قدم انسان کا راہ دہر میں تھرا ہی جاتا ہے
چکے کتنا ہی کوئی بچ کے ٹھوکر کھا ہی جاتا ہے
نظر ہو خواہ کتنی ہی حقائق آشنا پھر بھی
ہجوم کش مکش میں آدمی گھبرا ہی جاتا ہے
خلاف مصلحت میں بھی سمجھتا ہوں مگر ناصح
وہ آتے ہیں تو چہرے پر تغیر آ ہی جاتا ہے
ہوائیں زور کتنا ہی لگا یا آندھیاں بن کر
مگر جو گِھر کے آتا ہے وہ بادل چھا ہی جاتا ہے
شکاہت کیوں اسے کہتے ہو یہ فطرت ہے انسان کی
مصیبت میں خیال عہدِ رفتہ آ ہی جاتا ہے
شگوفوں پر بھی آتی ہیں بلائیں یوں تو کہنے کو
مگر جو پھول بن جاتا ہے وہ کمھلا ہی جاتا ہے
سمجھتی ہیں مآلِ گل مگر کیا زور فطرت ہے
سحر ہوتے ہی کلیوں پر تبسم آ ہی جاتا ہے
جوش ,,,,,,,,,
0 تبصرے:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے
نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔