حکمت مشرق و مغرب نے سکھایا ہے مجھے
ایک نکتہ کہ غلاموں کے لیے ہے اکسیر
دین ہو، فلسفہ ہو، فقر ہو، سلطانی ہو
ہوتے ہیں پختہ عقائد کی بناء پر تعمیر
حُرف اُس قوم کا بے سود، عمل زار و زبوں
ہو گیا پختہ عقائد سے تہی جس کا ضمیر!
شاعر؛ علامہ اقبال
0 تبصرے:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے
نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔