دراصل ساری بات ڈگری کی ہوتی ہے۔برقعے والیاں، بےنقاب لمبی چوٹی والی کو آزاد خیال سمجھتی ہیں۔لمبی چوٹی والی کٹے بالوں والی کو بے حیا جانتی ہے۔بال کٹی کا خیال ہوتا ہے کہ اس کے تو صرف بال کٹے ہیں۔اصل خرافہ تو وہ ہے جو دن کے وقت ماسکارا بھی لگاتی ہے اور آئی شیڈو بھی۔آئی شیڈو والی کو یقین ہوتا ہے کہ وہ بے چاری تو اللہ میاں کی گائے ہے اصل میں تووہ اچھال چھکے جو دوپٹہ نہیںاوڑھتی
see through
کپڑے پہنتی ہےاور سب کے سامنے سگریٹ پینے سے نیہں چوکتی۔ سگریٹ نوش بی بی کے سامنے وہ فسادن ہوتی ہے جو نا محرموں کے ساتھ بیٹھ کر بلیو فلم دیکھتی ہے۔وغیرہ وغیرہ
اس طرح مردوں میں بھی نیکی تعلی موجود ہوتی ہے اور اس کی کئی ڈگریاں مقرر ہوتی ہیں۔جو شخص صرف نظرباز ہے اوراچٹتی نظر سے لڑکیوں کوآنکتا ہے وہ ان مردوں کو بد معاش سمجھتا ہے جولڑکیوں کی محفل میں راجہ اندر بن کربیٹھتے ہیں اور لطیفوں اور کہانیوں سےفضا کو غزل الغزلات کی طرح رومانٹک کردیتے ہیں۔عورتوں سے باتیں کرنے کےرسیا ان مردوں کوغنڈہ سمجھتے ہیں جو اندھیرے سویرے کواڑ کے پیچھے سیڑھیوں کے سائے میں غسل خانے کی سنک کے پاس چوری چھپے کسی لڑکی کوبازوؤں میں لے لیتے ہیں۔چوری چھپے بلے اڑانے والے ان حضرات کو عادی مجرم سمجتے ہیں جو کھلے بندوں آوازے کستے ہیں جو زنا کے مرتکب ہوتے ہیں اور زنا کار ان پر نکتہ چینی کر کے بے قیاس راحت محسوس کرتے ہیں جو زنا بلجبر کرتے ہیں اور قانون کی گرفت میں ملزم ٹھرائے جاتے ہیں
بانو قدسیہ کے ناول راجہ گدھ سے اقتباس)۔)
0 تبصرے:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے
نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔