"hero"
یونانی زبان سے انگریزی میں آیا جس کا مطلب "خوابوں کا شہزادہ"ہے۔اور اب اردو میں بسیرا کر چکا ہے.
آپ کا ہیرو کون ؟اور کیوں؟
پچھلے چند دن سے میں یہ سوال میں نے کئی افراد سے کیا،مجھے اس کےمختلف جواب ملے۔چند ایک مواقع پر لوگوں نے فلمی ہیروز کے نام لیئے مگر وضاحت میری مراد فلمی ہیرو سے نہیں ہے تو وہ پھر اس شخصیت کا ذکر کرتے جو ان کی پسندیدہ ہے
"میری پسندیدہ شخصیت عبدالستارایدھی ہیں کیونکہ انہوں نے اپنی زندگی کا نصب العین دکھی انسانیت کی خدمت کو بنا رکھا ہے" راشد جو بی کام کا طالب علم ہے نے کہا۔
"مادام کیوری میری پسندیدہ ہے کیونکہ اس نے ساری عمر اپنی بے عزتی کو اپنے سینے سے لگا ئے رکھا "میثم جو آئل کمپنی میں جاب کرتے ہیںکا جواب۔(یہ مادام کیوری کون ہے میں نہیں جانتا)۔
"میری پسندیدہ شخصیت کوئی نہیں،وجہ ہر بندے میں کوئی نہ کوئی خامی ہوتی ہے میں نہیں چاہتی کہ میری پسیندیدہ شخصیت میں کوئی خامی ہونہ ہی میں کسی ایسے کو پسندیدہ شخصیت قرار دوں گی جس کے بارے میں میں نے صرف اخبارات و رسائل میں پڑھا ہو"(نام نہ بتانے کی شرط پر جواب۔
"میرے لئے اس سوال کا جواب دینادشوار ہے،میرے کئی ہیرو ہیں،ہر میدان میں الگ اور مختلف وجوہات کی بنا پر"وقاص
احمد۔۔
یوں مختلف افراد نے مختلف ہیروز بتائے،کسی نے حضرت محمدﷺ کو اپنا ہیرو کہا،کوئی محمد علی جناح کو اپنا ہیرو کہتا ہے۔کسی نے ایسے کرداروں کو اپنا ہیرو مانا ہوا ہے جن کا حقیقی زندگی میں کوئی وجود نہیں ہے جیسے عمرو عیار،عمران سیریز کا کردار،سپر مین اور سپائیڈر مین وغیرہ ۔ بعض افراد نے ایسے آدمی کو اپنا ہیرو قرار دیا جو ان کے متعلقہ شعبہ کا اہم و کامیاب شخص ہےیا تھا۔۔
میٹرک تک کے ذیادہ طالب علمو ں نے ان شخصیات کو اپنا ہیرو کہا جن کے بارے میں انہوں نے اپنی کتاب میں پڑھا یا
جو ان کے استاد ہیں۔۔۔۔۔۔۔
ذاتی ہیرو کے علاوہ قومی و مذہبی و علاقائی ہیروز بھی ہو تے ہیں ۔جو اس علاقے،قوم یا مذہب کے افراد کے لئے مشترک ہیرو ہوتے ہیں جس کے لئے انہوں نے کوئی کارنامہ انجام دیا ہو۔۔
آخر میں عرفان صدیقی (جو نوائے وقت کے مشہور کالم نگار ہیں)کے کالم کا یہ حصہ کوڈ کرو گا جو انہوں نے ڈاکٹر قدیر کے متعلق شیخ رشید کے بیان پر لکھا
"ہیروز"ہیروز ہوتے ہیں۔وہ اپنے چاہنے والوں کے خیالوں میں جگنوؤں کی طرح دمکتے ہیں،ان کے خوابوں میں خوشبوں بن
کے مہکتے ہیں اور ان کے دلوں میں محبوب کی یاد کی طرح دھڑکتے ہیں۔ہیروز کو نقد ونظر کے ترازو میں تولا جاتا ہے نہ ان کی خامیوں اور خوبیوں کے گوشوارے تیار کئے جاتے ہیں۔ہیروز کو پوجا تو نہیں جاتا لیکن وہ مقدس مورتی کی طرح قلب و روح کی کارنسوں پر سجتے ہیں۔وہ انسان ہوتے ہیں۔اسی دنیا میںرہتے ،انہی گلی کوچوں میں زندگی بسر کرتے اور انہی ہواؤں میں سانس لیتے ہیں۔وہ فرشتے بھی نہیں ہوتے۔اس لئے ان سے غلطیاں بھی سرزد ہوتی ہیں۔وہ کوتاہیاں بھی کرتے ہیں۔آب و ہوا آلائش ان کے دامن پر بھی داغ ڈالتی ہے لیکن ان کا کوئی ایک بڑا کارنامہ ان کی ساری غلطیوں ان کی ساری کوتاہیوں اور ان کے دامن کے سارے داغ دھبوں کو یوں دھو ڈالتا ہے کہ ان غلطیوں کا تذکرہ کرنا،انہیں یاد کرنا اور ان کی پلٹ کے دیکھنا بھی ہیرو سے محبت و عقیدت کے منافی ہے،قومیں اپنے ہیروز کو سو سو غلافوں میں لپیٹ کے رکھتی ہیں،خوشبوں میں بساتی ہیں اور ناسازگار موسموں سے بچا بچا کر رکھتی ہیں۔کسی قوم کے ساتھ اس سے بڑا ظلم کوئی نہیں ہوتا کہ اس کے ہیرو کے چہرے پر کالک مل دی جائے ،اسے زمانے بھر کے دشنام و الزام کا نشانہ بنا دیا جائے اسے مکروں مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا جائے اور اسے اپنے چاہنے والوں سے کاٹ کر کسی گوشہ گمنامی نیں دھکیل دیا جائے اور اس سے بھی بڑا ظلم یہ ہوتا ہے کہ اس کی ننگی پیٹھ پر ہر تازیانہ برساتے وقت کہا جائے کہ
"یہ اب بھی ہمارا ہیرو ہے""۔
0 تبصرے:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے
نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔