور کل
ایک ہی مسافت کے دو مرحلے
ایک دوسرے کی جانب بڑھتے ہوئے
رکنا نہ اس کا مقدر، ٹھہرنا نہ اس کا مقدور
آج اور کل
ایک دوسرے سے متعارف، ایک دوسرے پہ موقوف
ایک دوسرے کا مقسوم
یوں ایک دوسرے سے مختلف بھی منسلک بھی
کہ ایک نمودار ہوچکا ہے دوسرے کی آہٹ سنائی دے رہی ہے
آج کا وجود بہت بڑی ذمہ داری ہے
آج موجود ہے اور مخاطب ہے
کل بھی دور نہیں، کل کبھی دور نہیں ہوتا
آج کی بات سوچو کہ ہر کل کا جواب آج کل میں موجود ہے
آج شب و روز کا تسلسل، کل اس کی صبح
آج بنیاد کل اُٹھان
آج تعمیر کل عمارت
آج خون پسینہ، کل ایک لہلہاتی فصل
آج صعوبت، کل سعادت
آج مہلت کل میزان
پس دیکھ لو کہ کل کے لئے کیا سمیٹ رہے ہو
7/10/2006
احمد ندیم قاسمی
کون کہتا ہے کہ موت آئی گی تو مر جاؤ گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اُتر جاؤ گا
------------------------------------------
مرو تو میں کسی چہرے میں رنگ بھر جاؤ
“ندیم“ کاش یہ ہی ایک کام کر جاؤ
---------------------------------------
موت و حیات کا مقصد کیا ہے،آخر کچھ تو معلوم ہو
لفظ تو ہیں صدیوں کے پرانے، ان کا مفہوم تو ہو
------------------------------------
اتنا دشوار نہیں موت کو ٹالے رکھنا
سر جو کٹ جائے تو دستار کو سنبھالے رکھنا
(احمد ندیم قاسمی)
ایک اچھا شخص جو اب ہم میں نہیں رہا!!!
Tags: Ahmed Nadeem Qasmi, Urdu, Poem, Pakistan, Urdu poem
اٹلی کو مبارک ہو
چلو جی یہ بخار بھی اتر جائے گا!!!! فٹ بال کی اس با ر کی چیمپین اٹلی ہے!!!!! چوتھی بار اسے یہ اعزاز حاصل کیا!!!!!!
نہ صرف فرانس میچ ہارا بلکہ زیڈان بھی اب فٹبال سے باہر وہ تو میچ سے پہلے ہی باہر چلے گئے تھے!!!! ٹکر ماری تھی جناب نے مارکو ماٹررازی کو!!!
بیچارا ڈیویڈ جس کی کک گول میں نہ جاسکی!!!!!!
فیبیو گروسو کا تو خوش ہونا بنتا ہے!!! کہ آخری اور فیصلہ کن گول ان ہی کے ہاتھوں ہوا ہے!!!
اٹلی کو مبارک ہو!!! جبکہ میں فرانس کا حمایتی تھا!!!!
tags: soccer, Football, World Cup 2006, germany, world-cup-2006,
7/09/2006
بڑا دشوار ہوتا ہے
بڑا دشوار ہوتا ہے
ذرا سا فیصلہ کرنا
کہ جیون کی کہانی کو
بیاں بے زبانی کو
کہاں سے یاد کرنا ہے
کہاں سے بھول جانا ہے
کسِے کتنا بتانا ہے
کس سے کتنا چھپانا ہے
کہاں رو رو کے ہسنا ہے
کہاں ہنس ہنس کے رونا ہے
کہاں آواز دینی ہے
کہاں خاموش رہنا ہے
کہاں رستہ بتانا ہے
کہاں سے لوٹ آنا ہے
بڑا دشوار ہوتا ہے
ذرا سا فیصلہ کرنا
Tags : urdu, poem, pakistan, urdu+poem
7/06/2006
احمديت ايک نظر ميں
احمدیت یا قادیانیت یا مرزائیت ایک ہی گروہ کے نام ہیں!!!! مرزا غلام احمد نہ صرف اپنے چند عجیب و غریب دعوٰی کی بناء پر خود مرتد ہوا بلکہ اپنے ساتھ کئی دوسرے لوگوں کو بھی لے ڈوبا!!!!
یہ صاحب جہاد کے متعلق کیا رائے رکھتے تھے ؟اور آیا وہ کتنی درست تھی ؟ اسے ایک طرف رکھ دیا جائے تو بھی معاملات کافی سنگین نوعیت کے ہیں!!!
جناب کا ایک بہت اہم دعویٰ نبوت کا ہے کہ وہ نبی ہیں!!! رسول ہیں!!! کئی مرتبہ وہ خود کو مہدی بھی بیان کرتے ہیں !!! کبھی خود کو مسیح موعود کہا ہے!!!
مرزا صاحب نے اپنے نبی ہونے کا دعوٰی کیا تھا!! 1915 میں مرزا بشیرالدین محمود نے “حقیقۃ النبوۃ“ نامی کتاب لکھی جس کا موضوع یہ تھا کہ مرزا صاحب شرعی معنی کے لحاظ سے ہی حقیقی نبی ہیں یہ کتاب لاہوری پارٹی (یہ بھی مرزا صاحب کا گرویدہ گروہ ہے جو کہتا ہے کہ مرزا صاحب نبی ہونے کے مدعی نہیں بلکہ مہدی ہونے کے دعویدار ہیں) کے جواب میں لکھی گئی ہے، اس کے صحفہ 184 سے 233 تے لاہوری پارٹی پر حجت قائم کرنے کی غرض سے مرزا غلام احمد کی نبوت کے بیس دلائل دیئے گئے ہیں اور اس میں 39 عبارتیں خود مرزا کی کتابوں سے نقل کی گئیں ہیں؛ چند یہ ہیں؛
“میرا دعوٰی ہے کہ میں رسول و نبی ہوں“ (بدر پانچ مارچ 1908)
“پس خدا نے اپنی سنت کے موافق ایک نبی کے مبعوث ہونے تک وہ عذاب ملتوی رکھا اور جب وہ نبی مبعوث ہو گیا ۔۔ تب وہ وقت آیا کہ ان کو ان کے جرائم کی سزا دی جائے“ (تتمہ حقیقۃ الوحی صحفہ 52)
“میں اس کی قسم کھا کر کہتا ہوں جسکے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اسی نے مجھے بھیجا ہے اور اسی نے میرا نام نبی رکھا ہے“ (تتمہ حقیقۃ الوحی صحفہ 68)
“میں خدا کے حکم کے موافق نبی ہوں“ ( مرزا صاحب کا آخری خط مندرجہ اخبار عام 26 مئی 1908 )
ہمارا اہل مسلم کا ایمان ہے کہ خضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم جو قران پاک سے بھی ثابت سورۃ الاحزاب کی آیت 40 ہے؛
“محمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) باپ نہیں کسی کا تمہارے مردوں میں سے لیکن اللہ کا رسول ہے اور آخری نبی ہے“
اس کے علاوہ رسول اللہ کے فرمان بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں؛
“بنی اسرائیل کی رہنمائی انبیاء کیا کرتے تھے ۔جب ایک نبی وفات پا جاتا تو دوسرا بنی اس کا جا نشین ہوتا مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں“
ابتدا ( قریب دس سال) میں تو مرزا جی نے خود کو “مثل مسیح“ سمجھا!!! ان کا کہنا یہ تھا کہ مجھے الہامات میں “مسیح“ کہا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ میں (مرزا) “مثل مسیح“ ہو!!! اس لئے ہی اپنی ایک تصنیف “براہین احمدیہ“ (جو ابتدائی دور کی تصنیف ہے) کے ایک حاشیہ میں لکھتے ہیں۔
“اور مسیح علیہ اسلام دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق و اقطار میں پھیل جائیگا۔“ ( صفحہ 498 - 499)
لیکن بعد میں 1891 میں مرزا صاحب نے یہ کہنا شروع کردیا وہ “مسیح بن مریم“ جن کے نازل ہونے کی خبر رسول اللہ صٰلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے وہ میں ہی ہوں!!!! قادیانیوں کے دوسرے امام اور مرزا کے بیٹے نے اپنی کتاب “حقیقۃ النبوۃ“ مییں لکھا ہے کہ
“حضرت مسیح موعود باوجود مسیح کا خطاب پانے کے دس سال تک یہی خیال کرتے رہے کہ مسیح آسمان پر زندہ ہے حالانکہ آپ و اللہ تعالٰی مسیں بنا چکا تھا، جیسا کہ براہین کے الہامات سے ثابت ہے“ (صحفہ 142)
خود کو “مسیح موعود“ قرار دینے کے لئے ضروری تھا کہ حیات مسیح اور نزول مسیح (آسمان سے زندہ اتارے جانے) سے انکار کیا جائے!!! لہذا یہ کام “ازالۃ الادہام“ میں کیا!!! یہ 1891 کی تصنیف ہے۔ “حیات مسیح“ کے عقیدہ کو مرزا صاحب نے “الاستقا ضحیمہ حقیقۃ الوحی“ میں “شرک عظیم“ (صحفہ49) اور جناب کے بیٹے مرزا محمود نے نے “حقیقۃ النبوۃ“ اسے “سخت شرک“ (صحفہ 53) کہا ہے۔
اب ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ اسلام کو اللہ تعالٰی نے زندہ سلامت اوپر اٹھا لیا تھا!! جیسا کہ قرآن پاک کی سورۃ النساء کی آیات 157 - 158 میں بیان ہے
““درحقیقت جو لوگ مسیح کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں اُن کے پاس واقعہ کا کے بارے میں صیح علم نہیں ہے، صرف بے اصل اٹکلیں اور بے بنیاد قیاس آرائیاں ہیں جن پر وہ چلتے ہیں، سچ بات یہ ہے کہ انہوں نے ان کو قتل نہیں کیا، بلکہ اللہ نے انہیں اپنی طرف اٹھا لیا ہے اور اللہ پوری قوت اور حکمت والا ہے“
سورۃ النساء کی آیت 158 میں “رفع“ کے معنی “اٹھائے جانے“ کے ہیں اس آیت میں “بل“ کا کلمہ درمیان میں لگا کر فرمایا “بَل رَّفَعَہُ اللّہُ اِلَيْہ“ یعنی انہیں قتل نہیں کیا گیا!!! بلکہ اللہ نے انہیں اپنی طرف اٹھا لیا!!! قادیانی “رفع“ سے “روحانی رفع“ اخذ کرتے ہیں کہ حضرت عیٰسی کے روحانی درجات بلند ہوئے!! عربیت سے واقفیت رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ “رفع“ سے مراد یا معنی ایسے ہونے چاہئے جو قتل کی ضد ہو!!!
پھر اس ہی سورۃ کی آیت 159 میں بتایا گیا ہے
“اور سب ہی اہل کتاب عیٰٰسی علیہ اسلام کی موت سے پہلے اُن پر ضرور ایمان لے آئیں گے اور قیامت کے دن وہ ان کے بارے میں شہادت دیں گے“
سورۃ زخرف کی آیت 61 سے مراد قیامت سے پہلے حضرت عیٰسی عیلہ اسلام کا ظہور ہے؛
“ اور وہ (عیٰسی علیہ اسلام) نشانی ہیں قیامت کی تم اس بارے میں شک نہ کرو“
اس کے علاوہ احادیث کی روشنی میں حضرت عیسٰی کے ظہور کے ساتھ دجال کی آمد کا ذکر ہے!!! اب دیکھے نبی ہونے کے دعویدار یہ!!!!! اس پر ان کا کہنا یہ کہ یہ مسیح موعود ہیں!!!! پھر کلمہ کیوں رسول اللہ کا ؟؟؟ دل تھامیں کہ ان کا ایک الہام یوں بھی ہے!
“محمد رسول اللہ والذین معہ اشد آ ء علی الکفار رحما بینھم۔ اس وغی میں میرا نام محمد رکھا گیا اور رسول بھی۔“ (ایک غلطی کا ازالہ صحفہ چار مطبوعہ ربوہ- تیسرا ایڈیشن)
آگے مزید اقتباس؛
“جبکہ میں بروزی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہوں اور بروزی رنگ میں تمام کمالات محمدی مع بنوت محمدیہ کے میرے آئینہ ظلیت میں منعکس ہیں تو پھر کون سا الگ انسان ہوا جس نے علیحدہ طور پر نبوت کا دعوٰی کیا؟“ ( ایک غلطی کا ازالہ حفہ 10)
اسی کتاب کے کے اسی صحفہ پر ایک اور دعوٰی ملتا ہے؛
“میں بارہا بتلا چکا ہوں کہ میں بموجب آیت “واخرین منھم لما یلحقو بھم“ (یہ سورۃ جمعہ کی تیسری آیت) بروزی طور پر وہی بنی خاتم الاانبیاء ہوں، اور خدا نے آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں میرا نام محمد اور احمد رکھا ہے، اور مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی وجود قرار دیا ہے“
“مبارک وہ جس نے مجھے پہچانا، میں خدا کی سب راہوں میں سے آخری راہ ہوں، اور میں اس کے سب نوروں میں سے آخری نور ہوں۔ بدقسمت ہے وہ جو مجھے چھوڑتا ہے کیونکہ میرے بغیر سب تاریکی ہے“ (صحفہ 56 کشتی نوح طبع اول قادیان 1902 )
آخری بنی ہونے کا دعوٰی بھی جناب نے کر لیا!!!
“آنحصرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دو بعث ہیں یا بہ تبدیل الفاظ یوں کہہ سکتے ہیں کہ ایک بروزی رنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دوبارہ آنا دنیا میں وعدہ دیا گیا تھا، جو مسیح موعود اور مہدی معہود (مرزا ) کے ظہور سے پورا ہوا“ (تحفہ گولڑویہصحفہ 94 - طبع اول قادیان 1902 )
اور کلمہ والی بات !!! پھر !!! “کلمہ الفصل“، جس کا مولف مرزا بشیر احمد ہے، کے صحفہ 158 میں درج ہے؛
“ہاں مسیں موعود (یہاں مرزا جی مراد ہیں) کے آنے سے ایک فرق ضرور پیدا ہو گیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ مسیں موعود کی بعث سے پہلے تو “محمد رسول اللہ“ کے مفہوم میں صرف آپ سے پپلے گزرے ہوئے انبیاء شامل تھے، مگر مسیح موعود کی بعث کے بعد “ًمحمد رسول اللہ“ کے مفہوم میں ایک اور رسول کی زیادتہ ہوگی، لہذا مسیح موعود کے آنے سے نعوذباللہ “لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ“ کا کلمہ باطل نہیں ہوتا بلکہ اور شان کے ساتھ سے چمکنے لگ جاتا ہے“ غرض اب بھی اسلام میں داخل ہونے کے لئے یہی کلمہ ہے فرق اتنا ہے کہ مسیح موعود کی آمد نے “محمد رسول اللہ“ کے مفہوم میں ایک رسول کی ذیادتی کر دی گئی ہے“
مطلب یہ کہ وہ کلمہ میں یوں داخل ہو گئے ہیں!!! حد ہو گئی!!!!
اس کے علاوہ قادیانیوں کا کہنا ہے کہ غیر احمدی تمام کافر ہیں؛ مرزا محمود نے1911 میں “تشخید الازہان“ میں صاف الفاظ میں تحریر کیا ہے کہ مرزا کے نہ ماننے والے تمام افراد کافر ہیں۔ اس کے علاوہ مرزا جی یہ دعوٰی 1904 میں کر چکے ہیں!
یو بغور جائرہ لیا جائے تو مرزا صاحب بنی ،مسیح مود، محمدصلی اللہ علیہ وسلم اور ایک جگہ حضرت علی ہونے کا دعوٰی کرتے ہیں!!!! ان اقتباس کی روشنی میں ایک عام فرد آرام سے جان سکتا ہے کہ وی کیسا آدمی تھا ؟؟؟ اگر اس کی پیشن گوئیوں کو (جو اس کی زندگی میں ہی جھوٹی ثابت ہو گئی تھیں) نظر انداز کر کے بھی ان اقتباس کی نظر میں اسے پرکھا جاسکتا ہے۔
قادیانی ویب سائیٹ
ِلاہور پارٹی ویب سائیٹ
قادیانی حقیقت بیان کرتی ویب سائیٹ
7/03/2006
گوگل یا انٹرنیٹ
اسپائیڈر مین کے نئے شمااسپائیڈر مین کے نئے شمارےرے میں بتایا گیا ہے کہ جب پیٹرپارکر نے اپنی شناخت ظاہر کی تو لوگ گوگل کی طرف لپکے کی اس کے بارے میں جان سکے!!! اور یوں انٹرنیٹ کریش کر گیا!!!! کیا انٹرنیٹ کریش کر سکتا ہے !!! یا صرف گوگل کو کریش کرنا چاہئے تھا؟؟؟؟؟
6/30/2006
انڈا پکانا سیکھو!!!!!!!!!!!!!!
انڈا پکانے کے کئی طریقے ہیں!!!! کون سا درست ہے ؟ سب ہی! مگر ایک تازہ خبر یہ ہے (اب سچی ہے یا نہیں اس کی خبر نہیں) آپ دو عدد موبائل فون کی مدد سے بھی یہ کام کر سکتے ہیں!!!
دو روسی صحافیوں(اب سائنسدانوں والا کام بھی یہ لوگ کریں گے؟) نے ماسکو میں ایسا کر دکھایا ہے!!! مقصد یہ بتانا تھا کہ موبائل کا استعمال کس قدر نقصاندہ ہے! (انڈا پک جاتا ہے یہ فائدہ نہیں ہے کیا؟)
ان صحافیوں نے کیا کیا ! کہ ان موبائل فونوں کی مدد سے ایک مائکروویوز بنایا!!! جس میں انڈا پکایا!!! دونوں فون ایک دوسے کی قریب رکھے (جیسا تصویر میں ہے) درمیان میں انڈا رکھا! ایک موبائل سے دوسرے پر کال کی، دوسرے سے کال ریسو کی، قریب ہی ایک ٹیپ آن کر دی کی دونوں فون آن رہے ، پہلے اس تجربے کا دورانیاں تین منٹ رکھا گیا!!! انڈے پر کوئی اثر نہیں ہوا! لہذا ٹائم بڑھا دیا گیا!!!
لہذا
پہلے پندرہ منٹ میں انڈا ہلکا سا گرم ہوا!!
پچیس منٹ بعد کا گرم ہوا!!
چالیس منٹ بعد انڈا کافی ذیادہ گرم ہو چکا تھا!!!
65 منٹ میں انڈا کھانے کے لئے تیار تھا (چلیں بسم اللہ کرے) !!!! یار اعتبار نہیں تو نیچے تصویر دیکھ لیں!!!!!
کہتے ہیں اس طرح انڈا تو پک جاتا ہے مگر ٹیلی فون کا بل بڑھ جاتا ہے!!! لہذا کوشش کرے دونوں موبائل فون کے کنکشن ایک ہی کمپنی کے ہوں کہ کال سستی ہو گی اور انڈا پکانا بھی سستا پڑے گا!!!
مزید یہ کہ جب انڈا پک سکتا ہے تو !!!! دماغ کا کیا ہو گا!!! لہذا موبائل پر لمبی بات کرنے سے پرہیز کریں!!! وہ جو آپ رات کو اپنے یا اپنی ان سے گھر والوں سے چپ کر بات چیت کرتے ہیں اس سے بھی پرہیز سمجھے!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
Tags: mobile, phone, mobile phone, egg, report
6/29/2006
آنکھیں خواب دیکھتیں ہیں
آنکھیں خواب دیکھتیں ہیں
کسی سے مل جانے کا
یا خود کو کھو دینے کا
تنہا رہ جانے کا
خود کو آر دینے کا
چاہت ہار دینے کا
آنکھیں خواب دیکھتیں ہیں
بچھڑے ہوئے لمحوں کا
کسی راستے پر مل جانے کا
زخموں کے سِل جانے کا
زمانے کے گزر جانے کا
خواب کے حاصل کی حقیقت کا
حقیقت کا خواب میں تحلیل ہونے کا
بکھرے خوابوں کی تکمیل کا
تم تو خود ایک خواب ہو
حسن کا، جوانی کا
ایک درد بھری کہانی کا
Which one will you go For ?
Love Marriage |
Arranged Marriage |
Resembles procedural programming language. We have some set of functions like flirting, going to movies together, making long conversations on phone and then try to fit all functions to the candidate we like. |
Similar to object oriented programming approach. We first fix the candidate and then try to implement functions on her. The functions are added to supplement the main program. The functions can be added or deleted. |
Family system hangs because hardware (called Parents) is not responding. |
Compatible with hardware( Parents ). |
You are the project leader so u are responsible for implementation and execution of PROJECT- married life. |
You are a team member under project leader (parents) so they are responsible for successful execution of project Married life. |
Client expectations include exciting feature as spouse cooking food, washing clothes etc. |
All these features are covered in the SRS (System Req. Specification) as required features. |
Love Marriage is like Windows, beautiful n seductive.... Yet one never knows when it will crash.... |
Arranged Marriage is like Unix .... boring n colorless... still extremely reliable n robust. |
Tags: Marriage, love.love marriage, arrange marriage, windows, Unix