بھیڑ میں زمانے کی ہاتھ چھوڑ جاتے ہیں
دوست دار لہجوں میں سلوٹیں سی پڑتی ہیں
اک ذرا سی رنجش سے شک کی زرد ٹہنی پر
بھول بد گمانی کے
اس طرح سے کھلتے ہیں
زندگی سے پیارے لوگ اجنبی
سے لگتے ہیں
غیر بن کے ملتے ہیں
عمر بھر کی چاہت کو
آسرا نہیں ملتا
دشتِ بے یقینی میں
راستہ نہیں ملتا
خاموشی کے وقفوں میں
بات ٹوٹ جاتی ہے اور آسرا نہیں ملتا
معذرت کے لفظوں میں
روشنی نہیں ملتی
لذت پذیرائی پھر کبھی نہیں ملتی
پھول رنگ وعدوں کی منزلیں سکڑتی ہیں
راہ مڑنے لگتی ہیں
بے رخی کے گارے سے بے دلی
کی مٹی سے
فاصلوں کی اینٹوں سے
اینٹ جڑنے لگتی ہے
خاک اُڑنے لگتی ہے
واہموں کے سائے سے
عمر بھرکی محنت کو
پل میں توڑجاتے ہیں
اِک ذرا سی رنجش سے ساتھ
چھوٹ جاتے ہیں
خواب ٹوٹ جاتے ہیں
شاعر؛ امجد اسلام امجد
0 تبصرے:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے
نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔